25/4/23

عصر حاضر کے ادب اطفال میں سائنس وٹکنالوجی رجحانات وامکانات: محمد سراج عظیم


 اردو  میں ادب اطفال کے نقوش محققین کی تحقیق کے مطابق ا میر خسرو کی قلندرانہ تحریروں سے ملتے ہیں۔ جن میں کہہ مکرنیاں،  پہیلیاں،  دوسنحنے،  انمیلیاں،  دوہے  اور گیت  وغیرہ شامل ہیں۔  اسی طرح اگر دکنی اردو کے حوالے سے بات کریں تو باقاعدگی سے بچوں کے ادب کا آغاز ولی دکنی سے ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ اس زمانے میں ادب اطفال کی الگ سے کوئی شناخت نہیں تھی بلکہ غیر ارادی طورپر پڑھے لکھے لوگ عام فہم زبان میں اس وقت کے لحاظ سے پند و نصائح کی وہ باتیں جو سماج میں صالح اور مثبت رویوں اورعادات کو  مہمیز کریں  وہ تحریرکرتے تھے۔اب یہ الگ بات تھی کہ اس طرح کا تخلیقی مواد زیادہ تر یا تو مدارس کے طلبا کو  یا گا گا کر دف یا ایک تار ے کی تان پر چوپالوں یا میلے ٹھیلے وغیرہ میں سنایا جاتا تھا۔ جو کسی طرح مستورات کو ازبر ہو جاتا تھا اور وہ بچوں کو سنایا کرتی تھیں۔  نتیجہ یہ ہوا کہ بچوں کے ادب کی بالواسطہ یا بلا واسطہ ترویج خام ادب اطفال کے طور پر مستورات سے منسلک ہوگئی، اور اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کہانیاں، لوریاں، کہاوتیں اور تقریبات میں گیت یہ سب عورتوں سے ہی منسوب تھیں۔ یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ امیر خسرو  اور  ولی دکنی کے وقت میں اگر بچوں کا ادب تھا تو شاعری کی شکل میں تھا، اگر نثری ادب کو سمجھا جائے تو نثری ادب وہی ہے جو عورت نانی، دادی کی شکل میں کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ کبھی کبھی وہ اتنی طویل ہوا کرتی تھیں کہ ایک ایک ہفتے کا دورانیہ ہوا کرتا تھا۔تاریخی پہلو سے یہی نانی، دادی کی کہانیاں بچوں کا ادب ہوا کرتی تھیں اور اسی کو ہم خام ادب اطفال کا نام دے سکتے ہیں۔ اس کا واضح کردار نانی، دادی ہی ہوا کرتی تھیں۔  یہ روایت نہ صرف اردو زبان کی تھی بلکہ دنیا کی ہر زبان میں پائی جاتی ہے۔

اگر عالمی پیمانے پر ادب اطفال کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو انگریزی اور چینی زبان میں ادب اطفال کی روایت قدیم ترین ہے۔ اس کے بعد روسی اور اطالوی زبان آتی ہے۔ ہماری ہندآریائی زبان میں بھی ادب اطفال کی تاریخ زمانہ قدیم سے ہے، جہاں پرانوں کی کہانیاں سب سے قدیم مانی جاتی ہیں۔ لیکن اس کے باقاعدہ آثار پنچ تنتر کی کہانیوں اور بیتال پچیسی میں ملتے ہیں۔ ان کہانیوں کا بھی مرکز مٹھ یا پاٹھ شالائیں تھیں اور ہندو مذہب میں بھی کہانیوں کا بیان عورتوں کی زبان کے ذریعے ہی تھا۔ یعنی ادب اطفال کی ترویج کا ایک اہم ذریعہ مستورات ہی تھیں۔  اس کی وجہ شاید یہ رہی ہو کہ بچہ زمانہ طفلی سے شعور کی منزل پر پہنچنے تک ماں کے زیر اثر رہتا ہے۔

اردو میں ادب اطفال کی باقاعدہ شروعات کے آثار اٹھارویں صدی سے ملتے ہیں۔ جب میر تقی میر اور نظیر اکبرآبادی نے شعوری طور پر اپنے کلام میں ان موضوعات کو استعمال کیا جو ادب اطفال سے تعلق رکھتے تھے۔ نظیر اکبرآبادی نے اپنے یہاں عہد طفولیت کی ان دلچسپیوں کو بڑی خوبی سے برتا ہے جو کسی بھی بچے کی توجہ کا مرکز ہوتا ہے۔مگر اس وقت میر تقی میر اور نظیر اکبرآبادی کی ان کوششوں کو عوامی ادب کہہ کر کوئی خاص اہمیت نہیں دی گئی نہ ان کی کاوشات کو ادب اطفال کے نام سے گردانا گیا۔ اسی اثنا میں انجمن پنجاب، فورٹ ولیم کالج، علی گڑھ تحریک، اور دہلی کالج انیسویں صدی کے اوائل میں وجود میں آئے۔ تین قابل قدر انگریز شخصیات جان گلکرسٹ، کرنل ہالرائڈ اور ای ویٹ نے درس و تدریس کی کتابیں تیار کرائیں۔ جس میں فارسی اور انگریزی زبانوں سے ترجمے شامل تھے یہ درسی کتابیں اپنے متن اور افادیت کی رو سے اس قدر مقبول ہوئیں کہ بعض کتابیں ساٹھ کی دہائی تک اسکولوں میں شامل نصاب رہیں۔ ان درسی کتب کی تیاریوں میں مولانا محمد حسین آزاد،  امام بخش صہبائی، مولوی ضیاء الدین، مولانا اسمعیل میرٹھی، مولوی ذکاء وغیرہ کے نام نامی عزت و احترام کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ بہت اہم ہیں۔درسی کتب کی ترتیب و تدوین کے سلسلے میں جہاں بہت سے نام ہیں وہاں مولانا اسمعیل میرٹھی ادب اطفال میں ایک ستون کی حیثیت رکھتے ہیں۔ انھوں نے درسی کتب کی تیاریوں میں خود بچوں کی استعداد اور فہم کے مطابق مواد تیار کیا، جو ادب اطفال میں تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ اسمٰعیل میرٹھی بچوں کے کل وقتی ادیب تھے جنھوں نے اپنے آپ کو بچوں کے لیے لکھنے کے لیے وقف کررکھا تھا۔

اسی دور کے کچھ ایسے حضرات بھی تھے جو ذاتی طور پر بچوں کے ادب پر کتابیں شائع کرواتے تھے، جو سرکاری اداروں کے زیر نگرانی نہیں تھے۔ مگر ان کی کتابیں تدریسی مقاصد کو پورا کر رہی تھیں۔ جن میں ڈپٹی نذیر احمد، مولانا الطاف حسین حالی وغیرہ تھے جنھوں نے ادب اطفال میں گرانقدر خدمات انجام دیں۔ آزادی سے پہلے ادب میں حفیظ جالندھری نے جہاں ادب عالیہ میں اپنا مقام بنایا وہیں بچوں کے ادب کے لیے بہت اہم کام انجام دیے۔ ان میں سے ایک عمر و عیار کو دو جلدوں میں پیش کیا۔ جو یکساں طور پر بڑوں اور بچوں میں مقبول ہوا، اور کئی زبانوں میں منتقل ہوا اس پر فلمیں اور ٹی وی سیریل بھی بنے۔ اس کے علاوہ الف لیلہ کی کہانیاں بچوں کے لیے آسان زبان میں منتقل کیں، جو ایک زمانے تک مقبول رہیں۔ امتیاز علی تاج نے بچوں کے لیے ایک ناقابل فراموش مزاحیہ کردار چچا چھکن خلق کیا۔ یہ کردار بھی اردو ادب میں اتنا مقبول ہوا کہ اس کے چرچے آج تک زندہ ہیں اور اس کو دوسری زبانوں نے بھی اپنایا ،سماج میں یہ کردار کسی شخص کے بے وقوف اور حجتی ہونے کے لیے مثال بھی بن گیا۔ ابھی حال ہی میں انقلاب میں ’چچا چھکن کے کارنامے عصر حاضر میں‘ کے عنوان سے مختلف تخلیق کاروں سے تخلیق کراکر شائع کرائے گئے، جن کو لوگوں نے دلچسپی سے پڑھا۔ چچا چھکن بھی ہندوستان کی مختلف زبانوں میں جلوہ افروز ہیں۔ مگر چچا چھکن کے بعد اردو ادب یا ادب اطفال میں کوئی دوسرا مقبول عام کردار معرضِ وجود میں نہیں آیا۔

ہمارے سابق صدر جمہوریہ اور بانیان جامعہ میں سے ایک ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب نے اپنے رفقا اور اساتذہ کو اپنی ذاتی دلچسپی کی وجہ سے بچوں کا ادب تخلیق کرنے کی ترغیب دلائی۔جن میں ڈاکٹر عابد حسین، صالحہ عابد حسین، محمد مجیب، شفیع الدین نیر، قدسیہ زیدی، حسین حسان، اطہر پرویز اور عبد الغفار مدھولی وغیرہ شامل تھے، خود ذاکر صاحب نے بھی بچوں کے لیے لکھنا شروع کیا۔ اس زمانے میں ڈاکٹر ذاکر حسین کی مشہور زمانہ ابو خاں کی بکری آئی۔ ڈاکٹر ذاکر حسین نے سید عابد حسین کی ادارت میں سنہ 1926 میں ’پیام تعلیم‘ کے نام سے بچوں کا ماہنامہ شروع کیا۔ جس میں بچوں کی دلچسپی کا ایسا مواد شامل ہوتا تھا جو معیاری ہونے کے ساتھ مقبول عام تھا۔ اس طرح سے جامعہ کے مصنّفین کا ادب اطفال میں اہم رول رہا ہے۔اسی زمانے میں دہلی سے ماہنامہ ’کھلونا‘ بھی نکلتا تھا۔ جس میں اس کے مالک و مدیر یوسف دہلوی اور ان کے بیٹے الیاس دہلوی نے پہلی بار کارٹون کی شکل میں لطائف اور کہانیاں شامل کیں۔ اس کے علاوہ بچوں کے رسالے میں پہلی بار کہانی اور نظم کی مناسبت سے کھلونا میں ملازم آرٹسٹوں سے تصاویر بنوائی جاتی تھیں۔ اس زمانے کے آس پاس یا اس سے پہلے یا بعد میں بچوں کے کئی رسائل شائع ہوئے۔ جس میں بریلی سے ٹافی، مرادآباد سے چندا نگری، بجنور سے غنچہ، لکھنؤ سے کلیاں وغیرہ اس کے علاوہ ہندوستان کے مختلف صوبوں سے بھی بچوں کے کافی رسائل شائع ہوئے۔ جن کی ایک طویل فہرست ہے مگر وقفے وقفے سے قاری کی بے اعتنائی اور مالی بحران کی وجہ سے بند ہوتے گئے۔ جن رسائل کو تاریخ کے اوراق بھلا نہیں پائیں گے ان میں سب سے اہم ’کھلونا‘ مکتبہ الحسنات کے رسالے ’نور‘ اور ھلال، لکھنؤ کا کلیاں ہیں۔

ادب اطفال میں اچھے اور معیاری ہر طرح کے ناول بھی لکھے گئے۔ سراج انور کے ناول نیلی دنیا،  کالی دنیا، خوفناک جزیرے، کرشن چندر کے ستاروں کی سیر ، الٹا درخت، مالیگاؤں کے یوسف انصاری نے جہاں روسی ادب اطفال اور فارسی ادب سے ترجمے کیے جن کی تعداد تقریباً سو ہوتی ہے انھوں نے بھی ایک ناولٹ زہرہ کا سفر لکھا اور دسیوں کامک کہانیاں لکھیں اور اپنے شاہین پبلی کیشنز اردو کے کامکس شائع کیے۔ شوکت تھانوی نے بھی بچوں کے لیے ناول اور ناولٹ لکھے۔ اس کے علاوہ اسی کی دہائی تک ادب اطفال کا ایک سنہرا دور رہا۔ جس میں کہانیاں، نظمیں،  ناول،  ڈرامے، کامکس وغیرہ کافی تعداد میں لکھے گئے اور قارئین میں مقبول بھی ہوئے۔ مگر سنہ 80ء کے بعد جیسے ادب اطفال پر ایک سکوت سا طاری ہوگیا اور لگنے لگا کہ شاید ادب اطفال اپنی زندگی کی آخری ہچکیاں لے رہا ہے۔ مگر بیسویں صدی کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے ادب اطفال میں پھر سے زندگی کی حرارت محسوس کی جانے لگی اور بچوں کا ادب نئی توانائی کے ساتھ اپنے وجود کا احساس دلانے لگا۔

یہاں تک ادب اطفال کے ماضی کی روشن تصویر کو بیان کرنے کا مقصد تھا کہ عصر حاضر میں رونما ہونے والی متحیرانہ سائنسی اور تکنیکی تبدیلیوں کے مطابق اردو زبان میں ادب اطفال کی اہمیت اور افادیت کا تعین اور ترجیحات کا احاطہ کیا جا سکے۔ یہ انکشاف شاید کچھ حضرات کو سوچنے پر مجبور کر دے گا کہ میں اردو زبان اور ادب اطفال کے تعلق سے جو اعداد و شمار یہاں پیش کر رہا ہوں وہ حیران کن ہیں۔ اب آئیے ادب اطفال کے اعداد و شمار پر نظر ڈالتے ہیں۔انگریزی زبان کا ادب اطفال سب سے زیادہ انگلینڈ میں 96 فی صد لکھا، پڑھا جاتا اور شائع ہوتا ہے۔ جب کہ لندن شہر میں یہ صدفی صد ہے۔ کناڈا میں 79 فی صد جرمنی میں 82 فی صدہے۔ ہمارے ہندوستان میں اردو ادب اطفال کل 37 فی صد ہے۔ جب کہ ہمارے پڑوسی ملک پاکستان میں حیرت انگیز طور پر25 فی صد ہے جہاں اردو کے تقریباً ساٹھ رسائل نکلتے ہیں اور بہت ضخیم کتابوں کی اشاعت ہوتی ہے مگر اعداد دوسری داستان بیان کرتے ہیں یعنی برصغیر ہند و پاک میں ادب اطفال کی حالت دگرگوں ہی کہی جاسکتی ہے۔ ان اعداد و شمار سے آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہم مجموعی طور پر ادب اطفال کے لیے کتنے سنجیدہ اور فعال ہیں۔ یہ اعداد و شمار کیا سیکڑوں سوالات کے ساتھ ہمیں کچھ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں؟

یہ حال ہے ہماری زبان اردو اور ادب اطفال کا جہاں آج ہم ایک چوراہے پر کھڑے ہیں اور اس کشمکش میں مبتلا ہیں کہ سامنے کا راستہ ایک شاندار، کامیاب مستقبل کی جانب جاتا ہے۔ جب کے ہمارے پیچھے کا راستہ ہمیں ناکامیوں، نامرادیوں کے اندھیرے میں ضم کرنے کے لیے کافی ہے اور دائیں بائیں صرف بھٹکنے والوں کے لیے ہے۔ زندگی میں صرف ادب ہی نہیں ہر شعبہ حیات میں اکیسویں صدی کے نزدیک پہنچتے پہنچتے سائنس اور ٹیکنالوجی کی ایسی حیرت انگیز تبدیلیاں یا ترقیاں رونما ہوئیں کہ متحرک اذہان ایک خلفشار کا شکار ہونے لگے اور ہر لمحہ سائنسی ایجادات کے بدلتے منظرنامے سے انگشت بدنداں ہوتے ہوئے اپنے آپ کو اس کے ہم رکاب کرنے کی کوشش شروع کردی۔چاہے ادب ہو یا کوئی بھی شعبہ حیات ہو، جنھوں نے اپنے آپ کو وقت کے دھارے کی سمت اور رفتار سے مطابقت دے لی وہ کامیابی کی بلندیوں پر نظر آنے لگے جو چوک گئے یا بے اعتدالی برتی وہ ماضی بن گئے۔ تبدیلی قانون فطرت ہے تبدیلی کا خیر مقدم کرتے ہوئے اس کو اپنانا زندہ قوموں کی نشانی ہے۔ ادب میں عمومی طور پر اور ادب اطفال میں خصوصاً اس کا اطلاق ضروری ہے۔بچہ آنے والے مستقبل کا فرد ہے اور مستقبل سائنس و ٹیکنالوجی کی حیراں سامانیوں کے ساتھ ظاہر ہوگا، اگر اس کی تیاری آج کا بچہ نہیں کرے گا تو جینا محال ہوگا۔

اکیسویں صدی میں انسانی رویوں اور سوچ میں نمایاں تبدیلی رونما ہوئی کہ وہ ٹیکنالوجی کی یلغار کی وجہ سے اس کا اسیر ہو گیا جس کی وجہ سے وہ تمام انسانی و سماجی سروکاروں سے بے بہرہ ہو گیا اور اس کی دلچسپیوں کا سامان سائنس وٹیکنالوجی کی بے ہنگم ترقی میں ضم ہوکر نتیجے کی ہاں  یا نا کے عملی ثبوتوں پر مرکوز ہو گئے اور اس کا سب سے زیادہ شکار نسل نو ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں سب  سے بڑی پریشانی ادب اطفال میں آئی۔ کیوں کہ آج کا بچہ تخیلاتی دنیا میں جینا نہیں چاہتا۔ وہ حقیقت جاننا چاہتا ہے کیوں اور کیسے؟ آج کا بچہ کسی بھی شعبہ حیات میں سائنٹفک حقائق کی روشنی میں اس عمل کا جواب چاہتا ہے۔ اس لیے وہ کتب بینی سے اس لیے دور ہے کہ وہاں اس ادب میں اس کو تصوراتی اور تخیلاتی دنیا کی غیر یقینی سے دو چار ہونا پڑتا ہے جو اس کے ہاں یا نا کے حل کی نفی کرتا ہوا لگتا ہے۔

آج کا بچہ ہر لحظہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی روز افزوں ترقی سے اسکرین کا عادی ہو گیا ہے۔ چاہے وہ ٹی وی پر کارٹون کہانیاں پوکے مان، سیان چینگ، ہو یا کمپیوٹر پر انٹرنیٹ سرفنگ سے خلائے بسیط میں خلائی جہازوں یا راکٹوں کے ذریعے دوسرے سیاروں کے اسفار ہوں، ان کی جانکاری یا موبائل پر مختلف گیمز ، وہاٹس ایپ یا دوسری ایپس ہوں ان سے کائنات کے ان رازوں سے واقفیت حاصل کرتا ہے جو تخیلات کی دنیا سے نکال کر اسے راز ہائے کائنات سے روشناس کراتے ہیں۔ جو اس کی دلچسپی کا سامان تو فراہم کرتے ہی ہیں مگر حقیقت کی ایسی دنیا میں پہنچا دیتے ہیں جہاں وہ چاند کی بڑھیا کے تصوراتی خیال کو یکسر بھلا کرسرخ سیارے کی سرخی کی گتھی سلجھانے کی جانب کمر بستہ نظر آتا ہے۔  آج ہر زبان کا ادب اطفال، اگر وہ آج کے دور سے مطابقت نہیں رکھتا اور دور حاضر کے بچوں کے رجحان ، دلچسپیوں اور اس کی ذہنی پرواز کو گرفت میں نہیں لیتا تو وہ بے ثباتی اور اس سے دوری کا سبب بنتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس صورت حال میں اردو کا ادب اطفال کہیں بچھڑتا ہوا نظر آتا ہے۔ باوجود اس کے ماضی کے مقابلے آج کتابیں بہت شائع ہو رہی ہیں۔ بہت ادب اطفال لکھا جا رہا ہے مگر معصوم قاری ندارد ہے۔ کیا کبھی تخلیق کاروں، شاعروں نے سوچا ہے کہ وہ جو ادب تحریر کر رہے ہیں، جس کے لیے تحریر کر رہے ہیں وہ اس قاری کے ذہنی میلانات کو طے کر رہا ہے اس کی دلچسپیوں اور اس کی ضرورتوں کے مطابق ہے۔ اگر نہیں تو یقینا بچے کی افتاد طبع اور رجحان کا معیار اس کی کتب بینی اور ادب سے دوری کا باعث ہوگا۔ جیسا کہ میں نے کہا دور حاضر کا بچہ ٹیکنالوجی اور سائنسی ایجادات کا اتنا اسیر ہو گیا ہے کہ آج خلائی فنتاسی، ماحولیات، سائنسی کہانیاں اس کی دلچسپی اور ترجیحات میں سے ہیں۔ ہمارا ادب اطفال اس  فرسودہ اور کلاسیکی تحریروں کے سحر سے نہیں نکل سکا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آج کا قاری ادب اطفال پڑھنا نہیں چاہتا اس کی توجہ ادب اطفال کی جانب مبذول کرانے کے لیے ہمیں دور حاضر کے حساب سے ادب اطفال میں نئے رجحانات، اور ایجادات کو ادب اطفال میں بروئے کار لانا پڑے گا۔ ہم تو آج تک اردو کے بچوں کے ادب میں کارٹونی کہانیوں کا سلسلہ رائج نہیں کر سکے۔ صرف امنگ اور گل بوٹے میں کارٹونی کہانیاں شائع ہوتی ہیں۔ وہ بھی وہی پرانے طرز کی کہانیوں پر مبنی۔ ہم  چچا چھکن کی طرح کوئی مقبول عام اسکرین پر کردار پیدا نہیں کر سکے جبکہ ہمارے ہی ملک کی ہندی زبان میں چھوٹا بھیم جیسا مقبول کردار جو آج پوری دنیا میں دیکھا جا رہا ہے۔ ہمارے ملک کے معاشرے سے نکلا ہوا کردار روشن دماغ کی نشانی ہے۔ اس کے آگے کتابوں کی دنیا کی بات کریں تو انگریزی کی مصنفہ جے کے راؤلنگ کی ہیری پوٹر سیریز کو لیں تو پتہ چلے گا کہ جادو کی پرانی کہانیوں کو نیا لباس پہنا کر راؤلنگ نے لاکھوں قارئین کی دلبستگی کا کام کیا بلکہ آج وہ دنیا کی امیر ترین مصنف میں شمار ہوتی ہے۔ کیا ہمارے قلمکار حضرات کے پاس سائنسی سوچ و نظریات کا فقدان ہے۔ کیا ہماری سماجی معاشرتی اور فکری دنیا الگ ہے۔ کیا ہم ایک پچھڑی ہوئی ہاری قوم ہیں جو عصر کے روشن سائنس و ٹیکنالوجی کے ہالوں سے بے بہرہ وقت کے اندھیروں میں کھو جانا چاہتے ہیں۔ نہیں بالکل نہیں۔ ہمارا ماضی بہت روشن رہا ہے جہاں ہم نے دنیا کو سائنس طب ارضیات معاشیات اور بہت سے ایسے میدان جہاں انسانیت کی پہنچ نہیں تھی وہ ایجادات اور فکر و فلسفہ دیا۔ یہ بھی درست ہے کہ اردو ادب ہر زمانے میں اس کے تقاضوں کے لحاظ سے اپنے آپ کو ایک مضبوط اور متحرک ادب بن کر پیش کرنے میں کامیاب رہا ہے۔

آج ہمیں ضرورت ہے کہ ہم دنیا اور وقت کے بدلتے منظر نامے کے مطابق اپنے اردگرد ادب اور سوچ کو ڈھالیں۔ آج ضرورت ہے کہ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کی ایجادات کو ادب اطفال کے لیے بروئے کار لاتے ہوئے، کارٹون کہانیاں، اینیمیشن، سائنس فنتاسی، دلچسپ ناول جن میں خلائے بسیط کے قصے، جاسوسی قصے جس میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ہو، وہ کردار جو سائنس کی نئے نئے ایجادات کا استعمال کرکے ماسٹر فار آل ایکشن ہو ادب اطفال میں ان سب کی آمیزش اور بہتایت کی ضرورت ہے۔ اردو میں بچوں کا ادب لکھنے والوں کو ان سب باتوں اور سائنس و ٹیکنالوجی کی ایجادات اور سائنسی رجحانات کی سوچ سے پر ادب تحریر کرنا ہوگا تب ممکن ہوگا کہ اردو ادب اطفال کا معصوم قاری کتب بینی کی جانب متوجہ ہو۔ تحریر کرنے کے لیے اور بہت کچھ ہے مگر یہ موضوع دور حاضر کے حساب سے کافی طویل گفتگو کا متقاضی ہے جس پر سیر حاصل تبصرہ اور غور وفکر کی ضرورت ہے۔ میں وقت کی قلت اور طوالت کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی بات یہاں ختم کرتا ہوں۔ ادب اطفال کو دور حاضر کے مطابق تحریر کرنے اور قاری کو اس جانب راغب کرنے کے لیے ہمیں عصری تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ادب اطفال کو تخلیق کرنا پڑے گا۔


Mohammad Siraj Azeem

A-47, Zakir Bagh,

Opp. Surya Hotel, Okhla Road

Jamia Nagar

New Delhi- 110025

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں