2019 کا فکشن: ایک جائزہ
اسلم
جمشیدپوری
ادبی تاریخ کا ایک ورق (2019) اور تبدیل ہوا۔ 365 حروف والا
ورق اب ماضی کا حصّہ بن چکا ہے۔ یہ سلسلہ روز ازل سے جاری ہے۔ لمحات، مہ وسال میں اور
پھر برس صدیوں میں تبدیل ہوتے رہے ہیں۔ زمانہ اسی طرح بیکراں سمندر بنتا رہتا ہے۔ گذرتے
وقت میں یاد گار لمحات، روشن ذروں کی طرح اپنی موجودگی درج کراتے رہتے ہیں۔
2020 کا استقبال ہے۔ کبھی گذشتہ برس بھی نیا
تھا، آج ماضی کے سمندر میں ضم ہو چکا ہے۔ ادب کے وسیع وعریض اور عمیق سمندر میں
2019 کے نشانات کا پتہ لگاتے ہیں۔ یہ2019 کے فکشن یعنی افسانہ، ناول اورفکشن پر تحریر
کردہ تنقید کے علاوہ فکشن کے میدان میں ہونے والی سرگرمیوں کا ایک عالمی جائزہ پیش
کرنے کی کوشش ہے۔
2019
میں اردو افسانہ
2019
میں افسانے کا سفر پورے طمطراق کے ساتھ جاری و ساری رہا۔
متعدد افسانہ نگاروں کے نئے مجموعے منظر عام پر آئے۔ پرانے افسانہ نگاروں کے مجموعے
بھی شائع ہوئے۔ مجموعوں کے دوسرے ایڈیشن بھی سامنے آئے۔ فکرت(بشیر مالیر کوٹلوی)،کوچہئ
قاتل کی طرف (شموئل احمد)، مور کے پاؤں (کہکشاں پروین)، جب چیخا اندر کا منظر(سیف الرحمان
عباد)، خوابوں کا قیدی (عشرت ظہیر)، کیاحال ہے جاناں اور قبر میں زندہ آدمی (مشتاق
احمدوانی)، سہ شب کاقصہ (ناصر راہی) گریز پا(لالی چودھری) کیابدن میرا تھا (صبا ممتاز
بانو)، وصل میں مرگِ آرزو(رخشندہ کوکب)، چھتری نما کہانیاں (شعیب خالق) خوابوں کے بند
دروازے (امین الدین بھایانی) اک چپ، سودکھ (آدم شیر) شیر کا احساس (اویناش امن) مجسموں کا شہر (محمد
حنیف خان)، میں (خالد فتح محمد) مجمعے کی دوسری عورت (بشریٰ اقبال ملک)، کتبوں کے درمیان
(حمیرا اشفاق) یوسف جمال (اور پتھر ٹوٹ گیا)، غیاث اکمل (بیاباں سے پہلے)، جاوید نہال
حشمی (کلائڈوسکوپ) ماں (محمد مجیب احمد) اباجان (رونق جمال) سرگذشت (عبدالقاسم علی
محمد) وغیرہ نے سال بھر ایوانِ افسانہ میں ہنگامہ بپا رکھا۔ کچھ افسانوی مجموعوں کا
جائزہ حاضر ہے۔
معروف فکشن نگار شموئل احمد کا تازہ افسانوی مجموعہ ’کوچہئ
قاتل کی طرف‘ کی اشاعت نے فکشن شائقین میں ہلچل مچا نے کا کام کیا ہے۔ دراصل شموئل
احمد کسی نہ کسی تحریر سے ہمیشہ سرخیوں میں رہتے ہیں۔ لنگی کا شور جب تھمنے لگاتو
’کوچہ ئ قاتل کی طرف‘ عصری مسائل پر بے باکانہ تخلیقی اظہارلیے حاضر ہیں۔ مجموعے میں
11 افسانے اور ان کا نیا ناولٹ ’چمراسر‘ شامل ہے۔ (جسے بعد میں الگ کتابی شکل میں شائع
کیا گیا ہے)۔
بشیر مالیر کوٹلوی اردو افسانے کا ایک معتبر نام ہے۔ ان
کے افسانے نہ صرف موضوع اور زبان کے اعتبار
سے اپنے معاصرین میں مختلف ہوتے ہیں بلکہ وہ افسانے کے فن پر بھی زبر دست دسترس رکھتے
ہیں۔ چار دہائیوں سے کچھ زیادہ عرصے سے افسانے کی زلفیں سنوار رہے ہیں۔ گذشتہ برس ایک
ناول ’جسّی‘ کے ذریعے ادبی حلقوں میں دھوم مچا چکے ہیں۔ اس سال ان کا تازہ مجموعہ
’فکرت‘ عرشیہ پبلی کیشنز کے زیر اہتمام منظر عام پر آیا ہے۔ اس سے قبل ان کے پانچ مجموعے
شائع ہو چکے ہیں۔
’فکرت‘
میں ان کے 18 افسانے اور 12 افسانچے شامل ہیں۔ ان کے افسانوں اور افسانچوں میں عصری
حسیت کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ یوں بھی وہ تازہ ترین واقعات کو عمدگی سے افسانے کے قالب
میں ڈھالنے کا ہنر جانتے ہیں۔ مجموعے کے کئی افسانے فکرت، مجبور، خطا وار، آسیب، تائی
لاجونتی، حویلی والا، بامشقت، واویلا، جھوٹا سچ، انفردیت کے حامل ہیں۔ اس مجموعے میں
ایک ڈراما ’ایک لڑکی پاگل سی‘ بھی شامل ہے۔ ان کے کئی افسانچے جنت مکیں، پہچان، نوازش،
جاں کنی، مشورہ،بھی بہت اہم ہیں۔
عشرت ظہیر کا شمار جدید افسانے کے عہد کے افسانہ نگاروں
میں ہوتا ہے۔لیکن عشرت ظہیر نے خود کو پورے طور پر جدید ہونے سے بچایا بھی اور افسانے
میں جدت کو روا بھی رکھا۔ ’خوابوں کا قیدی‘ ان کا تازہ مجموعہ ہے جو ایجوکیشنل پبلشنگ
ہاؤس دہلی سے شائع ہوا ہے۔ اس سے قبل ان کے کئی مجموعے ’اُبھر تی ڈوبتی لہریں‘، ’خوشبوؤں
کا جال‘ وغیرہ شائع ہو چکے ہیں۔
عشرت ظہیر کے افسانے گہری فکر اور فلسفے کو عمدگی سے لفظوں
کا پیراہن عطا کرتے ہیں۔ ’خوابوں کا قیدی‘
ان کابھر پورا فسانہ ہے۔ افسانے میں تجسس و تحیر کی فضا کثیف ہوتے ہوتے خواب ناک ہو
جاتی ہے، لیکن دراصل یہ حقیقت کا ایک پرتو ہے جو قاری کے ذہن پر خواب جیسی کیفیت طاری
کرتا ہے۔ پورا افسانہ خواب، سنہرے خوابوں کو سچ کرنے کی تگ و دو میں زندگی سے آنکھیں
چار کرنے کی کہانی ہے۔
معروف افسانہ نگار سیف الراحمن
عباد کا پانچواں مجموعہ ’جب چیخا اندر کا منظر‘ شائع ہو کر مقبول ہوا۔ تقریباً
20-25 برس قبل ایک ایسا زمانہ تھا جب اُردو کے ادبی رسائل میں سیف الرحمن عباد کے افسانے
تو اتر کے ساتھ شائع ہوا کرتے تھے۔ پھر ایک زمانہ ایسا آیا جب سیف الرحمن عباد نے گوشہ
نشینی اختیار کر لی۔ بہت دنوں بعد ان کا تازہ مجموعہ منظر عام پر آیا ہے۔
سیف الرحمن عباد کے افسانے ہمارے آس پاس کے واقعات و حادثات
کا فنکارانہ بیان ہوتے ہیں۔ عصری حسیت، ان کے افسانوں کا خاص وصف ہے۔ زندگی کی معنویت
اورفلسفہ بیان کرتے ہوئے وہ ہنر مندی سے افسانے تخلیق کرتے ہیں۔
مجموعے میں ایک درجن افسانے شامل ہیں جب چیخا اندر کا منظر،
دو ہاتھ پال کے، بٹ گئی جب زمین، خود پہ ہی ٹوٹا طلب کا آسمان، رات ڈھلی شبنم روئی،
مجموعے کے اہم افسانے ہیں۔ شیطان کون، ایک افسانچہ بھی مجموعے کی زینت ہے۔
’مور
کے پاؤں‘ جھارکھنڈ کی معروف افسانہ نگار ڈاکٹر
کہکشاں پروین کا تازہ مجموعہ ہے۔ اس سے قبل اُن کے چار افسانوی مجموعے ’ایک مٹھی دھوپ‘
دھوپ کا سفر، سرخ لکیریں اور ’پانی کا چاند‘شائع ہو کر مقبول ہو چکے ہیں۔ ان کے افسانوں
میں جھارکھنڈ کے مسائل خصوصاً خواتین کے مسائل کی گونج صاف سنا ئی دیتی ہے۔ مور کے
پاؤں، میں ان کے 31 افسانے شامل ہیں۔
کہکشاں پروین کا یہ مجموعہ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی
سے عمدہ کا غذ اور کور پیج کے ساتھ شائع ہوا ہے۔ مجموعے کے کئی افسانے ایک مٹھی دھوپ،
دھوپ کا سفر، آسمان کا چاند، دائرہ، اڑان، کھیل کھیل میں، ٹھنڈی چائے، دھوپ چھاؤں،بہت
اچھے ہیں۔
’جڑوں
کی تلاش‘ جموں وکشمیر کے مقبول فکشن نگار، دیپک بدکی کے افسانوں کاتازہ مجموعہ ہے۔
دیپک بدکی نئے افسانے کاایک منفرد نام ہے۔کشمیر کے حالات، زمین سے جڑاؤ اور فن پر دسترس
سے ان کے افسانوں میں ایک خاص کشش پائی جاتی
ہے۔ ساتھ ہی مکالموں اور بیانیہ میں مقامی رنگ کی موجودگی، انھیں دوسروں سے الگ کرتی
ہے۔ادھورے چہرے، زیبرا کراسنگ، اب میں وہاں نہیں رہتا، جیسے افسانوی مجموعے ان کی شناخت
ہیں۔ ’جڑوں کی تلاش‘ میں ان کے بیس افسانے
اور ایک ڈرامہ ’روح کے زخم بھی شامل ہے۔ ’جڑوں
کی تلاش‘ ہجرت کا افسانہ ہے۔اپنی زمین میں اپنی جڑوں کی تلاش کا افسانہ ہے۔افسانے میں
زندگی کا ایک ایسا دردہے جو ہر لمحے انسا ن کو کچوکے لگاتا رہتا ہے۔
ڈاکٹر مشتاق احمدوانی کا تازہ افسانوی مجموعہ ’کیا حال ہے
جاناں‘ ابھی شائع ہوا ہے۔ یہ ان کا پانچواں افسانوی مجموعہ ہے۔ اس سے قبل ان کے چار
افسانوی مجموعے ہزاروں غم 2001، میٹھازہر
2008، اندر کی باتیں 2015، قبر میں
زندہ آدمی 2019 شائع ہو چکے ہیں۔ مشتاق احمد وانی کے افسانوں کا مجموعی وصف کشمیری
عوام کے مسائل، ان کی زندگی کے نشیب و فراز
کی عکاسی ہے۔ تانیثیت کے حوالے سے بھی ان کے کئی افسانے منظر عام پر آچکے ہیں۔مجموعہ
ہٰذا کا ٹائٹل افسانہ بھی خواتین کے مسائل کے پیشِ نظررلکھا گیا ہے۔ افسانے میں زندگی
کے فلسفے کا بیان ہے تو میاں بیوی کے درمیان اولاد نرینہ کو لے کر پیدا ہونے والی پیچید
گی بھی موجود ہے۔
ایجوکیشنل پبلشنگ
ہاؤس سے مطبوعہ اس مجموعے میں کئی افسانے سماج، غشی، ڈراؤنی آوازیں،، انو کھا
رشتہ، ریٹ لسٹ، وغیرہ اچھے افسانے ہیں۔
جموں وکشمیر کے نوجوان افسانہ نگار ڈاکٹر ریاض توحیدی کے
دو افسانوی مجموعے ’کالے پیڑوں کا جنگل‘ اور ’کالے دیووں کا سایہ‘ ایک ساتھ ایک ہی
جلد میں شائع ہوئے۔ یہ ان دونوں مجموعوں کا دوسرا ایڈیشن ہے جو 2019 میں میزان پبلشرز،
سری نگر سے شائع ہوا ہے۔ یہ ایک نیا تجربہ ہے۔ ریاض توحیدی نئے نئے تجربات کرتے رہتے
ہیں۔ اُن کے زیادہ تر افسانوں میں کشمیری عوام کی دردناک زندگی، تشدد، افواج کے ظلم
و ستم اور بے بس و مجبور افراد کے قصے ملتے ہیں۔ ان کے یہاں علامتیں اور تشبیہات و
استعارات کا بھی ایک نظام ملتا ہے۔
ریاض توحیدی کی اس کتاب میں دیگر کئی افسانے توجہ کے مستحق
ہیں۔ مثلاًنا کہ بندی،نشیب و فراز، قتل، قاتل اور مقتول، ڈپریشن، ہائی جیک، بہشت کی
پکار، جنازے، دوشالہ، گلہ قصائی، کالے دیووں کا سایہ، خوف وغیرہ ایسے افسانے ہیں جن
کے عنوانات ہی ایک پس منظر پیش کرتے ہیں۔ کتاب میں تقریباً 39 افسانے شامل اشاعت ہیں۔
’سہ
شب کا قصہ‘جمشید پور سے تعلق رکھنے والے شاعر، افسانہ نگار ناصر راہی کا پہلا افسانوی
مجموعہ ہے۔ ناصر راہی 1980 کے بعد اُبھرنے والی نسل کے ایک ممتاز افسانہ نگار ہیں۔
کافی زمانے سے افسانے لکھ رہے ہیں۔ شاعر بھی ہیں، اس لیے پہلے نظموں کا مجموعہ
2006 میں لائے، بعد میں افسانوں کویکجا کیا۔
ناصر راہی کے افسانوں میں جدیدیت کا رنگ واضح طور پر نظر
آتا ہے۔ ان کے افسانوں میں متعدد تہیں ہوتی ہیں۔ تجسس اور تحیر سے بھر پور افسانوں
کا ایک خاص وصف ان کی زبان ہے۔
کتاب دار، ممبئی سے شائع ہونے والا مجموعہ ’سہ شب کا قصہ‘
بشمول سرورق، بہت دیدہ زیب ہے۔ مجموعے میں کل 13 افسانے شامل ہیں، ٹائٹل افسانہ ’سہ
شب کا قصہ‘ اہم افسانہ ہے جس میں ناصرراہی نے جنسی لذت کی شکار بہو کی اندھیروں کی
حرکات و سکنات کے دھندلے مناظر اور سر گوشیوں سے پیچ و تاب کھانے والے سسر کی نفسیات
کو عمدگی سے پیش کیا ہے۔ مجموعے کے کئی افسانے مرد ِ خدا، بلی لوٹن، القصہ، رات کا
آخری پہر، چھومنتر، آدمی نامہ ایسے افسانے ہیں جن پر تفصیل سے گفتگو ہونی چاہیے۔
’گریز
پا‘ یو ایس اے کی معروف افسانہ نگار، سفر نامہ نگارلالی چودھری کا افسانوی مجموعہ ہے۔
جسے موڈرن پبلشنگ ہاؤس، دہلی نے شائع کیا ہے۔لالی چودھری کا یہ دوسرا افسانوی مجموعہ
ہے۔ اس سے قبل ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’حد چاہیے سزا میں‘ ہندو پاک میں خاصامقبول
ہوا۔ ان کے مختلف سفر نامے بھی افسانوی رنگ لیے ہوئے ہیں۔ جو ’لالی چودھری کے سفر نامے‘
کے عنوان سے ڈاکٹر رفیعہ سلیم نے مرتب کیے ہیں۔
لالی چودھری کے افسانے بھی ان کے سفرناموں کی طرح بہت مختلف
و منفرد ہیں۔ وہ اپنے محصوص لب و لہجے میں کہانیاں بیاں کرتی ہیں۔ ان کے موضوعات عصمت
چغتائی کی طرح متوسط طبقے کی زندگی کے مسائل ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ امریکہ، یورپ وغیرہ
میں ہندو پاک کے مہاجرین کی زندگی کو بھی خصوصیت کے ساتھ موضوع بناتی ہیں۔ یہی نہیں
ان کی زبان بھی عصمت چغتائی کی طرح بیگماتی زبان کی یاد دلاتی ہے۔
’گریزپا‘
میں ایک درجن افسانے شامل اِشاعت ہیں۔ ہر افسانہ موضوع، ٹریٹمنٹ اور اسلوب کے اعتبار
سے الگ نوعیت کا ہے۔ کئی افسانے خاصا متاثر کرتے ہیں۔ گریزپا، تھینک گڈنیس، کھٹ مٹھا
رشتہ، پابہ زنجیر، کوگر، بدلت مراسم وغیرہ ایسے افسانے ہیں جو دیار غیر میں انسانی
زندگی کے نشیب و فراز کو عمدگی سے پیش کرتے ہیں۔ تھینک گڈنیس او ر کھٹ مٹھا رشتہ پڑھ
کر آپ عصمت چغتائی کو یاد کریں گے۔ کھٹ مٹھا رشتہ میں، ٹیڑھی لکیر، کی طرح گرلز ہاسٹل
کے رومان، کزنس کی شوخیاں اور بے تکلف زبان کا استعمال ملتا ہے۔
’مجسموں
کا شہر‘ نودارد افسانہ نگار محمد حنیف خان کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے۔ انھوں نے موجودہ
صدی کی دوسری دہائی سے ہی افسانہ نگاری کا آغاز کیا۔ محمد حنیف خان کے بیانیہ کا کمال
ہے کہ وہ قاری کو نہ صرف باندھ لیتا ہے بلکہ اپنے ہمراہ لیے چلتا ہے۔ ان کی متعدد کہانیوں
میں قصّے کا طلسم، اساطیر اور حیرت انگیزی ملتی ہے۔ ان کو زبان پر دسترس ہے اور واقعہ
بیان کرنا بھی جانتے ہیں۔ ’مجسموں کا شہر‘ ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سے شائع ہوا
ہے، جس میں کل 17 افسانے شامل ہیں۔ نمائندہ افسانوں میں منگل مکھی،کوڑے والی، کھنڈر
سے آتی آوازیں، مجسموں کا شہر، دوسمتوں کے مسافر، گل رخ اور مارزنداں کا شمار ضرور
ہونا چاہیے۔ ان میں سے کئی ایک میں کردار نگاری بھی عمدہ ہے۔
اڑیسہ کی سرزمین سے تعلق رکھنے
والے معروف شاعر، افسانہ نگار یوسف جمال کا پہلا افسانوی مجموعہ ’اورپتھر ٹوٹ گیا‘،
ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سے شائع ہوا ہے۔ مجموعے میں کل تیس افسانے بشمول افسانچے
شامل ہیں۔ان میں ابتدائی 12 افسانے یوسف جمال کے اپنے طبع زاد ہیں اور دو افسانچے بھی،
بقیہ افسانے اور افسانچے ترجمہ شدہ ہیں۔ جنھیں یوسف جمال نے عالمی زبانوں اور ہندوستان
کی مقامی زبانوں سے اُردو میں ترجمہ کیا ہے۔ ظاہر ہے انھوں نے انگریزی سے یا ہندی کے توسط سے یہ ترجمے کیے ہیں۔
یوسف جمال خود پرانے افسانہ نگار ہیں۔ انھوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز 1964 میں کیا تھا۔ متعدد
ناول اور بے شمار افسانے تحریر کیے، لیکن مجموعے کی طرف توجہ نہیں کی۔ اب ان کے افسانوں
کے انتخاب کا ایک مجموعہ ’اور پتھر ٹوٹ گیا‘ کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔
دسترس پبلی کیشنز دھنباد سے معروف افسانہ نگار غیاث اکمل
کا دوسرا مجموعہ ’بیایاں سے پہلے‘ شائع ہوا ہے۔ غیاث اکمل ہمارے سینئر افسانہ نگار
ہیں۔ ان کا پہلا مجموعہ 2015 میں ’ڈھلان پر رکے ہوئے لوگ‘ منظر عام پر آچکا ہے۔ غیاث
اکمل، فائرایریا والے الیاس احمد گدی کے علاقے جھریا کے رہنے والے ہیں۔ الیاس احمد
گدی کے ناول کی طرح غیاث اکمل کے افسانوں میں بھی کوئلہ کانوں کے سماجی اور معاشی مسائل،
مزدوروں کی زندگی اور انتہائی پسماندہ افراد کی آواز کو عمدگی سے پیش کیا ہے۔ اس مجموعے
میں ان کے تقریباً 17 افسانے شامل ہیں۔ ان میں سے زبادہ تر افسانوں میں کولیری انتظامیہ
کی سیاست، ایجنٹ حضرات کی تگڑم، مزدوروں کا استحصال، زہریلی گیس کا رساؤ اوردم توڑتے
انسان جا بہ جا نظر آتے ہیں۔
مجموعے کے کئی افسانے اہم ہیں۔ خصوصاً وہ ایک سیاہ لمحہ،
خوف، رام اوتار، احساس کی صلیب، قصّہ تمام، دردِ لا دوا، وِش پان، حنوط شدہ سچ، ایسے
افسانے ہیں جو خود کو پڑھوانے کی طاقت رکھتے ہیں۔
’کلائیڈوسکوپ‘
مغربی بنگال کے معروف نوجون افسانہ نگار جاوید نہال حشمی کے افسانچوں کا مجموعہ ہے۔
جسے انھوں نے خود شائع کیا ہے۔ آج افسانچہ نگاری اپنے زریں دور سے گذر رہی ہے۔ جاوید
نہال حشمی نئی نسل کے ایسے فن کار ہیں جنھوں نے عمدہ افسانے قلم بند کیے ہیں تو افسانچوں
میں بھی روح پھونک دی ہے۔ ان چھوٹے چھوٹے فن پاروں میں بڑے بڑے مسائل، سلگتے ہوئے عصری
معاملات، سماجی تانے بانے کا بکھراؤ، رشتوں کے تقدس کی پامالی، حب الوطنی، دہشت گردی،
فرقہ پرستی، جیسے موضوعات کامیابی سے پروئے گئے ہیں۔
یوں تو مجموعے کا ہرافسانچہ کسی نہ کسی زاویے سے اہم ہے
لیکن 82 افسانچوں میں مجھے چند افسانچے بہت اچھے لگے۔ جن میں نوبیف، کالا دھن، سرابوں
کے قیدی، آگ، اس پار، فرقہ پرست، مارکیٹ ویلو، عکس، محافظ، غدار دیش بھگت، کچلی ہوئی
زندگی، چراغ تلے، گھڑی کی چین، شفٹ ڈیلیٹ، بے جوڑ، کلائیڈوسکوپ،اجازت نامہ، ننگی تصویر،
آہٹ وغیرہ اچھے افسانچوں کے زمرے میں رکھے جاسکتے ہیں۔
’ماں‘
محمد مجیب کے افسانوں کا تازہ مجموعہ ہے جسے مجیب پبلیکشنز، حیدرآباد نے شائع کیا ہے۔اس
سے قبل محمد مجیب کے کئی افسانوی مجموعے ’ممبئی حملوں کے مظلومین‘ 2012، دل سے
2014، ہم ہندوستانی 2015، میرے دکھ کی دوا کرے کوئی2017، کوئی چارہ ساز ہوتا 2018،
محبت زندگی ہے2018 میں شائع ہو چکے ہیں۔ ’ماں‘ مجموعہ ایک معنی میں بہت انوکھا اور
منفرد ہے کہ اس میں محمدمجیب احمد نے اپنے ایسے تمام افسانے یکجا کیے ہیں، جو ماں کے
موضوع پر تحریر کردہ ہیں۔ محمد مجیب مبارک باد کے مستحق ہیں یہ شاید ’ماں‘ کے موضوع
پر اردو میں کسی ایک مصنف کا پہلا مجموعہ ہے۔ میں دیکھ رہا ہوں ادھر یک موضوعی افسانے
بھی مجموعے کی شکل میں آرہے ہیں۔
’ابا
جان‘ رونق جمال کی بچوں کے لیے لکھی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ عرشیہ پبلی کیشنز، دہلی
نے بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے۔رونق جمال معروف افسانہ نگار اور بچوں کے ادیب ہیں۔ان
کے متعدد مجموعے، بچوں کی کہانیوں کی کتابیں
اردو کے ساتھ ساتھ ہندی میں بھی شائع ہو چکی ہیں۔’ابا جان‘ مجموعے میں رونق جمال نے
ساٹھ چھوٹی چھوٹی کہانیاں شامل کی ہیں۔ یہ بچوں کے لیے ہیں۔
’شیر
کا احساس اوردیگر فسانے‘ تازہ کار افسانہ نگار اونیاش امن کے افسانوں کا مجموعہ ہے۔
جسے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی نے بڑے طمطراق سے شائع کیا ہے۔ دراصل اونیاش امن ایک
اچھے شاعر بھی ہیں۔ شاعری تو وہ بہت پہلے سے کرتے ہیں۔ افسانے کی شروعات انھوں نے
2017 سے کی ہے یعنی اردو افسانے کی روایت میں شامل ہونے والا سب سے کم عمر افسانہ نگار
جس کے افسانوں کا مجموعہ دو سال میں ہی منظر عام پر آگیا۔ اونیاش کے افسانوں نے اردو
افسانے کے ایوان کو متزلززل کرنے کا کام کیا ہے۔ اسلوب کی پختگی، نئے موضوعات اور پھر
قصہ بیان کرنے کے سلیقے سے اونیاش امن نے بہت جلد اردو افسانے میں اپنی جگہ بنا لی
ہے۔
اونیاش امن کے اس مجموعے میں کل پندرہ افسانے ہیں۔ ہر افسانہ
اپنے آپ میں مکمل، منفرد اور معیاری ہے۔ کتاب کا ٹائٹل افسانہ بہت عمدہ ہے۔ کئی اور
افسانے خصوصی قرأت کے متقاضی ہیں مثلاً قلی گاڑی، عقرب، پُل صراط، طوطے کی فطرت، مداری،
صبح کیوں نہیں ہوتی وغیرہ۔ عقرب جیساا فسانہ تو اِدھرمیری نظر سے نہیں گذرا، اونیاش
نے کس عمدگی سے عقرب یعنی بچھو کی جسمانی ساخت کی تعریف لفظوں میں کی ہے۔ بہت دنوں
بعد اردو افسانے میں ایک اچھے مجموعے کا اضافہ ہوا ہے۔
’سرگذشت‘
ماریشس کے مقبول ادیب عبدالقاسم علی محمد کی چھوٹی بڑ ی کہانیوں، یاداشتوں اور سوانحی
و اقعات سے پُر کتاب ہے۔ کتاب کو انجمن فروغ اردو، ماریشس نے شائع کیا ہے۔ عبدالقاسم
علی احمد ماریشس میں چالیس برس اردو کی تعلیم و تدریس سے وابستہ رہ کر سبکدوش ہو چکے
ہیں۔ ’سر گذشت‘ میں عبدالقاسم علی محمد نے بچپن کے واقعات اور یادگار لمحات کو اتنے
دلچسپ پیرائے میں بیان کیا ہے کہ ان میں کہانی کا رنگ غالب ہے۔ ہاں کہیں کہیں سوانحی
اورناصحانہ انداز بھی در آیا ہے۔ کتاب میں 37 ایسی تحریریں شامل ہیں جن میں سے کچھ
کو افسانہ کہا جا سکتا ہے۔ کچھ دلچسپ واقعات ہیں۔ کچھ سفر کی روداد ہیں تو بعض مضمون
کی نوعیت کی تحریریں ہیں۔ دراصل ماریشس جیسے بعض ممالک میں اُردو کا سفر نصف صدی قبل
کا ہی ہے۔ ایسے میں وہاں نہ صرف زبان بلکہ ادب بھی تشکیلی دور سے گذر رہا ہے۔ ہمیں
تشکیلی دور کی ان تحاریر کی ہمت افزائی کرنی چاہیے۔
’باہم
دگری‘ ہندی کی منتخب کہانیوں کا ترجمہ ہے۔ ترجمہ نگار عبدالباری ایم کے ہیں۔ کتاب ممبئی
کے نیوز ٹاؤن پبلشرز نے شائع کی ہے۔ عبدالباری ایم کے کی اس سے قبل بھی کئی کتابیں
منظر عام پر آ چکی ہیں۔ انھوں نے ’بھیروں کبھی مرا نہیں‘ جیسے ہندی ناول کا بھی ترجمہ
کیا ہے۔ ’باہم دگری‘ میں عبدالباری نے تقریباً 13/ ہندی افسانوں کے تراجم شامل کیے
ہیں۔ منتخب کہانیوں میں ہندی کے معروف افسانہ نگار جئے نیندر، ہری شنکر پرسائی، موہن
لال، کملیش، منوہر کاجل، رمیش اُپادھیائے، سُشانت سُپریہ، ہیمنت کمار، ودیا شکلا، سبطین
شہیدی کی کہانیوں کا عمدہ ترجمہ کیا ہے۔ ان کہانیوں کے مطالعہ سے اردو کے نئے افسانہ
نگار وں کو مختلف قسم کی کہانیاں ملیں گی۔ تو ہندی کے طرزِ تحریر سے بھی واقفیت ہوگی۔
’گوکھرو‘
معروف ہندی شاعرہ، افسانہ نگار، ناول نگار محترمہ پشپتا اوستھی کی منتخب کہانیوں کا
ترجمہ ہے، جسے ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی نے بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے۔ نوجوان ناقد
توصیف بریلوی نے ان کہانیوں کو اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔ گوکھرو، میں ڈاکٹر پشپتا
اوستھی کی آٹھ کہانیوں کا انتخاب اور ترجمہ شامل ہے۔ دراصل ڈاکٹر پشپتا ہندی کی معروف
شاعرہ (11 مجموعے) افسانہ نگار(2مجموعے)ناول نگار (ایک ناول) ہیں جو تخلیق کے علاوہ
تنقید، ادارت،انٹر و یوز وغیرہ پر بھی خاصا کام کر چکی ہیں۔ 2001 سے نیدر لینڈ میں
مقیم ہیں۔ توصیف بریلوی نے کہانیوں کے ترجمے میں تخلیقیت کا بھی خیال رکھا ہے۔ یہ صرف
لفظی ترجمہ نہیں بلکہ کہیں کہیں ایسا محسوس ہوتاہے گویا یہ اصلاً اردو کی کہانیاں ہیں۔
معروف افسانہ نگار سلمیٰ صنم کے افسانوں کاانتخاب ’قطار
میں کھڑے چہرے‘ کا پاکستانی ایڈیشن، دستاویز پبلی کیشنز لاہور سے شائع ہوا ہے۔ سلمیٰ
صنم نے گذشتہ 10-15 برسوں میں اپنی الگ شناخت قائم کی ہے۔ تانیثیت سے بھر پور کہانیاں
انھیں معاصرین میں الگ کرتی ہیں۔ انتخاب میں ان کی تقریباً ڈیڑھ درجن کہانیاں شامل
ہیں۔ ان کی کئی کہانیاں ان کی شناخت ہیں۔ جن میں، طور پر گیا ہوا شخص، مٹھی میں بند
چڑیا، پانچویں سمت، پت جھڑ کے لوگ، یخ لمحوں کا فیصلہ، آرگن بازار، سورج کی موت کا
ذکر ضرور ہونا چاہیے۔
’صُبح
بہاراں‘ اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں اپنی شناخت بطور افسانہ نگار بنانے والی رمانہ
تبسم کا پہلا افسانوی مجموعہ ہے۔ جسے اِرم پبلشنگ ہاؤس، پٹنہ نے شائع کیا ہے۔ ’صُبح
بہاراں‘ میں رمانہ تبسم کے تقریباً 17 افسانے شامل اشاعت ہیں۔ ساتھ ہی ان کی افسانہ
نگاری پر پروفیسر محمود نہسوی، اشتیاق احمد، محمد مجیب احمد، بے نام گیلانی اور غلام
علی اخضر کے مضامین بھی شامل ہیں۔ رمانہ تبسم کے افسانے تازہ ترین واقعات اور ہمارے
آس پاس کے حادثات کو ایک مخصوص انداز میں پیش کرتے ہیں۔ ان کے کئی افسانے چراغ، جال،
عکس، داغ، انصاف، صُبح بہاراں، دو کلیاں سنجیدہ قرأت کی متقاضی ہیں۔
’پسِ
دیوار‘ رخسانہ نازنین کا افسانوی مجموعہ ہے جسے کرناٹک اردو اکادمی نے شائع کیا ہے۔
رخسانہ نازنین موجودہ صدی کی نسل سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ نئے نئے موضوعات کو افسانے
کے قالب میں ڈھالنے میں کامیاب ہیں۔ ’پسِ دیوار‘میں اُن کے تقریباً 40 افسانے شامل
ہیں۔ جن میں سے کئی ایک بہت اچھے افسانے ہیں۔ مثلاً دوغلہ پن، سہاگن، سزا، برف کی دیوار،
سراب، بدلتے چہرے، گیلے پروں کی پرواز، ثبوت، فرض کو ان کے اچھے افسانوں کے زمرے میں
لایا جا سکتا ہے۔
دوحہ قطر میں مقیم محترمہ فریدہ نثار احمد انصاری کا دوسرا
افسانوی مجموعہ ’گوہر قلزم‘ بھی اسی سال شائع ہوا ہے۔ فریدہ نثار صاحبہ اچھی افسانہ
نگار ہیں۔ ان کے افسانے ہند و پاک کے اہم ادبی رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔اس سے
قبل ان کا افسانوی مجموعہ ’شنگرفی آنچل کے سائے‘ شائع ہو چکا ہے۔ ’گوہر قلزم‘میں فریدہ
نثار صاحبہ کے 16 / افسانے اور ان کی افسانہ نگاری پر بھی کئی مضامین شامل ہیں۔ فریدہ نثار صاحبہ کے افسانے عام فہم اور ہمارے سماج کے
افسانے ہوتے ہیں جو قاری کو پڑھتے ہوئے اپنے افسانے لگتے ہیں۔
2019 میں
اردو ناول
خوشی کی بات ہے کہ 2019 میں افسانوی مجموعوں کی طرح ناول بھی خاص تعداد
میں شائع ہوئے ہیں۔ ان میں زیادہ تر عصری صورتِ حال کو بڑی فنکاری سے پیش کرتے ہیں۔
اس سال جو اہم ناول شائع ہوئے ان میں مشرف عالم ذوقی کا ’مرگِ ابنوہ‘، احمد صغیر کا
آسماں سے آگے، رینو بہل کا نجات دہندہ، صادقہ نواب سحر کا راجدیو کی آمرائی، آصف زہری
کا زبان بریدہ، عمران عاکف کا جے این یو کمرہ نمبر 259 (دوسرا ایڈیشن)، عزیز الدین
احمد کا دہشت گرد، فضل رب کا سمندر منتظر ہے، امتیاز غدر کا علی پور بستی، حسن منظر
کا اے فلک ناانصاف اسد محمود خن کاپیشی، تنویر سیٹھی کا راہ وفا کی مسافتیں، شاعر علی
شاعر کا خواب گاہ، محمدشیراز دستی کا ساسا، شموئل احمد کا چمر اسر جیسے دو درجن سے
زائد ناول شائع ہوئے ہیں۔ چند ناولوں پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
عمران عاکف خان،جے این یو کے ایک ذہن طالب علم ہیں۔ ان کا
ناول ’جے این یو کمرہ نمبر 259‘ گذشتہ برس یعنی 2018 میں شائع ہوا تھا۔ مقبولیت کا
یہ عالم ہے کہ سال بھر بعد ہی ناول کا دوسرا ایڈیشن 2019 میں شائع ہوا ہے۔
مشرف عالم ذوقی اردو ناول نگاری کی روایت میں اضافے کی حیثیت
رکھتے ہیں۔ وہ ہمعصر ناول نگاروں میں سب سے منفرد ہیں۔ وہ اکثر. ایسے موضوعات پر قلم
اُٹھا تے ہیں، جن پر ہمارے بعض ناول نگار سوچ بھی نہیں سکتے۔ ان کا ناول بیان ہویامسلمان،
پوکے مان کی دنیا ہو یا لے سانس بھی آہستہ،ان سب نے اردو دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔
مشرف اب ایک نیا ناول مرگِ انبوہ (ایجوکیشنل
پبلشنگ ہاؤس)لے کر آئے ہیں۔ناول کا خاصا چر چا ہے۔ دراصل یہ ناول آج کے کمپیوٹرائزڈعہد
میں قدروں کے ختم ہونے اور نت نئی وحشیانہ جنسی حرکات وسکنات میں گرفتار نئی نسل کی
خود کشی کے دردناک زندہ مناظر کی تصویر کشی ہے۔ ایک طرف سماج میں بڑھتے فرقہ پرستی
کے زہر سے نیلے ہوتے اکثریتی طبقے کے اجسام ہیں تو دوسری طرف جسم کی لذتوں سے بور ہوتے
ہوئے وحشیانہ اور جان سوز ویڈیو گیمز کی شکار نئی نسل کے نوجوان ہیں۔
’نجات
دہندہ‘ محترم رینو بہل کا تازہ ترین ناول ہے۔ رینوبہل اردو فکشن کی منفرد فکشن نگار
ہیں ان کے متعدد افسانوی مجموعے اور ناول شائع ہو چکے ہیں۔ گذشتہ برس ان کے ناول ’میرے
ہونے میں کیا بُرائی ہے‘ نے خاصی دھوم مچائی تھی۔ دراصل رینو بہل نئے موضوعات پر قلم
اُٹھا نا پسند کرتی ہیں۔ ’نجات دہندہ‘ بنارس کے ڈوم ذات کی اندھیرے سے روشنی کی طرف
سفر کی کہانی ہے۔ بنارس میں گنگا کے گھاٹ پر مردے جلانے کا کام کرنے والی ذات کے نوجوان
جب چنڈی گڑھ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں تو ابتداء میں اپنی ذات پوشیدہ
رکھ کر زندگی گذارتے ہیں۔ یوں بھی آج کل نئے فیشن کے شہر وں میں ذات پات کی زیادہ اہمیت
نہیں خاص کر طالب علمانہ زندگی میں۔چندی گڑھ سے علم اور زندگی کی روشنی لے کر دوا کر
اور بھاسکر جیسے ڈوم کردار، اپنی ذات اور خاندان کے لیے نجات دہندہ بن جاتے ہیں۔ رینو
بہل نے عمدگی سے ذات پات کے سماج پر اثرات کو ناول کیا ہے۔
’زباں
بریدہ‘ڈاکٹر آصف زہری کا پہلا ناول ہے۔ ڈاکٹر آصف بنیادی طور پر ایک شاعر ہیں۔ تنقید
و تحقیق بھی ان کا میدان ہے لیکن ’زباں بریدہ‘ لکھ کر انھوں نے ثابت کر دیا کہ وہ نثر
پر بھی یکسا ں عبور رکھتے ہیں بلکہ مجھے یہ کہنے میں ترود نہیں کہ انہوں نے ایک منجھے
ہوئے ناول نگار کی طرح بہترین اسلوب میں ناول تحریر کیا ہے۔ زمانے کے بعد گاؤں دیہات
کے پس منظر میں، وہیں کی بولی میں کوئی ناول پڑھنے کو ملا ہے۔ ناول کا موضوع بھی ملک
میں خودکشی کرتے کسان اور ان کے مسائل ہیں۔
’سمندر
منتظر ہے‘ ڈاکٹر سید فضل ِرب کا تحریر کردہ ناول ہے، جسے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی
نے شائع کیا ہے۔ ڈاکٹر سید فضل ِ رب نے سمندر منتظر ہے، میں موجودہ سماجی رسہ کشی،
فرقہ وارانہ ذہنیت اور دن بہ دن عقائد کی بڑھتی دوریوں کو لفظوں کا جامہ پہنایا ہے۔
ناول میں بعض ایسے واقعات کا بیان ہے جسے پڑھ کر دل کانپ جاتا ہے۔ خوں ریزی کے ایسے
واقعات فرقہ وارانہ تشدد کی دین ہیں۔ متعدد کرداروں کی ذہنی حالت، وطن سے محبت، زمین
کی طرف واپسی، اپنوں سے جدائی کا غم، ناول کو پُر تا ثیر بناتا ہے۔
’دہشت
گرد‘ احمد عزیز کا خوبصورت ناول ہے۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سے شائع یہ ناول بھی
عصری حسیت کا اچھا نمونہ ہے۔ گذشتہ 25-30 برسوں سے دہشت گردی نے پوری دنیا کو اپنی
لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
’آسماں
سے آگے‘ احمد صغیر کا نیا ناول ہے۔ اس سے قبل ان کے تین ناول جنگ جاری ہے، دروازہ ابھی
بند ہے اور ایک بوند اُجالا، شائع ہو چکے ہیں۔ ان کے ناولوں میں عصری مسائل اورسیاسی
حالات کی بہترین عکاسی ہوتی ہے۔ عشقیہ قصے بھی ان کے ناولوں میں پڑھنے کو ملتے ہیں۔
’آسماں سے آگے‘ ان کا رومانی ناول ہے جس میں ایاز، صنوبر اور سعدیہ مثلث کی شکل میں
ہیں۔ ایاز اورسعدیہ میاں بیوی ہیں، صنو بر
شادی شدہ ایاز احمد سے یک طرفہ پیا رکرتی ہے۔ ایاز اُسے ہمیشہ سمجھاتا رہتا ہے لیکن
ہلکا پھلکا پیار، شدید ہوتے ہوتے جنون کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ ممبئی کی مصروف سماجی
زندگی کے درمیان عشقیہ قصے کو احمد صغیر نے عمدگی سے ناول کیا ہے۔
صادقہ نواب سحر کا تازہ ترین ناول ’راجدیو کی آمرائی‘ ایجوکیشنل
پبلشنگ ہاؤس،سے شائع ہواہے۔ ڈاکٹر صادقہ نواب سحر نئی صدی کی معروف فکشن نگار ہیں۔
ان کے کئی افسانوی مجموعے اوردو ناول ہیں۔ کہانی کوئی سناؤ متاشا، ان کا مقبول ناول
ہے۔ ’جس دن سے‘ کو بھی کافی سراہا گیا۔ ’راج دیو کی آمرائی‘ میا ں بیوی کے رشتے کی
نزاکت کے پیش نظر لکھا گیا ناول ہے۔ جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں۔ ان کی اپنی اپنی دنیا
ئیں آباد ہو جاتی ہیں، ایسے میں شوہر کو بیوی کی بہت ضرورت ہوتی ہے اور اکثر ایسے اوقات
بیوی بچوں کی طرف زیادہ مائل ہوتی ہے۔ یہی وہ نازک وقت ہوتا ہے جب رشتے خراب ہوتے ہیں۔
راج دیو اور اونتکا کی کہانی بھی ایسی ہی ہے۔ عمر کے آخر ی حصّے میں راج دیو اور اونتکا
کے درمیان بچے، دولت اور آمرائی (یعنی آم کا باغ) آجاتی ہے۔ معاملہ ساری حدیں پاکر
جاتا ہے اور عدالت کا رُخ کر لیتا ہے۔ بیوی
کے اصرارکے باوجود راج دیو طلاق نہیں دیتا۔ بیوی، بچے، بہو سب راج دیو سے الگ اور خلاف
ہیں۔ جبکہ دولت، پیسہ سب کچھ راج دیو کے پاس ہے۔ بالآخر عدالت خرچے کے پیسے باندھ دیتی
ہے راج دیو اپنی دولت میں سے کچھ حصہ غریبوں میں دان کر دیتا ہے۔ باقی ماندہ دولت لے کر دنیا کی سیر کو نکل جاتا ہے۔ صادقہ نواب
نے ایک حقیقی کہانی کو لفظ عطا کیے ہیں۔ مقامی زبان کا بھی اچھا استعمال ہے۔
’علی
پوربستی‘ نئی نسل کے نوجوان افسانہ نگار امتیاز غدر کا پہلا ناول ہے۔ جسے حالی پبلشنگ
ہاؤس، دہلی نے شائع کیاہے امتیاز غدر افسانے اور افسانچے کے لیے مشہور ہیں۔ ’علی پور
بستی‘ ناول آنے کے بعد لوگ حیران تھے۔ زیادہ تر لوگ اسے متن بر متن کا ہی کوئی معاملہ
تسلیم کر رہے تھے کہ شاید یہ ناول ممتاز مفتی کے مقبول ناول ’علی پور کا ایلی‘ کی ہی (Extention) توسیع
ہے، لیکن امتیاز غدر نے ناول کو ایک عصری مسئلے سے جوڑ کر لکھا ہے۔ مردم شماری میں
اندراج سے لے کر لسٹ شائع ہونے تک مردم شماری میں کیا کیا کھیل ہوتا ہے۔ کیسے یہ ملک
کی تعمیر و ترقی کی اساس ہوتی ہے۔ امتیاز غدر نے مردم شماری کے عمل اور اس کی پیچیدگیوں
اور ان سے سامنے آنے والی مشکلات کو عمدگی سے لفظوں میں ڈھالا ہے۔
’فائرنگ
رینج: کشمیر 1990‘ شفق سوپوری کا تازہ ناول ہے جو ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سے
شائع ہوا ہے۔ شفق سوپوری منفرد قسم کے ناول نگار ہیں۔ وہ آس پاس کے ماحول اور سامنے
کے موضوعات کو بڑے سلیقے سے ناول کے قالب میں ڈھالنے کا ہنر جانتے ہیں۔اس سے قبل ان
کا ناول ’نیلیما‘ خاصی دھوم مچا چکا ہے۔ ’فائرنگ رینج: کشمیر 1990‘ کئی دہائیوں سے
کشمیر کے ناگفتہ بہ حالات کی آواز ہے۔
’آخری
ایشور‘ اڑیہ کی معروفکشن نگارڈاکٹر پرتبھا رائے کا مقبول ناول ہے۔ ڈاکٹر پرتبھا رائے
اڑیسہ کی ہی نہیں،ہندوستان کی مقبول ادیبہ ہیں۔ان کے تقریباً22 ناول اور 250 کے قریب
افسانے شائع ہوچکے ہیں۔ان کا ایک ناول سوایڈیشن شائع ہو کر ایک رکارڈ بنا چکا ہے۔ ناول
کا اردو ترجمہ عبد المتین جامی نے کیا ہے،جو
خود اڑیسہ کے معروف شاعر، ناقداور مترجم ہیں۔اس سے قبل بھی وہ اڑیہ اور ہندی سے متعدد
تخلیقات کا اردو میں ترجمہ کر چکے ہیں۔ ’آخری ایشور‘ایک یتیم بچے کی کہانی ہے۔ اس کا
بچپن، تعلیم، پرورش وغیرہ میں آنے والے نامساعد حالات، سماجی اورسیاسی اتار چڑھاؤاور
فرقہ پرستی کو ڈاکٹر پرتبھا رائے نے عمدگی سے ناول کیا ہے۔
Prof. Aslam Jamshedpuri
HOD, Urdu
CCS University, Meerut (UP)
aslamjamshedpuri@gmail.com
09456259850
ماہنامہ
اردو دنیا، مارچ 2020
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں