27/4/23

اردو میں ادب اطفال: آمنہ فاروقی

یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ خاندان، قوم اور ملک کے روشن مستقبل کا انحصار بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت پر ہوتا ہے۔آج کا بچہ کل کا شہری ہے،اس لحاظ سے بچے ’قومی امانت ‘ ہوتے ہیں اور اس امانت کا تحفظ معاشرے کے ہر فرد کی ذمے داری ہے۔یہ ذمے داری تقاضا کرتی ہے کہ معاشرے،قوم وملک کا مفید خادم بنانے کے لیے اس کی جسمانی نشوونما کے ساتھ اس کی عمدہ ذہنی تربیت اور شخصیت کی متوازن نشوونما پر بھی توجہ دی جائے۔اس مقصد کے حصول میں ’ادب ‘ ایک اہم اور مؤثر وسیلہ ثابت ہوا ہے، مگر افسوس کہ ہم نے اس ’مؤثروسیلے ‘ کو اتنی اہمیت نہیں دی جتنی اسے دینا چاہیے تھی۔ ہمارے اکثر ادیبوں، ناقدوں اور محققین نے ادب ِ اطفال سے بے اعتنائی بر تی اور اسے بچکانہ سمجھ کر نظر انداز کرنے کی کوشش کی۔

بڑے بڑے ادیبوں اور شاعروں نے بچوں کے لیے لکھنا کسرِ شان سمجھا۔ اسی بے اعتنائی کا نتیجہ ہے کہ اردو میں بچوں کے ادب کا سرمایہ کیا کیفیت اور کیا کمیت دونوں اعتبار سے ناقص و کمزور ہے۔ یا یو ں کہا جا سکتا ہے کہ ادب اطفال کا کو ئی معیا ر مقر رنہیں ہو سکا۔ بیشتر ایسا سرمایہ ہے جن میں بچوں کی نفسیات، ان کی ذہنی سطح، ان کی ضرورتوں اور دلچسپیوں کا مطلق خیال نہیں رکھا گیا۔ یہ اردو کی ٹریجڈی ہے کہ جس ادب پر اردو زبان کی بقاء اور بچوں کے مستقبل کا انحصار ہے اسی کو ہم نے اکثر نظر انداز کیا ہے۔ مقام شکر ہے کہ گزشتہ چند برسوں میں ہمارے ادیبوں، شاعروں،نقادوں اور محققین نے اس ادب پر توجہ دینا شروع کیا ہے۔

بچوں کی طرح ان کا ادب بھی بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ادبِ اطفال کے اثرات دیر پا اور ہمہ گیر ہوتے ہیں۔ یہ نہ صرف بچوں کی مسرت میں اضافہ کرتا ہے،بلکہ ان کے اعمال و اقدار پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ ان کے کردار کی تخلیق میں ادب ہی اہم  ترین کردار ادا کرتا ہے۔ اردو میں بچوں کے ادب کا جائزہ لینے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ بچوں کا ادب کسے کہتے ہیں؟  ایک عرصے تک بچے کی شخصیت نظر انداز کی جاتی رہی ہے لیکن نفسیاتی تحقیقات و انکشافات سے یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ

’’بچہ ایک جامد تختی نہیں بلکہ ایک زندہ متحرک اور باشعور ہستی ہے ‘‘    1

بچوں کی اپنی ایک الگ دنیا ہوتی ہے،ان کی اپنی پسند اور ناپسند ہوتی ہے، ان کی اپنی ضرورتیں اور دلچسپیاں، احساسات، سوجھ بوجھ، شعور اور عادتوں میں تبدیلیاں ہوتی جاتی ہیں۔ غرض بچوں کے شعور احساس اور فہم و ادراک کی دنیا بڑوں سے بالکل الگ ہوتی ہے اس لیے

’’وہ ادب جس کے ذریعے بچوں کی دلچسپی اور شوق کی تسکین ہو اور جو مختلف عمر کے بچوں کی نفسیات، ضرورتوں، دلچسپیوں، میلانات اور ان کی فہم وادراک کی قوت کو پیش نظر رکھ کر تخلیق کیا گیا ہو صحیح معنوں میں ’بچوں کا ادب ‘ کہلانے کا مستحق ہے۔‘‘   2

اس اعتبار سے جب ہم اردو میں بچوں کے ادب کا جائزہ لیتے ہیں تو بہت مایوسی ہوتی ہے۔ معیاری ادب کی کمی کا یہ نتیجہ ہے کہ بچوں کی صحیح ڈھنگ سے ہمہ جہتی نشوونما نہیں ہوپارہی ہے۔ خواندگی اور اکتساب علم کے ابتدائی مراحل میں بچوں کے لیے زائد از نصاب لٹریچر بے حد ضروری ہے۔اس لٹریچر کی بدولت جہاں مطلوبہ لسانی مہارتوں کا حصول سہل ہوتا ہے،وہاں اس سے ان کی ذہنی و جذباتی نشوونما میں بھی بڑی مدد ملتی ہے اور تعلیم کے اعلیٰ مراحل طے کرنے میں آسانی پیدا ہوجاتی ہے۔

اردو میں ادب ِاطفال کی ابتدا اور نشوونما شاعری ہی سے ہوئی اور دکنی دور نیز شمالی ہند کے ابتدائی دور میں بچوں کے ادب کے تحت منظومات کا ہی اضافہ ہوتا رہا۔ نثر میں اٹھارہویں صدی کے اواخر تک کوئی قابل ذکر تصنیف ایسی نہیں ملتی جس کو ہم بچوں کے ادب سے تعبیر کر سکیں۔  پروفیسر مظفر حنفی کی تحقیق کے مطابق1793 میں سب سے پہلے لکھنؤ کے اِنشاء اللہ خاں اِنشا نے بچوں کے لیے نثری تصنیف ’رانی کیتکی کی کہانی ‘ پیش کی۔بقول ڈاکٹر مظفر حنفی

’’ اِنشاء اللہ خاں اِنشا کی یہ کہانی نہ صرف بچوں کے لیے سب سے پہلی نثری کہانی ہے،بلکہ ہندی اور اردو دونوں کے افسانوی ادب (Fiction)کی ابتدا ہی اِنشاء اللہ خاں اِنشا کی اس تخلیق سے ہوتی ہے اور اس کو بچوں کے ادب کا سنگِ بنیاد کہا جاسکتا ہے۔‘‘  3

مولانا الطاف حسین حالی ،علامہ شبلی،اسماعیل میرٹھی، نذیر احمد دہلوی، سورج نارائن مہراور محمد حسین آزاد نے بچوں کے لیے خوب لکھا۔ ڈپٹی نذیر احمد دہلوی اور الطاف حسین حالی  پہلے بزرگ ہیں جنھوں نے قصّے کو باقاعدہ اخلاقی تربیت کے لیے استعمال کیا۔ مولانا محمد حسین آزاد واحد بزرگ ہیں جنھوں نے بچوں کے قواعد زبان وبیاں اور اِملا کی درستگی پر خاصا زور دیا اور اس سلسلے میں کئی کتابیں لکھی۔

جنوری 1802 میں ڈاکٹر جان گلکرسٹ کی زیر نگرانی فورٹ ولیم کالج کلکتہ کے شعبۂ تصنیف و تالیف کا آغاز ہوا اور جان گلکرسٹ نے اردو لغت مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ چند نامور اہل قلم کی خدمات حاصل کیں۔ چونکہ یہ ادارہ انگریز فوجیوں کو اردو زبان سکھانے کے لیے قائم ہوا تھا۔ چنانچہ اس وقت میر امن دہلوی، رجب علی بیگ سرور،حیدر بخش حیدری، للو لال جی، اور دیگر ماہرین نے عربی، فارسی اور ہندی ادب کو جن میں داستا نیں بھی شامل تھیں اردو کے قالب میں ڈھالنا شروع کیا۔یہ داستانیں روانی اور سلاست کے اعتبار سے بچوں کے ادب کے لیے انتہائی مناسب کرداروں، بہادری، سچائی، دانائی اور سبق آموز تحریروں و واقعات سے مزین ہیں۔

فورٹ ولیم کالج کے زیرسایہ اردو ادب کا بہترین سرمایہ یکجا کیا گیا اور اس کالج کی تصانیف سے برصغیر میں بچوں کے ادب کا دامن مالا مال ہوا۔ ابتدائی اٹھارہویں صدی عیسوی میں ولی دکنی اور ان کے دیوان کی دہلی میں آمد کے بعد سے شمالی ہند میں بھی لکھنے والے اردو میں ادبی تخلیقات پیش کرنے کی جانب مائل ہوئے،جن میں بچوں کا ادب بھی شامل ہے۔چنانچہ میر تقی میر جیسے عظیم المرتبت غزل گو کی کلیات میں بھی بچوں کے لیے مثنوی نما نظمیں مل جاتی ہیں۔یہ اپنے موضوع اسلوب اور زبان ہر اعتبار سے بچوں کی دلچسپی کا سامان فراہم کرتی ہیں۔ ان میں بطور خاص موہنی بلی،بکری اور کتے،مور نامہ،مچھر، کھٹمل،وغیرہ ایسی ہی نظمیں ہیں جن کو ہم ادب ِاطفال میں شامل کر سکتے ہیں۔

میر تقی میر کے بعد بچوں کے شاعر کی حیثیت سے نظیر اکبر آبادی کا نام خاص اہمیت کا حامل ہے۔نظیر نے بچوں کے لیے بے شمار نظمیں لکھی ہیں۔ ان نظموں کی سب سے بڑی خوبی ان کی سادہ زبان ہے، جو عربی، فارسی اورسنسکرت کے ثقیل الفاظ سے پاک ہے۔ نظیر اکبر آبادی  کی نظمیں بچوں میں حب الوطنی کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت میں اخلاقی اقدار اور قومی تشخص کے نقوش کو ابھارتی ہیں۔محمود الرحمن نے نظیر اکبر آبادی کی ایسی شاعری کے بارے میں لکھا ہے

’’ اردو میں بچوں کے لیے جو کچھ بھی لکھا گیا ہے اس میں نہ صرف پند و نصیحت کار فرمائی ہے بلکہ مذہبی عناصر کی جلوہ گری بھی ہے۔صحیح معنو ں میں نظیر اکبر آبادی  وہ پہلے شخص ہیں جنھوں نے بچوں کے ادب کو مذہب اور لغت کی سنجیدہ بزم سے نکال کر نونہالوں کے بزم میں پہنچادیا ہے۔جہاں ان کے اپنے جذبات اور احساسات نمایاں ہیں۔‘‘   4

ان کی کلیات میں ایسی بہت سی نظمیں مل جاتی ہیں جو بچوں کے ادب میں قیمتی سرمایہ ہیں۔اس ضمن میں نظیر اکبر آبادی  کی ایام ِ طفلی،معصوم بھولے بھالے،تربوز، کن کوے اور پتنگ،گلہری کا بچہ،ریچھ کا بچہ،تل کے لڈو،ہرن کا بچہ،واہ کیا بات کورے برتن کی، وغیرہ بچوں کی پسندیدہ نظمیں ہیں۔ بچوں کے لیے جتنا کچھ نظیر اکبر آبادی  نے لکھا ہے، ان سے قبل اردو میں کسی دوسرے شاعر نے نہیں لکھا۔ ان کی نظموں کی خاص خوبی یہ ہے کہ ان میں اخلاقی اقدار پر زور دیا گیا ہے یہ نظمیں اپنے پر لطف پیرایہ بیان اور طرز ادا کی وجہ سے خشک اور بے کیف محسوس نہیں ہوتی۔

میں نے ابھی عرض کیا کہ بچوں کے ادب کی ہم بات کرتے ہیں تو خیال سب سے پہلے اسماعیل میرٹھی اور محمد حسین آزاد کی نظم و نثر کی طرف ہی جاتا ہے،لیکن دراصل اس کی اولیت کا سہرا مرزا غالب کے سر ہے۔ ’قادر نامہ‘ میں ان کے اس طرح کے اشعار          ؎     

وہ چراوے باغ میں میوہ جسے

پھاند جانا یاد ہو دیوار کا

پل ہی پر سے پھیر لائے ہم کو لوگ

ورنہ تھا اپنا ارادہ پار کا

واہ بے لڑکے پڑھی اچھی غزل

شوق بھی سے ہے تجھے اشعار کا

یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ غالب بچوں کے ادب کی ضرورت سے غافل نہ تھے،یہ الگ بات ہے کہ غالب  کی پرواز بہت اونچی تھی اور اس سطح پر زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتے تھے۔یہی بات ہم اقبال  کے بارے میں بھی کہہ سکتے ہیں۔ اقبال کے یہاں بھی اس نوع کی نظمیں بہت ہیں جنھیں ہم بچوں کی نظمیں کہہ سکتے ہیں۔ایسی نظمیں ’بانگ درا‘ میں بھی شامل ہیں اور اقبال  کے دیگر کلام میں بھی۔ بچوں کے لیے لکھی ہوئی اقبال کی بعض نظمیں بعض انگریزی نظموں کے ترجمے ہیں۔اقبال  نے خود اس بات کا ذکر کیا ہے،لیکن یہ ایسے خوبصورت ترجمے ہیں کہ ان پرطبع زاد شاعری کا گمان ہوتا ہے۔ عبدالقوی دسنوی رقمطرارہیں

اقبا ل بچے کے ذہن کی تعمیر اس طرح کر نا چاہتے تھے۔جس سے وہ ایسا انسان بن سکے جو خداآگاہ ہو، صداقت شعار ہو، حریت پسند ہو، ہمد رد مجسم ہو، غرور و تکبر کی لعنت سے پاک ہو،محسن شناس ہو خدمت گزار ہو، غریبوں کا مدد گارہو، کمزورو ں کا حامی ہو، وطن پرست ہو انسان دوست ہو برائیوں سے  پاک ہو اور پیکرعمل ہو۔ 5

محمد حسین آزاد، خواجہ الطاف حسین حالی، ڈپٹی نذیر احمد، شبلی نعمانی، مولوی ذکاء اللہ وغیرہ نے اردو میں مختلف اصناف اور موضوعات پر طبع آزمائی کی۔ ان لوگوں کی تحریروں میں بچوں کے لیے بھی بہت سی تخلیقات نظم و نثر میں موجود ہیں۔شفیع الدین نیرنے بچوں کے ادب کے جس وافر ذخیرے کا ذکر کیا ہے وہ محمد حسین آزاد ،حالی، ڈپٹی نذیر احمد، اور سر سید احمد خاں کی کاوش کا نتیجہ ہے۔حقیقت یہ کہ اردو ادبِ اطفال میں سنہ 1857 کی جنگ آزادی ایک سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے، جس کے زیر اثر شعر و ادب کی قدیم اور فرسودہ روایات میں ایک تغیر رونما ہوا۔ تخیل سے کنارہ کشی کر کے حقیقت آرائی کی طرف توجہ مبذول کی گئی۔معاشرے اور پوری ادبی دنیا میں بدلتے ہوئے ان حالات نے بچوں کے ادب کو بھی متاثر کیا۔یہ وہ سیاسی اور سماجی ماحول تھا جس میں حالی ،شبلی ، نذیر احمد،اور آزاد کی پیشروی میں چکبست، اقبال، سرورجہاں آبادی، اسماعیل میرٹھی، تلوک چند محروم جیسے شعرا نے بچوں کے اخلاق عادات اور ان کی ذہنی نشوونما سے متعلق مفید اور ادبی حسن سے آراستہ نظموں اورکہانیوں کی تخلیق کی اور اپنی تخلیقی کاوشوں کے ذریعے ادب ِاطفال کی بنیادیں مستحکم کیں۔ ان فنکاروں نے بچوں کے جذبات اور خیالات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایسی تخلیقات پیش کی جن میں نہ صرف بچوں کی دلچسپی کا سامان بکثرت تھا بلکہ یہ ان کے سن و سال اور مذاق و مزاج سے مطابقت و موافقت بھی رکھتی تھیں۔آزاد کی مرتب کردہ کتابیں بچوں کی اخلاقی تربیت اور زبان کی درس و تدریس کے مطالبات پورا کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں مختلف مضامین کی تعلیم بھی دیتی ہیں۔اس طرح صحیح معنوں میں ہمارے یہاں بچوں کے ادب کی شیرازہ بندی کرنے اور درسی کتب کو جدید تقاضوں کے مطابق منظم کرنے کا ابتدائی معرکہ محمدحسین آزاد  نے ہی سر کیا۔ڈاکٹر اسد اریب نے محمد حسین آزاد کو بچوں کی درسی کتب کا بانی قرار دیاہے۔  6

محمد حسین آزاد نے اردو کی پہلی کتاب، اردوکی دوسری کتاب اور بچوں کے لیے نظمیں سلام علیک،جیسا چاہو سمجھ لو، ہے امتحاں سر پرکھڑا، زمستان، شبِ سرما، شبِ ابر، ہمتِ مرداں، جاڑا جیسی خوبصورت نظمیں لکھیں۔ ان میں ہمتِ مرداں مقبول ترین نظم ہے۔اس نظم کا ایک بند بطور نمونہ         ؎

ہے  سامنے  کھلا  ہوا  میداں چلے چلو

 باغِ  مراد  ہے  ثمر افشاں چلے  چلو

دریا ہو  بیچ میں کہ  بیاباں  چلے   چلو

ہمت یہ کہہ رہی ہے کھڑی ہاں چلے چلو

چلنا ہی مصلحت ہے مری جاں چلے چلو

منظومات کے علاوہ محمد حسین آزاد نے نثر میں بھی بچوں کے لیے بہت کچھ لکھا ہے۔ان کی نثری تصانیف میں آئینہ صحت،قصص الہند،اور نصیحت کا کرن پھول وغیرہ خاص طور پر لائق ذکر ہیں۔ بلا شبہ آزاد اردو ادب ِ اطفال کے معماروں میں شمار کیے جانے کے مستحق ہیں۔مولانا حالی نے قوم کے نو نہالوں کی فلاح و بہبود اور ان کی بہترین ذہنی اور جسمانی تربیت پر ہمیشہ زور دیا۔حالی ایک ماہر تعلیم تھے،ان کی زندگی کا ایک بڑا حصہ محکمۂ تعلیم میں گذرا،یہی سبب ہے کہ حالی بچوں کی نفسیات، ان کی ذہنی پیچیدگیوں،ان کی ضروریات اور مسائل سے بخوبی واقف تھے۔حالی کی بیشتر تحریروں میں بچوں کے لیے بہت سی تخلیقات نظم و نثر میں موجود ہیں۔حالی کو لڑکیوں کی فلاح و بہبود اور تعلیم و تربیت کی بڑی فکر رہتی تھی۔اپنے اسی مقصد کی تکمیل کے لیے حالی نے ’مجالس النساء‘ لکھی۔ یہ کتاب لڑکیوں کے لیے سب سے پہلی درسی کتاب ہے۔اگر چہ ’مجالس النساء‘ سے قبل ڈپٹی نذیر احمد کی ’مراۃ العروس‘ آچکی تھی،لیکن ’مراۃالعروس ‘ اور ’مجالس النساء‘ میں بڑا فرق یہ ہے کہ نذیر احمد نے ’مراۃالعروس ‘ اپنی بیٹیوں کی تعلیم و تربیت کے لیے لکھی تھی۔جبکہ حالی  نے ’مجالس النساء ‘ لکھتے وقت پوری قوم کی بچیوں کی تعلیم وتربیت پیش نظر رکھی تھی۔

’ مجالس النساء‘ کے ذریعے حالی نے لڑکیوں کی تعلیم عام کرنے پر زور دیا ہے، ساتھ ہی ان میں سماجی بیداری، اپنی ذمے داری اور اپنے حق کو پہچاننے کا جذبہ بیدار کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ حالی  نے بچوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھی ہیں۔ زبان اسلوب اور موضوع ہر اعتبار سے حالی    کی ایسی نظمیں صرف بچوں کے لیے ہیں،یہی سبب ہے کہ اسماعیل میرٹھی نے اردوزبان کی پانچویں کتاب میں حالی کی نظمیںامید،علم کی ضرورت، راست گوئی اور اپنی ترقی آپ کروشامل کی ہیں۔ ان نظموں کے علاوہ  خداکی شان، غوث اعظم، جواں مردی کا کام، میں کسان بنوں گا، سپاہی، موچی، پیشہ، دھان بونا، نیک بنو، بلی اور چوہا،نیکی پھیلاؤ،مرغی اور اس کے بچے، شیر کا شکار، لاڈلا بیٹا،ایسی نظمیں ہے جو حالی نے خاص بچوں کے لیے لکھی ہیں۔اپنی نظم ’کہنابڑوں کامانو‘میں کہتے ہیں         ؎

ماں باپ اور استاد  سب  ہیں  خدا کی  رحمت

 ہے روک ٹوک ان کی حق  میں تمھارے زحمت

چاہو اگر بڑائی کہنا بڑوں کا مانو

دنیا میںکی جنھوں نے ماں باپ کی اطاعت

دنیا  میں  پائی  عزت عقبی میں پائی راحت

چاہو اگر بڑائی کہنا بڑوں کا مانو

ماں باپ کی اطاعت دونوں جہاں کی دولت

چاہو اگر بڑائی کہنا بڑوں کا مانو

اِسماعیل میرٹھی  جو ادب ِ اطفال کے شہنشاہ کہلائے جاتے ہیں،اردو ادب میں ادبِ اطفال کی بہترین کتابیں وہ مانی جاتی ہے جو اسماعیل میرٹھی  نے مرتب کیں۔ان درسی کتابوں کے لیے میرٹھی  نے جو حکایات خود لکھی ہیں ان میں بیشتر کے ماخذ سنسکرت کی ’پنچ تنتر‘اور فارسی کی ’بستان ِ حکمت ‘ اور ’انوار ِ سہیلی‘ ہیں یہ حکایات اخلاقیات،مذہب کی تعلیم پر مبنی ہیں۔ ان میں بہادروں کے کارنامے بھی شامل ہیں، باجے کا بھوت،ایک شیر اور چیتا،سرکشی کا انجام، محمود غزنوی اور بڑھیا،محنت سونے سے بہتر ہے وغیرہ اِسماعیل کی نمائندہ کہانیاں ہیں۔

ان درسی کتابوں میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ کتابیں بچوں کو جہاں زبان سکھاتی ہیں، وہاں ان کو سائنس، عام معلومات، تاریخ جغرافیہ اور زراعت پر مفید مواد فراہم کرتی ہیں۔ ایسے معلوماتی اور سائنسی مضامین میں پانی کی شکلیں، پلاٹینم، سونا، چاندی، پارہ، انسان کا بدن، ہوا اور پانی، کوئلے کی کان، چھاپے کی ایجاد، ریلوے انجن کا موجد جارج، قوس قزح، وغیرہ لائق ذکر ہیں۔ اِسماعیل میرٹھی نے بچوں کے لیے تاریخی مضامین بھی لکھے۔ ان مضامین کے ذریعے تاریخی شخصیتوں  سے روشناس کرایا ہے۔جلال الدین اکبر، نورجہاں، ارسطو، راجا بکرما جیت، شیر شاہ سوری، محمود غزنوی اور بڑھیا، نوشیروانِ عادل، تیمور، راجہ بیربل خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔

اقبال کی ان تخلیقات کو ادبِ  اطفال میں شاہکار نظموں کا درجہ حاصل ہے، جو’ بانگ درا‘ کلام میں شامل ہیں۔ ایک مکڑا اور مکھی، ایک پہاڑ اور گلہری، ایک گائے اور بکری، بچے کی دعا، ہمدردی، ایک پرندہ اور جگنو، پرندے کی فریاد، ہندوستانی بچوںکا گیت (میراوطن ) ان نظموں میں پہلی چھ انگریزی سے ماخوذ ہیںاور آخری دو نظمیں اقبال کی طبع زاد تخلیقات ہیں۔ ان نظموں کے علاوہ اقبال کی فلسفیانہ نظمیں عہد طفلی، بچہ اور شاعر، بچہ اور شمع، طفل شیر خوار، ماں کا خواب وغیرہ اس بات کی شاہد ہیں کہ ابتدا ہی سے اقبال بچوں کے بارے میں غوروفکر کرتے رہے تھے۔

بچوں کے شاعر کی حیثیت سے تلوک چند محروم کا نام امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔جنھوں نے بچوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ان کی ذہنی نشوونما کے لیے صحت مند شعری ادب تخلیق کیا۔محروم کی ایسی نظموں کے مجموعے ’بہارِ طفلی‘ اور ’بچوں کی دنیا‘ کے نام سے منظر عام پرآچکے ہیں۔ صرف ’بہار ِ طفلی‘ میں پچیس نظمیں ہیں،جس میں خدا کا شکر،ہمارا دیش،سویرے اٹھنا،اچھے کام، محنت، صفائی، دشمنی،ہم ہر گز جھوٹ نہ بولیں گے،جھوٹ بڑا پاپ ہے،اچھا آدمی،پھول برسات وغیرہ قابل ذکر نظمیں ہیں۔ بچوں کی دنیا کی نمائندہ نظموں میں دعا، خدا کی قدرت، بچوں کا نیا سال، اچھا بچہ،صبح ہولی،پہلے کام پیچھے آرام، میری کتاب، جھوٹ، استاد کی چھڑی، ورزش، قرض، بارش، گنگا،وقت کی پابندی، ان کی ایسی نظمیں ہیں جو اپنی افادیت اور معنویت کے سبب بچوں کی درسی کتب میں بھی شامل ہیں۔

تلوک چند محروم بچوں کے نمائندہ شاعر ہیں۔ انھوں نے بچوں کے لیے صرف نظمیں ہی لکھی ، ایسی تمام نظمیں اردو ادبِ اطفال کا بیش بہا سرمایہ ہیں۔ زمانہ بدلتے دیر نہیں لگتی اور زمانے کے ساتھ ہی بدل جاتے ہیں موسم، آب وہوا اور انسان تک۔لیکن یہ حقیقت ہے کہ آج بھی بچہ اسی صدیوں پرانے اس زمانے میں موجود ہے۔ اس کا بچپن آج بھی دادی،نانی کی کہانیوں کے لیے ہمک رہا ہے۔اور میں تو یہاں تک وثوق سے کہہ سکتی ہوں کہ کہانی نے اگر جنم لیا ہوگا تو وہ پہلی کہانی کسی بچے کے لیے اس کی نانی یا دادی کے ذریعے سنائی گئی کہانی ہی ہوگی۔

اردو ادبِ اطفال کی کہکشاں میں کئی بڑے ادیب ستاروں کی طرح چمک رہے ہیں۔ ان سب کا احاطہ کرنا دشوار طلب ہے، لہٰذا جن ادیبوں کاادب مطالعے سے گزرا اسے قرطاس پر لکھ لیا۔میں جانتی ہوں کہ میں تمام ادیبوں کے ساتھ انصاف نہ کرپائی۔اگر تمام کاذکر کروں تو مقالہ طویل ہو جائے گالہٰذا اپنے مضمون کو مختصر اور جامع کرتی ہوں تاکہ عنوان سے ہٹ نہ جائے اور مضمون کی اہمیت واضح ہوجائے اور قصہ مختصر ہوجائے۔

حواشی

1      اردو میں ادبِ اطفال ایک جائزہ،پروفیسر اکبررحمانی1991،  ایجوکیشنل اکادمی اسلام پورہ جلگائوں، ص 68

2      ایضاً ، ص68

3      ڈاکٹر مظفر حنفی اردومیں ادبِ اطفال، مشمو لہ جہا ت و جستجو مکتبہ جا معہ لمیٹڈ،نئی دہلی، ص84

4      محمود الرحمن ’آزادی کے بعد بچوں کا ادب‘ ماہنامہ کتاب لاہو ر بچو ں کا ادب نمبر جنوری 1979،ص9،  مدیر ذوالفقار احمد تابش

5      عبدالقوی دسنوی’بچوں کے اقبا ل ‘  نسیم بک ڈپو لکھنؤ،ص 38-39

6      ڈاکٹر اسد اریب بچوں کا ادب، کاروانِ ادب1982، ص48

n

Amena Farooqui Mohd Imamuddin

Pramila Devi Patil Arts & Science College

Neknoor,

Distt: Beed- 431122 (Maharashtra)

Mob.: 9834249968

 

 

 

 

 

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

خواجہ حسن ثانی نظامی کا اسلوب، مضمون نگار: عزیز احمد خان

  اردو دنیا، نومبر 2024 خواجہ حسن ثانی نظامی درگاہ حضرت نظام الدین اولیا کے سجادہ نشینوں میں سے تھے۔ ان کی پیدائش 15 مئی 1931 کو ہوئی تھی۔...