مجاز لکھنوی یا مجازردولوی ڈرامائی انداز میں افق شاعری
پر ابھرنے والا شاعر اور پھر اسی انداز میں ڈوبنے والا بھی جس کی ساری زندگی عشق کے
لیے وقف اور جس کو سوچ کر یہ شعر ذہن میں ابھرتا ہے ؎
مستی و نا آشنائی وحشت و بیگانگی
یا تیری آنکھوں میں دیکھی یا تیرے دیوانے میں
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی فضا میں پروان چڑھنے والے مجاز
کی اٹھان کچھ اور ہی تھی ہوا کچھ اور۔ مجاز نے جب اپنا وہ نغمہ چھیڑا کہ جس کے لیے
خود کہا ؎
میرا نغمہ باعث دلداریِ خوباں تو ہے
میرا نالہ خیر سے وجہ نشاط جاں تو ہے
ابتدا سے ہی دلداریِ خوباں کے جو اشارے ملنا شروع ہوئے ان
سے جو تاثر مرتب ہوا اس نے قلب کو گرمانے سے زیادہ روح کو تڑپا دیا ؎
عشق ہی عشق ہے دنیا میری
فتنۂ عقل سے بیزار ہوں میں
عشق اگر دنیا تھی تو مجاز ماورائے جسم اور ماورائے دنیا
کی جستجو کر سکتے تھے لیکن اس کے لیے بہرحال عقل کی رہبری درکار تھی جس کے مرہون منت
وہ ہونا نہیں چاہتے تھے اس حد تک کہ اس کی راہیں مسدود کر دینے کے لیے انھوں نے عقل
کی باتوں کو دفتر بے معنی سمجھ کر غرق مئے ناب کر دیا اس سے شاعری تو اثر انگیز ہو
گئی لیکن زندگی پر بربادی کے عذاب آنا شروع ہوئے اور جن دلوں میں مجاز کے لیے امیدوں
کے چراغ روشن تھے بھڑکنے لگے اور ایک روح فرسا انجام شاعری کی دیوی نے نم آنکھوں سے
دیکھا لیکن عمر کے لحاظ سے دنیا میں بہت کم دن گزارنے کے باوجود مجاز نے اپنے تخیل
سے ایسے گل کھلا دیے کہ جن کی خوشبو آج بھی بزم سخن میں بسی ہے اور یہی خوشبو اس بزم
کا حاصل بھی ہے۔اپنی مادر درسگاہ کے لیے جو ترانہ مجاز نے لکھ دیا اگر وہ صرف وہی لکھ
دیتے تو ان کے بعد الموت زندہ رہنے کے لیے کافی تھا لیکن چونکہ وہ سرشار نگاہ نرگس
اورپابستۂ گیسوئے سنبل تھے اس لیے وہ جگر لخت لخت سے دعوت مژگاں کرنے کی نادانی کر
بیٹھے اور مژگاں کے نشتر ان کے وجود کو لہولہان کر گئے مجاز کو حسن پرستی سے بجز درد
و غم کچھ نہ ملا حسن کی طرف سے اشراقی اشارے ضرور ملے لیکن کچھ بھی ان کی زندگی کو
روشنی دائمی نہ دے سکا اگر عقل کو تھوڑا بروئے کار لائے ہوتے تو شجر ممنوعہ پر اگر
دل آیا بھی تھا توجگر کی اس بات کے معنی پر غور کر لیتے تو سارا قصہ ہی بدل جاتا وہ
یہ کہ ؎
حسن کی اک اک ادا پر جان و دل صدقے مگر
لطف کچھ دامن بچا کر ہی گزر جانے میں ہے
لیکن اس کے لیے ذہن میں جس اعتدال کی ضرورت ہوتی ہے وہی
مجاز میں نہیں تھا یہی ان کی زندگی کا المیہ اور اسی کاثبوت جوش کی نصیحت کہ گھڑی رکھ
کر مے نوشی کرنے کی صلاح اور مجاز کا گھڑا رکھ کر پینے کا عزم اور جس سے اردو شاعری
کا نقصان عظیم ہو گیا کاش وہ نشتر زہر آگیں نزدیک رگِ جاں رکھ کر بھولے نہ ہوتے بلکہ
اس کا درماں تلاش کر لیتے اور شاید خیال آرائی سے ان کا سخن خیال بندی کی دولت حاصل
کر لیتا اور جو ایک بین الاقوامی مجاز سمینار میں مرحوم شمس الرحمن فاروقی صاحب نے
کہہ دیا تھا کہ مجاز بین الاقوامی سمینار کا موضوع نہیں ہیں جس پر علی سردار جعفری
نے مدلل جواب ضرور دیا۔ فاروقی صاحب کی بات تنقیدی شعور کی راہ سے سامنے آئی لیکن
وجدان مجاز کی حمایت کر رہا تھا اور سردار جعفری نے شاعری پر فاروقی صاحب کے بیان سے
ہی ان کے اس بیان کی تردید کردی۔ وجدان کے جھوم اٹھنے کے سارے سامان مجاز کی شاعری
میں ملتے ہیں اور نذر علی گڑھ میں بھی وہ وصف
ہے جو سیدھے دل پر اثر کرتا ہے اور دماغ پر بھی اس کی ساری لفظیات استعارے تشبیہات
سب جمالیات کے سانچے میں ڈھلے ہیں اسلوب صہبائے کہن ہے لیکن ساغر نو میں ڈھلا ہے شاید
مجاز نے بھی یہ نہیں سوچا ہوگا کہ ان کے دل سے نکلی صدا دائمی بازگشت بن جائے گی جسے
حسن کے کومل سُر اور پرستاران حسن کے با وقار لہجے ملتے رہیں گے ہر لطف کے موقع پر
اس کا احیا ہوگاجو اس درس گاہ کی عظمت کے نقش مرتب کرتا رہے گا۔ مجاز کے تخیل کا یہ
ابر ہمیشہ برسا ہے اور برستا رہے گا۔آوارہ، کس سے محبت ہے، مادام نورا کی اثر انگیزی
اپنی جگہ مجاز کی غزلوں کا نظامِ جمالیات اپنی خوبیوں کے ساتھ تاریخ اردو شاعری میں
محفوظ رہے گا جس کی سربراہی نذر علی گڑھ سے ہوتی رہے گی۔ ہمیںاب جو یوں ہوتا تو کیا
ہوتا نہیں سوچنا ہے بلکہ صرف مجاز کی یاد تازہ کرنا ہے اس شعر کے ساتھ ؎
تمھاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمھیں یاد کرنے لگتے ہیں
نام یا تخلص کا اثر شخصیت پر پڑتا ہے ایسا کہا جاتا ہے جبھی
غالب علی کل غالب ہے اور اقبال کا اقبال بلند سے بلند تر ہو رہا ہے لیکن مجاز مجاز
ہی کے نقرئی جال میں گرفتار رہے حقیقت کے پردے نہ اٹھے جبھی کہتے رہے بصد کرب ؎
اے غمِ دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
مجاز کی شاعری کو جس دور میں مقبولیت حاصل ہوئی وہ کسی بھی
ادب اور شاعری کی زرخیزی کا دور تھا عظیم شاعروں اور ادیبوں کا ایک مجمعِ حسین چاروں
طرف تھا اور مجاز اس دور میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ وہ اہل نظر کے درمیان
اپنے مخصوص انداز کے باعث قدر کی نگاہ سے دیکھے گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ انھوں نے خود
اپنے کو سنبھال کر نہیں رکھا۔یہ المیہ بڑے پیمانے پر اردو کے شعری ادب کا ہے لیکن حسن
کے تصور میں ان کی نظر ہمیشہ گم رہی اور کچھ حسین پرچھائیاں یادوں کے نہاں خانے میں
ابھرتی رہیں۔’ کس سے محبت ہے‘ ان کی اثر انگیز
نظم ہے۔مجاز نے’ کس سے محبت ہے‘ میں جو کچھ کہا دراصل حقیقی طور پر وقوع پذیر نہیں
ہوا۔ یہ دراصل نا تمام آرزوئیں ہیں جن کی تکمیل کی کوئی راہ نہیں ہے اور وہ جو بہت
مشہور ہے کہ لڑکیاں ان کے نام پر قرعہ اندازی کرتی تھیں وہ ان کے کھیل تھے اور اسی
اطلاع کی بنا پر مجاز کے شاعرانہ ذہن نے ثریا بخت زہرہ جبیں اور ماہ طلعت کے پیکر تراش
لیے اگر کوئی ایسا کہیں ہوتا کہ جو چہرے پر فکر کے آثار پا کرواقعی تسکین دیتا اندیشے
مٹاتا شانے پہ سر رکھ کر گیت گاتا تو مجاز اس بے پناہ مایوسی کا شکار نہ ہوتے جس سے
نجات حاصل کرنے کے لیے ان کو مے نوشی کا سہارا لینا پڑا۔یہ صحیح ہو سکتا ہے کہ ان کی
جرأتوں پر بے نیازی کی سزا ملی ہے اور حسن کی بہار سپردگی ان کے مقدر میں آئی ہی
نہیں لیکن ان کی قوت متخیلہ اور بیان کی تاثیر ایک منفرد اسلوب جذبوں کے اظہار میں
سادگی یقین کرانے کے لیے کافی ہیں کہ جو کچھ وہ کہہ رہیں ہیں حقیقت
میں وہی ہوا ہے اور سب کچھ ہے تو Sensual لیکن وہ Sensuous ہوکر قلب انسانی کو تڑپانے لگا وہ لفظوں سے ایک ایسا
ماحول بنانے میں کامیاب ہوئے کہ جس میں حسن کے گلزار چاروں طرف دکھائی دینے لگے رنگ
و رعنائی کا ایک سلسلہ دور تک پھیل گیا مگر یہ سب اس شعر کے مطابق تھا کہ ؎
ہائے وہ حسن تصور کا فریب رنگ و بو
میں یہ سمجھا جیسے وہ جان بہار آہی گیا
مجاز کی شاعری ان کے رنگین تخیل کی کارفرمائی ہے اور شاعری
میں یہ ضروری بھی نہیں کہ جو بتایا جا رہا ہے وہ واقع ہوا ہو۔’ اعتراف‘ ان کی نمائندہ
نظموں میں ایک ہے، یہ مجاز کے بکھرے ہوئے وجود کی صدا ہے یہاں ان کے احساس نے ایک پیکر
رعنائی کا روپ دھار لیا ہے جس سے وہ ہم کلام ہیں اس کے حسن کی ساری عظمتیں انھیں قبول
اس کے بنت مہتاب ہونے کا یقین گردوں سے اتر آنے پر بھی کوئی شک نہیں مخاطَبِ غائب
کے ہیولے کے سامنے اپنے وجود کے ٹوٹنے کا خود کو ذمے دار ٹھہرانے کے اس انداز میں لائقِ
صد ستائش ہے اس نظم میں مجاز کی زندگی کے المیے کا پورا منظر نامہ ہے ؎
اب میرے پاس تم آئی ہو تو کیا آئی ہو
میں نے مانا کہ تم اک پیکر رعنائی ہو
بنت مہتاب ہو گردوں سے اتر آئی ہو
اس تمہید سے اندازہ ہو رہا ہے کہ یہاں بھی کوئی نہیں ہے
صرف خیال آرائی ہے اور یہ اعتراف مقصود ہے کہ ؎
مجھ سے ملنے میں اب اندیشۂ رسوائی ہے
میں نے خود اپنے کیے کی یہ سزا پائی ہے
خاک میں آہ ملائی ہے جوانی میں نے
شعلہ زاروں میں
جلائی ہے جوانی میں نے
خوابگاہوں میں جگائی ہے جوانی میں نے
حسن نے جب بھی عنایت کی نظر ڈالی ہے
میرے پیمان محبت نے سپر ڈالی ہے
مجاز نے نہایت سچائی سے اپنی برباد زندگی کا ذمے دار خود
کوٹھہرایا لیکن اس میں کہیں وہ شکوہ نہیں ہے جو محبوب کی بے وفائی کی طرف کوئی اشارہ
کرے جبکہ شاعر جب ناکام ہوتا ہے محبوب کو بے وفا ضرور بتا دیتا ہے لیکن اس نظم میں جو آواز شکستہ ساز ہے اس میں
کہیں حسن پر الزام تراشی نہیں ہے کہیں احباب کی بے اعتنائی کاذکر نہیںہے کہیں دنیا
سے کوئی شکایت نہیں ہے۔اور یہ بھی کہہ دیا ؎
میرے سا ئے سے ڈرو تم میری قربت سے ڈرو
تم لطافت ہو اگر میری لطافت سے ڈرو
اب میں الطاف و عنایت کا سزاوار نہیں
میں وفادار نہیں ہاں میں وفادار نہیں
حسن کو تو وہ صاف بچا لے گئے ا
س کے لیے ان کی ایک غزل کا مقطع بر محل ہے ؎
ہوتی ہے اس میں حسن کی توہین اے مجاز
اتنا نہ اہلِ عشق کو رسوا کرے کوئی
اعتراف ایک منفرد فکر کی نظم ہے جس میں مجاز کی شرافت نفس
کی بازگشت ہے اور خود کو ہر ناکامی کا سبب بتانے کی جرأت کا واضح اشارہ ہے اور یہ
خود احتسابی اور اس کا بیان مجاز کی عظمت کی دلیل ہے اور شاعری کی روایت کے بر خلاف
اس میں کہیں محبوب کی بے وفائی کا نہ شکوہ ہے نہ ذکر ہے اور اگر ہوتا تو یہ مضمون کمزور
پڑجاتا۔
مجاز کا لفظیاتی نظام جوش کے لفظیاتی طمطراق کے بیچ اس لیے
شناخت بن گیا کہ نظم کہتے وقت ایسے الفاظ تلاش کیے جن کی نرم روی کا تقاضا ان کے موضوعات
تھے۔ اگر جوش کا اسلوب دیکھا جائے تو ان کی خالص رومانی نظمیں جیسے ’فتنۂ خانقاہ‘،’جنگل
کی شہزادی‘،یار پری چہرہ وغیرہ اسی لفظیاتی طمطراق کے ساتھ موجود ہیں جو جوش کا طرۂ
امتیاز تھا اور مجاز اس کی تقلید کر سکتے تھے لیکن انھوں نے الگ ہی طرز ادا کے ساتھ
اپنے سامع یا قاری کو اپنا مداح کر لیا اور گمان وتصور کو اس طرح حقیقت بنا دیا کہ
ان کا کہا سب کچھ سچ سمجھ کر بغیر تامل تسلیم کر لیا گیا وہ بھی جبکہ اتنی کم عمر پائی
اور اردو شاعری کے صفحۂ قرطاس پر انمٹ نقوش چھوڑ دیے۔ آوارہ تو مجاز کے ہر ناقد کا
موضوع رہی ہے اس میں ان کا آہنگ بلند ہے ان تخیل کی نگاہیں جو دیکھ رہے جذبوں سے پوری
طرح ہم آہنگ ہیں ایسی خواہشات کا ہجوم ہے جن کا پورا ہونا ناممکن ہے لیکن شاعر کا
شعور چنگیز کے ہاتھوں سے خنجر بے داد چھین لینے کا ارادہ بتا رہا ہے کہ یہ ظلم واستبداد
کے خلاف اس کا جذبہ ہے اور اس کے تاج پر دمکتے ہوئے پتھر کو توڑ دینے کا خیال سرمایہ
داری پر چوٹ ہے جبکہ وہ حقیقت میں خانماں برباد ہے نظم کا پہلا بند ہی بتا دیتا ہے
کہ شاعر کا ذہن پراگندہ ہوتے ہو ئے بھی اپنی تخلیقیت کا سکہّ بٹھانے میں کامیاب ہے ؎
شہر کی رات اور میں ناشاد و ناکارہ پھروں
جگمگاتی جاگتی سڑکوں پہ آوارہ پھروں
غیر کی بستی ہے کب تک در بدر مارا پھروں
اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں
غم دل اور وحشت دل کے ساتھ ناشاد و ناکارہ ہونے کا یہ احساس
اور اس کا اظہار قابل توجہ ہے۔ یہ وہی زمانہ تھا جب مجاز دربدری کے عذاب میںگرفتار
تھے اور آوارگی ان کا مقدر ہوئی تھی۔ اس نظم میں مجاز نے اندر کی یہ گھٹن لفظوں پر
اچھی گرفت کے ساتھ بیان کی ہے۔اس نظم میں اثر انگیزی ہے اور اس کا شاعرانہ حسن تسلیم
شدہ ہے اس میں غصے اور جھنجھلاہٹ کی اٹھتی
گرتی لہریں ہیں تخیل کے دیدۂ حساس کو جو نظر آرہا ہے نئے انداز میں کہہ دینے کی کامیابی
نے اس نظم کو اردو شاعری کی اہم نظموں کی صف میں مقام حاصل کرا دیا ؎
اک محل کی آڑ سے نکلا وہ پیلا ماہتاب
جیسے ملا کا عمامہ جیسے بنیے کی کتاب
جیسے مفلس کی جوانی جیسے بیوہ کا شباب
یعنی ’’اکثر جوانی
غم و اندوہ کے باعث زرد ہوتی ہے ہمارے تصور کے گڑھے ہو ئے آسیب کا روپ دھارتی ہے اور
فنا ہو جاتی ہے لیکن پیلا ماہتاب کسی خوشگوار بسنت کی امید موہوم بھی ہو سکتا ہے یہاں
تشبیہات بھی پر از معنویت ہیں۔ ملّا کاعمامہ تقدس کا نشان بھی ہے اور بقول جوش یہ بھی
ممکن ہے ؎
عالمانِ دیں کے دستاروں میں آتے ہیں نظر
وہ بلا کے پیچ و خم جن سے ہوں اژدر شرمسار
بنیے کی کتاب کی بھی یہی صورت ہے اس میں سب کچھ سچ بھی ہو
سکتا ہے اور نہیں بھی مفلس کی جوانی کی محرومیاں
مجاز کے خود وجود میں پیوست ہیں۔ بیوہ کے شباب کا المیہ مفلس کی جوانی کی طرح آرزوؤں
اور تقاضوں کی ناقابل بیان داستان کی کچھ مبہم جھلکیاں ہیں چاند تارے شاعر کو مردہ
نظر آرہے ہیں کیونکہ اس کی نظر سے وہ روشنی جا چکی ہے جو امید کی راہیں روشن کرتی
ہے۔ دراصل چاند اور تاروں کی روشنی ہی ان کا ثبوت حیات ہے جو شاعر کے لیے اب دستیاب
نہیں ہے غرض فکری اور جذباتی سطح پر یہ نظم مجاز کی بہت کامیاب نظم ہے اس شاعر کی صدا
ہے جو شادمانی کی طرف جانے والی ہر راہ اپنے
پر بند پا رہا ہے وہ روپہلی چھاؤں اور تاروں کے جال کا نظارہ دیکھ کر اسے صوفی کا
تصور اور عاشق کے خیال کی تشبیہ دیتا ہے صوفی کا تصور ہستیِ موہوم کی تلاش اور عاشق
کا خیال منزل جاناں کی جستجو کااشارہ ہے۔ ان سب کے بیچ شاعر کے جی کا حال جاننے کا
کوئی بھی اصلی غمگساری کے لیے موجود نہیں ہے یہاں یہ سوال اٹھتا ہے کہ مجاز کو اہل
عرفاں کی نوازش منظور نہیں تو پھر ان کے جی کا حال اگر صوفی کے اس تصور میں مداخلت
کر بھی دے جو عرفان ذات حق میں غرق ہے تو مجاز منت احسان اٹھانے کے لیے تیار بھی نہیں ہیں ؎
دیکھ سکتا ہوں جو آنکھوں سے وہی کافی ہے
اہل عرفاں کی نوازش مجھے منظور نہیں
نظم میں مجاز نے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے۔ نذر علی گڑھ
نے تو ان کو لافانی کر دیا اور زندگی میں ہزار سامان قنوطیت رہے لیکن فلک سے اس نظم
کی صورت میں سامان بقا اتر آیا اس پر بھی مجاز کی روح کو طمانیت کا احساس ضرور ہوگا
کہ لبہائے نازک پر یہ ترانہ جاری ہے حسن اور ہمت مردانہ دونوں کے جذبے اس سے وابستہ
ہوکر مجاز کی بارگاہ نادیدہ میں عقیدت اور احترام کے پھول پیش کر رہے ہیں اور کرتے
رہیں گے۔ اس کے علاوہ نورا اور ننھی پجارن
نظم کے بنیادی عناصر تسلسل اور محاکاتی حسن کی مثالیں ہیں جن میں تقدس کی دل
آویز فضا کے روح پرور نقوش ابھرے ہوئے ہیں اس صنف نازک کے کردار کے عکس ہیں جس کو
آنچل سے پرچم بنانے کا پیغام انھیں دینا تھا اور انھوںنے دیا۔مجاز کی زندگی تلخ ترین
تجربات سے دو چار رہی۔ رات اور ریل اندھیری رات کے مسافر زندگی کے سفر کے علامتی اظہار
کی بہترین مثالیں ہیں نادر ونایاب تشبیہات اور استعارے اثر انگیزی کو دو بالا کرتے
ہیں بیان کی روانی کو دیکھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ ذہن بکھرا ہوا ہے وجود کی رگیں ٹوٹی ہوئی ہیں۔
مجاز کی شاعری کا منظرنامہ یہ احساس دلاتا ہے کہ ان کے اظہار
کا میدان غزل ہی ہونا چاہیے تھا کیو نکہ وہ پہلے ہی کہہ چکے ہیں عشق ہی عشق ہے دنیا
میری۔ مجاز کی یہ غزل اپنے پورے لوازمات کے ساتھ جلوہ نما ہے ؎
خود دل میں رہ کے آنکھ سے پردہ کرے کوئی
ہاں لطف جب ہے پا کے بھی ڈھونڈھا کرے کوئی
تم نے تو حکم ترک تمنا سنا دیا
کس دل سے ہائے ترک تمنا کرے کوئی
رنگینیِ نقاب میں گم ہو گیُ نظر
کیا بے حجابیوں کا تقاضا کرے کوئی
یا تو کسی کو جرأت دیدار ہی نہ ہو
یا پھر میری نگاہ سے دیکھا کرے کوئی
مجھ کو یہ ضد کہ خود ہی اٹھائیں نقاب وہ
ان کو یہ انتظار تقاضا کرے کوئی
یہ جذبوں اورمعنویت سے بھرپور غزل دراصل مجاز کی طبع زاد
نہیں ہے یہ زمین تراشی ہوئی ہے شہنشاہ سخن مرزا غالب کی جس کا مطلع ہے ؎
جب تک دہان زخم نہ پیدا کرے کوئی
مشکل کہ تم سے طرز سخن وا کرے کوئی
یا یہ شعر ؎
عالم غبار وحشت مجنوں ہے سر بہ سر
کب تک خیال طرۂ لیلیٰ کرے کوئی
ظاہر ہے غالب کے اشعار حسب معمول ان کی بلند وبالا فکراور
ان کے فلسفے کے عکاس ہیں مجاز کی غزل ان کے دل کے سوز و ساز سے ہم آہنگ ہے دل میں
رہنے والے کا آنکھ سے پردہ اور پا کے ڈھونڈھنے کا سلسلہ ازل سے جاری ہے۔ حاصل کو لا
حاصل سمجھنا حالت طلب کی وہ نفسیاتی کشمکش ہے جس سے پیدا تڑپ مایوسی سے دیوانگی تک
لے جاتی ہے لیکن شاعری میں کبھی کبھی ایک لفظ سے مفہوم الگ اور دلچسپ ہو جاتا ہے اس
مطلعے میں لطف کا لفظ وہی کردار ادا کر رہا ہے بتا رہا ہے اخفائے جلوہ سے سوز و ساز
درد و دا غ کے ساتھ جستجو اور آرزو حصول سے کہیں زیادہ پر لطف ہے اور یہ وہ کیفیات
ہیں جو بیک وقت قلب حسن اور عشق دونوں میں ارتقا کر رہی ہیں مجاز نے ’کوئی ‘ ردیف کا
استعمال کرکے ابہام کی جو صورت پیدا کی ہے اس سے مطلع بنایا اور غزل کی طرف توجہ مبذول
کرا دی رنگینیِ نقاب میں نظر گم ہونا اسی کا تسلسل ہے اور نظر کی یہ گمشدگی کے بین
السطور میںبے حجابی کا تقاضا نہ کرنا یا تو یہ بتا رہا ہے کہ شاعر اسی میں مست و سرشار
ہے یا رنگینیِ نقاب میں گم نظر ماضی کا قصہ ہے تقاضا نہ کرنے کا ارادہ وہ جو واقع ہوا
اسے خبر نہیں بنا رہا ہے شاعری کے حسن سے آراستہ کر رہا عشق کی ضد کہ حسن خود نقاب
اٹھائے اور حسن کی ادائے انا تقاضا کی متمنی ہے یہ شعر بغیر کسی انجام کے مکمل ہو جاتا
ہے ہم جانتے ہیں کہ خودی کے اس ٹکراؤ کے بعد
خوش آئند نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں اور رنج والم کے افسانے بھی وجود میں آئے ہیںلیکن
اس میں عاشق کی ضد وقار کی محافظ ہے اور تقاضا کا انتظار امید افزا ہے۔
مجاز پیہم ناکامیوں اور دل شکن حالات سے دو چار رہے ان کی
شاعری کا آغاز فانی بدایونی کی صحبت حاصل ہونے کے ساتھ ہوا فانی کے کلام کی قنوطیت
کا براہ راست اثر مجاز کی فکر پر ہو سکتا تھا لیکن انھوں نے قطعی اس سے کوئی اثر نہیں
قبول کیا حیرت ہے کہ مجاز پر بے پناہ مصائب پڑے لیکن ان کا کلام ناکام زندگی کا نوحہ
کبھی نہیں بنا اس کے بر عکس بذلہ سنجی ان کی شخصیت کی ایک پہچان بن گئی کہ آج تک ان
کے لطائف کو یاد کیا جاتا ہے لوگ اس پر ہنسے ہیں اور ہنستے رہیں گے اردو کے معروف مزاح
نگار پروفیسر غلام احمد فرقت کاکوروی نے خود مجھ سے کہا تھا کہ جب میں سب سے زیادہ
غمزدہ ہوتا ہوں تو زیادہ ہنستا ہوں ایسے لوگ مستثنیات میں ہوتے ہیں اور مجاز بھی اسی
زمرے میں تھے اس کے علاوہ ان کی شاعری میں کہیں یاس کے اندھیرے نہیں ہیں انھوں نے اپنی
صدا کے وقار کو برقرار رکھا شکستگیِ دل ایک طرف اور خود شناسی سے پیدا خود اعتمادی
کا یہ انداز حیرت کا باعث ہے ؎
تم کہ بن سکتی ہو ہر محفل میں فردوس نظر
مجھ کو یہ دعویٰ کہ ہر محفل میں چھا سکتا ہوں میں
یا عزم کا یہ رخ ؎
آؤمل کر انقلاب تازہ تر پیدا کریں
دہر پر اس طرح چھا جائیں کہ سب دیکھا کریں
اس دور میں ایسی شاعری انقلاب تازہ لیے راہ عمل میں آنے
والوں کے لیے تحریک تھی اور اسی لیے اس دور کا اولین تقاضہ بھی تھی لیکن مجاز نے جمالیات
کا دامن کبھی نہیں چھوڑا وہ ترانہ جس نے ان کو زندۂ جاوید کر دیا اس کی بھی بنیادیں
جمالیات پر رکھی اور جبھی اکثر ناکامی کا ذکر نقطہ انجام تک آتے آتے اشراق امید سے روشن ہوتا محسوس ہوتا ہے۔ مجاز نے
حسن کی بے پناہیوں کی فکر کو وسعت دی اور اس دور میں جب فیشن کے طور پر حسن و عشق کے
بیان سے اجتناب کی تعلیم دی جاتی تھی مجاز اپنی تراشی راہ پر چلتے رہے اور نام نہاد
progressiveness کے منکر رہے اور کافکا کے اس قول کے مطابق تخلیقیت
کے لیے وہی صحیح سمجھا جس کی ہدایت باطن سے ملی کافکا نے لکھا اور یہ تو پتہ نہیں کہ
مجاز نے اسے سنا یا پڑھا لیکن کیا وہی جو اس قول کا پیغام تھا وہ لکھتا ہے
Dont
bend dont water it down dont try to make it logical dont edit your soul
according to fashion
یعنی تخلیقیت کسی بھی نظریے کے آگے جھکنے کی اجازت نہیں
دیتی اگر تخلیقیت ہے تو تخلیق کار کے جو وضع کردہ اصول ہیں ان پر قائم رہنا ہی کامیابی
ہے اور کسی منطق کے آگے سپر ڈالنا اسے کمزور کرتا ہے اور اپنی روح میں اس کے مطابق
ترمیم کرنا پڑتی ہے اور ایسا خیال ترمیم برجستگی کے خاتمے کا پیش خیمہ ہے وہ ترمیم روش عام کے اثر سے مجاز نے کبھی نہیں کی انھوں نے
مے نوشی کو عیب گردانا ؎
عیب جو حافظ و خیام میں تھا
ہاں کچھ اس کا بھی گنہگار ہوں میں
کچھ کا لفظ ہلکا استعمال کیا جوش کی ہدایت کی طرف جایا جائے
جن کی مجاز کو مہذب الاوقات بنانے کی سعیِ لا حاصل کہ وہ گھڑی رکھ کر مے نوشی کریں
اور مجاز کا جواب گھڑا رکھ کر پینے کا عزم خسرو کاکوروی کے اس شعر کی تفسیر ہے ؎
سارا میخانہ اڑا جاؤں بلا نوش ہوں میں
تجھ سے سب چھین کے کر دوں تجھے خالی ساقی
اس سے جسم کی موت ہوئی ساقی کے خالی ہوجانے کا خیال پھر
خیال رہا حالانکہ ان کا مشاہدہ تو یہ ہے ؎
ساقیِ گلفام با صد اہتمام آہی گیا
نغمہ بر لب خم بہ سر بادہ بہ جام آ ہی گیا
اس میں ’خم بہ سر ‘ ان کے گھڑا رکھ کر پینے کے ارادے کا
شعری اظہار ہے ورنہ بادہ بہ جام کافی تھا ۔
سب سے پہلے تو یہ ہمارا ایمان ہے کہ ذات باری تعالیٰ بے
نیاز ہے اور اس میں بڑی وسعت ہے۔ مجاز نے شراب
نوشی کو عیب سمجھا صحیح سمجھا۔ حافظ اور خیام کی خمریاتی شاعری کو حوالہ بنایا۔ خیام
کا تو نہیں معلوم لیکن حافظ کے لیے تسلسل سے یہ بات پھیلی ہے کہ لوگ ان کے دیوان سے
کچھ جاننے کے لیے فال دیکھتے رہے ہیں۔ مستند کتابوں میں یہ واقعہ لکھا ہے علمائے ظاہر
نے ان کے انتقال پر یہ فتویٰ جاری کردیا کہ ان کا کلام ذکر شراب سے بھرا ہے اس لیے
ان کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے۔ مجمع میں حافظ سے عقیدت اور محبت رکھنے والے تھے۔ اجماع سے یہ طے پایا کہ حافظ کے کلام سے لوگ
وہ کچھ معلوم کرتے رہے ہیں جس میں کوئی تشکیک لاحق ہوئی ہے۔حافظ ایک گھڑے میں غزلیں
کہہ کر ڈال دیا کرتے تھے۔ یہی طے پایا کہ جو شعر نکلے گا اس کے مفہوم کے مطابق عمل
کیا جائے گا۔ سب راضی ہوئے اور شعر نکلا
؎
قدم دریغ مدار از جنازۂ حافظ
کہ گرچہ غرق گناہست می رود بہ بہشت
یعنی حافظ کے جنازے سے قدم نہ کھینچو اگرچہ وہ گناہ گار
ہے لیکن جنت میں جانے والا ہے۔سبحان اللہ مجاز کی مغفرت کی دعا ہے کیونکہ یہ بات جگ
ظاہر ہے کہ وہ فطرتاً نیک تھے جوڑ توڑ اور سازشوں سے دور تھے اور صمدیت کا نو ر ازل
سے ابد تک پھیلا ہے۔ یہاں پر شیکسپیئر کے اس قول پر نظر ڈالنا چاہیے ؎
If
music be the food of love play on
Give
me excess of it
That
surfeit
So
the appetite may sicken and die
شیکسپیئر نے موسیقی کو عشق کی غذا تصور کیا اور تمنا کی
کہ مجھے اس کی بہتات حاصل ہو جس سے بھوک کمزور پڑے اور فنا ہو جائے مجاز نے شراب کے
حوالے سے کچھ ایسی ہی تمنا کی۔خواہش نشہ فنا ہوئی یہ تو پتہ نہیں البتہ وجود بظاہر
فنا ہو گیا لیکن سرمایۂ جاں بصورت شعر بقا کی سحر کے اجالے لیے موجود ہے۔
Suhail
Kakorvi
C/o,
National Tractors
City Hotel,
B. N. Road, Lalbagh
Lucknow-
226001 (UP)
Mob.:
7897185376
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں