31/3/20

مشرقی خاندیش کے موجودہ نثرنگار مضمون نگار: وسیم عقیل شاہ



مشرقی خاندیش کے موجودہ نثرنگار
وسیم عقیل شاہ

اگرچہ اردو میں مشرقی خاندیش (ضلع جلگاؤں) کا ادبی مقام اوسط درجے کا مانا جاتا ہے لیکن یہاں کی ادبی سرگرمیاں شروع سے ادبی حلقوں کو ملک گیر پیمانے پر متاثر کرتی رہی ہیں۔بات بھساول کے تاریخی مشاعروں کی ہو یا جلگاؤں، راویر،یاول اور مارول کی شعری و نثری نشستوں کی یا پھر یہاں سے جاری ہونے والے ’کہکشاں‘  اور ’ساحل‘  جیسے معیاری ادبی رسائل کی۔غرض کہ خاندیش کے ادبا و شعرا نے ہرطور، ہر وسیلے اس علاقے کو ادبی سطح پر اعلی معیار کے ساتھ گامزن رکھا۔ ایک طرف سلطان نقشبندی، اطہر جلگانوی، مجاہد جلگانوی، قمر بھساولی اور ذاکر عثمانی جیسے شعرا نے شاعری کی زمین کو چمن زار کیا تو دوسری طرف تحقیق و تنقید اور صحافت کے حوالے سے ناظر انصاری، اکبر رحمانی،شمس اعجاز،تنویر عالم اور رصابر زاہد جیسے نثاروں نے علم و ادب اور آگہی کے دفتر کھولے۔اسی طرح فکشن کے حوالے سے پی من باسی، سریا بشیر،خورشید نکہت اور رفیق عادل کے علاوہ بھی مزید چند نام برجستہ طور پر ذہن میں آتے ہیں،جن کے فن پارے اچھے موضوعات، مختلف اسالیب، زبان کی ندرت اور معنی و مفہوم کی اثر آفرینی سے مزین ہیں۔ خاندیش کا یہی تخلیقی و تنقیدی اختصاص موجودہ قلمکاروں میں فطری طور پر پایا جاتاہے۔ لیکن خاندیش نے کبھی خود کو نہیں دہرایا۔ یہاں کے قلمکار نے ہر عہد میں نئے امکانات اور نئے اسالیب کے ساتھ قلم کو جنبش دی۔ اس ضمن میں بطور خاص نثر نگاروں نے اپنی قلمی صلاحیتوں کا مظاہرہ انھی خوبیوں سے کیا ہے جن خوبیوں نے ماضی میں اس علاقے کو جہان ادب سے متعارف کرایا تھا۔
یہاں مشرقی خاندیش کے انھی موجودہ نثر نگاروں کا ایک سرسری جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
اردو ادب میں شہر عزیز(جلگاؤں) کے قاضی مشتاق کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ اگرچہ موصوف اب پونہ میں سکونت پذیر ہیں تاہم ان کا دل جلگاؤں ہی میں بستا ہے۔آپ کا شمار اردو کے نمایاں ادیبوں میں کیا جاتا ہے۔ افسانہ،ناول، ڈرامہ، ترجمہ اور تنقید وغیرہ مختلف الاصناف ادب میں آپ کی تقریباً چالیس کتابیں منظر عام پر آ کر مقبول عام کی سند حاصل کر چکی ہیں۔ تین سو سے زائد افسانے ہندوپاک کے ادبی ر سائل و جرائد کی زینت بنے۔انھوں نے اپنی بیباک کالم نگاری سے بھی قارئین کے دلوں پر راج کیا۔ نیز سفر نامے،شخصی مضامین،خاکے اوربچوں کے لیے تحریر شدہ فن پارے ان کے گراں قدر کارنامے ہیں۔ موصوف کی ادبی خدمات کو دنیا ئے ادب نے قدر کی نگاہ سے دیکھا اور سراہا ہے۔ ہندوستان بھر میں سرکاری اور غیر سرکاری ادبی،سماجی اور فلاحی تنظیموں نے انھیں مختلف باوقارانعامات و اعزازات سے نوازا۔ آج بھی ان کا قلم پوری آب و تاب سے قرطاس ادب پر جلوے بکھیر رہا ہے۔ان کی مشہور کتابوں میں ’صحبت کی خوشبو‘، ’درد کی زباں‘،’ایک دل ارمان بھرا‘ اور ’جس نے یوروپ نہیں دیکھا‘،خاص اہمیت کی حامل ہے۔
جلگاؤں ہی سے فاروق اعظمی کا نام علمی و ادبی حلقوں میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔سرزمین علم و ادب اعظم گڑھ سے تعلق ہونے کی بنا پر علمی وادبی ورثہ لے کر جلگاؤں وارد ہوئے اور اپنی خدا داد صلاحیتوں کی بنیاد پر اہل جلگاؤ ں کو علمی وادبی طور پر سرفراز کیا۔ انھوں نے دینی و عصری علوم اور ادب کے جس باب کو موضوع قلم بنایا اسے اپنی فکر اور دانشمندی سے جاودانی بخشی، جو آئندہ آنے والوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوا اور یقینا آج بھی ان کی قلمی کاوشوں سے بے شمار تشنگان علم و ادب سیراب ہورہے ہیں۔ ’نقوش حرم (سفر نامہ حج)‘ اور سوانح پر مبنی ’یادو ں کے چراغ‘ جیسی تصانیف لکھ کر علمی و ادبی دنیا میں تہلکہ مچایا۔ موصوف گزشتہ پچاس برسوں سے فعال ہیں اور عمر کے آخری پڑاؤ پر ہونے کے باوجود آج بھی ان کا قلم دینی،علمی اور ادبی اعتبار سے مسلسل جاری ہے۔حالیہ ان کی کتاب’مسلمانوں کے تعلیمی مسائل‘ کو مہاراشٹر اردو ساہتیہ اکیڈمی نے ایوارڈ سے نوازا ہے۔
دیار غیرمیں رہنے کے باوجود جلگاؤں کا نام روشن کرنے والوں میں محسن جلگانوی کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ موصوف عرصہ سے حیدرآباد میں مقیم ہیں اور وہیں سے ارود زبان و ادب کی آبیاری کر رہے ہیں۔ ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے کرنے کے باوجود آپ نثری میدان میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جادو جگاتے رہے۔ یہ انھی کا خاصہ ہوسکتا ہے کہ انھوں نے نظم اور نثر دونوں میں انصاف کیا ہے۔شاعری کی طرح نثرمیں بھی ان کا قلم خاصا رواں اور اثر انگیز ہے۔ ادب میں ان کا نثری اثاثہ معیاری ادب کے خانے میں رکھا جاتا ہے، خاص طور سے نظمیہ شاعری پر ان کا تحقیقی مقالہ اردو ادب میں ایک نئے باب کو وا کرتا ہے۔
بھساول سے احمد کلیم فیض پوری کانام افسانے کے حوالے سے بے حد اہم ہے بلکہ آپ کی شناخت اردو ادب میں خاندیش کے افسانے کے چہرے سے ہے۔ احمد کلیم فیض پوری کا شمار اردو کے ان معدودے چند افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے اپنے پچاس سالہ قلمی سفر میں اردو ادب کو صرف ایک ہی افسانوی مجموعہ دیا۔ ہر چند کہ ان کا تخلیقی عمل ادب کی دوسری اصناف میں بھی جاری ہے لیکن افسانے کے حوالے سے ان کی پہچان زیادہ مستحکم ہے۔ آپ نے جس صنف میں طبع آزمائی کی وہاں اپنی صلاحیتوں کاسکہ جمایاخواہ طنز ومزاح ہو یا منی کہانیاں یا پھر نثری نظمیں، غرض کہ ہر طور انھوں نے خاندیش کی ادبی روایتوں کی پاسداری کی۔ احمد کلیم فیض پوری کا افسانوی مجموعہ’ساگوان کی چھاؤں میں‘ سنہ 2012میں شائع ہوکر خوب دادو تحسین حاصل کر چکا ہے۔
ایف۔ایم۔ پرویز پونہ میں مقیم ہیں اور سردست خاندیش کے سب سے سینئرافسانہ نگار ہیں۔وہ علاقے کے ایسے واحد قلم کار بھی ہیں جن کے تمام تر افسانوی فن پارے شہرہئ آفاق رسالہ’بیسویں صدی‘ میں شائع ہوئے۔ پرویز صاحب کے طرز و اسلوب میں رومانیت کی فضا قائم ہے تاہم ایک قسم کی فکر بھی متن کی زیریں لہروں میں چلتی ہے اور قاری پر غیر محسوس طریقے سے اپنا کامیاب تاثر چھوڑجاتی ہے۔ان کا افسانوی مجموعہ ’ڈوبتی شام‘ اسباق پبلکیشن پونہ نے شائع کیا تھا اوراسی برس بہاراردو اکیڈمی کے انعام کا حق دار بنا۔
رشید قاسمی خاندیش کے سنجیدہ قلمکار ہیں اور اردو ادب میں معیاری افسانہ نگار کی حیثیت سے مشہور ومقبول ہیں۔ شستہ و دلکش زبان سے سجا ان کا معنویت سے پر اور تہہ دار افسانوی اثاثہ نہ صرف جلگاؤں اور پورے خاندیش کے لیے باعث افتخار ہے بلکہ اردو ادب کا قیمتی سرمایہ بھی ہے۔ اگرچہ انھوں نے کم کم ہی لکھا لیکن کم لکھ کر بھی اتنا کچھ لکھ دیا ہے کہ آج خاندیش کا ادب ان کی تحریروں سے مالامال تصور کیا جاتا ہے۔ ’کمپیوٹر مین‘ اور ’بلڈوزر‘ خاندیش کی جانب سے جدید طرز کی اولین کہانیاں ہیں جسے آپ ہی نے خلق کی تھیں۔ اسی لیے انھیں خاندیش کے جدید طرز کے اولین افسانہ نگار ہونے کا شرف حاصل ہے۔ آج بھی ان کاقلم بلا کسی صلے و ستائش کے قرطاس ادب پر جادو بکھیر رہا ہے۔ انھوں نے مقالات ومضامین رقم کرتے ہوئے بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا نیز اردو سے مراٹھی اور مراٹھی سے اردو ترجمہ نگاری پر بھی ان کی گرفت مضبوط رہی ہے۔ قاضی مشتاق کا مشہور اردوناول ’فٹ پاتھ کی رانی‘ کا مراٹھی ترجمہ کرنے کے ساتھ ہی انھوں نے درجنوں صحافتی مضامین کا اردو سے مراٹھی اور مراٹھی سے اردو ترجمہ بھی کیا ہے۔موصوف کو مہاراشٹر ساہتیہ اکادمی نے سنہ 2012 کا صحافتی ایوارڈ تفویض کیا تھا۔
 بھساول سے تعلق رکھنے والے بزرگ ادیب رشید عباس کا طنز ومزاح میں خاندیش کی سطح پر کوئی ثانی نہیں ہے۔موصوف بہت کم لکھتے ہیں مگر جو بھی لکھتے ہیں وہ دنیائے ادب میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ان کے تخلیقی اظہاریے میں کاٹ دار لہجے کے ساتھ معاشرے کی کج روی پر طنز کے ساتھ گد گدانے کا سامان بھی بڑے پیمانے پر برآمد ہوا ہے۔ قیوم رازمارولوی یاول تحصیل کے ادبی دیہات مارول سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کا شمار خاندیش کے استاد شعرا میں سر فہرست ہے۔شاعری سے غیر معمولی واقفیت کے ساتھ ہی مبادیات نثر اور اس کی سلیقہ مندی کے بھی علیم ہیں۔ ان کے تبصرے،تاثرات اور تقریظ کے نمونے ہندوستان بھر کے شعرا کے مجموعوں پر بطور سند ثبت ہیں۔آپ کی تنقیدی بصیرت موجودہ شاعری کے حوالے سے اہم مانی جاتی ہے۔
اردو میں خاندیش کی ادبی ترجمانی کرنے والوں میں جلگاؤں کے معین الدین عثمانی کو خاص مقام حاصل ہے۔ ہر مہینے دو مہینے میں ملک و بیرون کے متعدد ادبی رسالوں اور مجلوں میں معین الدین عثمانی کے مضامین یا تخلیقات پڑھ کر یہ کہنے میں کوئی تردد نہیں کہ فی العصر ادبی حوالے سے آپ خطہ خاندیش کی عمدہ نمائندگی کر رہے ہیں۔ موصوف بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں،ترجمہ سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔ ادھر دو تین برسوں میں ان کے قلم سے درجن بھر سے زائد تبصرے، تجزیے اور شخصی و تنقیدی مضامین بر آمد ہوئے ہیں۔ ’نجات‘، ’متحرک منظر کی فریم‘ وغیرہ آپ کی اہم تصانیف مانی جاتی ہیں۔ معین الدین عثمانی کا شمار خاندیش کے ان ادیبوں میں ہوتا ہے جنھیں مہاراشٹر اردو ساہتیہ اکادمی نے اعزاز سے نوازا ہے۔ صغیر احمدسر جلگاؤں سے ہیں اور خاندیش کے صاحب علم اور خوب سلجھے ہوئے قلمکار ہیں۔ موصوف کی فکر اور حساسیت صنف افسانہ کے توسط سے ادبی حلقوں میں گزشتہ تین دہوں سے آشکار ہوتی رہی ہے۔ ان کے حیطہ اظہار میں اصلاحی و سماجی موضوعات بے حد اہم ہیں تو نفسیاتی سطح پر انھوں نے اپنی افسانوی دنیا کو طرح طرح کے رنگوں سے سجایا ہے۔ صغیر سر نے کم لکھا ہے لیکن بر وقت اور بر محل لکھا ہے۔
شاہد لطیف کاتعلق مشاعروں کی سرزمین بھساول سے ہے لیکن ان کی زندگی کے ادبی شب وروز ممبئی میں گزر رہے ہیں۔ ادب میں ان کی شناخت ایک معیاری شاعر کی ہے جبکہ اردو صحافت میں شاہد لطیف کی شخصیت سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ مشہو ر روزنامہ اخبار ’انقلاب‘ کے مدیراعلی ہیں۔انقلاب میں روزانہ شائع ہورہے آپ کے اداریوں کو بلا مبالغہ اخبار کی روح کہا جاسکتا ہے۔اردوادب پڑھنے لکھنے والوں میں مشہور علمی،سماجی و سیاسی شخصیت ڈاکٹر عبدالکریم سالار کا نام نیا نہیں ہے البتہ ان کی گرانقدر تالیف ''خاندیش کے بے لوث سپاہی'' ان دنوں ان کی ادبی شہرت کا سبب ہے۔ تاہم انھوں نے بھی نثری میدان میں اپنے قلمی جوہر دکھائے ہیں،ان کے تحریر کردہ تعلیمی مضامین اخبارات میں شائع ہوکر مقبول ہو چکے ہیں۔ متذکرہ تالیف جو مرحوم اکبر رحمانی کی ’خاندیش کی ادبی تاریخ‘کے بعد کئی حوالوں سے سب سے زیادہ اہم اور مستند گردانی جا رہی ہے۔
میر ساجد علی قادری،جلگاؤں سے ایک کہنہ مشق قلمکار ہیں وہ فی الوقت ممبئی میں سکونت پذیر ہیں۔ سوانحی کتاب’متاع سفر‘ان کی اہم تصنیف ہے۔ اسی طرح عزیز رحیمی بھی عرصہ دراز سے ممبئی میں مقیم ہیں۔ ان کا شمار خاندیش کے ان افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جن کے افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔’رات کا آخری پہر‘  عزیز رحیمی کا افسانوی مجموعہ ہے جو سنہ 2015 میں شائع ہوا تھا۔ اسی طرح جلگاؤں سے قیوم اثر میدان علم وادب کے بے لوث قلمکار ہیں۔ انھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے تو کیا تھا لیکن جلد ہی اپنے قلم کو موڑ کر افسانہ نگاری کے حوالے کر دیااور اپنے تخیل اور فنی چابکدستی سے خاندیش کے لازوال تخلیق پاروں میں قابل قدر اضافہ کیا۔افسانچہ نگاری میں ان کی کاوشیں بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔
عبدالرؤف شیخ یاول سے علمی و ادبی سطح پر سرگرم ر ہنے والوں میں اہم مقام رکھتے ہیں۔آپ نے اپنی واحد کتاب ’اجالے اپنی یادوں کے‘ لکھ کر نثر لکھنے والوں میں اپنا مقام محفوظ کر لیا ہے۔یاول سے ایک اور اہم نام ایم رفیق کا ہے جو علاقہ خاندیش کے خاص قلمکاروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ان کے قلمی اظہار میں نثری اصناف خاص طور سے شامل ہیں۔ ان کی کئی تصنیفات اور تالیفات شائع ہوکر کامیابی سے ہمکنار ہوئیں۔افسانے کے حوالے سے ان کی ہرطرح کی کاوشیں قابل قدر ہیں، خاص کر موصوف کی تازہ تالیف’خاندیش کے افسانہ نگار‘ دستاویزی اہمیت رکھتی ہے۔ا ن کی مزید مشہور کتابیں ’تذ کرہ شعرائے خاندیش‘ اور ’ذہنی آزمائش‘ بھی اہم اور علمی و ادبی ضرورتوں کے عین مطابق ہیں۔ راغب بیاولی خاندیش کے بلکہ مہاراشٹر کے نمائندہ شاعر ہیں۔ شاعری کی طرح ان کے قلم سے نثر پارے بھی پوری ستھرائی سے ظاہر ہوئے ہیں۔ انھوں نے کم و بیش پچاس افسانچے لکھ کر خود کو کہانی کاروں کی صف میں شمار کروایا ہے۔اسی طرح رفیق احمد نے حکایات شیخ سعدی کے ذریعے نثری ادب میں اپنے آپ کو منوا لیا ہے۔ مالیگاؤں کے جاوید انصاری فی الوقت جلگاؤں آکاشوانی میں اپنے فرائض منصبی انجام دے رہے ہیں۔ شاعری کی طرح نثری ادب سے گہرا لگاؤ رکھتے ہیں اور تحریری طور پر فعال رہتے ہیں۔انھوں نے درجنوں علمی و ادبی مضامین لکھے۔ خاص طور سے شگفتہ تحریروں سے سجے ان کے شخصی و تنقیدی مضامین پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔
فیض پور سے سلیم خان خاندیش کے جانے مانے افسانہ نگار ہیں۔موصوف اپنے تخیل کے سلجھے ہوئے خطوط قرطاس پر اتارنے کا فن احسن طریقے سے جانتے ہیں، وہ عرصے سے اس صنف میں طبع آزمائی کر رہے ہیں۔ بچوں کے ادب پر ان کی تحریریں لازوال ہیں۔ ’نیم چندن اور کوئل‘ بچوں کی کہانیوں کا مقبول عام مجموعہ ہے تو ان کا اولین افسانوی مجموعہ ’لہو لہو منظر‘ بھی منظر عام پر آچکا ہے اور فی الحال اردو حلقے میں خوب خوب بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ ان کے ساتھ ہی راویر سے سید شیر افگن، عبدالقدیر عشرت،نصرت راویری تو یاول سے شکیل احمد، خلیق  بسمہ اللہ وغیرہ قلمکار بھی میانہ روی سے لکھ رہے ہیں البتہ کسی زمانے میں ان کی قلمی طبیعت میں تیزی و شور انگیزی رہی ہے۔ بہر کیف جو بھی تحریریں ان صاحبان کی منظر عام پر آئیں و ہ قا بل قدر ہیں۔ شکیل سعید کی کتاب ’ادھوری نظم‘ کا ذکر یہاں ضروری ہے جس کے بعد اس قبیل کے قلمکاروں سے مزید امکانات روشن ہوتے ہیں۔ شکیل انجم نے بھی اردو نثر میں اپنی بساط بھر طبع آزمائی کی۔اس کے علاوہ سید لیاقت،صالحہ قادری،صبیحہ قادری،شیخ غفار،لیلی خالد، عارف شیخ،ساحر فاروقی بھی قلمی طو ر پر اپنے آپ کو پیش کر چکے ہیں نیز اب بھی نثری حوالوں سے سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔
خاندیش کے ادبی خطے یاول سے رحیم رضا کا نام خاندیش کے صاف گو قلمکاروں میں لیا جاتا ہے۔ رحیم رضا گزشتہ تین دہوں سے اردو ادب میں پوری کامیابی سے طبع آزمائی کرتے آ رہے ہیں۔ افسانوی رنگ ان کے قلم کی ندرت ہے، بچوں کے ادب پر بھی ان کی نظر گہری اورگرفت مضبوط ہے۔ان کے نثری تخلیقی مجموعوں کی مجموعی تعدادپانچ ہے جن میں افسانوی مجموعہ ’رنجش ہی سہی‘ نے ان کو استحکام بخشا۔ ان کی ایک اہم تالیف جو حالیہ منظر عام پر آئی’افسانے کی تلاش میں‘ہے جسے حلقہ ادب میں خوب خوب سراہا جا رہا ہے۔ بچوں کے لیے لکھی گئی ان کی کہانیوں کی کتاب’سواری بادل کی‘پر انھیں مہاراشٹرساہیتہ اکیڈمی نے ا نعام سے سرفراز کیا ہے۔ مشتاق کریمی صحافی کی حیثیت سے پورے مہاراشٹر میں شہرت رکھتے ہیں، وہ ایک طرح سے جلگاؤں کی صحافتی نمائندگی کر رہے ہیں۔ مگر انھوں نے مختصر افسانہ نگاری کا دامن بھی ہاتھوں سے چھوٹنے نہیں دیا۔ وہ خاص طو ر سے منی افسانے تواتر لکھ رہے ہیں۔ موصوف نے بچوں کے ادب میں بھی نمایاں خدمات انجام دیں۔ ’اپنی مٹی‘ بچوں کے لیے لکھی گئیں ان کی کہانیوں کا مجموعہ ہے جس کے دو ایڈشن شائع ہوچکے ہیں۔ اس کتاب کو مہاراشٹرا ردو ساہتیہ اکیڈمی نے انعام تفویض کیا۔ ’بتائے نہ بنے‘ مشتاق کریمی کے صحافتی و اصلاحی مضامین کا مجموعہ بھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔سید ذاکر حسین ایرنڈول سے اپنا قلمی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ افسانوی طرز ان کے خانوادے کا اختصاص ہے اس لیے صنف افسانہ میں تندی سے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا رہے ہیں۔ وہ تقریباً پینتیس برسوں سے سرگرم ہیں اور تواتر سے معروف ادبی رسائل میں شائع ہورہے ہیں۔ ’راستے بند ہیں‘ ان کا فسانوی مجموعہ سنہ2013  میں شائع ہوا تھا جسے ادبی گلیاروں میں خاصا سراہاگیا۔ جلگاؤں سے مزید ایک نام وحید امام سر کا ہے۔ وحید امام سر گزشتہ تیس پینتیس برسوں سے ادب میں سرگرم ہیں۔انھوں نے بچوں کے لیے خوب لکھا مگر بنیادی طور پر وہ افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانوں پر مشتمل کتاب’لخت لخت زندگی‘  کے عنوان سے شائع ہوئی اور داد و تحسین کی مستحق قرار پائی۔اسی طرح بچوں کے لیے لکھی گئی ان کی کہانیوں کی کتاب ’معصوم احتجاج‘ نے بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔
اسی طرح سے مزید کچھ نام جو اردو ادب و صحافت میں نثر نگارکی حیثیت سے فعال ہیں،ان میں جلگاؤں سے آفاق ا نجم نے مقالہ نگاری پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ گاہے گاہے ان کے مضامین مختلف سمینار وں اور رسالوں میں سننے پڑھنے کو مل جاتے ہیں۔شفیق ناظم شاعری  کے حوالے سے شہر جلگاؤں اور خاندیش کا  نمائندہ نام ہے اور افسانہ نگاری میں بھی ان کی شناخت بہت پہلے ہی قائم ہوچکی ہے،آپ نے کئی سارے یادگار افسانے خلق کیے۔ شاہ ایازکا تعلق بنیادی طور پر انشائیہ نگاری سے ہے، انھوں نے اچھے انشائیوں کے علاوہ اچھی کہانیاں بھی لکھیں۔ صحافت کے میدان میں جلگاؤں سے انجم رضوی کا بے باک قلم اپنی مثال آپ ہے۔ موصوف  اپنی قلمی ابتدا ہی سے سماجی مسائل کے ساتھ علمی موضوعات پر بھی قلم طراز رہے نیز افسانہ نگاری میں بھی اپنے کاٹ دار قلم کے جوہر دکھائے۔سعید پٹیل بھی جلگاؤں سے متعلق ہیں اور سینئر صحافیوں کی فہرست میں شمار کیے جاتے ہیں۔ سنجیدہ اد ب کے اچھے قاری ہونے کے ساتھ ہی موصوف اچھے قلمکار بھی ہیں۔ انھوں نے افسانہ نگاری اور بطور خاص افسانچہ نگاری میں اپنے قلم کے جوہر دکھائے ہیں۔ عقیل خان بیاولی ایک عرصے سے صحافتی خدمات انجام دے رہے ہیں،اسی طرح ادبی حوالوں سے بھی ان کے قلم میں کسی طرح جنبش رہی ہے۔ انھیں بھی شہر جلگاؤں کے سینئر لکھنے والوں میں شامل کیا جاتا ہے۔ سہیل رحمانی نثری ادب میں اپنی لازوال وراثت کے امین ہیں لیکن انھوں نے بہت کم لکھا ہے تا ہم جو لکھا ہے اچھا ہی لکھا ہے۔ عارف خان تدریسی میدان کے سرکردہ سپاہی ہیں، مختلف درسی مضامین کے علاوہ اصلاحی،مذہبی اور سماجی موضوعات پر ان کی تقریباً 30 کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ’قرآن اور سائنس‘، ’مسلم سائنسدانوں کے کارنامے‘، ’ایسا کیوں ہوتا ہے؟‘  جلگاؤں سے عارف خان کی مشہور کتابیں ہیں۔شیخ احمد حسین جلگاؤں کے ماہر اساتذہ میں شمار کیے جاتے ہیں۔ وہ انگریزی کے استاد ہیں لیکن اردو نثر نگاری میں انھوں نے اپنی خداد صلاحیتوں کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ سید احمد حسین نے درجنوں مذہبی، اصلاحی اور تعلیمی مضامین لکھے۔’دعوت‘ جیسے صحافتی ترجمان میں شائع ہونے کا شرف انھیں بھی حاصل ہے۔ بھساول سے ایک نام حاجی انصار کا بھی ہے وہ رسالہ تزئین ادب کے اعزازی مدیر ہیں اور ان کا بھی قلمی سفر کسی طور جاری ہے۔ نوجوانوں کی جانب سے سجاد حیدر عمدہ نمائندگی کر رہے ہیں۔ وہ اپنی خاص تنقیدی بصیرت اور شگفتہ تحریروں کے لیے جانے جا تے ہیں اور معیاری رسائل میں مسلسل چھپ کر وطن عزیز جلگاؤں کا نام روشن کر رہے ہیں۔ ارتکاز صابر نے مغل شہنشاہ شاہجہاں کو موضوع بناکر ایک دلچسپ کتاب ترتیب دے کر اپنے ادبی ورثے کی پاسداری کی لیکن خاندیش کو ان سے مزید توقعات ہیں۔ 
 اس کے علاوہ مشرقی خاندیش کے موجودہ نثر نگاروں میں زبیر علی تابش، سرفراز خان، ڈاکٹر انیس خان، زیان شیخ، شرجیل، صدام اشرف، ایم صدام، عروج فاروقی، ساجد مرزا، اسید گلاب، شاہ سروش اور راقم الحروف کے نام بھی لیے جا سکتے ہیں۔جو کسی طور نثری اصناف میں مشق کر رہے ہیں اور چند ایک گاہے گاہے اردو رسائل و اخبارات میں شائع ہو تے ہیں۔کچھ مہینوں سے زیان شیخ کی تحریک پر قلمدان فاؤنڈیشن کے ممبران نے ماہانہ نثری محفلیں سجانا شروع کی ہیں، جن میں ہر ماہ مشترکہ طور پر طے شدہ عنوان کے تحت قلمی کوششیں کی جارہی ہیں۔ان نثری محفلوں میں حصہ لینے والے نئے قلم کاروں کی تعداد دس کے قریب ہے۔

Wasim Aqueel Shah
15 Shahkar, Salar Nagar
Jalgaon - 425001 (MS)



ماہنامہ اردو دنیا، مارچ 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں