مہاراشٹر کے شہر ناگپور کے بعض تخلیق کاروں کو یہ اعزاز
حاصل ہے کہ وہ برصغیر میں بھی خوب جانے جاتے ہیں۔ ان میں دو قلم کار ایسے بھی ہیں جن
کی شہرت ان کے گھر کی دہلیز پار کر کے شہر کے چوک تک جاپہنچی اس بیان کا سادہ سا مطلب
یہ ہے کہ انھیں اس قدر شہرت حاصل ہوئی کہ بعد وفات شہر کے کسی چوک کو ان کے نام سے
موسوم کیاگیا۔ یہ شعرا ہیں۔ناطق گلاوٹھی اور ڈاکٹر منشا الرحمن خان منشا۔ ناگپور میں
ان مرحومین کے نام پر پائے جانے والے چوک کو دیکھ کر یہ سوال ذہن میں ضرور ابھر تا
ہے کہ آ یا یہ یادگار اس شاعرکی عظمت کی دلیل ہے یا اس چوک کی عزت افزائی۔
ودربھ (مہاراشٹر) کے علاقۂ برار کے ایک قصبے پیپل گائوں
راجہ کا ایک نوجوان معلم ناگپور کی اعلیٰ تعلیم گاہ اولڈ مارس کالج کے صدر شعبۂ اردو و فارسی تک کا سفر طے کرتا ہے، اس میں اس کی
تگ و دو،ذہانت،زندہ دلی اور خوش گفتاری کا بڑا عمل دخل رہا ہے۔ ڈاکٹر منشاالرحمن خان
منشا ناگپور کے ایک اہم شاعر ہی نہیں تھے،انھیں سماجی طور پر جو حیثیت،مقبولیت اور
عزت حاصل ہوئی اس دیار کے شایدہی کسی اردو شاعر کے حصے میں آ ئی ہوگی۔ وہ عام آدمی کے علاوہ شہر کے مشاہیر،صنعت کاروں،ادیبوں
شاعروں سے لے کر مہاراشٹر اور ملک کی اہم شخصیات میں خاص طور پر سیاسی لیڈروں میں اپنی
پہچان بنا چکے تھے۔ ان کی پر اثر شخصیت، گل افشانی گفتار اور لگن نے انھیں اس مقام
تک پہنچایا۔ ان کے متعدد شعری مجموعے اور کتابیں شائع ہوئیں جن میں آ ہنگِ حیات، نوائے
دل، آئینہ ٔ اقبال، مطالعہ میر ممنون دہلوی
اور عکسِ دوراں قابلِ ذکر ہیں۔ ان کی نگرانی میں لکھے گئے کئی تحقیقی مقالوں کو ناگپور
یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی سند عطا کی۔ کئی مرتبہ مہاراشٹر اردو اکادمی کے رکن بنے اور
دیگر کئی علمی و ادبی اداروں سے وابستہ رہے۔ ملک بھر کے مشاعروں کے علاوہ ا نھیں دہلی
میں لال قلعے کے مشاعروں میں بھی شرکت کے مواقع نصیب ہوئے تھے۔
ناطق گلاؤٹھی اور ڈاکٹر منشا الرحمن خان منشا اپنی ادبی
اور سماجی حیثیت سے مشہور ہوئے۔ان کی شاعری کی گونج اب بھی ذہنوں میں موجود ہے۔ ناطق
گلاؤٹھی کا ایک مشہور شعر ہے ؎
ناطق نہ ہو جو بات، تو بولے نہ آ دمی
بولے تو اس میں بات بھی پیدا کرے کوئی
جن لوگوں کو ڈاکٹر منشا صاحب کی پر لطف محفلوں میں حاضری
کا شرف حاصل تھا وہ اس بات کی تائید ضرورکریں گے کہ مرحوم نہ صرف ناطق گلاؤٹھی کے
معیارِ نطق سے زیادہ ناطق تھے بلکہ قدرت نے انھیں گفتگو اور سخن گوئی میں خوش کلام
ہونے کی سعادت عطا کی تھی۔حسِ مزاح ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی جو دورانِ گفتگو
اور ادبی محفلوں میں اچھل اچھل کر باہر آ تی تھی۔ان میں بات کرنے کا سلیقہ اور باتوں
باتوں میں مخاطب کے دل میں اتر جانے کا ہنرتھا۔ جہاں بات نہ بنتی ہو وہاں بات بنانا
اور بات سے بات پیدا کرنا انھیں خوب آ تا تھا۔ ایک مشاعرے میں ناطق گلاؤٹھی موجود
تھے۔منشاء الرحمن صاحب جب اپنا کلام سنانے مائیک پر آ ئے تو ناطق صاحب نے ان کے تخلص
پر اعتراض جڑ دیا کہ منشا تو مونث ہے۔ اس پر منشا صاحب نے برجستہ جواب دیا یہ
شخص جو آپ کے سامنے کھڑا ہے،کیا آ پ اسے بھی مونث کہیں گے۔
ڈاکٹر منشا صاحب کی شاعری میں لذت، سوز و گداز لطف اور زبان
کا چٹخارہ ہے،وہ ان کے بعد نہ صرف ان کی شاعری میں محفوظ ہے بلکہ ان کے نام سے موسوم
چوک،واقع جعفر نگر،ناگپور کے آ س پاس بھی پھیلا ہوا ہے۔ اس چوک کو اس علاقے کی چٹوری
گلی کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ ان کی شاعری کی طرح دور دور تک لذتِ کام ودہن کا سامان
مہیا کرتی ہوئی دکانوں کی قطاریں ہیں۔
ڈاکٹر منشا الرحمن خان کی شاعری یوں تو روایتی انداز لیے
ہوئے تھی مگر ان کا ذہن نئی ہوائوں میں اڑنے اور جدھر کی ہو اہو ادھر چلنے کا تھا اسی
لیے ان کے یہاں جدید شاعری کا رنگ و آ ہنگ موجود ہے۔ ایک مشاعرے میں اپنا کلام پیش
کرنے سے پہلے انھوں نے کہا ’ادھر میں نے جدید رنگ
میں بھی کچھ کہا ہے۔‘ اس پر ڈاکٹر سید عبدالرحیم صاحب نے جملہ چست کیا آ
دمی کو بگڑتے دیر نہیں لگتی۔‘
نئی سمتوں میں سفر کی تمنا کے باوجود روایتی شاعروں کی طرح
بات بات پر شعر سنانے کی ان کی عادت آخر تک قائم رہی۔ ان کے اعزاز میں ناگپور میں’
جشنِ منشا‘ منایا گیا جس میں مشہور اداکار دلیپ کمار نے شرکت کی تھی۔ اس سلسلے میںبات
کرنے کے لیے جب وہ دلیپ کمار کے گھر گئے تو ان کے ایک ہمسفر کے بیان کے مطابق انھوں
نے وہاں بہت وقت گزارا اور اس دوران دلیپ کمار کو اپنی شاعری سنانے کی بھر پور کوشش کر ڈالی مگر اس باکمال اداکار کی یہ
ادا بھی قابلِ داد ہے کہ وہ ہر بار بات بدل دیتا،اس نے انھیں ایک بھی شعر سنانے کا
موقع نہیں دیا۔
سنا ہے ایک مرتبہ ڈاکٹر منشا اپنے چار شاگردوں سمیت ٹرین
میں سفر کررہے تھے۔منزل تک کا پورا ٹکٹ نہ ہونے کے سبب ٹی سی نے ان چاروں کو پکڑ لیا
اور جرمانہ عائد کر نا چاہا۔ وہ اسے ڈاکٹر منشا کے پاس لائے۔ موصوف نے اس سے کہا میں
شاعر ہوں اور یہ چاروں میرے شاگرد ہیں۔ جرمانہ بھرنے میں کوئی مشکل نہیں مگر ہماری
ایک شرط ہے، آپ کو ہماری شاعری سننی پڑے گی۔ ٹی سی نے کہا
میں ذرا اور لوگوں کی ٹکٹ چیک کر لوں پھر آتا ہوں۔ اس کے
بعد ڈاکٹر صاحب نے اپنے شاگردوں سے کہا، بے فکر ہوجائو اب وہ واپس نہیں آ ئے گا اور
ویسا ہی ہوا۔
ایک مرتبہ سفر کے دوران چند نوجوان ٹرین میں منشاصاحب کی
ٹوپی ڈاڑھی اور شیروانی دیکھ کر مذاق اڑانا چاہتے تھے۔ ایک نوجوان نے پوچھا آ
پ کیا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر منشا صاحب نے کہا،شاعر ہوں تو اس نے کچھ سنانے کی فرمائش کی۔
انھوں نے اسے فوراً اپنا ایک شعر سنا دیا جسے سن کر و ہ چوکڑی بھول گیا ؎
خدا نے آ پ کی صورت ہی کچھ ایسی بنائی ہے ٹکٹ ہوتے ہوئے بھی
بے ٹکٹ معلوم ہوتے ہو
بات سے بات پیدا کرنے کی اپنی اس خدا داد صلاحیت کو انھوں
نے نہ صرف منھ توڑ جواب دینے اور ذاتی کاموں کے لیے استعمال کیا بلکہ وہ اوروں کے کام
بھی آ تے رہے۔ یہ ان کی وسعت قلبی، زندہ دلی اور لوگوں کے لیے محبت و خلوص کا جذبہ
تھا جو لوگ ان کی طرف کھنچے چلے آتے تھے۔ منشا صاحب کے اندر چھپا شاعر ان کی سخن طرازی
ہی تک محدود نہ تھا وہ ان کی گفتگو میں ہمیشہ حاضر رہتا تھا۔ ان کی خیال آ رائی اور
نکتہ آ فرینی دلوں کو جیت لیتی تھی اور ماحول کو پر لطف بنادیتی تھی۔ اگر چہ وہ کام
کی باتیں نہ کرتے ہوں تب بھی ان کی باتوں سے کتنے ہی رکے ہوئے کام بن جایا کرتے تھے۔
منشا صاحب جس ماحول اور دنیا میں جی رہے تھے وہاں اکثر لوگ صرف اپنے کام بنانے پر اکتفا
کرتے تھے یا دوسروں کے کام بگاڑ نے پر تلے رہتے تھے۔ منشا صاحب اپنے یا اپنے متعلقین
کے بہت کام آ ئے۔ خواہ مخواہ دوسروں کا بلکہ اپنے دشمنوںکا بھی کھیل بگاڑنے کا شوق
انھیں نہیں تھا۔
ایک مرتبہ جب وہ مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکادمی کے ممبر تھے،جدید
شاعر اور ناقدڈاکٹر صفدر نے انھیں بتایا کہ وہ انعام کے لیے اپنی کتاب اکادمی کو نہیں
بھجواپائے ہیں۔ منشا صاحب نے کہا مجھے دے دیجیے میں ممبئی جارہا ہوں وہاں پہنچا دوں
گا۔ اس وقت وہ حج کے لیے تشریف لے جارہے تھے اسی کام کے لیے اردو اکادمی کے دفتر پہنچے۔
وہاں لیڈی کلرک جس کا نام دیو بائی تھا اس نے کہا۔ کتاب داخل کر نے کی تاریخ تو گزر
چکی ہے۔ منشا صاحب نے اس سے کہا۔ دیکھو میں حج کو جا رہا ہوں،دیو کے کام سے جا رہا
ہوں، تمہارا نام بھی دیو بائی ہے، ہمارا اتنا کام کر دو۔یہ سن کر وہ خاتون خوش ہوگئیں
اور اس کتاب کو قبول کر لیا۔ معروف محقق اور ادیب ڈاکٹر آغا غیاث الرحمٰن صاحب نے
ڈاکٹر منشا صاحب پر لکھے گئے اپنے خاکے ’ برف
کے لڈّو ‘ میں کئی دلچسپ واقعات بیان کیے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ممبئی کے سفر میں وہ
ڈاکٹر سید عبدالرحیم صاحب اور ڈاکٹر منشا صاحب
کے ساتھ تھے۔ واپسی میں کسی وجہ سے ٹرینوں کا آ نا جانا بند ہوگیا تو انھیں
احمد آ باد ہوتے ہوئے ناگپور آ نا پڑ ا۔ ٹکٹ کا مسئلہ در پیش تھا سب پریشان ہوگئے
مگر ڈاکٹر منشا تو استقلال کے ہمالیہ تھے۔ وہ ٹکٹ کی لائین میں چلتے ہوئے کھڑکی تک
پہنچے درمیان میں لائین میں کھڑے ہوئے ایک
نوجوان نے انھیں سلام کیا۔بس کام بن گیا۔ وہ نوجوان بھی ناگپور جارہا تھا۔اس
کے ذریعے ٹکٹوں کا انتظام ہوگیا۔اس کے ساتھ کچھ زنانہ سواریاں بھی تھیں۔ منشا صاحب
ان کے سر پرست بن گئے اور انھیں سوار کرواتے ہوئے اپنے لیے بھی اوپر والی برتھ پرجگہ
بنالی۔ آغا صاحب لکھتے ہیں کہ ہم لوگ ڈیڑھ پائوں پر کھڑے رہے کہ پیر رکھنے کی جگہ
نہ تھی۔ ددچار اسٹیشنوں کے بعد منشا صاحب اپنی نیند پوری کر نے کے بعد نیچے اتر آ
ئے اور ہمیں از راہ ِ مہر بانی اوپر بھیج دیا۔کچھ دیر بعد ہم نے جو نیچے نظر کی تو حضرت کو مسافروں کے ساتھ ناشتے میں مصروف پایا۔ہمارا
یہ حال تھاکہ ٹُک ٹُک دیدم دم نہ کشیدم۔
چند ادبی نشستوں میں مجھے ڈاکٹر منشا صاحب کی صدارت میں
اپنے انشائیے پیش کر نے کا موقع ملا اور ہر بار ڈاکٹر صاحب نے اپنی بات اس جملے سے
شروع کی کہ ابھی آپ نے اسدا اللہ صاحب سے انشائیہ سنا اور اب اس ناچیز سے منشائیہ
سنیے۔ کسی مجلس میں ایک صاحب کے متعلق ڈاکٹر منشا صاحب کو یہ بتایا گیا کہ وہ شادی
کے موڈ میں بالکل نہیں ہیں۔ منشاصاحب نے انھیںآ مادہ کرنے کے لیے کہا اگر آ پ شادی
کے لیے تیار ہوں تو میں آپ کے لیے دوکام کر دوں گا۔ ایک تو یہ کہ مناسب رشتہ تلاش
کر دوں گا اوردوسرے سہر الکھ دوں گا۔ ڈاکٹر منشا صاحب کی شاعری اور اسے پیش کرنے کا
ان کا انداز دلوں کو لوٹ لینے والا تھا۔وہ جہاں جاتے اپنی باتوں سے محفل کو گر مادیتے
اور جب شعر پڑھتے تو سماں بندھ جاتا۔ ان کی
شخصیت کے اس متاثر کن پہلو اور سخن پر وری کے پیش ِنظر ان کے مداح ہندی کے ایک شاعرنے
ان ہی کے رنگ میں دو مزیداراشعار کسی محفل میں سنائے ؎
گر میوں کے گرم دنوں میں
ٹھنڈا کلیجہ کرنا ہوتو
شاعری سننا منشا کی
آئسکریم کھانا ڈنشا کی
ایک مشاعرہ جس میں کنور مہندر سنگھ بیدی بھی موجود تھے،
منشا الرحمن صاحب اپنا کلام پیش کررہے تھے۔
اتفاق سے جو اشعار اس وقت سنائے وہ سنگین حد تک رنگین تھے۔ بیدی صاحب نے انھیں
ٹوکاکہ شیر وانی داڑھی اور یہ اشعار اس پر ڈاکٹر منشا صاحب نے اپنی حاضر جوابی کا ثبوت
دیتے ہوئے یہ شعر پڑھ دیا ؎
رنگین طبیعت ہے تو اشعار ہیں
رنگین
ڈاڑھی ہے میرے چہرے پہ دل پہ تو نہیں ہے
ایک وقت تھا کہ ناگپور میں باٹا کے جوتوں کا کاروبار خوب
چل رہا تھا۔ اس کمپنی کے منیجر نے منشا صاحب کے اعزاز میں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا۔موصوف
نے حسبِ معمول مشاعرہ لوٹ لیا۔مشاعرے کے بعد بات چیت کے دوران ان کے کلام پر سامعین
کی جانب سے جو داد ملی اس کا ذکر ہورہاتھا۔ منشا صاحب نے کہا
کیا اچھا ہوتا اگر داد و تحسین کے بجائے باٹا کی جوتیوں
کی جوڑیاں مل جاتیں۔ان کے حاسدین کی بھی کمی نہ تھی کسی نے اس واقعے کو ا س سرخی کے
ساتھ چھاپ دیا کہ ڈاکٹر منشا کو داد نہیں جوتے چاہیے۔
ا س زمانے میں ڈاکٹر آغا غیاث الرحمن نے اسکول جانے کے
لیے ایک لونا خریدی تھی اوروہ اپنی طبیعت کے مطابق ہر ایک کے کام آ تے رہتے تھے۔ اس
خدمت گزاری میں ان کی لونا شریک تھی۔ اسی پر اکثر وہ حضرت سید عبدالرحیم صاحب کو سوار
کر کے لے جاتے تھے۔ ایک دن ڈاکٹر منشا صاحب نے ان سے کہا
آ پ کی یہ لونا زبردست کارِ خیر انجام دے رہی ہے،یہ سیدھی
جنت میں جائے گی۔ ڈاکٹر غیاث الرحمن صاحب نے کہا
حضرت، دعا کیجیے کہ جب یہ جنت میں جائے تو میں بھی اس پر
سوار رہوں۔ ڈاکٹر منشا صاحب نے کہا
ضرور اور میں یہ دعا کروں گا کہ میں بھی آ پ کے ساتھ اس
پر پیچھے بیٹھا رہوں۔‘
ڈاکٹر منشا صاحب اپنی گفتگو میں لفظوں اور ناموں پر بہت
جلد گرفت کیا کرتے اور ان سے نئے معنی بر آ مد کر کے سننے والوں کا دل خوش کر دیا
کردیتے تھے۔ ایک مرتبہ ناگپور کے سانے گروجی ہائی اسکول و جونیئر کالج کی کسی تقریب
میں انھوں نے شرکت کی۔اس میں کامٹی کے ایک مہمان عبدالرحیم صاحب موجود تھے، شعبہ اردو
کے ڈاکٹر آ غا غیاث الرحمن میز بان تھے اور اردوکالج کے پرنسپل کا نام تھا کڑوے۔ ڈاکٹر
منشا صاحب نے اپنے خطبۂ صدارت میں فرمایا
اس تقریب نے تو رحمٰن اور رحیم کو ملادیا، پرنسپل صاحب کا
نام حالانکہ کڑوے ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ بہت میٹھے ہیں۔ناگپورمیں ایک تقریب میں
ڈاکٹر منشاصاحب موجود تھے جس کی صدارت کے فرائض انجام دے رہی تھیں، ناگپور کارپوریشن
کی میئر محترمہ پانڈے صاحبہ۔ کسی نے قومی یکجہتی کی موافقت میں برار کے ایک قدیم شاعر
غالبا شاہ غلام حسین ایلچپوری کا ایک شعر سنایا ؎
ہندو مسلم کیا ہیں دونوں اک مٹی کے بھانڈے
بعد میں جاکر یہ ہوئے ہیں کوئی ملا کوئی پانڈے
جب ڈاکٹر منشا اپنا کلام سنانے مائک پر تشریف لائے تو کہا قدیم شاعر کے اس شعر سے استفادہ کرتے ہوئے میں یہ
کہنا چاہتا ہوں ؎
ہندو مسلم کیا ہیں دونوں اک مٹی کے بھانڈے
بعد میں جاکر یہ ہوئے ہیں کوئی منشا کوئی پانڈے
ڈاکٹر منشا صاحب خود تو ادب کے ڈاکٹر تھے مگر ڈاکٹر کے نام
سے موسوم دیگر شعبوں کو بھی انھوں نے ہاتھ سے جانے نہ دیا اور اپنے بیٹوں کو چن چن
کر ان ہی شعبوں میں ڈالا،ادب میڈیسین حتیٰ کہ ویٹرنری ڈپارٹمنٹ کو بھی نہ چھوڑا۔ ان
کی رہائش گاہ کے گیٹ پر لگی تختی پر سارے ڈاکٹروں کے ناموں کی تختی دیکھ کر کسی نے
’ہمہ خانہ ڈاکٹر است‘ کی طرف ان کی توجہ دلائی تو منشا صاحب نے فر مایا اگلی
باریہاں صرف ایک تختی لگواؤں گا جس پر لکھا ہوگا۔ ’دواخانہ‘
اس قسم کے ایک نہ دو بے شمار واقعات ہیں جن سے مرحوم کی
زندہ دل اور شگفتہ بیانی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسی خوبی کے سبب وہ ہر محفل کی جان ہوا
کرتے تھے۔جہاں جاتے لوگوں کے دلوں میں خوشی کی لہر اور چہروں پر مسکراہٹ بکھیر دیتے
ع
حق مغفرت کرے عجب آ زاد مرد تھا
n
Muhammad Asadullah
30-gulistan colony,
Near Pande Amrai Lawns
Nagpur - 440013 ( MS)
Mob.: 9579591149
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں