26/6/23

حکیم مومن خان مومن کے فارسی خطوط کا تنقیدی جائزہ:نیلوفر حفیظ

خط فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی نشان، لکیر، فرمان، مکتوب اورپیغام وغیرہ کے ہوتے ہیں عموماً دو لوگوں کے درمیان ہونے والی تحریری گفتگو کو خط کہا جاتا ہے خطوط نویسی کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتاہے کہ اس فن کی تاریخ اس قدر قدیم اور کہنہ ہے کہ بعض مواقع پر تو ہمارے محققین ومورخین کی دور رس نگاہیں بھی اس کا احاطہ کرنے سے قاصرنظرآتی ہیں کہتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے تقریباً ساڑھے پانچ سو سال قبل خطوط نویسی کی ابتدا ہو چکی تھی لیکن افسوس کہ پختہ اور حتمی ثبوت ہماری دسترس میں نہ ہونے کے سبب وثوق کے ساتھ کوئی بھی رائے قائم کرنا قدرے دشوارمحسوس ہوتا ہے البتہ اگر فارسی زبان وادب میں خطوط نگاری کی تاریخ پر روشنی ڈالی جائے تویہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ قدیم ایران کی تاریخ کے جو خطوط آج ہماری دسترس میں ہیں وہ ایران کے مشہورومعروف ساسانی بادشاہ نوشیروان عادل کے زمانے میں تحریر کیے گئے تھے بعد میں انھیں تمام خطوط کو’ توقیعات‘ کے نام سے یکجا کردیاگیاجو آج بھی ہماری دسترس میں ہےں اورفارسی ادب کا قیمتی سرمایہ تصور کیے جاتے ہیں۔یہ مجموعہ فارسی خطوط کے اولین نقوش کے زمرے میں رکھاجا سکتا ہے کیونکہ اس کے بعدسے ہی اس فن کی باقاعدہ اور با ضابطہ شروعات ہوئی اور فارسی زبان میںخطوط نویسی کا یہ سلسلہ نسل در نسل منتقل ہوتاچلا گیانہ صرف یہ کہ ایرانی بادشاہوں نے اعلیٰ ترین خطوط لکھے ہیں بلکہ ہر خاص وعام میں یہ افادی فن اپنے تمام تر لوازمات اور طمطراق کے ساتھ رائج رہاہے اور ایران پر عربوں کا تسلط قائم ہوجانے کے بعد تو اس فن نے عام وخاص کے درمیان مزید وسعت، کشادگی اور مقبولیت حاصل کی اور مختلف ادوار میںتاریخی، ادبی اور سیاسی اعتبارسے بے پناہ اہمیت کے حامل خطوط مسلسل منظر عام پر آتے چلے گئے جو تا عصر حاضر بھی مورخین ومحققین کے لیے مورد استفادہ اورقابل تفکرنظرآتے ہیں۔

کشورہندوستان کی فارسی زبان وادب کی تاریخ میں جب بھی فارسی خطوط نویسی کاذکرکیاجاتاہے تومرزا غالب کے بعد حکیم مومن خان مومن کا نام سر فہرست نظر آتا ہے اس دانشور عالی نے فن مکتوب نگاری کو جو عروج اور رونق عطا کی وہ ہمارے ملک کے فارسی داں طبقے سے پوشیدہ نہیں ہے۔کے فارسی داں طبقے سے پوشیدہ نہیں ہے۔

 حکیم مومن خان مومن ایک ہمہ گیر اور ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اپنے عہد کے تقریباً تمام مروجہ علوم وفنون پر ان کو دسترس حاصل تھی انھوں نے اردو اور فارسی دونوں ہی زبانوں کواپنے احساسات دروں اور جذبات صادقانہ کی ترجمانی کاوسیلہ بنایاحالانکہ مومن کو زیادہ تر لوگ اردو شاعر کی حیثیت سے جانتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کو اردو کے ساتھ ساتھ فارسی زبان وادب پر بھی پوری دسترس حاصل تھی گو کہ انھوں نے مرزاغالب کی طرح اپنی فارسی دانی کی غیر معمولی صلاحیتوں کو اپنے لیے کبھی باعث فخر اور نشان عالی توتصورنہیں کیا ہے اورغالباًیہ ان کی طبیعت کی بے پناہ سادگی اور انکساری ہی تھی کہ فارسی زبان کا بڑا ادیب اور شاعر ہونے کے باوجود انھوں نے کبھی دعوائے یکتائی نہیں کیا بلکہ اس معاملے میں ہمیشہ میانہ روی اورعاجزی اختیار کی ان کی فارسی دانی کا لوہا بڑے بڑے اساتذئہ فن نے مانا ہے اور ان کو فارسی کا ایک عظیم شاعر اور نثر نویس گرداناہے شواہد سے تو یہاں تک ثابت ہوتاہے کہ خود اہل زبان بھی ان کی غیر معمولی فارسی دانی کی صلاحیتوں کے سبب ان کو ایرانی سمجھتے تھے اوران کی قدرومنزلت میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کرتے تھے اس سلسلے میں عبدالغفور نساخ لکھتے ہیں:

مومن کو فارسی میں وہ دستگاہ حاصل تھی کہ اہل ایران ان کو ایرانی سمجھتے تھے“1

مومن کی بے پناہ فارسی صلاحیتوں کی اہمیت وارزش کو ہر دورمیں خراج تحسین پیش کیا جاتا رہا ہے اورصرف ان کے معاصرین ہی نہیں بلکہ متاخرین نے بھی ان کو دنیائے فارسی کا ایک عظیم شہہ سوار قرار دیاہے ’مومن شخصیت اور فن‘ کے مصنف نے اردو کے ساتھ ساتھ ان کی فارسی خدمات کا بھی گہرائی وگیرائی سے مطالعہ ومحاسبہ کیا ہے اور ان کو اردو کے ساتھ ساتھ فارسی نظم ونثر کا بھی ایک استاد بزرگ بتاتے ہوئے لکھاہے:

وہ جہاں اردو کے ایک بلند پایہ شاعر تصور کیے جاتے ہیں وہاں فارسی میں بھی ان کے استادانہ کمال سے انکار کرنا غیر ممکن ہے جس کے ثبوت میں فارسی دیوان مومن اور انشائے مومن دو شاہد عادل پیش کیے جا سکتے ہیں۔“ 2

مومن خان مومن کے اردو دیوان کے ساتھ ساتھ ان کا فارسی دیوان بھی ان کے پھوپھی زاد بھائی اور دہلی کی قدآور شخصیت سمجھے جانے والے شاہی طبیب جناب حکیم احسن اللہ خاں نے ترتیب دیا تھااس کے علاوہ حکیم مومن خان مومن کے فارسی خطوط اور تقویموںکے دیباچوں وغیرہ کو بھی ’انشائے مومن‘کے عنوان سے احسن اللہ خاں نے ہی مرتب کیااور عام لوگوں کی دسترس میں پہنچایا اور اسی مرتب شدہ خطوط کو بعد میں ڈاکٹرظہیر احمد صدیقی نے بڑی محنت ومشقت کے بعد اردو ترجمے کے ساتھ کتاب کی شکل میںشائع کیاہے جس کو عام وخاص میں خصوصی مقبولیت اوراہمیت حاصل ہوئی اوران کی مومن خان مومن کے لیے اختیار کی گئیں مساعی جمیلہ کو خوب خوب سراہا گیا آقائے ظہیر احمد نے بھی مومن خان کو فارسی زبان کا ایک بڑا شاعر اور نثر نویس قرار دیا ہے اور مختلف شواہد کی روشنی میں ثابت کیا ہے کہ فارسی دانی کے معاملے میں ان کا مرتبہ کسی ایرانی شاعر اور ادیب سے کمتر قرارنہیں دیا جا سکتاہے ان کے فارسی خطوط کی اہمیت وارزش پر اظہار خیال کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:

فارسی انشا پردازی کا جو دورہندوستان میں ظہوری، فیضی اور نعمت خاں عالی سے شروع ہواتھاوہ غالب اور مومن پر ختم ہو گیایہ درست ہے کہ مومن کی نثر سرتاپارنگینی سے معمور اور تصنع سے بھرپورہے لیکن ا س میں بھی انھوں نے اپنی طباعی اورنکتہ سنجی سے وہ انفرادیت پیداکی ہے کہ ہراہل نظر کو ایمان لانا پڑتا ہے علمی اصطلاحات، مشکل تلمیحات، نازک استعارات اور نادر تشبیہات نے اس کی نثر کو گنجینہ معنی کا ایک طلسم بنا دیا ہے اس میںبلا ارادہ مصنف کی ذات اور ماحول کی نسبت کچھ ایسے اشارے بھی آ گئے ہیں جن سے ہمیںاس عہد کی معاشرت کا کچھ نہ کچھ اندازہ ہوتا ہے “3

مومن خان کی فارسی نثر انشا پردازی کاایک اعلیٰ نمونہ اورمنہ بولتاثبوت یہ ہے ان کی تحریروں میں وہ اثر آفرینی اور سحر بیانی ہے جس کی وجہ سے ہر بار پڑھنے سے کوئی نہ کوئی نکتہ روشن ہو کر اذہان وقلوب کو جلا بخشتاہے ان کے خطوط اعلیٰ فارسی نثر کا بہترین نمونہ کہے جا سکتے ہیں ان کے بیشتر خطوط (کچھ کو چھوڑ کر جو انھوں نے بعض ایسے عزیزوں اور دوستوں کو لکھے ہیں جو فارسی زبان و ادب سے کوئی خاص واقفیت نہیں رکھتے تھے ان کی فارسی کم فہمی اور کم علمی کے سبب انھوں نے ان کو سادہ اور سلیس انداز میں خط لکھے ہیں ) ان کی فارسی دانی کا منہ بولتا ثبوت ہیں انھوں نے خط لکھتے وقت عبارت آرائی اور مشکل بیانی کو بروئے کار لانے میں کوئی تردد نہیں کیا ہے اور یہ مشکل بیانی اورعبارت آرائی ان کے دور کی ضرورت بھی تھی کیونکہ اس عہدمیں کشور ہندوستان میں فارسی زبان وادب کا سورج اپنے عروج کی انتہائی منازل کو طے کر چکا تھا فارسی داں طبقہ سبک ہندی میں طبع آزمائی کرتے ہوئے مسلسل ترقی کے راستے پر گامزن تھا اور بہترین ادبی فارسی اور اشارے کنایوں کی زبان استعمال کرنا ہی شاعر یا مصنف کی ذہانت وذکاوت کا ثبوت ہوتا تھا،تمام تر حالات کی نامساعدی اورناسازگاری اور دشمنوں کی حیلہ پروری وسازشوںکے باوجودبھی لوگ ابھی بھی فارسی زبان کو ہی زیادہ قابل اعتناتصور کرتے تھے یہی سبب ہے کہ عہد مومن میں مشکل پسندی کا رحجان بہت زیادہ بڑھ چکا تھا اور زیادہ تر شعرا وادبا تازہ گوئی اور معانی آفرینی کی طرف اپنی توجہ مبذول کیے ہوئے تھے ظاہر ہے مومن بھی اپنے زمانے کے عام رحجان سے مستثنیٰ کیسے رہ سکتے تھے لہٰذا انھوں نے وہی رحجان اپنایا جو اس وقت مستعمل تھا اور بلاشبہ وہ اس میں معاصرین میں سبقت لے گئے ہیں۔

حکیم مومن خان کے خطوط کی سب سے بڑی انفرادیت اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے اپنے زیادہ تر فارسی خطوط میں علم طب اورعلم نجوم وغیرہ کی اصطلاحات کو بڑی روانی اور فراوانی کے ساتھ استعمال کیا ہے جو ان کا سا انداز ان کے معاصرین نثر نگاروں اور شاعروںکی تحریروں میں کسی اور کے یہاں دیکھنے کو نہیں ملتاہے ہمارا یہ یگانہ عصر فنکارعلم طب اور علم نجوم میںہی مہارت نہیں رکھتا تھا بلکہ فن موسیقی اورعلم فلکیات پر بھی گہری دسترس تھی اس کے علاوہ وہ اپنے عہد کے شطرنج کے کھلاڑیوں میں بھی سب سے بلند درجہ رکھتے تھے اس کے ساتھ بھی اور نہ جانے کون کون سے علوم وفنون تھے جن سے حکیم مومن خان کوبڑی گہری واقفیت اور دلچسپی تھی اورقابل ذکر بات یہ ہے کہ ان سب علوم وفنون سے گہری آگاہی کا اظہار ان کی فارسی تحریروں میں بڑی شدت کے ساتھ کیاگیاہے جس کے سبب زمانہ دراز تک ان کی فارسی تحریریں عام فہم لوگوں کے لیے چیستاں بنی رہیںاور عام وخاص کی عدم توجہی کے سبب ان کی زندگی میں فا رسی خطوط وشاعری کو وہ قبول عام حاصل نہیں ہو سکا جو ان کی اردو شعروشاعری کو حاصل ہو گیاتھاکیونکہ ان کے فارسی خطوط کو صرف وہی لوگ سمجھ سکتے تھے جو فارسی زبان وادب سے کماحقہ واقفیت رکھنے کے ساتھ ساتھ اس عہد میں رائج مختلف علوم وفنون کے متعلق بھی جانکاری رکھتے ہوںان کے اس مشکل اورپیچیدہ اسلوب نگارش کی وجہ سے عام فہم اور سہل پسندلوگ عرصہ دراز تک ان کے اس انفرادی وعظیم ادبی کارنامے سے واقفیت ہی حاصل نہیں کر سکے اور اگر اس کے متعلق کوئی بات کی بھی گئی تو بات چند سطروں سے متجاوزنہ ہو سکی:

اسی طرح بعض خطوط میں طب اور نجوم کی اصطلاحیں ایسی بر محل استعمال کی ہیںکہ وقائع نعمت خان کا اسلوب نگاہوں میں پھر جاتاہے“ 4

 جیسا کہ قبلا ذکرکیا گیا کہ مومن کے فارسی خطوط کو بہت زیادہ قبول عام نہیں مل سکا ایک تو ان کے مشکل انداز بیان کے سبب دوسرایہ کہ بعض دانشوروں کا ماننا ہے کہ ان کے خطوط میں ان کی ذاتی زندگی اور معاشرقی حالات کی تلاش صدا بہ صحراثابت ہوتی ہے کیونکہ انھوں نے اپنے ان خطوط میں اپنی ذاتی زندگی اوراپنے معاشرے کے متعلق کوئی خاص معلومات بہم نہیں پہنچائی ہےں کیونکہ ان خطوط کو لکھنے سے ان کا مقصد اپنے معاصرین کے درمیان اپنی بے پناہ فارسی دانی کا اظہار کرنا مقصود تھا تاریخی یا سماجی صداقتوں کو منظرعام پر لانا نہیں تھا پروفیسر نذیر احمد مکاتیب مومن کے متعلق لکھتے ہیں:

مومن کے خطوط سے ان کے حالات زندگی اور شخصیت وغیرہ پر بہت زیادہ روشنی نہیں پڑتی ہے کیونکہ وہ زیادہ تر محمد شاہی طرزمیں لکھے گئے ہیں اور عبارت آرائی، مشکل پسندی اورغیر معمولی تصنع سے بھر پور ہیں“ 5

مذکورہ بالا سطور کی روشنی میںمومن کے خطوط کے متعلق حتمی طور پر یہ نظریہ قائم نہیں کیا جا سکتاہے کہ انھوں نے اپنے ان خطوط میںاپنے عہد کی عکاسی نہیں کی ہے بھلے ہی انھوں نے شعوری طورپر اس طرف توجہ نہ کی ہو البتہ لاشعوری طور پر ان کے خطوط میں ان کی ذاتی زندگی اور سماجی حالات کا ذکر جا بجا موجود ہے اور ساتھ ہی ساتھ مومن کے بعض خطوط تو ان کی ذاتی زندگی کی بھی بھر پور عکاسی کرتے ہیں ذیل میں ان کے خطوط سے کچھ اقتباس نقل کیے جا رہے ہیں جو ان کی ذاتی زندگی کے متعلق معلومات یکجا کرنے میں بڑے معاون ثابت ہوسکتے ہیں ان کے متعدد فارسی خطوط کے مطالعے سے اندازہ ہوتاہے کہ مومن کوبھی دیگر لوگوں کی طرح زندگی کے بے شمار نشیب وفراز سے سابقہ پڑا اور بہت سے تلخ وتندحالات سے گزرنا پڑا لیکن ان کی وضع داری اور خاندانی شرافت نے کبھی ان کو اس بات کی اجازت نہیں دی کہ وہ زندگی کے مسائل ومصائب کی تاب نہ لا کر واویلا کریں ان کو تنگدستی، مفلسی اور غربت کے کوہ گراں کا بار اپنے ناتواں شانوں پر اٹھانا پڑا حالانکہ والدہ کی طرف سے ان کو تھوڑی بہت زمین وراثت میں ملی تھی البتہ اپنوں وبیگانوں کی سازشوں نے وہ بھی ان سے چھین لی جس کے بعد وہ زبردست مالی مصائب میں گرفتار ہو گئے اپنے ایک خط میں احسن اللہ خان کو اپنی مالی پریشانیوں اوردلی کیفیات سے آگاہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

زمانے کی ناقدری اور نافہمی کے باعث کوئی میرا خریدار نہیں ہے اور میرے آبدار موتیوں کا بازار تاریکی میں بھی مندا ہے، میرا بسامان جو بند پڑا ہے اس پر کساد بازاری کی گرد اس قدر بیٹھ گئی ہے کہ طوفان نوح سے بھی نہین دھل سکتی اور میرے آئینہ پر کسمپرسی کی زنگار اس قدر جم گئی ہے کہ صرصرکا غبار بھی اس کو جلا نہیں سکتا میرے یوسف مراد کلام کو بڑھیاکے سوت کی انٹی کے بدلے بھی لوگ نہیں خریدتے اور اس کو چاہ کنعاںسے کھوٹے سکوں کی عوض بھی نہیں نکالتے، ید بیجا کے معجزے کے باوجود میں خالی ہاتھ ہوں اور دم عیسیٰ کے ہوتے ہوئے بیماری میں مبتلا ہوں ۔ سامری کیش میرے صحیفہ کمال کو پسند نہیں کرتے خواہ قلم قدرت کا لکھا ہوا کیوں نہ ہو۔اس کے برخلاف نااہلوں کو جو عجلاً جسدًالہ خوار کے مصداق ہیں سونے میں تولتے ہیں۔میری موشگافی فرعون کے موتیوں میں پروئی ہوئی داڑھی پر رشک کرتی ہے اور میری باریک بینی سرمہ شدادکی حسرت میں اشک خون برساتی ہے اس ناقدری کے باوجود میں نے کبھی ہنر کی آبرو نہیں بیچی اور امراءکی آستین سے توقعات وابستہ نہیں کیں ۔میں نے جو ک روٹی پر قناعت کی اور آسمان کی خوشہ گندمپر کبھی نظر نہیں ڈالی۔ میری خرقہ پوشی کبھی آسمان کے اطلس کی طرف راغب نہیں ہوتی اور میری خاک نشینی ذات الکرسی (ستاروں کی ایک شکل جو کرسی نشین عورت سے مشابہ ہے) کا سہارا نہیں لیتی لیکن کیا کیا جائے ،اگر نا انصاف دنیایہ بھی نہ دیکھ سکے اور ناقدری زمانہ بستر خاک سے بھی ایک درجہنیچے بٹھائے ایک نیا ظلم جو پرانے دشمن مراد آسمان نے کیایہ ہے کہ تھوڑی سی زمین جو مجھے والدہ سے ورثہ میں ملی تھی وہ بھی زبردستی چھی لی۔“6

مومن خان مومن اپنے عہد کے ایک بارسوخ، غیرت مند اور خود دارگھرانے کے چشم وچراغ تھے ان کی خاندانی شرافت، غیورطبیعت اورخوددارانہ مزاج نے کبھی کسی کے در پر ناصیہ فرسائی کا گناہ گوارا نہیں کیا حالانکہ ان کو انگریزوں کی طرف سے کئی بار ان کا ندیم خاص بننے کی پیش کش کی گئی لیکن انھوں نے ہر بار اس کو مسترد کر دیا کیونکہ وہ ایسی کوئی بھی ملازمت اختیار کرنا نہیں چاہتے تھے جو ان کے مزاج اور طبیعت کے موافق نہ ہو یہی سبب تھا کہ ان کوطویل وقت تک مالی تنگدستی کا سامنا کرنا پڑا چونکہ آمدنی کا کوئی مضبوط وسیلہ ان کے پاس نہیں تھا لہٰذا اکثر ان کومقروض بھی ہونا پڑتا تھا حالانکہ وہ مالی لحاظ سے ایک خوشحال متوسط طبقے سے تعلق رکھتے تھے اوران کی خاندانی پنشن ایک ہزار روپے سالانہ تھی لیکن انگریزی حکومت کی حیلہ پروری اور مکاری کے سبب وہ پنشن بھی ان کو پوری یا وقت پر نہیں ملتی تھی جس کے سبب وہ اکثر مالی مسائل کاسامنا کرنے پر مجبور رہتے تھے اپنی تنگدستی اور مالی پریشانیوں کا شکوہ ان کے کئی فارسی خطوط میںبڑے واضح اندازمیں دیکھنے کو ملتا ہے ان کے فارسی خطوط کے مجموعے میں بہت سے ایسے شواہد ہیں جن سے اندازہ ہوتاہے کہ انھوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ پریشانی اور مالی مسائل کو فرو کرنے میں گزارااور بعض اوقات توایسے مواقع بھی آئے کہ ان کی عزت نفس بری طرح مجروح ہوئی اوران کو اپنوں وبیگانوں کے سامنے شرمندہ بھی ہونا پڑا۔ ذیل میں ان کے ایک خط کی چند سطور نقل کی جا رہی ہیں جن کو پڑھ کربا آسانی اندازہ ہوجاتاہے کہ مومن خان کی تنگدستی اور غربت نے ایک دو بار نہیں بلکہ متعدد مرتبہ ان کی عزت نفس کو سربازار رسوا اور ذلیل کیااوران کو اپنی بے عزتی اور رسوائی کوزندگی کے ایک تلخ گھونٹ کی طرح برداشت کرنا پڑا:

ایک بقال جس سے نان ونمک زر سالانہ کے وعدے پر لیاتھااس سے وعدہ پختہ تھاکہ زر سالانہ وصول ہونے والا ہے رقم ادا ہو جائے گی، اس کے تقاضے پر میں سختی سے ڈانٹااورگالیاں دیں، وہ بھی لپٹ پڑا اورعزت آبروپر ہاتھ ڈالاچیخ پکار بلند ہوئی اور بال بھی کھینچاتانی میں آئے“ 7

مومن خان کو بھی اپنے عہد کے دیگر شاعروں اور ادیبوں کی طرح ہمیشہ اس بات کا شکوہ رہا کہ اہل زمانہ نے ان کے ہنر وکمال کے مطابق ان کی قدر افزائی نہیں کی اورفلک کج رفتارنے ہمیشہ ان پر پریشانیوں کے کوہ گراں کو مسلط رکھا حتیٰ کہ ان کی ازدواجی زندگی میں بھی ان کو بہت زیادہ کامیابی حاصل نہیں ہو سکی ان کی پہلی شادی 1823میں ہوئی تھی لیکن افسوس کہ ان کی بیوی ان کی مزاج آشنا اور ہمدرد ثابت نہیں ہو سکی اور دونوں میں ہمیشہ ان بن رہی اور آخر کار دونوں میں علیحدگی ہو گئی اس سلسلے میں انھوں نے اپنے ایک عزیزبنام غلام ضامن کو خط لکھ کر اپنی قسمت کی نارسائی اور ناکام ازدواجی زندگی کا ذکر کیا ہے اوراس برائے نام رشتے کے ختم ہو جانے پر خدا کا شکر اداکیاہے کہ خدا کا بڑاکرم اور احسان ہے کہ انھیں اپنی بد دماغ بیوی اور اس کے جاہل خاندان سے نجات حاصل ہو گئی وہ اس خط میں یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس رشتے کو چلانے کے لیے ان کو سخت ترین آزمائشوں اور ذہنی اذیتوں سے گذرنا پڑا اوراس برائے نام رشتے کو چلانے کی ان کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیںچنانچہ وہ لکھتے ہیں:

خدا لگتی کہنا۔ مومن کا جہنم میں جا پڑناخوشی کا باعث نہیں ہو سکتا۔ گاں گاں ذلت وخواری اٹھا کر دنیا میں کوئی مشہور نہیں ہوتا۔ میں نے دو تین مہینے نادانی اور سادہ دلی سے نا اہلوں کے ساتھ نباہنے کی غلطی کی تھی جس پر سب سے ملامتاور نفرین سننی پڑی اب جبکہ میں فارغ البال اور خوش حا ل ہوں خدا نہ کرے کہ پھر اپنے آپ کو مصیبت میں پھنساں اورنادانوں کی مجلس میں شریک ہوں... چونکہ میںنےنابکارجاہلوں سے تکلیف اٹھائی ہے اوربد اطوار گنواروں سے رشتہ کرنے میں مصیبتیں جھیلی ہیں اس لیے ارادہ ہے کہ کسی عالی خاندان سے قرابت کروں۔“8

مذکورہ بالا خطوط کے اقتباس سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ مومن کے یہاں متعدد ایسی مثالیں موجود ہیں جن سے ان کی زندگی سے متعلق خاصی اہم اور بیش قیمت معلومات فراہم ہوتی ہیں جو تفہیم مومن میں ہماری بڑی مددگارثابت ہو سکتی ہیں محض یہ کہہ کر گزر جانا کہ مومن کی ذاتی اور معاشرقی زندگی کے متعلق یہ خطوط ہماری کوئی رہنمائی نہیں کرتے ہیںکسی بھی طور پردرست قرارنہیں دیا جا سکتا ہے کیونکہ ان کے خطوط کے مجموعے کے سرسری مطالعے سے ہی سے پتہ چلتاہے کہ ان کے یہاں اپنے عہد اوراپنی زندگی کے متعلق واضح نظریات موجود تھے لہٰذا ان کے بہت سے ایسے خطوط مل جاتے ہیں جو ان کی ذاتی زندگی کے متعلق بہت ہی اہم اور خاص جانکاری فراہم کرتے ہیں اور جن کا ذکر ان کے عہد کی کسی بھی تاریخی کتاب اور تذکرے وغیرہ میں نہیں کیا گیا ہے لیکن طوالت کے خوف سے ان کو قلم انداز کیا جاتاہے خطوط مومن کا مطالعہ کرنے والے لوگ ان کے ان خطوط سے ان کی ذاتی زندگی کے متعلق عمدہ نتایج اخذ کر سکتے ہیں حالانکہ مومن خان کے خطوط کے مطالعے سے سے یہ اندازہ تو ضرور ہوجاتاہے کہ ان خطوط سے ان کا مقصد آپ بیتی یاکوئی سر گذشت لکھنے کا ہرگزبھی نہیں تھا وہ صرف اپنے عزیز و احباب اور دوستوں وشاگردوں وغیرہ کو یہ خطوط لکھتے اور اپنے محسوسات وجذبات کو قلم وقرطاس کے سپرد کر دیتے تھے

حکیم مومن خان مومن نے بھلے ہی شعوری طور پراپنے دور کے حالات پر خامہ فرسائی کرنے کی کوشش نہ کی ہو اس کے باوجود بھی ہم دیکھتے ہیں کہ انھوں نے ان خطوط میں اپنے عہد کی سماجی اور ذاتی زندگی کے متعلق اتنا کچھ لکھ دیا ہے کہ اس عہد کی تاریخ کو جاننے کے لیے خاصا اہم مواد ہماری دسترس میں آجاتاہے اور یہ سب کچھ انھوں نے اس خوبصورت اور دلکش اندازسے لکھا ہے کہ اگر ان کے خطوط میں موجود مواد کو سلیقے اور سنجیدہ طریقے سے تشکیل وترتیب دیا جائے توبلا شبہ میں یہ کہہ سکتی ہوں کہ ان کے خطوط میں موجود بیش قیمت مواد کی مدد سے مومن خان مومن کی نہ صرف آپ بیتی تیار کی جا سکتی ہے بلکہ اس عہد کے سماجی حالات کو جاننے وسمجھنے کا بھی بڑا ذخیرہ فراہم ہونے میں ہماری خاصی مدد ہو سکتی ہے جو تفہیم مومن اور عہد مومن میں کلیدی اہمیت کی حامل ثابت ہوگی یہی سبب ہے کہ زیادہ تر دانشور اس بات پر متفق الرائے نظر بھی آتے ہیں کہ خطوط مومن کی مدد سے ان کے عہد اور خود ان کی زندگی کے بارے میں قدرے سود مند اور منفعت بخش اطلاعات فراہم کی جا سکتی ہیں میں یہاں صرف ایک دانشور آقائے کبیر احمد جائسی کی رائے کو نقل کر رہی ہوں اس دور اندیش اور ذی فہم دانشور نے مومن خان مومن کی فارسی نثرنویسی کی خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے عہد غالب کی تاریخ کو جاننے کا ایک اہم اور بڑا ماخذقراردیاہے وہ کہتے ہیں:

مومن کی فارسی نثر نگاری ہمارے عمیق مطالعے کی مستحق ہے یہ مطالعہ صرف مومن کی ادبی کاوشوں ہی کی تفہیم کے لیے مفید ومعاون نہ ہوگا بلکہ عصر غالب کے ادبی رحجان کا عرفان حاصل کرنے کا بھی وسیلہ بنے گا“ 9

جیسا کہ قبلا بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ ان کے یہاں بعض مواقع پر بہت زیادہ مشکل پسندی کو بروئے کار لایا گیا ہے جس کے سبب عام فہم فارسی داں طبقہ ان سے بھرپور طریقے سے مستفیض نہیںہو سکا ہے انھوں نے اپنی تحریروں میں آیات قرآنی کا خوب استعمال کیاہے اور اتنے سلیقے وقرینے سے ان کو بروئے کا لایا گیاہے کہ ان کی ذہانت کی داد دےے بغیرنہیں رہا جا سکتا حالانکہ بعض دانشوران ادب کا کہنا ہے کہ مومن نے اپنی نثر کو بہت مسجع و مقفیٰ اور عربی آمیز بنا کر یہ ثابت کرنے کی سعی تمام کی ہے کہ فارسی دانی میں ان کا مرتبہ معاصرین میں کسی سے بھی کم تر نہیں ہے جیسا کہ جناب رشید حسن خان نے خطوط مومن میں ان کے علم وفضل کے بے دریغ اظہار کے متعلق اپنی آرا کو قلم بند کرتے ہوئے لکھا ہے :

اس مشکل پسندی اور مغلق نویسی کے پیچھے جذبہ وہی کارفرما ہے یعنی فارسی دانی اور انشا پردازی کی نمود... وہ بار بار یہ جتانا چاہتے ہیں کہ طاہر وحیداورظہوری ونعمت خان عالی کے اندازمیں لکھنا تومجھے بھی آتاہے وہ ان خطوط کے واسطے سے اپنی علمیت اور کمال کو ظاہر کرنا چاہتے ہیں... اس زمانے میں فارسی کے باکمال کی حیثیت سے دہلی کے علمی حلقوں میں جو منزلت مرزا غالب اور مولانا صہبائی کو حاصل تھی وہ ان کے حصے میں نہیں آسکی تھی اس کا شدید احساس ان کی فارسی تحریروں میں نمایاں ہے اپنے آپ کو منوانے کا احساس ان کے یہاں مشکل پسندی اور غرابت پسندی کے عنصر کو بڑھاتارہا“ 10

حکیم مومن خان مومن کے یہ فارسی خطوط صرف ہمارے محققین اور مورخین ہی کے لیے لائق توجہ قرارنہیں دےے جاسکتے ہیںبلکہ دیگر علوم سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کے لیے بھی یہ خطوط یکساں اہمیت وافادیت کے حامل ہیں خاص طور پر سماجیات وغیرہ جیسے موضوعات سے تعلق رکھنے والے طالب علموں کے لیے یہ خطوط خصوصی غوروفکر کے طالب ہیں آقائے کبیر احمد جائسی مکاتیب مومن کی اہمیت وارزش کے متعلق اظہار نظر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

اس سلسلے میں ان تقویموں کے وہ حصے خاص طور سے سماجیات کے طالب علموں کے لیے قابلِ مطالعہ ہیں جن میں مومن نے یہ حکم لگایا ہے کہ اس سال جنسی کج روی کا فلاں طریقہ ترقی کرے گا اور یہ کجروی پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی مومن کا کوئی دیباچہ اس طرح کے احکام سے خالی نہیںاس طرح مومن کی فارسی نثر کا مطالعہ صرف ادب کے طالبِ علموں ہی کو نہیں بلکہ تاریخ اور سماجیات کے طالبِ علموں کو بھی دعوتِ نظر دیتا ہے“ 11

مختصر یہ کہا جا سکتاہے کہ خطوط مومن انسانی زندگی کی بھر پور عکاسی کرتے ہیں انھوں نے اپنی ذاتی اور اجتماعی زندگی کے گوناگوں پہلوں کو بیان کرنے میں جس انداز بیاں کو اختیار کیا ہے وہ ان کا بے پناہ علمی تبحر ہی ہے انھوں نے اپنے فارسی خطوط میں عبارت آرائی کا خاصااہتمام کیاہے جو بعض اوقات قاری کے ذہن کو بوجھل بھی بنا دیتی ہے بعض اوقات تو ان کی نثر حد سے زیادہ مسجع ومقفیٰ، پر تصنع وپرتکلف اورمصنوعی حسن کی چہار دیواری میں قید نظرآتی ہے جس میں سادگی وسلاست کا فقدان ہے بایں ہمہ ان کی ادبی، تاریخی اورسماجی اہمیت وارزش کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتاہے یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ابھی تک ان کے تمام فارسی خطوط منظر عام پر نہیں آسکے ہیں ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی نے اس سلسلے میں بڑی محنت اور جانفشانی سے کام لیا ہے لیکن اس کے باوجود بھی ان کے بعض اہم خطوط کا ہی ترجمہ کر کے منظر عام پر لایا گیاہے اگر ان کے خطوط کی مزید دریافت وتحقیق کی جائے تو بہت ممکن ہے کہ ان کی زندگی کے دیگر پہلو نمایاں ہوکر منظر عام پر آسکیں اوراس کی مدد سے مزید تلاش وتحقیق کے نئے باب وا ہو سکیں۔

مآخذومنابع

  1. سخن شعرا، مولوی عبدالغفور نساخ، چاپ شدہ ازمنشی نولکشور، لکھنو، 1921،ص141
  2. مومن شخصیت اور فن، ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی، یونین پرنٹنگ پریس،دہلی، 1972، ص31
  3. دیباچہ انشائے مومن، مرتبہ ومترجمہ ظہیراحمد صدیقی،جمال پریس دہلی، 1977، ص1
  4.  انشائے مومن، مرتبہ ومترجمہ ظہیراحمد صدیقی، ترجمہ از حکیم احسان اللہ خان، جمال پریس دہلی، 1977، ص15
  5. غالب نامہ، مدیر پروفیسر نذیر احمد، چمن آفسیٹ پرنٹرس، نئی دہلی، 1985، ص24
  6. انشائے مومن، مرتبہ ومترجمہ ظہیراحمد صدیقی، ترجمہ از حکیم احسان اللہ خان، جمال پریس دہلی، 1977، ص224
  7. ایضاً، ص45
  8. ایضاً، ص282
  9. غالب نامہ، مدیر پروفیسر نذیر احمد، چمن آفسیٹ پرنٹرس، نئی دہلی، 1985، ص151
  10. غالب نامہ، مدیر پروفیسر نذیر احمد، چمن آفسیٹ پرنٹرس، نئی دہلی، 1985، ص46
  11. غالب نامہ، مدیر پروفیسر نذیر احمد، چمن آفسیٹ پرنٹرس، نئی دہلی، 1985، ص152

 

Dr.Neelofar Hafeez

Assistant Professor (Persian)

Department of Arabic & Persian,

University of Allahabad

Prayagraj- 211002 (UP)

Mob.: 7500984444

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں