16/3/20

طیفِ ادب مضمون نگار: مصطفی ندیم خاں غوری





طیفِ ادب
مصطفی ندیم خاں غوری
تلخیص
ادب کے کمیتی و کیفیتی نقاط کو طیف ادب کہیں گے۔ ادبی طیف کا انطباق ہرزبان پر ہوسکتا ہے جو انسانی حواس کے طیف کی مانند ہوسکتا ہے  جن کا ادب میں بڑے لگاؤ سے بیان ہوتا رہتا ہے۔ مثلاً ادب میں آنکھ، سماعت اور جِلد کا بڑ ی دلچسپی سے اظہار کیا جاتا ہے۔ آنکھ کو صرف روشنی سے تحریک دی جاسکتی ہے۔ بصارت کے لیے کم از کم درکار روشنی کو مدخل کہتے ہیں جس کے بنا دیکھا نہیں جاسکتا اور حد سے زائد روشنی میں دکھائی نہیں دیتا۔ آواز میں بھی یہی دو نقاط ہوتے ہیں مگر جِلد میں چونکہ چار حواس ہوتے ہیں، اس لیے چاروں کے نقاط علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح زبانوں میں بھی نقاطِ آغاز—سطح مرتفع اور زبان کی معراج میں بھی اختلاف ہوتا ہے۔
’بڑا دھماکہ‘ کے نظریے کے مطابق پہلے کائنات کی تخلیق ہوئی ، پھر زبان و ادب کی مگر ’بڑا دھماکہ‘ کا مذہبی نظریہ سائنسی نظریہ سے جدا ہے۔ مذہبی نظریے کے مطابق کائنات و کہکشاں میں مسیری سیاروں کی گردش میں نظم و ضبط ہے جبکہ سائنسی نظریے کے مطابق سورج کے قریب ایک بڑے سیارے کے گزرنے کی وجہ سے مختلف ٹکڑے سیاروں کی شکل میں بکھرگئے۔
کائنات کی تخلیق اورادب کی ابتداء کے بعد مختلف ادبیات کے مداخل کی کھوج شروع ہوئی جن میں چینی ادبیا ت کے مدخل کی کھوج و عروج، عبرانی ادب، یونانی ادب، ہندوستانی ادب، عربی ادب جس کا قطعی سرا کلامِ پاک ہے۔ فارسی ادب، انگریزی ادب، اُردو ادب وغیرہ کے مدخل یعنی نقاطِ اوّلین کا اندازہ تو لگایا جاسکتا ہے، لیکن ان کے آخری نقاط کا اندازہ غیر ممکن ہے کیونکہ کسی بھی زبان کے بڑے سے بڑے ادیب کے بعد اس سے اعلیٰ و ارفع ادیب ظاہر ہوجاتا ہے ،چاہے اس کے لیے طویل ترین عرصہ ہی کیوں نہ درکار ہو۔
کلیدی الفاظ
طیفِ ادب، مدخل یا دہلیز، اطلاقی وسعت، طولِ لہر، بصری طیف، رنگ کور، بڑا دھماکہ، ادبیات کے مدخل، چوٗکے گیت، عہدنامۂ عتیق، مکالماتِ فلاطون، زمان ومکان، کُن فیکون، ویدک سنسکرت، سدائم، ژند اور پاژند، اینگلو سیکزن، نشاۃ ثانیہ، خالقِ باری اور چیستان، فورٹ ولیم کالج، آبِ حیات، گوشۂ عافیت، فسانۂ آزاد، شمع، سطح مرتفع۔

.1        تمہید
زبان و ادب کی کیفیت کیا اور کمیت کتنی ہوگی کہ اسے ادب میں شمار کیا جاسکے اور پھر ان کی انتہا کیا ہوکہ ان کے کم ترین اور بیش ترین نقاط کا تعین کیا جاسکے اور ظاہر ہے کہ ان کے درمیان ادب کے بتدریج فروغ و معیار کا تعین بھی ہوسکے گا، مگر مقصد کی یہیں تکمیل نہیں ہوپائے گی کیونکہ زماں و مکان کو بھی اس میں ملحوظ رکھنا شرط عین ہوگی اور کیا معلوم مزید ایسے کچھ او ربھی لازمات درکار ہوں جن کی مدد سے انتہائی نقاط کے درمیان یہ فیتہ تکمیل پاسکے۔ ہم اسی فیتے کو ادبی طیف کہہ رہے ہیں۔ یہ ادبی طیف کسی ایک زبان تک محدود نہ رہ پائے گا۔ بلکہ اس کی حیثیت عالمگیر ہوگی۔ یعنی دنیا بھر کی کوئی 4500 زبانوں میں اس کی تقسیم ہوگی۔ ان زبانوں کے ادبستان میں ساری دنیا تو کیا، ساری کائنات کے موضوعات شامل ہوں گے۔ اس طرح ہر زبان کا اپنا ادبی طیف ہوگا جس کے انتہائی سرے متعلقہ زبان خود طے کرے گی۔
1.1      ان تمام گفتگو کو ہم دوطرح سے مزید واضح کرسکتے ہیں۔ اوّل تویہ کہ انسانی حواس خصوصاً باصرہ، سامعہ اور لامسہ ہر زبان کے ادب میں کتنی اہمیت رکھتے ہیں۔ اس سے سبھی مطلع ہیں۔ دراصل طیف کا انہی حوا س، بلکہ حواسِ خمسہ سے راست تعلق ہے۔ اس لیے انہی کی مدد سے ہم طیف کی تفہیم کریں گے۔ دوّم یہ کہ چند منتخب زبانوں کے اد ب سے ان کی جانچ اوران پر بحث کریں گے۔ او ریہ بھی دیکھیں گے کہ زبان و مکان کا ان سے کیا علاقہ ہے۔

          طیف کی تفہیم:  
طیف (Spectrum)   کی انسانی حواس سے راست وابستگی ہے جبکہ خصوصی حواس جیسے دیکھنا، سننا اور ملنے اور چھونے پر ہر ادب کا ایک معتدبہ حصہ منسوب ہے تو کیوں نہ اپنے حواس کی مدد سے ادبی طیف کی کارکردگی کا ادراک کیا جائے۔

 3۔          بصری طیف(The Visible Spectrum)   :
بصری طیف(The Visible Spectrum)  1 ؎    پر گفتگو کرنے سے قبل دو امور کا بطور خاص خیال رکھیں۔ ایک تو یہ کہ ہماری آنکھ سے نظر روانہ ہوکر کسی چیز پر نہیں پڑتی، بلکہ معاملہ برعکس ہے، یعنی کسی چیز سے آتی ہوئی روشنی کی لہروں سے ہمیں اپنی آنکھ اور نظر کو سر، دھڑ اور گردن کو جنبش دے کر اس چیز سے آتی ہوئی روشنی کی کرنو ں سے ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے۔ تب ہی وہ چیز ہمیں نظر آتی ہے۔ دوسرے یہ کہ بصری طیف کے بارے میں چند اصطلاحات جیسے طول لہر(Wavelength)، اطلاقی وسعت (Amplitude)   نانومیٹر(Nanometres)   وغیرہ کا تعلق روشنی اور روشنی میں شامل رنگوں سے ہے، نہ کہ آنکھ سے۔
3.1      انسانی آنکھ کو ایک برقناطیسی توانائی(Electromagnetic Energy)   سے ہی تحریک دی جاسکتی ہے، جسے عام طور پر نور یا روشنی کہا جاتا ہے۔ اب کسی انسانی نارمل آنکھ کو دیکھنے کے لیے کم از کم روشنی درکار ہوتی ہے اور یہ زیادہ سے زیادہ کتنی روشنی برداشت کرپاتی ہے اور کس حساب سے؟ یہ سب اسی طیف سے واضح ہوگا۔ چنانچہ انسانی آنکھ روشنی کی بالائے بنفشی (Ultraviolet)  اور تحت الاحمر یا زیرین سرخ (Infra Red)   لہروں کے درمیان ہی دیکھ پاتی ہے جوہر مقناطیسی لہروں میں بالترتیب 380 نانومیٹر تا 760 نانومیٹر ہوتی ہے۔ بصارت کی اسی پٹی کو طیف کہتے ہیں۔ نانومیٹر ایک میٹر کا ایک ارب واں (One billionth)  حصہ ہوتا ہے۔
3.1.1 مدخل یا دہلیز(Threshold)  :  وہ اقل ترین مہیج (Stimulus)   جو ردّ عمل یا جواب (Response)   پیدا کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ مثلاً آنکھ کے ردّ عمل کے لیے روشنی کی کم از کم 380 نانومیٹر طول لہر (Wave length)  ضروری ہوتی ہے جسے بصارت کا مدخل یا دہلیز کہیں گے۔ جبکہ بیش ترین حد 760نانومیٹر ہوگی۔ اس سے زائد روشنی میں آنکھیں خیرہ ہوجائیں گی۔ روشنی یک لہر کے دو ترسیمی سروں کا درمیانی فاصلہ طول لہر کہلاتا ہے۔ طول لہر کے فاصلے کی کمی بیشی سے رنگوں میں تبدیلی آجاتی ہے۔ جبکہ اطلاقی وسعت (Amplitude)  روشنی کی لہر کی اونچائی کو ظاہر کرتی ہے۔ اگر لہر کی اونچائی زیادہ ہوگی تو رنگ گہرا ہوگا اور اونچائی پست ہوگی تو رنگ پھیکا ہوگا۔ (دیکھئے شکل 1)
بالائے بنفشی اور زیرین سرخ کے درمیان مختلف رنگوں کو ان کے نانومیٹر یعنی طول لہر کے مطابق ترتیب دیں تو ہمیں ایک بصری پٹی یا فیتہ کی شکل حاصل ہوگی۔ اسی کو بصری طیف کہتے ہیں۔ اسی کے درمیان نارمل انسانی آنکھ سب کچھ دیکھ پاتی ہے۔ (ملاحظہ فرمائیں شکل 2)
3.1.2  موسم بہار میں قدرت تمام تر فضا میں جو خوش نما رنگ بکھیرتی ہے اور ادبی آنکھیں ان سے جو مسحور کن حظ اٹھاتی ہیں وہ بس اپنی مثال آپ ہی ہے۔ اقبال      ؎
کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
اس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھپادیکھ
ایّام جدائی کے ستم دیکھ جفا دیکھ
بے تاب نہ ہو معرکۂ بہم و رجا دیکھ
کرن کرن اور نظر نظر کے ہمراہ رنگ و نور کے سایے ساتھ ساتھ ہیں۔ ہر بدلتے نانومیٹر کے ساتھ ساتھ رنگ بھی تبدیل ہوجاتے ہیں اور یوں زندگی کو مزید رنگین بناتے ہیں۔ اس کیفیت کوہم رنگوں کے دائرہ میں سمیٹ سکتے ہیں۔ ذرا شکل نمبر 3  پر نظر عنایت ہو۔
شکل3  رنگوں کا دائرہ جس میں یہ بھی واضح ہے کہ کتنے نانومیٹر کے طولِ لہر پر کون سے رنگ کا ادراک ہوتا ہے۔
3.2      رنگوں کا ادراک (Colour Vision)  :  ہماری آنکھوں میں عصائیے(Rods)   اور مخروط (Cones)   ہوتے ہیں۔ عصائیوں کی مدد سے اندھیرے اجالے کا احساس ہوتا ہے، جبکہ مخروطوں سے رنگوں کا ادراک ہوتا ہے۔ تاریک مطابقت (Dark adaption)  یعنی رات میں عصائیوں کا اہم رول ہوتا ہے۔ روشنی یعنی دن میں مخروطوں کا اہم رول ہوتا ہے، کیونکہ رنگوں کا ادراک دن کی روشنی ہی میں بخوبی ہوتا ہے۔
3.2.1 نارمل لوگوں کی بہ نسبت رنگ کور(Colour Blind)    لوگوں کے مخروطوں میں خامیاں ہوتی ہیں۔ ایسے لوگوں میں رنگ کوری کئی قسم کی ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ کوئی چار فیصد لوگ رنگ کور ہوا کرتے ہیں۔ جولوگ مکمل رنگ کور ہوتے ہیں، انھیں یہ دنیا محض بلیک اینڈ وہائٹ فوٹوگراف کی طرح نظر آتی ہے۔ جولوگ جزوی کور ہوتے ہیں، انھیں مختلف مگر انتہائی ہلکے رنگوں میں کنفیوژن ہوتا ہے   ؎
رہِ خزاں میں تلاش بہار کرتے ہیں
شب سیہ سے طلب حَسنِ یار کرتے ہیں
(فیض)
  سمعی طیف  (Sound Spectrum)
سمعی طیف  (Sound Spectrum) 1.1 ؎  ہماری سماعت کو صدائی یا ہوائی لہروں (Sound waves)   سے ہی تحریک ملتی ہے۔ آواز کے مبداء سے یہ دائروی لہریں ہوا کے سہارے ہمارے کانوں تک پہنچتی ہیں۔ ان صدائی لہروں کی تکریری (Frequency)   پیمائش بہ لحاظ دور فی ثانیہ (Cycle per second)   کی جاتی ہے۔ اسے ہرک, (Hertz, Hz)کہا جاتا ہے۔ نارمل انسان کا تکریری حیط(Range of Frequency)   16 Hz  تا 21000 Hz   کے درمیان ہوتا ہے۔ ان تواتر یا تکریر سے کم اور زائد آوازیں انسانی سماعت سے پرے ہوتی ہیں، یعنی انسانی کان انھیں سن نہیں پاتے، البتہ کچھ جانور انھیں سن پاتے ہیں، جیسے کُتّے 40,000 Hz  کی آوازیں بھی سن لیتے ہیں۔ اسی طرح کسی آہنگ (Pitch)   کی آواز کا دارومدار دصدائی لہروں کے تواتر (Frequency)  پر ہوتا ہے۔ ہم جو مختلف آوازوں میں فرق کرپاتے ہیں، جیسے جاندار اور بے جان چیزوں کی آوازیں، بلکہ بیوی اور بہن کی آوازوں کا فرق ہم اطلاقی وسعت (Amplitude)  کی شدت کی بناپر کرپاتے ہیں۔ اسی طرح زنانہ اور مردانہ گائیگی کے سنگیت میں آلات موسیقی جیسے طبلہ، ستار، سارنگی، وائلن، گٹار وغیرہ کے ساتھ کسی غزل یا گیت کا لطف بھی اسی خصوصیت کا مرہون منت ہوتا ہے۔ جیسے
(1)
یوں ہی پہلو میں بیٹھی رہو

آج جانے کی ضد نہ کرو
(2)
کہاں تھے آپ زمانے کے بعد آئے ہیں
 مرے شباب کے جانے کے بعد آئے ہیں
آواز کی اس شدت اور داب(Pressure)   کی پیمائش کا پیمانہ عشربیل (Decibel)  ہوتا ہے۔ یہ دراصل اعشاری نظام کی اکائی ہوتی ہے۔ اسے (db)   لکھا جاتا ہے۔ چنانچہ سماعت کا مدخل 1 db   تا  10 db  تک ہوسکتا ہے اور زیادہ سماعت 125 db   تک ہوسکتی ہے۔ مختلف آوازوں کی عشری قدرdb   شکل 4   میں ملاحظہ فرمائیں۔
شکل 4  -  عشری بیل قدر (Decibel value)   اوران سے مطابقت رکھنے والی آوازیں
4.1      سماعت کے مظاہر:  میں ثقل سماعت بھی داخل ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ یہ شکایت ان لوگوں کو بھی ہوسکتی ہے جنھیں ہمیشہ کریہہ آوازوں میں کام کرنا پڑتا ہے جیسے پائلٹ، فوجی سپاہی وغیرہ۔ پردۂ گوش کو صدمہ پہنچنے پر بہرہ پن کا احتمال ہوسکتا ہے۔ ضعیفی میں بھی نقص سماعت کی دشواری عموماً پیش آتی ہے۔
5  ۔  طیف لامسہ (Touch Spectrum) 
طیف لامسہ (Touch Spectrum)  :  1.2؎ لمس ادب میں خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ کسی بھی زبان کے کسی بھی ادب پارے کو دیکھ لیجیے۔ ان میں فکشن اور شاعری کا معتدبہ حصہ جنس مخالف سے ملاقات، ملاپ، وصل کی آرزوؤں سے لبریز ہے۔ چنانچہ ہند کے ادیبوں کے بارے میںشاعر مشرق کا ارشاد ہے    ؎
ہند کے شاعر و صورت گر و افسانہ نویس
آہ بے چاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار
ہماری جلد تمام تر مختلف مہیجات  (Stumli)  پر اپنا الگ الگ رد عمل ظاہر کرتی ہے جیسے داب (Pressure) ، گرمی (Warmth) ،  سردی (Cold)   اور درد(Pain)   اور انہی کے جواب میں وہ اپنے رد عمل کا اظہار کرتی ہے۔ ذیل میں اِن محرکات کی تفصیل پیش ہے۔
5.1      داب(Pressure)   :  جب کوئی مادّی چیز یاجن قوتوں سے جسم پر خوشگوار داب محسوس ہوتا ہوتو اس میں سکون اور سرخوشی محسوس ہوتی ہے۔ ایسے دباؤ کے آخد (Receptors)   جلد کے بالوں کی جڑوں میںہوتے ہیں۔ جبکہ ناقابل برداشت داب و دباؤ کے آخذ جلد کے خول بند منتہائے عضو (Encapsulated End-organ)   میں ہوتے ہیں جو بال سے مبرّا صاف جلد میں دبے ہوتے ہیں۔
5.1.2 گرمی اور سردی  (Warmth and Cold)  :  کے لیے ہمیں اپنے ماحول کے درجۂ حرارت کی کمی بیشی سے تہیج ملتا ہے۔ جِلد میں ان کے آخذ جگہ جگہ اور علیحدہ علیحدہ پائے جاتے ہیں۔
5.1.3 درد(Pain)   :  دینے والے مہیج میکانیکی، کیمیائی یا حرارتی ہوتے ہیں۔
5.2      طیف لامسہ کا تعین:  اوپر ہم نے دیکھا کہ ایک ہی جلد میں داب، سردگرم اور درد کے محرکات مختلف ہوتے ہیں۔ مثلاً:
(i)       دباؤ ناپنے کی اکائی کو ماحولی دباؤ (Atmospheric Pressure)  کہتے ہیں۔ اس کے مطابق انسانی بدن پر دباؤ فی انچ 14.7   پونڈ آنکاگیا ہے۔
(ii)      سردی اور گرمی کا تعین درجۂ حرارت (Temperature)   سے کیا جاتا ہے جس کی پیمائش سیلسییس میں کی جاتی ہے۔ انسان کے لیے اقل ترین نارمل درجہ حرارت 21o   سیلسییس درکار ہوتی ہے اور بیش ترین 55o   سیلسییس ہے۔
(iii)     درد:  اس میں اقل ترین نارمل ایک لمس انگشت یا سوئی کی ایک چبھن اور بیش ترین شدید تر اور غیر واضح۔
.6           اوپر کے تمام تر بیان سے یہ مشاہدہ ہوا کہ جس طرح باصرہ و سامعہ کے محرکات بالترتیب روشنی اور آواز منفرد ہیں۔ اس لیے ان کے طیف کے دونوں سروں کا تعین یقینی طور پر کیا جاسکتا ہے۔ برخلاف اس کے لامسہ میں ایک ساتھ چار احساسات ہوتے ہیں۔ یعنی داب، سردی، گرمی اور درد اور ان کے مہیجا ت بھی مختلف ہیں۔ اس لیے ان کا کوئی مشترکہ طیف متعین نہیں کیا جاسکتا، کیونکہ ان کی کوئی واضح پیمائش موجود نہیں۔ اس لیے ان کے دونوں سروں کا محض اندازوں پر دارومدار ہوتا ہے۔ لامسہ میں جو بے یقینی پائی جاتی ہے، وہ ادبی طیف سے نہایت مشابہت رکھتی ہے۔ یعنی کسی ادب کی ابتدا اور انتہاء کا تعین ویسے ہی دشوار کُن ہے جیسے کہ لامسہ کا۔
6.1      ادبی طیف کو وضع کرنے کی اساس بیش تر نظائر اور نظریوں پر قائم ہے کیونکہ ادب میں جہاں دو مرکزی مختلف النوع اقسام نظم و نثر اور پھر ان کی ہمہ اقسام ذیلی قسمیں ہوتی ہیں، اسی لیے ادبی اصناف کے دونوں سرے دھندلکوں کے دبیز پردوں میں مستور ہیں۔
6.1.1 بڑا دھماکہ (Big Bang)  :  ادبی مدخل کا پتہ لگانے کے لیے یہ دیکھنا ہوگا کہ ادب کی ابتدا کہاں سے اور کب ہوئی۔ ظاہر ہے کہ یہیں کہیں اسی دنیا میں قدیم زمانے سے ہوئی ہوگی۔ مگر ادب میں جگہ جگہ اس دنیا اور اس زمین تو کیا کائنات کا بھی ذکر ہے تو پہلے ابتدا کائنات کی ہوئی یا ادب کی؟ ظاہر ہے کہ پہلے کائنات اور اس دنیا کی تخلیق ہوئی ہوگی اور پھر اس میں آدم زاد کا داخلہ ہوا ہوگا اور پھر وہیں سے ادب کی ابتدا ہوئی ہوگی۔ مگر یہ دنیا یہ کائنات کیسے وجود میں آئی تھی؟
6.1.2 سائنسدانوں کے مطابق وہ ایک ’بڑا دھماکہ‘(Big Bang)   ہی تھا جو تخلیق کائنات کا باعث ہوا۔ چنانچہ سرجیمس جین(Sir James Jean)   کے مطابق لاکھوں برس پہلے ہمارے سورج کے قریب ایک بہت بڑا سیارہ گزرا۔ اس سیارے کی کشش کی وجہ سے سورج کے مادّے میں زبردست مدوجزر واقع ہوا۔ بڑی بڑی لہریں اُٹھنے لگیں جن میں سے ایک لہر اس شدت سے اُٹھی کہ مادہ سورج سے علیحدہ ہوکر اس کے اطراف گردش کرنے لگا اور یہ گرم مواد جگہ جگہ جمع ہوکر سیاروں میں تبدیل ہوگیا جن میں ہماری زمین بھی شامل تھی۔ 
یہ بیان گوکہ دل پذیر معلوم ہوتا ہے مگر خیال معترض ہے کہ اس تصادم کے بعد بھی ہر سیارہ کرّوی شکل میں اپنے مدار میں ایک مقررہ نظام کے تحت کیسے گردش کررہا ہے؟ ورنہ تو اس تصادم کے بعد بے ڈھب مادّوں کے تودے بد نظمی میں بکھرجانے چاہیے۔ اگر ایسا نہیں تو بڑا دھماکہ تخلیقی نظام کے تحت ایک تخلیقی پیش رفت ہے جس کے نتیجہ کے طور پر لاکھوں برس پہلے بے شمار سدائم اور کروڑوں سیاروں کے ساتھ ساتھ ہماری زمین بھی وجود میں آگئی جس پر انسانوں کو  بسایاگیا اور انھوں نے ادبی کاوش کی ابتدا کردی۔
7  ۔  ادب کے مدخل کی کھوج
ادب اور تحریر گوکہ باہم مربوط ضرور ہیں، لیکن وہ ہم معنی قطعی نہیں۔ قیاس ہے کہ کوئی دوہزار قبل مسیح قدیم سومر (Sumer)  سماج کی کچھ لیپیاںاور اسی طور قدیم چینی لیکھ اور تحریری بستے دستیاب ہوئے لیکن چونکہ ان کا تعلق نہ تو نظم سے تھا اور نہ باضابطہ نثر میں رقم تھے۔ اس لیے ماہرین نے انھیں بطور ادب مسترد کردیا اور کہا کہ اگر انھیں ادب کی تعریف میں شمار کیا جائے تو ادب کی ایسی کوئی تعریف بڑی حدتک موضوعی یعنی جانبدار نہ ہوگی۔
7.1      ابتدائی صدیوں کے اس دور میں طویل ساختوں کو طے کرنے کے لیے خاطر خواہ سہولتیں میسر نہ تھیں۔ اس لیے دوردراز کی بستیوں اور تہذیبوں تک پہنچنا علما کے لیے دشوار گزار تھا۔ نتیجتاً کئی بستیاں الگ تھلگ پڑگئیں اور رفتار ادب بھی دھیمی ہوگئی اور ادب پاروں کی بخوبی حفاظت بھی نہ کی جاسکی۔ یہی وجہ رہی کہ قصے کہانیوں کو سینہ بہ سینہ ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کیا جاتا رہا اور یہ سلسلہ صدیوں تک جاری رہا۔ تاوقتیکہ فن ترقیم کی ایجاد کے بعد انھیں لکھ کر محفوظ نہ کرلیا گیا ہو لیکن ان پر تاریخیں نقش نہ کی جاسکیں، اس لیے ان زمانوں کا اندازہ دیگر طریقوں سے لگایا گیا، مگر وہ متنازعہ رہے۔ البتہ رگ وید کے بارے میں اندازہ ہے کہ وہ دوہزار سال ق۔م۔ میں لکھی گئی ہوگی۔ رگ وید کے بعد سروتی (Sruti) ، یجروید برہمن(Brahmin)   جیسے صحیفے اور عظیم رزمیوں کی حیثیت نہ صرف مذہبی بلکہ اصلاحی، سماجی اور ادبی بھی تھی۔ اس لیے انھیں ہندوستانی ادب کا مدخل گردانا جاسکتا ہے۔
7.1.2 حضرت موسیٰؑ پر اترے ہوئے صحائف پنچگانہ (Pentateuch)   توریت کے پہلے پانچ ابواب پر مشتمل ہیں۔ ان صحائف کے نزول کا اندازہ دیڑھ ہزار صدی ق۔م۔ لگایا گیا ہے۔ گوکہ دور جدید کے ماہرین کے مطابق اس کے قدیم ترین حصے کا نزول زیادہ سے زیادہ دسویں صدی ق۔م۔ میں ہوا ہوگا۔   
8  ۔  مختلف ادبیات کے مدخل:
8.1      چینی ادبیات:    چین کی کلاسیکی نظموں کو شی جنگ (Shijing)   کہا جاتا ہے۔ یہ اب تک کا سب سے قدیم مجموعہ ہے اور کوئی 305   ابیات پر مشتمل ہے۔ مگران ابیات کے لکھنے والوں کے نام معلوم نہ ہوسکے۔ یہ اندازاً گیارہویں صدی ق۔م۔ سے ساتویں صدی کے درمیان لکھے گئے ہوںگے۔ چوٗ سی(Chu Ci)   کی شاعری کا منتخب مجموعہ ’’چوٗ کے گیت‘‘ (Songs of Chu)  کہلاتا ہے۔ یہ نظموں پر مشتمل ایک جلد ہے۔ چونکہ یہ کیوٗ یوان (Qu Yuan)   سے متاثر ہوکر لکھی گئی ہے، اس لیے اس کا انتساب انہی کے نام ہے۔ کیو یوان چینی شاعری کا سب سے پہلا شاعر ہے، کیونکہ چینی کلاسیکی ادب خصوصاً رومانی شاعری میں وہ یکتا اور ذی قدر حیثیت رکھتا تھا۔
8.1.1 چینی کلاسیکی ادب میں زوٗو  ژوان (Zuo Zhuan)   اولین نثر نگار گزرا ہے۔ وہ چینی کلاسیکی منثوری ادب کا بیش قیمت نگینہ کہلاتا ہے۔ چینی زبان میں عظیم تاریخی اور ادبی شخصیات کی تاریخ کو شِجی(Shiji)   کہا جاتا ہے، جن میں زوٗو ژوان بھی ایک ایسا نگینہ ماناگیا ہے جسے چینی نسلیں اس کے اندازِ نثر نگاری کو اپنے لیے لاثانی نمونہ پاتی ہیں۔
8.1.2 چین میں سُون زو (Sun Tzu)   عسکری مہارت تدبّر اور جنگی حکمت عملی پر لکھنے والاایک عظیم مصنف گزرا ہے۔ چنانچہ اس کی کتاب فنون جنگ (The Art of War)   آج بھی بیشمار ملٹری افسران کے زیر مطالعہ رہتی ہے۔ یہی نہیں، بلکہ اس کے نادر مشورے موجودہ دفاعی عالمی مشترکہ اداروں کے لیے بھی مفید ثابت ہوتے ہیں۔
8.1.3 متذکرہ بالا معلومات کی روشنی میں چینی کلاسیکی منظومات شی جنگ (Shijing)   میں پہلے چینی شاعر کیو ٗیوان کا کلام، نثری ادیب زوٗو ژوان کی نگارشات، سُون زو کی سب سے پہلی رزمیہ کتاب ’فنونِ جنگ‘ کو چینی ادبی طیف کا مدخل مانا جاسکتا ہے۔   
8.1.4  جولوگ چینی ادب میں مہارت رکھتے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ ادب جیسے جیسے ترقی کرتا جاتا ہے ویسے ویسے یکے بعد دیگرے شاہکار منظر عام پر ظاہر ہوتے ہیں۔ لیکن کبھی کبھی ایک ایسا شاہکار ظہور پذیر ہوتا ہے جس کا جواب صدیوں تک ظاہر نہیں ہوپاتا، مثلاً چینی ادب میں سوٗن زو کی رزمیہ کتاب ’فنون جنگ‘ کا ابھی تک کوئی جواب نہیں ہے۔ شاید کسی الفیہ کے بعد ہی اس کا جواب برآمد ہو۔ اسی طرح اس کی مثال کے انتظار کایہ عرصہ ایک طویل میدان یا سطح مرتفع کی مانند ہے جس کے گزرنے کے بعد ہی اس سے بہتر شاہکار شاید کوئی مل پائے۔ یعنی طیف ادب کا محض انتظار ہے۔ شاد    ؎
سنی حکایت ہستی تو درمیاں سے سنی
نہ ابتدا کی خبر ہے نہ انتہا معلوم
9  ۔  عبرانی ادب (Hebrew Literature)   :
توریت جن کتابوں پر مشتمل ہے، وہ کتابیں ایک الفیے تک ترقی پاتی رہیں۔ ان میں سے قدیم ترین کتاب غالباً گیارہویں یا دسویں صدی ق۔م۔ میں مرتب کی گئی ہوگی، جبکہ دیگر کتب قدرے تاخیر سے مرتب کی گئی ہوں گی۔ یہ تحریریں مرتبہ ہیں۔ ان مجموعوں کو مختلف ذرائع سے جمع کرکے ان کی باہم خوشنما مگر پیچیدگی سے بافت کی گئی تھی۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھیں نہایت باریکی اور احتیاط سے مرتب کیاگیا ہوگا۔
9.1     عہد نامۂ عتیق (Old Testament)   :  کی تالیف و ترتیب میں بڑے بڑے علماء صدیوں تک مصروف رہے اور آخر کار تیسری صدی ق۔م۔ کے آس پاس مصدقہ صحائف کے اس مجموعے کی تمجید کاکام اپنی تکمیل کو پہنچ پایا۔ بہرحال یہ امور ادبی ارتقاء کی سیکولر اور مذہبی منزلوں سے گزرتے رہے۔ اس ضمن میں جرمن مفکر فریڈرش نطشے(Friedrich Neitzsche)   کا احساس تھا کہ ’’قدیم عبرانی عہدنامۂ عتیق میں مذکورہ لوگ، اشیاء اور مخاطبت بلحاظ انداز و اسلوب ایسے مہتم بالشان ہوا کرتے تھے کہ یونانی اور دیگر ممالک کے ادب میں ان کی مثال عنقا تھی اور جب کوئی یہ دیکھتا ہے کہ کبھی انسان کا مقام کیا تھا تووہ ان غیر معمولی یادگاروں کے روبرو بصد احترام مبہوت ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’برتری ‘‘ اور ’’کمتری‘‘ کی آزمائش کے لیے عہدنامۂ عتیق ایک کسوٹی ہے۔‘‘ 
دنیاوی علوم میں ان کی ذہانت کا ذکر آسمانی کتابوں میں بھی ہے۔ تو کیا اسے عبرانی ادب کا مدخل گردانا جاسکتا ہے جس کا دارومدار انسانی ذہانت پر مبنی ہے۔ لیکن ذہانت کی بہ نسبت عقل مندی اور سمجھ داری زیادہ مناسب ہے تاکہ موت سے قبل انسان کو صرف اپنے مآل کا اندیشہ سنبھالہ دے۔ اقبال
خرد واقف نہیں ہے نیک و بد سے
بڑھی جاتی ہے ظالم اپنی حد سے
10  ۔  یونانی ادب (Greek Literature)   :
قدیم یونان میں ادبیات کو بڑی اہمیت حاصل تھی۔ کئی مصنّفین کے مطابق مغربی ادبی روایات کی ابتداء ہی ’’دی اِلِیَڈ اینڈ دی اوڈیسی(The Iliad And the Odyssey)   جیسی رزمیہ نظموں سے ہوتی ہے جو دراصل آٹھویں صدی ق۔م۔ کے یونانی کلاسیکی شاعر ہومر (Homer)   کی دین ہیں۔ لیکن یہ بات یقینی نہیں ہے کہ اس نام کا کوئی شاعر کبھی گزرا بھی تھا یا نہیں۔ خود یونانیوں نے اس رزمیہ کو ہومر نامی شخص سے منسوب کردیا تھا۔ اس کے متعلق یہ بات بھی مشہور ہوگئی تھی کہ وہ نابینا تھا۔ فی الواقع کوئی اس طرح کا اندھا شاعر گزرا ہے اور اسی نے یہ نظمیں بھی لکھی ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ دنیا کے عظیم ترین شاعروں اور ادیبوں میں سے ایک تھا۔ اسکی لس (Aeschylus)   (525ق۔م۔ تا 456   ق۔م۔) یونانی المیہ ڈراموں کا سب سے بڑا ڈرامہ نگار گزرا ہے۔ اس نے اپنے دور میں نہایت شاندار ڈرامے لکھے ہیں۔ 
10.1    یونانی ادب میں فلسفہ’مکالمات افلاطون‘ کی راہ سے داخل ہوا۔اس میں سقراط (Socrates)   متوفی 399 ق۔م۔ کے مکالمات افلاطون (Plato)   متوفی 347ق۔م۔ کے ذریعے داخل ہوئے۔ اس نے سقراط کے سوال و جواب کے طرزِ آموزش کو تحریری شکل دی۔ افلاطون کا شاگرد ارسطو (Aristole)   متوفی 322ق۔م۔ نے گوکہ سائنس کے شعبہ جات میں درجنوں مضامین رقم کیے۔ وہ کائنات کو ابدی تصور کرنا تھا۔ علاوہ ازیں ادبیات میں اس کی تصنیف ’شعریات‘ عظیم الشان ادبی معاونت ہے۔
10.1.1   اس طرح ہومر کی ’دی اِلِیَڈ اینڈ دی اوڈیسی‘ اسکی لس کے لاجواب المیہ ڈرامے اور ارسطو کی ’شعریات‘ ان تمام کو یونانی ادب کا مدخل گردانا جاسکتا ہے۔
11  ۔  کائنات و فلکیات  : 
ادبی طیف میں صرف اصنافِ سخن پر ہی توجہ مرکوز نہ ہوگی بلکہ ادب و تخلیق سے تحلیل تک ہرمرئی اور غیر مرئی وجود کو احاطہ کیے ہوئے ہے یعنی جو خیال یا گمان دل و دماغ سے گزرتے ہوئے اپنا نقش چھوڑگیا، وہ ادب میں داخل ہوگیا۔ہم نے یہ بھی دیکھا کہ زمان و مکان سے بھی ادب کا علاقہ ہے یعنی جو سیارہ سورج اور اپنے اطراف اپنے مدار میں غرق گردش ہے۔ ان میں رات اور دن روشن ہوں گے، پھر ہر سیارے کی اپنی جسامت و گردش کے اعتبار سے یہ اوقات طویل و خفیف ہوںگے۔ گویا کل کائنات میں اس طرح زبان و مکان کی اس گردش سے غوروفکر کو تحریک ملے گی۔ اب سوال یہ ہے کہ تخلیق سے قبل کیا کیفیت رہی ہوگی کون موجود ہوگا اور کون نہیں، دیکھیں ہمارے صحیفے اور سائنسداں کیا کہتے ہیں۔ غالب
ہستی کے مت فریب ہیں آجائیو اسد
عالم تمام حلقہ دامِ خیال ہے
12  ۔  ہندوستانی ادب (Indian Literature)  
قدیم ہند میں علم و ادب فلسفیاتی ذخائر اور دینی صحیفے و تصورات ایک نسل سے دوسری نسل تک دواہم روایات یعنی شروتی  (Shruti)  اور سمرتی(Smriti)   کے ذریعے منتقل ہوتے رہے ہیں۔ شروتی میں چار وید مقدس شامل ہیں، جبکہ منوسمرتی یعنی جنھیں یاد کرکے محفوظ کرلیاگیا ہو، ا ن میں بھوشیہ پُران(Puranas)  شامل ہیں۔ ان پُرانوں میں ہندوستانی رزمیے یعنی رامائن او رمہابھارت شامل ہیں جنھیں ہندوستانی تاریخ میں اوّلین فلسفیانہ تحریر میں تصور کیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں سنسکرت لسانی ادب 1000   ق۔م۔ سے بھی پہلے موجود تھا۔
آریاؤں کا فکری اظہار اُپنشدوں کی مختلف صورتوں میں رونما ہوا۔ اُپنشد ہندو فکروفن کے اہم ماخذ ہیں اور انھیں علم و دانش کی تصنیفات میں شمار کیا جاتا ہے۔ اہم شاستروں کا اطلاق امورِ حیات پر بھی ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ بعد رامائن اور مہابھارت کا وجود ہوا۔ ان کتابوں نے ہندو معاشرے پر بہت دیرپا اثرات مرتب کیے۔ 7؎   ہم متذکرہ بالا تمام کتابوں کو ہندوستانی ادب کا مدخل قرار دے سکتے ہیں یا اس کے علاوہ رِگ وید میں مدخل کی ماسبق کیفیات یعنی عدم کی علامات کو کچھ یوں بیان کیاگیا ہے:
12.1    ’’اس وقت وجود تھا نہ غیر وجود
نہ فضا تھی نہ آسمان نہ اس کے پرے کچھ
یہ کس چیز کا احاطہ کیے ہوئے تھا کہاں تھا، کس کی پناہ میں، پانی کیا تھا، عمیق اتھاہ
نہ موت تھی نہ لافانیت، رات کا نشاں تھا نہ دن کا، ایک وہی (خدائے بزرگ و برتر) سانس لیتا تھا بغیر ہوا کے اپنی
ہی توانائی کے ذریعہ
دوسرا کچھ موجود نہ تھا اس وقت
ابتدا سے پہلے صرف تاریکی تھی، اپنی ہی تہوں میں لپٹی ہوئی
یہ سب
پانی ہی تھا جس کا ظہور نہ ہوا تھا، ابتدائے آفرینش میں اک وہی ذات ارتقاء
پذیر ہوئی جس نے آرزو کی شکل اختیار کی۔ ذہن کا پہلا بیج۔ اسی لیے گیانی سنتوں، مہاتماؤں نے اپنے دل میں      تلاش کے بعد وجود میں پایا۔
آسمانوں سے بلند رہنے والا ایک وہی جانتا ہے شاید وہی جانتا ہے یا پھر وہ بھی نہیں جانتا۔ ‘‘   
(رگ وید۔ باب۔ اشلوک 129۔ ابتدائے آفرینش)
نہ تھا کچھ تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
(غالب)
سکندرعلی وجد کی مشہور نظم ’کاروانِ زندگی‘ میں رِگ وید کے مندرجہ بالا اشلوک کی شبیہ کو کچھ اس طرح پیش کیاگیا ہے:
فضائے بے فضا میں حکم کن کا انتظار ہے
نشانِ ماہ و مہر ہے نہ نام نور و نار ہے
نہ سرد و گرم نہ خشک و تر نہ ابر برق بار ہے
سکون ہی سکون ہے قرار ہی قرار ہے
فلک نہ محفل فلک بہ بعتان شعلہ روٗ
نہ فرشِ دلکش زمین نہ کوہ و دشت و آبجوٗ
بلند و پست کی حدیں نہ شش جہت نہ چارسوٗ
نہ روز و شب کا سلسلہ نہ حرف و لفظ و گفتگو
ابھی چھڑا نہیں رباب داستانِ زندگی
عدم کی گرد میں نہاں ہے کاروانِ زندگی 9 ؎
اس فلسفہ میں زمان و لازماں، مکان و لامکاں تمام تر عدم میں غرق ہیں۔ اس لحاظ سے ہمیں زمان و مکان اور طیفِ ادب کا تعلق تخلیق کائنات کے ذیل میں دیکھنا ہوگا۔
12.2    ہندوی مدخل  :  آریا1500   ق۔م۔ تک ہندوستان میں داخل ہوچکے تھے۔ ہندوستان میں ان کی زبان کی تین منزلیں کی جاسکتی ہیں۔
(i)       قدیم ہند آریائی 1500   ق۔م۔  تا  500  ق۔م۔
(ii)      وسطی ہند آریائی  500  ق۔م۔  تا  1000 ء  اور
(iii)     جدید ہند آریائی 1000   تا حال۔
قدیم ہند آریائی دور میں ویدک سنسکرت کو ویدک بھاشا کہا جاتا تھا، یعنی اس سے کلاسیکی سنسکرت یا لوک سنسکرت مراد لی جاتی تھی۔ اس کے بعد پالی کا ارتقا ویدک بھاشا سے ہوا۔ اشوک اعظم نے اپنی حکومت کے فرمان اور دینی اُصول جابجا چٹانوں اور لاٹوں پر کنندہ کر ادیے جنھیں شیلا لیکھ کہا جاتا تھا۔ ان کی زبان پالی مماثل تھی۔ اپ بھرنش کا زمانہ 500   تا  1000عیسوی تک کہا جاتا ہے۔ ہندی میں اَپ بھرنش کا ’پ ‘ ساکن ہے۔ اس زبان کے الفاظ پہلی بار بھرت ناٹیہ شاستر 300 عیسوی  اور اس کے بعد کالی داس کی وکرم اُروشی میں نظر آتے ہیں۔ شورسینی اپ بھرنش اور اردھ ماگدھی اپ بھرنش سے بالترتیب مغربی ہندی او رمشرقی ہندی وجود میں آئے۔ پھر آہستہ آہستہ شمالی ہند اور بہار میں ہندی زبان کو ترقی ملی اور مغربی اور مشرقی کے بجائے ہندی کو محض ہندی بھاشا کہا جانے لگا 10  ؎  جس کا رسم الخط دیوناگری ہے۔
گیارہویں اور بارہویں صدی عیسوی تک ہندی میں اپ بھرنش کے آثار پائے جاتے تھے۔ مغربی ہندی میںکھڑی بولی اور برج بھاشا شامل تھیں۔ امیر خسرو کی مادری زبان مغربی ہندی تھی جس میں امیر خسرو کا قابل قدر کلام موجود تھا۔ اس کے علاوہ ہندی میں انھوں نے خالق باری، چیستاں یعنی بوجھ، پہیلیاں، کہہ مکرنیاں، انمل، ڈھکوسلے، فارسی ہندی آمیز غزل، ہندی دوہے، گیت وغیرہ لکھے، جنھیں ہندی زبان کے مدخل میں داخل سمجھا جاسکتا ہے۔  11؎
13  ۔  فلکی طیف گیر(Astronomical Spectrographic)  
اجرام فلکی (Heavenly Bodies)   کا علم ان سے آنے والی روشنی سے حاصل ہوتا ہے۔ انھیں طاقتور دور بین کی مدد سے عکس گیر (Photographic)   میں مندرج کرلیا جاتا ہے۔12 ؎  اسی مشاہدہ کے دوران آسمان پر نمودار دودھیہ روشنی کا باریک بینی سے مشاہدہ کیا جائے تو محسوس ہوگا یہ روشنی دراصل ستاروں کے جھرمٹ سے نکل رہی ہے۔ ستاروں کے ایسے ہی جھرمٹ کو ’سدیم‘13 ؎ (Galaxy)  کہا جاتا ہے۔ اس ضمن میں سائنسی تحقیقات کے مطابق کائنات میں ایسے بے شمار سدائم پھیلے ہوئے ہیں اور ہر سدیم میں تقریباً ایک ارب ستارے ہوسکتے ہیں۔
13.1    ان سدائم میں سے جس سدیم میں ہمارا سورج واقع ہے، اس کو کہکشاں (Milky Way)   یا نظام شمسی کہتے ہیں۔ ان سدائم کے مجموعی نظام کو کائنات (Universe)   کہا جاتا ہے۔ یہ سدائم ہمارے نظام شمسی (جس میں ہماری زمین بھی شامل ہے) سے دور ہوتے جارہے ہیں، یعنی یہ کائنات مسلسل وسیع سے وسیع تر ہوتی جارہی ہے   ؎
چرخ کو کب یہ سلیقہ ہے دل آزاری میں
کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں
                                                           (منّو لال صفا لکھنوی)
یہ وسعت ادب سے بڑی مشابہت رکھتی ہے، یعنی ادب چاہے کسی زبان کا ہو، وسیع سے وسیع تر ہوتا جارہا ہے اور جس طرح سے اجرام فلکی میں نئے نئے ستارے اور سیارے دریافت ہورہے ہیں، اسی طرح ادب میں بھی بے شمار تصورات ہمہ وقت ہردور میں ایجاد ہوتے جارہے ہیں۔ فیض
میرے دامن میں آگرے سارے
جتنے طشتِ فلک میں تارے تھے
14  ۔  عربی ادب کے مدخل  14؎
عرب ایشیا کے جنو ب مغرب میں ایک جزیرہ نما ہے جس کا نشیب یورپ کی جانب ہے۔ عرب قوم طوفانِ نوحؑ کے بعد سب سے پرانی قوم ہے اور نوحؑ کے فرزند سام کی اولاد ہیں۔ یہ قوم فیاض، بہادر، مہم جو، صحرا نورد، دُھن کے پکّے اور نہایت مستقل مزاج ہوتے ہیں۔ مدینہ میں یہودی قبائل بھی آباد تھے جو اوس، خزرج اور شاہان غساسنہ ازد کی اولاد ہیں۔ عدنان حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں تھے جو مکّہ میں آکر آباد ہوئے اور یہیں کے ہوکررہ گئے۔
14.1    ادب کی تعریف: کسی بھی زبان کے شعرا اور انشا پردازوں کا وہ اچھوتا کلام جس میں لطیف جذبات اور نازک خیالات کی مصوری ہو، جسے سن کر یا پڑھ کر احساسات و جذبات میں ارتعاش پیدا ہوجائے ادب ہے۔
14.1.1   زبانوں کی تقسیم:   لسانیات کے ماہرین کے مطابق قدیم زبانوں کے مختلف گروہوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
(i)       آریائی زبانیں: جن کی تین بولیاں ہیں، یعنی لاطینی، یونانی اور سنسکرت
(ii)      سامی زبانیں:  ان زبانوں کی بھی تین ہی بولیاں ہیں یعنی آرامی، کنعانی اور عربی۔
عربی زبان سے کچھ بولیاں وجود میں آئیں جنھیں یمنی اور کچھ حبشی قبائل بولتے ہیں۔
14.1.2   عربی زبان کی ابتدا  :  اسلام سے پہلے عربی زبان کیسے وجود میں آئی، اس کا پتہ لگانا بہت مشکل ہے، لیکن طلوعِ اسلام تک یہ ایک پائدار اور دلکش زبان تھی اور اسلام اس زبان کی بقا اور وسعت کی ضمانت بن گیا۔ یہ اس وقت تمام دنیا کے مسلمانوں کی دینی زبان ہے۔ عربی زبان کے نحوی و صرفی قواعد سائنٹفک اور پائدار ہیں۔
14.2    عربی ادب کے مختلف ادوار  :  کم از کم پانچ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، جن کی تفصیل ذیل کی طرح ہے:
14.2.1  زمانۂ جاہلیت: کو دو حصوں میں منقسم کیا جاسکتا ہے، یعنی دو ر اوّل پانچویں صدی عیسوی سے قبل کا زمانہ اور دورِ ثانی پانچویں صدی عیسوی سے ظہورِ اسلام تک۔
14.2.2  دورِ اسلام: ظہور اسلام سے خلافت راشدہ 40   ہجری تک اور اموی دور سے اس کے زوال یعنی 132ہجری تک۔
14.2.3   عباسی دور :132   سے 656   ہجری تک
14.2.4   عثمانی دور: 656 ھ  تا 1220 ھ تک
14.2.5   عبوری دور:  نپولین کے مصر پر قبضے کے بعد محمد علی پاشا کے دور اقتدار، یعنی 1801 سے 1919 تک۔
 14.2.6   دورِ جدید:  1920 سے تاحال۔
14.3    عربی ادب کے شعبے: دوہیں:  (i)  نثر اور (ii)نظم۔
14.3.1   عربی نثر:  انسان اپنا مافی الضمیر عموماً نثر میں بیان کرتا ہے جسے عام بول چال سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیکن اکثر نثر میں بلند مقاصد اور خیالات کو دلچسپ پیرایہ میں پیش کیا جائے تو اسے ادب میں شمار کیا جاتا ہے۔ اور ایسے ادب کو ’فنی نثر‘ کانام دیا جاتا ہے۔ ایسی عبارت کا تقریر، تحریر میں اظہار ’انشا پردازی‘ کہلاتا ہے۔
زمانۂ جاہلیت کے نثری ادب میں فن خطابت کے کئی ماہرین پیدا ہوئے جن میں خونریزیوں کا خطیب قیس بن خارجہ بن سنان اور خطیب خویلد بن عمرو الغطفانی بڑی شہرت رکھتے ہیں۔
14.3.2   عربی نظم :  15؎   شاعری، موسیقی، مصوری وغیرہ جیسے فنون لطیفہ کو عرب میں ’ادب عالیہ‘ کہا جاتا ہے۔
ماہرین عروض مقفیٰ و موزوں کلام میں نازک احساسات وجذبات نادر انداز میں پیش کرنے کو شعر قرار دیتے ہیں۔ اگر اس میں ترنم پیدا ہوجائے تو اسے ’رجز‘ کہا جاتا ہے۔
زمانۂ جاہلیت میں اعشی ایک نامور شاعر گزرا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کا کلام اس درجہ پراثر تھا کہ اس کے محض ایک قصیدے کی بناپر آٹھ شادی مایوس لڑکیوں کی شادیاں آناً فاناً میں ہوگئیں۔
14.3.3   عربوں میں کسی شخص کا شاعری میں استعداد حاصل کرنا قابل فخر اور قابل مبارکباد سمجھا جاتا تھا۔ اس لیے زمانۂ جاہلیت میں بھی کئی مشہور شعراگزرے ہیں۔ اس زمانے میں قصیدہ خوانی کا عام رواج تھا، مگر باہمی معرکوں کی وجہ سے عربی کلام کا بہت بڑا حصہ ضائع ہوگیا۔ پھر بھی اس دور کے چند بلند پایہ شعرا نے طویل قصیدے چھوڑے ہیں۔ ان شعرا میں سب سے مشہور اصحاب المعلقات ہیں۔ ان کے قصائد معلقات یعنی لٹکائے ہوئے کہے جاتے ہیں۔ ان میں امراؤ القیس، النابغہ الذبیانی، زہیر بن ابی سلمی وغیرہ کافی شہرت رکھتے ہیں۔
اس طرح نثر اور نظم کی اس کارکردگی کوہم عربی کا مدخل قرار دے سکتے ہیں۔ لیکن ادبی وضاحت و بلاغت میں بھی قرآن پاک کو بلاشبہ عربی طیف کا انتہائی سرا کہا جاسکتا ہے کیونکہ یہ زبان عربی کی معراج و منتہا ہے۔ انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے عربی زبان کے ادبا میں شکیب ارسلان (1869 تا 1946) خلیل جبران (1883 تا 1931)، ایلیاابو ماضی (1889  تا  1957) وغیرہ بہت معرو ف ہوئے۔ 16؎
14.3.4   اس میں مزید ایک طیف ابتداء معراج سے سدرۃ المنتہیٰ -وصل  یعنی اگر زمین اور اس سے بعید ترین سیاروں تک کا فاصلہ نوری سال کی مسافت پرہے۔ جبکہ معراج کا واقعہ آسمانوں سے بھی بلند ہے تو گویا یہاں معجزہ کن فیکون کی بوالعجبی ہے۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق یہ کائنات جس میں بے شمار سدائم (Galaxies)   نظام شمسی جیسے بے شمار نظاموں پر مشتمل ہے اور ہر سدیم دوسرے سے مسلسل دور ہوتے جارہے ہیں، یعنی یہ کائنات پیہم وسیع تر ہوتی جارہی ہے، معجزہ کن فیکون کی تخلیق ہے بقول اقبال     ؎
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
اگر معجزہ کن فیکون کی یہ کیفیت ہے تو ایسا کوئی لفظ نہیں جو تمام تر موجودات پر مہرِ تکمیل ثبت کرسکے۔
14.3.5   زمین سے آسمانوں سے اوپر کی دوری یعنی معراج کے مقابل ہم زمین کائنات میں سب سے دور سیارہ کی مسافت کا جائزہ لیتے ہیں۔ چنانچہ بہ لحاظ نوری سال زمین سے دور ترین سیارہ ٹراپسٹ اوّل (Trappist-1)   زمین سے کوئی 39نوری سال کی دوری پر واقع ہے، یعنی یہ کوئی 369کھرب کلومیٹر (369 trillion km)   ہوں گے۔ اگر روشنی کی رفتار سے بھی وہاں تک پہنچنے کا قصد کیا جائے تو اس سفر کے لیے 39سال درکار ہوں گے، لیکن ابھی تک ایسی کوئی خلائی گاڑی (Spacecraft)   تیار نہیں ہوئی جو روشنی کی رفتار پر سفر کرسکے، کیونکہ اس رفتا رپر کسی بھی گاڑی کے پرخچے اُڑجائیں گے۔ 17؎  اس کا مطلب یہ ہواکہ بُرّاق کی رفتار اور نور کی رفتار کا باہم کوئی تقابل ہی نہیں۔ دیکھیں رفتار ادب میں ان واقعات کوکوئی کیسے بیان کرپاتا ہے۔ فیض       ؎
میرے کیسے میں ہے راتوں کا سیہ فام جلال
میرے ہاتھوں میں ہے صبحو ں کی عنانِ گلگوں
میری آغوش میں پلتی ہے خدائی ساری
میرے مقدور میں ہے معجزۂ کن فیکن
15  ۔  فارسی ادب اور اس کا مدخل:
ہم عربی زبان کے ذیل میں دیکھ چکے ہیں کہ قدیم زبانوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک تو سامی زبانیں جن میں تین بولیاں یعنی آرامی، کنعانی اور عربی شامل ہیں اور دوسرے ہند-آریائی زبانیں جن میں لاطینی، یونانی اور سنسکرت زبانیں پائی جاتی ہیںجو ہند-یوروپی لسانی خاندان کی شاخوں میں قدیم ترین شاخ ہے۔ فارسی زبان بھی اسی لسانی خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ اس لیے اس کی ابتدائی کیفیت بھی زبانی بول چال پر مبنی تھی۔ از ابتدا تا ارتقا اس کی وسعت کوئی دو الفیوں سے بھی زائد ہے۔
15.1    فارسی زبان کے ذرائع وسیع تر فارس عظمیٰ کے دور دراز علاقوں تک پھیلے ہوئے ہیں جن میں موجودہ ایران کے علاوہ عراق، افغانستان، کوہ قاف(کاکیشیا)،  ترکی، وسط ایشیااور جنوبی ایشیا کے علاقے، تاجکستان جہاں زبان فارسی تاریخی اعتبار سے عوامی زبان رہی ہے۔
15.1.1   فارسی زبان کے مدخل:  قدیم ادبیات فارسی کے متون نظم خوانی اور غیر تحریری و تحریری متون پر مبنی ہوتے تھے جنھیں زبان فارسی کے مدخل باور کرسکتے ہیں۔ اس کی معاونت میں فارسی کے قدیم ترین متون پر جنھیں گاتھا (Gatha)   کہا جاتا تھا، غور کیا جاسکتا ہے جو 16   تا 17   مختصر مناجات یا بھجن پر مشتمل تھے۔ یہ ایران کی قدیم ترین زبان آوستان(Avestan)   کی شکل میں لکھے جاتے تھے اور جو مذہب زرتشت کی مقدس کتاب اَوِستا (Avesta)   کی زبان سے بڑی مشابہت رکھتی ہے۔ 18؎    ژند اور پاژند اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
فارسی زبان جب خاطر خواہ ترقی پاچکی تو مذکورہ بالا علاقوں میں اسے عوامی زبان کے ساتھ ساتھ سرکاری زبا ن کا اعزاز بھی حاصل ہوتا گیا۔ غزنی کے حکمرانوں نے بھی فارسی زبان کو سرکاری زبان کے بطور اختیار کیاتھا۔ اس طرح یہ زبان اذربائجان سے ہوتے ہوئے برصغیر میں داخل ہوئی۔ چنانچہ عربوں کے بجائے دیگر جتنے بھی حملہ آور سندھ اور ہند میں داخل ہوئے وہ فارسی بولتے ہوئے وارد ہوئے۔ یہ آٹھویں صدی عیسوی کے دور کا زمانہ تھا۔ اب قدیم فارسی کا زمانہ بیت چکا تھا اور جدید فارسی کے دور کا آغاز ہوچکا تھا۔ اس زبان نے تمام یورپ کو متاثر کیاتھا۔ چنانچہ فردوسی، عمر خیام، انوری، رومی وغیرہ سے یورپ تمام نہ صرف بخوبی متعارف ہیں، بلکہ فارسی کے نامی گرامی ادبا و شعرا اوران کے کلام و کارنامے یورپ و ایشیا بلکہ دنیا بھر کی تمام ترقی یافتہ زبانوں میں ڈھل چکے ہیں۔
15.2    فارسی کے چند اہم کلاسیکی شعرا 19 ؎
 15.2.1 فردوسی:  کا پورا نام ابو القاسم منصور تھا (935  تا 1020) ان کے عظیم الشان شاہکار ’شاہنامہ‘ سے عالم تمام واقف ہے۔ وہ بلاشبہ فارسی کے صف اول کے شاعر تھے۔
15.2.2   عمر خیام:   1048)  تا1131 )  ایک عظیم ریاضی داں، ہیئت داں اور عظیم شاعر تھے۔ ان کی رباعیات کی سارے عالم میں دھوم ہے۔
 15.2.3مولانارومی:  کا پورا نام جلال الدین رومی تھا 1207) تا 1273)  وہ بلخ میں پیدا ہوئے تھے۔ عارفانہ مزاج کے صوفی شاعر تھے اور اپنے ناصحانہ مگر غنائیہ کلام کے لیے خاصی شہرت رکھتے تھے۔ ان کی ’مثنوی معنوی‘ سے ایک زمانہ متاثر رہا ہے۔
15.2.4   شیخ سعدی :  کا اصل نام مشرف الدین ابن مصلح الدین تھا 1213)   تا 1291 )  فارسی کلاسیکی شاعری میں وہ اعلیٰ رتبہ اور مقام رکھتے ہیں۔
15.2.5  حافظ شیرازی :  کا پورا نام محمد شمس الدین حافظ تھا 1325/26)   تا  1390/91)  وہ حافظ قرآن ہونے کے علاوہ قرآن و حدیث کی تشریح و تصریح پر ان کی کئی تصانیف موجود ہیں۔ وہ فارسی ادب کے مایہ ناز ادیب تھے۔
15.2.6    فارسی ادب کی ابتداء اور کلاسیکی فارسی ادب کے بعد یہ مسئلہ غور طلب ہے کہ جدید فارسی ادیبوں نے ادب کو منجمد رکھا یا مزید رفعتوں سے ہمکنار کیا یا پھر انھیں کلاسیکی ادب پرہی اکتفا کرنا پڑا۔
15.3    جدید فارسی ادبا  20 ؎
15.3.1  محمد علی جمال زادہ 1892)   تا  1997)  :  ایرانی نثرنگار جو بیسویں صدی میں فارسی ادب کے ممتاز ادیب گزرے ہیں۔ ان کے فارسی افسانوں کے مجموعے کو جدید فارسی نثر کی بنیاد تصور کیا جاتا ہے۔ جما ل زادہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ قومی ادب میں نظم کی طرح نثر بھی نہایت اہمیت رکھتی ہے۔ انھوں نے جس حوصلہ مندی اور صاف گوئی سے سماج پر تنقید کی ہے، اس نے قدامت پسند ایرانیوں کو مشتعل کردیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس بناپر ان کی اہمیت کچھ تو متاثر ہوئی ہوگی۔
15.3.2   صادق ہدایت 1903)   تا 1951 )  :  انھوں نے فارسی افسانہ نویسی کو جدید ترین تکنیک سے روشناس کرایا۔ ان کا شمار بیسویں صدی کے عظیم ترین مصنّفین میں ہوتا ہے۔ چنانچہ ان کی تصانیف ’سایۂ مغل‘ اور ’سہ قطرہ خون‘ خاصی شہرت رکھتے ہیں۔
15.3.3   لیکن فارسی زبان کے اس جدید ترین اور عمدہ ترین ادبی مواد کو اس ادبی طیف کا آخری سرا قرار نہیں دیا جاسکتا، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں ادبی اصناف کی کسی قسم میں مزید بہتر شاہکار مرتب ہوجائے۔ فیض     ؎
نہیں نگاہ میں منزل تو جستجو ہی سہی
نہیں وصال میسر تو آرزو ہی سہی
16  ۔  انگریزی ادب اور اس کا مدخل:
انگریزی ادب کا ارتقا یوں تو پہلی صدی عیسوی سے ہی شروع ہوچکا تھا، لیکن اس زبان کی ترقی پذیری کا دور کوئی 1400  سال پر محیط ہے۔ اس دوران اس زبان نے بڑے نشیب و فراز طے کیے کیونکہ اس کی ترقی انگلستان کی تاریخ سے مربوط رہی ہے۔ اس لیے اس دورکی تاریخ پر سرسری نظر ڈالی جائے تو اس زبان کے ارتقائی منازل بآسانی سمجھ میں آسکتے ہیں۔
16.1    سیکزن قوم کا انگلستان پر تسلط  :  جرمنی کے شمال مغربی علاقے میں نیدر لینڈ واقع ہے۔ وہاں کی قوم سیکزن (Saxon)   کہلاتی ہے۔ اس قوم نے پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی میں انگلستان پر حملہ کرکے اسے فتح کرلیا تھا۔ 21؎  سیکزن اور انگریزوں کے میل جول سے اینگلو سیکزن (Anglo-Saxon)   زبان وجود میں آئی۔ سیکزن قوم جب فاتح کی حیثیت سے انگلستان میں داخل ہوئی تو اس کے ہمراہ فریزن (Frisian)   نسل کے لوگ بھی شامل ہوئے۔ ان کے انگریز وں سے اختلاط کی بناپر اینگلو- فریزین (Anglo-Frisian)   نسل اور زبان بھی وجود میں آئی مگر یہ زبان انگریزی کی ابتدائی شکل تھی، یعنی یہ کئی مقامی بولیوں کا آمیزہ تھا لیکن اسے انگریزی زبان کا مدخل (Threshold)   نہیں کہہ سکتے، کیونکہ محض بولی یا بولیوں کا مجموعہ ادب کی تعریف میں آنا امرمحال ہے۔
16.1.1   برطانیہ پر ولندیزیوں کی چڑھائی:  انگریزی زبان کے وسطی دور کی شروعات اس وقت ہوئی جبکہ شمالی یورپ کی ولندیزی قوم نے ولیم نارمن کی سرکردگی میں انگریزوں کو 1066  میں شکست دے کر برطانیہ پر قبضہ کرلیا تھا اور اس ارتباط سے نارمن قوم جو انگریزی بولتی تھی، وہیں سے وسطی انگریزی دور کا آغاز ہوا،لیکن یہ تو گیارہویں صدی عیسوی کی بات ہے جبکہ انگلستان اور یورپ میں چودھویں صدی کے نشاۃِ ثانیہ (Renaissance)   کے دور کی ابتدا ہوئی تھی جو تین صدیوں یعنی چودھویں تا سولہویں صدی تک جاری رہا۔ جبکہ اس سے قبل کا دور تاریک دور کہلاتا ہے۔ تو ظاہر ہے کہ وسطی انگریزی دور بھی اسی تاریکی میں ڈوب گیا ہوگا۔ کیونکہ بارہویں صدی عیسوی سے پندرہویں صدی عیسوی تک عدالتوں میں بھی انگریزی زبان کا چلن نہ تھا، بلکہ دربار میں بادشاہ اور عدالتوں میں وکلا فرانسیسی زبان میں کلام کرتے تھے۔ اس کے علاوہ تمام انتظامی امور بھی فرانسیسی زبان میں ہی سرانجام دیے جاتے تھے، کیونکہ فرانسیسی ایک وسیع تر اور پُروقار زبان سمجھی جاتی تھی۔ اس لیے انگریزی کی بہ نسبت فرانسیسی زبان کی کافی کچھ قدر و منزلت تھی۔
16.2    انگریزی زبان کا نشاۃ ثانیہ 1500)  تا  1660) :  لیکن سولہویں صدی عیسوی تک پہنچتے پہنچتے انگریزی زبان نے عوام میں خاصی مقبولیت حاصل کرلی تھی اور اسی صدی کے دوران بتدریج مگر غیر محسوس طریقے سے فرانسیسی زبان کی جگہ انگریزی زبان کا عوام و سرکاری امور میں چلن عام ہوتا گیا۔ اس طرح سولہویں صدی عیسوی میں اس نے ادبی موقف اختیار کرکے قوی اور دیرپا اثر مرتسم کیا۔ چنانچہ شعریات میں جارج چیپ من (George Chapman)  (1559 تا 1634)  نے یونانی شاعر ہومر (Homer)کی آٹھویں صدی ق۔م۔ میںلکھی گئی مسیٖری و رزمیہ نظم ’ایلیڈ اور اوڈیسی‘(Iliad and Odyssey)   کو 1616 میں اس کی تمام تر ادبی تابش کو برقرار رکھتے ہوئے انگریزی زبان میں ہوبہو منتقل کیا اور مروّجہ ادب پر انتہائی عمیق اثر مرتب کیا۔ اس سے متاثر ہوکر جان کیٹس (John Keats)   نے 1816  میں اپنی شہرہ آفاق سانیٹ "On first looking into chapmans Homer"  تحریر کی 22؎  جسے انگریزی ادب کا مدخل (Threshold)   قرار دیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس ادب کے آخری سرے کا تعین قدرے دشوار اس لیے ہے کہ انگریزی ادب میں متواتر اور بے انتہا ترقی ہوتی گئی اور پھر ایک سے بڑھ کر ایک ادیب نظم و نثر میں اُبھرتے رہے۔ چنانچہ شیکسپیئر نے اعلیٰ معیاری سانیٹ لکھ کر عالمی شہرت حاصل کی۔ اس کے بعد جان ڈون (John Donne) (1572تا1631) ، جارج ہربرٹ (George Herbert)   (1593 تا 1633)  وغیرہ نے اپنے کلام میں مابعد الطبعیاتی  (Meta-Physical)  نکات اور باریکیاں ادبی انداز میں پیش کیا۔
16.2.1   سترھویں صدی کے اوائل میں کِنک جیمز بائبل (King James Bible)   نے نثر میں بائبل کا بعینہ مکمل ترجمہ کرکے عظیم الشان کارنامہ انجام دیا جس کی شروعات 1604 میں ہوئی اور 1611 میں تکمیل کو پہنچی جو اس وقت غالباً ادب کی معراج تصور کی جاتی رہی ہوگی۔
16.2.2    بہرحال اس کے بعد بھی مشاہیر آتے رہے، کارنامے انجام دیتے رہے جنھیں ہرسال نوبل پرائز سے نوازا جاتا رہا۔ چنانچہ 2013    میں کناڈا سے الائس مُنرو (Alice Munro)   کو 2016   میں امریکہ سے باب ڈائلان(Bob Dylan)  کو، 2017  میں برطانیہ سے کازو اِشی گورو (Kazua Ishiguro)   (جن کی پیدائش جاپان کی ہے) کو نوبل پرائز سے نوازا گیا۔ 23 ؎
صف اوّل کے ہندوستانی ادیبوں نے بھی انگریزی ادب میں بڑا نام پیدا کیا جن میں محترمہ سروجنی نائیڈو 1879)  تا  1949) کا نام بڑی عزت ووقار سے لیا جاتا ہے۔
16.2.3   لیکن یہ انگریزی ادبی طیف کی انتہا نہیں ہے،بلکہ وسیع تر حدب (Plateau)   کہلایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اس کے آخری سرے کا تعین ہی گمراہ کن ہوگا۔ اقبال    ؎
اس سراب رنگ و بوٗ کو گلستاں سمجھا ہے تو
آہ ! اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو
16.2.4   ہم نے اوپر دیکھا کہ انگریزی شعرا جان ڈون، جارج ہربرٹ وغیرہ نے مابعد الطبعیاتی نکات اور باریکیاں نہایت ادبی انداز میں پیش کیں۔ مابعد الطبعیات دراصل فلسفہ کی وہ شاخ ہے جو وجود حق اور علم و عرفان سے تعلق رکھتی ہے۔ 24؎  تو پھر وجود کے تحت زمان و مکان بھی آتے ہیں جو کل کائنات پر چھائے ہوئے ہیں او رکائنات کو ادب محیط کیے ہوئے ہیں اور ادب کے دونوں سروں کے سُراغ میں یہ موضو ع غلطاں ہے۔ کسی بھی ادب کے اولین سرے کی درست تحقیق سے پتہ چل ہی جاتا ہے لیکن آخری سرا موجودات کی دھند میں مدھم ہے۔ موجودات کے سراغ میں اکثر بڑا دھماکہ پر اکثر تکیہ رہا ہے جو ارتقا ئے کائنات سے متعلق ہے۔ جو کئی ارب صدیوں پر مشتمل ہے۔کئی تجربات سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ نہ صرف خلا میں وسعت ہوتی گئی بلکہ ’بڑا دھماکہ‘ کو بھی اس سے تقویت پہنچتی ہے۔
16.2.5   بہرحال اس کھوج میں سائنسدانوں نے ایک دیوہیکل مشین (Large Hardon Collider)   تیار کی جو دنیا کی پیچیدہ ترین مشین ہے جس کی مدد سے زمین کے ذرات کی تراش خراش تقریباً نور کی رفتار سے کی جاتی ہے تاکہ بڑے دھماکہ سے اس کائنات کی تخلیق کے دوران جیسی کیفیت پیدا کی جاسکے۔ اس عمل میں ذرات کے باہمی تصادم کی وجہ سے سورج کے مرکزی حرارت سے ایک لاکھ گنا زائد حرارت پیدا ہوگی اور اسی سے علم طبعیات کے ثبوت طلب نظریہ کی بنیاد استوار ہوگی۔ انسانی تاریخ کا یہ سب سے بڑا سائنسی تجربہ کوئی مادہ-شکن(Anti-Matter)   یا کچھ ایسے سیارہ روزن (Black Holes)   پیدا کرے جو آناً فاناً میں غائب بھی ہوجائیں 25؎ ۔  لیکن اس عمل کی غالباً تکمیل نہ ہوپائی اور نہ جانے کس طرح یہ صدائے صحرا کی مانند معدوم بھی ہوگیا۔ یہی کچھ حال ادبی طیف کے آخری سرے کاہے جس کا وجود نہ جانے کب کافور ہوجائے۔ بقول اقبال    ؎

پوچھ اس سے کہ مقبول ہے فطرت کی گواہی
تو صاحب منزل ہے کہ بھٹکا ہوا راہی
.17اردوادب اور اس کا مدخل:
اردوزبان ہندآریائی لسان سے تعلق رکھتی ہے۔آریا ہندوستان میں اب سے کوئی ساڑھے تین ہزار سال قبل داخل ہوئے تھے۔ وہ پرکرت (ویدک سنسکرت کی کلاسیکی زبان) بولتے ہوئے آئے تھے۔ پھر وہ ایک ہزار ق۔م۔ تک کلاسیکی سنسکرت بولتے رہے اور 500   ق۔م۔ تا ابتدائے عیسوی سنہ  ان میں پالی کا چلن عام ہوا۔ پھر اُپ بھرنش 500  تا 1000 عیسویچلتی رہی اور اخیر میں جدید ہند آریائی لسانی خاندان 1000 سے اب تک چلتا آرہا ہے جس میں اردو بھی شامل ہے۔ ہند آریائی اور ہندی میںہندوستانی زبان کی پانچ شکلیں قرار پائی ہیں، یعنی اردو، ناگری، ہندی، کھڑی بولی، علاقائی، ہندوستانی اور بازار ہندوستانی۔ یہاں ہم کھڑی بولی کو اردوہندی کے درمیان نقطہ اتصال تصور کرسکتے ہیں۔26  ؎ 
17.1    اردوکے معنی:  اردو کے دیگر معنوں کے علاوہ اکثر جگہ ’لشکر‘ دیے گئے ہیں۔ ترکی میں لشکر کو ’اردوبازار‘ کہتے ہیں۔ ایشیا کی دیگر قومیں ترکستان، افغانستان، ایران وغیرہ سے برصغیر میں فارسی زبان بولتے ہوئے داخل ہوئی ہوں گی، کیونکہ وسط ایشیا کے بیشتر ممالک کی عوامی اور سرکاری زبان فارسی ہی تھی۔ فارسی اور عربی ہی میں کیا، بلکہ ہر ترقی پذیر اور ترقی یافتہ زبان میں رسم الخط(اورلہجہ) کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، کیونکہ ان سے مافی الضمیرزبان کے مزاج کے مطابق بخوبی ادا ہوتا ہے۔ بہرحال جب درانداز قومیں فارسی زبان بولتی ہوئی ہند میں داخل ہوئیں تو ان کی زبان اور لہجہ کے ساتھ ساتھ مراسلت کے لیے رسم الخط بھی مستعمل رہا۔ چنانچہ ان کا رسم الخط خط نسخ کی قسم اور تعلق سے فارسی نستعلیق کی صورت میں ظاہر ہوا اور مستعمل رہا۔ جب ان قوموں کا برصغیر کی قوموں سے تفاعل ہوا تو آہستہ آہستہ زبان اردو وجود میں آتی گئی جس میں خط نستعلیق کو اس لیے اختیار کیاگیا کہ اس میں تعداد حرو ف اور ان کی آوازیں سب سے زیادہ یعنی 55   ہیں۔ 27؎ 
17.1.1   اردوکی ابتدا:  کے ضمن میں کئی نظریے قائم کیے گئے ہیں اور سب سے مقبول نظریہ یہ ہے کہ اردو ہندوؤں اور مسلمانوں کے میل جول سے وجود میں آئی، مگر اس نے بارہویں صدی عیسوی سے طویل ارتقائی منزلیں طے کی ہیں۔
17.1.2   تیرہویں صدی عیسوی میں ہندوستان کی دلآویز شخصیت امیر خسروؒ 1253)   تا  1325)  گزرے ہیں۔ ان کے ہندوی کلام میں خالق باری (اسے لغت سمجھیے) بھی ہے اور چیستاں (منظوم یا منثور پہیلی یا معمہ) بھی جو اردوزبان میں ان کی اہمیت کی اصل وجہ ہے۔ وہ شاہی درباروں میں دہلی کے سات حکمرانوں کی معیت میں رہے۔ ان کی سب سے پہلی مثنوی ’قران السعدین‘ ہے۔ اس کی خاص خوبی یہ ہے کہ اس کا پلاٹ امیر خسرو کے چشم دید حقائق پر مبنی ہے۔ یہیںسے اردوادب کے مدخل کی ابتدا کا راستہ استوار ہوتا نظر آتا ہے۔ لیکن یہ گمان نہ رہے کہ کسی ایک ہی ادیب یا ایک ہی تصنیف سے مدخل کی شروعات ہوگی، بلکہ کئی علاقوں جیسے پنجاب،گجرات، دکن، کرناٹک، بہار، بنگلہ میں یکے بعد دیگرے ادیبوں اور ان کی تصانیف اس مدخل میں شامل ہوسکتی ہیں۔ معدودے چند علاقوں کے چند ادیبوں اور ان کے ادب پارے اردومدخل کی محض چند مثالیں ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ مندرجہ بالا علاقے جیسے جیسے شمالی ہند کی حکومتوں کے زیرنگیں آتے گئے وہاں وہاں سے اردو کی ابتداء ہوتی گئی۔ اس طرح طیف اردو ادب کے کئی در بلکہ مدخل وا ہوتے گئے۔
17.1.3   دکن میں جدید تحقیقات کی رو سے حضرت خواجہ بندہ نواز گیسودرازؒ نے ’معراج العاشقین‘ اور ’ہدایت نامہ‘ مرتب کیا اس لیے انھیں دکن کا پہلا شاعر قرار دیا گیا۔ گولکنڈہ میں قطب شاہی خاندان کے پانچویں تاجدار محمد علی قطب شاہ 1566)   تا  1612)  اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر گزرے ہیں۔ا سی دورِ حکومت میں وجہی کی مثنوی ’قطب مشتری‘ غواصی کی مثنوی ’سیف الملک و بدیع الجمال‘ اور مثنوی ’طوطی نامہ‘، ابن نشاطی کی ’پھول بن‘ 28 ؎  وغیرہ کو دکن میں اردوادب کا مدخل قرار دیا جاسکتا ہے۔
17.1.4   متذکرہ بالا تفصیلات بشمول ہندوستان کے دیگر علاقوں میں اردوادب کی ابتدائی نثر و منظوم شکلوں کے اردوادب کا مدخل قرار دیا جاسکتاہے۔
17.1.5   اردو کی ترویج و ترقی میں سترھویں صدی کی باکمال بیگمات کا بھی حصہ رہا ہے۔ چنانچہ شہزادی گلبدن بیگم (مولفہ ہمایوں نامہ)، شہزادی جہاں آرا (مولفہ مونس الارواح)، زیب النساء بہترین شاعرہ تھیں۔ حبہ خاتون 1541) تا 1601)  کشمیر کی معروف ادیبہ، نیز زاہدہ خاتون، شیر وانیہ 1894  تا 1922 ) اپنی نظم ’سپاسنامۂ اردو‘ کے لیے شہرت رکھتی ہیں۔ پھر جیسے جیسے اردوزبان مزید ارتقائی منزلیں طے کرتی گئی، علاقائی اردو اور شمال کی اردو میں دو فرق واضح ہوتے گئے۔ ایک تو زبان اور دوسرے مضامین البتہ علاقائی لہجے خاطر خواہ متاثر نہ ہوسکے۔ بہرحال ان سے تمام تر برصغیر کی اردوزبان میں ایک تعلیمی معیار قائم ہوتا گیا اور یوں ہرجا یکساں معیاری زبان استعمال ہونے لگی جو ملک کے طول و عرض کے علاوہ دنیا بھر میں جہاں کہیں اردو پڑھی ولکھی جائے، اسے اردو سامعین بخوبی سمجھ پائیں۔
17.1.6   سترہویں اور اٹھارہویں صدی عیسوی میں گوکہ وطن عزیز کے حالات دگرگوں تھے، ورنہ اردوزبان پر تو بہار چھائی ہوئی تھی اگر اس زمانے کے ادب خصوصاً نظم گوئی پر بہ لحاظ تاریخی ترتیب سرسری نظر ڈالی جائے تو ولی دکنی 1668)  تا 1707 )، سراج اورنگ آبادی 1714)   تا 1764 ) کے کلام کا بڑا غلغلہ تھا۔ ادھر شمال میں محمد رفیع سودا 1706)   تا  1781ء)،  خواجہ میر درد 1721)  تا1824) خواجہ حیدر علی آتش 1778)   تا 1810 )  شیخ ہمدانی مصحفی 1750)  تا 1824 )، خواجہ حیدر علی آتش 1778)   تا 1847 )، میر ببر علی انیس 1802) تا  1874)  نے اردونظم کی خوب خوب آبیاری کی اوران سب کے علاوہ مرزا  اسد اللہ خاں غالب 1797)   تا 1869 )  کے کلام کا بڑا شہرہ رہا ہے۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں بھی بڑے بڑے شعرا گزرے ہیں جن میں ڈاکٹر سر محمد اقبال 1877)   تا1938 )  29؎  کانامِ نامی شاعر مشرق کی مخاطبت سے عالم تمام میں درخشاں ہے۔ انھیں از اول تا اب تک سب سے بڑا شاعر تسلیم کیاجاتا ہے۔
17.1.7   شاعری کے مقابلے میں اردونثر کا ارتقاء نسبتاً سست روی سے ہوا۔ ملاوجہی اپنے طور پر قصہ اور داستان کی ابتداء کرچکے تھے۔ شمالی ہند میں بھی تقریباً اسی زمانے میں نثر کے ارتقاکی شروعات ہوچکی تھی۔ چنانچہ عبد الولی عزلت1692)   تا 1775) نے اپنے دیوان کا دیباچہ اردو میں تحریر کیا گویافروغ اردو کے لیے ایک دریچہ واہوگیا۔ نیز اس دو رکے نثر نگار جیسے جعفر زٹلی (1713)   نے فارسی آمیز اردونثر، مرزا جان طیش دہلوی کی فرہنگ وغیرہ اس دور کے اپنے نقوش ہیں کہ انھیں اردو نثر کا نقطۂ آغاز شمار کیا جانا چاہیے اور اسی بنیاد پر ہم اسے اردو نثرنگاری کا ایک مدخل قرار دے سکتے ہیں، کیونکہ ملک کے دیگر علاقوں میں اور بھی ایسی کھڑکیوں کے پٹ کھل سکتے ہیں۔
17.1.8   فورٹ ولیم کالج کی کارکردگی اس کے بعد کی منزل ہے جس میں میرامن دہلوی 1750)   تا 1837 )  کی باغ و بہار، رجب علی بیگ سرور(1867)کی ’فسانۂ عجائب‘ جیسی تحریریں اردو کی ترقی میں حوصلہ مند جست کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کے علاوہ اٹھارہویں صدی ہی میں تذکرہ نگاری کو فروغ حاصل ہوا۔ تذکروں میں ادیبوں، خصوصاً شعرا کے حالات حیات درج ہوئے ہیں۔ تمام تر تذکروں میں میر تقی میر کے تذکرہ ’نکات الشعراء‘ کو فوقیت حاصل رہی ہے۔ غالب کی شگفتہ نثر ان کے مراسلوں میں منتشر رہی ہے۔ ان میں سادگی، سے ساختگی اور بے تکلفی پائی جاتی ہے۔ اردو نثر کے ارتقا میں مزید چند شخصیات کے اسم گرامی ناقابل فراموش ہیں، جن میں سرسید احمد خاں 1817)   تا 1898 )  نے اردو میں انشائیے یعنی مضمون نویسی کی ابتدا کی اور سادہ اسلوب اختیار کیا ان کے کارناموں میں رسالہ ’تہذیب الاخلاق‘ کی بڑی اہمیت ہے۔ محمد حسین آزاد 1830)   تا 1910 )  کی تصانیف میں ’آب حیات‘، ’دربار اکبری‘، ’نیرنگ خیال‘ اور ’سخندان فارس‘ وغیرہ اردوادب میں بڑی اہمیت رکھتی ہیں۔ منشی پریم چند 1880)  تا 1936 )  کا ادب ہندوستانی سماج اور دیہی ہندوستان کا عکاس ہے۔ ان کے اہم ناول ’گوشۂ عافیت‘، ’نرملا‘، ’پردۂ مجاز‘، ’چوگان ہستی‘ وغیرہ نہایت اہمیت رکھتے ہیں۔ پنڈت رتن ناتھ سرشار  1846)  تا  1903)  اردو ناول نویسی کی روایت میں امتیازی حیثیت کے حامل ہیں، چنانچہ ان کے ناول ’فسانۂ آزاد‘، ’سیر کہسار‘،’جام کہسار‘،’خدائی فوجدار‘ وغیرہ خاصی شہرت رکھتے ہیں۔
شبلی نعمانی 1857)  تا 1914 )  نے تاریخی، اسلامی اور ادبی تصانیف کی شروعات کی۔ ان کی اہم تصانیف ’الفاروق‘، ’المامون‘، ’سوانح مولانا روم‘، ’تاریخ اسلام‘، ’فلسفہ اسلام‘، ’مکاتیب شبلی‘ وغیرہ نے اردوادب میں قابل قدر اضافہ کیا۔
اے آر خاتون 1900)  تا  1965 ) نے بھی ناول نویسی میں بڑی شہرت پائی ہے۔ چنانچہ ’شمع‘ ان کا پہلا ناول ہے اور بعد کے ناول ’تصویر‘ کو بھی کافی شہرت حاصل ہوئی۔  30 ؎ 
17.1.9    پھر بھی اردوزبان کے طیف کا آخیر سرا غیر محسوس طریقے سے سرکتا چلا جائے گا۔ نظم میں میر غالب اور اقبال کی سطح تک ابھی تک تو کسی کی پہنچ نہیں ہے، مگر کیا پتہ اگر جلد نہیں تو بدیر کوئی ان سے بھی بہتر تخلیق کرپائے۔ اسی طرح نثر میں محمد حسین آزاد، حالی، شبلی کی نثر کا سلسلہ ہوسکتا ہے کہ ایک عرصے تک تھم جائے اور ادب میں یہی ٹھہراؤ سطح مرتفع سے مشابہ ہے جو دوسروں سے اوپر اُٹھ کر ایک وسیع اور چٹیل میدان کا منظر پیش کرتا ہے۔ اس کے مزید فراز کے لیے کچھ اور وقت درکار ہوگا یا پھر اقبال کے خیال کے مطابق ہزاروں سال بھی درکار ہوسکتے ہیں۔ اور یہ کلیہ بیشتر ترقی یافتہ زبانوں کے ادب پر منطبق ہوسکتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ دنیا کی تمام تر ترقی یافتہ زبانوں کے دانشور باہم مل کر بھی ایسی کوئی حد یا ادبی طیف کے کسی ایسے سرے کا تعین نہیںکرسکتے جہاں پر کوئی ادب ٹھہرجائے، کیونکہ یہ عمل کسی جھرنے کی طرح جاری و ساری ہے۔ بس ٹھہراؤ کی ایک عارضی منزل کی گنجائش ہے۔ پر آپ جانیں انسانی ذہن اپنی تخلیق سے قبل اور کائنات کی فنا کے بعد کے حالات کو بھی اپنے علم میں محیط کیے ہوئے ہے۔ یعنی یہ دائروی شکلیات کے مانند ہیں جو حرکت پذیر ہوتی ہیں اور کسی میزائل کی منقار کی طرح جو رفتار کی ضامن ہوتی ہے۔ غالب     ؎
ادائے خاص سے غالب ہوا ہے نکتہ سرا
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے
حواشی: 
.1        مقالہ نگار  نفسیات کا استاد رہ چکا ہے۔ تمام تفصیلات نفسیات کی کسی بھی ابتدائی درسی کتاب سے حاصل ہوسکتی ہیں۔
.1.1     ایضاً       .1.2     ایضاً
.2         یاد وجد۔ مرتبہ عنایت علی،دلرس ایجوکیشنل سوسائٹی، اورنگ آباد (مہاراشٹر) 2001،  ص195
.3         انٹرنیٹ سے برآمد
.4         ایضاً       .5         ایضاً
.6         جامع اردو انسائیکلوپیڈیا، ادبیات قومی کونسل برا ئے فروغ اردوزبان، نئی دہلی،2003، ص 44, 593
.7         اردوادب کی مختصر تاریخ: ڈاکٹر انور سدید، ایم آر پبلی کیشنز، نئی دہلی، 2015، ص 35
.8         یاد وجد: مرتبہ عنایت علی،دلرس ایجوکیشنل سوسائٹی، اورنگ آباد (مہاراشٹر) 2001،  ص192 
9 .        ایضاً، ص193
.10      تاریخ ادب اردو 1700 تک: جلد اوّل، گیان چند جین: سیدہ جعفر، قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان، نئی دہلی2011،  ص24, 23, 21, 16
.11      خسروشناسی:  ظ-انصاری، ابو الفیض سحر، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی، 1989، ص 207   تا  210
.12      جامع اردو انسائیکلوپیڈیا: سائنسی علوم نمبر 7، قومی کونسل برا ئے فروغ اردوزبان، نئی دہلی،2004، ص 220, 148
.13      آکسفورڈ انگلش اردو ڈکشنری، 2013، ص 643
.14      ادب عربی کی مختصر تاریخ، مؤلف ڈاکٹر ابو حاتم خاں،مکتبہ نعیمیہ (فرید بک ڈپو)، صدر بازار، شوناتھ، بھنجن، یوپی، 2003، ص 38, 33, 31, 29, 27
.15      ایضاً، ص 55         .16      ایضاً، ص 340, 336, 317
.17      وکی پیڈیا سے برآمد  .18      انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا۔
.19      ایضاً       .20      ایضاً
.21      دی اسٹینڈرڈ انگلش اردو ڈکشنری: مولوی عبد الحق، انجمن ترقی اردو (ہند)، نئی دہلی،2012۔ ص1064
.22      وکی پیڈیا سے برآمد  .23      ایضاً
.24      نیو آکسفورڈ ایڈوانس لرنرس ڈکشنری، ص 963
.25      وکی پیڈیا سے برآمد
.26      تاریخ ادب اردو 1700 تک: جلد اوّل: گیا ن چند جین، سیدہ جعفر، قومی کونسل برائے فروغ اردوزبان، نئی دہلی، 2011،  ص 29, 28, 16
.27      فکرو تحقیق جولائی ستمبر 2015۔ قومی اردوکونسل برائے فروغ اردوزبان، نئی دہلی، ص 26, 24
.28      دکن میں اردو: نصیر الدین ہاشمی، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی،1985 ص 97, 42
.29      جامع اردو انسائیکلوپیڈیا: ادبیات،قومی کونسل برا ئے فروغ اردوزبان، نئی دہلی،2003 ص 51, 399, 500, 2, 534, 324, 241, 308, 573
.30      ایضاً،ص144, 308, 52, 7, 330

Mustafa Nadeem Khan Gauri
Zarrin Villa, B.11, Green Valley
Roza Bagh,
Aurangabad - 431001  (M S)
Mob: 9604957100






کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں