27/6/23

مجنون گورکھپوری اور افسانے کی تنقید: ظفر انصاری


 

مجنوں گورکھپوری اور افسانے کی تنقید

پروفیسر احمد صدیق مجنوں گورکھپوری کا شمار اردو کے عظیم ادیبوں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ انھوں نے تخلیقی ادب میں بھی گراں قدر نقوش ثبت کیے ہیںاور ان کے افسانے اور ان کی شاعری بھی معیار و اقدار کے لحاظ سے قابل اعتنا ہے اور ادب میں ان کی حیثیت بھی مسلم ہے، لیکن ایک نقاد کے طور پر ان کو جو شہرت حاصل ہوئی اس نے ان کی ادبی شخصیت کے دوسرے پہلوؤں کو پس ِپشت ڈال دیا اور ایک نقاد کی صورت میں ہی ان کی شناخت قائم ہوئی۔ مجنوں گورکھپوری نے اردو کی مختلف اصناف کو اپنی تنقید کا موضوع بنایاجن میں غزل،مثنوی اور افسانے کو خاص اہمیت حاصل ہے۔

مجنوں گورکھپوری اعلیٰ صلاحیت رکھنے والے باریک بیں اور نکتہ رس نقاد ہیں۔ ان کا مطالعہ وسیع ہے۔انھوں نے مشرقی اور مغربی دونوں ادب کا گہرا مطالعہ کیا ہے جس کا ثبوت ان کی تنقید ی تحریریں بجا طور پر پیش کرتی ہیں۔ مجنوںگورکھپوری سے متعلق اردو کے سخت گیر نقاد کلیم الدین احمد نے جو خیالات پیش کیے ہیں وہ ان کی عظمت پر دلالت کرتے ہیں۔ کلیم صاحب اپنی معر کۃ الآرا تصنیف ’اردو تنقید پر ایک نظر‘میں مجنوں گورکھپوری کی علمی بلند قامتی اور تخلیقی و تنقیدی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں

’’صحیح معنوں میں نقاد وہی ہو سکتا ہے جس کے دماغ میں ہزاروں دماغوں کی صلاحیتیں یکجا ہوں۔مجنوں پر یہ خیال صادق آتا ہے۔ان کے دماغ میں ایک بڑے نقاد،ایک بڑے افسانہ نگار،ایک بڑے شاعر اور ادیب کی تمام صلاحیتیں موجود ہیں۔‘‘

(اردو تنقید پر ایک نظر،کلیم الدین احمد،بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ،1983،269)

جیسا کہ ہم جانتے ہیں مجنوں گورکھپوری بذات خود ایک فکشن نگار بھی ہیں اور انھوں نے ایک ناولٹ اور خاصی تعداد میں افسانے بھی لکھے ہیں۔اردو کے رومانی افسانہ نگاروں میں ان کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔اسی کے ساتھ انھوںنے اردو کے افسانوی ادب سے متعلق بھی اپنی تنقیدی آرا پیش کی ہیں جو ’افسانہ ‘کے عنوان سے ایک مبسوط کتاب کی شکل میں منصہ شہود پر آئیں۔ علاوہ ازیں چند افسانہ نگاروں سے متعلق بھی انھوں نے اپنے دیگر تنقیدی مجموعوں میں مضامین لکھے جو اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ مجنوں گورکھپوری فکشن تنقید سے گہرا شغف رکھتے تھے۔اردو فکشن کی تنقید میں ان کی کتاب ’افسانہ‘ خاصی اہمیت کی حامل ہے جو 1935کی تخلیق ہے اور جس میں ان کے دو طویل مضامین شامل ہیں۔ ان مضامین کے توسط سے انھوں نے فکشن سے متعلق اہم نکات پیش کیے ہیں۔انھوں نے اس امر کی وضاحت کی ہے کہ ان کی نظر میں افسانے سے مراد صرف مختصر افسانہ نہیں ہے بلکہ وہ تمام تحریریں ہیں جو فکشن  Fictionکے ذیل میں آتی ہیں۔ان میں طویل داستانیں بھی شامل ہیں اور مختصر افسانے،قصے اور حکایتیں بھی۔بلکہ انھوں نے اردو افسانہ نگاری پر گفتگو کرتے ہوئے محض نثری تحریروں کو ہی افسانہ نہیں مانا ہے بلکہ ان منظوم تحریروں کو بھی افسانہ ہی سمجھا ہے جن میں افسانوی عناصر یعنی قصہ پن پایا جائے۔ اس طرح انھوں نے اردو مثنویوں کو بھی فکشن ہی کے زمرے میں رکھا ہے،کیونکہ ان میں بھی پلاٹ یعنی واقعات کی منطقی ترتیب پائی جاتی ہے۔

مجنوںگورکھپوری نے فکشن سے متعلق ایک اہم بات یہ بھی کہی ہے کہ قصہ کہنے اور سننے کی روایت کا آغاز اس لیے ہوا کہ اس کے ذریعے انسانوں کو تفریح طبع کا سامان بہم پہنچایا جا سکے۔اس لیے اس میں دلچسپی کے عناصر کا پایا جانا ضروری ہے۔اگر کسی افسانے میں دلچسپی کے عناصر نہ ہوں گے تو اسے کامیاب افسانہ نہیں مانا جاسکتا ہے۔وہ اس سلسلے میں لکھتے ہیں

’’زائرین کنٹر بری مالک سراے کے مشورے سے قصے کہنا صرف اس لیے شروع کیے کہ راستہ خوش وقتی کے ساتھ کٹ جائے اور تکان میں کمی رہے،لیکن ہم اس تخلیق محض کے معصوم دور سے گزر کر تخلیق و تنقید کے معقول کو سمجھ گئے ہیں۔اب ہم کسی ایسی چیز کی حقیقت کو تسلیم نہیں کر سکتے جس کا تجزیہ نہ ہو سکے اور جس پر تنقید نہ کی جاسکے۔افسانہ کو بھی اسی میزان ِ منطق پر پورا اترنا ہے اور افسانہ نگار کو بھی اپنی حمایت میں کچھ نہ کچھ کہنا ہے،لیکن اس نکتے کو کبھی نہ بھولیے کہ افسانہ در اصل افسانہ ہے اور اس کی غایت جی بہلانا اور تکان دور کرنا ہے۔‘‘

(افسانہ،مجنوں گورکھپوری مکتبہ ایوان اشاعت گورکھپور1935، ص5-6)

محولہ اقتباس سے اس امر کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ فکشن میں دلچسپی اور تفریح طبع کے عناصر موجود ہونا چاہیے تاکہ یہ انسان کے تھکے ہوئے ذہن اور درماندہ جسم کو راحت اور آرام پہنچا سکے۔فلسفیانہ خیالات کی پیش کش اور نقطۂ نظر کا اظہار افسانوی ادب میں دوم درجے کی چیز ہوا کرتی ہے، اس لیے ایک افسانہ نگار کو اپنے نظریے کی اشاعت پر ہی اپنا تمام تخلیقی زور صرف نہیں کر دینا چاہیے بلکہ اس کا بالخصوص خیال رکھنا چاہیے کہ وہ اپنے افسانے سے اس مقصد کو حاصل کر رہا ہے کہ نہیں۔ یعنی افسانے کی غایت اصلی تفریح طبع ہے اور یہی اس کا فنی امتیاز و اختصاص ہے اور یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔

مجنوںنے افسانے کے ضمن میں گفتگو کرتے ہوئے اس کے اجزائے ترکیبی پر بھی سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ان کے مطابق ایک افسانے میں چار اجزا کا ہونا ضروری ہے۔پہلا ماجرا یا ترتیب واقعات،دوسرا افراد اور کردار نگاری،تیسرا نقطۂ خیال اور چوتھا اسلوب۔انھیں چاروں اجزا کے ذریعے کوئی افسانہ وجود میں آتا ہے،جس طرح چار عناصر کے ذریعے انسان کا وجود تشکیل میں آیا ہے۔ بقول چکبست          ؎

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب

 موت کیا ہے انھیں اجزا کا پریشان ہونا

یعنی کہ مذکورہ چار اجزا کا معتدل و متوازن انداز میں ایک افسانے میں ہونا اشد ضروری ہے،اگر ایسا نہیں ہوتا تو کوئی افسانہ افسانہ نہیں رہ پائے گا بلکہ فنی نقطۂ نظر سے اس کی موت ہو جائے گی۔اس لیے بغیر پلاٹ یا بغیر کردار کے افسانہ لکھنے کا رواج جو ایک زمانے میں عام ہوا،اسے مجنوں گورکھپوری کے نظریے کے مطابق مستحسن عمل نہیں مانا جا سکتا،کیوں کہ ایسے افسانوں میں دماغی کسرت اور فکری ورزش کے لیے تو جگہ تھی،لیکن ان میں وہ خوبیاں موجود نہ تھیں جن کا تعلق تفریح طبع سے ہے۔یہ افسانے دماغی الجھن اور جسمانی تھکاوٹ مٹانے کے بجائے دماغ کو مزید الجھن میں مبتلا کرنے اور جسم کو اور زیادہ در ماندہ بنا دینے والے تھے۔

بہرحال،انھوں نے ان چاروں اجزا کے تعلق سے فرداً فرداً بڑی عالمانہ گفتگو کی ہے۔وہ پلاٹ سے متعلق لکھتے ہیں

’’کسی افسانے میں سب سے پہلے جو چیز ہمارے ذہن کو اپنی طرف منتقل کرتی ہے وہ چند واقعات ہوتے ہیں جن پر اس افسانے کی بنیاد ہوتی ہے۔انھیں کی ترتیب کو ماجرا یا پلاٹ کہتے ہیں۔افسانہ اور کچھ ہو یا نہ ہو اس کو افسانہ تو ہونا ہی ہے۔اس کے یہ معنی ہوئے کہ جو حالات و واردات اس میں بیان کیے جائیں عام اس سے کہ وہ فرضی ہوں یا واقعی ان کے اندر بجائے خود اتنی صلاحیت ہو کہ پڑھنے اور سننے والے کو بے ساختہ اپنی طرف متوجہ کر لیں۔افسانے کی کامیابی کی پہلی شرط یہی ہے۔‘‘

(افسانہ،مجنوں گورکھپوری مکتبہ ایوان اشاعت گورکھپور،1935،ص 7ــ)

اس اقتباس سے پلاٹ کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ اسی کے ساتھ انھوں نے پلاٹ سازی پر بھی اصولی گفتگو کی ہے،ان کا یہ کہنا درست ہے کہ ’’افسانہ نگار کو اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ جن واقعات کو وہ اپنے افسانہ کے لیے منتخب کرے وہ عوام کے لیے کوئی اجنبیت تو نہ رکھتے ہوں لیکن ان کے اندر ایک ندرت و تازگی ضرورہو اور ان کی اہمیت مسلم ہو ورنہ جو اثر افسانہ نگار پیدا کرنا چاہتا ہے وہ پیدا نہ کرسکے گا۔اس کے یہ معنی ہوئے کہ افسانے میں واقعات کا زمانہ،ماحول اور معاشرے کے مطابق ہونا ضروری ہے۔‘‘[ایضاً، ص 7-8)

پلاٹ کی اہمیت کے مد نظر مجنوں گورکھپوری نے اس امر کی بھی وضاحت کی ہے کہ افسانے میں کس طرح کے واقعات کو جگہ دی جانی چاہیے اور ان واقعات کا بیان کس انداز میں کرنا چاہیے تاکہ افسانے کا معیار بلند ہو جائے اور فنی اعتبار سے وہ افسانہ کامیابیوں سے ہمکنار معلوم ہو۔ کیونکہ یہ مرحلہ ایک اہم مرحلہ ہوتا ہے اور اس مرحلے کو بہ حسن و خوبی طے کر لینے کے بعد ہی کوئی افسانہ فن کی کسوٹی پر پورا اترتا ہے۔واقعات کے انتخاب اور ان کے بیان کے تعلق سے مجنوں گورکھپوری رقم طراز ہیں

’’افسانہ نگار کو واقعات کے انتخاب اور ان کے بیان میں بڑے تفحص اور بڑی تمیز سے کام لینا چاہیے۔ انسان کی زندگی میں ہر قسم کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ ان میں سے بعض واقعی غیر اہم اور غیر دلچسپ ہوتے ہیں جن سے بڑی خوبی کے ساتھ تجاہل برتا جا سکتا ہے، لیکن بہت سے واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کی باد ی النظر میں کوئی قدر و اہمیت معلوم نہیں ہوتی مگر جو در اصل اس قدر اہم ہوتے ہیں کہ زندگی کو دور تک متاثر و متعین کر دیتے ہیں اور ہم ان کی طرف سے ایسے غافل رہتے ہیں کہ ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ جو کچھ ہوا وہ کیوں ہوا؟ افسانہ نگار کی نگاہ سانحات پر گہری پڑنا چاہیے۔اس کو نہ صرف ان واقعات کو لینا چاہیے جو سب کی نظر میں اہم اور مقتدر ہیں بلکہ ان واقعات کو بھی چھوڑنا نہ چاہیے جو در اصل اہم اور پر تاثیر ہوتے ہیں مگر عوام کی نگاہیں ان پر نہیں پڑتیں۔افسانہ نگار کو اس کی بھی پوری کوشش کرتے رہنا چاہیے کہ حن واقعات و حالات پر افسانہ کی بنیاد ہو ان کے تمام میلانات و امکانات کو جو بالعموم نگاہوں سے پو شیدہ رہتے ہیں پڑھنے والے پر اظہرمن الشمس کردے۔‘‘(ایضاً، ص 9-10)

پلاٹ کے تعلق سے مجنوں گورکھپوری نے اس اہم نکتے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ افسانے کی بنیاد چوں کہ واقعات پر ہوتی ہے،اس لیے افسانہ نگار کو واقعات کی ترتیب پر بھی خاص طور سے توجہ دینی چاہیے۔اسے واقعات کو منطقی ربط کے ساتھ اس طرح پیش کرنا چاہیے کہ ان کے درمیان کسی طرح کے خلا کا احساس نہ ہو اور افسانے کے پلاٹ سے قاری حتی الوسع لطف و انبساط حاصل کر سکے۔وہ لکھتے ہیں

’’واقعات کو ترتیب دیتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ربط و تسلسل ہاتھ سے جانے نہ پائے اور پڑھنے والا کہیں کوئی خلا محسوس نہ کرے۔افسانہ کی ترتیب میں اگر ایسا توازن و تناسب نہ ہوا تو پڑھنے والے کی طبیعت بد مزہ ہو جائے گی۔افسانہ نگار کو اس کا خیال رکھنا ہے کہ کہیں سے یہ احساس پیدا نہ ہونے پائے کہ واقعات کی ترتیب میں کسی قسم کی زبر دستی کو راہ دی جارہی ہے۔ہر واقعے کا ذکر ٹھیک وقت اور ٹھیک موقع سے ہونا چاہیے اور مختلف واقعات کے درمیان ایک لازمی نسبت قائم کر دینا چاہیے۔‘‘ (ایضاً، ص 13-14)

پلاٹ کے سلسلے میں مجنوں نے جو کچھ لکھا ہے وہ اہمیت کا حامل ہے اور اس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ افسانے کے فن پر وہ عمیق نظر رکھتے ہیں۔

افسانے کا دوسرا جزو افراد اور کردار نگاری ہے اور افسانے میں اس کی اہمیت اور معنویت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔افسانے کے ارتقا ئی سفر پر ایک سر سری نگاہ ڈالنے کے بعد ہی اس امر کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ مرور زمانہ کے ساتھ افسانے میں داخلی کیفیت پیدا ہوتی گئی جس کے باعث پلاٹ پر انسان کی شخصیت حاوی ہوتی گئی اور یہی وجہ ہے کہ افسانے میں کردار نگاری کو لازمی تصور کیا جانے لگا۔مجنوں گورکھپوری نے اس کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ افسانے میں کردار نگاری کی نوعیت کیا ہونی چاہیے؟ وہ اس کے قائل ہیں کہ افسانہ نگارکو اپنے افسانے میں ایسے کردار خلق کرنے چاہئیں جن میں واقعیت پائی جائے او ر جو قاری کے فہم و ادراک کے مطابق ہوں تاکہ وہ ان سے ذہنی وابستگی قائم کرنے میں کسی طرح کی دقت محسوس نہ کرے۔

مجنوں اس سلسلے میں لکھتے ہیں

’’شخصیت اور کردارکی اہمیت کو تسلیم کر لینے کے بعد اب ہم کو یہ فیصلہ کرناہے کہ کردار نگاری کس قسم کی ہونی چاہیے اور اس کے شرائط کیا ہیں۔سب سے پہلے افسانہ نگار کو یہ دیکھنا ہے کہ وہ اپنے افراد کو کس حد تک واقعی بنا سکا ہے اور وہ کہاں تک پڑھنے والے کی سمجھ میں آتے ہیں... اب انسانیت اور مدنیت کا تقاضا یہ ہے کہ جو افرادکسی افسانے میں پیش کیے جائیں وہ ہماری آپ کی طرح اسی دنیا کے انسان ہوں اور اسی گوشت پوست کے انسان ہوں۔اب رجال داستان عجیب الخلقت ہوئے تو ہم ان کو زیادہ دلچسپ نہیں پائیں گے۔افسانہ کے اشخاص کو تو ایسا ہونا چاہیے کہ ہم میں سے ہر شخص ان کو اپنا ہی سا پائے۔اگر افراد قصہ انوکھے ہوئے اور بجائے پاؤں کے سر کے بل کھڑے نظر آئے تو ہم کو ان سے کوئی موانست پیدا نہ ہو سکے گی۔افسانہ کے کردار جتنا ہی زیادہ ہم سے قریب ہوں گے اتنا ہی زیادہ ہم ان کو واقعی سمجھیں گے اور اتنا ہی زیادہ ان سے اثر قبول کریں گے۔‘‘ (ایضاً، ص 24-26)

مجنوں گورکھپوری کے مطابق افسانے کا تیسرا لازمی جزو نقطۂ خیال ہے۔وہ اس سے متعلق لکھتے ہیں

’’افسانے کا موضوع چوں کہ حیات انسانی ہے اس لیے ہم کو یہ بھی دیکھنا ہے کہ جس زندگی کو افسانہ نگارپیش کر رہا ہے اس کے متعلق اس کی اپنی کیا رائے ہے۔ظاہر ہے کہ افسانہ نگار غیر ذی شعور آلہ نہیں ہوتا۔زندگی کے متعلق اس کے اپنے کچھ خیالات ہوں گے جن کا عکس اس کے افسانے میں نظر آئے گا... افسانے کی بنیاد محض تجربات و واقعات پر نہیں ہوتی۔افسانے کی اصل جان وہ رائے ہوتی ہے جو افسانہ نگاران واقعات و تجربات کے متعلق رکھتا ہے۔یہ واضح رہنا چاہیے کہ افسانے کا کام صرف زندگی کی نقل اتارنا نہیں ہے بلکہ اس کو از سر نو پیدا کرنا ہے۔‘‘

(ایضاً، ص 38)

یہ اقتباس اس نکتے کی وضاحت کرتا ہے کہ افسانے میں کسی افسانہ نگار کی زندگی سے متعلق اپنی رائے کا بھی اظہار ہونا چاہیے لیکن یہ اظہار محض نقل کی صورت میں نہ ہو بلکہ اس میں اس کا اپنا وژنVision بھی منعکس ہونا چاہیے۔کسی بھی فن کار کی اہم خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ حیات و کائنات کی محض نقالی نہیں کرتا بلکہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے اس میں اپنی طرف سے بھی کچھ ترمیم و اضافہ کرتا ہے جس کے باعث اس میں تخلیقی شان پیدا ہو جاتی ہے۔

افسانے کا آخری جز و اسلوب ہے اور اس کی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلم ہے اسلوب کے ذیل میں زبان، لب و لہجہ،سوز وگدازاور طنز و تمسخر سبھی کچھ آتے ہیں۔ مجنوں گورکھپوری اس کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں

’’افسانے کی کامیابی کا را زاسلوب ہی میں مضمر ہوتا ہے۔اس لیے کہ واقعات کی ترتیب ہو یا افراد کی کردار نگاری یا کسی نقطۂ خیال کی اشاعت کے لیے کوئی دلکش پیرایہ اختیار نہیں کیا جائے گا تو کسی پر کوئی اثر نہ ہوگا۔‘‘ (ایضاً، ص 50-51)

افسانوی تخلیق میں اسلوب یا طرز کی اہمیت پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے مجنوں گورکھپوری لکھتے ہیں

’’دنیا کے جس بڑے افسانہ نگار کا مطالعہ کیجیے آپ کو اس کے اندراور کوئی بات ملے یا نہ ملے ایک بات ضرور ہی ملے گی۔وہ صاحب طرز ضرور ہوگا۔ورنہ ادبی افسانہ کی تاریخ میں اس کو کوئی جگہ نہیں دی جائے گی۔اور بعض افسانہ نگاروں کا طرۂ امتیاز یہی ہوتا ہے۔‘‘

 (ایضاً، ص 51-52)

محولہ بالا اقتباس سے افسانے میں اسلوب یا طرز کی اہمیت بہ حسن و خوبی واضح ہو جاتی ہے۔عالمی ادب کے ساتھ ساتھ اردو کے بھی جتنے افسانہ نگار ہوئے ہیں وہ اپنی طرز تحریر اور اسلوب نگارش کے نقطۂ نظر سے بھی انفرادی حیثیت کے حامل رہے ہیں۔اس سے یہ شق ابھرتی ہے کہ افسانے میں طرز یا اسلوب بھی کلیدی کردار ادا کرتا ہے اور اس کے ذریعے ہی کسی افسانہ نگار کا اختصاص و انفراد قائم ہوتا ہے اور وہ امتیازی شناخت کا حامل بنتا ہے۔

المختصر یہ کہ مجنوں گورکھپوری نے فکشن کے تعلق سے جو باتیں کی ہیں وہ اصولی نوعیت کی ہیں۔ ان باتوں سے یہ انداز ہ لگانا کوئی مشکل نہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک سنجیدہ اور ذی شعور نقاد تھے۔اس کے باوجود یہاں اس بات کی بھی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ کسی بھی نقاد کی تمام آرا سے اتفاق نہیں کیا جا سکتا،لیکن اس کے دلائل سے اتنا تو تسلیم کرنا ہی پڑتا ہے کہ اس کی تنقید کا معیار کتنا بلند یا پست ہے۔

n

Dr Zafrullah Ansari

Assistant Professor,  Dept of Urdeu

Allahabad University

Prayagraj - 211002  (UP)

Mob.: 8853579247

Email:zafrullahansari@gmail.come

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں