3/5/23

ناول آگ کا دریا اور قدیم ہندوستان کی معنویت: محمد عامر

اردو ادب کی ممتاز فکشن نگار ’قرۃ العین حیدر‘ کا مشہور زمانہ ناول ’آگ کادریا‘ جو اپنے پلاٹ اور پھیلاؤ کی بدولت ہمیشہ بحث کا موضوع رہا ہے۔اس ناول کی عظمت کا اعتراف ہرادیب اور ناقد نے کیا ہے۔ ناول نگار نے  اس ناول میں ہندوستان کی ہزاروں برس  کی تاریخ اور تہذیب کو پیش کیا ہے۔ اس ناول کے مطالعے سے جہاں ہمیں قدیم ہندوستان کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، وہیں اس بات کا بھی علم ہوتا ہے کہ موجودہ ہندوستان کی سائیکی کی جڑیں اسی قدیم ہندوستان میں پیوست ہیں۔ اگر ہم ناول ’آگ کا دریا‘ کا بغور مطالعہ کریں تو ہمیں اس بات کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ ناول نگار ’قرۃ العین حیدر‘  نے کس محنت اور جانفشانی سے قدیم ہندوستان اور اس کے فلسفے کو سمجھاا ور  پیش کیا ہے۔ ناول کے مطالعے سے ناول نگار کے اس والہانہ عشق کا پتہ چلتا ہے جو انھیں ہندوستانی درشن / فلاسفی سے ہے۔

ایک سو ایک ابواب پر مشتمل اس ناول کو بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جو تین مختلف قسم کی تہذیبوں کی نمائندگی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور یہ تین مختلف تہذیبیں جب باہم ملتی ہیں تو موجودہ ہندوستان کی تشکیل ہوتی ہے۔موجودہ ہندوستانی سائیکی میں جس فلسفے کی کارفرمائی ہے اس کابیان ناول نگار نے شروع کے ابواب ایک سے سولہ تک میں مفصل  طور پر کیا ہے اور انھیں ابواب کے سہارے ناول ’آگ کا دریا‘ اپنی  آگے کی منزلیں طے کرتا ہے۔یہ حصے  ناول کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

 ناول کے اس پہلے حصے کا تعلق ’شراوستی‘ اور ’پاٹلی پتر‘ سے ہے۔ شراوستی ہندوستان کے صوبہ اتر پردیش کا سب سے شمالی ضلع ہے جبکہ پاٹلی پتر کا نام تبدیل کرکے پٹنہ کر دیا گیاہے جو کہ ہندوستان کے صوبہ بہار کی موجودہ راجدھانی ہے۔یہ دونوں شہر اپنی قدامت اور روحانیت کے لیے  تمام دنیا میں مشہور و معروف ہیں۔ شراوستی جہاں ’گوتم بدھ‘ کو عظیم ریاضت کے بعد گیان ملا،ا پنا ایک الگ مقام رکھتا ہے۔ شراوستی سے امن، پیار، محبت کی ایسی روشنی پھیلی کہ اشوک جیسا عظیم حکمراں جب کلنگ کی جنگ اور اس کی ہولناکیوں سے گھبرا گیا تو اسے صرف بدھ کی پیروی میں ہی سکون نصیب ہوا۔بدھ  کے امن کے فلسفے نے جنگوں سے تباہ حال انسانوں کو پھر سے جینے کے قرینے سکھائے اور دیکھتے ہی دیکھتے  ان کی تعلیمات تمام بر اعظم ایشیا میں پھیل گئیں۔ بدھ کی تعلیمات کا ایسا اثر ہوا کہ ایک لمبے عرصے تک عوام الناس جنگ کی تباہی اور بربادی سے محفوظ رہی۔  

گوتم نیلمبر جو ناول کا پہلا کردار ہے اور قدیم ہندوستان کی نمائندگی کرتا ہے وہ  شراوستی کے  ایک پنڈت گھر انے میں پیدا ہواتھا۔  شرواستی  کے ہی ایک آشرم میں اس کی تعلیم کا بندوبست کیا جاتا ہے۔ آشرم میں تعلیم  حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اسے گاؤں گاؤں جاکر دال چاول بھی مانگ کر لانا پڑتا ہے۔ایک دن جب وہ بھیک مانگنے کے سلسلے میں شراوستی سے  دور ایودھیا نکل جاتا ہے۔ گوتم نیلمبر ایک دولت مند گھرانے کا چشم و چراغ تھا لیکن آشرم کی تعلیم کا یہی اصول تھا کہ کھانے کے لیے بھیک مانگ کر لایا جائے تاکہ انسان کے اندر جو عظیم المرتبت ہونے کا غرور ہے اس کا خاتمہ ہوسکے۔ ایودھیا سے لوٹتے وقت رات ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ سریو ندی کے کنارے ایک مندر کی دیوار کے سائے میں سو نے کے لیے لیٹ جاتا ہے۔لیٹے لیٹے اسے پتہ چلتا ہے کہ پاس میں کوئی اور شخص بھی لیٹا ہوا ہے۔ دوسرے لیٹے ہوئے شخص کا نام ہری شنکر ہے۔

ہری شنکر ناول کے پہلے حصے کا بہت ہی اہم کردار ہے۔یہی وہ کردار ہے جو گوتم نیلمبر کو دنیا جہان کی باتیں بتاتا ہے۔ ہری شنکر نے تکسِشلا سے اپنی تعلیم مکمل کی تھی۔ اس  نے ادب، فلسفہ، ریاضی، قانون اور طبیعیات کی تعلیم حاصل کی لیکن ریاضی، قانون اور طبیعیات میں اسے مہارت حاصل تھی۔ہری شنکر اور گوتم نیلمبر کے مابین ہونے والی گفتگو ہی دراصل قدیم ہندوستان ہے۔ تاریخ، جغرافیہ، فلسفہ، مذہب اور ادب ہے۔ غرض ہم کہہ سکتے ہیں کہ ناول نگار نے ان مکالموں میں اتنی معنویت، گیرائی اور گہرائی رکھی ہے کہ جس میں قدیم ہندوستان کے ہر روپ کو دیکھا جا سکتا ہے۔ گوتم کے پوچھنے پر کہ کیا وہ کشن واسو دیو کا بھکت ہے تو ہری شنکر اسے بتاتا ہے کہ وہ اس جگہ سے آرہا ہے جہاں شیو کی عبادت کی جاتی ہے۔ہری شنکر گوتم کو بتاتا ہے کہ اس نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد بہت ساری جگہوں کی سیر کی۔وہ بتاتا ہے کہ اس نے اپار سمندر کے کنارے دوارکا کے درشن کیے۔ وہ متھرا گیا۔ برہم دت میں ہستنا پور کے کھنڈر دیکھے۔ہری شنکرکی باتوں سے گوتم بہت مرعوب ہوتا ہے۔ ہری شنکر بودھ مذہب کا ماننے والا تھا جب کہ گوتم نیلمبر ایک پنڈت تھا لیکن پنڈت ہونے کے باوجود  وہ اپنے سماج  کی تنقید کیا کرتا تھا۔یہی سبب تھا کہ جب ہری شنکر  اس سے   پوچھتا ہے کہ کیا وہ کاشی میں تعلیم حاصل کر رہا ہے تو گوتم بتاتا ہے کہ نہیں وہ شراوستی میں ہی تعلیم حاصل کر رہا ہے کیونکہ کاشی کی پاٹھ شالہ تو صرف مہا پنڈت تیار کرتی ہے۔ گوتم کے اس جواب سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پنڈت نہیں بننا چاہتا تھا۔گوتم ہری شنکر سے پوچھتا ہے کہ کیا اسے ناٹک میں دلچسپی ہے؟ ہری شنکر اسے بتاتا ہے کہ اسے پہلے ناٹک میں دلچسپی تھی لیکن اب نہیں ہے۔گوتم اسے بتاتا ہے کہ تین سو سال پہلے تمہارے تکسشلامیں ایک شخص گزرا ہے جس کا نام پاننی تھا۔ اس نے الفاظ کے اسرا ر کی ایک نئی کائنات دریافت کی تھی۔ دونوں کے مابین لفظوں  کے رموز واوقاف کو لے کر کافی باتیں ہوتی ہیں۔ ہری شنکر کا ماننا تھا کہ اب ہمیں الفاظ اور آوازوں کا رمز چھوڑ دینا چاہیے جبکہ گوتم کا کہنا تھا کہ اوم کے تین حرفوں  اور ساپاسا کے تین سُروں کے درمیان  تو کائنات کا سارا وجود بندھا ہوا ہے۔ آواز آکاش کا ایک گن ہے۔ گوتم ہری شنکر سے کہتا ہے کہ وہ کیسا فلسفی ہے جو الفاظ میں یقین نہیں رکھتا۔ پاننی، تمھارے تکسشِلا کے استاد نے کہاتھا  اپنے یا دوسروں کے خیالات کے مظاہر صرف خیالات ہی ہو سکتے ہیں۔ ان کی ماہیت کا مطالعہ کرنا کس قدر ضروری ہے۔ الفاظ کے راستے کے بنا خالص خیال تک کیسے پہنچ پاؤگے؟ آواز الفاظ کا پراکِرتک گُن ہے۔ اور مادہ ابدی ہے۔ وید زبان کی شکل میں برہما ہے۔ اور مادہ برہما ہے۔ ہری شنکر  گوتم کے لفظ کی ابدیت کے خیال سے اتفاق نہیں کرتا۔ اس کا ماننا ہے کہ لفظ اور آواز وقتی چیزیں ہیں جب کہ سُر ہمیشہ باقی رہیں گے۔

گوتم نیلمبر اور ہری شنکر کے درمیان ہونے والی گفتگو دراصل ایک ایسا بیانیہ ہے جس کے توسط سے ناول نگا ر نے  اس زمانے کے حالات، سائیکی، تہذیب و تمدن  کو پیش کیا ہے۔ اور ساتھ ہی منظر نگاری میں بھی اپنے فن کا لوہا  منو ایا  ہے۔ الفاظ کا انتخاب   اور جملوں کا  تسلسل اتنا سحر انگیز ہے کہ جن  کے پڑھنے سے ہم  قدیم ہندوستان کی جادوئی دنیا میں کھوتے چلے جاتے ہیں۔ شہروں کی منظر نگاری  اس طرح سے کی گئی ہے کہ اس میں تاریخی اور مذہبی رنگ بھی سما گیا ہے۔ جیسے ہری شنکر جب ایودھیا شہر کا ذکر کرتا ہے تو ایسا لگتا ہے پوری ایک جیتی جاگتی تہذیب ہماری نظروں کے سامنے رقصاں ہوگئی ہو۔ ملاحظہ ہو

’’مقدس سرجُو—رِگ وید میں بہنے والی ندی— میری ماں—جانے کب تک اسی طرح بہتی رہے گی—سامنے میرا شہر ہے۔خوبصورت۔ شاندار ایودھیا۔ کتنے زمانے سے اسی  جگہ پر یوں ہی راتوں کو جگمگاتا رہا ہے۔ کتنے جُگ  بیت گئے جب منو کا بیٹا اس کا پہلا بادشاہ بنا تھا اور شیو بھگت بھاگیرت اور ڈِگ وجے(فاتح عالم) رام چندر۔ایودھیا۔ اج کا۔ برہما کا شہر۔ جسے کوئی جیت نہیں سکا۔ تم نے کبھی اس نگری کے رقاصوں اور سنگیت کاروں کو دیکھا ہے؟یہاں کے ناچوں میں شامل ہوئے ہو؟ راج محل میں بسنت کا تہوار منایا ہے؟ یہیں پر چمپک رہتی ہے اور یہیں پر  میرے گھر والے  اور میری بہن میرے منتظر ہیں—جس طرح سری کرشن کو اپنی بہن سبھدراپیاری تھی ویسے ہی میں اپنی بہن کو عزیز رکھتا تھا۔ مگر میں نے اس کی محبت کو دوسری محبتوں اور وفاداریوں کے ساتھ دل سے نکال پھینکا  اورپھر اودھ  لوٹ آیا— رام نے چودہ برس کے بن باس کے بعد لوٹنے کا وچن دیا تھا۔ میں بھی واپس آیا ہوں مگر سدھارتھ نے مجھے وعدوں کے بندھن سے بھی  آزاد کر دیا ہے—میری بہن – رام چندر کی بہن شانتا کی ایسی خوبصورت اور معصوم ہے اور لوگ کہتے تھے کہ اسی ایودھیا میں جس طرح ڈیڑھ ہزار سال قبل شانتا اور سیتا کی جوڑی تھی ایسے  ہی نرملا اور چمپک چاند اور سورج کی مانند جگمگاتی ہیں۔‘‘

(آگ کا دریا:قرۃ العین حیدر، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی، 2012، ص 52)

 ناول نگار قرۃالعین حیدر کو منظر نگاری کے فن میں ملکہ حاصل ہے۔ وہ جس شے کی منظر کشی کرتی ہیں ہو بہو مجسم تصویر بنا دیتی ہیں۔ یہاں انھوں نے ایودھیا شہر کا منظر کھینچا ہے۔ ان کا انداز اور لفظوںکا انتخاب اتنا مکمل ہوتا ہے کہ ایک لفظ گھٹا نے یا بڑھانے کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے۔اردو ہندی کی ساجھی وراثت اگر کسی ناول نگار کے یہاںبدرجۂ اتم موجود ہے تو وہ قرۃالعین حیدر کی ذات ہے۔مندرجہ بالا اقتباس میں جہاں ناول نگار نے ایودھیا شہر کی منظر کشی کی ہے وہیں اس کے تاریخی پس منظر کو بھی بہ حسن و خوبی بیان کیا ہے۔ان تاریخی واقعات کے سہارے مصنفہ نے قدیم ہندوستان کی عظیم الشان حکومت، رسم و رواج اور طور طریقوں کو بڑی فنکاری سے پیش کیا ہے۔

ایودھیا شہر کی اتنی خوبصورت عکاسی کی گئی ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔ ایک پورا جیتا جاگتا شہر آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔  ایودھیاشہر کی عکاسی صرف منظر نگاری تک محدود  نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ہیں تہذیب و  ثقافت کو بھی سمو دیا گیا ہے۔ اسی طرح جب شراوستی شہر کا  بیان کرتی ہیں تو  ان کے تخیل کی بلندی اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ ایک ایک کونہ اور ایک ایک سِرے کی عکاسی  بڑی خوبی سے کی گئی ہے۔

’’شراوستی کا شہر بہت گنجان اور بارونق تھا، دور دور کے دیشوں سے آئے ہوئے لوگ  یہاں رہتے تھے۔ الگ الگ محلوں میں کاریگر، سُنار بزاز، آڑھتی اور دوسری پیشہ ور جماعتیں آباد تھیں۔ ان کی اپنی اپنی منڈلیاں تھیں اپنے اپنے قوانین۔ چوروں تک کی منڈلی مع ایک باضابطہ شاستر کے موجود تھی۔ بارہ مہینے چہل پہل رہتی۔ ہمیشہ کوئی نہ کوئی تہوار منایا جاتا۔ہر شخص اپنے اپنے کام  میں منہمک تھا۔ مصوروں اور سنگ تراشوں کی ٹولیاں نگار خانوں میں مصروف رہتیں۔ ناٹک منڈلی میں صبح سے کھیل شروع ہو جاتا اور دن بھر جاری رہتا۔ناٹک اور ناٹکائیں زرق برق کپڑے پہنے،چہروں پر روغن لگائے مشہور تمثیلیں پیش کرتیں۔ چوراہوں پر مداری اپنے کرتب دکھلاتے،بھنگ کی دکانوں پر آوارہ گردوں، اچکوں اور ٹھگوں کا مجمع رہتا۔ تہواروں کے موقعے پربنجارے تاڑی پی کر زور زور سے گاتے پھرتے۔ڈوم نقلیں کرتے۔دیش ناریاں چھن چھن کرتی اپنی انگلیوں میں ٹہلتیں۔ امیر زادیاں سولہ سنگار کیے تھالیوں میں گھی کے چراغ جلائے مندروں کی اور جاتی نظر آتیں۔ عود اور لوبان کی خوشبو سے فضا بوجھل ہوجاتی۔‘‘ (ایضاً، ص 92)

شراوستی شہرجو مذہبی اور ثقافتی رواداری کی وجہ سے اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے اور اسی رواداری کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہورو معروف بھی ہے۔ یہ شہر زمانۂ قدیم سے موجودہ دور تک قائم وآباد ہے۔ اس شہر سے ہندوستانیوں کو آج بھی والہانہ لگاؤ ہے۔ ناول نگار نے شراوستی میں ہندوستانی سماج کے ہر طبقے کولاجمع کیا ہے۔یہاں ناول نگار نے کاریگر، سنار، بزاز، آڑھتی، مصور، سنگ تراش، نوٹنکی، مداری، ٹھگ، بنجارہ، ڈوم، امیر وغریب وغیرہ غرض کہ ہر طبقے کی نمائندگی کو پیش کرنے کی سعی کی ہے۔کوشلوں کے دور حکومت میں یہ شہر ان کی راجدھانی تھا جس کی وجہ سے اس کو بننے اور سنورنے کا خاص موقع ملا۔مہاتما بدھ نے بھی اپنی زندگی کا ایک خاص حصہ اسی شہر میں بسر کیا۔جس کی وجہ سے اس کی مذہبی اہمیت میں اور اضافہ ہو جاتا ہے۔ 

اب ہم  یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ کیسے ناول نگار نے ایک تسلسل کے ساتھ ان واقعات اور خیالات کو ایک لڑی میں پرو دیا ہے جن سے مل کر موجودہ ہندوستان کی سائیکی کی تشکیل ہوتی ہے۔ ان  واقعات،اصولوں اور فلسفیانہ جملوں کو یکے بعد دیگرے قلم بند کیا جاتا ہے تاکہ قارئین کو اس قدیم ہندوستان کی عظمت کا احساس ہو سکے۔ وہ ہندوستانی عظمت جس کو ناول نگار پیش کرنا چاہتاہے۔ ملاحظہ ہو:

’’اب شاکیہ منی  بھی خالص اسی کوشل دیش کے رہنے والے تھے۔وہ بھی شراوستی آکر برسوں رہے۔ انھیں پری نروان حاصل  کیے ابھی زیادہ مدت نہیں گزری تھی مگر سارا ملک ایک نئے نارنجی رنگ میں رنگتا جا رہا تھا۔‘‘ (ایضاً، ص 42)

’’لیکن.....گوتم نیلمبر ہری شنکر کی بات کاٹی۔لیکن اوم کے تین حرفوں اور ساپاسا کے تین سُروں کے درمیان...  تو  کائنات کا سارا وجود بندھا ہوا ہے۔ آواز آکاش کا ایک گُن ہے۔‘‘(ایضاً، ص 62)

’’تم کیسے فلسفی ہو  جوالفاظ میں یقین نہیں رکھتے۔‘‘

(ایضاً، ص 72)

’’  علّیت کا قانون بجائے خود مکمل ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 33)

’’میں... میں تو پکھتاؤں  کے دیس میں رہا ہوں جہاں اتر  کے نیلی آنکھوں والا سفید فام  ولایتی شیو  کی عبادت کرتے ہیں۔ میں نے ایراویتی  اور چندربھاگ  کی  وادیوں   کی سیر کی ہے۔ میں سندھو کی لہروں پر تیرا ہوں۔ پورب میں دنگا تک گیا ہوں۔میں نے برہم پتر اور سدر بن اور چندرادیپ کی دلدلوں میں جنگلی دھان اگتے دیکھے ہیں جہاں سیاہ لباس پہنے  لمبے بال کندھوں پر جھٹکائے مرگ نینی لڑکیاں ہرے بانس کے جھنڈوں میں  رہتی ہیں اورپریوں کی طرح گاتی  رہتی ہیں۔(ایضاً، ص 43)

’’اپنشدوں میں لکھا ہے کہ کائنات آزادی میں پیدا ہوئی، آزادی میں موجود رہتی ہے اور آزادی میں سمو جاتی ہے۔‘‘(ایضاً، ص 63)

’’برہمچاریہ کی زندگی بسر کرکے لڑکیاں پھر اکثر اعلی تعلیم حاصل کرتیں۔ رگ وید کی کئی نظمیں اور راہبات کے نغمے لڑکیوں نے لکھے تھے۔ شاعرہ اپالا کی نظمیں گوتم نے پڑھی تھیں۔‘‘ (ایضاً، ص 83)

’’سبھی طالب علم اسی طرح گرو کے طابع تھے۔ بعض بعض مرتبہ گرو کے لیے اپنی جان پر کھیل جاتے۔ بھیک مانگ کر سب سے پہلے گرو کو لاکر دیتے اور اکثر خود بھوکے رہ جاتے۔ طالب علم کو حکم تھا کہ وہ ذات اور نسل کے غرور اور شہرت اور نیند کی تمنا سے دور رہے۔‘‘(ایضاً، ص 93)

ناول نگار قرۃالعین حیدر کو ہندوستانی اساطیر کے بیان میں کافی مہارت حاصل ہے۔ساتھ میں ہی وہ اردو ناول نگاری کی روایت میں ایک ایسا مقام رکھتی ہیں جن کو ہندوستانی سائیکی کی جڑیں ماضی بعید کے کھنڈروں میں پیوست نظر آتی ہیں۔ یہ درست بھی ہے کہ آج بھی ہندوستانی سماج، اس میں بسنے والے لوگ، ان کے سوچنے کا اندازاور ان کے روزمرہ کے عادات و اطوار بھی اُسی ماضی میں پیوست ہیں جن کو ناول نگار نے اپنے ناول ــ’آگ کا دریا‘میں بڑی محنت اور جاںفشانی سے صفحۂ قرطاس پر ناول کے روپ میں بکھیرنے کی کوشش کی ہے۔مندرجہ ذیل اقوال سے ہمیں جہاں قدیم ہندوستان کو سمجھنے میں مدد ملتی ہیـ؛ وہیں ناول نگار کی ریاضت ، وسیع مطالعہ اور تاریخ و جغرافیہ پر دسترس کا بھی پتہ چلتا ہے۔ملاحظہ ہو:

’’مہابھارت اور منودونوں کے نزدیک حکومت کا سخت  گیر ہونا  لازمی تھا کیونکہ انسان فطرتاً بد تھا۔ عوام کا فرض تھاکہ  وہ اپنے ورن کے لحاظ سے اپنا فرض ادا کریں۔‘‘(ایضاً، ص 64)

’’مگدھ میں ان دنوں میں نندوں کی حکومت تھی جو خدائے دولت کُبیر سے بھی زیادہ امیر تھے۔‘‘(ایضاً، ص 15)

’’زندگی کی ندی پر پُل بنانے والا چوبیسواں مہاویر جو ویشالی کے کند گرام میں پیدا ہوا  اہنسا کی تلقین کرتا سارے دیش میں گھما— اور پھر دورونگا کے  گھنے جنگلوں کی طرف نکل گیا۔کپلاوستی کے لمبنی گرام میں پیدا ہونے والا سدھارتھ جو گریوج کی سبز پہاڑیوں پر چلا۔ نرنجن ندی میں نہایا۔ پیپل کے درخت کے سائے میں جسے گیان حاصل ہوا۔ شراوستی اور کاشی کے باغوں میں، جہاں ہرن کلیلیں بھرتے تھے، اس نے وعظ کہے اور جو کوسی نگر میں مرا۔‘‘ (ایضاً، ص 25)

’’جنگ عظیم آج سے سیکڑوں برس قبل کوروکشیتر میں لڑی گئی تھی اور ہستنا پور کے  ان بہادروں کے قصّے، جنہوں نے دروپدی سے بیاہ رچانے کے بعد اندرپرستھ  کا ایسا خوبصورت شہر آباد کیا تھا، گانے والے وینا  اور مرِدنگ بجا بجا کر گاؤں گاؤں سناتے پھرتے تھے۔‘‘

(ایضاً، ص 95)

 قرۃ العین حیدر کو اپنے ماضی سے بہت لگاؤتھا اور انھوں نے اپنے ناولوں میں ہندوستانی تہذیب کو عمدہ طریقے سے پیش بھی کیا ہے۔ان کے ناولوں کے اسالیب اور لفظوں کا انتخاب بھی اس بات کے شاہد ہیں۔ وہ خود لکھتی ہیں کہ:

I am intensly intrested in my past.

’’میرا ذاتی ماضی نہیں یا صرف میرے خاندان کا ماضی نہیں بلکہ مجھے پورے ماضی سے دلچسپی ہے۔ میں تاریخ میں،  ماضی میں Involve  ہوں بہت زیادہ اگر مجھے موقع ملے تو  میں موہن جوداڑو کے بارے میں لکھوں۔‘‘

I  would like  to go back  and back and back.

ناول’آگ کا دریا‘ میں بہت ساری جنگوں کا باقاعدہ ذکر ہوا۔ یہ  جنگیں سرسری انداز میں بیان نہیں ہوئی ہیں  بلکہ ایک  مکمل تاریخ کے طور پر بیان ہوئی ہیں لیکن ان سے قطع نظر ہمیں یہاں صرف ایسے   واقعات سے غرض ہے جو موجودہ ہندوستانی سائیکی کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

بقول شمیم حنفی

’’قرۃ العین  حیدر نے کم و بیش ان تمام تہذیبوں کو  ایک نئی استعاراتی جہت دی ہے جو تاریخ کے مختلف زمانوں میں ابھریں اور ڈوبیں، مگر ڈوبنے کے بعد بھی  وقت کی بساط پر ان کی آمدورفت کے نشانات دکھائی دیتے ہیں۔ برّ صغیر ہندوپاک کی تاریخ کے حساب سے دیکھا جائے تو تقسیم کے پہلے کے پانچ ہزار  برسوں سے لے کر بنگلہ دیش کے قیام تک اور ایک خاندان کے قصے سے لے کر ایک وسیع اور کثیر الجہات اجتماعی کلچر کے بناؤ اور بگاڑ تک قرۃ العین  حیدر نے شخصی اور اجتماعی تاریخ کے تقریباً تمام اہم واقعات کو رجسٹر کیا ہے۔‘‘

(ماہنامہ آجکل نئی دہلی، اگست 1990، جلد 49، شمارہ 1، ص 10)

اگر سیاسی طور پر دیکھا جائے تو قدیم ہندوستان میں بھی  حکومتوں  اور شہنشاہوں کے جاہ و جلال  کے عکس دیکھنے کو ملتے ہیں اور جیسے جیسے وقت گزرتا جاتا ہے ان   کی جاہ  و حشمت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ ناول آگ کا دریا میں ان حکومتوں کے آغاز اور انجام سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ ناول کے شروعاتی دور میں ان بادشاہوں کا ذکر کثرت سے ملتا ہے جن کے دست شفقت میں مختلف مکتب ہائے فکر کو اپنے خیالات کی ترویج واشاعت میں مدد ملتی ہے۔ ناول کا پہلا حصہ جس کا تعلق  قدیم ہندوستان سے ہے سیاسی طور پر اس کا آغاز ویدک تہذیب سے ہوتا ہے اور اختتام چندر گپت موریہ کے عہد میں ہوتا ہے۔ اس دور کو شراوستی سے لے کر ایودھیا تک کے وسیع و عریض  علاقے تک پھیلایا گیا ہے۔ ناول نگار چونکہ قدیم ہندوستان کے ان پہلوؤں کو دکھانا چاہتی تھی جن کا تعلق مثبت پہلوؤں سے تھا۔ اس لیے اس نے تما م ان واقعات سے تہی دامنی اختیار کی جو کسی بھی قسم کے منفی اثرات کا باعث بن  سکتے تھے۔

ناول ’آگ کا دریا‘ کے حوالے سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اردو ادب میں لکھا گیا ایک ایسا ناول ہے جس  کے پلاٹ کا پھیلاؤصدیوں پر محیط ہے اور  اردو  کا کوئی دوسرا ناول اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ جو بات نکل کر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس ناول میں جہاں مختلف  قسم کے سماج  اور اس سماج میں رہنے والوں کی نمائندگی دیکھنے کو ملتی ہے۔ اس میں ایک بات ضرور ہے کہ ناول نگار نے کسانوں کے حالات و کوائف کی نمائندگی کرنے والا کوئی کردار نہیں خلق کیا جس کا احساس باربار ہوتا ہے۔  چونکہ قدیم ہندوستان میں کھیتی کرنا اور جانور پالنا عوام کا اہم ترین پیشہ تھا  اس لیے ضروری تھا کہ اس کا عکس ناول میں جگہ جگہ دیکھنے کو ملتا ، لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔اس کے باوجود ناول ’آگ کا دریا‘ اردو ادب کا ایک ایسا شاہکار ناول ہے جس کی مثال اردو ادب کے علاوہ دنیا کی دوسری عظیم زبانوں میں بھی مشکل سے دیکھنے کو ملتی ہے۔

Mohd Amir

Research Scholar, Dept of Urdu
BHU,
Varanasi- 221005 (UP(
Mob.: 9208147549

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں