13/3/20

خدیجہ عظیم سے پہلی اور آخری ملاقات مضمون نگار: فیضان الحق



خدیجہ عظیم 
سے پہلی اور آخری ملاقات

فیضان الحق

اردو ادب کی تاریخ میں ایسا بہت کم دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی کی پانچ بہنیں ہوں اور سب کی سب اردو زبان و ادب کی بڑی عالمہ میں شمار ہوتی ہوں۔ شاہدہ زیدی، صابرہ زیدی، زاہدہ زیدی، ساجدہ زیدی اور خدیجہ عظیم ایسی ہی پانچ بہنوں کے نام ہیں، جن میں سے ہر ایک کی اپنی منفرد شناخت قائم ہے۔ ان سب کی والدہ بیگم مختار فاطمہ زیدی خود ایک شاعرہ تھیں اور تاریخ ادب اردو کی عظیم خاتون صالحہ عابد حسین کی سگی بہن تھیں، جن کا سلسلہ ٔ نسب خواجہ الطاف حسین حالی تک پہنچتا ہے۔اس کے علاوہ خدیجہ عظیم مشہور فکشن نگار انور عظیم کی بیوی تھیں۔ انھوں نے پوری زندگی انور عظیم کا ساتھ دیا اور مشکل حالات میں بھی ان کا ساتھ نہیں چھوڑا۔
 انور عظیم جس وقت سے میری تحقیق کا موضوع بنے، میں نے ان کی شخصیت،کارنامے اور اہل وعیال کے متعلق معلومات جمع کرنی شروع کر دی تھیں۔اساتذۂ کرام کے علاوہ انور عظیم کے دوست احباب اور ان کے ملنے جلنے والوں سے بھی رابطہ کیا۔اسی دوران مجھے علم ہوا کہ چھوٹے پردے کی مشہور اداکارہ اور کتھک رقص کی ماہر ’نیلیما عظیم‘، انور عظیم کی صاحب زادی ہیں،اوربالی ووڈ کی سرزمین شہر ممبئی میں قیام پذیر ہیں۔مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ فلمی دنیا کا چمکتا ستارہ شاہد کپور ان کا حقیقی ناتی اور نیلیما عظیم کا بڑا بیٹا ہے۔ یہ سب جان کر مجھے بے حد خوشی ہوئی، کیونکہ نیلیما عظیم سے رابطہ ہوجانے کے سبب ان کے والد کے متعلق اچھی طرح معلومات حاصل کی جا سکتی تھیں۔ لہٰذاکام کو آگے بڑھانے سے قبل میری پہلی ترجیح نیلیما عظیم سے رابطہ کرنا تھا۔
مجھے یہ تو پتہ چل گیا تھا کہ انور عظیم کی بیوی خدیجہ عظیم دہلی میں رہتی ہیں لیکن ان کی رہائش گاہ نا معلوم تھی۔میں نے نیلیما عظیم کو ایڈریس پوچھنے کی غرض سے ایک بار پھر مسیج کیا،لیکن شاید مصروفیت زیادہ ہونے کی وجہ سے پیغام توجہ کا محتاج رہ گیا۔ اس بیچ  میں نے دوسرے لوگوں سے بھی ان کا پتہ جاننے کی کوشش کی لیکن ناکامی ہی ہاتھ لگی۔میں نے تیسری بار نیلیما عظیم کو میسیج کیا، لیکن’ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا‘۔مجھے سخت مایوسی ہوئی اورمیں نے دوسرے ذرائع سے پتہ حاصل کرنے کی کوشش تیز کر دی۔ اور جب کہیں سے کوئی سراغ ملتا نظر نہ آیا تومیں نے ایک بار پھر ہمت کی اور سوچا اس بار نیلیما عظیم کو میسیج نہیں بلکہ براہ راست کال کروں گا۔ اور شام قریب پانچ بجے میں نے انھیں کال کر دیا۔لیکن ہوا وہی...جس کا ڈر تھا... فون رسیو نہیں کیا گیا۔
میں نے سوچا اب ملاقات کا کوئی راستہ نہیں۔ ساری کوششیں بے کار ہیں۔میں اسی فکر میں غلطاں و پیچاں تھا کہ اسی بیچ نیلیما عظیم کی کال بیک آ گئی۔میں نے فون اٹھایا،تعارف کرایا، اور اپنا مقصد بیان کیا۔انھوں نے نہایت شفقت سے بات کی جس سے میری حوصلہ افزائی ہوئی۔میں نے ان سے خدیجہ عظیم کی رہائش گاہ کا ایڈریس اور رابطہ نمبر مانگا۔ انھوں نے فورا بھیجنے کی بات کہتے ہوئے فون رکھ دیا۔  چند ہی منٹ بعد واٹس اپ پر ان کے بھائی احمر پاشا کا لینڈ لائن نمبر موصول ہو ا۔میں نے میڈم کا شکریہ ادا کیا اور لینڈ لائن نمبر پر کال لگائی۔ ادھر سے کسی ادھیڑ عمرخاتون کی آواز آئی جو آسانی سے میری بات بھی نہیں سمجھ پا رہی تھی۔بہت کوششوں کے بعد اسے یہ سمجھ آیا کہ میں خدیجہ عظیم سے بات کرنا چاہتا ہوں۔  خیراس نے خدیجہ میڈم کو بلا کر فون ان کے ہاتھ میں تھما دیا۔
فون پر ایک ضعیف اور بزرگ خاتون کی دھیمی دھیمی اور نرم آوازسنائی دی۔ ’’ہیلو۔۔آپ کو ن صاحب ہیں؟‘‘۔ یہ خدیجہ عظیم تھیں، انور عظیم کی بیوی۔میں نے انھیں اپنا تعارف کرایا اور اپنے کام سے متعلق جانکاری دی۔انور عظیم کا نام سن کر وہ بہت خوش ہوئیں اور کہا کہ آپ کام کیجیے مجھ سے جو بھی ہو سکے گا مدد کروں گی۔میں نے ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔انھوں نے کہا کبھی بھی آجائیے۔
اگلی صبح(13اپریل 2019) قریب گیارہ بجے میں ان سے ملاقات کے لیے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے نکل پڑا۔
سامنے والے کمرے سے ایک ضعیفہ اپنی واکر (Zimmer frame) ٹیکتے ہوئے آہستہ آہستہ میری جانب بڑھتی نظر آئیں۔گہرے نیلے رنگ کا سوتی شلوار سوٹ،جس میں سفید پھول پتیاں بنی ہوئی تھیں،بالکل سفید بال جو ایک لاسٹک سے پیچھے بندھے ہوئے تھے، سفید سفید،جھریوں والا چہرہ، اورہاتھوں سے لٹکتی ہوئی کھال، آنکھیں اندر دھنسی ہوئیں،لیکن ان میں ایک چمک برقرار،میں انھیں دیکھتے ہی سلام کرتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا،اور انھیں سہارا دینے کے لیے آگے بڑھا۔وہ دھیرے دھیرے آ کر سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئیں۔اور پھر شفقت بھری نظروں سے میری جانب دیکھ کر پوچھا:
’’ تو آپ ہی ہیں فیضان الحق؟‘‘
 ’’جی میڈم‘‘ ( آہستہ سے میرے ہونٹ ہلے)
’’اچھا اچھا بہت خوب۔۔اچھا ہوا آپ آ گئے... آپ کے کام کا اصل موضوع کیا ہے؟
’’انور عظیم کی افسانہ نگاری...’اجنبی فاصلے‘ کی روشنی میں‘‘(میں نے تھوڑی بلندآواز میں جواب دیا تاکہ وہ آسانی سے سن سکیں)
’’اچھا! افسانہ نگاری پر‘‘...’’جی میڈم‘‘
’’افسانے تو انور نے بہت لکھے ہیں۔۔اور میں کیا کہوں،ماشاء اللہ بہت اچھے افسانے لکھے ہیں۔‘‘
’جی میڈم...بحیثیت ایک قاری مجھے بھی ان کے افسانوں نے کافی متاثر کیا۔‘‘
’’انور لکھتے تو بہت تھے لیکن ان کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ کبھی بھی اپنی چیزوں کی حفاظت نہیں کی۔ ‘‘
’اچھا!‘ ( یہ لفظ بے ساختہ میرے منھ سے کچھ اس انداز سے نکلاجس میں مزید جاننے کی خواہش چھپی ہوئی تھی)
 ’’ہاں! جہاں لکھا وہیں چھوڑ دیا۔کوئی پرواہ نہیں سنبھال کر رکھنے کی۔ ایک بھی چیز انھوں نے حفاظت سے رکھنے کی کوشش نہیں کی‘‘۔
(میں خاموشی سے سر ہلاتا جاتا تھا اور ان کی ایک ایک بات توجہ سے سنتا جاتا تھا۔)
’’میں کیا بتائوں جب میں نے ان کے افسانے جمع کرنے شروع کیے تو میرے سر کے بال سفید ہو گئے‘‘
’’ہاہاہاہا...‘‘( ہم دونوں نے ہلکی آواز میں ہنستے ہوئے ایک دوسرے کی طرف دیکھا)۔
’’میڈم آخر کیا وجہ رہی کہ اتنے اچھے افسانے لکھنے کے باوجود انھیں ادبی دنیا میں وہ مقام نہیں ملا جس کے وہ حقدار تھے؟‘‘ ( میں نے سوال کیا)
’’یہ بات آپ نے صحیح کہی۔ انھیں ادبی دنیا میں ان کا حق نہیں ملا۔اس کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ ان کے بعد لوگوں نے ان کی طرف توجہ نہیں دی۔یار دوست بھی غافل ہو گئے۔اور کچھ میرا بھی قصور ہے۔ میں تو اپنے آپ کو انور عظیم کا گنہگار مانتی ہوں کہ میں اس کے لیے کچھ نہ کر سکی۔‘‘
’’نہیں میڈم ایسا نہیں ہے۔۔آپ نے تو پھر بھی بہت کچھ کیا...شاید آپ کا ساتھ دینے والے لوگ نہیں ملے‘‘۔( میں نے یہ بات کچھ اس انداز سے کہی کہ انھیں جذباتی ہونے سے بچایا جا سکے، کیوں کہ یہ بات کہتے ہوئے ان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے)
’’ ہاں یہ بات صحیح کہی آ پ نے۔ان کے کام کو آگے بڑھانے والے لوگ نہیں ملے مجھے۔۔بلکہ لوگوں نے ان کے ساتھ بہت برا کیا...اب میں نام نہیں لوں گی لیکن یہ سچ ہے کی ان کی کتنی ہی چیزیں لوگوں نے غائب کر دیں۔‘‘
’’اچھا !!!میڈم کیا اس سے آپ کی مراد یہ ہے کہ لوگوں نے ان کی تخلیقات اپنے نام سے شائع کرا دیں؟‘‘
’’نہیں اس کے امکانات بہت کم ہیں۔وجہ یہ ہے کہ انور جو بھی لکھتے تھے اس کی اتنی شہرت ہو جاتی تھی کہ پھر دوسرے نام سے اسے چھپوانا یا چوری کرنا مشکل ہے‘‘۔
’’اچھا اگر ایسا نہیں ہے تو پھر غائب کرنے یا چرانے کی دوسری وجوہات کیا ہیں؟‘‘
’’بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں...ممکن ہے ان کے دل میں کوئی ذاتی خلش رہی ہو۔یا اور بھی کوئی وجہ ہو سکتی ہے۔ مجھے تو معلوم نہیں آپ نے ان کی کون کون سی کہانیاں پڑھی ہیں...ان کی کئی کہانیاں تو بہت دلچسپ ہیں‘‘
میں نے افسانوی مجموعہ ’اجنبی فاصلے‘ ان کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا:’’ ا س مجموعے کی تمام کہانیاں پڑھ لی ہیں میڈم۔‘‘
’’اچھا اچھا!...یہ پڑھا آپ نے’ آنگن کی دھوپ‘‘؟
 ’’جی میڈم!مجھے تو لگتا ہے یہ شاہد کپور اور آپ کی پوتی میگھاپر لکھی گئی کہانی ہے۔‘‘
’’Exactly۔۔آپ نے بالکل صحیح کہا۔اس کہانی کے مرکزی کردار وہی دونوں ہیں۔اور’’ مردہ گھوڑے کی آنکھیں؟‘‘...کیا زبردست کہانی ہے۔اسی طرح ’سفید آنکھیں‘۔ اور ’ہانپتے کانپتے لوگ ‘پڑھی ہے آ پ نے؟
’جی میڈم  میں نے یہ تمام کہانیاں پڑھی ہیں۔اور موضوع کے ساتھ ساتھ اسلوب بیان نے مجھے کافی متاثر کیا ہے۔
’’ارے کیا غضب کی کہانی ہے ’’دھرتی کا بوجھ‘‘... بہت اچھی کہانی ہے...انور لکھتے بہت اچھا تھے‘‘۔
کہانیوں سے متعلق باتیں کرتے کرتے وہ چپ ہو گئیں۔پھر تھوڑی دیر خاموشی رہی۔ اکثر ایسا ہوتا تھا کہ ایک دو باتیں کرنے کے بعد وہ کچھ سوچنے لگتی تھیں۔جیسے کچھ تلاش رہی ہوں۔
تھوڑی دیر بعد میں نے ایک اور سوال کیا ’’ میڈم! انور عظیم کے دوستوں کا حلقہ کافی وسیع معلوم ہوتا ہے۔ کون کون تھے ان کے خاص ملنے جلنے والوں میں؟
’’ارے وہ تو ہمیشہ دوستوں ہی کے بیچ رہتے تھے۔ گھومنے پھرنے کا اتنا شوق کہ کوئی مل گیا تو دو دو،تین تین دن گھر سے غائب۔میں ڈھونڈھتی پھرتی تھی کہاں گئے۔سجاد ظہیر،خواجہ احمد عباس،اخترالایمان، کیفی اعظمی، راجندر سنگھ بیدی، کرشن چندر، رتن سنگھ،شمیم حنفی اور بلراج مینرا وغیرہ سے تو بہت گہری دوستی تھی...کبھی بھی کوئی دوست گھر آجاتا تو دروازہ کھولتے ہی انور کے دونوں ہاتھ یوں پھیل جاتے(اپنے دونوں بازؤوں کو وا کرتے ہوئے اشارہ کیا)اور آنے والے کو اپنی بانہوں میں بھر لیتے... یہ کہتے ہوئے کہ’’ارے!! آپ آ گئے...میں نے توسوچا بھی نہیں تھا... آئیے آئیے...اندر تشریف لائیے‘‘... اس طرح سے ان کے ملنے جلنے والے اور بھی بہت لوگ تھے...اب تو میرا ذہن بھی کام نہیں کرتا... اور نا ہی کسی سے مل پاتی ہوں...اس لیے دھیرے دھیرے وہ تمام یادیں ختم ہوتی جا رہی ہیں‘‘۔
’’ میڈم انور عظیم کی افتاد طبع کے متعلق کیا خیال ہے۔وہ ہنسی مزاق بھی کرتے تھے یا سنجیدہ رہتے تھے؟
’’ارے انور تو بہت مزاقیہ انسان تھے۔خوب ہنساتے تھے سب کو۔ لیکن آخر میں تھوڑا پریشان رہنے لگے تھے اور پہلے جیسے نہ رہے تھے۔‘‘
میڈم میں نے پڑھا ہے کہ وہ رسم و رواج اور بناؤ سنگار کو پسند نہیں کرتے تھے۔اس کے متعلق کیا خیال ہے آپ کا؟
’’بالکل۔۔وہ کبھی بھی ان سب چیزوں کی طرف دھیان نہیں دیتے تھے۔ شادی بیاہ میں جانے کے لیے بھی سادے کپڑے پہن کر نکل پڑتے تھے۔ایک مرتبہ میں نے بہت اصرار کیا کہ اچھے کپڑے پہن لیجیے۔تو کہنے لگے میرا ایک اچھا سا جوڑا نکال لو اور لے جا کر وہاں ٹانگ دینا...کوئی پوچھے تو بتا دینا یہ انور عظیم ہیں... اور میں نہیں جائوں گا۔‘‘
ہاہاہاہا...(مجھے یہ بات سن کر ہنسی آ گئی)
میڈم انور عظیم نے ناول اور ڈرامے بھی لکھے ہیں۔  ان کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
’’ہاں ہاں! انھوں نے کئی ناول لکھے اور ڈرامے تو بہت اچھے لکھے ہیں۔ ان کے ڈرامے کئی جگہ اسٹیج کیے گئے اور ریڈیو پر پڑھے گئے۔ ’’جھلستے جنگل‘‘ ان کا کتنا شاندار ناول ہے۔( اس ناول پر خدیجہ عظیم کا ایک تجزیہ بھی ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا میرے پاس موجود ہے جو انھیں کی دی ہوئی کتابوں میں مخطوطے کی شکل میں موجود تھا)۔
میڈم! انور عظیم کی ترجمہ نگاری کے متعلق کچھ بتائیے انھوںنے کئی فن پاروں کے ترجمے کیے ہیں۔ خاص طور پر روسی زبان سے۔
’’ہاں انھوں نے ترجمے بھی کیے ہیں۔کچھ ترجمے ہم دونوں نے مل کر کیے ہیں۔ روسی زبان انور عظیم سے اچھی مجھے آتی تھی۔میں نے اننا کارنیا جیسے فن پاروں کو اردو میں منتقل کیا۔انور نے میکسم گورکی کے سرمائے کو اردو میں منتقل کیا...اس طرح کام تو انور نے بہت کیے ہیں‘‘
میڈم! کیا انور عظیم نے کبھی بحیثیت استاد خدمت انجام دی ہے؟
’’ نہیں۔وہ کبھی ٹیچر نہیں رہے۔۔انھوں نے اخباروں میں کام کیا۔ بلٹز کی ادارت کی۔ قومی آواز میں لکھتے رہے اس کے علاوہ دیگر علمی،ادبی و صحافتی مصروفیات رہیں لیکن ٹیچنگ انھوں نے نہیں کی۔
 میڈم! انور عظیم اصلاً کہاں کے رہنے والے تھے۔ اور ان کی زندگی کا زیادہ وقت کہاں صرف ہوا؟
’’وہ بہار کے رہنے والے تھے۔ان کی تعلیم بھی بہار ہی میں ہوئی۔ان کے والد ’بدر الدین احمد ‘ایک ڈاکٹر تھے۔انور بعد میں دہلی آ گئے تھے...وہ کلکتہ میں بھی رہے، کلکتے میں میں ان کے ساتھ نہیں تھی۔ ممبئی میں بلٹز پیپر کی ادارت کے دوران میں ان کے ساتھ رہی... پھر روس بھی انھیں کے ساتھ جانا ہوا،جہاں ہم لوگوں نے پانچ سال گزارے... وہیں رہ کرہم نے روسی زبان سیکھی۔ اس کے بعد وہ دہلی میں جامعہ ملیہ اسلامیہ سے بھی وابستہ رہے۔ اخیر عمر میں ان کا قیام بھی یہیں رہااوران کا انتقال بھی دہلی ہی میں ہوا۔‘‘
میڈم: آپ کا آبائی وطن کہاں ہے؟ اور آ پ کے بھائی بہنوں میں کون کون ہیں؟
’’میں اصلاََپانی پت کی رہنے والی ہوں۔میرے والد ’سید محمد مستحسن زیدی ‘کا انتقال ہو چکا تھا اور پھر... تقسیم ہند کے بعد ہم لوگ اپنی ا ماں’ بیگم مختار فاطمہ زیدی‘ کے ساتھ علی گڑھ آ گئے...میری پانچ بہنیں تھیں... صابرہ، ساجدہ، زاہدہ، شاہدہ اور میں سب سے چھوٹی خدیجہ... ہماری اماں شیعہ مذہب کو مانتی تھیں او رخوب مجلسیں پڑھتی تھیں۔... وہ بہت اچھی اردو جانتی تھیں اور شاعرہ بھی تھیں(’چراغ تہ داماں ‘ان کا شعری مجموعہ ہے جسے جابر حسین نے خدیجہ عظیم کی مدد سے مرتب کرکے شائع کیا ہے، اس کا’ ٹائٹل نیم‘ انور عظیم نے ہی منتخب کیا تھا)... صابرہ کا تو جلد ہی انتقال ہو گیا تھا۔شاہدہ نے ایک ہندو سے شادی کر لی۔ساجدہ نے قیصر حسین زیدی سے شادی کی... زاہدہ نے شادی ہی نہیں کی... اور میری شادی انور سے ہو گئی‘‘۔میڈم ایک ایک بات بہت ٹھہر ٹھہر کر بول رہی تھیں اور میںخاموشی سے سنتا جا رہا تھا انھوں نے پھر کہنا شروع کیا:
 ’’جب انور سے میری شادی لگی تو خوب ہنگامہ ہوا۔لوگوں نے کہا انور تو سنّی ہے اور ہم لوگ شیعہ ہیں، لیکن میری اماں نے کہا یہ سب کچھ نہیں... بس لڑکا اچھا ہونا چاہیے... تو ان کی مرضی سے ہم لوگوں کی شادی ہو گئی... شادی کا ایک دلچسپ قصہ سناتی ہوں... جب نکاح کا وقت قریب آیا تو ایک عورت نے مجھ سے آ کر کہا کہ زیادہ مت بولنا،خاموش ہی رہنا، بس صرف ہاں کر دینا۔ میں نے کہا ٹھیک ہے۔پھر جب سب لوگ نکاح پڑھانے آئے تو میں کچھ بول ہی نہیں رہی تھی... وہ لوگ پوچھا کیے میں چپ چاپ بیٹھی رہی... نئی نویلی دلہن کی طرح شرماتی ہوئی... اسی بیچ انھیں میں سے کسی نے کہا: ’’یہ کیا بے وقوفی ہے،تم کب سے شرمانے لگی۔۔تم تو پڑھی لکھی ہو‘‘...تب میں بول پڑی اور کہا:’’میں کہاں شرماتی...مجھے تو ایسا ایسا کرنے کوکہا گیا ہے ‘‘... پھر سب لوگ خوب ہنسے۔‘‘(مجھے بھی میڈم کا یہ قصہ سن کرہنسی آگئی...اور پھر تھوڑی دیر تک خاموشی رہی)
اچھا میڈم! یہ بتائیے نیلیما عظیم فلمی دنیا کی طرف کیسے گئیں؟ اور کیا انور عظیم انھیں سپورٹ کرتے تھے؟
’’ہاں انور بھی سپورٹ کرتے تھے۔وہ تو بہت آزاد خیال تھے... اور پھر نیلیما کی شروع ہی سے ڈانس میں دلچسپی تھی۔ کتھک میں اس نے مہارت حاصل کی۔ پھر اس نے اپنا راستہ خود بنایا۔ اسی طرح وہ دھیرے دھیرے ٹی وی دنیااور فلمی دنیا میں پہنچ گئی۔‘‘
میڈم اپنے ناتی ’’شاہد کپور ‘اور ’ایشان کھٹّر‘ کے بارے میں کیا خیال ہے؟ یہ لوگ اپنے نانا کو جانتے ہیں یا نہیں؟
’’ہاں ہاں بالکل، شاہد تو اپنے نانا کا بہت چہیتا تھا۔ وہ اسے انگلی پکڑ کر اسکول لاتے لے جاتے تھے۔ اور فلمی دنیا میں جانے کے بعد بھی وقت نکال کر شاہد ان سے ملنے آتا تھا۔بٹ’’ ایشان‘‘ Ishan is a very loving boy ...بہت پیارا بچہ ہے وہ...میں اس کے برتھ ڈے پر اس کے لیے شاعری لکھ کے دیتی ہوں۔ وہ مجھے بہت مانتا ہے۔وہ بہت پیارا بچہ ہے۔دہلی جب بھی آتا ہے مجھ سے ضرور ملتا ہے۔میرا  بہت خیال رکھتا ہے۔‘‘
میڈم آپ کے کتنے بیٹے بیٹیاں ہیں؟
’’میرا بس ایک بیٹا احمر ندیم انور ہے۔۔گھر پر اسے ہم لوگ ’پاشا‘ کہتے ہیں۔اپنے اسی بیٹے اور بہو پیملا انورکے ساتھ میں یہاں رہتی ہوں۔دونوں کالج میں پروفیسر ہیں۔ باقی میری ایک بیٹی نیلیما عظیم ہے جسے ہم ’کنول‘ کہہ کر پکارتے ہیں۔ وہ ممبئی میں رہتی ہے۔
 میڈم! آپ کے خاندان میں کئی طرح کے لوگ دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔
’’جی! میرے خاندان میں ہر رنگ آپ کو مل جائے گا۔میرا خاندان پچ رنگی ہے۔ کوئی بہار سے ہے تو کوئی پانی پت سے۔میری بہو پیملا انورکشمیر کی ہے۔ میری ایک بہن نے غیر مسلم سے شادی کی۔ خود میری شادی سّنی کے ساتھ ہوئی۔میری بیٹی کنول نے بھی اپنی مرضی سے شادی کی... تو ہمارے یہاں ذات پات،اور مذہب نہیں دیکھا جاتا ہے۔ہم بس اپنی مرضی سے کرتے ہیں جو بھی کرتے ہیں۔ ہمارے گھر میں عیسی مسیح کی تصویر بھی ہے۔ بعض لوگوں کو اعتراض ہوا کہ یہ کیا ہے۔میں نے کہا میری مرضی...مجھے پسند ہے، میں رکھتی ہوں... اس کا مطلب یہ تھوڑی کہ ہم عیسائی ہیں...بس ہمیں جو اچھا لگتا ہے ہم کرتے ہیں۔یہ سب ہماری اپنی پسند ہے۔آدمی کو ایک اچھا انسان ہونا چاہیے بس۔‘‘
گفتگو کے دوران ہی وہ میرے ہاتھوں کے سہارے ایک دوکمروں میں گئیں جہاں وہ اپنی کتابیں تلاش کر رہی تھیں۔ لیکن کتابیں نہ مل سکیں۔بالآخر جب وہ تھک کر بیٹھ گئیں تو میں نے کام کرنے والی آنٹی سے پوچھا : آنٹی! کیا کہیں کچھ کتابیں رکھی ہیں اردو کی؟ میڈم تلاش کر رہی ہیں‘‘۔ انھوں نے کچھ دیر تک سوچا پھر ایک کمرے میں کونے پر رکھی کچھ کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولیں۔اس میں دیکھ لو یہ تو نہیں ہیں، بھابھی نے ردی پیپر خریدنے والے کو دینے کے لیے یہ سب نکال کر رکھا ہے۔وہ کل ہی اٹھانے آنے والا تھا لیکن ابھی آیا نہیں ہے۔
میں نے وہاں جا کر دیکھاکچھ کتابیں ایک کونے میں فرش پر رکھی ہوئی تھیں۔ خدیجہ میڈم بھی میرا ہاتھ پکڑ کر وہاں تک آ گئیں۔وہ ساری کتابیں اردو کی تھیں۔وہی کتابیں جن پر انور عظیم یا خدیجہ عظیم کا ہاتھ پڑا تھا۔ کتابوں کو دیکھ کر خدیجہ میڈم نے کہا :’’آپ بہت اچھے وقت پر آ گئے ورنہ میں پوری زندگی روتی رہ جاتی... اور مجھے پتہ بھی نہ چل پاتاکہ میری کتابیں کیا ہوئیں‘‘۔میں ایک ایک کتاب اٹھا کر انھیں دکھاتا رہا۔وہ ہر کتاب کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرتی رہیں،پھرانھوں نے ان تمام کتابوں کو میرے حوالے کرتے ہوئے اور میری پیٹھ تھپتھپاتے ہوئے کہا :’’ آپ خوش قسمت ہیں جو آپ کو یہ کتابیں مل گئیں،اور میں خوش قسمت ہوں کہ مجھے تم مل گئے۔تم نے میرا کام آسان کر دیا۔ ان کتابوں کو اب تم سنبھالو اور کام کو آگے بڑھائو‘‘۔میرا دل خوشی سے بھر گیا۔ اورمیں نے دل کی گہرائیوں سے میڈم کا شکریہ ادا کیا۔
 یہ تقریبا 30,35 کتابیں تھیں۔ان میں سے کچھ کتابیں میں نے بیگ میں رکھی اور بقیہ کا ایک بنڈل بنا لیا۔ کچھ انور عظیم کے تراجم تھے اور کچھ خدیجہ عظیم کے۔ باقی فکشن کی اردو انگریزی کی متعدد کتابیں تھیں۔ ان میںکچھ ایسی کتابیں بھی تھیں جومصنّفین کی جانب سے انور عظیم کو تحفتاً پیش کی گئیں تھیں۔ کسی ادیب کے گھر سے اس سے بڑا تحفہ اور کیا مل سکتا ہے،میں خوش قسمت سمجھتا ہوںاپنے آپ کو کہ یہ تحفہ میرے حصے میں آیا۔
اب وقت کافی ہو چکا تھا۔ میڈم کی بہو پیملا اور بیٹا پاشابھی کافی پہلے گھرآ چکے تھے۔ اسی بیچ ان کی بہو نے آکرکہا: ’’میڈم نوے سال کے اوپر چل رہی ہیں۔اس لیے انھیں زیادہ دیر تک بٹھانا ٹھیک نہیں۔۔آپ تھوڑا تھوڑا کر کے پوچھ لیجیے‘‘مجھے یہ بات سنتے ہی اپنے آپ میں بہت شرمندگی ہوئی اور سوچا واقعی مجھے اتنی دیر تک نہیں بیٹھنا چاہیے تھا۔ لیکن میں بھی مجبور تھا۔کیوں کہ میں نے کئی مرتبہ اٹھنے کی کوشش کی لیکن خدیجہ میڈم نے ہر بار بٹھا لیا۔مجھے پوری ملاقات میں ایسا محسوس ہوا کہ وہ مجھ سے نہیں بلکہ اپنے کسی بچھڑ کر ملنے والے بیٹے سے باتیں کرر ہی ہیں۔ پوری گفتگو کے دوران ان کے چہرے پر مسکراہٹ اور بشاشت تیرتی رہی۔ایسا لگ رہا تھا جیسے آج ایک مدت کے بعد انھیں کسی سے اپنے مطلب کی گفتگو کرنے کا موقع ملا ہے۔اور وہ اپنی ساری باتیں کہہ دینا چاہتی ہیں۔(کسے خبر تھی کہ واقعی ان کے پاس وقت بہت کم ہے اور ان کی باتیں سننے والا کوئی نہیں)انھوں نے یہ بھی کہا کہ آپ چاہیں تو یہاں آرام کر سکتے ہیں۔پھر کھانا کھا پی کر جائیے گا۔لیکن اب اور تاخیر کرنے کی نا مجھ میں ہمت تھی اور نا ہی مناسب تھا۔ اس لیے میں نے خدیجہ میڈم سے با دل ناخواستہ اجازت لے لی۔جاتے جاتے انھوں نے پھر چائے منگا کر پلا ئی۔چائے پی کر میں نے اپنا بیگ اور کتابوں کا بنڈل اٹھایا۔اور میڈم کی دعائیں لیتا ہوا فلیٹ سے باہر نکل گیا۔ خدا حافظ کہتے وقت میں نے دیکھا خدیجہ میڈم کی آنکھوں میں ایک اطمینان اور خوشی کی چمک تھی۔ اور میرا دل خوشیوں سے بھرا ہواتھا۔
خدیجہ عظیم سے یہ میری پہلی ملاقات تھی اور جلد ہی دوبارہ ملنے کی حسرت دل میں باقی تھی،لیکن یہ نہیں معلوم تھا کہ اب یہی ملاقات آخری بھی ثابت ہوگی۔دوبارہ احمر ندیم انور پاشا سے ملنے جب میں ان کی رہائش گاہ پر پہنچا(27 نومبر2019) تو رات کے قریب آٹھ بج چکے تھے اور خدیجہ میڈم دوا کھا کر لیٹ گئی تھیں۔طبیعت زیادہ ناساز ہونے کی وجہ سے انھیں جگانا بھی مناسب نہیں تھا۔ گرچہ میرے دل میں کئی بار یہ خواہش پیدا ہوئی کہ ملاقات ہو جاتی تو اچھا تھا۔لیکن کاتب تقدیر نے دوسری ملاقات لکھی ہی کہاں تھی۔
18جنوری 2020 کو مجھے احمر انورپاشا  سرکے ذریعے یہ جانکاہ خبر ملی کہ خدیجہ عظیم اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔ان کا انتقال دو دن قبل 16جنوری 2020 کی دوپہر کو ہوا اور انھیں آئی پی ایکسٹنشن،دہلی کے ایک قبرستان میں سپرد خاک کیاگیا۔ان کی پیدائش15 جون 1931 کو پانی پت میں ہوئی تھی۔ اس اعتبار سے انھوں نے قریب نوے سال کی ایک طویل عمر گزارنے کے بعد اس جہان فانی کو خیر باد کہا۔
خدیجہ عظیم کو اردو اورانگریزی کے ساتھ ساتھ روسی زبان پر بھی عبور حاصل تھا۔ انھوں نے انور عظیم کے ساتھ ماسکو میں پانچ سال قیام کے دوران بہت سے روسی فن پاروں کو اردو میں منتقل کیا اور پھر وہاں سے واپس آنے کے بعد ساہتیہ اکادمی دہلی سے وابستہ ہو کر متعدد ترجمے کیے۔ ان کی شاہکار مترجم کتابوں میں لیو تالستاے کے مشہور زمانہ ناول ’اننا کارنیا‘ اور ولادیمیر کرالنکو کی خود نوشت ’نابینا موسیقار‘کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی انھوں نے متعدد کتابوں کے ترجمے کیے اور تنقیدی و تحقیقی مضامین لکھے۔انھوں نے انور عظیم کی طرح خاموشی سے اردو زبان و ادب کی خدمت کی اور ترجمہ نگاری کے میدان میں لازوال کارنامے انجام دیے۔
خدیجہ عظیم کا ذوق ادبی تھا۔ وہ نہایت ملنسار،خوش خصلت،خوش مزاج اور دوسروں کی مدد کو ہمہ وقت تیار رہنے والی خاتون تھیں، جس کا اندازہ مجھے پہلی ہی ملاقات میں ہو گیا تھا۔اور آج جب ان سے ملنے جلنے والوں کی زبانی ان کا ذکر سنتا ہوں تو اس بات کی مزید توثیق ہو جاتی ہے۔ حق تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے علمی کارناموں کو دوام بخشے۔( آمین)


Faizanul Haque
Abbasi Apartment, R 301/2 Jogabai Ext.
Jamia Nagar, Batla house,
New Delhi-110025
Mobile No: 8800297878


 ماہنامہ اردو دنیا، مارچ  2020




کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں