21/4/23

ریل اور اردو شاعری: اسراراللہ انصاری


 موجودہ دور ماضی کی بہ نسبت بے انتہا تیز رفتار سائنسی ترقیوں کا دور ہے، اس زمانے کی ہر پل بدلتی ہوئی تکنیک اور دن بہ دن نت نئی ایجادات نے آنکھوں کو خیرہ اور دماغ کو حیران و ششدر کر کے رکھ دیاہے۔گذشتہ بیس پچیس برسوں میں انسانی زندگی میں سائنسی مظاہر کے باعث بہت سی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں، جس کے باعث روزمرہ کے معمولات اور شب و روز کی مشغولیات وغیرہ میں در آنے والے تغیرات نے انسان کو مصروف تر کردیا ہے۔ معاشرے میں تکنیکی ترقی کے ذریعے اس طرح کا بدلائو اس سے پہلے غالباً نہیں دیکھا گیا ہوگا۔ دنیا میں مشینی ترقی کی رفتار بھی اس سے قبل اتنی تیزشاید نہ تھی۔ خلائی تحقیق، سیٹیلائٹ سسٹم،انٹرنیٹ اورذرائع اطلاعات کی ہوش ربا ترقی سے انسان کو ایسے مواقع اور سہولیات میسر آئی ہیں جسے انسان ایک خواب ہی سمجھتا رہا تھا۔ انسانی دنیا کے تمام تر شعبوں میںعجیب و غریب اور حیران کن مشینیں اور آلات دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ ہو،موبائل فون ہو، جنگی سازو سامان ہو، میڈیکل سائنس کا میدان ہو یا سفر کے مختلف وسائل مثلاً راکٹ، طیارے، ٹرینیں، بسیںاورموٹر گاڑیاںوغیرہ، سبھی میں آئے دن جدید سے جدید تر کی دریافت، ہر تازہ ایجاد کو پیچھے چھوڑ رہی ہے اوراس کے فیض سے انسانی زندگی سہولتوں اور آسائشوں سے مسلسل مالا مال ہوتی جارہی ہے۔

 تاریخ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ہر زمانے میں دریافتوں اورترقیاتی کاموں کی بازگشت زندگی کے تمام شعبوں میں بدرجۂ اتم سنی گئی ہے۔ترقی کے اثرات اور اعتراف، علوم کے مختلف شعبوں مثلاً سماجیات، معاشیات، تمدن،طب، تاریخ اور ادبیات وغیرہ ہر جگہ محسوس کیے گئے ہیں۔خواہ فلسفی ہو یا دانشور، سیاست داں ہو یا مصلح قوم، حکیم ہو یا عالم،شاعر ہو یا قلم کار، طبیب ہویا مؤرخ،سبھی نے نہ صرف سائنس کی برکتوں سے فیض اٹھایا بلکہ اپنے مشن اور پروفیشن کے فروغ میں بھی ان سے پورا تعاون حاصل کیاہے۔ اپنی زندگی میں سائنسی آلات حرب اور محرکات کا استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی تعریف و توصیف بیان کرنے اور اہمیت کے اعتراف میں بھی انسان اور قلم کار نے حسبِ موقع لب کشائی کی ہے،نیز اپنے منفرد مطمحِ نظر سے ان کی تشریح و ترجمانی کا فریضہ انجام دیا ہے، اس ضمن میں فی الوقت مطالعے کا موضوع ’ریل اوراردو شاعری‘ ہے۔

ادب انسان کے تمام مشاہدات و تجربات کا عکاس ہواکرتا ہے، یہ فطری و مادی ہر قسم کی آسائشوں اور زحمتوں کا نگار خانہ بھی ہے۔ شاعروادیب خود کو اس بات کا پابند رکھتے ہیں کہ کوئی بھی ایسی شے ان کے مشاہدے اور مطالعے سے محروم نہ رہے جس نے انسانی زندگی اور سماج کو کسی بھی نہج اور سطح پر متاثر کیا ہو۔سفر کی ضرورت بھی انسانی زندگی کا ایک لازمی حصہ ہے، کثیر آبادی پر مشتمل اس بھر ی پری اور وسیع و عریض دنیا میںانسانوں کو مختلف ضروریات کے تحت متعدد مقامات کے سفر در پیش ہوا کرتے ہیں۔جس طرح عام انسانوں کو اپنی خواہش یا ضرورت کی تکمیل کی خاطربغرضِ روزگار، پیشہ، ملازمت یا تفریح وغیرہ کے لیے سفر سے واسطہ پڑتا ہے اسی طرح بعض اوقات انسان فسادو ہنگامہ اور قدرتی آفات سے دوچار ہونے کے باعث وہ ہجرت پر مجبور ہوجاتے ہیں، الغرض انہیں زندگی میںبارہا مختلف مقامات کے سفر درپیش ہوا کرتے ہیں۔ایک زمانہ تھا کہ انسان پیدل سفر کیا کرتا تھا۔ پھر غوروفکر کے بوتے پر انسانی ذہن نے حیوانوں کے ذریعے اپنے سفر اور مسافت کو آسان بنایا۔ جانوروں کو گاڑی میں جوت کر ان سے مدد لی اور بیل گاڑی، تانگہ، رتھ وغیرہ سے سفر کی مسافت طے کی۔

سفری سہولتوں میں اس وقت انقلاب آیا جب بھاپ کی مدد سے چلنے والے انجن اور پٹرول کی دریافت ہوئی۔بھاپ اور پٹرول کے ذریعے تیز دوڑنے والے انجن کی ایجاد سے تیز رفتار موٹرگاڑیوں، ٹرینوں اور طیاروں کی مدد سے مہینوں کا سفر گھنٹوں میں طے کیا جانے لگا۔ اس طرح انسان دور دراز کے سفر کا منصوبہ بنانے لگا اور نہ صرف زمینی راستوں بلکہ طویل بحری و فضائی راستوں کو مختصر وقت میں عبور کیا جانے لگا۔ ظاہر ہے ان تمام دریافتوں اورایجادات کو قلم کاروں نے بھی دیکھا اور ان کے باعث حاصل ہونے والی سہولیات کا مشاہدہ کیا۔

ٹرین نہ صرف دنیا کے متعدد ممالک میںبلکہ ہمارے اپنے ملک میں بھی عوام و خواص کے لیے زمینی سفر کا سب سے آسان اورسہولت بخش ذریعہ ہے،جسے ہم ریل کے نام سے بھی پکارتے ہیں،ہر امیر و غریب انہیں ترجیح دیتا ہے۔ اِس وقت مناسب معلوم ہوا کہ اردو شاعری میں ریل کے پس منظر میں کس قسم کے اظہارِ خیالات کیے گئے ہیں اور شعرا نے جواشعار کہے ہیں، یا ریل سے متعلق اپنے جذبات و احساسات کا کس طرح اظہار کیا ہے ان پر ایک سرسری نگاہ ڈالی جائے۔

اردو شاعری پر نظر ڈالی جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ متعدد شاعروں نے ریل کو موضوع بناکر خوب صورت اشعارکہے ہیں۔ ریل جو اپنے آپ میں ایک خطرناک آہنی مشین ہے، جس کی زد میں آکر انسان کیا شجر و حجر چکناچور ہوجاتے ہیں، جو چلتی ہے تو کثیف دھواں اور حرارت اگلتی ہے اور کان پھوڑ آواز کا دھماکہ پیدا کرتی ہے۔ایسی بھاری بھرکم اور طویل ریل گاڑی پر شعرا نے بڑے لطیف اور رومانی پیرایۂ خیال کا سہارا لے کر اشعار کہے ہیں اور بعض بڑی نازک باتیںبھی بیان کی ہیں۔

ریل جو بظاہر ایک مشین ہے اور بعض اوقات ان کی ایجاد کا سہرہ صنعتی انقلاب کے زیرِ اثر سمجھاجاتا ہے۔ اس ضمن میں ہم دیکھتے ہیں کہ مشینوں کی ایجاد اور اس کے بڑھتے ہوئے استعمال سے انسانوں اور مزدوروں کو ہونے والے معاشی و دیگر نقصان اور استحصال پر اشتراکی اور ترقی پسند شعرا و ادبا کے علاوہ دیگر نے بھی اشارہ کیا ہے۔ نیز ان کے مضر اثرات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے، مثلاً اقبال نے کہا ہے         ؎

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت

احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

یہ قطعی نہیں کہاجاسکتا کہ درج بالا شعر میں دلوں کے لیے جن مشینوں کوموت کہا گیا ہے ان میں ریلیں بھی شامل ہیں۔لیکن یہ ضرور ہے کہ اس شعر میں مشینوں کی غیر ضروری بالادستی، ان کے سفاکانہ پہلو اور ظالمانہ صورتِ حال پر ضرور تبصرہ کیا گیا ہے۔

سواریاں، جسے انسان اپنی سفری ضرورتوں کی خاطر استعمال کرتے رہے ہیں۔ بظاہر ان کے ذریعے ایک مقام سے دوسرے مقام تک کا سفر طے کیا جاتا ہے یا مسافر اپنی منزلِ مقصود پر پہنچتا ہے۔ موجودہ دور کی سواریاں بے جان لوہے اور فولاد کی ڈھلی ہوئی ہیںلیکن شاعروں نے اس طرح بیان کیا ہے کہ جیسے یہ ریلیں کوئی بے جان مشین نہیں بلکہ ذی حس مخلوق ہو، جو موسم کے سردوگرم سے واقف ہو، اپنی مرضی کی مختار ہو، خوشی و غم سے آشنا ہو اور انسانوں کے سے جذبات و احساسات اپنے اندر رکھتی ہو۔ ہم دیکھتے ہیں کہ شاعروں نے ان سے بڑی جذباتی وابستگی اورزندگی آمیز باتیں کی ہیں، ہجرووداع کی پرُ درد کیفیات کا اظہار کیاہے۔ ساتھ ہی ریل کے چلنے سے، پٹریوںکی آوازوں سے اور سیٹی وغیرہ کے بجنے سے دل و دماغ پر جو اثرات مرتسم ہوتے ہیں اسے شعرا نے دلچسپ اندازِ بیان میں پیش کیا ہے۔

غمِ ہجراوردردِ جدائی ایسی کیفیات ہیں جس سے ہر انسان اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی گزرتا ہے۔ شاعری میں اسے کثرت سے شعرا نے نظم کیاہے۔بلکہ یہ کہا جائے تو کوئی مضائقہ نہ ہوگا کہ شاعری کا معتدبہ حصہ انہیں کیفیات کی عکاسی پر مشتمل ہے۔ شاید ہی کوئی شاعر ہو جس نے ہجرووصال اور ملاقات و وداع وغیرہ پر اپنے انداز سے گفتگو نہ کی ہو۔

بعض اوقات انسان کو موسم کا مزاج بھی اپنی دلی کیفیت جیسا محسوس ہوتا ہے۔ ہوا خواہ صبحِ کاذب کی ہو یا کسی اور وقت کی،وہ اپنے آپ میں خوشی و غم کی کیفیت کہاں رکھتی ہے۔مگر انسان جس دردو کرب کی لذت سے دوچار ہو رہا ہوتاہے وہ موسم کو بھی اپنا غم گسار گردانتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ جو درد میں جھیل رہا ہوں اس میں موسم کی آب و ہوا بھی گرفتار ہے۔اس طرح آدمی اپنے وجود کی طرح ماحول کو بھی سوگورار پاتا ہے۔گویا انسان کے دل کا درد موسم کے ساتھ مشترک ہوگیا ہے۔جیسا کہ منیر نیازی کہتے ہیں           ؎

صبح ِکاذب کی ہوا میں درد تھا کتنا منیر

ریل کی سیٹی بجی تو دل لہو سے بھر گیا

یہاں معلوم ہوتا ہے کہ شاعر وداع کا دیرینہ تجربہ کار ہے جسے اسٹیشن کے آس پاس کا ماحول اور آب و ہوا بھی غم انگیز معلوم ہوتی ہے۔ عموماً وقتِ صبح کی فضا میں ٹھنڈک، تازگی اور خوش گواری ہوتی ہے جو دل کو راحت عطا کرتی ہے مگر اپنوں سے رخصت ہونے کے باعث درد انگیزی کا یہ عالم ہے کہ یہ ساعتِ صبح کی فضا بھی درد سے پرُ محسوس ہوتی ہے۔ ریل کی سیٹی جو گاڑی چھوٹنے کا اعلان نامہ ہے، جیسے ہی بجتی ہے تو گویا درد کے مارے دل خون سے لبریز ہوجاتا ہے یوں اپنے پیاروں اور اپنے دیار سے رخصت ہونے کا بے انتہا درد پیش کیا گیاہے۔

اپنے لختِ جگر کو رخصت کرنے کا سماں ہی کیا کم غم انگیز تھا کہ ریل نے سیٹی بجادی۔ریل کی سیٹی گویا رخصت ہونے کے درد کی انتہا کی علامت ہے۔شاعر کا تجربہ ہے کہ وداع کے وقت یوں ہی دل غم سے بھرا ہوا تھا، سیٹی نے چیخ کر دل کے درد کی شدت میں وہ اضافہ کیا کہ دل لہو سے بھر گیا۔  اسی سے ملتا جلتا خیال یعنی ریل کی سیٹی کے بجنے سے دل کے درد کی شدت کے بڑھنے کے احساس کی عکاسی پروین شاکر نے بھی کی ہے، اور بالکل ایسا ہی تجر بہ بیان کیا ہے۔ یعنی یہاں بھی ریل کی سیٹی میں دردِ ہجر محسوس کیا گیا ہے         ؎

ریل کی سیٹی میں کیسی ہجر کی تمہید تھی

اس کو رخصت کر کے گھر لوٹے تو اندازہ ہوا

لیکن پروین شاکر کا مشاہدہ کار اپنے محبوب کو رخصت کرکے گھر لوٹ آنے کے بعد اسے درد کی شدت کا احساس ہوتا ہے، اور ریل کی سیٹی ہی گویااس کے ہجر کی ابتدا ہے۔ ان تمام کیفیات کا اندازہ جدا ہوجانے اور گھر لوٹ جانے کے بعد ہوا ہے۔دونوں ہی شعرا کے یہاں ریل کی سیٹی کا بجنا غم انگیزی کی علامت ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ درج بالا دونوں ہی اشعار میں ریل کی سیٹی کے بجنے سے ہجر کا کرب گہرا ہونے کی بات کہی گئی ہے۔ الغرض دونوں ہی شعر کی فضا غم انگیز ہے۔

سید انوار احمد نے بھی اپنے ایک شعر میں رخصت ہونے کے وقت کا سماں باندھا ہے وہ ریل کی سیٹی کی آواز میں بڑی دیر تک اپنے محبوب کی وفاداریوں کی چیخ کو سنتے ہیں۔ وہ اپنے رفیق کی صحبت اور قربت کے شب وروز کے تمام لمحات کو یاد کرتے ہیں اور یہ وفائیں انہیں رخصتی کے وقت کچوکے لگارہی ہوتی ہے        ؎

رخصت ہوئے تو ریل کی سیٹی میں دیر تک

ایسا لگا کہ جیسے وفا چیختی رہی

 اپنے دیرینہ مہمانوں کو دور سفر کے لیے سواری کے حوالے کرکے جب لوٹتے ہیں تو اپنے پیچھے سیٹی کی پکارانہیں دردوکرب سے دوچار کردیتی ہے۔ریل کی سیٹی کا دورانیہ اگرچہ چند سیکنڈ کا ہوتا ہے، لیکن جدا ہونے کی کیفیت ایسی ہے کہ اس وقت وہ اپنے محبوب کے ساتھ گزارے طویل سفرکو اپنی آنکھوں کے سامنے سے گزرتا ہوا محسوس کرتے ہیں جس میں تمام وفائیں مارے درد کے چیخ پڑتی ہیں۔

شعرا کے درج بالا اشعار میں ایک بات قدرے مشترک ہے، وہ یہ کہ ان کی فضا غم انگیز ہے اور جدا ہونے کے باعث رنج کی کیفیت کا ہی بیانِ محض ہے۔ جب کہ دوسری حقیقت جس طرف شعرا نے غالباًکم توجہ دی وہ یہ کہ انھیں ریلوں کے سفر کے ذریعے لوگ اپنے چاہنے والوں سے شرفِ ملاقات بھی حاصل کرتے ہیں اور خوشی و مسرت سے ہمکنار ہوتے ہیں، ریل کے سفرکی تکمیل کے بعد لوگ وصل و ملاقات کے باعث جس اطمینان،خوش گواری اور خوشی و مسرت کو حاصل کرتے ہیں اس کا کہیں ذکر نہیں ملتا،ایسا لگتا ہے اس پہلو کی طرف شعرا نے کم ہی توجہ کی ہے۔

منور رانا اور راحت اندوری نے مشاعروں کے ذریعے خوب شہرت پائی۔یہ شعرا اپنے شعر سنانے کے منفرد انداز کے باعث اور عہدِ حاضر کے موضوعات پر دوٹوک اظہارِ خیال کے لیے اپنی الگ شناخت رکھتے ہیں۔ اسی طرح انجم رہبر نے اپنے دلچسپ اشعار اورمترنم انداز سے عوام کے دلوں میں خوب جگہ بنائی ہے، ان شعرا نے نہ صرف اردو حلقے میں بلکہ پورے برصغیر اور جہاں جہاں اردوا ور ہندی زبانیں جاننے والے لوگ موجود ہیںوہاں اپنی مہارت کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ ان شعرائے کرام نے بھی ریل سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ مثلاً ملاحظہ فرمائیں     ؎

فرشتے آکے ان کے جسم پر خوشبو لگاتے ہیں

وہ بچے ریل کے ڈبّے میں جو جھاڑو لگاتے ہیں

آتے ہیں جیسے جیسے بچھڑنے کے دن قریب

لگتا ہے جیسے ریل سے کٹنے لگا ہوں میں

منور رانا

وہ اب بھی ریل میں بیٹھی سسک رہی ہوگی

میں اپنا ہاتھ ہوا میں ہلا کے لوٹ آیا

راحت اندوری

انجم تمھارا شہر جدھر ہے اسی طرف

اک ریل جارہی تھی کہ تم یاد آگئے

انجم رہبر

متذکرہ بالا اشعار میں شعرا نے مختلف مضامین باندھے ہیں جنھیں ہم شاعر کے انفرادی خیالات کہہ سکتے ہیں۔  اس کے علاوہ بھی شعرا کے چند شعر ملاحظہ کریں جس سے قارئین ضرور محظوظ ہوں گے       ؎

جیسے ریل کی ہر کھڑکی کی اپنی اپنی دنیا ہے

کچھ منظر تو بن نہیں پاتے کچھ پیچھے رہ جاتے ہیں

امجد اسلام امجد

ریل دیکھی ہے کبھی سینے پہ چلنے والی

یاد تو ہوں گے تجھے ہاتھ ہلاتے ہوئے ہم

 نعمان شوق

یادوں کی ریل اور کہیں جارہی تھی پھر

زنجیر کھینچ کر ہی اترنا پڑا مجھے

زہرا شاہ

اک دندناتی ریل سی عمریں گزر گئیں

دو پٹریوں کے بیچ وہی فاصلے رہے

اسد اللہ

رات بھر ریل کے ڈبے میں میرے ساتھ تھے

چہرہ وہ اترا ہوا سا آنکھیں وہ بچھی ہوئی

فاروق نور

ریل اور اس کے متعلقات پر غزلوں میں کہے گئے چیدہ چیدہ اشعار سے قطع نظر ہم دیکھتے ہیں کہ اس موضوع پر مشاہیر شعرائے اردو نے مستقل نوعیت کی بڑی شاندار نظمیں بھی کہی ہیں جو ادبِ اردو میں اپنی قدرو منزلت رکھتی ہیںجو مختلف اوقات میں ہمارے نصاب کا حصہ رہی ہیں،ان میں مجاز کی رات اور ریل کو بھلا کون فراموش کر سکتا ہے۔اسی طرح بچوں کے لیے کہی گئی دلچسپ نظموں کی بھی خاطر خواہ تعداد ہے۔ ان نظموں میں بطورِ خاص اختر شیرانی کی ’شملے کی ریل گاڑی‘، اور اسماعیل میرٹھی کی ’ریل گاڑی‘ وغیرہ کو اپنی نغمگی، روانی،رومانیت، شگفتگی اور برجستگی کے باعث نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ تمام نظمیں اپنی دل نشینی کے باعث مکمل مطالعے کی مستحق ہیںجو قاری کو یقینا محظوظ کرتی ہیں۔ اشعار کی کثرت ذہن پر بار نہ گزرے لہٰذا چند حصوں پر اکتفا کیا جارہا ہے۔

رات اور ریل اسرار الحق مجاز

پھر چلی ہے ریل اسٹیشن سے لہراتی ہوئی

نیم شب کی خامشی میں زیرِ لب گاتی ہوئی

ڈگمتاتی جھومتی سیٹی بجاتی کھیلتی

وادی و کہسار کی ٹھنڈی ہوا کھاتی ہوئی

تیز جھونکوں میں وہ چھم چھم کا سرودِ دل نشیں

آندھیوں میں مینہ برسنے کی صدا آتی ہوئی

جیسے موجوں کا تبسم جیسے جل پریوں کے گیت

ایک اک لے میں ہزاروںزمزمے گاتی ہوئی

نونہالوں کو سناتی میٹھی میٹھی لوریاں

نازنینوں کو سنہرے خواب دکھلاتی ہوئی

ٹھوکریں کھاکر لچکتی گنگناتی جھومتی

سر خوشی میں گھنگروؤں کی تال پر گاتی ہوئی

ناز سے ہر موڑ پر کھاتی ہوئی سو پیچ و خم

اک دلہن اپنی ادا سے آپ شرماتی ہوئی

ڈال کر گزرے مناظر پر اندھیرے کا نقاب

اک نیا منظر نظر کے سامنے لاتی ہوئی

صفحۂ دل سے مٹاتی عہدِ ماضی کے نقوش

حال و مستقبل کے دل کش خواب دکھلاتی ہوئی

ڈالتی بے حس چٹانوں پر حقارت کی نظر

کوہ پر ہنستی فلک کو آنکھ دکھلاتی ہوئی

زد میں کوئی چیز آجائے تو اس کو پیس کر

ارتقائے زندگی کے راز بتلاتی ہوئی

ایک اک حرکت سے اندازِ بغاوت آشکار

عظمتِ انسانیت کے زمزمے گاتی ہوئی

مجازایک رومانی و انقلابی شاعر کے طور پر مشہور ہیںوہ اشتراکی و ترقی پسند نظریات کے حامل بھی رہے ہیں نیزمثبت رویوں کی ترغیب دیتے ہیںانھوں نے اپنی نظم میںریل کو زندگی، جدوجہد اور پامردی کی علامت کے طور پر پیش کیا ہے۔یہ مانندِ حیات اپنے مقصد کے حصول اور منزلِ مقصود کی طرف شدت اور پر وقار طریقے سے اپنے سفر کی جانب رواں دواں رہنے کی ترغیب دیتی ہے۔  راستے کی تمام رکاوٹوں کو ہٹاتے ہوئے جس طرح موسم کے سردوگرم اور راہ کے نشیب و فراز کی پرواہ کیے بغیر اپنی ترقی کی طرف گامزن رہتی ہے اس کا یہ طرزِ عمل ہی حیاتِ انسانی کا رویہ بھی ہے۔ ریل کے پس منظر میں مجاز نے فطرت کی جولانیوں اور قدرت کی کارفرمائی کے ساتھ ساتھ انسانوں کوباہمت اور باحوصلہ رہنے کا سبق بھی دینے کی کوشش کی ہے۔

ریل گاڑی ۔۔۔ اسماعیل میرٹھی

حیواں ہے نہ وہ انساں جن ہے نہ وہ پری ہے

سینہ میں اس کے ہر دم اک آگ سی بھری ہے

کھاپی کے آگ پانی چنگھاڑ مارتی ہے

سر سے دھوئیں اڑا کر غصہ اتارتی ہے

وہ گھورتی گرجتی بھرتی ہے اک سپاٹا

ہفتوں کی منزلوں کو گھنٹوں میں اس نے کاٹا

آتی ہے شور کرتی جاتی ہے غل مچاتی

وہ اپنے خادموں کو ہے دور سے جگاتی

بے خوف بے محابا ہر دم رواں دواں ہے

ہاتھی بھی اس کے آگے اک مورِ ناتواں ہے

آندھی ہو یا اندھیرا ہے اس کے سب برابر

یکساں ہے نوروظلمت اور روزوشب برارب

اتّرسے لے دکن تک پورب سے لے پچھاں تک

سب ایک کردیا ہے پہنچی ہے وہ جہاں تک

بجلی ہے یا بگولا بھونچال ہے کہ آندھی

ٹھیکہ پہ ہے پہنچتی بچنوں کی ہے وہ باندھی

ہر آن ہے سفر میں کم ہے قیام کرتی

رہتی نہیں معطل پھرتی ہے کام کرتی

پردیسیوں کو جھٹ پٹ پہنچا گئی وطن میں

ڈالی ہے جان اس نے سوداگری کے تن میں

ہر چیز سے نرالی ہے چال ڈھال اس کی

پائو گے صنعتوں میں کمتر مثال اس کی

برکت سے اس کی بے پر پردار بن گئے ہیں

ملک اس کے دم قدم سے گلزار بن گئے ہیں

نظموں کے اشعار میں ہم دیکھتے ہیں کہ شعرا نے فطرت اور فطری مناظر کی عکاسی بڑے خوبصورت انداز میں کی ہے۔ سرسبزو شاداب وادیاں،موسم کی خوش نمائی، پہاڑیوں کی ہری بھری چوٹیاں، قدرتی مناظر کی خوبصورت عکاسی اور ٹرینوں کے چلنے سے پیدا ہونے والی آواز مانندِ نغمہ سرائی وغیرہ کے ذریعے سے قاری کی دلچسپی اور نظم کے تاثر میں اضافہ ہوتا ہے، نیز نظمیں پڑھ کر طبیعت میں یک گو نہ خوش گواری کا احساس ہوتا ہے۔

درج بالا مستقل نظموں کے علاوہ شعرا نے مختلف موضوعات پرمشتمل ایسی نظمیں کہی ہیں جن میں اکا دکا اشعار ریل سے  ہیں۔ان میں بطورِ خاص علی سردار جعفری کی نظم ’ نیند‘، اورکیفی اعظمی کی’ کہرے کا کھیت ‘ سے ایک ایک شعر پیشِ خدمت ہے       ؎

ریل اپنے پہیّوں سے لوریاں سناتی ہے

رات خوبصورت ہے نیند کیوں نہیں آتی

 علی سردار جعفری

تیزی سے جنگلوں میں اڑی جارہی تھی ریل

خوابیدہ کائنات کو چونکا رہی تھی ریل

 کیفی اعظمی

ساحر لدھیانوی کے اشتراکی اور ترقی پسند نظریے سے ہم سب واقف ہیں ان کی شاعری کا بیشتر حصہ مساوات،  انسانوں کے درد و غم اور ان کے مسائل کی عکاسی کرتا ہے۔ کمزوروں، مظلوموں اور محروموں کی بھرپور نمائندگی ساحر کی نظموں میں ملتی ہے۔ سرمایہ داری اور آمریت کے جبر و قہر کے خلاف بھی وہ اپنی نظموں میں کھل کر اظہارکرتے ہیں۔ انسانوں سے محبت اور ہمدردی کے لیے موصوف کا قلم بڑا زرخیز ثابت ہوا ہے۔ ساحر کی نظموں کے مطالعے سے ہم محسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے بعض ایسے ترقیاتی کاموں کی بھی مخالفت کی ہے جس سے غریب انسانوں یا انسانیت کو ذراسابھی نقصان پہنچتاہو۔ پھر چاہے صنعتوں اور کارخانوں میں استعمال کی جانے والی نئی مشینیں ہوں یا انسانوں کی ضرورت و سہولت کی غرض سے ایجاد کی گئی کوئی اور شے۔ اپنی نظم ’ورثہ‘ میں وہ بعض ترقیات کے لیے بحیثیت انسان خود کو بھی مجرم قرار دیتے ہیں           ؎

میری تائید سے ڈھالے گئے میں مجرم ہوں

پٹریاں ریل کی سڑکوں کی بسیں فون کے تار

ریل کے تعلق سے ہمارے شعرا نے بڑی رومانی و مثبت کیفیات سے لبریز گفتگو کی ہے اور بڑی زندگی آمیز باتیں کہی ہیں۔ ٹرینیں جسے نظموں میں زندگی، حرارت اور جہدِ مسلسل کی علامت کے طور پر بھی دیکھا گیا ہے۔

مختصر یہ کہ شعرائے اردو نے موجودہ دور کے اہم سفری وسیلہ ریل پر خاطر خواہ اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ سفر کی ابتدا، اختتام اور دوران میں مسافروں اور ان کے قرابت دارمختلف قسم کے تجربات اور مشاہدات سے گزرتے ہیں نیزاسی طرح مختلف جذبات و کیفیات سے بھی نبرد آزما ہوتے ہیں۔ اس موضوع سے متعلق مستقل نظمیں ہوں یا نظموں اور غزلوں میں کہے گئے متفرق شعر، ان کے ذریعے ہمیں شاعر کے منفردرنگ و آہنگ کا بھی پتہ چلتا ہے اورایک عام آدمی کی کیفیت کیا ہوتی ہے اس کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ اس حقیقت سے بھی قطعی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ صنعتی انقلاب اور مشینی ترقی نے انسانی جذبات و کیفیات کولازمی طور پر متاثر کیا ہے۔ دنیا کو جہاں معاشی و اقتصادی اور کاروباری طور پر متاثر کیا ہے وہیں آدمی کے جذبات و کیفیات پر بھی گہرے اثرات ڈالے ہیں۔ ادب کیوں کہ ہمارے سماج کا آئینہ ہوتا ہے لہٰذاریل کے پس منظر میںمذکورہ بالا اہم امور کی بازگشت سے ہماری اردو شاعری اور ادب بھی خالی نہیں ہے۔


Dr. Asrar Ullah Ansari

Dept. Of Urdu, Government College

Burhanpur- 450331 (M.P)

Mob.: 9753210869

Email.: asrar1607@gmail.com

1 تبصرہ: