9/4/20

داغ کے ایک شاگرد، مولانا حسن رضا خاں بریلوی مضمون نگار: اعلم شمس






داغ کے ایک شاگرد، مولانا حسن رضا خاں بریلوی
اعلم شمس
مولانا حسن رضا خاں بریلی کے مشہور علمی خانوادے کے چشم و چراغ تھے۔ آپ کے آبا و اجداد مغلیہ عہد میں قندھار سے واردِ ہندستان ہوئے تھے۔ محمد سعادت یار خاں، محمد شاہ کے وزیر تھے جن کے نام سے دہلی میں بازار سعادت گنج اور سعادت خاں کی نہر منسوب تھی۔ آپ کے جدِ اعلیٰ محمد کاظم علی خاں کو بدایوں کی تحصیلداری کا منصب عطا ہوا تھا جس کے تحت آٹھ گاؤں معافی کے عطا ہوئے تھے۔ آپ کے دادا بریلی کے مشہور صوفی بزرگ رضا علی خاں تھے جنھوں نے حافظ رحمت خاں والیِ روہیل کھنڈ کے پوتے خان بہادر خاں کے ساتھ انگریزوں سے جنگ کی۔ آپ کے والد مولانا نقی علی خاں جید عالم تھے، انہی نقی علی خاں کے یہاں آپ 4 ربیع الاوّل 1276ھ مطابق 19 اکتوبر 1859 میں پیدا ہوئے۔ مشہور عالمِ دین، متقی و پرہیزگار، عاشقِ رسول، بلند پایہ نعت گو شاعر مولانا احمد رضا خاں فاضل بریلوی آپ کے بڑے بھائی تھے۔ حسن رضا نے مروجہ علوم و فنون اپنے خاندانی بزرگوں سے حاصل کیے اور معقولات و منقولات میں مہارت حاصل کرنے کے بعد خدمتِ دینِ متین انجام دینے لگے۔ تشنگانِ علوم کو اپنے چشمہئ علم سے سیراب کرنے لگے۔
خدا نے طبیعت موزوں عطا کی تھی لہٰذا شعرگوئی کی وادی میں بھی قدم رکھا۔ اس وقت دنیا جہاں میں فصیح الملک داغ دہلوی کا ڈنکا بج رہا تھا۔ داغ کی شہرت پورے ملک کیا بیرونِ ملک بھی پہنچ چکی تھی۔
ظاہر ہے کہ یہ شہرت مولانا حسن رضا خاں کے کانوں تک بھی پہنچی ہوگی اور کیوں نہ پہنچتی، آپ کی پھوپھی کی شادی رام پور میں جناب فضل حسن خاں سے ہوئی تھی۔ مولانا حسن رام پور اپنی پھوپھی کے یہاں جایا کرتے تھے۔ اُس وقت حضرت داغ کا قیام رام پور ہی میں تھا کیونکہ دہلی کی بساط اجڑنے کے بعد داغ رام پور آچکے تھے اور گھر گھر ان کا چرچا ہونے لگا تھا، ان کے رنگ کی دھوم مچی ہوئی تھی۔ روزمرہ اور محاوروں کے دلکش اسلوب کی سحرکاری نے ہر کسی کو گرویدہ بنا رکھا تھا۔ غزل اپنے شباب پر تھی اس پر جب داغ کا رنگ چڑھا تو یہ اور بھی حسین ہوگئی۔ داغ کے اس رنگ کا یہ اثر ہوا کہ رام پور دربار سے جڑے دیگر شاعروں نے بھی انھیں کے رنگ کی اتباع کرنے میں بھلائی سمجھی۔
داغ نے اپنے چراغ سے بہت سے چراغ روشن کردیے۔ ہندوستان کی تاریخ میں داغ اکیلے ایسے استاد ہیں جنھوں نے بقول نوراللہ محمد نوری پانچ ہزارسے زائد شاگردوں کی ایک کثیر تعداد چھوڑی جو غالباً ایک تاریخ ہے جن میں علامہ اقبال، سیماب اکبرآبادی، نوح ناروی، احسن مارہروی، سائل دہلوی، بیخود دہلوی، بیخود بدایونی، ناطق گلاؤٹھی، اختر نگینوی، اشک دہلوی، محمود رام پوری، نسیم بھرت پوری، آغا شاعر دہلوی، جوش ملسیانی، رسا بلند شہری، مہر گوالیاری، طیش مارہروی، متین مچھلی شہری، نظام الملک میر محبوب علی خاں آصف اور حسن رضا خاں بریلوی وغیرہ خاصے مشہور ہیں۔ یوں تو ان شاگردوں میں ایک سے بڑھ کر ایک تھے لیکن حسن بریلوی کا کچھ الگ مقام تھا، وہ پوری طرح داغ کے رنگ میں رنگ گئے تھے۔
حسن بریلوی کو شعر و سخن کا شوق لڑکپن سے تھا لیکن جوانی آتے آتے یہ شوق بھی جواں ہوگیا۔ رام پور آتے آتے مشقِ سخن چلتی رہی اور آخرکار اپنے پھوپھا فضل حسن خاں کی وساطت سے داغی ہوگئے۔ بریلی سے رامپور صرف 60 کلومیٹر ہے لہٰذا رام پور آنا جانا کوئی زیادہ مشکل نہ تھا۔ حسن بریلوی نے داغ سے اصلاح لینا شروع کردیا اور ایک مدت تک رام پور میں رہ کر استاد کے گلشن سے پھول چنتے رہے۔ یہاں تک کہ بجائے خود استادِ مستند قرار پائے۔ حسن بریلوی کا داغ کے شاگرد ہونے کا سب سے بڑا ثبوت تو خود ان کا کلام ہے۔ اس کے علاوہ تذکروں میں لالہ سری رام کے تذکرے ’خمخانۂ جاوید‘ یعنی تذکرہئ ہزار داستان میں لالہ سری رام، حسن بریلوی کے خاندانی حالات بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں:
علم و فضل آپ کا خاندانی ہے نعت گوئی میں اپنے برادرِ بزرگ مولوی احمد رضا خاں صاحب سے مستفیض ہیں اور عاشقانہ رنگ میں بلبلِ ہندوستان سے تلمذ تھا۔ جس زمانے میں حضرت داغ رام پور میں تھے آپ ان کے شاگرد ہوئے اور ہر سال ایک دو مہینے ان کی خدمت میں رہ کر فیض صحبت سے مستفیض ہوتے رہے۔ داغ صاحب کو ان سے خاص انس تھا اور اکثر پیارے شاگرد انھیں کہا کرتے تھے۔“ (ص 450)
خود حسن رضا کہتے ہیں:
پیارے شاگرد تھا لقب اپنا
کس سے اس پیار کا مزہ کہیے
رسالہ ’نگار‘ کے داغ نمبر 1953 کے ایک مضمون میں نوح ناروی نے داغ کے 58 خاص شاگردوں کا ذکر کیا ہے جس میں حسن بریلوی کو انھوں نے 22 ویں نمبر پر رکھا ہے۔ اسی رسالے میں ڈاکٹر نفیس سندیلوی اپنے مضمون میں لکھتے ہیں:
حاجی مولانا حسن رضا خاں حسن بریلوی حضرت شاہ مولانا احمد رضا خاں صاحب کے چھوٹے بھائی، شعر و سخن کا طبعی و فطری ذوق تھا، غیرمعمولی ذہانت و فطانت کے مالک تھے، مزاج میں شوخی و شگفتگی اور زندہ دلی تھی۔ حضرت داغ کے ارشد تلامذہ میں شمار تھا۔ نعتیہ کلام میں ان کا دیوان ذوقِ نعت اور عاشقانہ میں ثمرِ فصاحت یادگار ہے۔“ (ص133(
انتخابِ سخن‘ میں حسرت موہانی لکھتے ہیں:
شاگردانِ مرزا داغ دہلوی میں حسن مرحوم بریلوی کا پایہئ شاعری بہت بلند تھا وہ بجائے خود استادِ مستند تھے۔“ (ص 91)
مولانا عبدالسلام ندوی ’شعرالہند‘ میں لکھتے ہیں:
نواب مرزا داغ کے تلامذہ میں بیخود بدایونی، بیخود دہلوی، نسیم بھرت پوری، نوح ناروی، سائل دہلوی، حسن بریلوی اور اشک وغیرہ مشہور ہیں۔
چند شعرائے بریلی‘ میں سید لطیف حسین ادیب بریلی کے ایک اور اہم شاعر نواب نیاز احمد خاں ہوش کی وفات 1892 کے بعد کی حالت بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:
ان کی وفات کے وقت داغ کا آفتابِ شہرت نصف النہار پر تھا اور بریلی میں ان کے شاگردحسن رضا خاں حسن کے ذریعے زبان دانی، فصیح البیانی اور معاملہ بندی کی ترویج و اشاعت ہورہی تھی، یہ ایسا سیلاب تھا جس میں بریلی کے شعرا بہہ گئے۔ مشاعروں میں وہی کلام پسند کیا جاتا تھا جو داغ کے اثرات کا حامل تھا۔ چونکہ داغ کے طرز میں شعر کہنا آسان تھا، شاعروں کی تعداد اور مشاعروں کی محافل میں اتنی کثرت سے اضافہ ہوا کہ بریلی کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔“ (ص140)
لطیف حسین ادیب کے اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان دنوں واقعی بریلی شہر مشاعروں کی رزم گاہ بنا ہوا تھا اور ہر کوئی داغ کے رنگ میں رنگ جانا چاہتا تھا بلکہ ایک مرتبہ بریلی کے ایک مشاعرے کی صدارت بھی جناب داغ دہلوی نے کی تھی، اس سلسلے میں لطیف لکھتے ہیں:
محلہ معمارانِ بریلی میں وہ عمارت جو امام باڑہ کہلاتی ہے اور جس میں ہر سال سات محرم کو بڑی دھوم دھام ہوتی ہے، نئے شہر میں مشاعروں کا بڑا مرکز تھی۔ اسی عمارت میں استاد داغ کی زیرِ صدارت بھی مشاعرہ ہوا تھا۔“ (ص143(
اس میں کوئی شک نہیں حسن بریلوی داغ کے چہیتے شاگرد تھے اور وہ اپنے کلام پر شاگردِ داغ ہونے پر ناز کرتے ہوئے کہتے ہیں:
کیوں نہ ہو میرے سخن میں لذتِ سوز و گداز
اے حسن شاگرد ہوں میں داغ سے استاد کا
غزلوں پر مشتمل حسن بریلوی کا دیوان ’ثمر فصاحت‘ 1910 میں مطبع اہل سنت بریلی سے آپ کی وفات کے بعد شائع ہوا۔ جس زمانے میں آپ نے شاعری میں قدم رکھا اس زمانے میں مقبول صنفِ شاعری غزل بامِ عروج پر تھی۔ حسن بریلوی نے بھی مروجہ روش کے مطابق اپنی شاعری کی ابتدا غزل سے کی، بعد میں نعت گوئی کی طرف متوجہ ہوئے۔
حسن بریلوی کے کلام میں وہ تمام خوبیاں ہیں جو کلامِ داغ کا طرہئ امتیاز ہیں جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ داغ کے کلام میں شوخی اور تیکھا پن ہے، زبان میں چٹخارہ ہے، سہلِ ممتنع کی بھرمار ہے، محاوروں کی کثرت ہے، روزمرہ ہے۔ جرأت کی معاملہ بندی،  محبوب سے آزادانہ چھیڑ چھاڑ ہے۔ حسن کی طلب تو عشق کی رفاقت و حمایت ہے۔ عشق محسوس کا جلوہ ہے۔ طنزِ لطیف، حاضری جوابی اور محبوب سے شکوہ و شکایت۔ مترنم بحروں وغیرہ کی تمام خوبیاں حسن کے یہاں بھی پائی جاتی ہیں۔
داغ کی طرح حسن رضا کے کلام کی جاذبیت اور دل کشی میں روزمرہ کا عمل دخل سب سے زیادہ ہے۔ روزمرہ کے استعمال نے ان کے کلام کو سادگی، سلاست، روانی عطا کی۔ روزمرہ کی چاشنی کے باعث ان کی شاعری میں بے ساختگی اور بے تکلفی کی وہ فضا قائم ہوتی ہے جس سے مسلسل گفتگو کا مزہ آتا ہے۔ اشعار دیکھیے      ؎
کیوں دلِ زار محبت کا نتیجہ دیکھا
دردِ فرقت کا کوئی پوچھنے والا دیکھا
بس رخِ یار سے اٹھتے ہوئے پردہ دیکھا
پھر خبر ہی نہ رہی کیا کہیں پھر کیا دیکھا
داغ کا شعر ہے      ؎
یوں تو دنیا نے زمانے کا تماشا دیکھا
منصفی شرط ہے ہم نے تمھیں کیسا دیکھا
داغ کے چند اشعار اور دیکھیے اور اسی زمین میں حسن کے بھی اشعار ملاحظہ کیجیے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صفائیِ زبان، چٹخارہ، روزمرہ اور سہلِ ممتنع کو دونوں نے کیسے برتا ہے     ؎
داغ:
غضب کیا تیرے وعدہ کا اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
کسی طرح جو نہ اس بت نے اعتبار کیا
مری وفا نے مجھے خوب شرمسار کیا
نہ اس کے دل سے مٹایا کہ صاف ہوجاتا
صبا نے خاکِ پریشاں مرا غبار کیا
(ص10، م د)
حسن بریلوی:
عدو نے حالِ محبت جو آشکار کیا
تمھیں خدا کی قسم تم نے اعتبار کیا
تمھیں تو شرم سے منہ کھولنا بھی مشکل ہے
عدو کو رات مگر ہم نے ہمکنار کیا
ستم گروں کے ستم کی ترقیاں دیکھو
کہ مجھ کو خاک کیا خاک کو غبار کیا
(ص9، ث ف)
داغ:
روئے انور نہیں دیکھا جاتا
دیکھیں کیونکر نہیں دیکھا جاتا
کیا رہیں ہم کہ ترا چال چلن
پاس رہ کر نہیں دیکھا جاتا
حسن:
ان کا جلوہ نہیں دیکھا جاتا
دیکھ دیکھا نہیں دیکھا جاتا
کیسے عیسیٰ ہو تمھارا بیمار
کبھی اچھا نہیں دیکھا جاتا
قابلِ دید ہے ترا جلوہ
پر کریں کیا نہیں دیکھا جاتا
حسن بریلوی کے یہاں روزمرہ کی چند مثالیں اور دیکھیے  :
نوچ لیتے ہیں کلیجہ نالہائے بیکسی
منہ نہ کھلوائے کوئی میرے لبِ فریاد کا
اس ستم پر بھی تری محفل سے
کوئی آتا نہیں دیکھا جاتا
چھٹ گیا دامن کلیجہ تھام کر ہم رہ گئے
لے چلا دل چھین کر وہ دشمنِ جاں لے چلا
میرے گھر تک پاؤں پڑ کر ان کو لایا تھا نیاز
نازِ دامن کھینچتا سوئے رقیباں لے چلا
موسمِ گل ہے چمن ہے گل رخانِ دہر میں
ہم کو دیوانہ جنوں سوئے بیاباں لے چلا
الفاظ کی الٹ پھیر اور تکرارِ الفاظ سے بھی حسن بریلوی نے اپنے کلام میں تاثیر پیدا کی ہے، چند مثالیں دیکھیے:
یاد کرنا اتو بھلا یا بھول جانا یاد ہے
بھول جانے والے قائل ہوں میں تری یاد کا
بے خبر ہو بے خبر کو کیا خبر اس درد کی
سنگ دل ہو سنگ دل پر کیا اثر فریاد کا
کس نے سنایا اور سنایا تو کیا سنا
سنتا ہوں آج تم نے مرا ماجرا سنا
فارسی عطف و اضافت کے بغیر بھی حسن بریلوی نے سیکڑوں اشعار کہے ہیں اور اس سے تاثیر میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ احسن مارہروی نے ’منتخبِ داغ‘ میں لکھا ہے کہ داغ کے چاروں دیوانوں میں صرف غزل کے اشعار کی تعداد سولہ ہزار ایک سو باسٹھ (16,162) ہے اور ایسے اشعار جن میں فارسی اضافت اور عطف نہیں چھ ہزار دو سو چوالیس (6,244) ہیں۔ دراصل ’منتخب داغ‘ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں بغیر فارسی عطف و اضافت والے اشعار ہیں اور دوسرے حصے میں باقی کلام کے بہترین اشعار ہیں۔ حسن بریلوی کے بغیر عطف و اضافت کے چند اشعار دیکھیے    ؎
جب انھیں ملنا نہ ہو منظور تو کیسا اثر
کیا بھروسہ آہ کا کیا آسرا فریاد کا
سب صورتوں میں جلوہ گری ایک ہی کی ہے
نقشہ جما ہوا ہے کسی کے جمال کا
جلوہ کسی حسین کا ہے دل کی آرزو
تصویر ڈھونڈتا ہے مرقع خیال کا
یہ مانا دکھ ہمارا لادوا ہے
جو وہ پوچھیں تو اے دل پوچھنا کیا
ستاؤ دل دکھاؤ مار ڈالو
نہ آئے گا کبھی روزِ جزا کیا
مومن نے رقیب کے لیے لفظ ’غیر‘ کا استعمال سب سے زیادہ کیا ہے بلکہ یہ ان کی خصوصیت ہے۔ داغ نے تو کہیں کہیں رقیب کا لفظ استعمال کیا ہے، جیسے اس شعر میں      ؎
وہ اس ادا سے وہاں جا کے شرمسار آیا
رقیب پر مجھے بے اختیار پیار آیا
لیکن حسن بریلوی نے کہیں رقیب کا لفظ استعمال نہیں کیا اور ہر جگہ مومن کا رنگ ہے، مثال دیکھیے اس میں محاورہ بھی  ہے      ؎
غیر کی باتوں کو سن کر پی گئے
چپ رہے کیا جانیے کس ڈر سے ہم
سو کی سو اچھی اگر سو خواہشیں ہوں غیر کی
میری لاکھوں حسرتوں میں ایک بھی اچھی نہیں
الفتِ غیر کا مذکور ہے میرے آگے
وہ بھی اس ڈھب سے کہ ہیں چاہنے والا ہی نہیں
زبان بامحاورہ، الفاظ مناسب اور بندش چست ہو تو شعر میں جان پڑجاتی ہے۔ سامع کا ذہن فوراً اثر قبول کرلیتا ہے۔ فصیح و بلیغ کلام کی یہی نشانی ہے۔ حسن رضا نے شاعری کی ان خصوصیات کو اپنے استاد سے سیکھا۔ فصاحت اور بلاغت جو شعر میں معنوی خوبیاں، موزوں اور مناسب الفاظ سے ظاہری حسن پیدا کرتی ہے ان کے یہاں دونوں پہلو دلکش اور لطف انگیز ہیں۔
داغ اور شاگردانِ داغ کی ہمیں ایک خصوصیت ایسی ملتی ہے جس نے ان کو فصیح اللسان بنا دیا اور وہ ہے صنائع و بدائع کا بالقصد استعمال نہ کرنا جس سے کلام میں تصنع پیدا نہ ہو جیسا کہ سابقین کے کلام میں پایا جاتا ہے۔ جب شاعر کسی بدائع یعنی تشبیہ، استعارہ، تلمیح، مبالغہ، حسنِ تعلیل وغیرہ کو بالقصد استعمال کرتا ہے تو کلام سے فطری پن رخصت ہوجاتا ہے لیکن اگر کلام میں فطری پن کے ساتھ بداعت کا استعمال ہو تو وہ کلام فصیح کہلاتا ہے۔ خاص طور سے جب اس میں غیرمانوس ترکیب ثقیل الفاظ، اشعار میں ایک جیسے دو حرف کا اجماع جیسا کہ غالب کے یہاں نقشِ پا پایا ہے۔ اسی طرح غیرمانوس الفاظ اور مشکل لغات الفاظ نہ ہوں۔ حسن بریلوی کے دیوان کا شعر بہ شعر مطالعہ کرنے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ انھوں نے استاد کی مکمل تقلید کی۔ ان کے الفاظ، تراکیبِ لغات، روزمرہ، محاورہ، جانِ فصاحت ہیں ان کو زبان میں غضب کی کشادگی اور خوش گوئی ملتی ہے۔
مجموعی طور پر حسن بریلوی کے غزلیہ دیوان ’ثمر فصاحت‘ کا گہرائی سے مطالعہ کرنے کے بعد تنقیدی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی شاعری اپنے عہد کے غزل کے  تقاضوں کو پورا کرتی ہے۔ انھوں نے صرف رسمی طور پر شاعری نہیں کی ہے بلکہ اسے ایک فن کے طور پر برتا ہے اور اس کے تمام تقاضوں کو پورا کیا ہے۔ ان کی شاعری میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جو ایک بلند اور معیاری شاعری کے لیے ضروری ہیں۔ ان کی غزلوں میں بلند خیالی اور رفعتِ تخیل پائے جاتے ہیں، ندرت اور افکارِ نو کی فضا بندی بھی ملتی ہے۔ زبان و بیان کی لطافت و نزاکت، حسن و رعنائی، دلکشی اور بانکپن، شدتِ احساس، عام بول چال، روزمرہ کی زبان، مانوس اور شگفتہ الفاظ اور حسبِ ضرورت محاورات و کنایات و استعارات اور پیکروں کا استعمال ان کی شاعری کا طرہئ امتیاز ہے۔ داخلیت کا رنگ ان کی شاعری میں بہت گہرا ہے۔ احساسات و جذبات کی فراوانی نے خارجیت کو تقریباً ختم کردیا ہے۔ احسا س کی شدت نے فطرت کی رنگینیو ں کو ان کے دامن میں بھر دیا ہے۔ بہار و شباب، فصلِ گل، بادِ بہاری، شادابی و رعنائی وہ کیا ہے جو ان کی شاعری میں نہیں پایا جاتا۔ ان کے اشعار و بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی شاعری میں داغ کا رنگ گہرا اور بہت گہرا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ دبستانِ داغ سے متعلق تھے اور اپنی غزلوں اور نعتیہ شاعری سے تا دم حیات اس رنگ سے دنیا کو رنگتے رہے۔ بقول لالہ سری رام، نواب فصیح الملک مرزا داغ دہلوی کے تلامذہ  میں آپ ایک امتیازی درجہ رکھتے تھے اور کچھ عجب نہیں کہ زندگیِ مستعار وفا کرتی اور یہ مشغلہ قائم رہتا تو ان کے نام کو جلا دیتے۔ حسن بریلوی کا قریب 50 سال کی مختصر عمر میں 1908 میں انتقال ہوگیا اور بریلی کے سٹی قبرستان میں مدفون ہوئے۔

Dr. Alam Shams
Dept of Urdu, Zakir Husain College
New Delhi - 110002
Mob.: 9312365749



ماہنامہ اردو دنیا، مارچ 2020

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں