30/6/23

کوچۂ نرگسیت کا والہ و شیدا: ریاض خیرآبادی

ریاض خیر آبادی اردو ادب کے ایک ایسے شاعر گزرے ہیں جنھوں نے اپنے منفرد اور مخصوص شاعرانہ خصائص اور کمالات سے اردو ادب میں اپنی ایک الگ پہچان اور شناخت قائم کی۔ ناقدین ادب نے ان کے کلام کو سراہتے ہوئے انھیں کئی اہم القابات سے نوازا ہے۔ کہیں انھیں ’خیام الہند‘کا خطاب دیا گیا تو کہیں ’خمریات کا امام‘۔ریاض خیر آبادی کی شاعری کو مجموعی طور پر تین اہم ادوار میں منقسم کیا جاسکتا ہے۔پہلے دور میں ان کے یہاں مشکل پسندی کا رجحان اور سنگلاخ زمین میں غزلیں کہنے کا اثر نمایاں نظر آتا ہے۔ اس دور میں وہ غالب کے نقش قدم کے شیدائی دکھائی دیتے ہیں۔ یہ تب کی بات ہے جب آپ آشفتہ تخلص رکھا کرتے تھے۔ تاہم وہ زیادہ دیر تک اس فضا میں سانسیں نہ لے سکے۔ دوسرے دور میں انھوں نے مشکل پسندی سے اعراض کرکے بلند خیالی کی طرف سفر کیا۔ اس دور میں ریاض اپنے استاد کی پیروی میں دبستان دہلی اور دبستان لکھنؤ کے مابین ایک پُل بننے کی کوشش میں سرگرداں نظر آتے ہیں۔ اس دور کی شاعری کا مطالعہ کرکے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کا تخیل بہت سرگرم عمل ہے۔ البتہ یہ بات بھی اپنی جگہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ اس دور کی شاعری میں ان کے یہاں نشاطیہ رنگ غالب ہے۔

تیسرے دور کی شاعری میں ان کے یہاں صوفیانہ رنگ ملتا ہے۔ اس دور میں انھوں نے حاجی علی شاہؒ (دیوہ شریف بارہ بنکی) کے مرید کی حیثیت سے اپنے آپ کو پیش کیا۔شاید اسی کے پیش نظراس دور کی شاعری میں ان کے یہاں اخلاقی مضامین کا بھی عندیہ ملتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ ریاض کی شاعری میں جس خمریات کا بار بار ذکر ملتا ہے وہ دراصل کچھ اسی صوفیانہ خیالات کی مرہون منت کہا جاسکتا ہے ورنہ یہ بات تحقیق سے ثابت شدہ ہے کہ ریاض خیر آبادی بادہ خواری کو کسی شجر ممنوعہ سے کم نہیں سمجھتے تھے۔ وہ عشق و مستی کے پروردہ ضرور تھے لیکن مے نوشی کے دلدادہ کبھی نہیں تھے۔ لہٰذا ان کی شاعری میں جو خمریات کے جلوے دیدنی ہیں وہ یا تو رسمی اور روایتی ہیں یا اسی دورِ ثالث کے شاعرانہ رجحان اور مزاج کے طفیل ہیں۔کیوں کہ صوفی شعرا نے خمریات کے پس پردہ عشق و مستی کے کئی متنوع رنگ بکھیرے ہیں۔

تنقیدی سطح پر ان کے کلام کا صوفیانہ، خمریاتی، حسن و عاشق، رومانوی وغیرہ سطحوں پر کافی کچھ مطالعہ ہوچکا ہے۔ تاہم ان سب پہلوؤں سے پرے ان کے کلام میں جو عنصر بار بار قارئین کو اپنی توجہ کا مرکز بناتا ہے اور جس کے ساتھ بہت محدود تنقیدی مکالمہ قائم کیا جاچکا ہے وہ ہے نرگسیت کا پہلو۔ سلام سندیلوی کی کتاب ’اردو شاعری میں نرگسیت‘ میں اس حوالے سے چند نگارشات کے سوا یہ پہلو ہنوز تشنہ ہے۔اس سے پہلے کہ ہم اس مقالے میں ریاض خیر آبادی کے کلام کے ساتھ نرگسیت کے تحت کچھ خامہ فرسائی کریں، یہاں پر ضروری معلوم ہوتا ہے کہ نرگسیت کے بنیاد مبادیات سے آگاہی حاصل کرلیں۔

نرگسیت دراصل علم نفسیات کی ایک بسیار البحث اصطلاح ہے۔ اس اصطلاح کا استعمال ماہر نفسیات معالج فرائڈ نے دوران پیشہ اپنے مریضوں کی تشخیص کے حوالے سے کیا۔نرگسیت کے موضوع کے حوالے سے ان کی کتاب "Collected Papers"سند کا درجہ رکھتی ہے۔ ابتدا میں یہ اصطلاح ان مریضوں کے لیے استعمال کی گئی جوایک مخصوص ذہنی خلل کے نتیجے میں اپنے جسم سے جنسی محبت کے شکار ہوگئے تھے۔ ایسے اشخاص مختلف طریقوں سے اپنے جسم سے جنسی لذت حاصل کرتے تھے۔ فرائڈ کے بعد اس کے مقلدین نے بھی ہلکی سی معنوی توسیع کے ساتھ اس اصطلاح کو تقریباً ان ہی معنوں میں پیش کیا۔ نرگسیت کے موضوع کے تمام حدود کو چھونے والی جامع اور مدلل کتاب کیرن ہارنی کی "New Ways In Psychoanalysis"تسلیم کی جاتی ہے۔تمام تر لغوی مباحث اور ماہرین فن کی آرا سے قطع نظر آیئے سیدھے طور پر اسی کتاب سے نرگسیت کی جامع اورمدلل تعریف پیش کرتے ہیں

’’ان کا قول ہے کہ نرگسیت کے دائرے میں خود ستائی(Vanity)، غرور (Conciet)، طلبِ جاہ (Craving for Prestige)، جذبۂ محبوبیت (Desire to be Loved)، دوسروں سے کنارہ کشی (Withdrawal from Others)، خودداری (Normal Self Esteam)، تصوریت (Ideal ion)، تخلیقی خواہشات (Creative desire)، شدید فکر صحت (Anxion Concern about Health)، شکل و شباہت(Apperance)، اور ذہنی صلاحیت… شامل ہیں‘‘1

 یہاں یہ بات واضح رہے کہ نرگسیت کی اصطلاح کے پیچھے ایک طویل تاریخی سیاق و سباق بھی کارفرما ہے ہم نے طوالت سے بچنے کے خاطر ان سب عوامل سے گریز کیا ہے۔

نرگسیت کی مذکورہ بالا توضیح کے تناظر میں اگر ہم ریاض خیر آبادی کی شاعری کا بہ غور مطالعہ کریں گے تو صاف اور واضح طور پر ریاض نرگسیت کے شکار نظر آتے ہیں۔ نرگسیت کا طرۂ امتیاز یہ ہے کہ اس میں انسان اپنے آپ سے والہانہ محبت کرنے لگتاہے، وہ اپنی خامیوں سے بے نیاز ہوکر صرف اپنی خوبیوں اور صلاحیتوں کا مدح خواں بن جاتاہے۔ نرگسیت کا شکار انسان اپنی تمام تر غلطیوں سے صرف نظر کرکے اپنی عظمت کے ترانے گاتا ہے۔ایسا بھی نہیں کہ وہ اپنی کمزوریوں اور عیبوں سے بالکل بے بہرہ ہوتا ہے، البتہ نرگسیت کے شکار انسان کو اپنے وجود سے بہت زیادہ پیار ہوتا ہے جس کا اظہار وہ کچھ اس سطح پر کرتا ہے کہ اس کی آواز کی گونج کے میں دیگر پہلو ماند پڑ جاتے ہیں۔ اس لحاظ سے اگر ریاض خیر آبادی کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے تو بیسیوں مقامات ایسے ہیں جہاں شاعر نے اپنے آپ کو لاکھوں میں ایک قرار دیا ہے         ؎

لاکھوں ہی جوانوں میں ریاض ایک جواں ہے

کمبخت حسینو، اسے چاہو اسے چاہو

ان کی شاعری میں اسی طرح کے موضوعات پہلو بدل بدل کر سامنے آتے ہیں۔ شاید اسی قسم کی شاعری کا مطالعہ کرکے ڈاکٹر عبد السلام سندیلوی نے ریاض خیر آبادی کو اردو شاعری کا نرگس قرار دیا ہے۔ وہ ڈاکٹر خلیل اللہ خان کی کتاب’’ ریاض خیر آبادی حیات و خدمات‘‘ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں

’’ریاض خیر آبادی کو ہم اردو شاعری کا نرگس قرار دے سکتے ہیں۔ یونان کے نرگس میں خودبینی اور خودپسندی کی جو خصوصیت موجود تھی اُس کا مکمل پرتو تو ریاض خیر آبادی کے یہاں رقصاں نظر آتا ہے۔ اس کا پہلا سبب یہ ہے کہ ریاض بذات خود نہایت حسین و جمیل انسان تھے۔ اس لیے دوشیزگان گورکھپور خود ان پر جان چھڑکتی تھیں… دوسرا سبب یہ ہے کہ وہ اپنے عہد کے مشہور و معروف شاعر اور انشا پرداز تھے، اس لیے اہل ذوق، ’نازت بکشتم کہ نازنینی‘کو مدِ نظر رکھ کر ان کی قدر کرتے تھے۔‘‘ 2

مذکورہ بالا حوالے کی روشنی میں یہ بات وثوق سے کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ وہ نرگسیت کے دلدادہ گزرے ہیں۔ ریاض خیر آبادی کو اپنی شکل و صورت اور وضع قطع پر ناز تھا۔ انھیں اپنی جسمانی بناوٹ اور ساخت بہت محبوب تھی۔وہ کسی دوشیزہ کے شباب کا گرویدہ ہونے کے بجائے اپنے شباب کو محبوب رکھتا ہے۔ انھیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پورا آس پاس ان کے حسن و جوانی کو دیکھ کر رشک کرتا ہے ؎

دنیا کی پڑرہی ہیں نگاہیں ریاض پر

کس نوک کا جوان ہے کس آن بان کا

اسی نرگسیت کی دین ہے کہ ریاض اپنے محبوب کی بے وفائی اور بے اعتنائی سے مایوس اور قنوطیت کا شکار نہیں ہوتے بلکہ ان کی خود پسندی انھیں ورطہ حیرت میں ڈال دیتی ہے کہ انھیں چھوڑ کر محبوب نے جس شخص کا پلو تھاما وہ شکل و صورت میں ان سے گیا گزرا ہے۔سر پیٹنے کے بجائے انھیں ترس آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ غم و غصے کا اظہار کرنے کے بجائے محبوب کے اس عمل کو اس کی نادانی اور بیوقوفی سے تعبیر کرکے ان پر افسوس کا اظہار کرتے  ہیں         ؎

کیا جانے کیوں رقیب بنا تھا گلے کا ہار

صورت میں وہ ریاض سے اچھا تو کچھ نہ تھا

 

ریاض اچھی نہیں صورت تو کچھ پروا نہیں اس کی

ہماری وضع میں کیا ان سے کم کافر ادائی ہے

اردو شاعری میں تصور عشق کا جو ماڈل فارسی شاعری کے زیر اثر سامنے آیا وہ کچھ اس طرح ہے کہ ایک معشوق ہے جس کی ادائیں بے مثال، جس کا حسن لازوال، جس کی وضع قطع توبہ شکن اور ایک قسمت کا مارا ہے جو اس پر فریفتہ ہوکر اپنی جان چھڑکتا ہے، اسے منانے کی ہمہ وقت بے مثال کوششیں کرتا ہے، اسے اپنا بنانے کے لیے اپنی دنیا بھی تیاگ سکتا ہے۔ لیکن ایک معشوق ہے جسے ان سب چیزوں کی کوئی پروا نہیں۔ عاشق واویلا کرتا ہے منتیں کرتا ہے، ہجر کا درد سہتا ہے۔ من جملہ طور پر اس روایتی تصور عشق میں محبوب سراپا ناز ہے اور عاشق سراپا نیازہوا کرتا تھا۔ لیکن ریاض کی نرگسی شاعری کے سامنے ہمیںروایتی تصور عشق کا یہ بت چکنا چور نظر آتا ہے۔ انھیں خود پسندی کا ایسا نشہ سوار ہے کہ جہاں انھیں اپنا سراپا اور اپنی ادائیں محبوب کے مقابلے ہر سطح پر عزیر ہیں۔ روایتی تصور عشق کے نمونے میں جہاں مرکزیت ایک عورت کو حاصل تھی وہیں ریاض کی نرگسیت کی وجہ سے یہاں عورت کے مقابلے میں ریاض کو مرکزیت حاصل ہے۔وہ محبوب کی اداؤں کے مقابلے میں اپنی اداؤں کے گرویدہ نظر آتے ہیں   ؎ 

چاہتے ہیں تجھے معشوق طرحدار ریاض

تجھ میں کم بخت کہاں سے یہ ادائیں آئیں

 

کمسنی پہ ترس آیا نہ شب وصل ریاض

اُف رے بیدرد حسینوں کے ستانے والے

روایتی تصور عشق کے برعکس یہاں ریاض ناز ہے اور ان پر جان فدا کرنے والی تمام حسینائیں نیاز ہی نیاز۔ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ نرگسیت کے شکار کسی انسان کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ غمخواری اور ہمدردی کے اظہار میں بہت بخیل ہوتا ہے اور دوسروں کے احساسات مجروح ہونے سے بالکل نابلد۔ ریاض خیر آبادی کے یہاں جو حسیناؤں کے تئیں بے التفاتی کا رویہ ملتا ہے وہ اسی علامت کو ظاہر کرتا ہے۔  اس ضمن میں سلام سندیلوی کا درجہ ذیل اقتباس اس حقیقت پر صداقت کی مہر ثبت کرتا ہے

’’حقیقت یہ ہے کہ ریاض کے یہاں جذبۂ محبوبیت عروج پر نظر آتا ہے، وہ بذات خود حسین ہیں اس لیے حسیناں و مہوشاں ان کی نظر میں نہیں جچتے ہیں، اسی بنا پر وہ ان کے سامنے عشوہ و غمزہ کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ ان کو خاطر میں نہیں لاتے ہیں بلکہ ان کی تمنا ہے کہ دوشیزگان گورکھپور ان سے محبت کریں۔ دراصل ریاض خیر آبادی اردو شاعری کے یونانی نرگس ہیں۔‘‘3

حسینوں اور دوشیزاؤں کے تئیں بے نیازی کا یہ رویہ اور برتاؤ رکھنا ایسے ہی نہیں بلکہ انھیں اپنے شباب پر بے انتہا اعتماد اور فخر ہے۔ ان کے یہاں اسی شباب کواگر نرگسیت کی بنیادی دین قرار دیا جاسکتا ہے تو کوئی بے جا نہیں ہوگا۔ اپنے شباب اور اپنی جوانی پر انھیں اعتماد اور یقین ہے۔ انھیں اس بات کا پختہ یقین ہے کہ انھیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسی جوانی سے نوازا گیا ہے جو واقعی میں قابل رشک ہے       ؎       

پیری میں ریاض اب بھی جوانی کے مزے ہیں

یہ ریش سفید اور مئے ہوش ربا سرخ

 

وہی شباب کی باتیں وہی شباب کا رنگ

تجھے ریاض بڑھاپے میں بھی جواں دیکھا

 

جوانی خود آتی ہے سو حسن لے کر

جواں کوئی ہو ہم حسین جانتے ہیں

اپنے شباب کا یہ نشہ اور اپنے شباب کا یہ غرور ان کے یہاں آخری عمر تک قائم رہا۔ بڑھاپے کی جھریوں نے ان کے خیالات کو پست اور ان کے جذبات کو سرد ہونے نہیں دیا۔ وہ اپنے تازہ تر اور نو آموز خیالات، کیفیات، احساسات کے بل بوتے سدا بہار کی طرح ہمیشہ جواں رہے۔ اپنی جوانی کے ساتھ ساتھ انھیں اپنی خوش باش طبیعت اور شخصیت سے بھی کافی زیادہ انسیت تھی     ؎

خوش ہوکے ریاض سے بھی ملنا

کیا باغ و بہار آدمی ہے

اپنی اس باغ و بہار طبیعت اور دلکش و دلفریب شخصیت کی وجہ سے وہ کسی بھی عورت کو خاطر میں لاتے ہی نہیں۔ اس حوالے سے ان کی شاعری پرڈاکٹر اعجاز حسین کا یہ نظریہ بالکل بجا معلوم ہوتا ہے

’’ریاض نے دنیائے عشق میں عاشق ستم رسیدہ بن کر رہنا پسند نہیں کیا۔ دل پر اگر کبھی گہری چوٹ لگی ہے تو اس کا اظہار آہ و فغاں سے نہیں کیا بلکہ ایک معنی خیز تبسم سے اور ایک ایسی ادا سے کہ معشوق کو خود پیار آجائے۔وہ معشوق کی خوشامد بہت کم کرتے تھے بلکہ کبھی کبھی تو خود روٹھ جاتے ہیںکہ کوئی گُدگدا کے ہنسا کے منائے۔‘‘4

اپنے جسمانی خدوخال کے علاوہ ریاض کا اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کا خودہی شیدائی بن جانا بھی نرگسیت ہی کے ذیل میں آتا ہے۔ اس تناظر سے بھی اگر ریاض کے کلام کا مطالعہ کیا جائے تو وہ نرگسیت کے صف اول میں کھڑے کیے جاسکتے ہیں۔انھیں اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کا نہ صرف ادراک و احساس ہے بلکہ وہ اس معاملے میں خود کو بلند قامت استاد سے کسی طرح کم تصور نہیں کرتے۔ وہ اپنی سخن دانی کو موتیوں سے تعبیر کرتے ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ وہ اسی خود پسندی کے جذبے کے تحت اپنے آپ کو شعر و سخن کے تناظر میں زمانے بھر میں اہل کمال وفن میں یکتا تصور کرتے ہیں۔        

ہر شعر بلند کا یہ رتبہ ہے ریاض

چوٹی ہیں طور کی پڑا ہے موباف

 

قدرداں گو ہر سخن کے ریاض

منہ مرا موتیوں سے بھرتے ہیں

میرے سوا زمانے میں کوئی نہیں ریاض

اہل کمال شاعر یکتا کہیں جسے

 

شعر تو میرے چھلکتے ہوئے ساغر ہے ریاض

پھر بھی سب پوچھتے ہیں آپ نے مے پی کہ نہیں

اردو رباعی کا غالب موضوع اخلاقیات اور آفاقی قدریں رہا ہے۔ اس میں شاعرانہ تعلی اور اظہار خودپسندی کی گنجائش بہت محدود ہوتی ہے۔ لیکن ریاض کا خاصہ یہ ہے کہ انھوں نے اپنی رباعیوں میں بھی نرگسیت کے واضح نقوش چھوڑ دیے ہیں۔کئی ایک رباعی میںاپنی فنکارانہ صلابت کی شان و شوکت یوں ظاہر کرتے ہیں          ؎

موزوں جو کیے ہیں شاہ دیں کے اوصاف

بندش ہے چست اور مضمون ہے صاف

 

سچ ہے اے حضرت ریاض یہ بات

کہ جدا سب سے ہے جناب کا رنگ

انھیں نہ صرف یہ کہ اپنی جوانی، شباب و شہرت اور حسن و جمال پر فخرہے بلکہ بایں ہمہ انھیں اپنے فن اور اسلوب پر بھی ناز ہے۔ ان کی نرگسی صفت انھیں یہ ماننے پر مجبور کرتی ہے کہ وہ بھی اپنے آپ میں ایک عظیم تخلیق کار ہے۔ وہ اس احساس سے اندر ہی اندر مچل اٹھتا ہے کہ ان کی شاعری کے چرچے نہ صرف خاص و عام میں ہیں بلکہ اس فن کے استاد بھی اس معاملے میں ان کی داددہی کرتے ہیں         ؎

مری افسوں طرازی کی ریاض اتنی جو شہرت ہے

سبب یہ ہے کہ ساحر سا ملا ہے قدر داں مجھ کو

ان کے یہاں جابجا ایسے اشعار دیکھنے کو ملتے ہیں جن میں انھوں نے اپنی پاکدامنی اور اپنی تقوی شعاری کے گن گائے ہیں۔ وہ بزم میخانہ سے جام و سبو اٹھائے جانے کا ذکر جب کرتے ہیں تو اس کی علت یہ پیش کرتے ہیں کہ اب وہاں ریاض جیسے پاکباز بزرگ آنے والے ہیں۔ وہ اس معاملے میں اس قدر خودستائی کے مراحل سے گزرتے ہیں کہ انھیں زمانے بھر میں کسی اور کی پاکدامنی اپنے مقابل میں ایک آنکھ نہیں جچتی۔

بڑے پاک طینت، بڑے صاف باطن

ریاض آپ کو کچھ ہمیں جانتے ہیں

آنے کو ہے ریاض سا اک پارسا بزرگ

مینا و جام بزم سے اٹھوائے جاتے ہیں

مری بت پرستی بھی ہے حق پرستی

مرا مرتبہ اہل دیں جانتے ہیں

انھوں نے اپنی نظموں میں بھی اپنے تقدس اور بزرگی کے گیت گائے ہیں۔نظم چونکہ کسی ایک خاص موضوع کی پابند ہوتی ہے لیکن ریاض کی نرگسیت اس موضوع کے حدود کو چیرتی ہوئی اس کے بین السطور میں اپنا جلوہ کہیں نہ کہیں ضرور دکھاتی ہے۔ ریاض رضوان میں ایک نظم موسوم بہ ’عقد ثریا‘ کہی ہے۔ اس نظم میں انھوں نے مغربی تہذیب و ثقافت کا خوب مذاق اڑایا ہے اور اس وقت کے سیاسی حالات پر بھی طنز کے زہر آلودہ تیر چلائے ہیں۔ لیکن اس موضوع کے پس پردہ بھی غیر ارادی طور پراس کے آخری شعر میںاپنی نرگسیت کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے          ؎

بڑھاپے میں ریاض افشا نہ کر راز سیہ کاری

مجھے ڈر ہے تقدس کو ترے رسوائیاں ہوں گی

وہ چاہتے ہیں کہ ان کے حسن و جوانی کو کبھی زوال کی ہوا بھی نہ لگے۔ جو چیز انسان کو بہت پیاری ہوتی ہے وہ اس کے تئیں بہت فکر مند رہتا ہے۔ ریاض کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا ہے۔ انھیں اپنی جوانی اس قدر عزیز ہے کہ وہ اس پر بڑھاپے کی خزاں دیکھنا گوارا نہیں کرتے ہیں۔یہی نرگسیت انھیں اللہ کے حضور یوں دست سوال دراز کرنے کے لیے اکساتی ہے        ؎

جواں کردے الٰہی صحبتِ پیر مغاں مجھ کو

پرانے میکدے والے بھی جانے نوجواں مجھ کو

من جملہ طور پر یہ کہنے میں کوئی قباحت نہیں کہ ریاض کے اندر نرگسیت کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ان کے اندر کی یہ نرگسیت بعد از مرگ بھی زندہ رہی۔

انھیں اپنی خوبصورتی اور قاتلانہ ادا پر کچھ اس قدر ناز ہے کہ انھیں لگتا ہے کہ موت بھی اس کو مات نہیں دے سکتی۔ وہ تو حشر کے دن بھی اپنی رندانہ وضع ترک کرنے پر تیار نہیں           ؎

کفن سرکا کے حسن نوجوانی دیکھتے جاؤ

ذرا افتادِ مرگ ناگہانی دیکھتے جاؤ

اہل محشر سے نہ الجھو تم ریاض

حشر میں دیوانگی اچھی نہیں

دہن گور میں جاتے ہوئے کہتے تھے ریاض

اے لبِ گور سمجھ موجِ تبسم مجھ کو

ہم اپنی وضعِ رندانہ کریں کیوں ترک محشر میں

یہی ہوں گے وہاں بھی اہل دنیا  دیکھنے والے

غرض ان کے کلام میں خود پسندی، خودستائی، اناپرستی، شاعرانہ تعلی، جیسے عناصر نرگسیت کا بین ثبوت پیش کرتے ہیں۔


مراجع ومصادر

  1. بحوالہ ڈاکٹر سلام سندیلوی، اردو شاعری میں نرگسیت،نسیم بُک ڈپو، لاٹوش روڈ، لکھنو1974،ص29-30
  2. ڈاکٹر جلیل احمد خان، ریاض خیر آبادی حیات اور ادبی خدمات، یونائیٹڈ پریس، لکھنؤ،1974،ص 7
  3. ایضاً
  4. ڈاکٹر اعجاز حسین، مختصرتاریخ ادب اردو،جاوید پبلشرز، الہ آباد،ص 245

 

Dr. Mohd Younus Thokar

Asst Professor, (C), Dept of Urdu

Kashmir University

Kashmir -190006 (J&K)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں