اردو گنگا جمنی تہذیب کی عکاس ہے جو کئی زبانوں کے اشتراک سے وجود میں آئی ہے۔یہ زبان
ہندوستان کی مقدس سرزمین پر یہیں کی زبانوں اور باشندوں کے بطن سے جنمی اور یہاں کے کھیتوں، کھلیانوں، گھروں،
بازاروں ،اور باغوں میں پلی بڑھی۔سمندر کی لہروں اور ریگستان کی چمک دمک سے مستفیض
ہوئی۔جنگلوں بیابانوں اور میدانوں میں پروان چڑھی۔ یہ زبان نہایت شیریں اورلطیف ہے جس کے باعث عوام
و خواص اس کے شیدائی اور دلدادہ نظر آتے ہیں۔اس نے ذات و برادری اور مذہب و مسلک
کو بالائے طاق رکھ کر ہرشخص کو اپنا مداح بنا رکھا ہے جو بھی اس کے قریب آیا وہ اسی
کا ہو لیا۔یہ دنیا کے گوشے گوشے میں لکھی پڑھی سنی اور بولی جاتی ہے اور قدر کی نگاہ
سے دیکھی جاتی ہے۔ برصغیرکا اردوداں طبقہ بڑی تعداد میں چالیس سے زائد ملکوں میں مقیم ہے۔ برطانیہ، فرانس،
امریکا، جرمنی اورعرب جیسے ممالک میں بھی اردو زبان میں درس و تدریس جاری و ساری ہے اور کناڈا، لندن ،برطانیہ ،جرمنی اور نیو یارک سے رسالے اور
اخبارات بھی باضابطہ طور پر شائع ہو رہے ہیں۔ اب یہ صرف قومی زبان نہیں رہی بلکہ عالمی
سطح پر اسے مقبولیت حاصل ہو چکی ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل اینٹی
نیوگو ٹریس نے جب اپنا پیغام نشر کیا تو انگریزی فرانسیسی ہسپانوی روسی چینی اورعربی
کے علاوہ اردو زبان میں بھی پیغام جاری کیا۔
اردو نے ہر جگہ اپنا سکہ جما رکھا ہے۔ اس نے جہاں دیگر شعبہ جات میں اہم فریضہ ادا کیا ہے وہیں مدارس
میں بھی نمایاں خدمات انجام دی ہیں جسے فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اردو اور مدرسہ
دونوں ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہوگئے ہیں کہ
اردو کا اگر تذکرہ ہو تو بات مدرسے
تک جا پہنچتی ہے گویا دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیںاورزبان کا نامیاتی ارتقا
اور تسلسل بھی مدرسے پر ہی منحصر ہے۔ ارباب
مدارس نے اردو کی بقا کے گونا گوں عملی اقدامات کیے ہیں۔ انھوں نے جہاں اردو رسم الخط کی حفاظت، اردو زبان کی تعلیم، اردو
کو نئی نسلوں تک پہنچانا، اردو کو بین الاقوامی زبان بنانا اور اردو کو ذریعۂ تعلیم کے طور پر استعمال کرنے
کی جدو جہد کی وہیں اوردیگر علوم و فنون کو اردو میں منتقل کرنے اور اردو رسائل و مجلات کو شائع کرنے کے کارہائے
نمایاں انجام دیے ہیں۔
مدرسہ عربی زبان کا لفظ ہے۔ جو لفظ ’درس‘ کا مشتق ہے جس کے معنی ہیں پڑھانے
کی جگہ۔ اسے تعلیم گاہ پاٹھ شالا ودیالیہ پٹھن استھل ٹیچنگ پیلس اور کالج وغیرہ کے
اسما سے بھی موسوم کرتے ہیں۔ اس سے مراد ہر وہ اسکول ہے جو مذہبی ہو یا سیکولر۔ عام طور پر مدرسہ کومکتب، معہد اور جامعہ کے اسم
سے موسوم کرتے ہیں۔ جب اردو زبان کی خدمت میں مدارس کے رول کا ذکر آتا ہے تو مکتب،
معہد اور جامعہ ہمارے پیش نظر ہوتے ہیں جو ملک کے دور دراز علاقوں میں اردو کی ترویج
و اشاعت میں ہر وقت ہمہ تن گوش رہتے ہیں۔اس کے فروغ کے لیے اسکولوں،کالجوں اور یونیورسٹیوں
کے خدمات کو ہمیشہ سے سراہا جاتا رہا ہے کیوں کہ فورٹ ولیم کالج، جامعہ عثمانیہ، دہلی
کالج اور اورینٹل کالج علی گڑھ (موجودہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) نے اردو زبان کے ساتھ
اردو ادب کو فروغ دینے میں نمایاں خدمات انجام
دیے ہیں، لیکن ان سب کے درمیان ایک حلقہ ایسا بھی ہے جس نے درس و تدریس، تصنیف و تالیف اور وعظ و نصیحت کے ذریعے اردو زبان و ادب
کوترقی کی جانب گامزن کیا ہے۔ دینی مدارس میں
طلبا کو اردو زبان میں نہ صرف اپنے مافی الضمیر کو ادا کرنے کی مشق کرائی جاتی ہے بلکہ
انھیں تذکیر و تانیث، الفاظ کی صحیح ادائیگی
اور تقریر کے دوران لہجے میں اتار چڑھاؤ کا فن سکھایا جاتا ہے۔ جمعہ، عیدالفطر، عید
الا ضحی اور دیگر مواقع پر مدارس سے فیض یافتہ اشخاص ہی خطابت کے فرائض انجام دیتے
ہیں جواردو زبان میں ہوتے ہیں۔ دیواری میگزین، سالانہ میگزین، اور مدارس سے جاری ہونے
والے ماہانہ یا دو ماہی رسائل وغیرہ اس کی بہترین مثالیں ہیں۔ اسی طرح صحافت کے میدان میں بھی مدارس کا رول قابل ستائش
ہوتاہے۔متعدد اردو اخبارات کے ایڈیٹرز مدارس سے فیض یافتہ ہیں۔ علاوہ ازیں قرآن مقدس
کے تراجم، احادیث رسول، اقوال سلف صالحین وغیرہ کی کتابیں اردو زبان میں ہی مدارس کے
طلبا کو پڑھائی جاتی ہیں۔ یہ دینی مدارس ہی
ہیں جنھوں نے اردو کی صرفی و نحوی ساخت کی تشکیل، نئی لفظیات، استعارات، تشبیہات، تلمیحات
اور لغت میں اضافے کیے ہیں۔اس نے اردو زبان کو ان علوم و فنون اور موضوعات سے آشنا
کیا جو یقینا اردو کی فکری ثروت میں اضافے
کی حیثیت رکھتے ہیں اور جس سے اردو زبان کو فکری تحریک اور توانائی حاصل ہوئی جس کا
اعتراف خود اہل قلم اور ارباب علم و دانش نے
بھی کیے ہیں۔ہمیں اردو میں زبان و بیان، اسلوب
اور تکنیک کی سطح پر جو تنوع اور چمک دمک نظر
آتی ہے وہ مدارس ہی کی کاوش کا ثمرہ ہے۔ حالانکہ دینی مدارس میں اردو زبان و ادب
کی باقاعدہ اور باضابطہ طور پرتعلیم نہیں دی
جاتی ہے اور نہ ہی منظم طریقے سے ادب پر کچھ کام ہو رہے ہیں البتہ طلبا و طالبات علم قواعد سے ضرور روشناس ہوتے
ہیں جس سے علمی دنیا میں مثبت اثرات نمایاں
ہورہے ہیں۔ جیسا کہ ایک جگہ پروفیسر ابوالکلام قاسمی لکھتے ہیں
’’مدارس میں یوں تو براہ راست اردو زبان یا ادب کی تدریس نہیں
ہوتی مگر قواعد اور گرامر کی سطح پر طالب علم کی لسانی بنیادیں جس قدر مستحکم ہوجاتی
ہیں، اسی صلاحیت کے باعث اردو کے لسانی پس منظر کے طور پرعربی اور فارسی الفاظ سے مصادر اور مشتقات کا
اصولی علم بھی حاصل ہو جاتا ہے۔صفت، موصوف، مضاف، مضاف الیہ، اسم، ضمیر، فاعل، مفعول،
امر اور نہی، اس طرح کی سبھی قواعدی اصطلاحات دراصل طالب علم کو صرف و نحو سے پوری
طرح باخبر کردیتی ہیں۔
یہی باخبری اس کی اردو کی لسانی
اور ادبی استعداد میں ہمیشہ معاون ثابت ہوتی ہے۔‘‘
(ماہنامہ اردو دنیا نئی دہلی،شمارہ 5، مئی 2013،ص 20)
دینی مدارس میں لفظی صوتیات پر
خصوصی دھیان مبذول کرایا جاتا ہے۔ وہاں طلبا و طالبات کو تجوید کا بالخصوص علم ہوتا
ہے۔طلبا کو ’س اور ش ‘، گ اور غ؛ج اور ز؛ ذ اور ظ؛ ت اور ط؛ ع او
ر ا؛ ق اور ک و غیرہ حروف میں واضح امتیاز
کرایا جاتا ہے۔انھیں تمام حروف کی ادائیگی کا اچھی طرح علم ہوتا ہے۔ اتر پر دیش مدرسہ
بورڈ نے جو نصاب تیار کیا ہے اس میں اردو زبان و ادب کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ اس میں
جہاں سائنس حساب تاریخ جغرافیہ منطق فلسفہ معقولات کمپیوٹر ہندی انگلش اورعربی ادب
کو شامل رکھا ہے وہیں اردو زبان و ادب کو بھی ترجیح دی گئی ہے۔صوبائی اورمرکزی حکومت
نے بہت ساری سہولیات فراہم کی ہیں۔ وقتاً فوقتاً اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے اسکیمیں
بھی جاری کرتی رہتی ہیں۔طلبا و طالبات کے لیے سالانہ اسکالر شپ کا بھی اہتمام کرتی
ہیں۔ یہ مدرسے ہی ہیں جنھوں نے ہمیں خواندہ افراد،قاری اور اردو صحافت کو کاتب فراہم
کیے۔ آزادی کے بعداردو پر جب حملے ہو رہے تھے۔
اردو کی ابتدا سے ارتقا تک کی مکمل تاریخ میں مدارس کی عظیم قربانیاں شامل رہی
ہیں۔ گیسو ے اردو کو سنوارنے میں بیشتر شعرا
اور مصنفین نے اپنا خون جگر صرف کیا
ہے جن کا تعلق دینی مدارس سے رہا ہے۔ بابائے اردو مولوی عبدالحق، نذیر احمد، محمد حسین
آزاد، الطاف حسین حالی، نظیر اکبرآبادی،
اکبر الہ آبادی، شبلی نعمانی، عبدالسلام ندوی، سید سلیمان ندوی، ابوالکلام آزاد، عبد الحلیم شرر، امتیاز علی خاں عرشی، قاضی عبدالودود، نیاز فتح پوری، رشید حسن خاں، مجروح سلطان پوری،
کیفی اعظمی، فیض احمد فیض، رشید حسن خاں، فضا
ابن فیضی، حیات اللہ انصاری، راشد الخیری، خواجہ حسن نظامی، امداد امام اثر، راجہ رام موہن
رائے وغیرہ بھی مدرسے کے پروردہ تھے۔ جنھوں نے اردو زبان و ادب میں عظیم کارنامے سرانجام دیے۔
ملک میں ایسے بھی مدارس موجود ہیں
جہاں گنگا جمنی تہذیب کی جھلک نظر آتی ہے۔دار
العلوم حسینیہ گورکھ پور، اتر پردیش میں اردو اور دیگر زبانوں کے ساتھ سنسکرت کی بھی
تعلیم دی جارہی ہے۔ اسی طرح رسول پور ضلع گونڈہ، صوبہ اتر پردیش کا مدرسہ گلشن بغداد
ہے۔ جہاں ہندو اور مسلم بچے مشترکہ طور پر اردو، عربی اور سنسکرت کی تعلیم حاصل کرتے
ہیں۔ اس مدرسے کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ یہاں مسلمان بچے سنسکرت پڑھ رہے ہیں اور ہندو
بچے اردو اور عربی پڑھ رہے ہیں۔ اس مدرسے میں تقریباً پچاس سے زائد مسلم طلبا سنسکرت سیکھ رہے ہیں اسی طرح
یوپی کے متعدد مدارس میں غیر مسلم بچے اور بچیاں اردو زبان و ادب سے مستفیض ہو رہے
ہیں۔آج اترپردیش کے مدارس میں اردو نمایاں کردار ادا کر رہی ہے کیونکہ ملک کے اعلیٰ
وارفع عہدے پر فائز اشخاص یوپی کے مدارس کے ہی پروردہ تھے یا پھر بنیادی اردو تعلیم
یوپی کے مدارس کے فیض یافتہ تھے۔ ماضی تا حال کا مشاہدہ کر نے پر خوشی حاصل ہوتی ہے
کہ اترپردیش کے مدارس سے انجینئر، ڈاکٹر اسکالر، مورخ، مصنف، شاعر، سیاست داں اور ملک کے عظیم رہنما پیدا ہوئے ہیں۔ جیسا کہ یوپی کے ایک مدرسے سے فارغ اردو داں
وسیم الرحمٰن آئی اے ایس اور عبید قریشی ایم بی بی ایس ڈاکٹر بن کر قومی یکجہتی کی
مثال قائم کیے ہوئے ہیں۔اس سلسلے میں مظفر حنفی لکھتے ہیں
’’اردو کی جسے ہم جنم بھومی یا اردو کا خاص علاقہ کہتے ہیں۔
میری مراد اترپردیش ہے، اگر مدارس نے اترپردیش میں اردو کو سہارا نہ دیا ہوتا تو غالباً
وہاں سے بالکل ہی اردو کاجنازہ اٹھ گیا ہوتا، جوکچھ بھی اردو باقی رہ گئی ہے بالخصوص
اترپردیش میں وہ مدارس کی وجہ سے ہے۔‘‘
(ماہنامہ جام نور دہلی، مارچ 2004،ص 27)
آزادی کے بعد اس ملک کا پہلا وزیر
تعلیم آکسفورڈ اور کیمبرج تو دور کی بات ہے، دہلی، کلکتے، رامپور، لکھنؤ، علی گڑھ
اور الہ آباد وغیرہ کی یونیورسٹیوں کا بھی فارغ نہیں تھا بلکہ اسی مدرسے کے نصاب کی
پیداوار تھا۔جس نے ہمیں آئی آئی ٹی کھڑگپور، آئی سی سی آر، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن،
ساہتیہ اکیڈمی، سنگیت ناٹک اکیڈمی اور سی ایس آئی آر جیسے ادارے فراہم کیے۔
یہ
وہی اردو زبان ہے جس نے ہندوستان کو آزادی دلانے میں پیش پیش رہی۔انگریزوں کے خلاف
ہر وقت ہمارے شانہ بہ شانہ کھڑی رہی۔ اس نے جہاں ہمیں ’سارے جہاں سے اچھا‘ جیسا ترانہ دیا ہے، جیسے قومی
ترانے دیے ہیں، وہیں ’انقلاب زندہ باد‘ اور
’جھنڈا اونچا رہے ہمارا‘ کے جوشیلے نعرے بھی دیے ہیں اور یہ گنگناتے ہوئے کہ ؎
درو دیوار پہ حسرت سے نظر کرتے
ہیں
خوش رہو اہلِ وطن ہم تو سفر کرتے
ہیں
سیکڑوں نوجوان کالا پانی گئے اور ؎
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں
ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل
میں ہے
کہتے ہوئے سیکڑوں نوجوان ہنستے
مسکراتے پھانسی کے پھندے پر جھول گئے۔ جوش ملیح آبادی کی نظم ’ایسٹ انڈیا کمپنی کے
فرزندوں سے‘ گاتا ہوا طالب علموں کا ایک جلوس 1942 میں الہ آباد (پریا گ راج) میں
انگریزی حکومت کی لاٹھی اور گولی کا شکار ہوا۔الہ آباد کمپنی باغ (اعظم پور؛ رسول
پور اور صمد آباد) کے باشندوں نے جب انگریزوں کے ظلم وستم کے خلاف علم بلند کیا تو
ایسٹ انڈیا کمپنی کے انگریز حکمرانوں نے کمپنی باغ کے بچوں اور خواتین پرظلم و جبر
کے پہاڑ ڈھائے۔ بالآخر ایک ایک کو چن کر چوک الہ آباد میں واقع پانچوں نیم کے درختوں
پر پھانسی کے پھندے پرلٹکا دیے گئے اورشاہی جامعہ مسجد کو شہید کرکے تمام گھروں کو
اجاڑ دیا گیا، سبھی محلوں اور بستیوں کو ویران کر ان پر قابض ہو گئے اور ایسٹ انڈیا
کمپنی کی مناسبت سے اس علاقے کا نام ’کمپنی راج‘ رکھا اور اپنا راج الہ آباد کی سرزمین
پر چلانا چاہا۔ (جب انگریزوں کے جنرل گورنر کی آمد ہوئی تو اس کے استقبال میں ان محلوں
کو پھولوں اور پودوں سے آراستہ و پیراستہ کیا گیا جس سے یہ علاقہ ’کمپنی باغ‘ کے اسم
سے موسوم کیا جانے لگا۔ سنہ 1870 میں برٹش حکومت نے اس کا نام بدل کر’الفریڈ پارک‘ رکھ دیا جس
کے میں بھارت سرکار نے چندرشیکھر آزاد کی طرف منسوب کرکے اس کا نام ’آزاد
پارک‘ مختص کر دیا۔) چنانچہ مولوی لیاقت علی کی سر پرستی میں انگریزوں سے مقابلہ آرائی
کی مہم تیز ہوئی اور نوجوانوں نے اپنی جان
کی بازی لگا کر انگریزوں کو راہ فرار اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ملحوظِ خاطر رہے کہ
مولوی لیاقت حسین مدرسے کے فیض یافتہ تھے جو
اردو زبان و ادب کے پاسدار تھے۔ اپنی ولولہ انگیز تقریر اردو زبان میں کرتے تھے جس سے نوجوانوں میں بیداری
پیدا ہوتی تھی۔ آج بھی ہمارے ملک کے مدارس خوب سے خوب تر ہیں اور اردو زبان و
ادب کی آبیاری کر رہے ہیں جس سے اردو زبان
و ادب تابندہ ہے۔ دارالمصنفین سے ماہنامہ ’معارف‘ ندوہ سے نکلنے والا رسالہ ’الندوہ‘
مدرسۃ الاصلاح کا ترجمان ’الاصلاح‘ اور رسالہ
’نظام القرآن‘ جامعۃ الفلاح کا ترجمان ’حیات نو‘ جامعہ اشرفیہ کا ’اشرفیہ‘ اور جامعہ سلفیہ کا ’محدث‘ اردو میں نکلنے والا
ماہنامہ رسالہ ہے۔ بہرحال ان مدارس سے نکلے والے رسالے اردو زبان میں ہوتے ہیں جس کی
مدد سے یہ مدارس اردو زبان کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر رہے۔ اردو زبان کے لسانی
اور فکری سرمائے میں ارباب مدارس نے جو کردار ادا کیے ہیں اسے رہتی دنیا تک فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
S/O Master Ikramul Haque Abbasi
Vill.: Chhitay Mau
Post- Mahraunda,Via- Mau Aima,
Dist-Prayagraj- 212507 (UP)
Mob.: 7800812595
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں