انشائیہ اردو ادب کی ایک اہم اور مقبول صنف ہے، جس کا شمار
غیر افسانوی نثر کی حیثیت سے کیا جاتا ہے۔ اردو انشائیے کے اولین نقوش کا آغاز اٹھارویں
صدی سے ہوگیا تھالیکن اس کو شہرت دوام بیسویں صدی میں نصیب ہوئی اور رفتہ رفتہ یہ ننھاسا
پودا بڑھ کر تناور درخت بن گیا۔ اس کے باوجود انشائیہ ایک ایسی صنف ہے جس کی کوئی ایک
تعریف متعین نہیں ہوسکی ہے۔تمام ناقدین ادب کی آرا مختلف فیہ رہی ہیں۔ان میں کہیں
اختلاف اور کہیں پر اتفاق پایا جاتا ہے۔مثلاً چند ناقدین کا مانناہے کہ یہ صنف انگریزی
ادب سے اردو میں آئی اور چند کا کہنا ہے کہ یہ صنف ہماری مٹی کا وہ خود رو پودا ہے،جس
کے نقوش ہماری ادبی تحریروںمیں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ انشائیے کی تعریف کے ضمن میں چند
مشہور نامور ناقدین ادب کی آرا مندرجہ ذیل ہیں۔ڈاکٹر وزیر آغالکھتے ہیں
’’انشائیہ اس صنف نثرکانام
ہے جس میں انشائیہ نگار اسلوب کی تازہ کاری کامظاہرہ کرتے ہوئے اور اشیایامظاہرکے مخفی
مفاہیم کو کچھ اس طور سے گرفت میں لیتا ہے کہ انسانی شعور اپنے مدار سے ایک قدم باہر
آکر نئے مدار کو وجود میں لانے میں کامیاب ہو جاتاہے۔‘‘ 1
سید محمد حسنین کی رائے میں:
’’داخلیتی
طریق کاری
(subjective way of treatment) انشائیہ نگار کا شعارو کردار
ہے۔اس فرض سے عہدہ بر آہونے کے لیے وہ صرف اپنے دل کی گہرائیوں میں نہیں اترتا بلکہ
پرائے دل و دماغ پر بھی دستک دیتا ہے۔‘‘2
نیاز فتح پوری کے مطابق:
’’انشائیہ
دیگر اصناف ادب کے مقابلے آسان بھی ہے اور مشکل بھی ہے۔ آسان اس لیے کہ وہ صرف ذہنی
اپج ہے اور وہ مشکل اس لیے کہ ہر ذہنی اپج، انشائیہ نہیں بن سکتی، اس لیے محض فکر کافی
نہیں بلکہ ذکر بھی درکار ہے اور یہ ذکر آسان نہیں۔ اس کی اولین شرط نفسیات کی مہارت
ہے اور ادب میں آکر یہ خاص اسلوب اختیار کرلیتی ہے جس میں فلسفہ، تنقید اور ادب کے
تمام شعبے (مع طنز و تعریض، مزاح)ایک دوسرے سے گتھے نظر آتے ہیں۔‘‘3
مندرجہ بالا تمام تعریفوںکا اجمالاًجائزہ لینے کے بعد اس
بات کی وضاحت ہوجاتی ہے کہ یہ تمام تعریفیں ایک دوسرے سے کسی حد تک متضاد ہیں۔ایک طرف
جہاں ڈاکٹر سید محمد حسنین انشائیہ کے لیے داخلی طریق کارکو انشائیے کے لیے لازمی قرار
دیتے ہیں اور اس کو ایسا عنصر قرار دیتے ہیں،جس سے تحریر کی عظمت اور بھی برتر ہوجاتی
ہے۔یعنی دل سے نکلی ہوئی بات دوسرے دل تک اس طور سے پہنچے جو زیادہ پرُ اثر ہو۔دوسری
طرف ڈاکٹر وزیرآغا انشائیہ کو ایک نثری صنف قبول کرتے ہیں جس میں انشائیہ نگار اپنے
اسلوب کی تازہ کاری کو ضروری مانتا ہے کیونکہ اسلوب اگر گھسا پٹا ہوگا تو اس کی تحریر میں کسی بھی قسم کا اثربرقرار نہیں ہوگا۔یہ
تمام تعریفیں ناقدین ادب کی اپنی خلاقانہ طبیعت اور تخلیقانہ مزاج کی دین ہیںجو لائق
ستائش بھی ہیں اور ناقابل فراموش بھی۔انشائیہ کے سلسلہ میں احتشام حسین درست فرماتے
ہیں:
’’میرے ذہن میں انشائیہ
کی کوئی منطقی اور علمی تعریف نہیں ہے تو یقینا مجھ پر لا علمی اور جہالت کا الزام
نہیں لگایا جائے گا،کیونکہ میں خود ان تمام مشرقی اور مغربی نقادوں کو شک کی نظر سے
دیکھتا رہا ہوں جنھوں نے قطعیت کے ساتھ اس کی تعریف کی ہے اور اس کو صحیح اور مناسب
ترین قرار دیا ہے۔‘‘4
انشائیہ کی تعریف چند جملوں
میں نہیں بیان کی جا سکتی ہے کیونکہ اس کا میدان بہت وسیع ہے۔ اس میں اتنی جہتیں اور
پرتیں ہیں کہ اس کو ایک دھاگے میں پرونا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔اس کا کام تو
چلتے رہنا اور آگے بڑھتے رہنا ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ انشائیہ کی جس قدر تعریفیں کی گئیں
ہیں۔ وہ تمام باتیں برائے تعریف ہی ہیں۔ انشائیہ کی ساختیات اور شعریات پر ان سے کوئی
روشنی نہیں پڑتی۔مثال کے طور پر کسی شعری صنف کو قصیدہ کہنے کے لیے سب سے پہلے اس کی
ہئیت پر غور کیا جائے گا۔ تشبیب، گریز، مدح، دعا، جیسے عناصر ترکیبی قصیدہ کی پہچان
ہیں۔یہ بعد کی بات ہے کہ قصیدہ کس کی شان میں ہے۔ ممدوح کوئی بادشاہ ہے یا مذہبی ہستی
یا کوئی موسم، پھول اور پھل یا کوئی جانور۔ پھر قصیدہ اظہار بیان کی حد تک کس قدر کامیاب
ہے یا اس میں کون کون سے شعری محاسن پائے جاتے ہیں۔جب ہم یہ کہتے ہیں کہ تمام تعریفیں
ناقدین کے خلاقانہ ذہن کی اپج ہیں تو اس کا سیدھا مطلب یہ نکلتا ہے کہ یہ تاثر ہے۔یہ
تاثر چند انشائیوں کو پڑھ کر قائم ہوا۔لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے تمام تعریفیں مخصوص انشائیوں
کو پڑھ کر مرتب ہونے والے اثرات ہیں کہ فلاں انشائیے میںفلاں خوبی ہے۔یہ خوبی مختلف
انشائیہ نگاروں کی منفرد طرزاداہے۔انشائیہ کی ہئیتی پہچان ہنوز تشنہ ہے۔موجودہ وسائل
کی روشنی میں انشائیہ کے خدوخال اور اس کی تعریف کو سمجھنے کے لیے،مذکور ہ بالا نکات
سے مددمل سکتی ہے کہ انشائیہ ایک ایسی نثری صنف ہے،جس میںموضوع کا تنوع، جدت اسلوب،اختصار
اور جامعیت کے ساتھ قوت انشا پوری فکر کے ساتھ نمودار ہوتی ہے۔
انشائیہ کی لغوی تحقیق
انشائیہ نہ صرف اردو میںبلکہ عربی،فارسی،ہند ی اور انگریزی
میں بھی موجود ہے۔عربی میں اسے لفظ ’انشا‘ سے تعبیر کرتے ہیں جو’ نشا‘مادہ سے مشتق
ہے۔ فارسی میں بھی اسے انشا کے نام سے یاد کرتے ہیں۔اسے ہندی میں ’للت رچنا‘ کہتے ہیں۔انگریزی
میں'
Essay 'Light کہا جاتا ہے جو فرانسیسی لفظ ’Essaiـ‘سے
ماخوذ ہے۔ اردو میں اس صنف کو اولاًلطیف پارہ، ادب لطیف،لائٹ اسّے اور پھرانشائیہ کے
نام سے شناخت حاصل ہوئی۔ نیزانشا اور انشائیہ میں ایک بہت ہی مہین سافرق ہوتا ہے ان
تمام زبانوںمیں انشا کے معنی و مفہوم میں بھی تضاد نہیں پایا جاتا ہے بلکہ دیکھا جائے
تو بہت حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے۔ انشا لفظ سے بھی وہی مفاہیم فراہم ہوتے ہیں جو
انشائیہ سے بھی عبارت کیے جاتے ہیں۔نیز یہ بات انشائیہ کی لغوی تحقیق سے اور بھی صاف
ہوجاتی ہے۔بطور نمونہ فارسی،ہندی،انگریزی اور اردو سے چند مثالیں پیش ہیں۔
فارسی میں انشائیہ کی لغوی تحقیق
فرہنگ فارسی امروزمیں لکھا ہے
نویسندگی، منشیگری۔مطلبی کے برائی تمرین نویسندگی، نوشتہ
شود،درس انشا۔‘‘5
’تحریر
کرنے والا،اپنے دل سے کسی بات کا پیدا کرنے والا،ایسی بات بیان کرنا جو پڑھنے میں خوگر
(دلکش) ہو، چٹھی،خط،مکتوبات،روشن عبارت نویسی۔
ہندی للت رچنا کی لغوی تحقیق
ہندی میں انشائیہ کو’ للت رچنا‘ کے نام سے جانا جاتا ہے،جودراصل
دو منفرد الفاظ ’للت اور رچنا‘کو جوڑ کر بنائی گئی ایک اصطلاح ہے۔ان دو الفاظ کو یکجا
کرنے پر معنی و مفاہیم ٹھیک وہی نکلتے ہیں جو اردو میں لفظ ’انشائیہ ‘میں پائے جاتے
ہیں
Acording To New Hindustani English Dictionary..
(1) Lalit-A ragma or musical mode, beautiful, lovely.
(2) Rachna-Creation Nature composition. 6
خوبصورت،پیار،اخلاق سے پُر،کشش، ایسی نثر جس میں تمام فنی
خوبیاں پائی جائیں،ایسی تحریرجس میں جاذبیت ہو۔
انگریزی light essayکی
لغوی تحقیق:
ہندی کی للت رچنا کی طرح انگریزی کے لائٹ اورایسے کی مرکب
اصطلاح نہیں پائی جاتی ہے بلکہ یہ جداگانہ مفہوم میں دستیاب ہوتے ہیںلیکن اس اصطلاح
کا کم وبیش وہی مفہوم ہے جو دیگر اصناف کے انشائیوں میں مضمر ہے۔مثلاًآکسفورڈ انگریزی
اردو لغت کے مطابق
' light اور essay 'کے
مفاہیم کو اس طرح سے بیان کیا گیا ہے
.light (1)ایسی
روشنی جس کے باعث اشیا نظر آتی ہیں،کسی شے پر نظر ڈالنے کا انداز، ذہنی بصیرت، فہمیدگی،آگہی،امید،بہجت
فرحت مبارک،ایسی چمک جو چہرے پر اور خصوصاًآنکھوں میں نظر آئے۔‘‘7
.Essay(
2)کسی موضوع پر کوئی مضمون یا مقالہ عمومًامختصر تحریر،کوشش
سعی،قسمت آزمائی،آزمانا وغیرہ۔8
اردوانشائیہ کی لغوی تحقیق
قاموس مترادفات میں لکھا ہے :
’’مضمون،مضمون
لطیف،نثر لطیف،ہلکا پھلکا مضمون، اسیّ ادب لطیف وغیرہ۔‘‘10
انشائیہ کی فنی خصوصیات
یوں تو ہر اصناف کی فنی خصوصیات ہوا کرتی ہیں جو ایک دوسرے
سے منفرد اور ممتاز ہوتی ہیں۔جہاں تک انشائیہ کے فنی اختصاص کا تعلق ہے تو اس صنف میں
بھی کچھ ایسے فنی امتیازات ہیں جو صرف اس صنف کے لیے مخصوص ہیں۔انشائیہ میںچند ایسی
فنی باریکیاں ہیںجو انشائیہ کے لیے لازم وملزوم ہیں ڈاکٹر اختر اورینوی کے مطابق
’’انشائیہ طرازی نثر
نگاری میں ایک خاص صنف ہے کیوںکہ اس میں ماضی حال اور مستقبل کی باتیں ہوتی ہیں۔‘‘11
انشائیہ ایک زندہ اور تابندہ صنف ہے اور زندہ چیز میں تغیر
اور تبدل کا عنصرچھپارہتاہے۔اس میں توسیع کا سلسلہ جاری و ساری رہتا ہے۔ایک انشائیہ
نگار کے لیے ضروری ہے کہ وہ فن کے دائرے میں رہ کر ایک کامیاب انشائیہ تخلیق کرے۔اپنے
اسلوب کی روانی اور اپنے ہمہ گیر تجربوں کو فطری سادگی اور تسلسل کے ساتھ تحریر کرے۔
ہر قسم کے تصنع اور بناوٹ سے پرہیز کرے۔اگر انشائیہ نگار بغیر احساسات اور تاثرات کے
اپنی تخلیق کو پیش کرتا ہے تو گویا اس کی تحریر سپاٹ اور اس کا اثر زائل ہوجائے گا۔یعنی
اس کی تخلیق دُھند میں چھپ جائے گی۔ اس لیے واضح نقطہ نظر کا خاص خیال رکھنا ضروری
ہے جو احساس اور جذبے کو توانائی او رعنائی بخشتا ہے۔انشائیے کا دائرہ کافی وسیع ہے۔اس
میں ہر اہم اور غیر اہم موضوع کو زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔ نثری تحریر میں بے ربطی
کا ہونا طے ہے۔
انشائیے کا اولین وصف بات سے بات پیدا کرنا ہے جس کے بغیر
انشائیہ کا تصورممکن نہیں،انشائیے میں موضوع کی کوئی قید نہیں ہوتی ہے بلکہ اس میں
اپنی ذات سے لے کر کائنات کے ہر ذرے پر بات کی جاسکتی ہے۔انشائیہ نگار کامطالعہ کافی
وسیع ہوتا ہے۔وہ اپنی تمام فنی و فکری صلاحیتوںکو بروئے کار لاتا ہے۔انشائیے میں اپنے
تمام تجربات کو پیش کرنے کی سعی کرتاہے۔انشائیہ نگار نیرنگ خیال سے اپنے موضوع میں
ایک ایسارنگ پیداکرتا ہے جو انشائیے میں جان ڈال دیتا ہے۔
فنی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو انشائیہ کو پرُ وقار بنانے
والی خصوصیات اختصار اور جامعیت ہے۔ انشائیہ نگار کو مختصر مگر جامع انداز بیان پر
جتنی قدرت ہوگی،تحریر اتنی ہی دلکش معلوم ہوگی۔نیز ایک ممتاز انشائیہ نگار اپنی محاسبانہ
اور محاکمانہ خوبیوں کی بدولت ایسے فن پاروں کی تخلیق کرتا ہے جس کا براہ راست اثر
قاری پر پڑ تا ہے۔ چنانچہ انشائیہ نگار اپنے مشاہدات کے ذریعے چھوٹی چھوٹی باتوں کو
اپنے موضوع میں پروتا ہے اور ایک خوبصورت موتیوں کی لڑی کی شکل میں نمایاں کرتا ہے۔بقول
آد م شیخ ’’اختصارجامعیت اورعدم تکمیل (incompleteness) ایک انشائیہ کی نمایاں صفات
ہیں۔‘‘11نیز اس میں اسلوب کا بہترین رکھ رکھاؤ ہونا چاہیے تاکہ موضوع میں روح پیدا
ہوسکے۔اسلوب میں تخلیق کا اثر ہونا ضروری ہے جودراصل انشائیہ نگار کے طرز احساس سے
پیدا ہوتا ہے۔ اسی سے قاری کے ذہن وقلب تک رسائی حاصل ہوتی ہے۔نیز اسلوب وہ میڈیم ہے
جس کی تازگی اور نئے پن کے بغیر انشائیہ؛انشائیہ نہ رہ کر ایک سنجیدہ سی تحریر بن کر
رہ سکتا ہے ہر چند کہ انشائیہ کا سارا حسن اس کے اسلوب میں پوشیدہ ہوتاہے جو اس کے
موضوع اور فارم میں تقویت پہچانے میں اہم رول ادا کرتا ہے۔اسلوب کی اہمیت کے اعتراف
میں سید محمد حسنین تحریر کرتے ہیں:
’’یہ
اس نثری تحریرکا کرشمہ ہے کہ خود رو اور خود مختار خیالات کی آوارہ گردیاں اس صنف
ادب میں تربیت یافتہ خیالات کی نیرنگیاں بن جاتی ہیں، خیالات وافکار کی ابتدائی،بدشکلی
ناتمامی اور خامی جنبش قلم سے وہ حسن بو قلموں ہوجاتی ہے جو کمال فن انشائیہ ہے۔‘‘12
حقیقت تو یہ ہے کہ انشائیہ نگار تمام واقعوں اور تجربوں
کو ایک فطری سادگی اور تسلسل کے ساتھ بیان کرتا ہے۔اس کے اسلوب میں مبالغہ آرائی نہ
کے برابر ہوتی ہے اور نہ ہی جذبات کی فراوانی ہوتی ہے بلکہ اس کے یہاں تو داخلی کیفیتوں
کی ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
انشائیہ اور غیر افسانوی نثر
انشائیہ کی تخلیق میں آورد کا کوئی دخل نہیں ہے۔یہ خیال
کی آمد کے ذریعے ہی نازل ہوتا ہے کیونکہ یہ کوئی وقتی اور بنا وٹی صنف نہیں ہے بلکہ
اس میں پایۂ استقامت کا ہونا بھی ضروری ہے۔اس کی سرشت صرف اس کی اپنی ہے۔نیز انشائیہ
کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں دوسری اصناف کارنگ بھی صاف طور سے دیکھنے کو ملتا ہے، حالانکہ
یہ رنگ کلی طور پر نہیں جزوی طور پر موجود ہوتا ہے۔ یعنی دیگر اصناف کی چند جھلکیاں
ایسی پائی جاتی ہیں جو انشائیے کے حسن کواور بھی دوبالا کر دیتی ہیں۔
انشائیہ اور مضمون
مضمون دراصل انگریزی لفظ اسیّ(Essay)کا ترجمہ ہے اور لفظ ’اسیّ‘
فرانسیسی لفظ'Essai'
کے مترادف ہے۔ ناقدین کے مطابق'Essai'' لاطینی
زبان سے ماخوذ ہونے کے بجائے،عربی لفظ’اسعی‘کی فرانسیسی شکل ہے کیونکہ صدیوں سے اہل
عرب کا سکہ اندلس اور جنوبی فرانس پر چلتا رہا ہے۔یہی وجہ ہے کہ فارسی زبان میں لاطینی
زبان کے مقابلے میں عربی الفاظ زیادہ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ہمارے یہاں مضمون نگاری انگریزی
سے اردو میں آئی۔اس کے اولین نقو ش دلی کالج اور بالخصوص ماسٹر رام چندرکے یہاں دیکھنے
کو ملتے ہیں۔بعد ازیں اس صنف کو فروغ دینے کا سہراسرسیداور ان کے پیش روکے سر ہے۔ان
اکابرین نے ایک ہی وقت میں مختلف قسم کے مضامین تحریر کیے۔ یہی وجہ ہے کہ مضمون کووسیع
معنی میں تلاش کیا جاتارہااور اس میںاتنی گنجائش پیداہوتی رہی تاکہ اس میں سماجی،سیاسی،
ادبی، علمی، تاریخی، تحقیقی، تنقیدی موضوعات پر اظہار خیال کیا جاسکے نیز انھیں محرکات
کی بنا پرمضمون میں منطقی استدلال، خیالات کا تسلسل، مقصد کی تبلیغ پر سیر حاصل بحث
بھی خوب ملنے لگی اور یہی وجہ ہے کہ اس میں خارجی رنگ کا غلبہ زیادہ حاوی رہتا ہے۔مثال
کے طور پر ہم کہہ سکتے ہیں ’تہذیب الاخلاق‘ میں سرسید احمد خاں کے لکھے بیشتر مضامین
انشائیے نہیں ہیںکیونکہ انشائیہ میں خارجیت سے زیادہ داخلیت پر زور دیا جاتا ہے۔انشائیہ
میں سنجیدگی نہیںبلکہ نشاطیہ رنگ زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے، جب کہ مضمون میں مضمون نگارسیر
حاصل بحث کرتا ہے اور مختلف دلائل و براہین کی روشنی میں کسی نتیجے پر پہنچتا ہے۔ بقول
سید محمد حسنین
’’...کسی
موضوع پر سنجیدہ فکر آرائی،کسی داخلی کیفیت کا حزن آگیں تمثیلی اظہار،کسی اہم شخصیت
کے حالات زندگی، روز ناموں یا رسالوں کے ایڈیٹوریل، جلسوں کی رپورٹ،ڈائری کا ایک ورق،کسی
اہم شخصیت کی قلمی تصویر،کسی معروف یا اہم شخصیت کا تعارف و تعاریف۔‘‘13
یہاں پر اعادہ کرنا ضروری ہے کہ مضمون میں سنجیدگی کا پایا
جا نا ضروری ہے۔ نیز ایک مضمون نگار میں تنوع مزاج کا ہونا بے حدضروری ہے۔اسے زندگی
اور ادب کا پارکھ ہونا چاہیے،ساتھ ہی سچی تصویرکشی پیش کرنے میں مہارت رکھتا ہو۔ ماضی
حال اور مستقبل سے بھی واقفیت رکھتا ہو۔لہٰذا وہ واحد متکلم بن کر اپنے مضمون کی تخلیق
کرے،جس میں تحقیقی اور تنقیدی بصیرت کار فرما ہو۔بہرحال یہ تمام اوصاف اگر ایک مضمون
نگار میں پیوست ہیں تو وہ کامیاب مضمون نگار کہلانے کا حق دار ہے،جب کہ انشائیہ میں
منطقی استدلال کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا ہے۔یہ ایک آزاد اور خود مختار صنف ہے۔اس
میںایک ایسا
(Flow) بہاؤ ہوتا ہے، جس میں انشائیہ نگار بہتا چلا
جاتا ہے،لیکن !وہ اس بہاؤ میں حواس باختہ نہیں ہوتاہے بلکہ ہوشیاری سے اپنی بات کو
آگے بڑھاتا چلا جاتا ہے۔ آخر میں اپنی بات یا خیالات کو ایسے موڑ پر چھوڑتا ہے، جس
سے کہ قاری نہ صرف محظوظ ہوتا ہے بلکہ وہ اس موضوع کے حوالے سے سوچنے پر مجبور ہو جاتاہے۔نرم
و شیریں لطیف اور نشاطیہ اسلوب انشائیہ کے حسین جوہر ہیں۔ کیا مضمون اور انشائیہ ایک
ہی صنف کے دو مختلف روپ ہیں ؟یہ سوال ناقدین ادب میں موضوع ِبحث بنا رہا ہے۔ دراصل
انشائیہ کو مضمون یعنی اسیّ (Essay)اس لیے بھی کہا جاتارہا کیوںکہ
اردو ادب میں ایک طویل وقت تک انشائیہ کی اصطلاح وضع نہیں ہوئی تھی اور اس کو مضمون
اور اسیّ کے تحت ہی شمارکیا جاتا رہاتھا۔بعد میں جب انشائیہ کی پہچان کی گئی اور اس
کے خدوخال کو مضمون نگاری سے الگ پایاتو اسے ایک الگ صنف کا درجہ دیا گیا۔
اردو مضمون نگاری اور انگریزی مضمون کی ایک جیسی قسمت رہی
ہے کیونکہ جس طرح سے انگریزی میں Essay کو وسیع معنوں میں تلاش کیا
جاتا ہے اور یہاں تک کہ ما نتین (Montaigne) کے لائٹ اسیّ بھی اسی زمرے
میں شمار کیے جاتے رہے تھے،لیکن ایک ایساوقت آیا کہ اسیّ (Essay)کی پہچان کی گئی اور مانتین
کی تحریروں کو اسیّ نہ کہہ کر ’لائٹ اسیّ‘ کہا گیا،کیونکہ اس کی تحریریں سنجیدہ مضمون
سے کافی مختلف تھیں۔یہی حال اردو میں انشائیہ کے ساتھ رہا اور ایک طویل وقت تک’ اسیّ‘
کے نام سے یاد کیا جاتا رہا۔حالاںکہ چند ناقدین ادب کی کوششوں سے اس کو مضمون کی جگہ
لطیف پارہ اور نمک پارہ، اسّے اورانشائیہ جیسی اصطلاحوں سے پکارا گیا۔ بعدازیں انشائیہ
کواس کی تحریری امتیازات کی روشنی میں پرکھا گیااور آخر کار یہ طے پایا کہ انشائیہ
اورمضمون اردو ادب کی آزاداور خود مختاراصناف ہیں۔
انشائیہ اور طنز
طنز کی ماہیت توصیفی ہے۔ اسے ادب میں صنف کا درجہ نہیں دیا
گیا۔ پھر بھی اس کا استعمال ہر دور میں کیا جاتا رہاہے۔ وہ خواہ شاعری ہو یا نثر طنز
نے ادب میں اپنا لوہا منوایا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ادب میں طنز کا وقیع سرمایا موجود ہے۔
انشائیہ میں طنز کی موجودگی گویا اس کے معنی و مفہوم میں چار چاند لگانے کے برابر ہے۔
دراصل طنز کے معنی میں انتہائی وسعت پائی جاتی ہے اور اُسے بہت سے ناموں سے جانا جاتا
ہے۔انشائیہ میں طنز کس معنی میںبولاجاتاہے،اس کی وضاحت ضروری ہے۔مثلاًطنز۔ ہجو، ہزل،
پھبتی، نوک، جھونک، مذمت، مضحکات، تعریض، تنقید وغیرہ کے لیے مستعمل ہے چونکہ طنز کا
متبادل انگریزی میںSatire ہے
تو یہی وجہ ہے کہ ہمارے ناقدین ادب نے اس لفظ کو انگریزی سے تعبیر کیا۔ دراصل satire لاطینی زبان سے نکلا
ہے جس کے معنی پھولوں سے بھری طشتری کے ہیں۔یعنی ایک ایسی صنف شاعر ی جس سے مختلف معاشرتی
برائیوںکا تنقیدی انداز میں جائزہ لیا جاتا ہے۔چنانچہ اس حوالے سے اگر ہم دیگر زبانوں
پر نظرڈالیں تو چند جدا گانہ مفاہیم نظر آئیں گے۔مثلاً فارسی زبان میں طنز کے لفظی
معنی افسوس کرنا، مذاق اڑانا،طعنہ دینا، ہنسی اڑانا،وغیرہ کے ہیںلیکن اس زبان میں طنز
کا مفہوم ’ہجو ‘کے معنی میں ادا کیا جاتا ہے۔یعنی فارسی زبان و ادب میں یہ دونوں لفظ
ہجو+طنز‘‘ عموماًہم معنی استعمال ہوتے ہیں۔
طنز ایک ایسا اسلوب ہے جو کائنات میں پائی جانے والی ہر
ناہمواری پر کیا جا سکتا ہے۔دراصل یہ ناراضگی کا ایک ایساحربہ ہے جو طنز نگار کے ذریعے
کسی نہ کسی شکل میں وارد ہوتا ہے۔ البتہ طنز کے ذریعے سے ایسے تمام معاملات کی نقاب
کشائی کی جاتی ہے جو بے ہنگم ہونے کے ساتھ قبیح بھی ہوتے ہیں۔طنز ایک ذریعہ ہے جس کے
توسل سے ان تمام زخموں کو کریدا جاتا ہے جو ہماری سماجی زندگی میں سرایت کیے ہوئے ہیں۔
نیز انشائیہ نگاراکثر و بیشتر انشائیہ تخلیق کرتے وقت اتنی باریک بینی سے طنزیہ جملے
کہہ جاتا ہے کہ بظاہر اس طنز کا پتا ہی نہیں چلتا ہے جو غور کرنے پرہی معلوم ہوتے ہیں۔
انشائیہ میں طنز کا استعمال کم ہی کیا جائے تو زیادہ مناسب ہے۔ اگرچہ طنز کی زیادتی
سے انشائیہ کا حسن زائل ہوجائے گا اور انشائیہ، انشائیہ نہ رہ کر طنزیہ مضمون ہوکر
رہ جا ئے گا۔نیز طنز ایک تیر کی مانند ہے جسے انشائیہ نگار بڑے احتیاط کے ساتھ برتتا
ہے تاکہ اس میں سختی کی جگہ نرمی بھی برقرار رہے۔
انشائیہ میںتقریبا ًسبھی انشائیہ نگاروں نے اپنے انشائیوں
میں طنزآمیزاسلوب کو متواتر برتاہے جوکبھی لفظوں کی شکل میں،کبھی جملوں کی شکل میں
اور کبھی کبھی پوری عبارتیں طنز کے رنگ میں ڈھلی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔دراصل یہ ایسی
تحریریں ہیں جنھیں انشائیہ سے الگ نہیں کیا جا سکتا ہے۔انشائیہ نگاری میں طنز نگاری
کے تمام آداب کا جاننا ضروری ہے۔انشائیہ میں طنز کی تخلیقی اپج کے ساتھ فکرو خیال
کی گہرائی،ادبی حسن کاری،ژرف نگاہی اور نظم و ضبط کا سلیقہ ہوتاہے۔اس کے ساتھ انشائیہ
میں طنز کی فراوانی سے پرہیز ہوناچاہیے۔اس سے انشائیہ کا حسن بھی برقرار رہے گااور
طنز کی آمیزش بھی برقرار رہے گی۔
انشائیہ اور مزاح
طنز کے ساتھ مزاح لازم و ملزوم ہے کیونکہ خالص طنزبہت تیکھااور
خلش پہچانے والاہوتا ہے۔مزاح کی چاشنی اس کی تیزی کو زائل کردیتی ہے۔طنز سے قطع نظرجب
ہم مزاح کی تعریف پر نظر ڈالتے ہیںتو مزاح میں دور حسی اور ظریفانہ مزاج کا دخل پاتے
ہیںجو سماج کی ہر سطح کی نا ہمواریوںکی وجہ سے وجود میں آتا ہے۔مزاح کا انگریزی مترادف Humourہے
اور یہ لفظ لاطینی زبان کے Homour سے مشتق ہے،جس کے معنی مرطوب
ہونا ہیں۔لیکن!یہ لفظ رفتہ رفتہ مضحکہ خیزیا ظرافت کے مترادف ہوتا گیا۔عربی میںمزاح
کے لغوی معنی ’مذاق کرنا‘کے ملتے ہیں۔فار سی میںمزاح کے لفظی معنی دانائی اورخوش طبعی
کے ہیں۔ہندی میں اس لفظ کو’ پریاس‘یا ونود کہتے ہیں۔
مزاح میں وقار اور متانت کا ہونا ضروری ہے،جس میں ذہن و
قلب کی پاکیزگی کے ساتھ نیک پہلوؤں کو استعمال کیا گیا ہو اور اس کی جانب سے کسی کی
دل شکنی نہ ہو۔ دراصل انشائیہ نگار کے لیے مزاح سے ابلا غ کا کام اس لیے لیا جاتاہے
کیونکہ اس کے ذریعے سے انشائیہ نگاران پیچیدہ ذہنی تاثر کو پیش کرتاہے، جس کو براہ
راست پیش نہیں کیا جا سکتا۔نیز یہی تاثرات کبھی کبھی قہقہے کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔اس
کے علاوہ مزاح انسان کو ہنسنے ہنسانے پر مجبورکرتاہے۔اگرچہ انشائیہ میں نشاطیہ لب و
لہجے کا رنگ پہلے ہی سے پایا جاتا ہے توضروری ہے کہ اس میں مزاح کا استعمال طنز کی
طرح سے ہلکے پھلکے انداز میں کیا جائے،کیونکہ ضرورت سے زیادہ مزاح سے بھی انشائیہ کا
حسن غارت ہو سکتا ہے۔چنانچہ ایسی خالص تحریریںجو صرف مزاح پر مبنی ہوتی ہیں ان کو انشائیہ
کے زمرے میں ڈال دیا جاتا ہے لیکن وہ دراصل انشائیہ نہیں ہوتی ہیں۔ہمیں یہ نہیں بھولنا
چاہیے کہ انشائیہ میں مزاح کا استعمال اتنا ہی ہوتا ہے کہ اس کا حسن برقرار رہے۔ مزاح
ایک ایسی تخلیق ہے جس میں بہت سے پہلو پو شیدہ ہوتے ہیں اور ان ہی میں سے کسی ایک پہلو
کو انشائیہ نگار اپنی بات کی وضاحت کے لیے استعمال کرتا ہے اور زندگی کی نا ہمواریوں
پر ہمدردانہ نگاہ ڈالتا ہے جو تلخ تجربہ ہوتی ہیں۔
انشائیہ میں پائے جانے والے مزاح میں سپاٹ پن اور پھکڑ پن
نہیں ہوتاہے۔مزاح کی خوبی کسی عمل خیال میں واقع لفظ اورجملے کے خندہ آور پہلوؤں
کو دریافت کرنا اور ان سے محظوظ ہونا ہے، چنانچہ اس خوبی سے انشائیہ نگا ر فائدہ اٹھاتا
ہے۔ہر قسم کی بے اعتدالی اور بے تکے پن کو نظرانداز کر دیتا ہے اور ان کے عیوب کی طرف
توجہ دلاتا ہے جو سامنے تو ہوتی ہیں لیکن قابل توجہ نہیں سمجھی جاتی ہیں۔
انشائیے کا یہ امتیاز رہا ہے کہ اس کے لب و لہجہ میں مختلف نثری اسلوب کا دخل سبک اور سنجیدہ بھی ہو سکتا ہے۔بقول ڈاکٹر وزیر آغا:
’’انشائیہ
میں طنزومزاح کی آمیزش،اسلوب کا زاویہ ہے اور اس سے اکثر و بیشتر تحریر میں چاشنی
پیدا ہوجاتی ہے۔میرے بیشتر انشائیوں میں مزاح بھی ہے اور طنز بھی ہے لیکن اس کی فراوانی
کے ساتھ نہیں کہ انشائیہ دب کر رہ جائے گا۔ ‘‘14
انشائیہ میں طنز و مزاح کا استعمال صرف تحریر کو تقویت پہچانے
کے لیے کیا جاتا ہے کیونکہ اس سے تحریر میں لذت،خوشی اور چیزوں کو سوچنے کا ایک نیا
انداز فراہم ہوتا ہے اور اس سے ایک طرف انشائیے کا مقصدپورا ہوجاتا ہے دوسری طرف قارئین
تک وہ بات پہنچ جاتی ہے جو انشائیہ نگا ر پہنچانا چاہتا ہے۔مثلاً رشید احمد صدیقی کے
انشائیوں میں طنزومزاح کا رنگ اپنی آب وتاب کے ساتھ موجود ہے۔
انشائیہ اور خاکہ
انشائیہ کی طرح خاکہ نگاری بھی ایک ایسی صنف ہے جس کے اپنے
اصول اور ضابطے ہوتے ہیں۔دراصل یہ ایک ایسا فن ہے جو مشکل ہونے کے ساتھ حددرجہ دلچسپ
بھی ہے۔اس صنف کے ذریعے انشائیہ نگار ایسی کئی اہم شخصیات اور غیر اہم شخصیات کو ان
کی تمام اچھائیوں اور برائیوں کے ساتھ متعارف کرواتا ہے جس تک ہماری رسائی کا ہونا
ممکن نہیںکیونکہ ان میںسے بہت سے اسلاف راہی عدم ہو چکے ہیںاور جو حیات ہیں ان سے پل
بھر یا چند گھنٹوں کی ملاقات میں جانا نہیں جا سکتا ہے۔خاکہ ہمارے ادب کا ایک ایسا
نایاب ورثہ ہے جس کی عظمت و اہمیت کازمانے کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔نیزدوسری اصناف
کی طرح خاکہ نگاری بھی انگریزی سے اردو میں آئی۔انگریزی میں اس صنف کو اسکیچ پورٹریٹ
کہتے ہیں۔اردو میں اسے خاکے کی اصطلاح سے یاد کرتے ہیں۔خاکہ میں خاکہ نگار اپنی تمام
فنی اور فکری خوبیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ایسا دلکش اور خوبصورت خاکہ پیش کرتا ہے،جس
سے اس کی شخصیت کے تمام اوصاف ایک ایک کرکے قاری کے سامنے نمایاں ہوجاتے ہیں۔ خاکہ
نگار صفحہ ٔ قرطاس پر اپنی نوک قلم سے ایسی تصویریں دکھا تا ہے جو مختصر ہوتے ہوئے
بھی اثر انگیز ہوتی ہیں۔
انشائیے میں خاکہ نگاری کے نقوش کبھی شعوری طور پر اور کبھی
غیر شعوری طور پر دیکھنے کو ملتے ہیں۔انشائیہ نگار انشائیہ کو تخلیق کرتے وقت ایک ایسا
اسلوب اختیار کرتا ہے جس سے عبارت زندہ اور متحرک معلوم ہوتی ہے۔اس لیے انشائیہ نگار
مختلف زاویوں کی روشنی میں اپنی بات کو پیش کرتا ہے جس سے انشائیہ کو زیادہ سے زیادہ
استفادہ حاصل ہو۔ دراصل انشائیہ میں خاکہ نگاری کا استعمال جزوی طور پر کیا جاتا ہے
اور اس کی چھوٹی سے چھوٹی خصوصیت کو فن کارانہ طور پر برتا جاتا ہے تاکہ انشائیہ کا
حسن برقرار رہے اور اس میں کسی قسم کی قباحت یا جھول پیدا نہ ہو۔بطور نمونہ ایک مثال
پیش ہے
’’دفتر
سے واپسی پر بابو کا حلیہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ بغل میں بستہ اور چھتری سر پر کسی
بے ڈھنگے زاویے سے رکھی ہوئی ٹوپی، ہاتھ میں رومال،بانچھوں سے بہا ہوا پان اور چہرہ
پر دن بھرکی خستگی کے تمام نقوش نمایاں مگر دماغ پر زور دے دے کر یہی سوچتے جاتے ہیں
کہ ببوائن نے دو پیسہ کے چقندروں اورایک پیسے پانوں کے علاوہ اور کیا کہا تھا کہ لیتے
آنا۔‘‘ 15
ایسے کتنے ہی انشائیے ہیں جس میںخاکہ نگاری کے نقوش در آئے
ہیں۔یہاں طوالت کے سبب ایک ہی اقتباس پراکتفا کیا گیا ہے تاکہ قاری کو اس بات سے آگاہی
ہو سکے کہ انشائیہ اپنی مخصوص انفرادیت کو قائم رکھتے ہوئے کس خوبصورتی کے ساتھ دوسری
اصناف کی خصوصیات کو اپنے اندر ضم کر لیتی ہے۔
مختصراً ان تفصیلات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اردو
میں جتنے بھی انشائیہ لکھے گئے ہیں۔اس کے تمام منفرد امتیازات نے اردو انشائیے کی فنی
قدرو قیمت کو نمایاں کرنے میں اہم حصہ لیا ہے۔انشائیہ کے ان سب فنی اور فکری عناصر
کو ان کی تمام،داخلی و خارجی کیفیتوں سے ہم آہنگ کرکے پیش کرنا ہی اس کی اصل کامیابی
ہے۔فن اور فکر کی یہ امتزاجی روش اختیار کی جاتی رہی تو مستقبل میں اس کے ارتقاکے امکانات
واضح ہوں گے اور انشائیہ فطری طور پر وسیع ہو جائے گا،جس میں وہ زمانے کے سارے رنگ
دکھاتا ہے۔
حواشی
- انشائیہ کے خدو خال،ڈاکٹر وزیر آغا،جامعہ نگر دہلی، 1991، ص50
- انشائیہ اور انشائیے، سید محمد حسنین،ایجوکیشنل بک ہاؤس،علی گڑھ،ص30
- اردو انشائیہ،آدم شیخ،برہانی کالج کامرس اینڈ آرٹس، مجگاؤں، ص17
- صنف انشائیہ، سید محمد حسنین،ایجوکیشنل بک ہاؤس،علی گڑھ،ص237
- فرہنگ فارسی امروز، ڈاکٹرمھشید مشیری،جلداول،تہران نشر پیکا ن،1377،ص180
- New Hindustani English Dictionary,SW Fellon,p.1050
- آکسفورڈ انگلش اردوڈکشنری،مرتب مترجم، شان الحقی، ص922
- ایضاً، ص531
- قاموس مترادفات،وارث سرہندی،اردو سائنس بورڈ لاہور، ص55
- ماہنامہ میر نیم روز(کراچی)، 1977،ص187
- اردو انشائیہ،آدم شیخ،برہانی کالج کامرس اینڈ آرٹس، مجگاؤں، بمبئی،ص30
- انشائیہ اور انشائیے، سید محمد حسنین،ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ،ص 43
- ایضاً۔ص20
- انشائیہ کے خدوخال،ڈاکٹر
وزیر آغا،مکتبہ جامعہ نگر نئی دہلی، ص43
- انشائیہ اور انشائیے،سید محمد حسنین،ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، ص120
Dr. Nausheen Hasan
Dept of Urdu, Jamia Millia Islamia
New Delhi- 110025
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں