9/4/20

قرۃ العین حیدر مضمون نگار: صدیق محی الدین



قرۃ العین حیدر
صدیق محی الدین
قرۃ العین حیدر اپنی خود نوشت سوانح ’کارِ جہاں دراز ہے‘ میں رقم طراز ہیں:
سیدجلال الدین غازی سید کمال الدین ترمذی کے صاحب زادے اس تذکرہ نویس فقیر حقیر پر تفصیر عاجزہ فدویہ کے مورثِ اعلیٰ  ہیں۔ موصوف اس علاقے میں جاکر بسے جو بعد میں روہیل کھنڈ کہلایا۔ سید جلال الدین کے اخلاف میں سیداشرف گنج بخش، سید احمد، سید محمد، سید محمود اور سید حسن عسکری کازمانہ پندرھویں صدی ہے۔ سید حسن عسکری کے صاحب زادے سید ضیاء الدین سرکار سنبھل میں چہار ہزاری تھے۔ ٹھاٹھ کرتے ہوں گے۔ موصوف کٹھیرراجپوتوں کو قابو رکھنے کے لیے نہٹور ضلع بجنور میں تعینات تھے۔ سید ضیاء الدین ترمذی کو ایک بغاوت فروکرنے لیے مع لشکر پورپ بھیجاگیا۔ معرکے میں کام آکے اور جیاشہید کہلائے۔“1
وہ مزیدلکھتی ہیں:
اگر کمال الدین ترمذی کے جی میں یہ نہ سمائی ہوتی کہ ہندوستان چلیں تو ہم آج یہاں کاہے کو وکٹوریہ کی غلامی کررہے ہوتے ترمذ میں اگر چنگیز کی تباہ کاری سے بچ گئے ہوتے تو اس وقت بیٹھے زار روس کی غلامی کررہے ہوتے آج اپنے پوتوں کو لندن بھیج کر بیرسٹری پڑھانے کے خواب نہ دیکھتے۔ ترمذیا بخارا سے سینٹ پیٹرز برگ روسی پڑھنے کے لیے بھیجنے کے منصوبے بناتے ………………  والد مرحوم کو کیا معلوم تھا کہ اُن کی اولاد پر کیا گزرے گی۔ نہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے پوتے کس قسم کی دنیا کا مقابلہ کریں گے۔ والد مرحوم نے نہٹور میں جھیل کے کنارے ایک پلکھن بوئی تھی جو اب چھتنار ہے۔ دوسری پلکھن کا پودا ہم نے لگایاتھا۔ دونوں چھوٹی بڑی پلکھن کہلاتی ہیں جب یہ چھوٹی پلکھن چھتنار ہوتی تب ہم نہ ہوں گے۔“  2
قرۃ العین حیدرکی ولادت 20جنوری 1927 کو علی گڑھ میں ہوئی۔ ان کے والد سید سجاد حیدر یلدرم علی گڑھ کالج کے ہی تعلیم یافتہ تھے۔ اس وقت برطانوی ہندوستان میں ان کی ملازمت انڈمان اور پھر دہرادون میں رہی اور آخر میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں رجسٹرار کی خدمات انجام دیں۔ قرۃ العین حیدر بچپن میں انھیں کے ہمراہ رہیں۔ ان کی ابتدائی تعلیم دہرادون میں ہوئی۔ بعد ازاں اندرپرست کالج دہلی اور لکھنؤ یونیورسٹی سے انھوں نے انگریزی ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ چونکہ ان کے والدین اس عہد کے ادبی رحجان کے لحاظ سے اُردو کے افسانوی ادب میں اپنی مخصوص شناخت رکھتے تھے اس لیے ادبی ذوق اور تخلیقی رحجان گویا انھیں ورثے میں ملا ہے۔ لیکن اپنے وسیع مطالعے اور تخلیقی جدت و انفرادیت کے ساتھ انھوں نے اُردو کے افسانوی ادب میں بہت جلد اپنی شناخت قائم کرلی۔ ابتدا میں وہ بچوں کی کہانیاں لکھا کرتی تھیں۔ یہ زمانہ برصغیر ہند میں بے حد تغیر پذیر تھا۔ ملک تقسیم ہوچکا تھا۔ تقسیم ہند کو وہ ایک زبردست انسانی المیہ قرار دیتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں لاکھوں انسانوں کی ہلاکتوں اور مجبوروبے بس لوگوں کی ہجرت بے شک بیسویں صدی میں ہندوستان کی تاریخ کا المناک حادثہ تھا۔ تقسیم وطن کا واقعہ ان کی تخلیقی فکر کا اہم محرک بن گیا۔ انھوں نے بھی 1947 میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ پاکستان ہجرت کی۔ پاکستان ہجرت کے واقعے کو انھوں نے کارِ جہاں دراز ہے۔ میں اس طرح بیان کیا ہے:
ہفتہ بھر بعد بھائی نے ٹرین میں ایک پورا سیکنڈکلاس کمپارٹمنٹ ریزرو کروایا۔ اور ہم کراچی روانہ ہوئے۔ ابھی برطانوی زمانے کوگزرے فقط تین مہینے گزرے تھے اور پرانی ریلیں چل رہی تھیں۔ جنوبی پنجاب اور سندھ کے ریگزاروں سے گزرتے ہوئے وسیع وعریض ڈبہ گردوغبار سے اٹ گیا۔ اماں، بھائی، بھابی اور میں کھڑکیاں بند کرکے باہر دیکھنے لگے۔ دور دور تک جلے ہوئے ٹھنٹھ، تھوہڑ ناگ پھنی اور کیکراور ببول۔
پاکستان آنے کے بعد تصنیف و تالیف اور ملازمت کے سلسلے شروع ہوئے۔ انھوں نے پاکستان میں انفارمیشن آفیسر وزارت اطلاعات نشریات پاکستان، پاکستانی ہائی کمیشن لندن، انفارمیشن آفسیر پی آئی اے کراچی اور ایکٹنگ ایڈیٹرپاکستان کواٹرلی، کراچی جیسے اداروں میں 1951 تا 1956تک خدمات انجام دیں۔
قیام پاکستان کے دوران اُن کی افسانہ نگاری اور ناول نگاری کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔ اس دور میں انھوں نے اردو افسانے اور ناول کو نئے جہات اور آفاق سے روشناس کروایا۔ تقسیم ہند کا کرب، ہجرت، لاکھوں افراد کی ہلاکت، بے بس اور مجبور و مایوس انسانیت، انسانی دردو الم کی لامتناہی داستانیں بیان کررہی تھیں۔ یہ حسیت اور کرب ان کے مختلف افسانوں میں بھی ظاہر ہوا ہے۔ ’ستاروں سے آگے‘، ’شیشے کے گھر‘ اور ’پت جھڑکی آواز‘، جیسے افسانوی مجموعے انسانی کرب و الم کی روح فرسا کہانیاں سناتے ہیں۔ یہ قرۃ العین حیدرکی شدید انسان دوستی کا احساس کرواتے ہیں۔ افسانے ’جلاوطن‘ اور ’پت جھڑ کی آواز‘، اسی ہجرت اور کربِ تنہائی کے شدید احساس سے دوچار کراتے ہیں۔یہی ہجرت اور انسانی رشتوں کی شکست وریخت افسانہ ’یاد کی اک دھنک جلے‘میں ظاہر ہوئی ہے۔ پت جھڑ کی آواز کی تنویر فاطمہ اسی کرب سے دوچار ہے۔ ملاحظہ کیجیے افسانے کا یہ اقتباس:
اسی زمانے میں دلیّ میں گڑبڑ شروع ہوئی اور فسادات کا بھونچال آگیا۔ فاروق نے مجھے میرٹھ خط لکھا کہ تم فوراً پاکستان چلی جاؤ۔ میں تم سے وہیں ملوں گا۔ میراپہلے ہی سے یہ ارادہ تھا۔ ابا بھی بے حد پریشان تھے۔ اور یہی چاہتے تھے کہ ان حالات میں اب انڈیا میں نہ رہوں جہاں شریف مسلمان لڑکیوں کی عزتیں مستقل خطرے میں ہیں۔ پاکستان اپنا اسلامی ملک تھا۔ اس کی بات ہی کیا تھی ابا جائیداد وغیرہ کی وجہ سے فی الحال ترک ِ وطن نہ کرسکتے تھے۔ میرے بھائی دونوں بہت چھوٹے چھوٹے تھے اور اماں جان کے انتقال کے بعد ابّا نے ان کو بڑی خالہ کے پاس حیدرآباد دکن بھیج دیاتھا۔ میرا رزلٹ نکل چکاتھا۔ اور میں تھرڈ ڈویژن میں پاس ہوئی تھی۔ میرا دل ٹوٹ گیا۔ جب بلوؤں کا زور ذرا کم ہوا تو میں ہوائی جہاز سے لاہور آگئی۔3
صدیوں سے قائم ہندوستان کی مشترکہ تہذیب تقسیم ہند اور ہجرت کے نتیجے میں بالکل ختم ہوگئی۔ یہ اس وقت کی نسل کے لیے ایک عظیم سانحہ تھا۔ لاکھوں لوگو ں کی نفسیات بالکل بدل چکی تھی۔ آپسی یگانگت اور رواداری کی جگہ منافرت اور مخاصمت نے لے لی اس سے نوجوان نسل بے حد متاثر ہوئی قرۃ العین حیدر کے مختلف افسانوں میں اس موضوع کی ترجمانی ہوئی ہے۔شیشے کے گھر میں شامل افسانے بھی اسی مرکزی موضوع کا احاطہ کرتے ہیں۔ بطور خاص ’یہ داغ داغ اجالا‘ اور’دجلہ بہ دجلہ یم بہ یم‘،  افسانوں میں شدت سے اس کا اظہار ہوا ہے۔ اس افسانے کا یہ اقتباس اسی انسانی کرب اور ناگہانی صورت حال کا عکاس ہے۔ ملاحظہ کیجیے:
لیکن جب وہ لوٹا ہم لوگوں میں سے کوئی بھی وہاں نہ تھا۔ ہماری پرانی کوٹھی بند پڑی تھی۔ سرخ قالین والے کمرے اور لکڑی کے گھوڑوں پر گردجم گئی تھی۔ دنیا کا خاتمہ ہوچکاتھا۔ تقسیم کی خونی آندھی آکرنکل چکی تھی۔ سب خزاں زدہ پتوں کی طرح دور دور سارے عالم میں تتر بتر ہوگئے تھے اور جیمی کو تعجب ہوا کہ اتنا سب کچھ دیکھنے محسوس کرنے اور جھیل لینے کے باوجود اب تک کس طرح جی رہا ہے۔ سب کس طرح جیے جارہے ہیں۔لیکن ہم یقینا زندہ تھے اور اس وقت کھانے کے بعد اپنے اس نئے ملک میں بیٹھے قہوہ پی رہے تھے اور اسٹیشن سے واپسی پر نادر بچوں کی طرح ہاتھ ہلا ہلا کر اپنے کلب اور اچھن یار جنگ اور جانے کہاں کہاں کے قصے سنارہا تھا اور پولی کہہ رہی تھی بھی واہ جیمی کی نئی جائے تقرر کا نام کس قدر دلچسپ ہے۔گویا کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ گویا ہم سب ہمیشہ سے اسی جگہ اسی طرح رہتے آئے ہیں۔ انسان کتنی جلدی اپنی ساری تکلیفیں ساری پریشانیاں بھول کر نئے حالات اور نئے ماحول سے مانوس ہوجاتا ہے۔
قرۃ العین حیدر کو افسانہ نگاری کی روایت یوں تو اپنے والدین سے ہی ملی تھی جو اپنے وقت کے اہم افسانہ نگار تھے ان کے ابتدائی افسانے یقینا والدین کی ادبی نگارشات کے زیر اثر وجود میں آئے ہیں۔ لیکن جب انھوں نے اپنے گھر کے علاوہ خارجی ادبی منظر نامے کو دیکھا تو ان کی شناسائی ادب کے وسیع وعریض منظر نامے سے ہوئی۔ اُردو ادب میں ترقی پسند تحریک کے تحت افسانوی ادب کے مختلف النوع اسالیب وجود میں آچکے تھے۔ اُردو افسانے کے سرخیل پریم چند کے بعد منٹو، بیدی، عصمت، کرشن چندر اور حیات اللہ انصاری جیسے افسانہ نگاروں نے اُردو کے افسانوی ادب میں بیش بہا اضافے کیے قرۃ العین حیدر کا امتیازیہ ہے کہ انھوں نے ترقی پسندی اور جدیدیت کے درمیانی عرصہ میں اُردو افسانہ نگاری کو نئے اسالیب اور اظہاروبیان کے نئے پیرائے عطاکیے۔1960 کے بعد جب ادب میں جدیدیت کا رحجان شروع ہوا تو نئے لکھنے والوں کو قرۃ العین حیدر کی افسانوی روایت نے متاثر کیا۔ اس طرح انھوں نے جدیدیت کے رحجان کو فروغ دینے میں اہم کردار کیا ہے۔ قرۃ العین حیدر کے افسانوی رویے کا تجزیہ کرتے ہوئے وحید اختر لکھتے ہیں:
قرۃ العین حیدر کا رویہ کہیں کہیں رومانی ہے لیکن موضوعات کو برتنے کا انداز کئی مقامات پر حقیقت پسندانہ بلکہ صحیح طور پر مخالف رومانی ہوجاتا ہے۔ ان کے اسلوب کو توانائی، زبان پر ان کی قدرت، موضوع سے ان کی واقفیت مسائل سے اُن کی ذاتی تعلقInvolvement اور تاریخ وتہذیب کے اُن کے وسیع مطالعے نے دی ہے۔ تجربہ اورمشاہدہ تخلیق میں بنیادی اہمیت کے حامل سہی، لیکن ریاضت اور مطالعہ اسے جوگہرائی اور تکمیل عطا کرتا ہے۔ اس کا ثبوت یہ افسانے ہیں۔ اُن پر کوئی لیبل چسپاں کرنے کی ضرورت نہیں، یہ جدید بھی ہیں، ان میں کہانی پن بھی ہے،سماجی آگہی بھی، تاریخ و بصیرت بھی ان میں سے بہترین ہماری زبان کے افسانوی ادب کے شہکار ہیں۔
قرۃ العین حیدر کے تخلیقی اظہار کی دوسری اہم صنف ناول ہے۔ ناول کی صنف وسیع کینوس گہری فکر اور زندگی کے معاملات میں اتنی ہی شمولیت کا مطالبہ کرتی ہے۔ قرۃ العین حیدر کے تجربات مشاہدات یقینا ہمہ گیر ہیں۔ ان کا مشرقی اور مغربی ادب کا مطالعہ بھی گہرا اور ہمہ گیر ہے۔ اس وجہ سے بھی اُن کی فکر میں گہرائی اور آفاقیت نظرآتی ہے۔ انھوں نے اب، ناول نگاری کی دنیا میں قدم رکھا۔ ان کی ادبی تخلیقی فکر کا ایک اہم پہلو اُن کی تاریخ اور دیگر سماجی علوم کے ساتھ اپنے عصری، سماجی اور معاشرتی حالات وواقعات سے گہری وابستگی بھی ہے جواُن کے افسانوں اور ناولوں میں واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔
دراصل قرۃ العین حیدر کی تعلیم و تربیت اورشخصیت کی تعمیر وتشکیل برطانوی ہندوستان میں ہوئی تھی۔شمالی ہند کا زمینداری اور جاگیرداری نظام برسوں سے قائم ودائم تھا۔ہندوستان کی گنگاجمنی تہذیب، مشترکہ تہذیب وتمدن، مختلف فرقوں اور قوموں کے مابین رواداری اور قومی یکجہتی جیسی اقدار نے قرۃ العین حیدر کی شخصیت کی تعمیر و تشکیل میں اہم کردار ادا کیاتھا۔ ملک کی تحریک آزادی اور اس کے ساتھ ہی دو قومی نظریے کی تحریک بھی فروغ پارہی تھی۔ آزادی ہند کے ساتھ ہی تقسیم کا ناگہانی اور المناک سانحہ وقوع پذیر ہوا، جولاکھوں افراد کی ہلاکت اور غارت گری کا سبب بنا، ہندوستان میں مشترکہ تہذیب و تمدن اور قومی رواداری کے جوبت صدیوں سے قائم تھے یکلخت منہدم ہوگئے۔ ہرچہارسوانسانیت آہ و بکاکررہی تھی۔ فرقہ پرستی کا عفریت انسانی لاشوں کو روند رہا تھا، مجبوروبے بس انسانوں کی آہ و بکااور چیخ وپکار سننے کے لیے سماعت پتھراچکی تھی، ہر طرف خون آگ، دہشت کی سیاہ آندھی نے بصارت کو اندھا کردیاتھا۔ یہ حالات قرۃ العین حیدر کے لیے بے حد روح فرسا ثابت ہوئے لہٰذا انھوں نے وسیع تناظر میں ان مسائل کا تخلیقی اظہار اپنے ناولوں کے ذریعے کیا ہے۔ ان ناولوں کے مطالعے سے اُن کی ژرف نگاہی اور عمیق فکر کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ان کا پہلا ناول ’میرے بھی صنم خانے‘ ہے جسے انھوں نے 1947 میں ہندوستان میں ہی لکھنا شروع کیاتھا اور جب وہ تقسیم ہند کے بعد پاکستان منتقل ہوئیں تو وہاں پر یہ ناول 1949 میں شائع ہوا۔ اس ناول کا بنیادی موضوع ہی تقسیم ہند اور اس کے المناک حادثات ہیں۔ ناول میں بنیادی طور پر دو نسلوں کے کردار نظرآتے ہیں۔ غفران منزل کے مالک کنور عرفان علی جن کو ملک کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے وہ اپنی ریاست کے زمینداری کے معاملات میں مصروف رہتے ہیں۔ دوسری طرف نوجوان نسل میں ناول کا مرکزی کردار رخشندہ اس کے دو بھائی اور اس کی سہیلیاں کرن اوماڈائمنڈ کر، اور شہلارحمان وغیرہ ملک کے حالات پر مباحثے کرتے ہیں۔رخشندہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر ’نیوایرا‘  نامی پرچہ نکالتی ہے۔ یہ سب نوجوان تصور پرست اور مثالیت پسندہیں۔ رخشندہ کے بھائی پی چو کا لکھنؤ کی ملٹری پولس میں تقررہوچکا ہے۔ دوسری طرف کنور عرفان علی کی بیوی بیگم نواب سلطنت آرا تمام انتظامی معاملات پر نظر رکھتی ہے۔ ادھر رخشندہ کی والدہ کو اپنی بیٹی کی شادی کی فکر لاحق ہوتی ہے۔
ادھر امبرپورہاؤس کے سیدمرتضیٰ رخشندہ کے بھائی پی چو سے ان کی بیٹی کے ساتھ طے شدہ رشتہ کی بات یاد دلاتے ہیں لیکن یہاں اُن کوکوئی مثبت جواب نہیں ملتا وہ مایوس لوٹ جاتے ہیں پی چو بھی گھر سے فرار ہوجاتا ہے۔ وہ رخشندہ کی سہیلی کرسٹابل سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ کنور عرفان علی حسب سابق سردیوں کے موسم میں اپنے آبائی قصبے ماناٹھیر چلے جاتے ہیں۔ اس دوران ملک تقسیم ہوجاتا ہے۔ ملک کے حالات بہت تیزی سے بدلنے لگتے ہیں۔ کنور عرفان علی کی زمینداری اور جاگیرداری کی اب کوئی حیثیت نہیں رہی اور پھر ایک دن اچانک کنور عرفان علی کا انتقال ہوجاتا ہے۔ امبرپور ہاؤس کے لوگ بھی پاکستان منتقل ہونے کی سوچ رہے تھے۔ سندیلے کے چودھری شمیم جو کنور رانی کے دور کے رشتے دار ہیں، رخشندہ سے اپنے رشتے کی بات کرتے ہیں۔ لیکن اُن کا یہ منصوبہ ناکام ہوتا ہے۔ ملک کی تقسیم سے لوگوں کی زندگیاں درہم برہم ہوجاتی ہیں۔ سارے منصوبے خاک میں مل جاتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے ’میرے بھی صنم خانے‘سے یہ اقتباس:
دنیابدل رہی تھی، پرانی دنیا ختم ہوچکی تھی۔ یہ معرکے مشاعرے منعقد کرنے والی یہ تہذیب وثقافت پر جان دینے والی یہ زبان کونکھارنے سنوارنے والے لوگ یہ روایتیں یہ پرانی انجمنیں دم توڑچکی تھیں جو کچھ باقی بچاتھا وہ اس قدر بے کس اتنا حماقت زدہ ایسا مجبور تھا کہ دنیا اس کا مذاق اڑارہی تھی۔ تہذیب کے مرکزوں اور گہواروں میں پلنے والے در بہ در کی ٹھوکریں کھانے کے لیے صحراؤں کی طرف نکل گئے۔ امام باڑے ویران اور مسجدیں شکستہ ہوگئیں۔ پرانے خاندان مٹ گئے۔ زندگی کی پرانی قدریں خون اور نفرت کی آندھیوں کی بھینٹ ہوگئیں۔ ایک عالم تہ و بالا ہوگیا۔ وہ تہذیب ہندوؤں اور مسلمانوں کاوہ معاشرتی اور تمدنی اتحاد وہ روایات وہ زمانے سب کچھ ختم ہوگیا۔
لکھنؤ کی زمینداری اورجاگیرداری معاشرت کے پس منظر میں لکھاگیا یہ ناول انسانی جذبات اور رشتوں کی شکست وریخت کے عجیب واقعات اپنے اندررکھتاہے۔ امبر پور ہاؤس کے سید مرتضیٰ، جن کی بیٹی جمیلہ کارشتہ پی چو سے طے ہواتھا۔ اس رشتے کے ٹوٹنے کے صدمے سے انتقال کرجاتے ہیں۔ پی چو خود گھر سے فرار تھا۔ وہ دلی میں تعینات تھا اور پاکستان جانے والی ٹرینوں اور لوگوں کی حفاظت کے لیے مقرر کیاگیا تھا لیکن فسادات میں وہ خود بھی مارا جاتا ہے۔ ادھر کنور عرفان علی کی موت کے بعد کنور رانی چودھری شمیم سے نکاح کرکے سندیلے چلی جاتی ہے۔ رخشندہ کے ساتھی دوست جو مثالیت پسندی اور متحدہ قومیت کی باتیں کرتے تھے حیران و پریشان سب بکھرجاتے ہیں۔سب سے اہم یہ کہ کنور عرفان علی کی وفات کے بعد کنور رانی کا چودھری شمیم سے نکاح کرنا نام نہاد زمینداری اور جاگیرداری کے اخلاقی نظام پر زبردست طنز ہے۔ رخشندہ دہلی سے لکھنؤ آجاتی ہے لیکن اسے یہ دیکھ کر اب حیرت ہوتی ہے کہ لکھنؤ اب بالکل بدل چکا ہے۔ غفران منزل پر اب حکومت کا قبضہ ہوچکا ہے۔ لکھنؤمیں اب اس کا کوئی ساتھی دوست نہیں ہے وہ ایک دو منزلہ پرانی کوٹھی پرپہنچتی ہے جہاں اسے حکومت کے کچھ کارندے نظر آتے ہیں۔ ناول سے یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے:
جب پھاٹک کے سامنے آکر رکی تو وہاں کھڑے ہوئے ایک سنتری نے جو غالباً مقامی ہوم گارڈ کا ایک فرد تھا اور صبح دفتر آنے کی جلدی میں دھوتی کے اوپرہی اپنے یونیفارم کا کوٹ پہن آیا اپنی کھدرکی گاندھی ٹوپی تیڑھی کرکے کان کھجاتے ہوئے ذار آگے بڑھ کر اس سے کہا ”اجی شریمتی مہیلاؤں کے لیے ری سٹلمنٹ کا دفتر امین آباد میں کھولاگیا ہے۔ یہاں صرف پرشوں کاکام دلایاجاتا ہے۔  ترلوکی نندن بابو آپ کو دس بجے وہیں ملیں گے۔
اودھ کی جاگیرداری اور زمینداری اور متحدہ تہذیبی پس منظر میں لکھاگیا یہ ناول ایک بے حد دلچسپ ادبی تخلیق ہے لیکن تقسیم ہند کے بعد اس مشترکہ تہذیب کا شیرازہ بکھرجاتا ہے۔ شاید مصنفہ اس بدلی ہوئی صورت حال کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں تھی وہ بالکل ششدر رہ جاتی ہے۔  وہ خلا میں گھورتی رہ جاتی ہے۔ یہ منظر نامہ فرقہ پرستی کی ہیت ناک صورت اختیار کرلیتا ہے اب مشترکہ تہذیب کے کوئی معنی نہیں تھے۔
قرۃ العین حیدر کا دوسرا ناول ’سفینہئ غم دل‘ ہے جو 1952 میں شائع ہوا۔ یہ ناول بھی ایک لحاظ سے ’میرے بھی صنم خانے‘ کی ہی تکرار ہے۔ لیکن اس میں وہ فنی پختگی نہیں جو میرے بھی صنم خانے میں نظر آتی ہے۔
قرۃ العین حیدر کاشاہکار ناول ’آگ کا دریا ہے‘ یہ ناول 1959 میں پاکستان میں شائع ہوا۔ میرے بھی صنم خانے کو اس ناول کا دیباچہ سمجھنا چاہیے۔ ’میرے بھی صنم خانے‘ میں مصنفہ نے ہندوستان کی جس مشترکہ تہذیب کی پردہ کشائی کی تھی۔ ’آگ کا دریا‘ میں اس کی توسیع کرتے ہوئے وہ ہندوستان کے عہد قدیم سے اپنا سفر شروع کرتی ہیں۔ اس ناول کا مرکزی موضوع اور کردار وقت ہے۔ گوتم بدھ اور ویدک عہدسے شروع ہوکر پاٹلی پتر مگدھ اور دوروسطیٰ میں مسلمانوں کی آمد، مغلوں کا زوال، برطانوی ہندوستان، آزادی کی تحریک اور پھر تقسیم ہند کا المیہ اور پھر ہندو پاک میں مہاجروں اور شرنارتھیوں کی باز آبادکاری کے مسائل، غرض یہ ناول برصغیر ہندوپاک کی تاریخی سماجی تہذیبی سیاسی اور تمدنی زندگی کا منظر نامہ ہے۔ ہندوستان کی تاریخ میں رزم وبزم دونوں طرح کے عناصر کارفرمارہے ہیں۔
اس ناول کے اہم کرداروں میں گوتم ہری شنکر، چمپاکمال اور طلعت شامل ہیں۔ یوں ضمنی کردار بے شمار ہیں۔ ناول کے مرکزی کردار مختلف زمانوں میں اپنی شناخت اپنے سماجی منظرناموں کے حوالے سے قائم کرتے ہیں۔ وقت ایک متلاطم دریا ہے۔ جو ان کی شناخت ہیئت اور شکل و صورت بدل کرانھیں متعارف کرواتا ہے یہی اس ناول کا تخلیقی اسلوب ہے۔ تقسیم اور ہجرت کے مسئلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے قرۃ العین حیدر  ناول کے آخری حصے میں لکھتی ہیں:
پاکستان میں جو نفسا نفسی کا عالم اور حبّ وطن کی کمی نظر آتی ہے اس کی یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو اس سرزمین سے کوئی بے اختیار جذباتی اور روحانی لگاؤ نہیں۔ وہ موقع اور سیکوریٹی کی تلاش میں یہاں آئے ہیں جس طرح یورپین اقوام امریکہ پہنچی تھیں۔ نیویارک میں رہنے والا پولش بوڑھا وارسا کو یاد کرکے آہیں بھرتا ہے مگر پولینڈ کے اس دھندلے تصوّر سے اس کی اولاد کو کوئی غرض نہیں جو نئے ملک میں امریکن کی حیثیت سے پروان چڑھتی ہے۔ اسی طرح یہاں پر جو لوگ گومتی کے خربوزوں اور پریاگ کے میلے اور ساون کی گھٹاؤں کو یاد کرکے روتے ہیں ان کی اولاد جو یہاں بڑی ہورہی ہے اس کے لیے یہ سارے تصورات بے معنی اور مضحکہ خیز ہیں۔
غرض ’آگ کا دریا‘ قرۃ العین حیدر کے تخلیقی سفر کا شاہکار اور اُردو ناول کی تاریخ کا سنگِ میل کہنا چاہیے۔ پاکستان میں ’آگ کا دریا‘ کی اشاعت کے بعد وہ کچھ عرصے کے لیے لندن چلی گئیں وہاں پر انھوں نے ڈیلی ٹیلیگراف میں صحافتی خدمات انجام دیں۔ 1960 میں لندن سے ہندوستان لوٹ آئیں۔ ہندوستان آکر ممبئی میں صحافتی خدمات انجام دیں۔ ’امپرنٹ‘ میگزین میں (1964تا 1968) تک خدمات انجام دیتی رہیں، بعدازاں السٹریٹ ویکلی کے  ایڈیٹوریل بورڈ میں 1968-1975) تک خدمات انجام دیتی رہیں۔
اس دوران اُن کا ایک اہم ناول ’آخرشب کے ہم سفر‘ 1971میں شائع ہوا۔ اس ناول میں 1942 کی بنگال کی دہشت پسندانقلابی تحریک کو موضوع بنایاگیا ہے۔ مزیدیہ کہ یہ ناول ملک کی آزادی قیام پاکستان اور پھر قیام بنگلہ دیش جیسے اہم واقعات کے پس منظر میں لکھاگیا ہے۔ اس ناول کے اہم کردار ریحان الدین احمد دیپالی سرکار،اومارائے اور جہاں آراوغیرہ ہیں۔ اس دوران اُن کا ایک سوانحی ناول ’کارِ جہاں دراز ہے‘ دو جلدوں میں شائع ہوا۔ اس ناول کی ایک تیسری جلد’شاہراہِ حریر‘ کے عنوان سے شائع ہوئی یہ ناول مصنفہ کی نہ صرف سوانح ہے بلکہ اس میں برصغیر ہندوپاک کی تاریخی تہذیبی سیاسی سماجی معاشرتی مذہبی زندگی کی مختلف تحریکات کے علاوہ علمی و ادبی رحجانات کا بیان بھی بہت ہی عالمانہ انداز میں کیاگیا ہے۔
قرۃ العین حیدر کے آخری دوناول ’گردش رنگِ چمن‘ اور ’چاندنی بیگم‘میں برصغیر ہند کی تاریخی تہذیبی ومذہبی اور سماجی زندگی کی مرقع کشی ہے۔ گردش، رنگ چمن میں تصوف اور اس کے مختلف عقائدبھی زیر بحث آتے ہیں۔ جبکہ چاندنی بیگم میں لکھنؤ کی جاگیرداری تہذیب کے اعلیٰ طبقات کو ناول کا موضوع بنایاگیا ہے۔
قرۃ العین حیدر نے افسانے اور ناول کے علاوہ ناولٹ بھی لکھے ہیں۔ ان کے چار ناولٹ ’دلربا‘، ’چائے کے باغ‘، ’سیتاہرن‘ اور ’اگلے جنم موہے بٹیانہ کیجو‘مقبول ہوچکے ہیں۔ ’دلربا‘ ممبئی کی پارسی تھیٹریکل کمپنی کے پس منظر میں لکھاگیا ہے۔ جبکہ ’چائے کے باغ‘ میں سلہٹ میں اونچے طبقے کے لوگوں کی کھوکھلی زندگی کے علاوہ چائے کے باغات میں کام کرنے والے مزدوروں کی زندگی کو بھی پیش کیا گیا ہے۔ ناولٹ ’سیتاہرن‘ سندھ کراچی کے شرنارتھی خاندان سے متعلق ہے۔ سیتا تقسیم کے بعد کراچی سے دہلی آکر بس جاتی ہے۔ ’اگلے جنم موہے بٹیانہ کیجو‘عرس اور میلے ٹھیلے کی فضا میں تخلیق کیاگیا یہ ناولٹ بنیادی طور پر رشک قمر اور جمیلن ان دولڑکیوں کی دردبھری زندگی کو پیش کرتا ہے۔
قرۃ العین حیدر کاآخری افسانوی مجموعہ’روشنی کی رفتار‘ ہے جو 1982 میں شائع ہوا۔ اس مجموعے میں کل 18 افسانے ہیں جو مختلف النوع موضوعات اور اسالیب بیان کے لحاظ سے بھی جدت آمیز ہیں۔
قرۃ العین حیدر کے نثری اظہار کی ایک اہم صنف رپورتاژ نگاری بھی ہے۔ ان کے تحریر کردہ رپورتاژ کی تعداد12 ہے ان ’رپورتاژوں میں کوہِ دمادند‘، ’چھٹے اسیرتوبدلا ہوا زمانہ تھا‘، ’گل گشت‘، ’خضرسوچتا ہے‘، ’وولرکے کنارے‘،  ’دکن سانئیں ٹھار سنسار میں‘، ’قیدخانے میں تلاطم ہے کہ ہند آتی ہے‘، ’ستمبر کا چاند‘، ’درچمن ہرورقی حال دگرست‘ اور جہان دیگر شامل ہیں۔ ان رپورتاژوں میں مختلف مقامات پر ان کی سیاحت اور وہاں کی مجالس کی روداد عمدگی سے بیان کی گئی ہے۔ ان کی ادبی خدمات میں مغربی ادب سے کیے گئے تراجم بھی بے حد اہم ہیں۔ انھوں نے ہنری جیمس کے ناول (پورٹریٹ آف اے لیڈی) کا ترجمہ ’ہمیں چراغ ہمیں پروانے‘ کے عنوان سے کیا۔ انھوں نے ٹی ایس ایلیٹ کے ڈرامے ’مرڈر ان کیتھڈرل‘ کا ترجمہ کلیسا میں قتل کے عنوان سے کیا اس کے علاوہ کچھ روسی ادب سے بھی ترجمے کیے ہیں۔مزید اپنے افسانوں اور ناولوں کے ترجمے بھی انگریزی میں کیے ہیں۔
اُن کی ادبی خدمات کے عوض انھیں مختلف انعامات اور اعزازات سے بھی نوازا گیا۔ ان کے افسانوی مجموعے ’پت جھڑ کی آواز‘پر 1967، ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ دیاگیا۔ 1969 میں اُن ادبی ترجمہ نگاری کے لیے انھیں سوویت لینڈ ایوارڈ سے نوازا گیا۔ 1984 میں پدم شری ایوارڈ اور 1985 میں غالب ایوارڈ عطا کیاگیا۔
ناول ’آگ کا دریا‘کے لیے ہندوستانی ادبیات کا سب سے بڑا ایوارڈ گیان پیٹھ ایوارڈ دیا گیا۔ سنہ 2000 میں بہادر شاہ ظفر ایوارڈ 2005  میں پدم بھوشن ایوارڈ بھی دیاگیا۔ اس کے علاوہ انھیں اقبال سمان سے بھی نوازا گیا۔
قرۃ العین حیدر ہندوستانی ادبیات کا وہ روشن ستارہ ہے جس کی روشنی میں تشنگان ادب ہمیشہ اپنی نئی راہیں دریافت کرتے رہیں گے۔انھوں نے اُردو کے افسانوی ادب کو جدّت آمیز اسالیب اور طرزِ اظہار عطاکیا۔ ناول اور افسانہ دونوں اصناف میں انھوں نے منفرد شناخت قائم کرلی۔ اُردو اور انگریزی ادبیات کے گہرے مطالعے کے علاوہ تاریخ اور دیگر علوم سے ان کی دلچسپی نے بھی ان کی فکر کو ہمہ گیری عطا کی۔ انسانی دردمندی اور شدید انسان دوستی نے انھیں اُردو ادب کی عظیم شخصیت کا مرتبہ عطا کیا۔ اُردو ادب ان کی تخلیقات سے ہمیشہ گراں بار رہے گا۔
ماخذات
(1)     قرۃ العین حیدر: کارِ جہاں دراز ہے، ص 21-22
(2)     قرۃ العین حیدر:کارِ جہاں دراز ہے، ص 225  
(3)     قرۃ العین حیدر: پت جھڑکی آواز، صفحہ
(4)     قرۃ العین حیدر: شیشے کے گھر، ص 225               
(5)     وحید اختر: قرۃ العین حیدرکے افسانے فکروفن ایک مطالعہ، ص 460
(6)     قرۃ العین حیدر:آگ کا دریا

Professor Shaikh Siddiq Mohiuddin
H.O.D Department Of Urdu
Dr.Baba Saheb Abmedkar Marathwada
University, Aurangabad. M.S.
Mob: 9096157937

ماہنامہ اردو دنیا، مارچ 2020

1 تبصرہ:

  1. کیا آپ کے مضامین ہم اپنی ویب سائٹ sirfurdu.com میں شامل کر سکتے ہیں

    جواب دیںحذف کریں