26/4/23

ملک التجار کالی داس گپتا رضا کی ادبی خدمات: رؤف خیر

مشرقی افریقہ ہم جیسے بیشتر لوگوں کے لیے ایک خواب ناک بلکہ خوفناک علاقے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔مگر بعض جیالوں نے ایسے ’بے ادب‘ مقام کو بھی اپنی ذات سے سیراب کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ تجارت کے سلسلے میں جناب کالی داس گپتا رضا نے اسے چنا۔ نیروبی۔کینیا میں ہیرے جواہرات سے کھیلنے والے رضا صاحب مشرقی افریقہ کی تاریخ پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ آپ کی ایک تحقیقی کتاب ’ہندوستانیمشرقی افریقہ میں‘ دسمبر 1977 میں منظر عام پر آئی۔

کالی داس گپتا رضا صاحب کے اپنے بیان کے مطابق ان کا جنم 25اگست 1925کو مکند پور ضلع جالندھر کے مشہور اگروال خاندان میں ہوا۔ آپ کا خاندانی پیشہ ساہو کاری رہا ہے۔ تجارت ہی کی غرض سے رضا صاحب جون 1949میں مشرقی افریقہ چلے گئے جہاں نیروبی میں 4اگست 1956کو آپ کی شادی ساوتری دیوی سے ہوئی جو لاجپت رائے گپتا کی صاحب زادی ہیں۔ رضا صاحب کے خسر تنزانیہ کے شہر اروشا میں مقیم تھے۔ مشرقی افریقہ سے کالی داس گپتا رضا 1970میں ہندوستان لوٹ آئے اور بمبئی میں اپنا مستقل ٹھکانہ بنالیا۔

آپ نہ صرف بہت اچھے شاعر تھے۔ظاہر ہے حضرت جوش ملسیانی جیسے ماہر زبان و بیان کے شاگرد تھے اور خود بھی عروض و زبان میں درجۂ استناد رکھتے تھے۔ شاعری کے ساتھ ساتھ آپ نے مختلف ادبی موضوعات پر داد ِ تحقیق بھی دی۔نہ صرف یہ کہ جناب کالی داس گپتا رضا نے خود بے شمار تحقیقی کارنامے انجام دیے بلکہ کوئی اللہ کا بندہ میدانِ تحقیق میں سرگرداں ہے تو جہاں تک ہو سکے دامے درمے سخنے اس کی مدد کرنے پر بھی ہر وقت آمادہ رہتے تھے۔مشہور و معروف محقق و مدوّن و نقاد رشید حسن خان صاحب مثنوی سحرالبیان کی تدوین میں مصروف تھے مختلف کتب خانوں سے اس کے ممکنہ نسخے منگوار ہے تھے۔ انھیں ایک ایسا مخطوطہ بھی چاہیے تھا جو حیدرآباد کے ایک ادارے میں موجود تھا مگر اس کے سربراہ اس کی نقل دینے پر راضی نہیں تھے کہ اس سے مخطوطہ کم زور ہوجاتا ہے۔ جناب کالی داس گپتا رضا نے رشید حسن خان کی فرمائش مجھے لکھ بھیجی۔ میں نے اپنے ذرائع کام میں لاکر مثنوی سحرالبیان کے مخطوطے کی نقل کروائی اور گپتا رضا صاحب کو بھیج دی جو انھوں نے رشید حسن خان تک پہنچادی۔

کالی داس گپتا رضا صاحب ہر قسم کے انعام سے بے نیاز تحقیق و تخلیق و تنقید میں شاہ کار پیش کرنے میں مصروف رہے تاہم اپنی خدمات کے اعتراف کیے جانے کی خواہش کسے نہیں ہوتی۔وہ ایک زمانے تک شکوہ سنج بھی رہے کہ کوئی قابلِ ذکر انعام سے انھیں نوازا نہیں گیا پھر اللہ کا کرنا یہ ہوا کہ 2001میں پدم شری جیسے اعزاز کے لیے منتخب کیا گیا اور کالی داس جی صدرِ جمہوریہ سے یہ اعزاز حاصل کرنے کے لیے ممبئی سے دہلی پہنچ بھی گئے تھے مگر 22مارچ 2001کو اس تقریب کے انعقاد سے صرف تین گھنٹے پہلے ان کے قلب پر حملہ ہوا اور وہ جاں بحق ہوگئے۔ افسوس          ؎

قسمت تو دیکھیے کہ ٹوٹی کہاں کمند

دوچار ہاتھ جب کہ لبِ بام رہ گیا

ہندوستانی مشرقی افریقہ میں‘ تقریباً ایک سو چالیس سال کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھا کہ جزائر زنجبار پیمبا کے ساحلی علاقے پر سید سعید ملک التجارتھا جو اباضیہ فرقے سے تعلق رکھتا تھا۔ سلطان زنجبار انتہائی راسخ العقیدہ مسلمان تھا مگر حیرت کی بات یہ کہ وہ اتناہی سیکو لر مزاج بھی تھا۔ اس کی تمام کروڑ گیری کا مختار Customs Masterجے رام شوجی ہے جو پکا ویشنو ہند و تھا یہ سلطان کا دستِ راست تھا۔اس کی جے رام شوجی کمپنی مشرقی افریقہ کی معتبر کمپنی شمار ہوتی رہی ہے۔

تجارت کا دارو مدار ذرائع حمل و نقل پر ہوتا ہے چنانچہ ریل گاڑیاں ممبا سا سے نیروبی اور وکٹوریہ جھیل کے کنارے کسمو تک چلنے لگیں۔ کالی داس گپتا رضا نے افسوس کے ساتھ لکھا کہ بیسیوں ہندوستانی بھائی ریلوے لائن بچھاتے وقت شیروں کے منہ کا نوالہ بھی بنتے رہے۔ رضاصاحب نے بے شمار مصدقہ کتابوں کے حوالے سے مشرقی افریقہ کی تاریخ بیان کردی۔ وہاں آپ نے شعر و ادب کی محفلیں بھی برپا کرکے اردو ادب کو بھی زندہ رکھنے کے جتن کیے۔

(بحوالہ ’ہندوستانی مشرقی افریقہ میں‘  جلد اول مطبوعہ و مل پبلی کیشنز چرچ گیٹ بمبئی 20، 1977)

مشرقی افریقہ میں مرزا غالب اور علامہ اقبال کا شہرہ سن کر کالی داس گپتا رضاکو بڑی خوشی ہوئی۔ ان شاعروں سے ان کی عقیدت میں اضافہ ہوا۔ بعد میں ’دیوانِ غالب‘ کی تاریخی اعتبار سے ترتیب کے علاوہ غالبیات کے سلسلے میں بے شمار تصنیفات و تالیفات نے جناب کالی داس گپتا رضاکو ماہر غالبیات بناکر دم لیا۔ آپ نے ’غالب اور اقبال مشرقی افریقہ میں‘ لکھ کر اس دور کے ارباب ِ ذوق کی نشان دہی کی جنھوں نے مشرقی افریقہ جیسے صحرا میں بھی غالب و اقبال کے نخلستان سجائے رکھے تھے۔ یہاں کالی داس گپتا رضاکی تحقیق پیش کی جاتی ہےسبد گل‘ نمبر 2صفحہ 17مطبوعہ 1938پر مقدمے میں درج ہے

دوسرے مشاعرے میں بزم کا موضوع بحث غالب تھا۔ چنانچہ اس ایشیا کے امام الشعرا کی نہ صرف زندگی بلکہ اس کے کلام کے مختلف پہلوئوں پر بھی روشنی ڈالی گئی تھی‘‘۔

آگے گپتا رضانے ایک ماہ نامے کا ذکر بھی کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ماہ نامہ’الادب‘کے تیسرے شمارے جون 1945میں ایک مضمون باسط مسقطی کا ’غالب کی صحبتیں‘ کے عنوان سے شائع ہوا جس میں سید غوث علی شاہ قلندر اور غالب  کی صحبتوں کا بالتفصیل ذکر کیا گیا تھا‘‘۔

ممباسا (کینیا) کے ایک سکول کے پرنسپل مہدی صاحب نے 1968میں چونسٹھ صفحات کی ایک کتاب ’بزم غالب‘ کے نام سے چھاپی جو صدسالہ جشنِ غالب کے سلسلے میں مشرقی افریقہ سے غالب کے ایک پرستار کا ہدیہ عقیدت ہے۔

اس کے علاوہ 1969میں غالب صدی تقاریب کے سلسلے میں خود کالی داس گپتا رضا کے دولت خانے پر ایک محفل نیروبی میں 15مارچ 1969کو کینیا ہائی کورٹ کے جج مسٹر جسٹس چانن سنگھ کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ چالیس سے کچھ اوپر افراد جمع تھے۔مشاعرے کے دو دور ہوئے پہلا طرحی اور دوسرا غیر طرحی۔ دونوں مشاعروں کے درمیان آدھے گھنٹے کے وقفے میں جناب کالی داس گپتا رضانے تمام حاضرین کی چائے کیک وغیرہ سے تواضع فرمائی۔

(اس تقریب کی رپورٹ ماہ نامہ صبح امید ممبئی کے شمارے بابت جولائی 1969میں شائع ہوئی تھی)

اس محفل میں غالب کو خراج عقیدت کی چند مثالیں پیش ہیں          ؎

اشعارِ نو کا روح و قالب غالب

ہر طور نئی بات کا طالب غالب

شاعر تھا ضرور وہ نرالا ورنہ

یوں ہوتی نہ شہر شہر غالب غالب

بالا ہے بلند ہے مقام غالب

مشہور ہے آفاق میں نام غالب

پوچھا کہ ہے اس وقار کا کیا باعث

آواز یہ آئی کہ’کلام ِ غالب

(کالی داس گپتا رضا)

پرکیف اثر خیز، خرد مند، مدبر

غالب سے سخن سنج کا مذکورہے گھر گھر

برسی پہ لطیف اس کی میں اتنا ہی کہوں گا

سو سال میں پیدا نہ ہوا ایسا سخنور

(محمدلطیف لطیف)

نیروبی کینیا میں برسوں گزارنے والے اردو ادب کے خدمت گزار جناب ساحرشیوی نے بھی اس محفل میں یوں غالب کو خراج عقیدت پیش کیا تھا         ؎

غالب ِ نکتہ داں اے امام غزل

کھِل اٹھے تیری یادوں کے دل میں کنول

شعرِ اردو میں ہے تو ہی یکتا ئے فن

نام تیرا ہی ہونٹوں پہ ہے آج کل

اس قدر خوب صورت ترے شعر ہیں

چاند تارے بھی ان کا نہیں ہیں بدل

(ساحرشیوی)

کالی داس گپتا رضا نے مشرقی افریقہ میں علامہ اقبال کی مقبولیت کا بھی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔25دسمبر 1937 کو یوم اقبال منایا گیا تھا۔شیدائی اقبال محترم جناب چانن سنگھ شفق نے حضرت علامہ (اقبال) کے سوانح حیات بیان فرمائے، محترم سعید مرزا نے اقبال اور ان کا فلسفہ کے موضوع پر تقریر فرمائی۔ صاحبِ صدر نے اقبال اور مذہبیات کے موضوع پر تقریر فرمائی۔(صدر کا نام نہیں دیا گیاتھا۔خیر)

اپریل 1938میں علامہ اقبال کا انتقال ہوا تو کینیا کالونی کے دارالحکومت نیروبی میں فوراً ایک تعزیتی جلسہ منعقد ہوا جس میں اقبال کے پر ستار جناب چانن سنگھ شفق نے مقالہ پڑھا تھا۔ (بحوالہ سبد گل نمبر 2جون 1938)

کالی داس گپتا رضا 1949میں نیروبی کینیا (مشرقی افریقہ)پہنچے تھے۔یہاں احبابِ ذوق نے مل بیٹھنے کی ایک صورت نکالی کہ حلقۂ ’گفتوش‘ قائم کیا جو دراصل (گفت) اور( نوش)کا مخفف تھا۔ اس حلقۂ گفتوش کے زیر اہتمام 21اپریل 1950کو یوم اقبال کی تقریب منائی گئی۔ اس تقریب میں کالی داس گپتا رضا نے گیارہ اشعار پر مشتمل خراج عقیدت پیش کیا۔ چند شعر ملاحظہ فرمائیے      ؎

یہ جو اپنی قوم کا ہر دم شریک ِ حال تھا

شاعرِ ملت سراپا شعر سر اقبال تھا

اس نے چند اور اق ہی میں ایک دفتر رکھ دیا

مٹ نہیں سکتی ہے شان وندرت بانگ ِ درا

بالِ جبریل اور جب ضربِ کلیم انساں پڑھے

ہر قدم پر زندگی سو منزلیں آگے بڑھے

اس کے نغمے حشرتک گو نجیں گے  ہفت اقلیم میں

اے رِضا جھکتا ہے سر اقبال کی تعظیم میں

سر علی مسلم کلب ہال میں 23اپریل 1953کو پھر یوم اقبال منایا گیا جس میں ہندو ستان و پاکستان کے ہائی کمشنرس رونق افروز ہوئے تھے۔شیدائیان ِ اقبال سے ہال کھچاکھچ بھرا ہوا تھا۔ اس موقع پر بھی جناب کالی داس گپتا رضا نے نظم سنائی جو بہت پسند کی گئی دس اشعار پر مشتمل اس خراجِ عقیدت کا مقطع تھا        ؎

رضا یہ ہماری طبیعت نے مانانگاہوں نے دیکھا ذہانت نے جانا

کہ اقبال کی مشعل ِشاعری میں نئی روشنی ہے نئی زندگی ہے

رضا صاحب نے یہ بھی انکشاف کیا کہ پاکستانی ہائی کمیشن نے ’پیغام ِ اقبال‘ پر بہترین مضمون پر انعام کا اعلان کیاتھا۔ 12اپریل 1953کو رضا صاحب نے بھی اس مقابلے میں حصہ لیا اور انعام انہی کے حصے میں آیا۔

اس طرح مشرقی افریقہ میں بھی کالی داس گپتا رضا نے غالب و اقبال سے اپنی ذہنی وابستگی کا ثبوت دیا۔

(بحوالہ ’اسد اللہ خان غالب مرد اور سلسلہ ء غالبیات کے دوسرے مضامین ‘ از کالی داس گپتا رضا پہلا ایڈیشن 1991، ساکار ببلشر پرائیویٹ لمیٹڈ، جولی بھون، نیو مرین لائنز۔ممبئی 400020)

1949سے 1970تک آپ مشرقی افرقیہ نیروبی، کینیا میں تجارت میں مصروف رہے۔ آپ نے اردو ہندی انگریزی کتابیں شائع کرنے کے لیے کسی پبلشر کے در پر دستک نہیں دی۔ بلکہ اپنے اشاعتی ادارے خود قائم کیے۔ جیسے ومل پبلی کیشنز بمبئی اور ساکار پبلشرز پرائیویٹ لمیٹڈ بمبئی 40020جس کے زیر اہتمام کئی کتابیں منظر عام پر آئیں۔خاص طور پر دیوانِ غالب کامل (نسخہء گپتا رضا۔تاریخی ترتیب سے) جناب رضا کا ایسا کارنامہ ہے جو مرزا غالب کے ساتھ ساتھ آپ کو بھی زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ یوں تو کئی دیوان ِ غالب شائع کیے گئے مگر یہ ایسا نسخہ ہے جو بڑی عرق ریزی کے ساتھ تاریخی ترتیب کے لحاظ سے مرتب کیا گیا ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن 1988میں شائع ہوا تھا۔ہاتھوں ہاتھ بک جانے کی وجہ سے اس کا دوسرا ایڈیشن 1990میں شائع ہوا پھر ترمیم و اضافے کے ساتھ غالب صدی تقاریب کے موقع پر 15فروری 1995کو اس کا تیسرا ایڈیشن شائع کیا گیا۔

اپنے استاد جوش ملسیانی کے فکرو فن،حالات ِ زندگی اور منتخب کلام پر مشتمل کتاب 1991میں شائع کرکے انھوں نے حق شاگردی ادا کیا ورنہ عام طور پر جوش ملسیانی کی ایک غزل جس کی ردیف ’دو بٹاتین‘ تھی پڑھنے میں آتی تھی۔ انھوں نے جوش ملسیانی کی اصلاحوں کا بھی ذکر کیا جو انھوں نے گپتا رضا کے کلام پر دی تھیں۔

اس مرحلے پر جوش ملسیانی کی ایک کتاب ’اقبال کی خامیاں‘ کا تذکرہ بھی نامناسب نہ ہوگا۔ یہ تنقید لالہ کرم چند کے ہفتہ وار اخبار ’پارس‘ میں 1927میں جراح کے نام سے قسط وار شائع ہوتی رہی۔1928میں یہ کتابی شکل میں چھپ کر آئی تو جوش ملسیانی کے ایک شاگرد نوہر یارام درد نکودری (نریش کمار شاد کے والد)اسے لے کر علامہ اقبال کے پاس آگئے۔اقبال نے اسے الٹ پلٹ کر دیکھا اور پیشانی پر بل لائے بغیر کہا ’’جوش میرے خواجہ تاش ہیں۔ ان سے میری طرف سے شکریہ ادا کیجیے اور کہیے گا کہ میں اس کتاب سے استفادہ کروں گا۔ یہ واقعہ 1928کا ہے۔(اقبال کی خامیاں۔تعارف)

یہ کتاب کالی داس گپتا رضا نے 1994میں اپنے ساکار پبلی کیشنز بمبئی 400020سے پھر شائع کی۔ اس تیسرے ایڈیشن پر ماہ نامہ ’شب خون‘ الہ آباد میں محترم شمس الرحمن فاروقی نے ’اقبال کی خامیاں ‘ کو رد کرتے ہوئے مدلل جواب اگست 1995میں شائع کیا۔ جوش ملسیانی کے اعتراضات کو مختلف اساتذہ اردو فارسی کے حوالے سے فاروقی نے ناقابلِ اعتنا ٹھہرایا۔ خود علامہ اقبال نے بھی اس کتاب کا کوئی نوٹس نہیں لیا تھا۔ کالی داس گپتا رضا نے اپنے استاد جوش ملسیانی کے دفاع میں شمس الرحمن فاروقی کا جواب الجواب لکھا جسے فاروقی صاحب نے بڑی فراخ دلی اور اعلی ظرفی کے ساتھ اپنے رسالے شب خون ستمبر 1996میں شائع کیا۔ جوش ملسیانی کی نشان زدہ اقبال کی خامیاں، ان کا شمس الرحمن فاروقی کی طرف سے مدلل رد اور پھر کالی داس گپتا رضا کا دفاعی مضمون بجائے خود ایک مبسوط جائزے کا متقاضی ہے جس کی فی الحال اس مضمون میں گنجائش نہیں۔

اردو ادب شروع ہی سے غیر مسلموں کامرہون ِ منت رہا ہے۔ ابتدا ڈاکٹر جان گل کرسٹ اور ان کے رفقا کی دلچسپی کی و جہ سے اردو پھولتی پھلتی رہی۔ فورٹ ولیم کالج میں اردو فروغ پاتی رہی۔ منشی نول کشور کے احسانات سے بھی اردو کبھی انکار نہیں کرسکتی،وہ چاہے شعر و ادب کا معاملہ ہو کہ مذہب کا،منشی نول کشور نے قرآن اور حدیث بھی اسی احترام سے شائع کی جتنی شعر و ادب کی کتابیں زیور طبع سے آراستہ فرمائیں۔ حضرت مالک رام ہوں کہ دتاتریہ کیفی،رتن ناتھ سرشار ہوں کہ فراق گورکھپوری، حکم چند، پریم چند،گیان چند اور گوپی چند نارنگ جیسے نیر نگ ِ زمانہ محسنوں کی وجہ سے آج اردو ادب دیگر زبانوں کے ادب سے آنکھ ملانے کے قابل ہو سکا ہے۔ اسی سلسلے کا ایک اہم نام اعلیٰ حضرت کالی داس گپتا رضا رہے ہیں۔

ماہر غالبیات کی حیثیت سے انھوں نے غالب کی زندگی اور فکر و فن کے بے شمار گوشوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ تاریخی ترتیب سے مرتب کردہ دیوانِ غالب کامل (نسخہ گپتا رضا) ان کا ایسا کارنامہ ہے جو انھیں زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ لیکن اعلیٰ حضرت غالب کے علاوہ کئی ادیبوں شاعروں کو زندہ رکھنے کے جتن کرتے رہتے تھے۔ رائے سرب سنگھ دیوانہ ہوں کہ کھیم نرائن رند، جواہر سنگھ جوہر ہوںکہ رتن سنگھ زخمی،کیول رام ہوشیار ہوں کہ آفتاب رائے رسوا، بنسی دھر ہمت ہوں کہ احمد رضا خاں بریلوی،ہر قابل ذکر شاعر کا آپ نے مدلل جائزہ لے کر اس کی اہم تخلیقات کے حوالے سے اسے زندہ رکھا۔ انھوں نے قدیم شعرا کے ساتھ ساتھ جدید دور کے اہم تخلیق کاروں کی کھلے دل سے پذیرائی کی۔ ش ک نظام،عبداللہ کمال، رزاق افسر، نذیر فتح پوری، فیاض فیضی اور مخمور سعیدی وغیرہ کے فکر و فن کو سراہتے ہوئے اعلیٰ حضرت نے ان کی حوصلہ افزائی فرمائی۔ یہ بھی ان کی اعلیٰ ظرفی ہے ورنہ غالب و اقبال کی قد آوری کا جائزہ لینے والے کی آنکھوں میں جدید شاعر بھلا کیا سماسکتے لیکن اعلیٰ حضرت نے ان نئے فنکاروں کے اندر چھپے ہوئے کمال کی قدر افزائی کرکے اردو کے روشن مستقبل کی ضمانت دی۔

میںنے علامہ اقبال کے فارسی قطعات ’لالۂ طور‘ کا منظوم اردو ترجمہ کیا۔ یہ’قنطار ‘ کے نام سے کتابی صورت میں چھپنے والا تھا تو میں نے اعلیٰ حضرت سے پیش لفظ کی گذارش کی۔ آپ نے حرفے چند کے عنوان سے میری کوششوں کو سراہا اور میرا دل بڑھایا۔ اعلیٰ حضرت کا یہ پیش لفظ میرے لیے سرمایہء افتخار ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے مجھے جو آخری خط لکھا تھا اس میں ترجمے کے علاوہ کوئی طبع زاد کا رنامہ دکھانے کی ترغیب دی۔ ان کا خط میں یہاں درج کرنا چاہوں گا۔

محبی رئوف خیر۔۔۔ عمر دراز

خط ملا اور حکم نامہ بھی۔ آپ کے تمام قطعات رجسٹری سے واپس بھیج رہا ہوں۔ ایک صفحہ بڑھا بھی دیا ہے۔جہاں کہیں مناسب ہو بڑھالیں۔

میں ایک عرصے سے محسوس کرتا ہوں کہ آپ کو اس ترجمے پر بڑاناز ہے۔ اپنے کام پر ناز کرنا قطعی غلط نہیں ہے مگر یہ ترجمہ ہے۔

ترجمہ کبھی آپ کی تصنیف نہیں بن سکتا۔ یہ محض ترجمہ ہی رہے گا۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنا کوئی کام کریں جو قابل رشک ہو۔

 قابل ِ رشک کام ہمیشہ نہیں کیا جا سکتا لیکن کبھی کبھار پرما تما ایسا کام مصنف سے کرادیتا ہے جو قابل رشک ہوتا ہے اور میں آپ جیسے ذہین شخص سے ایسے ہی کام کی امید رکھتا ہوں۔زندہ باشید۔

مخلص کالی داس گپتا رضا  (خط پر تاریخ انگریزی میں یوں درج ہے25/1/2001)

اعلیٰ حضرت کی اعلیٰ ظرفی کا ثبوت ان کی وہ تخلیقات بھی ہیں جو انھوں نے نازشِ کائنات و خیر خلقہِ ؐ کی تعریف و توصیف میں بہ صد احترام پیش کی ہیں۔ ایک چھوٹا سانعتیہ انتخاب ’احترام‘ ان کی عقیدت کی دستاویز ہے۔اعلیٰ حضرت نے کینیا مشرقی افریقہ میں تقریباً پچیس سال گزارے۔ وہاں بے تعصب ماحول میں آپ نے حضور اکرمؐ کی شان میں مختلف اوقات میں نعتیہ کلام کہا اور بیشتر کلام نقل مکانی کے دوران گم بھی ہوگیا۔ بہر کیف جو کچھ دستیاب ہو ا وہ سب ’احترام‘ میں شامل کر لیا گیا ہے       ؎

کس کس کو گنائوں میں برکات محمد ؐ کی

دن ہی کی سی روشن ہے ہرر ات محمد ؐ کی

بڑھ کر ہے فضیلت میں، بہتر ہے فضیلت میں

ہر کام محمد ؐکا،ہر بات محمد ؐ کی

اعلیٰ حضرت کالی داس گپتا رضا کی نعت گوئی کا مقصد خود ان کے الفاظ میں ملاحظہ فرمایئے        ؎

شعر کہتا ہے وہ شہرت کا طلبگار نہیں

درم و دام کا،دولت کا طلبگار نہیں

اے نبی ؐ آپ کے اکرام و شفاعت کے سوا

یہ سخنور کسی نعمت کا طلبگار نہیں

نعت کے علاوہ آپ نے روایتی کربلائی واقعات کے زیر ِ اثر کچھ مرثیے بھی کہے جو ’شعورِ غم ‘ کے عنوان سے کتابچے کی شکل میں موجود ہیں۔ ہمارا بیشتر اردو ادب کربلائی علامات سے بھرا پڑا ہے۔ اعلیٰ حضرت گپتا رضا نے کربلا کے واقعات کے ساتھ ساتھ سبطِ رسول حضرت حسین ؓ سے اپنی عقیدت کا جو اظہار فرمایا ہے وہ بھی انھیں اعلیٰ حضرت کہنے پر اکساتا ہے۔

ان کی غیر جانبداری اور بے لوث عقیدت و محبت بھی مجھے ان کا گرویدہ بناگئی۔ انھوں نے ایک رباعی میں کیا خوب فرمایا           ؎

بے کارکی باتوں نے ابھارا ہم کو

عیسیٰ بھی محمد ؐ بھی ہے پیارا ہم کو

تقسیم مذاہب سے نہیں کچھ بگڑا

انسان کی تقسیم نے مارا ہم کو

شعور ِ غم‘نامی کتابچہ آل رسول پر ہونے والے کربلائی واقعات کے اظہار پر مبنی ہے۔

بہرحال تحقیق، تنقید، نعت و منقبت وغیرہ ہر میدان میں آنجہانی نے وہ کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں کہ انھیں اعلیٰ حضرت کہنا ہر لحاظ سے حق لگتاہے۔ ان کا وصال۔  اردو ادب کا بہت بڑا داغ ہجر ہے جو ہر صاحبِ ذوق کے دل سے مشکل سے مٹے گا۔ کم سے کم میرے دل سے تویہ داغ نہ جائے گا کہ اس سانحے کو میں اپنا شخصی نقصان سمجھتا ہوں۔

ماخذ

  1.       ہندستانی مشرقی افریقہ میں (جلد اول) کالی داس گپتا رِضا، ومل پبلی کیشنز بمبئی 20۔(دسمبر1977)
  2. ا     سد اللہ خانِ غالب مرد اور سلسلۂ غالبیات کے دوسرے مضامین از کالی داس گپتا رِضا۔ساکار پبلیشرز پرائی ویٹ لمیٹڈ، بمبئی 20  (1991)
  3.     علامہ کالی داس گپتا رِضانمبر سہ ماہی اسباق پونہ مرتبین نذیر فتح پوری،امین حزیں،سنجے گوڑبولے۔(جولائی 2001 سے مارچ 2002 تک
  4.       اقبال کی خامیاں از جوش  ملسیانی (تعارف از کالی داس گپتا رِضا)۔ساکار پبلشرز پرائی ویٹ لمیٹڈ۔بمبئی 20۔( تیسرا ایڈیشن 1994)


Dr. Raoof Khair
9-11-137/1, Moti Mahal,
Golconda
Hyderabad- 500008
Cell: 9440945645
Email.: raoofkhair@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں