علاقہ ودربھ کی سرزمین عہدِ قدیم سے اردو ادب کے لیے بڑی
زرخیز ثابت ہوئی ہے۔ یہا ںسے زبان وادب کے بڑے بڑے دانش ور، شعرا، مصنفین، ادیب وافسانہ
نگاروں کا تعلق ہے۔ زمانہ ماضی میں عادل ناگپوری، امبا پرشاد طرب جیسے جید علما نے
اپنے فکر وفن سے اردو ادب کے خزانے کو مالا مال کیااسی طرح مختلف جگہوں پر مشاعروں
کاانعقاد، چھوٹی بڑی ادبی محفلوں میں شعرا و ادیبوں کی شرکت، اور نئے نئے موضوعات پر
کتابوں کی اشاعت نے سرزمین ودربھ میں علم وادب کی نئی روشنی کا آغا ز کیا۔ ودربھ کے
ان علاقوں میں کامٹی، ناگپور، اچلپور، بالا پور، امرائوتی،اکولہ، وروڈ اور کچھ دیگر
مقامات بھی اہمیت رکھتے ہیں۔ بلکہ ان علاقوں سے متصل جو دیہات موجود ہیں ان میں بھی
اردو زبان سے محبت کرنے والوں نے شمع ادب کو روشن کیا ہے۔
جب ہم ماضی تا حال کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں افسانہ نگاروں
کی ایک کہکشاں نظر آتی ہے جن میں قادر نیازی، زہرہ جبیں،شریف اورنگ،ز رینہ ثانی، قیصر
واحدی، تبسم شفائی، واجدہ تبسم،نیر جہاں، شیفتہ فرحت، شیام سوشل،قیصر بدنیروی، ق۔ حسرت،
ڈاکٹر نگہت ریحانہ، ثریا صولت حسین،بانو سرتاج، میم ناگ،طارق کھولاپوری، کلثوم ممتا،وکیل
نجیب،ڈاکٹر اشفاق احمد، نواب رونق جمال، شیخ رحمن اکولوی،عظیم راہی،ایم آئی ساجد،
غنی غازی، مظہر سلیم،طفیل سیماب،صبغت اللہ، حبیب ریتھپوری، سعید احمد خاں،خواجہ غلام
السیدین ربانی، شکیل شاہجہاں، غلام رسول اشرف،عمر حنیف،بلقیس شبیہ،ڈاکٹر قمر جہاں،
ڈاکٹر سروشہ نسرین قاضی،صفیہ سلطانہ، زہرہ جمال، عاجز ہنگن گھاٹی، عبدالقدیر صدیقی،
نیلوفر ناہید، کلیم ضیاء، رضیہ مبین نقوی، یحییٰ جمیل، محمد رفیع الدین مجاہد، اکبر
عابد، فیروز خاں یاس، سلمٰی نسرین، سکندر عرفان، بابر شریف، ڈاکٹر محمد ابوالکلام،
مظہر حیات، عبدالوحید، نیر شبنم، فرزانہ اسد، قیصر انجم، محمد اسداللہ اور شگفتہ عارف
اور اظہر ابرار وغیرہ ہیں ان میں یقینا خواتین افسانہ نگار وںکی تعدادکم ضرور ہے۔لیکن
ان کے افسانوں میں چھپا پیغام کچھ کم نہیںہے۔
یوں تو علاقہ ودربھ میں نثر نگاروں کی فہرست طویل ہے۔ لہٰذا
اس مضمون میں ودربھ کی اس کہکشاں سے اردو ادب کے تین تابناک ستاروں کا تذکرہ کیا جاتا
ہے۔ جن میں م۔ ناگ، قمر جہاں، اور اشفاق احمد کے نام شامل ہیں۔ اگران تین ادیبوں کے
فن پاروں کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ افسانہ نگار ی کی دنیا میں سبھی
نے معاصر ادب کے سلگتے ہوئے مسائل کو اپنے فن پاروں میں جگہ دی ہے۔ بلکہ ان موضوعات
کو بھی چھوا جن کا پڑھنا اور سننا ایک زمانے تک ممنوع قرار دیاگیا۔ اگر قاری ان شہ
پاروں کا گہرائی سے مطالعہ کریں تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ م۔ ناگ نے اپنے افسانوں
اور افسانچو ں میں ناگپور،ممبئی اور مہاراشٹر کے دیگر علاقوں میں بسنے والے عام لوگوں
کے مسائل کو پیش کیا تو قمر جہاں نے اپنے افسانوں میں عورتوں اور لڑکیوں کی تکالیف
کو اجاگر کیا۔ جبکہ اشفاق احمد نے اپنے منی افسانوں میں قریبی رشتوں میں آئی ہوئی
دوری،اپنوں کے کھونے کا دکھ، اپنوں سے ملنے والا دکھ،خوف کے بڑھتے ہوئے سائے اور تنہائی
کا کرب بلکہ ان مسائل کو بھی جگہ دی ہے جب کسی کو اپنے ہی قریبی سے دکھ پہنچتا ہے پھر
وہ انسان تلملا کر رہ جاتا ہے۔
ودربھ کی اس کہکشاں سے پہلی اہم
شخصیت م۔ناگ ہے۔ آپ کی پیدائش تو چھتیس گڑ ھ کے ضلع بستر میں ہوئی۔ 1957 میں والد
کے تبادلے کے ساتھ آپ ناگپور تشریف لائے اور پھر بہت جلد اس شہر کے ماحول میں رچ بس
گئے۔ جب کچھ لکھنا چاہا تو پہلے مختارناگپوری کے نام سے لکھا پھر محسوس کیا کہ یہ نام
کچھ بڑ ا ہے تو اسے مخفف کر تے ہوئے م۔ ناگپور ی کیا اورپھر م۔ ناگ انھیں پسند آگیا۔
اسی نام سے ان کے افسانے اور افسانچے ہندوستان کے معروف اور غیر معروف رسائل و جرائد
میں تواتر سے شائع ہوتے رہے۔ یوںتو وہ کہانیا ں ہائی اسکول کے زمانے سے لکھتے تھے،ان
کی پہلی کہانی ’بابا کی چھبیسویں‘ کامٹی سے شائع ہونے وا لے ’ ہفت روزہ تاج‘ میں 1969 میں شائع ہوئی۔ 70,80 کی
دہائی میں ابھرنے والے جن قلم کاروں نے اپنی الگ پہنچان بنائی ان میں م۔ ناگ بھی شامل
تھے۔
م۔ ناگ کسی تحریک یا رجحان سے ہر گز متاثر نہیں ہوئے انھوں
نے اپنے ڈھب کی کہانیاں لکھیں۔ اس بات کی پرواہ نہیں کی کہ نقادان ادب ان کے بارے میں
کیا رائے قائم کرتے ہیں۔ پہلی قرات میں م۔ ناگ کے افسانے سپا ٹ معلوم ہوتے ہیں لیکن
معنی کی تہوں میں اتر کر دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ بات اتنی آسان بھی نہیں، واقعے
کا تاثر قاری پر تادیر قائم رہتا ہے۔ م۔ ناگ کے تین افسانوی مجموعے ہیں جن میں ’ڈاکو
طے کریں گے‘، ’غلط پتہ‘ اور ’چوتھی سیٹ کا مسافر‘ شامل ہیں،اسی کے ساتھ
ان کا ایک ناول ’دکھی من میرے ‘ ممبئی سے شائع
ہونے والے معروف ادبی جریدہ’نیا ورق‘ میں بھی قسط وار شائع ہوتا رہا۔ وہ زمانہ اردو
قارئین کو اچھی طرح یاد ہوگا جب م۔ ناگ اردوٹائمز میں ایک مستقل کالم ’ممبئی ڈائری‘
کے نام سے لکھا کرتے تھے اور جسے خوب سراہا گیا تھا۔
م۔ ناگ اپنی زندگی میں ایک ایسے ناگ ثابت ہوئے جس نے کسی
کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا بلکہ ان کی من موجی طبیعت سے ہر کسی کو فیض ہی پہنچا۔ وہ
کبھی کسی ادبی گروپ کا حصہ نہیں بنے ان کی دنیا بالکل مختلف تھی۔ جب ہم م۔ ناگ کی زندگی
کے گراف پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے ان کی زندگی ایک جہد مسلسل ہی رہی۔ انھوں نے
کبھی کوئی مستقل کام نہیں کیا کبھی کپڑ امل تو کبھی پانی کے ٹینکر ا ورڈیم جیسی جگہوں
پر ملازمت کی۔جب ممبئی آئے تو مختلف کمپنیوں میں کام کرتے رہے پھر بہت سے اخبارات
میں اپنی خدمات انجام دیںاور کالم بھی لکھتے رہے۔ معاشی حالات نے انھیں پریشان بھی
کیا لیکن کبھی قلم سے اپنا رشتہ منقطع نہیں ہونے دیا۔ گوکہ انھوں نے کم لکھا لیکن جتنا
بھی لکھا اس میں کیفیت بہت زیادہ ہے۔
ناگپور سے ا نھیں اس قدر محبت و انسیت تھی کہ ناگپور کی
مناسبت سے اپنے نام میں ناگپور کا ناگ رکھ لیا۔
وہ شہر ناگپور کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں ’’ میں ناگپور سے پیار کرتا تھا۔ناگپور
نے مجھے وہ سارا مواد فراہم کیا جو بچپن اور لڑکپن کی بنیاد بنتا ہے۔ ایک تنو مند ماحول
دیا جہاں میں پتنگ کی صورت اڑتا مگر تیز مانجھے سے کٹ جاتا تھا، جہاں میںلٹو کی طرح
گھومتا تھا مگر جالی ساتھ چھوڑ جاتی تھی، جہا ںمیں بیڈ مینٹن کی چڑیا، کبھی اس کی لان
میں کبھی اس کے پالے میں ! میں ناگپور کی گلیوں،
سڑکوں کا دیوانہ تھا اس کے شب و روز کا سیلانی تھا۔ ناگپور نے مجھے اپنے اندرون
میں جھانکنا سکھایا۔‘‘
(غلط
پتہ۔ اقتباس۔ ’ تو بھیّا کیا کریں‘)
ممبئی کی سڑ کو ں کی خاک چھانتے ہوئے م۔ ناگ کو ایک عرصہ
بیت چکا تھا لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ ان کے تینوں مجموعوں میں ان کی شخصیت کا پر تو
نظر آتا ہے اور ان کی تخلیقات میں انکشاف ذات کا برملا اظہار بھی دکھائی دیتاہے جو
کہ قارئین کو خاصا متاثر کرتا ہے۔ کہانیوں میں عام آدمی سے وہی رشتہ،مزاج میںسادگی
اس قدر کہ ہر عمر کا انسان انھیں اپنا دوست سمجھے۔ افسانوں میں عام انسانی زندگی کی
تصویر یں جابہ جا ہیں جس میں عورت ایک مرکزی کردار کی حیثیت رکھتی ہے پھر چاہے وہ مزدور
ہو، لوکل ٹرین میں دھکے کھاتی ہوئی عورت ہو یا کارخانے میں جاتے ہوئے مزدور بچے اور
ممبئی کی چالیوں میں رہنے والے مفلس و خستہ حال لوگ۔ان تمام انسانوں کی عکاسی من و
عن پیش کی گئی ہے۔ یہ بات بھی اتنی ہی صحیح ہے کہ ایک انسان کہانی اسی وقت بن سکتا
ہے جب وہ دوسروں کے کرب کو اس شدت سے محسوس کرے کہ وہ اس کا کرب بن جائے۔وہ خود کہتے
تھے کہ ’’زندگی میر ی استاد رہی ہے اور افسانہ میری ڈھال بناہے ‘‘۔ م۔ ناگ نے بہت حد
تک اس بات کو اپنی کہانیوں میں ثابت بھی کیا۔جس کی مثال آپ’ڈاکو طے کریں گے‘ میں،کٹی
ہوئی ناک، گھوڑ سوار، دروازہ اور’غلط پتہ‘
میں لکڑ بگھا، ایک خوبصورت موڑ،چوتھی سیٹ کا مسافر،کھرنڈ، محفوظ سیکس، لٹکی ہوئی عورت
ہیں۔ م۔ ناگ کی تحریریں سادگی کی مثا ل ہیں لیکن اس سادگی کے پیچھے طنز کے گہرے نشتر
بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔ ان کے جملوں میں بلا کی برجستگی ہے۔ انداز ایسا کہ پڑھتے
پڑھتے کہانی کا خاتمہ اس موڑ پر ہوتا ہے جہاں قاری کے ذہن میں بناہوا سارا نقشہ الٹ
پلٹ جاتا ہے گویا وہ ا س دور کی بے رحم سچائی کو اس طرح سے واشگاف کرتے ہیں کہ کچھ
دیر کے لیے ہم سن پڑ جاتے ہیں۔ م۔ ناگ نے اپنی کہانیوں میںعلامتوں اور استعاروں کا
استعمال بہت زیادہ گنجلک انداز میں نہیں کیا۔
م۔ ناگ کے معترضین نے ان پر جو سب سے زیادہ اعتراض کیا وہ
ان کی تخلیقات میں جنس کا وفور ہے۔عورت کے مختلف روپ ان کے یہاں نظر آتے ہیں اور یہ
بھی حقیقت ہے کہ افسانوں میں کچھ ایسے الفاظ بھی استعمال کیے گئے جو غیر شائستہ ہیں۔
اگر ان الفاظ کو الگ کر بھی لیا جائے تو افسانے کے تاثر میں کوئی فرق واقع نہیں ہوگا۔
لیکن جو اہم بات م۔ ناگ کی شخصیت کے تعلق سے کہی جاتی رہی ہے وہ یہ کہ ’’ اس آدمی
کا خلوص اور محبت اس کے افسانوں سے زیادہ لوگوں کو متاثر کرتا چلا گیا۔‘‘ جس بات پر
م۔ ناگ متنازع رہے اسے ساجدرشید نے کچھ یوں سمجھایا ’’اگر م۔ناگ عورت کو آدرش وادی پیکر میں نہیں دیکھتے
ہیں اور وہ اس کی نفسیات کی پیچیدہ گتھیوں کو بھی نہیں پیش کرتے ہیں تو پھر وہ اپنے
افسانے کی عورت کی پیشکش میں کس طرح مختلف ہیں ؟ دراصل م۔ ناگ بڑی حد تک سفاک لا تعلقی
کے ساتھ اپنے کرداروں خاص طور پر نسوانی کرداروں کی نبض اس ڈاکٹر کی طرح دیکھتے ہیں
جو مریض کے مرض کو سمجھنے اور اس کی تشخیص سے تو دلچسپی رکھتا ہے، لیکن اسے مریض اور
مرض دونوں ہی سے کوئی جذباتی لگائو نہیں ہوتا ہے۔‘‘
اگر اس معاملے کاباریک بینی سے
مشاہدہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ م۔ ناگ ایک ایسا تخلیق کار ہے جو سماج میں جیسا دیکھتاہے
ویساہی من وعن لکھ بھی دیتا ہے اور جملوں کو بڑ ی سادگی و معصومیت سے پرودیتا ہے۔ اب
اگر کوئی یہ کہے کہ ان باتوں کو اشاروں اور کنایوں میں بھی کہاجاسکتا تھا، بالکل کہا
جاسکتا تھا اور کہنے والوں نے کہا بھی جس سے کئی بار قارئین نے اس نسوانی کردار کو
ہمدردی کی عینک لگا کر دیکھا یا اسے مجبوری میں اٹھایا گیا قدم قرار دے دیا گیا۔ لیکن
م۔ ناگ کا معاملہ کچھ اس طرح مختلف ہے کہ وہ سماج کی سچائی سیدھے ڈھنگ سے پیش کرتاہے۔جب
بھی اردو میں افسانہ نگاروں کی بات کی جائے گی م۔ ناگ کے فکر و فن، اسلوب، انداز تخاطب
پر ضرور بات ہوگی۔
ودربھ کی دوسری اہم خاتون افسانہ نگار ہیںڈاکٹر قمر جہاں،
آپ نے خانگی زندگی کے مختلف گوشوں سے اپنے افسانوں کے تانے بانے کو بناہے۔ گھرکی حدود
کو اپنا کینوس بنایا ہے جس میں موجو د کرداروں کا مختلف پہلوئوں سے جائزہ لے کر یہ
ثابت کردیا ہے کہ یہ افسانے زندگی کی حقیقت سے بھر پور ہیں۔ان کے افسانوںکے پلاٹ نہایت
مربوط ہوتے ہیں۔ ان کے افسانوی مجموعے ’دھوپ چھائوں‘ اور ’زندگی تیرے لیے‘ کے مطالعے
سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے افسانوں کے لیے مواد اپنے آس پاس سے ہی اکٹھا
کرتی تھیں ان کے افسانوں کا ہر کردار اس فن کاری سے پیش کیا گیا ہے کہ نہ ہی افسانہ
پڑھتے وقت جھول محسوس ہوتا ہے اور اس بات کا احساس بھی باقی نہیں رہتا کہ قاری کسی
نئی دنیا کی مخلوق کے بارے میں پڑھ رہا ہے۔
قمر جہاں ایک خاتون ہونے کے ناطے صنف نازک کے مسائل کو خوب
جانتی بھی تھیں اور انھوں نے اپنے افسانوں میںبیشتر نسائی کردار وں کے مثبت اور منفی
رخ پیش کیے ہیں جو اس بات کی واضح دلالت ہیں کہ انسان میں خیرو شر کا مادہ پایا جاتا
ہے اور وہ اپنی فطرت کے آگے مجبور ہے جس کا اظہار کسی نہ کسی صورت ہوتا رہتا ہے۔ پھر
جب خیر کی قوت غالب آجاتی ہے تو یہ عورتیں دوسروں کے لیے قربانی کے جذبے سے سرشار
نظر آتی ہیں اور بڑے حوصلے کے ساتھ زندگی گزارتی ہیں لیکن شر کا پہلو مزاج میں ابھرنے
کے بعد یہی عورتیں اپنے جیسے ہم جنسوں کی دشمنی میں ملوث ہوکر انھیں تباہ و برباد کردیتی
ہیں۔
’دھوپ
چھائو ں‘ کے عرض حال میں قمر جہاں لکھتی ہیں ’’ افسانہ لکھتے وقت میری کوشش یہی ہوتی
ہے کہ میں نے زندگی کو جس انداز سے دیکھا ہے، اس کی کڑوی سچائیوں نے مجھے جس طرح متاثر
کیا ہے انھیں اس طرح پیش کردوں کہ وہ میری سوچوں کی ترجمان بھی ہوں۔ میں نے زندگی کی
ناہمواریوں، ناآسودگیوں،تلخیوں اور ناکامیوں کو اپنے افسانوں میں جگہ جگہ پیش کیا
ہے۔ زندگی کے اس رخ کو دنیا کے سامنے پیش کرنا میں اپنا فرض سمجھتی ہوں اور یہی میری
افسانہ نگاری کی تحریک بھی ہے۔‘‘
غصہ اور شک انسان کے دو بڑے دشمن ہیںان جذبات نے اب تک نہ
جانے کتنی ہنستی کھیلتی زندگیوں کو تباہ کیا ہے۔ اگر آدمی ایک مرتبہ شک کے مرض میںمبتلا
ہوجائے تو کوئی دوا اس مرض سے چھٹکارا نہیں دلا سکتی۔ پھر یہ شک رشتوںکو کھوکھلا بنا
دیتا ہے۔افسانہ ’شک ‘میں ڈاکٹر قمر جہاں نے ایک باصلاحیت بامروت۔نیک دل اور شریف النفس
عورت عندلیب کی ہنستی کھیلتی زندگی پر روشنی ڈالی ہے جس پر اس کا شوہر بے جا شک کرتا
ہے وہ اپنے کسی ہم پیشہ ساتھی سے بات کرتی ہے تو اس پر بد کرداری کے الزامات لگائے
جاتے ہیں نتیجتاً وہ ان طعنوں اور بے جا الزام تراشیوں سے پریشان ہو کر ذہنی مریض بن
جاتی ہے اور پھر ایک دن موت کے دامن میں پہنچ کر سکون کی نیند سوجاتی ہے۔
عورت کے خمیر میں وفاداری،ایمانداری، شرافت، دردمندی اور
رشتوں کو نبھانے کا ہنر بھی موجود رہتا ہے اور جب وہ کسی گھر میں بہو بن کر جاتی ہے
تو اپنی ہستی کومٹاکر رکھ دیتی ہے تاکہ اس کے سسرال والے حرف شکایت زبان پر نہ لاسکیں۔
افسانہ’میں خوش ہوں‘ کی پروین اپنے سسرال میں ہر کسی کے لیے ایک روبوٹ بن کر صرف حکم
ہی نہیں بجالاتی بلکہ اس بات کا بھی اسے خوب خیال ہے کہ کوئی ناراض نہ ہوجائے اس کردار
میں احساس بدرجہ اتم موجود ہے وہ مسلسل تکلیف سہتی رہتی ہے۔کسی سے گلہ کرنا جیسے اس
کی فطرت ہی نہیں۔آج کے اس ترقی یافتہ دور میں ایسی عورتوںکی مثالیں موجود ہیں جو اپنے
شوہرکے گھروالوں سے اس قدر اپنائیت کا مظاہرہ کرتی ہیں کہ پھر اپنی خواہشات،تمنائوں
کا گلا بار بار گھونٹ کر بھی خوش رہتی ہیں اور ہر کام کے لیے لبیک کہتی ہیں افسو س
کا مقام ہے کہ ان کے شریک زندگی ان کو کسی مشینی پرزے کی طرح استعمال کرتے چلے جاتے
ہیں۔
معروف نقاد ڈاکٹر شرف الدین ساحل اس مجموعے کے متعلق رقم
طرازہیں’’ ڈاکٹر قمر جہاں کے افسانے سماجی حقائق کے تناظر میں ہیں، ان کا تانا بانا
آئے دن رونما ہونے والے واقعات و حادثات سے تیار ہوا ہے۔ انھوں نے حسد،انتقام،عیاشی،ریاکاری،غرور
اور مفاد پرستی کے قبیح نتائج کو حسن وخوبی سے پیش کیا ہے۔ اس کتاب میں شامل افسانوں
میں زیادہ تر عورت کی اچھی اوربری نفسیات نظر آتی ہے جو ان کی زندگی کو مسرت وشادمانی
یا رنج و غم کے حوالے کر تی ہے۔‘‘
ازدواجی زندگی کو کامیاب بنانے کے لیے لازمی ہے کہ شوہر
اور بیوی دونوںایک دوسرے کے مزاج کو سمجھیں،صلح اور صبر سے کام لیں۔ اس میں دونوں کے والدین بھی بہت اہم کردار نبھاتے ہیں تاکہ کسی سے
خطا ہوتو اسے راہ راست پر لانے کی کوشش کریں۔ لیکن تصویر اس کے برعکس ہے۔والدین اپنے
بچوں کو کسی قیمت پر بھی نہ جھکنے کی تعلیم دے رہے ہیں۔ خصوصاً بیٹیوں کی مائیں انھیں
مردوں کے شانہ بہ شانہ ثابت کرنے کی ہوڑ میں اپنی بیٹیوںکو غلط تعلیم وتربیت دے کر
خود اپنے ہی ہاتھوں ان کی زندگی برباد کررہی ہیں جس کی وجہ سے شرح طلاق میں اضافہ ہورہا
ہے۔اس نازک مسئلے کو قمر جہاں نے افسانہ ’وہ نہیں میں‘ میں بیان کیا ہے۔جہاں بے جالاڈ
وپیار میں پلی بیٹی شادی کے بعد اپنے شوہر کی فرمانبرداری اور اس کے والدین کا احترام
نہیں کرتی اور اپنی والدہ کی شہ پر فہیم جیسے محبت کرنے والے شوہر سے محض اپنے غرور
و تکبر کی وجہ سے طلاق لے لیتی ہے۔فہیم کو دوسری بیوی اور بچے کی ساتھ خوش دیکھ کر
افسوس کرتے ہوئے کہتی ہے ’’میں نے طلاق لیتے وقت یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ مردوں کی
زندگی کے باغ جس قدر جلد اجڑ جاتے ہیں دوبارہ اتنے ہی جلد سنور بھی جاتے ہیں اس کے
برعکس عورتوں کی زندگی سے بہاریں جتنی جلدی رخصت ہوتی ہیں دوبارہ بہت آہستگی سے وہاں
آکر اپنا خیمہ تانتی ہیں۔‘‘
حسن ایک جادو ہے جو سب سے پہلے خوداس شخص پر ہوجاتا ہے جسے
یہ یقین ہوجائے کہ وہ دنیا میں سب سے زیادہ حسین ہے پھر وہ اپنی خوبصورتی کی قیمت لینا
چاہتا ہے اور شہرت کی اس بلندی پر جابیٹھنے کی خواہش میں سرگر م عمل رہتا ہے جہاں صرف
اور صرف وہ لوگ موجود ہوںجو اس کے حسن کے سحر میں گرفتار ہوجائیں۔ افسانہ ’شہرت‘ میں
خوشبو گائوں کی خوبصورت لڑکی ہے جس کا ناک نقشہ ذرا نکلتا ہواہے اسے ہیروئن بننے کی
تمنا ممبئی جیسے شہر میں پہنچادیتی ہے جہاںوہ دھوکے بازوں کا شکار بنتی چلی جاتی ہے۔
دردر کی ٹھوکریں کھانا اس کا مقدر بن جاتا ہے لیکن اسے اپنے خوابوں کی تعبیر نہیں مل
پاتی۔ گائوں میں سونو کی محبت کو ٹھکراکر وہ اپنے ارمانوں کی سیج سجانے نکل پڑتی ہے
لیکن آخر اس کا انجام یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک بار ڈانسر بن جاتی ہے پھر شدید بیمار رہنے سے گم نامی کی موت مرجاتی ہے۔
گلیمر کی چکاچوند ھ کردینے والی روشنی، کے پیچھے ایسی لڑکیاں گہرے اندھیروں میں ڈوب
جاتی ہیں اور پھر اپنے گھر والوں کو صورت بتانے کے لائق بھی نہیں رہتیں کیونکہ ان روشنیوں
کے راستے اکثر تنہائی، بے بسی، بے چارگی اور گمنائی کی گلیوں میں جاکر ختم ہوتے ہیں۔قمر
جہاں کے دونوں افسانو ی مجموعے نسوانی زندگی اور ان کے مسائل کو فنکارانہ طور پر پر
اثر انداز میں پیش کرتے ہیں۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ بہار کے افسانہ نگاروں میں قمر
جہاں ایک اہم نام ہے لیکن یہاں پر مہاراشٹر کی افسانہ نگار کا ذکر کیا گیاجو ان کی
ہم نام تھیں اور جو اب ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ودربھ کی افسانوی دنیا سے منفرد افسانہ
نگار ڈاکٹر قمر جہاں نے اپنے مضامین و افسانوں سے اردو ادب میں اضافہ ہی کیاہے۔ قمر
جہاں شہر ناگپور کے ا یل۔اے۔ڈی کالج میں شعبہ فارسی اوراردو کی صدر تھیں۔اس کالج میں
گریجوئٹ لیول تک لڑکیا ں تعلیم حاصل کرتی ہیں۔آپ ان لڑکیوں کی فکر میں رہتیںجو کالج
میں داخلہ نہیں لے پاتیںا ورا ن کی ہر حال میں مدد کرتیںتاکہ وہ اردو زبان پڑھیں سمجھیں۔
کالج میں جب کبھی مختلف ادبی پروگرام منعقد کرنے کا موقع آتا لڑکیوں کو ان میں حصہ
لینے کے لیے ترغیب دیتیں پھر چاہے وہ غزل سرائی کے مقابلے ہوں تقاریر یا تمثیلی مشاعرے
لڑکیوں کو ان سب کے لیے تیار کرنا اور ا ن کی حوصلہ افزائی کرنا انھیں خوب پسند تھا۔
آپ کے شریک حیات ڈاکٹر عباس علی ناگپور کے وسنت رائو نائک آرٹس اینڈ کامرس کالج میں
شعبہ عربی کے پروفیسر رہ چکے ہیں اور ریسرچ گائید بھی۔قمرجہاں نے مختلف سیمناروں میں
شرکت کی انھوں نے ایران کا سفر بھی کیا وہاں اپنے تحقیقی مضامین بھی پڑھے۔
ودربھ کا ایک اہم نام اشفاق احمد
ہے۔ آپ ہمہ جہت شخصیت کے مالک ہیں۔ آپ کی بیس سے زیادہ کتابیں منظر عام پر آچکی
ہیں۔ جن میں ادب اطفال، بچوں کے لیے کہانیاں،افسانے، دینی کتابیں افسانچے، منی افسانے
ودربھ میں ادب اطفال اور دیگر کتب شامل ہیں۔ آپ کا قلم بہت زیادہ متحر ک ہے۔ آپ نے
نئے نئے موضوعات پر خامہ فرسائی کی ہے۔ جب قاری اشفاق احمد کی تحریر کو پڑھتا ہے تو
پوری کتاب ختم کر کے ہی دم لیتا ہے۔ آپ نے اردو زبان کی اہم شخصیات کی کتابوں پر بھی
تبصرے لکھے جن میں ڈاکٹر آغا غیاث الرحمن کی کتاب ’ برار میں اردو زبان وادب کا ارتقا
‘ ڈاکٹر شرف الدین ساحل کی کتاب ’ ناگپور میں
اردو ‘ اور ڈاکٹر مہتاب عالم کی کتاب ’وسط ہند میں اردو‘ مناظر عاشق ہرگانوی کی کتاب
’اردو آٹو گراف‘ وغیرہ شامل ہیں۔
اشفاق احمد کی کتابیں جن میں افسانے اور منی افسانے شامل
ہیں ان میں ’یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے ‘
’ایک زخم اور سہی ‘ اور’ برجستہ ‘شامل
ہیں۔ مجموعہ ’ایک زخم اور سہی‘ میں اشفاق احمد افسانوں کے بارے میں کہتے ہیں،’’ایک
زخم اور سہی‘ میری کہانیوں کا دوسرا مجموعہ آپ کے ہاتھوں میں ہے۔اس سے قبل 1993 میں
میرا پہلا مجموعہ ’یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے ‘ شائع ہوا جس کی کہانیوں کو قارئین
نے خوب سراہا۔ انسانی زندگی میں بے شمار چھوٹے چھوٹے واقعات مسائل اور حادثات رونما
ہوتے ہیں انھیں بلاوجہ کھینچ تان کر طویل کرنے کی بجائے منی کہانی کے پیکر میں ڈھالنا
میرا محبوب مشغلہ رہا ہے۔ 1980 کے آس پاس
قلم سنبھالا تھا آج تک اسی راہ پر گامزن ہوں۔‘‘
آپ کے افسانوں میں معاشرے کی عکاسی واضح طور پر نظر آتی
ہے اور ان وجوہات کا بھی ذکر ملتا ہے جن سے ہماری قوم میں بگاڑ پیدا ہورہا ہے۔ ساتھ
ہی ساتھ وہ یہ بھی بتاتے ہیں کہ آج کے مشینی دور نے انسانوں کو بہت محدود کرکے رکھ
دیا ہے موجودہ دور کی اہم ضرورت منی افسانے بن گئے ہیں۔ اشفاق احمد کے دو مجموعے’ ایک
زخم اور سہی ہے اور بر جستہ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ آپ کا رجحان منی افسانوں
اور افسانچوں کی جانب بہت زیادہ ہیں۔ اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ان مجموعوں کا مطالعہ
گہرائی سے کرنے کے بعد قاری کو ایک سے بڑھ کر ایک منی افسانے پڑھنے کے لیے ملتے ہیں۔
جن میں زندگی کی سچائی، حالات کا کرب، آپسی رنجش رشتوں میں آئی ہوئی دراڑ انسانوں
کے درمیان خونی کھیل اور تعصب کی وہ آگ نظر آتی ہے کہ جس نے قارئین کو سوچنے پر مجبور
کر دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ منی افسانے اپنے آپ میں فکر و تحقیق کا وہ خزانہ
چھپائے ہوئے ہیں کہ ان منی افسانوں میں چھپے ہوئے پیغام میں حالات کا آئینہ صاف نظر
آتا ہے۔ یہ شہ پارے صرف سوچنے پر ہی مجبور نہیں کرتے بلکہ فکر وعمل کی بھی دعوت دیتے
ہیں۔ ان میں سیاست داں، پولیس، بھکاری، حسن و محبت کی فریب کاریاں، غریب شاعر، گاوں
کا ماحول، شہر کی گندگی،نمایاں چہروں کے پیچھے بسنے والا سچ، تہذیب کے نام پر استحصال
ان تمام باتوں کا علم ہوتا ہے۔
اشفاق احمد کے منی افسانوں میں ان کا فن خوب ابھر کر سامنے
آیا ہے،وہ یہ ہیں جن میں تبدیلی، سچ، ناخلف بیٹے، پس پردہ، نیا دکھ،وقت کی کروٹ، بہت
دیر کردی، ایک ہی کشتی کے سوار، نابینا مسافر، خوش حال گھرانے، پہلوں کا دکھ، اور حصے
کا رزق، جہیز کی آگ، مہلت، انا کی موت اور
قول و فعل ہیں۔
یہاں پر اشفاق احمد کا ایک منی افسانہ پیش کیا جارہا ہے۔’
خواہش‘ جس میں ایک لڑکی کا ڈرصاف صاف نظر آتا ہے لیکن بھائی کا لفظ آنے سے وہ اپنے
آپ کو حفاظت میں محسوس کرتی ہے۔
سنیے...!
جی...!
میں آپ سے ایک بات کہنا چاہتی
ہوں
کہیے...
لیکن مجھے ڈر لگ رہا ہے۔
ڈر... کس بات کا ڈر۔ مجھ جیسے انسان
سے ڈر... ارے میں تو تمہارے بڑے بھائی کی طرح ہوں۔ کہو نا...
نہیں اب میں وہ بات کبھی نہیں کہوں
گی۔
اشفاق احمد کا ایک افسانہ ’فرق‘
ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کیسے ایک ہی آفس میں دو بھائی کلرک ہونے کے باوجود معاشی
طور پر ان میں زمین و آسمان کا فرق موجود ہے۔
اشفاق احمد کے افسانوں اور منی
افسانوں کے تعلق سے ملک کے بڑے بڑے دانشور، نقاد اور افسانہ نگاروں نے اپنی آرا کا
اظہار کیا ہے جس میں انھو ں نے افسانہ نگار کے فن کو ہر طرح سے جانچا پر کھا اور اس
بات کاا شارہ دیا کہ آپ کے افسانے معاصر ادب کے لیے نہایت موضوع ہیں۔ آپ کے تخلیق
پاروں میں زندگی کو دیکھنے کا ایک منفرد زاویہ نگاہ موجود ہوتا ہے۔
شمس الرحمن فاروقی کہتے ہیں ’’مختصر افسانوں پر مشتمل آپ
کی کتاب’ ایک زخم اور سہی ‘ ملی بہت بہت شکریہ۔ میں نے منی افسانوں کو بہت دلچسپی سے
پڑھا۔ تمام افسانوں میں کوئی نہ کوئی سماجی پہلو ہے یا معاصر زندگی کی کسی تلخ حقیقت
پر نئی روشنی پڑتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ آپ کا یہ مجموعہ بہت کا میاب ہوگا۔‘‘
سلام بن رزاق کہتے ہیں ’’ایک زخم اور سہی کے سارے افسانچے
میں نے ایک نشست میں پڑھ لیے بعض افسانے بے حد خوبصورت بلکہ غزل کے شعر کی طرح مکمل
اور پر تاثر ہیں۔ ویسے ایک زخم اور سہی کے منی افسانوں میں تمہارے قلم کی انفرادیت
پوری شان سے موجود ہے۔ ‘‘
اشفاق احمد کو بڑے بڑے انعامات سے نوازا گیا جن میں مہاراشٹر،
اترپردیش اردو اکیڈمیز کے انعامات شامل ہیں، ساتھ ہی آپ کو پریم چند لیکھک پرسکار
سے بھی نوازا گیا اور مہاراشٹر دلت ساہتیہ اکادمی نے ڈاکٹر بابا صاحب امبیڈکر آدرش
شکشک ایوارڈ بھی تفویض کیا۔ اس کے علاوہ آپ کو اور بھی بہت سارے انعامات ملک بھر کی
سوسائٹیوں اور اکادمیوں نے پیش کیے۔ ساتھ ہی آپ مختلف ادبی محفلوں کے مدیر بھی رہے
ہیں۔ جن میں نقوش قدوائی، کہکشاں، شاہین،الفلاح، انجمن فلاح المسلمین وغیرہ شامل ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ اشفاق احمد نے مختلف سمیناروں اور ادبی اجلاس میں مقالات، کہانیاں
پڑھیں۔ نصابی کتب کی تیاری میں بال بھارتی پونے میں اردو کتابوں کی نظر ثانی کے اردو
ورکشاپ میں شریک ہوئے۔
آج اردو ادب کی یہ تین بڑی ہستیاں ،م۔ناگ، قمر جہاں اور
اشفاق احمد ہمارے درمیان نہیں رہیں،لیکن ان اہل قلم کی تخلیقات ہمارے ادب میں ہمیشہ
باقی رہیں گی۔
حوالہ جات
- غلط پتہ: م ناگ
- چوتھی سیٹ کا مسافر: م ناگ
- سبز شاخ:ڈاکٹر اشفاق احمد
- یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے: ڈاکٹر اشفاق احمد
- برجستہڈاکٹر اشفاق احمد
- زندگی تیرے لیے: ڈاکٹر قمر جہاں
- دھوپ چھائوں:ڈاکٹر قمر جہاں
- انشائیے کی روایت مشرق ومغرب کے تناظر میں:محمد اسد اللہ
- کار جہاں بینی:شریف احمد شریف
Assistant Professor & Head
Department of Urdu,
Seth Kesarimal Porwal College
Kamptee, Nagpur - 441 002 (MS)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں