اَلبیئر کامیو کی 47سال کی
عمر میں فرانس میں ہوئے ایک کارحادثے میں موت واقع ہوگئی تھی، طاعونThe
Plague ، میں جب حوصلہ مند نوجوان وبا میں مرنے لگتے
ہیں تو ایک بوڑھا کردار کہتا ہے۔
’’ جو
اچھے ہوتے ہیں وہی چلے جاتے ہیں، زندگی کے سلسلے ایسے ہی ہیں۔‘‘
طاعون میں بوڑھے کردار کا
کہا یہ جملہ کامیو کی جواں عمری کی موت پر بے حد صادق آتا ہے۔ یہ اُس بے معنی زندگی
کے ڈرامے کی آواز بازگشت بھی ہے جس کی گرہ کشائیوں میں کامیو کا قلم زندگی بھر مصروف
رہا۔ادھر ساری دنیا میں کامیو کی تیسویں برسی منائی گئی، فرانسیسی کلچر سینٹرس کی طرف
سے فرانس، اٹلی اور امریکہ کے ساتھ ساتھ ہندوستان کو بھی کامیو کے فن اور شخصیت پر
سیمینار کے لیے منتخب کرنا، اس بات کا اعتراف تھا کہ ہندوستانی تخلیقی ذہانتوں نے کامیو
کے ورک میں غیر معمولی دلچسپی لی ہے اور وہ دوسروں کے مقابلے میں کامیو کو خود سے زیادہ
قریب محسوس کرتے ہیں۔ اسی دوران کامیو کے ڈرامے
The Justکو بمبئی میں اسٹیج کیا گیا ۔ اس کی کتابوں
میں دی پلیگ، دی آوٹ سائیڈر اور دی فال کے تامل، اڑیہ، ملیالم، بنگالی، کنّڑا میں
ترجمے ہوچکے ہیں، ہندی میں توکامیو کا سارا ہی ورک ترجمے کی شکل میں منتقل ہوچکا ہے
۔ اردو میں بھی کامیو کے ورک کو قارئین سے متعارف کرایا جاچکا ہے ۔ اس زُمرے میں کامیو
پر ناصر بغدادی ، جمیل جالبی اور فاخر حسین کے مضامین خصوصی ذکر کے مستحق ہیں۔
ہندوستانی ادب میں کامیو کے
نام اور اُس کے تخلیقی دھماکوں کی آواز سن ساٹھ کی دہائی میں سنائی دینی شروع ہوئی
تھی جب اُس کے ناول جلا وطن Exile کو
نوبیل انعام ملا تھا۔ کامیو کے افکار سے ہندوستانی ذہنوں کی قربت کی وجہ قدرت اور اُس
کے مظاہر، سمندر،سورج سے اس کا والہانہ اظہارِ عشق اور انسانی معاشرے میں فرد اور اس
کے وقار اورحیثیت پر مسلسل اصرار تھا۔ کامیو کی تصانیف میں انسانی زندگی غربت اور تنگ
دستی کی بے رحمیوں سے دوچار ہوتی رہی تھی، پہلی جنگ عظیم میں باپ کے مارے جانے کے وقت
کامیو کی عمرایک سال تھی اس کی ماں کو اپنے معصوم بچوں کی پرورش کرنے کے لیے بھٹیوں
میں کوئلہ جھونکنے کاکام کرنا پڑا تھا۔ صبح و شام محنت کش طبقے کو گھر کے چولہے میں
آگ روشن کرنے کے لیے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں۔ غریبی اور تنگ دستی کیسے کڑوے اورکسیلے
ذائقے زبانوں پر چھوڑ جاتی ہے۔ اس کا حقیقی احساس اور تجربہ کامیو کو حاصل تھا۔اس نے
لکھا تھا ’’ اگر مجھے ماں اور انصاف کے درمیان انتخاب کرنا پڑے تو ماں کی طرف داری
کروں گا‘‘ اس کے اکثر کردار خاص طور سے ’کیلی گیسولا‘ اپنی اہمیت جتانے کی سعی ٔ کرتا
ہے اور اس کے ساتھ وہ دیگر کردار بھی ہیں جو کامیو کی مانند اس لیے انکسار کے مارے
ہوئے ہیں کہ یہ مفلس بچوں کا نفسیاتی ورثہ ہے۔17 برس کی عمر میں دِق جیسی بیماری اُسے
لاحق ہوگئی تھی ، اُس کی عمر کا یہ وہ حصہ تھاجب وہ فٹ بال اور تیراکی میں غیرمعمولی
دلچسپی لے رہا تھا اس بیماری کا جان لیوا احساس خوشگوار موتHappy
Death میں بہت واضح ہے ، کامیو کا ممتاز کردار Meursault اپنی
نازک ترین حالت کے باوجود پُر وقار انداز میں موت کو لبیک کہتا ہے ، کامیو کی زندگی
اور اس کی طرز فکر میں بڑی ہم آہنگی ہے ۔ اس کی سب ہی تصانیف میں اس کی وہ زبردست
خواہش کار فرما ہے جو ایک نئے معاشی نظام کی تعمیر و تشکیل سے تعلق رکھتی ہے ، کامیو
کی تحریروں میں باغیانہ رویے اوررجحانات کے عناصر بھی بڑے حاوی ہیں بقول ہر برٹ ریڈ:
’’ یہ
بغاوت وہ نہیں جو غلام کی آقا کے خلاف یا غریب کی امیر کے خلاف ہوتی ہے یہ بغاوت مابعد
اطبیعی بغاوت ہے جو زندگی کے حالات اور خود اپنے وجود کے خلاف انسان کے باغی رویے سے
تعلق رکھتی ہے۔‘‘
کامیو کے ابتدائی مضامین میں
جیسے نہ ادھر نہ ادھرBet Wixt and between سے
اس کے آخری دنوں کی تحریروں تک ’زندگی کے جشن‘ محنت کش طبقے کی محرومیاں اورشدید نوعیت
کا اکیلا پن جیسے موضوعات جاری اور ساری رہتے ہیں لیکن قنوطیت کے اس احساس کے باوجود
کامیو کی تحریروں میں انسانی وقار کو کہیں مٹ میلا ہونے نہیں دیا گیا۔ مثال کے طور
پر الجیریا کے شہر اور ان میں1940 میں پھوٹ پرنے والے طاعون میں جب کثیر تعداد میں
بھیانک طور پر لوگ مرنے لگتے ہیں تو کامیو کی دی پلیگThe
Plague کا ایک کردار کہتا ہے۔
’’جب
موت ہی اس کائنات کی صورت گری میں ایک غالب عنصر کی طرح حاوی ہے کیا یہ بہتر نہ ہوگا
کہ ہم خدا میں یقین سے انکار کردیں اور آسمان میں بیٹھے تماشا دیکھنے والے گونگے خدا
کی طرف اپنی آنکھ اٹھائے بغیر ،پوری قوت کے ساتھ موت کے خلاف جدوجہد میں لگے رہیں۔‘‘
دی پلیگ ہی میں رمبرٹ صحافی
والے کردار کے ذریعے کامیو نے اپنے اس کرب کو بھی ظاہر کرنے کا جتن کیا ہے جو جنگ کے
دوران اس کی بیوی Francine Faure سے زبردستی ہونے والی
علاحدگی سے تعلق رکھتا تھا۔ اسی دوران مزاحمتی رجحان کے حامل اخبارCombat کے ایڈیٹر کے طور پر
کام کرتے ہوئے کامیو نے اپنا مشہور ناول اجنبی
The Outsider لکھا تھا۔ اس کے بعد
The myth of sisyphus پھر باغی The Rebal اورسوانحی
ناول زوال The Fall
لکھاتھا۔ جلا وطن
The Exile ،
کامیو کا وہ ناول ہے جس میں زندگی کے تضادات کے ساتھ فرد کی مفاہمت کا رویہ اپنے نقطہ
ٔعروج پر ہے ۔’’ہمارے پاس اپنے ساتھ رہنے کا وقت نہیں ہے ہمارے پاس صرف خوش رہنے کے
لیے وقت ہے ‘‘ خوشگوار موتA Happy Death میں
کامیو کی یہ آواز جنگ کے بعد والے یورپ کو متاثر کرنے والی ایک بے حد بااثر آواز
کے طور پر اُبھری تھی، کامیو نے ایک ایسی زندگی بسر کرنے کو ترجیح دی جو ان اقدار کی
حامل تھی جو کامیو کوعزیز تھیں۔ شہرت اور زندگی کی آسائشوں کی حصول سے قطع نظر، کامیوں
کو الجیریا کے ریت کے ساحل، سمندر اورسورج بے حد عزیز تھے، اس کی تحریروں میں صنعتی
نظام کی بدصورتی اورمادہ پرستی کے رجحان سے شدید نفرت کا احساس بڑا طاقت ور ہے۔ کامیو
نے اپنے فلسفیانہ نظریات میں انسانی زندگی کے ’لغو‘
Absurd ہونے کو کلیدبنایا اس کی زیادہ تر ادب پاروں
میں تین بنیادی اشارے ہیں۔ خاموش ماں، افریقہ کی سرزمین اورخاک وموت- متھ آف دی سسی
فس کا بنیادی موضوع جرمنی اورفرانس کے فلسفے کا یہ بنیادی موضوع ہے کہ انسان کے احساسات،
ادراک اور اس کی زندگی معنی کیا ہیں ان مسائل پر کامیو کی فکر ان کے فلسفے’لغو‘ کی
تشکیل کرتی ہے۔
مافوق الفطرت پرغیر یقینی
اور بے اعتمادی کی مزید تشریح کامیوThe Rebel (باغی
1951) میں کرتے ہیں اس میں وہ انسانی تاریخ کی طے شدہ راہوں میں غیریقینی اوربے اعتمادی
ظاہر کرتے لغویت کے نظریے کا اثباتی مفہوم مرتب کرتے ہیں جس کے بغیربے یقینی کے عالم
میں انسان کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ وہ یا تو خود کشی کرلے ورنہ
اپنے گرد وپیش کی دنیا کی تمام تر خامیوں اور نا انصافیوں کو بے زبان اورکسی قسم کا
مزاحمانہ ردعمل ظاہر کیے بغیر سب کچھ قبول کرتا رہے
The Rebel پر کامیو اور سارتر کے درمیان جو بحث ہوئی وہ
ادبی تناظر میں بھی تھی اورسیاسی نظریات کے حوالے سے بھی دونوں کے درمیان اختلاف رائے
اس قدر بڑھا جو بالآخر دوستانہ مراسم کو بول چال کے بندہونے تک لے آیا کامیو کا کہنا
یہ تھا کہ The Rebel سیاسی
انقلابات اور ان کے نظریات کے تجزیے کا حامل ہے انقلاب اوراس سے وابستہ سرگرمی میں
انسان کا حصہ دار بننا انصاف کی لڑائی میں تاریخی اعتبار سے اپنے سماجی فریضے کی انجام
دہی ہے اور ایسے انقلابات کو عملی شکل دینے کے مرحلوں میں قتل و غارت جائز عمل ہے کامیو
کے ساتھ سارتر کی بحث کا آغاز ان کی ادارت میں نکلنے والے رسالے ’ لے تان مودیرن‘
سے ہوا تھا ساتر کا موقف یہ تھا کہ انسان انقلاب میں حصہ لیتے وقت اپنی خود پرستی ترک
کرکے نظریے اور تاریخی شعور کی بنا پر حصہ لیتا ہے’ تجرید‘ شرکت انقلاب میں بے معنی
ہے سارتر اور کامیو کے درمیان مباحثہ دو مختلف فلسفیانہ دعوؤں پرقائم رہا اور اسی
اعتبار سے اپنے وقت کے یہ دونوں سربرآورہ ادیب اپنے مقصد اوراس کے حصول میں اپنی عملی
سرگرمیوں کے جواز سے بحث کرتے ہوئے ’معتبر‘ ہونے کی بحث کرتے رہے تھے۔ کامیو کی داخلی
اقدار کی بتدریج نشان دہی ان کے ناول دی آؤٹ سائیڈر، دی پلیگ اور دی فال میں ملتی
ہے Exile and the Kingdom (1957) چھہ مختصر کہانیوں
کی فکر اوران کااسلوب ’دی فال‘ سے مماثل ہے اور اس کا سرد طنز پڑھنے والوں کو مجروح
کرتا ہے کامیو کا ڈرامہ ’کیلی گیولا‘ ایک ظالم رومن بادشاہ کی کہانی کو اپنے عصر سے
مربوط کرنے کاایک کامیاب تخلیقی اظہار ہے کامیو کا یہ ڈرامہ
NSD کے ڈرامہ فیسٹول میں ایک پیش کش کے طور پر مقبول
رہا ہے۔
’’ایک
ادیب بڑی حد تک اس خیال کے تحت لکھتا ہے کہ اسے پڑھا جائے جولوگ اس اعتراف سے منکر
ہیں ہمیں ان کی تعریف کردینی چاہیے مگر ان کے اس مفروضے پر یقین نہیں کرنا چاہیے۔‘‘
ایسا لکھتے ہوئے غالباً کامیو کو یہ احساس تھا کہ آنے والی دہائیوں میں اسے نہ صرف
دلچسپی اور انہماک سے پڑھا جائے گا اسے بشری وجودیت کے نظریے کا امام اور پیغمبرِ جدید
مانا جائے گا۔
نئی دلّی میں سہ روزہ ہندوستان
، فرانس سیمینار میں جو کامیو کی انکاریت اورانسان دوستی کے موضوع پر منعقد ہوا تھا۔
اس میں کامیو کے فلسفہ زندگی پربحث کرتے ہوئے ویدانت، اُپنیشد، گیتا اور کرشن کے ذکر
کے ساتھ ساتھ کامیو کے کرداروںCaligula، Meursault
اور
Reux بھی زیربحث آئے، ہندوستان کے آواں گارد ادب
میں کامیو کے مثالی ناول اجنبی کی گونج بھی پورے سیمینار میں بار بار سنائی دی۔ ڈاکٹر
پربھاکر ماچوے کے خیال میں کامیو کی تمام تحریروں میں اپنے اُس عہد کو سمجھنے کی بھرپور
کوشش ہے جس میں وہ جیتا رہا، یہ وہ زمانہ تھا جب پچاس برسوں میں سات کروڑ سے زیادہ
انسان اجاڑے گئے ، مارے گئے ، یا محکوم بنادیے گئے، کامیو کے یہاں انکاریت کی تکرار
کے باوجود اس کے لہجے پرقنوطیت کا غلبہ نہیں ہے ڈاکٹر پربھاکر ماچوے نے ہندوستانی طرزِ
فکر میں پائے جانے والے شنیہ واد اور کامیو کے وجودی فلسفے کاموازنہ بھی کیا انھوں
نے کہا کہ انسانی وجود کی بے معنویت کااحساس تو اقبال کے یہاں بھی ہے ۔
تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ
دنیا نہ وہ دنیا
یہاں مرنے کی پابندی وہاں
جینے کی پابندی
ڈاکٹر پربھاکر ماچوے نے ہندوستانی
آواں گارد ادب پر کامیو کے اثرات کی نشاندہی کرتے ہوئے ہرونش رائے بچن کی نظموں کا
حوالہ دیا، کامیو کے یہاں پائے جانے والے بے گانگی کے احساس کو ، بنگالی میں مانک بنرجی،
سماریش باسو کے ناولوں کے کرداروں، مراٹھی میں مردیکر، نیمادے ، ہندی میں جنیندر کمار،
اگئیے، دیوراج اورملیالم میں اُو ۔وی۔ وجیتن کی تحریروں میں تلاش کیا ۔ انھوں نے مختلف
کتابوں کے ایسے ناموں کی بھی نشان دہی کی جو کامیو کے تبتع کی واضح مثال ہیں مثلاً
’میں‘ (مراٹھی) گھن پوکا(بنگالی) اوایہہ جیونا (پنجابی) اُداس نسلیں (اردو) اورخود
پر بھاکر ماچوے کا ناول (لاپتہ) شامل ہیں۔
عصری ہندوستانی ادب کا ذکر
کرتے ہوئے ڈاکٹر کے چیلپسن نے کامیو کے Caliguala اورگریش
کرناڈ کے تغلق میں تخلیقی مماثلات کا ذکرکرتے ہوئے کہا کہ کرناڈ نے خود بھی اس کا اعتراف
کیا ہے ڈاکٹر چیلپسن کا خیال تھا کہ کرناڈ کا تغلق ایک وجودی ہیرو ہے جو کامیو کے
’’نفسیاتی خودکشی‘‘ والے نظریے کی توضیح ہے اوراس خیال کاحامی ہے کہ جینے کے لیے زندگی
ایک وجودی کے لیے بہت کچھ ہے یہی تصور Caligulaکا
بھی ہے۔ ان کے خیال میں آنندمورتی کا ناول سمسکرا
Samskara بنیادی طورپر کامیو کے طاعون اور اجنبی کی ہی
آواز بازگشت ہے ۔ ملک راج آنند کے اچھوت اورقلی میں بھی منکرانہ فکر اورسماجی ناانصافی
کی بنا پر فرد کے یہاں بے گانگی کا احساس ملتا ہے ۔ ارون جوشی کے غیر ملکیThe
Foreigner میں Sindy کاکردار کامیو کے کردار Meursault کے قبیلے سے تعلق رکھتا ہے
وہ بڑے اُداس لہجے میں کہتا ہے۔
’’ میں
بستر پر پڑے سوچتا ہوں کیا میں اس زندگی کا حصہ ہوں جو میرے مکان کی کھڑکی کے نیچے
شور کررہی ہے۔ شاید میں ایسا اس لیے محسوس کررہاہوں کہ میں امریکہ میں ایک پردیسی ہوں۔
لیکن اگرمیں کینیا یا ہندوستان میں بھی ہوتا تب بھی کیا فرق پڑنے والا تھا کیونکہ میں
وہاں بھی خود کو پردیسی ہی محسوس کرتا۔ یہ پردیسی پن میرے اندر ہے اور میں اپنے آپ
کوپیچھے نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘
ہندوستانی ادیب مراٹھی کے
کہانی کار ولاس سارنگ کا خیال ہے کہ جیمز جوائس اورورجینا وولف اور ڈی ایچ لارسن کی
کوئی تصنیف کامیو کے ’اجنبی‘ کی طرح اُن کے جیسے قاری کو متاثر کرنے کی خوبی نہیں رکھتی
کیونکہ انگریزی ادب پڑھنا تودراصل تاریخی حالات کا تقاضا تھا لیکن کامیو یا دوسرے ادیبوں
کے ساتھ ساتھ ہماری ذہنی رفاقت روحانی قربتوں اورفکر کی یگانگت کے احساس کی دین ہے
اس سلسلے میں اگرسارتر کے ناول Nauseaکی
بات کریں تو ہمیں محسوس ہوگا کہ اجنبی میں فلسفہ لادا ہوا نہیں لگتا یہی وجہ ہے کہ
سارتر کو ایک پیشہ ور فلسفی کی قیمت ادا کرنی پڑی جبکہ کامیو کوتخلیقی اور فنی سطح
پر زیادہ کامیابی حاصل ہوئی ہے اجنبی میں کامیو کی فلاسفی، فن پارے کا ایک اٹوٹ حصہ
بن کر سامنے آتی ہے اور قاری میں اس کی فلاسفی اورتصنیف کو زیادہ گہرائی تک سمجھنے
کا از خود احساس پیدا ہوتا ہے موازنے اور تقابل کی اس زو میں ہمنیگوے کے ناول ’بوڑھا
آدمی اورسمندر‘ کا غیرمعمولی پن اور اس میں کارفرما روحانی اور متانت ہے کامیو کا
ممتاز کردار Meursault بھی
ہمنیگوے کے ہیروز سے کئی طرح مطابقت رکھتا ہے یہ بظاہر بے وقوف ہے خاموش ہے لیکن فطرتاً
درد مند ہے Meursault کو
ایک ایسے قتل کے جرم میں موت کی سزا دی جاتی ہے جو حادثاتی اورغیرارادی طورپرواقع ہوا
تھا اس کردار میں ایک ایسی انفعالیت اور سپردگی ہے جو احتجاج سے عاری ہے اس اعتبار
سے ’اجنبی‘ کا ہیرو بڑی حد تک غیریورپی اورغیرمغربی ہے آپ کہہ سکتے ہیں کہ کامیو اور
کافکا میں مشرقیت کے عناصر نمایاں ہیں اس کی وجہ الجیریا میں اس کی پیدایش اورعرب تہذیب
سے اس کا مانوس ہونا ہے اس کے دونوں ناول ’طاعون‘ اور ’زوال‘ واضح طورپر احتجاجی لہجے Protest کے حامل ناول ہیں اس زاویے
سے دیکھیں تو وہ بالآخر مغربی Ethosسے
خود کو ہم آہنگ کرلیتا ہے۔
کامیو کی 4 جنوری 1960 میں
ایک کار حادثے میں جب موت ہوئی تو اس سے تین سال قبل اسے
The Outsider پر 1957میں ادب کا نوبیل انعام مل چکا تھا اس
کے بعد وہ بڑا خاموش ہوگیا تھا اس کی وجہ پچاس کی دہائی میں الجیریا کی جنگ آزادی
جاری تھی اس جنگ نے کامیو کو ایک عجیب مخمصے میں ڈال دیا تھا اس دور کے اکثر ادیبوں
اور دانش وروں کی طرح کامیو بھی حکومت فرانس کی الجیریا پالیسی کے خلاف تھا اس نے عرب
دنیا کو بھی اور یورپ کو بھی الجیریا کی آزادی اور خود مختاری کے مطالبے کی سرگرم
حمایت کرنے کی تحریک دی تھی کامیو فرانس کی کمیونسٹ پارٹی کا سیاسی محاذ پر ہمنوا تھا
مگر جب روس پر تنقید کرنے سے دانش وروں کو نرمی برتنے کا اشارہ دیا گیا تو کامیونے
سویت روس میں Gulagکو
آمریت اورجبر کے طور پر مسترد کردیا پچاس کی اسی دہائی میں آندرے ژبد، ژاں پال سارترے،
مالرو، جیویس رومین، روجر مارٹن دی گارد اور خود البیرکامیو اپنی تحریروں سے فکروفلسفے
کی دنیا کو متاثر کررہے تھے لیکن ساٹھ کی دہائی میں یہ صورت حال بدل گئی اوراینٹی ہیونٹ
تحریک زور پکڑنے لگی جو تاریخ، عمرانیات، لسانیات کے موضوعات کو تخلیقی ادب کا نعم
البدل بنارہی تھی اب بورخیس، فاکو Foucault،
Leve
Straiss، جیسے نئے علم برداروں کے سامنے کامیو کا ادبی
شہرہ ماند پڑگیا تھا فرانس کا دانشورانہ طبقہ اس صورت حال کا سامنا کررہا تھا کہ اسی
عرصے میں کار کے حادثے میں مٹی دھول میں اَٹا کامیو کے جس ناول کا ادھورا مسودہ ملا
تھا اس کی بیوی Francineکے
انتقال کے بعد اس کی بیٹی کیتھرین نے 144 صفحات کے اسی ہزار الفاظ پر مشتمل اس نامکمل
مسودے کی نوک پلک درست کرکے ماں کی خواہش کو نظرانداز کرکے اُسے Le Premier Homane’پہلا آدمی‘ کے نام
سے شائع کیا تووہ شائع ہوتے ہی ادبی دنیا میں گفتگو کا موضوع بن گیا اس کے سات ایڈیشن
نکلے اوردولاکھ سے زائد کا پیاں فروخت ہوئیں۔
کامیو کی زندگی میں شائع ہونے
والی تحریروں کے برخلاف اس مسودے میں کامیو نے زندگی کے تہہ دار فلسفے سے کام کم لیا
ہے اس کے ابتدائی حصے کا ہیرو Jacques Cornery فلسفے
سے زیادہ زندگی کے سامنے نظر آنے والی سچائیوں کا داعی ہے اس نئی اور آخری تحریر
نے کامیو کی فرانس میں مدھم پڑتی ہوئی مقبولیت کو پھر سے زندگی دے دی تھی۔ کامیو نے
عرب قوم پرستوں کو جس کلچر کی یاد دلائی تھی وہ الجیریا کے یورپی باشندوں کا وہ کلچر
تھا جو فرانس کے کلچر سے مختلف ہے اور ایک ایسا قیمتی اثاثہ ہے جسے برباد نہیں کیا
جانا چاہیے الجیریا کا یہی وہ تہذیبی امتیاز اورامتزاج تھا جو کامیو کے مذکورہ آخری
ناول کا موضوع تھا ۔
ناول پڑھتے ہوئے جو بات سامنے
آتی ہے وہ اضطراب اور ایک طرح کی جھلاہٹ کا احساس دلاتی ہے الجیریا کے یورپی پاشندے
کی حیثیت سے کامیو خود پیرس میں ’پردیسی‘ تھا اسی لیے اُس کے اندر دو شخصیتیں ایک دوسرے
سے متصادم تھیں اس کے ادبی معاصرین اور دانش وروں نے صرف ایک ’شخصیت‘ کو جاننے اور
پسند کرنے پر اصرار کیا جبکہ کامیو نے دوسری شخصیت کو سامنے لانے اوراس کا نقطہ نظر
بیان کرنے کی کوشش کی جسے کم سراہا گیا کا میوکے لکھے ادب میں دلچسپی لینے والوں کا
خیال تھا کہ ہماری دنیاؤں کے درمیان یہی وہ دوری اور فاصلہ تھا جو کامیو کے ذہنی اضطراب
کا باعث تھا کامیو اپنے عہد کے تناظر میں علامتوں اوران کے تنوع کے ساتھ انسانی زندگی
کی لایعنیت کو اور اس کے پس منظر میں انسان اور اس کی زندگی کے وسیع تر مسائل کا تجزیہ
پیش کرتا ہے کامیو کے خیال میں ایک لایعنی انسان وہ ہے جو تن بہ تقدیر خود کو حالات
کے سپرد کردیتا ہے اوربغاوت کے عمل سے گزرنے کی لاحاصل کوشش کرتا ہے کامیو اپنے اس
نقطہ نظر کو دیو مالائی قصوں کے حوالے سے بھی لایعنی انسان کی تشکیک اور بے یقینی کو
اپنی تحریروں میں نمایاں کرتا ہے ’متھ آف سی فس‘ اس کی مثال ہے کامیو کے نزدیک ایک
لایعنی انسان ’سی فس‘ سے مختلف نہیں جسے دیو تاؤں کے دیوتاز یوس (ZEUS) نے تا اَبد ایک چٹان نما پتھر
، پہاڑ کی چوٹی پر لے جانے اور اسے وہاں سے لڑکانے کی سخت سزا دی تھی ۔ اس دور کاانسان
کچھ بھی ایسی ہی سزائیں کاٹ رہا ہے ’سی فس‘ نے اپنی فولادی ارادے اور قوت کے ساتھ دیوتا
کی دی ہوئی سزا کو ایک فتح کے احساس کے ساتھ کود کو سربلند کرلیا تھا The Rebel’باغی‘ میں یہ اعلان کہ ’’میں
باغی ہوں اس لیے زندہ ہوں‘‘اپنے تاریخی پس منظر میں بلند ترین انسانی اقدار کی نیو
رکھنے والا تو ہے ہی ان کی بازیافت بھی ہے ۔
کامیو کا امتیاز یہ ہے کہ
اس نے فکشن بھی لکھا، ڈرامے بھی، خطوط بھی اور مضامین بھی۔ اپنی اِن تحریروں کے ذریعے
اُس نے ایک نئی سوچ، فکر اور فلسفۂ حیات کی بنا ڈالی جسے دنیا کے دانشور حلقوں نے
بڑی آمادگی سے قبول کیا اور یورپ میں نوآبادیات کے خاتمے کے بعد کے دنوں میں صاحبِ
اقتدار طبقے کے خلاف ادیبوں نے مزاحمت کا ایک موثر ہتھیار بھی مانا، کامیو کی سوچ میں
ایک عالمی کشش اور اپیل تھی اُس کا لکھا ادب ’بیسٹ نسل‘ کا آدرش تھا، اُس نے فرسودہ
خیالی کی مذمت کی جس طرح اسپین کی سول وار کے زمانے میں جارج آرویل اور آندریو Gide نے سول وار کی حمایت کی اسی
طرح کامیو نے بھی فرانس پر دوسری عالمی جنگ کے دوران نازی قبضے کے خلاف فرانس میں روپوش
ہوکر اس کی مزاحمت کی تھی اور ہیروشیما پر بم گرانے پر زور دار احتجاج کیا تھا، اپنے
معاصر ادیبوں کے برعکس کامیو ہر اُس محاذ اور ہر اُس تحریک کے ہم قدم رہا جو جنگ، نوآبادیات
اور جبر کے خلاف صف آرا تھا اُس نے اُس وقت یونیسکو سے اپنی وابستگی 1950 میں ختم
کرلی تھی جب اِس عالمی تنظیم نے جنرل فرنیکو کے اسپین کو اپنی رکنیت دی تھی کامیو کی
پچیس تیس سال کی سرگرم زندگی پر نظر ڈالی جائے تو یہ احساس برابر ہوتا رہے گا کہ وہ
ایک جیالا باغی تھا، جب وہ 23 سال کا تھا تو اُس پر تپ دق کا پہلا حملہ ہوا تھا، اس
نے 1935 میں فرانس کی کمیونسٹ پارٹی سے وابستگی اختیار کی لیکن 1937 میں وہ Trotskyite ہونے اور باغیانہ آواز اٹھانے
پر پارٹی سے الگ کردیا گیا تھا۔ 1948 میں کامیو نے فرانس کی انارکسٹ تحریک سے تعلق
قائم کیا اور ہر طرح کے جبر اور ظلم کے خلاف مذمتی اور مزاحمتی رویہ اپنایا گو کامیو
اپنے سیاسی مسلک میں بائیں بازو کے خیالات کا حامل تھا لیکن اُس نے مشرقی جرمنی میں
1935 اور ہنگری میں 1956 میں سوویت یونین کے جبر اور دباؤ کی کھل کر مزاحمت کی تھی
جبکہ بائیں بازو کے زیادہ تر دانشوروں نے اس سلسلے میں مصلحتاً خاموشی اختیار کرلی
تھی۔ کامیو کی شخصیت کا یہ پہلو بھی مرکزِ نگاہ بنتا رہا تھا کہ اپنے زمانے کے ہر اہم
مرد اور عورت سے اس کی شناسائی تھی جس میں سارتر بھی شامل تھا۔
کامیو کی غیرمعمولی تحریر The Myth of Sisyphus میں اُس کی سوچ یہ
ہے کہ انسانی زندگی میں اُمید کے مکمل فقدان کا مایوسی کے احساس سے کوئی تعلق نہیں
ہوتا اور یہ بھی کہ It must not be confused with renouncement
and a conscious dissatisfaction اگر کامیو کے مِتھ آف سی
سی فس کے کردار کالی گولا (Caligula) اور The Outsider کے Meursault کا مختلف پہلوؤں سے تجزیہ
کیا جائے تو یہ ماننا ہوگا کہ وہ کامیو کے مطابق اینٹی ہیروز ہیں اور دونوں کے یہاں
منکر ہونے کی قوی سوچ کے ساتھ نجات کی خواہش بھی سر اٹھاتی رہتی ہے، اپنے تخلیقی رویوں
کے ساتھ کامیو آرتھر Koestler کا
ہمنوا تھا اور چاہتا تھا کہ پھانسی کی سزا ختم کردی جائے۔ کامیو کی خوبی یہ تھی کہ
وہ جو کچھ لکھتا تھا اس کو اپنے عمل کا حصہ بھی بناتا تھا، اُس نے اِس کرۂ ارض پر
جنگ کی صورت انسانی زندگی اور اس کی ہلاکتوں کا خون خرابہ دیکھا تھا اسی لیے وہ دنیا
میں خوف اور جنگ کے مناظر کے سخت خلاف تھا، وہ دنیا کو بدلنا چاہتا تھا لیکن وہ نظریہ
پرستی کے حق میں نہیں تھا۔ کامیو نے اپنی تحریروں میں جس عینی نفس کی شبیہ سازی کی
تھی وہ بھلے ہی اس کی معاصر دنیا کے لیے
outsider بنا رہا ہو لیکن وہ اپنے شخصی ضمیر کی سچائیوں
کے ساتھ کمیٹڈ رہا تھا۔ کامیو نے اپنی مخصوص فکری سوچ کی تشریح کرتے ہوئے لکھا تھا:
'' I would rather live
my life as if there is a God and die to find out there isn't, and than live my
life as if there isn's and die to find that there is."
***
کتاب کا نام: عصری
عالمی ادب کے ستون
مصنف: زبیر رضوی
مطبوعہ قومی کونسل
برائے فروغ اردو زبان
کتاب حاصل کرنے کا پتہ:
وزرات ترقی انسانی
وسائل،حکومت ہند
فروغ اردو بھون،ایف
سی۔33/9،
انسٹی ٹیوشنل ایریا،
جسولہ،نئی دہلی۔110025
فون نمبر: 011-26109746
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں