1/5/23

الـہ آباد کا ادبی منظر نامہ (اجمالی خاکہ): کہکشاں عرفان


 الٰہ باد کی مردم خیز زمین پر یوں تو اردو ادب کی ایک سے بڑھ کر ایک عبقری شخصیتیں پیدا ہوئی ہیں اور ان شخصیات نے ناقابل فراموش تخلیقات و تصنیفات سے اردو  ادب کے خزانے کو معمور کیا ہے۔ صنف شاعری کی بات کی جائے تو طنز و ظرافت کا بادشاہ لسان العصر اکبر الہ آبادی کی شاعری کو اردو ادب کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔

نوح ناروی کی شاعری کا خمیر بھی  الہ آباد کے ضلع نارا سے اٹھا تھا۔ حالانکہ ان کہ پیدائش ان کے نانہال ضلع رائے بریلی کے بھوانی پور گاؤں میں ہوئی تھی۔آپ مشہور و معروف شاعر امیر مینائی سے اپنے کلام کی اصلاح لیا کرتے تھے۔  جلال لکھنوی سے بھی شرف تلمذ رہا اور آخر میں فصیح الملک حضرت داغ دہلوی کے شاگرد ہوگئے۔

کلاسیکی غزل کی آبیاری کرنے والوں میں نوح ناروی صاحب کا نام بھی شامل ہے، جنھوں نے نہایت ہی عمدہ اور خوبصورت شعر تخلیق کیے۔نوح ناروی بلاشبہ اپنے عہد کے بہت بڑے شاعر تھے۔

رگھو پتی سہائے   فراق نے بھلے ہی گورکھپور میں جنم لیا ہو مگر   ان کو بھی  شہرت کے بام عروج پر  الہ آباد کی ادبی فضا اور مردم خیز  زمین نے پہنچایا۔

الہ آباد کی شاعری کی تاریخ  قدیم بھی ہے اور طویل بھی، ہمارے عہد کے شعرا کی فہرست ہی اتنی طویل ہے کہ عہد قدیم کے شعرا کی فہرست بھی  ایک مضمون میں  رقم کرنا ممکن نہیں  چند شعرا و ادبا کا  نام لکھتے ہوئے مضمون کو آگے بڑھانا چاہوں گی پروفیسر سید محمد عقیل رضوی، ڈاکٹر اجمل اجملی،  ڈاکٹر ماہر اقبال،شمس الرحمن فاروقی، ڈاکٹر سہیل زیدی،شبنم نقوی، نصر قریشی، مظہر نسیم، ڈاکٹر طفیل مدنی، حسیب رہبر، عزیز الہ آبادی، احترام اسلام، عتیق الہ آبادی، اقبال دانش،چودھری ابن النصیر، جاوید اختر، افضل جائسی، کاوش الہ آبادی، قمر الحسن صدیقی، نجیب الہ آبادی، اسلم الہ آبادی، فرمود الہ آبادی وغیرہ۔ شہرت اور مقبولیت کے ساتھ خالص ادیب و شاعر کی حیثیت سے فی الحال اسلم الہ آبادی کا نام بھی اہم ہے جن کا تحقیقی مقالہ ’اردو شاعری کا آغاز و ارتقا شعرائے الہ آباد کے حوالے سے ‘ ایک جامع تحقیقی و تنقیدی مقالہ ہے جس کے مطالعے سے شعرائے الہ آباد کی تاریخ اور فہرست کے ساتھ ان کی شاعری کے معیار کو بھی جانچا اور پرکھا جا سکتا ہے۔

صنف تنقید کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو الہ آباد اور شعبۂ اردو یونیورسٹی آف الہ آباد سے منسلک بہت سے اساتذۂ کرام کو  میدان  انتقادیات میں ممتاز اور انفرادی مقام حاصل ہے۔ پروفیسر سید محمد عقیل رضوی اپنی کتاب  میں لکھتے ہیں ’’ الہ آباد ادبی سطح پر ایک ذو نظریاتی شہر رہاہے اور آج بھی ہے یہ صورت ہندی ادب میں بھی ہے اور اردو  ادب میں بھی۔اردو میں یہیں سے ترقی پسند ادبی تحریک کا منچ بنا اور جدیدیت کو بھی الہ آباد ہی سے فروغ ملا۔‘‘ (  اصول تنقید اور ردعمل ، ص15)

الہ آباد کی ادبی تاریخ کا ذکر ہو اور سید اعجاز حسین کی ادبی خدمات کا ذکر نہ ہو۔ پروفیسراعجازحسین  شعبہ اردو الہ آباد یونیورسٹی کے صدر کے طور پر خدمات انجام دینے کے بعد وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوئے۔ ان کا شمار اردو ادب کے  ترقی پسند  نا قدین میں ہو تا ہے،مگر ان کو شہرت  سوانح نگار، مؤرخ  اور خاکہ نگار کے طور پر ملی ہے ان کی شہرت یافتہ کتابوں میںمذہب اور شاعری، ادبی ڈرامے، اردو شاعری کا سماجی پس منظر، نئے ادبی رجحانات، اردو ادب آزادی کے بعد، ادب اور ادیب، مختصر تاریخ ادب اردو،ملک ادب کے شہزادے، میری دنیا (خود نوشت) قابل ذکر تصنیف ہیں۔ ڈراما نگاری کے علاوہ ان کی صحافتی  شخصیت کا  بھی ایک روشن پہلو ہے انھوں نے جن رسائل کی ادارت کے فرائض انجام دیے ان میں نیساں، شعاع اردو، کارواں اور شب خون بھی شامل ہیں۔

اردو کے معتبر ناقد سید احتشام حسین کی سائنٹفک تنقید کو بھلا کون فراموش کر سکتا ہے؟ حالانکہ  احتشام حسین کی آبائی جڑیں تو اعظم گڑھ کے قصبہ ماہل میں تھیں مگر الہ آباد کی ادبی فضا، الہ آباد یونیورسٹی اور اس کے شعبۂ اردو  کا بھی ادبی شخصیت سازی بہت اہم حصہ ہے۔ اردو ادب کی تنقیدی تاریخ، اردو لسانیات کا خاکہ، تنقیدی جائزے، تنقیدی نظریاتتنقید اور عملی تنقید، راویت اوربغاوت،  روشنی کے دریچے، ہندوستانی لسانیات کا خاکہ، ادب اورسماج، جیسی مایہ ناز تصنیفات سید احتشام حسین کی ادبی شخصیت کے تعارف کے لیے کم تو نہیں۔

یونیورسٹی آف الہ آباد کے شعبۂ اردو کی بھی اپنی سنہری تاریخ ہے جسے ہندوستان کا پہلا  اور سب سے بڑا شعبۂ اردو ہونے کا افتخار حاصل ہے جسے پرو فیسر ضامن علی، ڈاکٹر اعجاز حسین اور سید احتشام حسین، ڈاکٹر مسیح الزماں، پروفیسر گیان چند جین جیسے اساتذہ اور ادبا  و ناقدین کو اس مایہ ناز  شعبے کا استاد اور صدر شعبۂ اردو  ہونے کا بھی شرف حاصل ہے۔  الہ آباد کی ادبی تاریخ یا پس منظر کا ذکر  ہو تو ڈاکٹر مسیح الزماں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا جن کی معرکۃ الآرا تصانیف میں ’اردو تنقید کی تاریخ‘، ’اردو مرثیے کا ارتقا آغاز میر انیس تک،‘ ’معیار و میزان‘، ’اردو مرثیے کی روایت‘۔ حرف غزل ہو کلیات مومن کی ترتیب قابل ذکر ہیں۔ ان کی کتابیں تنقید کی تاریخ کو سمجھنے اور پرکھنے میں معاون ہیں تو مرثیے کی روایت، مرثیے کا ارتقا جاننا ہو تب بھی  ڈاکٹر مسیح الزماں کی تصنیف مشعل کا کام کرتی ہے۔ان کی تحریریں  نہ صرف روشنی دکھاتی ہیں بلکہ علم میں اضافہ کرتی ہیں تحقیق کے مشکل مراحل میں معاونت بھی کرتی ہیں۔

پروفیسر سید محمد عقیل رضوی کی ادبی خدمات کی فہرست بھی بہت  طویل ہے۔ اردو مثنوی کا ارتقا شمالی ہند میں،  نئی علامت  نگاری، تنقید اور اسرار آگہی، سماجی تنقید  اور تنقیدی عوامل، جدید ناول کا فن (اردو ناول کے تناظر میں)، ترقی پسند تنقید کی تنقیدی تاریخ (ہندوستان میں)، مرثیہ کی سماجیات، لندن او لندن (سفر نامہ)، نظمیں پڑھتے ہیں، شام دھنک دھنک رنگ، (شعری مجموعہ) گئو دھول(خود نوشت)وغیرہ ان کی اہم تصانیف ہیں جو ان کی  ہمہ جہت شخصیت کی مثال ہیں۔

سید فضل امام رضوی کی الہ آباد یونیورسٹی کے  شعبۂ اردو میں ایک قابل اور ذمے دار پروفیسر کی  خدمات انجام دیتے ہوئے صدر شعبۂ اردو الہ آباد یونیورسٹی کے عہدے سے سبکدوش ہوئے۔  پروفیسر سید فضل امام رضوی کا شمار ان  ادیبوں اور دانشوروں میں ہوتا ہے جن کا تعلق تحقیق و تنقید دونوں ہی میدان سے ہے۔ وہ مغرب و مشرق دونوں انتقادیات سے گہرا شغف رکھتے تھے۔مشرقی انتقادیات میں ان کا مطالعہ بہت عمیق اور گہرا تھا۔خواہ مشرقی تنقید ہو یا مغربی  نقاد کا رویہ کیسا ہو اس بارے میں پروفیسر فضل امام رضوی نے لکھا ہے

’’نقاد کے لیے ضروری ہے کہ ادیب کی کاوشوں پر غیر جانبدارانہ اور دیانت دارانہ طریقۂ کار سے غور کرے تب جاکر اس کے متعلق کوئی نظریہ قائم کرے۔ ادبی تخلیقات کے حسن و قبح کا تجزیہ ذاتی پسند و ناپسند سے بالا تر ہونا لازمی ہے۔‘‘

ان کی تصانیف اردو ادب کا بہترین سرمایہ ہیں، ان کی تصانیف میں افکار و نظریات، اصول ونظریات، انیس شناسی،مشرقی انتقادیات، جدید ہندی شاعریسمت ورفتار، بھوجپوری ادب تعارف (تاریخ ولسانیات)، امیر اللہ تسلیمحیات اور شاعری، شاعر آخرالزماں جوش ملیح آبادی، انیس شخصیت اور فن اہم ہیں۔

جدیدیت کے علم بردار  شاعر، ادیب، مدیر، ہمہ جہت خوبیوں کے مالک شمس الرحمن فاروقی صاحب کے ادبی کارناموں کی فہرست بہت طویل ہے۔ ان کی تحقیق کی جڑیں بھی بہت گہری ہیں ان کی تنقید معتبر دلائل اور آفاقی وژن سے معمور ہے۔ مگر کئی چاند تھے سر آسماں جیسا طویل اور ضخیم ناول  لکھ کر انھوں نے  اپنی تخلیقیت کے وہی  جوہر دکھائے جو  انھوں نے تنقید کے میدان میں شعر شور انگیز تحریر کرکے دکھایا تھا۔ چار جلدوں میں تحریر کردہ شعر شور انگیز ان کی میر شناسی کے ساتھ تنقیدی ہنر مندی کا وہ زندہ جاوید ثبوت ہے جس نے شمس الرحمن فاروقی صاحب کی تنقید ی حیثیت مسلم کردی۔ نہ صرف  رسالہ شب خون کی ادارت کے ساتھ  جدیدیت کی  بنیاد رکھی بلکہ جدید ادب لکھنے والوں کو شناخت بھی بخشی۔ کئی چاند تھے سر آسماں جدید اردو ناولوں میں سب سے زیادہ شہرت حاصل کرنے والا ایک شاہکار ناول ہے۔ ہمارے بعض ناقدین نے اس ناول کو تاریخی ناول بھی کہا ہے۔ کیونکہ اس میں ہندوستان کی تہذیب کے مٹتے ہوئے نقوش، اقدار اور انگریزوں کا اس خطے میں اپنی سلطنت قائم کرنے اور اس کی سرگرمیوں کا ذکر بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ اس دور کی پوری معاشرت، سیاسی معاملات، امرا و عوام الناس، تنظیمی امور، اندرونی و خارجی معاملات، خوف، خطرہ، غصہ، تصنع الغرض وہ تمام معاملات جو ایک خاص عہد یعنی انیسویں صدی کے نصف اول کی تصویر ہو سکتے ہیں پوری  جزئیات نگاری، منظر نگاری، واقعات نگاری، پوری سج دھج اور بناؤ سنگھار کے ساتھ اس ناول میں موجود ہیں۔ اسے تاریخی ناول کہاجائے یا ہندوستان کی اسلامی تہذیب و تمدن کا مرقع سمجھاجائے اس حوالے سے شمس الرحمن فاروقی خود لکھتے ہیں

’’یہ تاریخی ناول نہیں ہے اسے اٹھارویں، انیسویں صدی کی ہند اسلامی تہذیب، او رانسانی او ر تہذیبی و ادبی سروکاروں کا مرقع سمجھ کر پڑھا جائے تو بہتر ہوگا۔‘‘

(کئی چاند تھے سرآسماں )

سید محمد عقیل رضوی اور شمس الرحمن فاروقی جیسی قد آور شخصیات نے  الہ آباد کی ادبی سرزمین کو نہ صرف اپنی تخلیقات سے سیراب کیا ہے بلکہ دنیائے ادب میں اپنے پیچھے آنے والی نسلیں بھی تیار کی ہیں جو الہ آباد کی ادبی شناخت کو قائم بھی رکھیں گی  اور نئی نسلوں میں بھی منتقل کر یں گی۔ ڈاکٹر سید حیدر علی یو نیورسٹی آف الہ آباد کے وہ محقق طالب علم  ہیں جنھوں نے ’سید  اعجاز حسین کی حیات اور کارنامے‘  کے موضوع پر تحقیق کے پر خار مراحل طے کیے۔ ابتدائی قواعد، الہ آباد اور تنقید، اعجاز حسین کا جہان تنقید، مرثیہ شناسی، نقد و نظر، اردو ناول سمت و رفتار کے بعد بھی حیدر علی صاحب کا ادبی سفر جاری و ساری ہے۔

پروفیسر علی احمد فاطمی بے حد فعال شخصیت، معتبر ترقی پسند ناقد اور اردو ادب کے کہنہ مشق ادیب اور شفیق استاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ  ترقی پسند تحریک اور ترقی پسند خیالات و افکار  کی روشنی میں  ادبا  و شعراکی  تصنیفات و تخلیقات کو تنقید کی کسوٹی پر  جانچتے اور  پرکھتے  ہیں۔ سجاد ظہیر، علی سردار جعفری، احتشام حسین، آل احمد سرور، پروفیسر قمر رئیس اور پروفیسر سید محمد عقیل رضوی،  جیسے اساتذہ اور دانشوروں کے زیر سایہ مارکسزم،  اور ترقی پسند تحریک کے اصول و نظریات، افکار و خیالات کے ساتھ ساری زندگی وابستہ رہے اور اب بھی ہیں۔ پروفیسر علی احمد فاطمی کی تصانیف میں تنقیدی کتابیں،  خاکے،  رپورتاز  اور  سفرنامے بھی شامل ہیں۔ سفر ہے شرط، یاترا، سات سمندر پار، جرمنی میں دس روزان کے سفر نامے ہیں۔ خود بھی فکشن پر تحقیق کی اور زیا دہ تر ترقی پسند شعرا اور فکشن پر تحقیق کرائے ان کی تصانیف میں ’فن اور فنکار‘ شخصی خاکوں پر مشتمل ان کی تصنیف ہے جو  بے حد دلچسپ اور اہم  ہے، ’ادب تہذیب اور الہ آباد‘  ایک ایسی تصنیف ہے جو تنقید و تحقیق  کے ساتھ الہ آباد کی تاریخ کو جاننے کے لیے ایک اہم دستاویز کی حیثیت  رکھتی ہے، ’اقبال اور الہ آباد‘ بھی تاریخی اہمیت  کو پیش کرتی ہے اور علی احمد فاطمی کے تنقیدی نظریات پر مبنی ایک اہم کتاب ’مرثیے کی جمالیات‘ بھی ہے۔  اکیسویں صدی کے  ادبی منظرنامہ میں ایک محترم و معتبر  نام نظام صدیقی صاحب  کا بھی ہے جن کی تخلیقی، تنقیدی اور تحقیقی خدمات کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی مشہور و معروف تصنیف ’مابعدجدیدت سے نئے عہد کی تخلیقیت تک‘   ان کے تنقیدی افکار و نظریات کا  اظہار ہے  اور  مابعد جدیدیت کے نئے رجحان کے امکانات کی تلاش بھی۔

اردو زبان و ادب کے محقق  ڈاکٹر اجے مالوی کی تحقیقی خدمات کو ہر گز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ان کے تحقیقی سرمائے میں بہت سے لعل و گہر ہیں جس کی  قیمت اور اہمیت  کا اندازہ، وسیع المطالعہ اہل نظر حضرات  ہی کر سکتے ہیں۔ان کی تصنیفات میں ویدک ادب اور اردو، اردو سیکھیں، شری مد بھاگوت گیتا (نغمہ یزدانی) اردو میں ہندو دھرم، ہے رام کے وجود پر ہندوستاں کو ناز، جیسی اہم معنی خیز تحقیقی کتا بیں اردو ادب کا گراں قدر سرمایہ ہیں۔ حقانی القاسمی  لکھتے ہیں ’’ اجے مالویہ نے قدیم دانش و آگہی کی تمام روشن عبارتوں کو اپنے ذہن میں جذب کرکے اردو کے داخلی آفاق کو روحانی توانائی سے آشنا کیا ہے۔‘‘ (ہے رام کے وجود پر ہندوستاں کو ناز)

معاصر فکشن نگاری میں بھی کئی نام ایسے ہیں جو مسلسل فکشن تخلیق کر رہے ہیں احمد حسنین، اسرار گاندھی، شائستہ فاخری جیسے سینیئر فکشن نگار الہ آباد کی ادبی روایت اور شناخت کو  برقرار رکھے ہوئے ہیں، احمد حسنین صاحب کا آبائی وطن اتر پردیش کا ضلع امبیڈکر نگر کا  موضع آدی  پور  ہے۔ مگر مدتوں  سے احمد حسنین صاحب کا نشیمن پریاگ راج میں ہے۔ احمدحسنین  صاحب عرصۂ دراز تک درس و  تدریس کے معزز اور محترم پیشے سے وابستہ  الہ آباد کے یادگار حسینی انٹر کالج میں استاد کے رتبے کو افتخار بخشتے  ہوئے پرنسپل کے عہدے سے سبکدوش ہوچکے ہیں اور اب مسلسل ادب کی خدمت اور فکشن کی تخلیق میں مصروف و مشغول ہیں۔ان کے افسانوی مجموعات میں روشنی اور  سائے،  میری چاہت کے گلاب   شائع ہو کر منظر عام پر آ چکے ہیں۔ انسانی سماج کی کہانیاں لکھتے ہوئے  احمد حسنین صاحب نے  جانور اور جنگلات کے موضوع پر کہانیاں لکھ کر اردو فکشن کو نئی جہت عطا کی ہے۔  ’شکار اور شکاری‘ جیسے دلچسپ اور منفرد مجموعے سے قارئین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔گھنے جنگلات کے خوف ناک سائے، شکاری کی تیز نگاہیں اور آدم خور جانوروں کی آہٹوں  اور  شیر، چیتا، باگھ جیسے آدم خور، خطرناک درندوں کے شکار کی کہانیاں لکھتے لکھتے  احمد حسنین نے اپنے  ناول ’اندھیروں کے مسافر‘  کے لیے ایک خطر ناک جگہ کی کہانی کا   انتخاب کیا جسے چمبل گھاٹی کہتے ہیں۔جہاں عام انسانوں کا گزر نہیں،جہاں  زندگی  دن  کے اجالے میں نہیں رات کے اندھیروں سے شروع ہوتی ہے۔ ناول نگار نے ناول کے  پلاٹ کو   چمبل گھاٹی کی تاریخ  جغرافیہ  اور اس کے نشیب و فراز کے دامن میں پناہ گزیں وہاں کے ڈاکوؤں کی حرکات و سکنات، رہن سہن، لباس حلیہ،بول چال، لب و لہجہ، خردو نوش، اور  قزاقی نفسیات کو  بہت فطری انداز میں پیش کیا گیا ہے۔

الہ آباد کو افتخار بخشنے والی ایک اور فکشن نگار جسے دنیائے ادب شائستہ فاخری کے نام سے جانتی ہے۔ ان کی فن کاری بہت پختہ ان کا اسلوب بہت شائستہ اور ان کے کردار زیادہ تر صنف نازک ہی ہوتے ہیں۔ان کے یہاں عورت ہر روپ میں پائی جاتی ہے۔کبھی بہادر، بہت خوداعتماد، حالات سے لڑنے والی، ترقی کے خواب دیکھنے والی، اور کبھی والدین کے فیصلوں پر آمنا صدقنا کہنے والی، اپنے رشتوں کے لیے خود کو قربان کرنے والی۔ شائستہ فاخری کے افسانوں میں تنہائی اور اداسی کا گہرا سایہ ہے۔ ان کی کہانیوں میں زندگی کے تمام رنگ ہیں اجلے، سیاہ شوخ، غمگین، کامیاب ناکام، کارپوریٹ لائف، چہار دیواری کی قید، آزادی کی کھلی فضا، ماڈرنزم، تہذیب و ثقافت، دین اور دنیا یہاں تک کہ تصوف جیسے گہرے موضوع پر کامیاب ہی نہیں لاجواب افسانہ نگاری کی ہے ان کا وژن معاصر تمام فکشن نگاروں سے جداگانہ ہے وہ احتجاج کی بلند آواز بھی ہیں اور تانیثیت کی علم بردار بھی ان کے افسانوں یا  افسانہ نگاری کی بات کی جائے تو،  افسانوی مجموعہ ’وصف پیغمبر نہ مانگ‘ جس میں آفندی کا بیٹا، آدمی ہوں وصف پیغمبری نہ مانگ،خوابوں کا نیلا سمندر،شیشے کے آبلے، خشک پتوں کی موسیقی، عالم خاک و باد، صوفی آپا  جیسے افسانوں میں فن کی بلندی کی تمام صفات موجود ہیں محبتوں کے ادھورے خواب، عشق کی آگ، ہجر کی تنہائیاں بھی ہیں صدائے انا الحق کی گونج، تصوف اور گنجینۂ اسرار کی روشن وادیاں، وجدان، علم الغیب روح سے نور تک کی پرواز، ہے’سنو رقیہ باجی ‘، صوفی آپا‘ وہ زندہ جاوید کردار ہیں جن کی عظمت کو دنیائے ادب کے قارئین سلام کرتے رہیں گے۔

شائستہ فاخری کے یہاں رقیہ باجی کے خواب ہیں تو رشید جہاں کی بیباک حقیقت نگاری اور عصمت کا نفسیاتی اور جنسی رنگ بھی ہے قرۃالعین حیدر جیسا فلسفیانہ آہنگ بھی ہے اور واجدہ تبسم جیسا تیکھا پن بھی مگر شائستہ فاخری کا اپنا اسلوب ہے جس میں شائستہ کی شائستگی بھی ہے نفاست بھی خاموشی بھی ہے اور احتجاج بھی غم و غصہ بھی ہے اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ بھی۔ وہ اپنے ناول ’صدائے عندلیب بر شاخ شب‘  میں لکھتی ہیں ’ناول عورت کے خوابوں کی ایک گٹھری ہے۔‘  عورت کی زندگی مرد کی مٹھی میں بند چند کچلے خوابوں کے مجموعے کا نام نہیں ہے۔سب کچھ ہونے کے اندیشے آتے ہی زندگی کی ایک نئی ابتدا کرتی ہے مکمل جہاں عورت کے اندر بستا ہے۔بیداری شرط ہے،پھر تو عورت صدائے انقلاب ہے۔ ’’شائستہ فاخری کو افتخار حاصل ہے کہ اردو فکشن میں حلالہ جیسے اذیت ناک مذہبی عمل پر سب سے پہلے انھوں نے ناول لکھا۔‘‘  ’نادیدہ بہاروں کے نشاں‘ کا مرکزی کردار علیزہ ہے اور دوسرا اہم کردار اس کی دوست ڈاکٹر تانیہ ماتھر دونوں میں تضاد ہے علیزہ ایک کمزور عورت ہے اور تانیہ ایک مضبوط عورت،اس ناول میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ معاشی آزادی بہت ضروری ہے۔ جب کوئی انسان زیادہ قید اور پابندیوں اور حبس بے جا میں رکھا جاتا ہے تو اس کے اندر آزاد ہونے کی خواہش زیادہ قوی ہو جاتی ہے۔

معاصر افسانہ نگار اسرار گاندھی کا آبائی وطن اتر پردیش کا شہر سلطان پور ہے۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ ’پرت پرت زندگی‘ ہے  جو 1997 میں شائع ہوکر منظر عام پر آیا، دوسرا مجموعہ ’راستہ جو بند ہے‘  اور تیسرا ’غبار‘ ہے چوتھا مجموعہ ’ایک جھوٹی کہانی کا سچ‘ سابقہ کہانیوں کا انتخاب ہے۔مشہور ناقد جن کا تعلق بھی الہ آباد سے ہے اور جنھیں فکشن ناقدین میں شمار کیا جاتا ہے مہدی جعفر صاحب لکھتے ہیں ’’اسرار گاندھی کو جو کیفیت لکھنے پر مجبور کرتی ہے اس میں  ان کی داخلی کیفیات کا اتنا عمل دخل نہیں ہے جتنا ان کے مشاہدے کا ہے۔‘‘

ادب کی خدمات کے حوالے سے ایک معتبر نام ڈاکٹر شہناز صبیح صاحبہ کا ہے۔ الہ آباد گرلس کالج میں اردو زبان و ادب کی استاد کے فرائض بہت محنت اور مشقت کے ساتھ ایمانداری سے نبھاتی رہیں۔حال ہی میں وہ ملازمت سے سبکدوش ہوئی  ہیں مگر ان کی تصنیف و تحریر کا سلسلہ جاری ہے۔وہ اردو زبان و ادب کے لیے جتنی محنت اور تگ و دو اور جتنی کر سکتی تھیں  بغیر کسی لالچ اور ستائش کے خاموشی سے کر تی رہیں ایسے لوگ جو خاموشی سے زبان اور ادب کی خدمت کرتے ہیں صرف تعظیم ہی نہیں  انعام و اکرام اور اعزاز کے بھی قابل ہوتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں سیکڑوں افسانے،ڈرامے،بچوں کے لیے کہانیاں اور ڈرامے، رپورتاز،سفر نامے، کالمز بھی شامل ہیں۔ ’ اردو ڈرامہ آزادی کے بعد‘ ان کا تحقیقی مقالہ ہے۔ ’افکار و خیالات‘ ان کے  مضامین کا مجموعہ ہے جو  وقتا فوقتا اردو زبان و ادب کے  مؤقر رسائل اور اخبارات  میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ ’آئینہ ادب‘ ان کا ایک بیحد اہم تحقیقی کام ہے جس میں اردو شعراکے پانچ ادوار، غزل،مرثیہ، قصیدہ، نظم،مثنوی، کے شعرائے کرام، داستان، ناول،  افسانہ، ڈرامہ، مضمون، انشائیہ، طنز و مزاح، سوانح نگار ان، تنقید کے ناقدین، تحریک کے علم برداروں،اخبارات اور رسائل کے مدیران، غرض ادب کا آئینہ معروضی شکل و صورت میں پیش کیا ہے تاریخ پیدائش سنہ وفات ولدیت، شاگردی و استادی اور  تصانیف کی فہرست اور اول تا آخر بہت مختصر،معروضی مگر مکمل جانکاری دینے کی کوشش کی گئی ہے یہ کتاب تو طالب علموں کے لیے بہت کارآمد ہے۔

  نئی نسل میں ڈاکٹر جوہی بیگم بھی الہ آباد کو اپنے ادبی کارناموں سے افتخار بخش رہی ہیں، ان کے بے باک بے خوف، سچے اور تیکھے کالمز،ان کے افسانے اور شاعری  جس میں درد و کسک بھی ہے طنز کے نشتر بھی،زخم بھی ہیں اور مرہم بھی۔ ساتھ تحقیق و تنقید اور ترجمے کا عمل بھی جاری ہے۔ ڈاکٹر جوہی بیگم نے پریم چند اور ان کے پسماندہ کرداروں پر ایک ضخیم تصنیف رقم کی ہے۔ پریم چند کی ستر سے زائد کہانیوں کا تجزیہ کیا ہے جو ایک اہم تحقیقی و تنقیدی کام ہے۔الہ آباد کے حوالے سے نئی نسل میں ایک اور نام بہت تیزی سے ابھر رہا ہے اس ادیبہ کا نام ڈاکٹر صالحہ صدیقی ہے،ڈاکٹر صالحہ صدیقی کا آبائی وطن  اعظم گڑھ کا ایک گاؤں ہے مگر الہ آباد نے صالحہ صدیقی کو شناخت بخشی ہے  صالحہ صدیقی نے انٹر کی  تعلیم الہ آباد سے، اعلی تعلیم دہلی سے حاصل کی ہے ان کا ادبی سفر بھی بڑے زور شور سے جاری ہے،ان کی ادبی تصانیف کا جائزہ لیا  جائے تو، صالحہ صدیقی کی  پہلی شائع شدہ تحریر ’مولانا ابوالکلام آزاد کی انشاپردازی‘ پہلی کتاب ’اُردو ادب میں تانیثیت کی مختلف جہتیں‘  ہے جو ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی سے شائع ہوکر منظر عام پر آچکی ہے اور پذیرائی بھی حاصل کر چکی ہے۔ مطبوعہ مضامین اور کتابوں  کی تعدادپر نظر ڈالیں تو سات کتابیں اور  100 سے زائد مضامین شائع ہو کر منظر عام پر آچکے ہیں۔ اختصاصی میدانڈراما، تانیثیت، افسانہ اور نظم نگاری ہے۔

نوجوان ادیب،صحافی اور ناول نگار ڈاکٹر ممتاز عالم رضوی نے فکشن کی دنیا میں قدم رکھا ہے۔ ڈاکٹر ممتاز عالم رضوی کا ناول ’ تعاقب ‘  2021  اور ناول ’خداگنج‘ تازہ ترین2022کی اشاعت ہے یہ دونوں ناول  قارئین  اور ناقدین کی محبت اور توجہ چاہتے ہیں۔

الہ آباد کا ادبی پس منظر اور پیش منظر دونوں بہت وسیع و  عریض ہیں اور اردو ادب کی خدمت میں کم و بیش ان تمام ادیبوں کی شمولیت ادب کے ذخیرے میں اضافہ کرتی جارہی ہیں۔ جعفر مہدی، پروفیسر عبدالحامد، پروفیسر جعفر رضا، زرینہ زریں، پروفیسر صالحہ رشید، ڈاکٹر ناصحہ عثمانی، سابق پرو فیسر نوشابہ سردار، پروفیسر عطیہ نشاط، پروفیسر شبنم حمید، ڈاکٹر عزیز بانو، ڈاکٹر  نگینہ جبیں، ڈاکٹر صالحہ زریں، ڈاکٹر احمد طارق، ڈاکٹر طاہرہ پروین،ڈاکٹر نغمہ جائسی، ڈاکٹر نفیس عبدالحکیم کے نام بھی الہ آباد کی ادبی فہرست کا حصہ ہیں۔

مراجع و مآخذ

  1.       اردو شاعری کا آغاز و ارتقا شعرائے الہ آباد کے حوالے سے
  2.     نئے ادبی رجحاناتڈاکٹر اعجاز حسین
  3.        اصول تنقید اور ردعمل:سید محمد عقیل رضوی ،
  4.       تنقیدی معیار:پروفیسر فضل امام رضوی
  5.       کئی چاند تھے سرآسماں ناول نگار شمس الرحمن فاروقی
  6.       ہے رام کے وجود پر ہندوستاں کو ناز ڈاکٹر اجے مالویہ
  7.       روشنائی سجاد ظہیر
  8.       ناول ’صدائے عندلیب بر شاخ شب‘  شائستہ فاخری


Dr. Kahkashan Irfan
Near Durga Pooja Ground
Shah Ganj
Prayagraj- 211003 (UP)
Mob.: 7054003555
Email.: dr.kahkashanirfan1980@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں