28/12/15

پریم چند کی کہانیاں


زبان اور اس کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کے ادب کو سمجھنا، جاننا اور اس کی بازدید بھی ایک اہم عمل ہے، منشی پریم چند کا شمار اردو کے اولین افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے، بلکہ سمجھا جاتا رہا ہے کہ انہوں نے اردو افسانے کو وہ طاقتور ابتدائی شکل عطا کی، جس سے اس صنف کے فروغ کی راہیں اردو ادب میں ہموار ہوئیں۔یہاں ہم اپنے قارئین کے لیے  جوگندر پال کی مرتب کردہ اور قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان سے شائع شدہ  پریم چند کی کہانیاں نامی کتاب میں سے تین کہانیاں بلاگ کے قارئین کے لیے پیش کررہے ہیں، جو احباب مکمل کتاب خرید کر پڑھنا چاہتے ہیں، پڑھ سکتے ہیں۔تفصیلات پوسٹ کے آخر میں دی گئی ہیں۔شکریہ

عید گاہ

رمضان کے پورے تیس روزوں کے بعد آج عید آئی کتنی سہانی اور رنگین صبح ہے بچہ کی طرح پر تبسّم درختوں پر کچھ عجیب ہریالی ہے۔ کھیتوں میں کچھ عجیب رونق ہے آسمان پر کچھ عجیب فضا ہے، آج کا آفتاب دیکھ کتنا پیارا ہے گویا دنیا کو عید کی خوشی پر مبارک باد دے رہا ہے، گائوں میں کتنی چہل پہل ہے۔ عید گاہ جانے کی دھوم ہے کسی کے کرتے میں بٹن نہیں ہیں تو سوئی تاگا لینے دوڑا جارہا ہے۔ کسی کے جوتے سخت ہوگئے ہیں ۔ اسے تیل اور پانی سے نرم کررہا ہے۔ جلدی جلدی بیلوں کی سانی پانی دے دیں۔عیدگاہ سے لوٹتے لوٹتے دوپہر ہوجائے گی ۔ تین کوس کا پیدل راستہ پھر سینکڑوں رشتے قرابت والوں سے ملناملانا۔ دوپہرسے پہلے لوٹنا غیر ممکن ہے۔لڑکے سب سے زیادہ خوش ہیں۔کسی نے ایک روزہ رکھا وہ بھی دوپہر تک کسی نے وہ بھی نہیں۔ لیکن عید گاہ جانے کی خوشی ان کا حصّہ ہے، روزے بڑے بوڑھوں کے لیے ہوں گے ۔بچّوں کے لیے تو عید ہے۔ روز عید کا نام رٹتے تھے آج وہ آگئی۔ اب جلدی پڑی ہوئی ہے۔ کہ عیدگاہ کیوں نہیں چلتے۔ انھیں گھر کی فکروں سے کیا واسطہ؟سیویوں کے لیے گھر میں دودھ اور شکر میوے ہیں یا نہیں۔ اس کی انھیں کیا فکر؟وہ کیا جانیں ابّا کیوں بدحواس گائوں کے مہاجن چودھری قاسم علی کے گھر دوڑے جارہے ہیں ان کی اپنی جیبوں میں تو قارون کا خزانہ رکھا ہوا ہے۔باربار جیب سے اپنا خزانہ نکال کر گنتے ہیں۔ دوستوں کو دکھاتے ہیں اور خوش ہو کر رکھ لیتے ہیں۔ ان ہی دوچارپیسوں میں دنیا کی سات نعمتیں لائیں گے۔ کھلونے اور مٹھائیاں اور بگل اور خدا جانے کیا کیا اور سب سے زیادہ خوش ہے حامد۔ وہ چار سال کا غریب صورت بچّہ ہے جس کا باپ پچھلے سال ہیضہ کی نذر ہوگیا تھا اور ماں نہ جانے کیوں زردہوتی ہوتی ایک دن مر گئی۔کسی کوپتہ نہ چلا کہ بیماری کیا ہے۔۔کہتی کس سے، کون سننے والا تھا۔؟دل پر جو گذرتی تھی سہتی تھی۔اور جب نہ سہا گیا تو دنیا سے رخصت ہوگئی۔اب حامد اپنی بوڑھی دادی امینہ کی گود میں سوتا ہے اور اتنا ہی خوش ہے اس کے ابّا جان بڑی دور روپے کمانے گئے تھے بہت سی تھیلیاں لے کر آئیں گے۔ امّی جان اللہ میاں کے گھر مٹھائی لینے گئی ہیں۔ اس لیے خاموش ہے حامد کے پائوں میں جوتے نہیں ہیں۔ سرپر ایک پرانی دھرانی ٹوپی ہے جس کا گوٹہ سیاہ ہوگیا ہے۔ پھر بھی وہ خوش ہے۔ جب اس کے ابّاجان تھیلیاں اور امّاجان نعمتیں لے کر آئیں گے تب وہ دل کے ارمان نکالے گا۔تب دیکھے گا کہ محمود اور محسن ،آذر اور سیع کہاں سے اتنے پیسے لاتے ہیں ۔ دنیا میں مصیبتوں کی ساری فوج لے کر آئے۔ اس کی ایک نگاہ معصوم اسے پامال کرنے کے لیے کافی ہے۔‘‘
حامد اندر جاکر امینہ سے کہتا ہے۔’’تم ڈرنا نہیں امّاں میں گائوں والوں کا ساتھ نہ چھوڑوں گا۔ بالکل نہ ڈرنا۔ لیکن امینہ کا دل نہیں مانتا۔ گائوں کے بچّے اپنے اپنے باپ کے ساتھ جارہے ہیں۔ حامد کیا اکیلا ہی جائے گا۔اس بھیڑ بھاڑمیں کہیں کھوجائے تو کیا ہو۔ نہیں امینہ اسے تنہا نہ جانے دے گی۔ ننھی سی جان ۔ تین کوس چلے گا۔ پا ئوں میں چھالے نہ پڑجائیں گے۔
 مگر وہ چلی جائے تو یہاں سیویّاں کون پکائے گا، بھوکا پیاسا دوپہر کو لوٹے گا، کیااس وقت سیویّاں پکانے بیٹھے گی۔ رونا تو یہ ہے کہ امینہ کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اس نے فہمین کے کپڑے سیے تھے۔ آٹھ آنے پیسے ملے تھے۔ اس اٹھنّی کو ایمان کی طرح بچاتی چلی آئی تھی اس عید کے لیے،لیکن گھر میں پیسے اور نہ تھے اور گوالن کے پیسے اور چڑھ گئے تھے۔ دینے پڑے ۔ حامد کے لیے روز دو پیسے کا دودھ تو لینا پڑتا ہے اب کُل دوآنے پیسے بچ رہے ہیں۔ تین پیسے حامد کی جیب میں اور پانچ امینہ کے بٹوے میں یہی بساط ہے۔ اللہ ہی بیڑاپار کرے گا۔ دھوبن مہترانی اور نائن بھی تو آئیں گی۔سب کو سیویّاں چاہئیں۔ کس کس سے منہ چھپائے؟ سال بھر کا تہوار ہے۔ زندگی خیریت سے رہے ۔ ان کی تقدیر بھی تو اس کے ساتھ ہے بچّے کو خدا سلامت رکھے یہ دن بھی یوں ہی کٹ جائیں گے۔
گائوں سے لوگ چلے اور حامد بھی بچّوں کے ساتھ تھا۔ سب کے سب دوڑ کر نکل جاتے۔پھر کسی درخت کے نیچے کھڑے ہوکر ساتھ والوں کا انتظار کرتے۔ یہ لوگ کیوں اتنے آہستہ آہستہ چل رہے ہیں۔
شہر کا سرا شروع ہوگیا ۔ سڑک کے دونوں طرف امیروں کے باغ ہیں پختہ چہار دیواری بنی ہوئی ہے۔ درختوں میں آم لگے ہوئے ہیں۔ حامد نے ایک کنکری اٹھا کر ایک آم پر نشانہ لگایا۔ مالی اندر سے گالی دیتا ہوا باہر آیا۔ بچّے وہاں سے ایک فرلانگ پر ہیں ۔خوب ہنس رہے ہیں۔ مالی کو خوب الّو بنایا۔
بڑی بڑی عمارتیں آنے لگیں۔ یہ عدالت ہے۔ یہ مدرسہ ہے۔ یہ کلب گھر ہے۔اتنے بڑے مدرسے میں کتنے سارے لڑکے پڑ ھتے ہوں گے۔ لڑکے نہیں ہیں جی بڑے بڑے آدمی ہیں۔ سچ ان کی بڑی بڑی مونچھیں ہیں۔ اتنے بڑے ہوگئے اب تک پڑھنے جاتے ہیں۔ آج تو چھٹی ہے لیکن ایک بار جب پہلے آئے تھے ۔تو بہت سے داڑھی مونچھوں والے لڑکے یہاں کھیل رہے تھے۔ نہ جانے کب تک پڑھیں گے۔اور کیا کریںگے اتنا پڑھ کر گائوں کے دیہاتی مدرسے میں دو تین بڑے بڑے لڑکے ہیں۔ بالکل کوئوں جیسے کام سے جی چرانے والے یہ لڑکے بھی اسی طرح کے ہوں گے جی۔ اور کیا نہیں کیا اب تک پڑھتے ہوتے۔ وہ کلب گھرہے۔ وہاں جادو کا کھیل ہوتا ہے۔ سنا ہے مردوں کی کھوپڑیاں اڑتی ہیں۔ آدمی بے ہوش کر دیتے ہیں۔ پھر اس سے جو کچھ پوچھتے ہیں وہ سب بتلادیتے ہیںاور بڑے بڑے تماشے ہوتے ہیں اور میمین بھی کھیلتی ہیں۔ سچ ہماری امان کرو۔دے دو ۔ کیا کہلاتا ہے۔’’بیٹ‘‘تو اسے گھماتے ہی لڑھک جائیں ۔
 محسن نے کہا ’’ہماری امّی جان تو اسے پکڑ ہی نہ سکیں۔ ہاتھ کانپنے لگیں۔اللہ قسم‘‘
حامد نے اس سے اختلاف کیا۔’’چلو ‘‘منوں آٹا پیس ڈالتی ہیں۔ ذرا سی بیٹ پکڑ لیں گے تو ہاتھ کانپنے لگے گا۔ سینکڑوں گھڑے پانی روز نکالتی ہیں۔ کسی میم کو ایک گھڑا پانی نکالنا پڑے تو انکھوں تلے اندھیرا آجائے۔‘‘
محسن لیکن دوڑتی تو نہیں۔ اچھل کود نہیں سکتیں۔
حامد۔ کام آپڑتا ہے تو دوڑبھی لیتی ہیں ابھی اس دن تمھاری گائے کھل گئی تھی اور چودھری کے کھیت میں جا پڑی تھی تو تمھاری امّاں ہی تو دوڑ کر اسے بھگا لائی تھیں۔ کتنی تیزی سے دوڑی تھیں۔ہم تم دونوں ان سے پیچھے رہ گئے۔‘‘
پھر آگے چلے۔ حلوائیوں کی دکانیں شروع ہوگئیں۔آج خوب سجی ہوئی تھیں۔
اتنی مٹھائیاں کون کھاتا ہے؟دیکھونا ایک ایک دکان پر منوں ہوںگی سنا ہے رات کو ایک جنّات ہر ایک دکان پر جاتا ہے۔ جتنا مال بچا ہوتا ہے وہ سب خریدلیتا ہے اور سچ مچ کے روپے دیتا  ہے بالکل ایسے ہی چاندی کے روپے۔
محمود کو یقین نہ آیا۔ ایسے روپے جنّات کو کہاں سے مل جائیں گے۔
محسن ۔’’جنّات کو روپوں کی کیا کمی؟ جس خزانہ میں چاہیں چلے جائیں کوئی انھیں دیکھ نہیں سکتا۔ لوہے کے دروازے تک نہیں روک سکتے جناب آپ ہیں کس خیال میں ہیرے جواہرات ان کے پاس رہتے ہیں۔ جس سے خوش ہوگئے اسے ٹوکروں جواہرات دے دیے۔ پانچ منٹ میں کہو کابُل پہنچ جائیں۔
حامد۔’’‘جناب بہت بڑے ہوتے ہوں گے۔‘‘
محسن ۔’’اور کیا ایک ایک آسمان کے برابر ہوتا ہے۔ زمین پر کھڑا ہوجائے تو اس کا سر آسمان سے جا لگے ۔ مگر چاہے تو ایک لوٹے میں گھس جائے۔
سمیع ۔’’سنا ہے چودھری صاحب کے قبضہ میں بہت سے جنّات ہیں۔ کوئی چیز چوری چلی جائے ۔ چودھری صاحب اس کا پتہ بتا دیں گے۔ اور چور کا نام تک بتادیں گے۔ جمعراتی کا بچھڑا اس دن کھوگیا تھا۔ تین دن حیران ہوئے کہیںنہ ملا۔، تب جھک مار کرچودھری کے پاس گئے۔ چودھری نے کہا۔مویشی خانہ میں ہے اور وہیں ملا۔ جنّات آکر انھیں سب خبریں دے جایا کرتے ہیں۔‘‘
اب ہر ایک کی سمجھ میں آگیا۔کہ چودھری قاسم علی کے پاس کیوں اس قدر دولت ہے اور کیوں وہ قرب و جوار کے مواضعات کے مہاجن ہیں۔ جنّات آکر انھیں روپے دے جاتے ہیں۔ آگے چلیے یہ پولیس لائن ہے۔ یہاں پولیس والے قواعد کرتے ہیں۔رائٹ لپ،پھام پھو۔
نوری نے تصحیح کی ۔’’یہاں پولیس والے پہرہ دیتے ہیں۔ جب ہی تو انھیں بہت خبر ہے اجی حضرت یہ لوگ چوریاں کراتے ہیں۔ شہر کے جتنے چور ڈاکو ہیں سب ان سے ملے رہتے ہیں رات کو سب ایک محلّہ میں چوروں سے کہتے ہیں اور دوسرے محلّہ میں پکارتے ہیں جاگتے رہو۔ میرے ماموں صاحب ایک تھانہ میں سپاہی ہیں۔ بیس روپے مہینہ پاتے ہیں لیکن تھیلیاں بھر بھر گھر بھیجتے ہیں۔ میں نے ایک بار پوچھا تھا۔ ماموں اتنے روپے آپ چاہیں تو ایک دن میں لاکھوں مار لائیں۔ ہم تو اتنا ہی لیتے ہیں جس میں اپنی بدنامی نہ ہو اور نوکری بنی رہے۔
حامد نے تعجب سے پوچھا۔’’یہ لوگ چوری کراتے ہیں توانھیں کوئی پکڑ تا نہیں ۔‘‘
نوری نے اس کو تاہ فہمی پر رحم کھا کر کہا۔’’ارے احمق انھیں کون پکڑے گا۔پکڑنے والے تو یہ خود ہیں۔ لیکن اللہ انھیںسزا بھی خوب دیتا ہے۔ تھوڑے دن ہوئے ماموں کے گھر میںآگ لگ گئی۔ سارا مال متاع جل گیا، ایک برتن تک نہ بچا کئی دن تک درخت کے سائے کے نیچے سوئے اللہ قسم پھر نہ جانے کہاں سے قرض لائے تو برتن بھانڈے آئے۔‘‘
بستی گھنی ہونے لگی۔ عید گاہ جانے والوں کے مجمع نظر آنے لگے۔ ایک سے ایک زرق برق پوشاک پہنے ہوئے ۔ کوئی تانگے پر سوار کوئی موٹر پر چلتے تھے تو کپڑوں سے عطر کی خوشبو اڑتی تھی۔
دہقانوں کی یہ مختصر سی ٹولی اپنی بے سروسامانی سے بے حس اپنی خستہ حالی میں مگر صابر و شاکر  چلی جاتی تھی۔ جس چیز کی طرف تاکتے تاکتے رہ جاتے اور پیچھے سے بار بار ان کی آواز ہونے پر بھی خبر نہ ہوتی تھی۔ محسن تو موٹر کے نیچے جاتے جاتے بچا۔
وہ عید گاہ نظر آئی۔ جماعت شروع ہوگئی ہے اور املی کے گھنے درختوں کا سایہ ہے نیچے کھلا ہوا پختہ فرش ہے ۔ جس پر جاجم بچھا ہواہے۔ اورنمازیوں کی قطاریں ایک کے پیچھے دوسری خدا جانے کہاں تک چلی گئی ہیں۔ پختہ فرش کے نیچے جاجم بھی نہیں۔کئی قطاریں کھڑی ہیں ۔ جوآتے جاتے ہیں پیچھے کھڑے ہوتے جاتے ہیں۔آگے اب جگہ نہیں رہی۔ یہاں کوئی رتبہ اور عہدہ نہیں دیکھتا اسلام کی نگاہ میں سب برابر ہیں۔ دہقانوں نے بھی وضو کیا اور جماعت میں شامل ہوگئے کتنی باقاعدہ منظّم جماعت ہے۔لاکھوں آدمی ایک ساتھ جھکتے ہیں ایک ساتھ دوزانو بیٹھ جاتے ہیں اور یہ عمل بار بار ہوتا ہے ایسا معلوم ہورہا ہے گویا بجلی کی لاکھوں بتیاں ایک ساتھ روشن ہوجائیں اور ایک ساتھ بجھ جائیں ۔ کتنا پر احترام رعب انگیز نظارہ ہے جس کی ہم آہنگی اوروسعت اور تعداد دلوں پر ایک وجدانی کیفیت پیدا کردیتی ہے گویا اخوت کارشتہ ان تمام روحوں کو منسک کیے ہوئے ہیں۔
 نماز ختم ہوگئی ہے لوگ باہم گلے مل رہے ہیں کچھ لوگ محتاجوں اور سائلوں کو خیرات کررہے ہیں۔ جو آج یہاں ہزاروں جمع ہوگئے ہیں۔ ہمارے دہقانوں نے مٹھائی اور کھلونوں کی دکانوں پر یورش کی۔ بوڑھے بھی ان دلچسپیوں میں بچوّں سے کم نہیں ہیں۔ یہ دیکھو ہنڈولا ہے ایک پیسہ دے کر آسمان پر جاتے معلوم ہوں گے ۔کبھی زمین پر گرتے ہیں یہ چرخی ہے لکڑی کے گھوڑے ، اونٹ، ہاتھی منجوں سے لٹکے ہوئے ہیں۔ ایک پیسہ دے کر بیٹھ جائو اور پچیس چکروں کا مزہ لو۔ محمود اور محسن دونوں ہنڈولے پر بیٹھے ہیں۔ آذرا ور سمیع گھوڑوں پر۔ ان کے بزرگ اتنے ہی طفلانہ اشتیاق سے چرخی پر بیٹھے ہیں حامد دور کھڑا ہے تین ہی پیسے تو اس کے پاس ہیں۔ ذرا ساچکر کھانے کے لیے وہ اپنے خزانہ کا ثلث نہیں صرف کرسکتا۔ محسن کا باپ بار بار اسے چرخی پر بلاتا ہے۔ لیکن وہ راضی نہیں ہوتا بوڑھے کہتے ہیں اس لڑکے میں ابھی سے اپنا پرایا آگیا ہے۔حامد سوچتا ہے کیوں کسی کا احسان لوں ، عسرت نے اسے ضرورت سے زیادہ ذکی الحس بنادیا ہے۔ سب لوگ چرخی سے اترتے ہیں۔ کھلونوں کی خرید شروع ہوتی ہے۔ سپاہی اور گجریا اور راجہ رانی اور وکیل اور دھوبی اور بھشتی بے امتیاز ان سے ران ملائے بیٹھے ہوئے ہیں۔ دھوبی راجہ رانی کی بغل میں ہے اور بھشتی وکیل صاحب کی بغل میں واہ کتنے خوبصورت بولا ہی چاہتے ہیں محمود سپاہی پر لٹو ہوجاتا ہے، خاکی وردی اور پگڑی لال کندھے پر بندوق معلوم ہوتا ہے ابھی قواعد کے لیے چلا آرہا ہے، محسن کو بھشتی پسند آیا کمر جھکی ہوئی ہے اس پر مشک کا دھانہ ایک ہاتھ سے پکڑے ہوئے ہے، دوسرے ہاتھ میں رسّی ہے کتنا بشاش چہرہ ہے شاید کوئی گیت گارہا ہے مشک سے پانی ٹپکتا ہو ا معلوم ہوتا ہے نوری کو وکیل سے مناسبت ہے کتنی عالمانہ صورت ہے سیاہ چغہ نیچے سفید اچکن کے سینہ کی جیب میں سنہری زنجیر، ایک ہاتھ میںقانون کی کتاب لیے ہوئے ہے معلوم ہوتا ہے ابھی کسی عدالت سے جرح یا بحث کرکے چلے آرہے ہیں۔ یہ سب دوپیسے کے کھلونے ہیں۔ حامد کے پاس کل تین پیسے ہیں۔اگر دو کا ایک کھلونا لے لے تو پھر اور کیا لے گا نہیں کھلونے فضول ہیں ۔ کہیں ہاتھ سے گر پڑے تو چور چور ہو جائے ذرا سا پانی پڑ جائے تو سارا رنگ دھل جائے ۔ ان کھلونوں کو لے کر وہ کیا کرے گا کس مصرف کے ہیں۔
محسن کہتا ہے’’میرا بھشتی روز پانی دے جائے گا صبح شام۔‘‘
محمود ’’اور میرا سپاہی گھر کا پہرہ دے گا کوئی چور آئے گا تو فوراً بندوق سے فائر کردے گا۔‘‘
نوری ’’اور میرا وکیل روز مقدمہ لڑے گااور روز روپے لائے گا۔‘‘
حامد کھلونوں کی مذمت کرتا ۔ مٹی کے ہی توہیں گریں تو چکنا چور ہوجائیں لیکن ہرچیز کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا ہے اور چاہتا ہے کہ ذرا دیر کے لیے انھیں ہاتھ میں لے سکتا۔ یہ بساطی کی دکان ہے ، طرح طرح کی ضروری چیزیں ایک چادر بچھی ہوئی ہے۔ گیند، سیٹیاں، بگل، بھنورے، ربڑ کے کھلونے اور ہزاروں چیزیں محسن ایک سیٹی لیتا ہے محمود گیند، نوری ربڑ کابت جو چوں چوں کرتا ہے اور سمیع ایک خنجری اسے وہ بجا بجاکر گائے گا خامد کھڑا ہر ایک کو حسرت سے دیکھ رہا ہے ۔ جب اس کا رفیق کوئی چیز خرید لیتا ہے تو وہ بڑے اشتیاق سے ایک بار اسے ہاتھ میں لے کر دیکھنے لگتا ہے لیکن لڑکے اتنے دوست نواز نہیں ہوتے ۔خاص کر جب کہ ابھی دلچسپی تازہ ہے۔ بے چارہ یوں ہی مایوس ہوکر رہ جاتا ہے۔
کھلونوں کے بعد مٹھائیوں کا نمبر آیا کسی نے ریوڑیاں لی ہیں کسی نے گلاب جامن کسی نے سوہن حلوہ مزہ سے کھارہے ہیں۔ان کی برادری سے خارج ہے۔کمبخت کی جیب میں تین پیسے توہیں کیوں نہیں کچھ لے کر کھاتا۔ حریص نگاہوں سے سب کی طرف دیکھتا ہے۔
محسن نے کہا۔’’حامد یہ ریوڑی لے جا کتنی خوشبودار ہیں۔‘‘؟
حامد سمجھ گیا یہ محض شرارت ہے محسن اتنا فیاض طبع نہ تھا پھر بھی وہ اس کے پاس گیا۔ محسن نے دونے سے دوتین ریوڑیاں نکالیں حامد کی طرف بڑھائیں حامدنے ہاتھ پھیلایا محسن نے ہاتھ کھینچ لیا اور ریوڑیاں اپنے منہ میں رکھ لیں۔محمود اورنور اور سمیع خوب تالیاں بجا بجا کر ہنسنے لگے حامد کھسیانہ ہوگیا محسن نے کہا۔
’’اچھا اب ضرور دیں گے یہ لے جائو اللہ قسم۔‘‘
حامد نے کہا’’رکھیے رکھیے کیا میرے پاس پیسے نہیںہیں۔‘‘؟
سمیع بولا’’تین ہی پیسے تو ہیں کیا کیا لوگے۔‘‘؟
محمود ’’تم اس سے مت بولو حامد میرے پاس آئو یہ گلاب جامن لے لو۔‘‘
حامد’’مٹھائی کون بڑی نعمت ہے کتاب میں اس کی برائیاں لکھی ہیں۔‘‘
محسن’’لیکن جی میں کہہ رہے ہوگے کہ کچھ مل جائے تو کھالیں اپنے پیسے کیوں نہیں نکالتے۔‘‘
محمود’’اس کی ہوشیاری میں سمجھتا ہوں ۔ جب ہمارے سارے پیسے خرچ ہوجائیں گے تب یہ مٹھائی لے گا اور ہمیں چڑھا چڑھا کر کھائے گا۔‘‘
حلوائیوں کی دکانوں کے آگے کچھ دکانیں لوہے کی چیزوں کی تھیں کچھ گلٹ اور ملع کے زیورات کی۔لڑکوں کے لیے یہاں دلچسپی کا کوئی سامان نہ تھا حامد لوہے کی دکان پر ایک لمحہ کے لیے رک گیا ۔ دست پناہ رکھے ہوئے تھے وہ دست پناہ خریدلے گا۔ماں کے پاس دست پناہ نہیں ہے توے سے روٹیاں اتارتی ہیں تو ہاتھ جل جاتا ہے اگر وہ دست پناہ لے جاکر اماں کو دیدے تو وہ کتنی خوش ہوں گی پھر ان کی انگلیاں کبھی نہیں جلیں گی ، گھر میں ایک کام کی چیز ہوجائے گی۔ کھلونوں سے کیا فائدہ مفت میں پیسے خراب ہوتے ہیں ذرا دیر ہی تو خوشی ہوتی ہے پھر تو انھیں کوئی آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتا یا تو گھر پہنچتے  پہنچتے ٹوٹ پھوٹ کر برباد ہوجائیں گے یا چھوٹے بچّے جو عید گاہ نہیں جاسکتے ہیں ضد کرکے لے لیں گے اور توڑ ڈالیں گے۔ دست پناہ کتنے فائدہ کی چیز ہے روٹیاں توے سے اتار لو، چولھے سے آگ نکال کر دے دو۔اماں کو فرصت کہاں ہے بازار آئیں اور اتنے پیسے کہاں ملتے ہیں روز ہاتھ جلا لیتی ہیں اس کے ساتھی آگے بڑھ گئے ہیں ۔سبیل پر سب کے سب پانی پی رہے ہیں کتنے لالچی ہیں سب نے اتنی مٹھائیاں لیںکسی نے مجھے ایک بھی نہ دی۔ اس پر کہتے ہیںمیرے ساتھ کھیلو ۔میری تختی دھولائو۔ اب اگر یہاں محسن نے کوئی کام کرنے کو کہا تو خبرلوں گا ، کھائیں مٹھائیاں آپ منہ سڑے گا۔ پھوڑے پھنسیاں نکلیں گی آپ ہی زبان چٹوڑی ہوجائے گی ، تب پیسے چرائیں گے اور مار کھائیں گے میری زبان کیوں خراب ہوگی اس نے پھر سوچا امّاں دست پناہ دیکھتے ہی دوڑ کر میرے ہاتھ سے لے لیں گی اور کہیں گی میرا بیٹا اپنی اماں کے لیے دست پناہ لایا ہے ہزاروں دعائیں دیں گی۔پھر اسے پڑوسیوں کو دکھائیں گی سارے گائوں میں واہ واہ مچ جائے گی۔ ان لوگوں کے کھلونوں پر کون انھیں دعائیں دے گا۔ بزرگوں کی دعائیں سیدھی خدا کی درگاہ میں پہنچتی ہیں اورفوراً قبول ہوتی ہیں۔ میرے پاس بہت سے پیسے نہیں ہیں ، جب ہی تو محسن اور محمودیوں مزاج دکھاتے ہیںمیں بھی ان کو مزاج دکھائوں گا۔ وہ کھلونے کھیلیں مٹھائیاں کھائیں میں غریب سہی ۔ کسی سے کچھ مانگنے تو نہیں جاتا۔آخر ابّا کبھی نہ کبھی آئیں گے ہی پھران لوگوں سے پوچھوں گا کتنے کھلونے لوگے ایک ایک کو ٹوکری دوں اور دکھادوں کہ دوستوں کے ساتھ اس طرح سلوک کیا جاتا ہے جتنے غریب لڑکے ہیں سب کو اچھے اچھے کرتے دلوادوں گا،اورکتابیں دے دوں گا، یہ نہیں کہ ایک پیسہ کی ریوڑیاں لیں۔تو چڑھا چڑھا کر کھانے لگیں۔
دست پناہ دیکھ کر سب کے سب ہنسیں گے ۔ احمق تو ہیں ہی سب اس نے ڈرتے ڈرتے دکاندار سے پوچھا’’یہ دست پناہ بیچو گے۔؟‘‘
دکاندار نے اس کی طرف دیکھا اور ساتھ کوئی آدمی نہ دیکھ کر کہا وہ تمھارے کام کانہیں ہے
’’بکائو ہے یا نہیں‘‘
’’بکائو ہے جی اور یہاں کیوں لاد کر لائے ہیں۔‘‘
‘‘تو بتلاتے کیوں نہیں۔کتنے پیسے کادوگے۔ــ‘‘؟
چھ پیسے لگے گا۔
حامد کا دل بیٹھ گیا کلیجہ مضبوط کرکے بولا۔’’تین پیسے لوگے۔‘‘؟اور آگے بڑھا کہ دکاندار کی گھڑکیاں نہ سنے۔مگر دکاندار نے گھڑکیاں نہ دیں۔ دست پناہ اس کی طرف بڑھا دیا اور پیسے لے لیے۔
حامد نے دست پناہ کندھے پر رکھ لیا، گویا بندوق ہے اور شان سے اکڑتا ہوا اپنے رفیقوں کے پاس آیا۔
محسن نے ہنستے ہوئے کہا’’یہ دست پناہ لایا ہے احمق اسے کیا کروگے۔‘‘؟
حامد نے دست پناہ کو زمین پر پٹک کر کہا ’’ذرا اپنا بھشتی زمین پر گرادوساری پسلیاں چور چور ہوجائیں گی۔‘‘
محمود ’’ تو یہ دست پناہ کوئی کھلونا ہے۔‘‘
حامد،کھلونا کیوں نہیں ہے ابھی کندھے پر رکھا بندوق ہوگیا‘ہاتھ میں لے لیا فقیر کا چمٹا ہوگیا چاہوں تو اس سے تمھاری ناک پکڑلوں، ایک چمٹادوں تو تم لوگوں کے سارے کھلونوں کی جان نکل جائے تمھارے کھلونے کتنا زور لگائیں اس کابال بیکا نہیں کرسکتے میرا بہادر شیر ہے یہ دست پناہ۔‘‘
سمیع متاثر ہوکر بولا’’میری خنجری سے بدلو گے دو آنے کی ہے۔‘‘
حامد نے خنجری کی طرف حقارت سے دیکھ کر کہا’’میرا دست پناہ چاہے تو تمھاری خنجری کا پیٹ پھاڑ ڈالے۔بس ایک چمڑے کی جھلی لگادی ڈھب ڈھب بولنے لگی ذراسا پانی لگے تو ختم ہوجائے ۔ میرا بہادر دست پناہ تو آگ میں پانی میں آندھی میں طوفان میں برابر ڈٹا رہے گا۔ میلہ بہت دور پیچھے چھوٹ چکا تھا۔ دس بج رہے تھے گھر پہنچنے کی جلدی تھی ۔ اب دست پناہ نہیں مل سکتا۔ اب کسی کے پاس پیسے بھی تو نہیں رہے، حامدہے بڑا ہوشیار اب دو فریق ہوگئے محمود ، محسن اور نوری ایک طرف حامد یکہ و تنہا دوسری طرف سمیع غیر جانبدار ہے جس کی فتح دیکھے گا اس کی طرف ہو جائے گا۔مناظرہ شروع ہوگیا آج حامد کی زبان صفائی سے چل رہی ہے۔ اتحادثلاثہ اس کے جارحانہ عمل سے پریشان ہورہا ہے ثلاثہ کے پاس تعداد کی طاقت ہے حامد کے پاس حق اور اخلاق ، ایک طرف مٹی ربڑ اور لکڑی کی چیزیں دوسری جانب اکیلا لوہا جواس وقت اپنے آپ کو فولاد کہہ رہا ہے۔ وہ روئیں تن ہے صف شکن ہے اگر کہیںشیر کی آوازکان میں آجائے تو میاں بھشتی کی اوسان خطا ہوجائے۔میاں سپاہی مٹکی بندوق چھوٹکر بھاگیں ، وکیل صاحب کا سارا قانون پیٹ میں سما جائے ۔چغے منہ میں چھپا کر لیٹ جائیں ۔ مگر بہادر ‘یہ رستم ہند لپک کر شیر کی گردن پر سوراہوجائے گا اور اس کی آنکھیںنکال لے گا۔
محسن نے ایڑی چوٹی کا زور لگا کر کہا’’اچھا تمھارا دست پناہ پانی تو نہیں بھر سکتا۔ حامد نے دست پناہ کو سیدھا کرکے کہا کہ یہ بھشتی کو ایک ڈانٹ بتائے گا تو دوڑا ہوا پانی لاکر ا س کے دروازے پر چھڑکنے لگے گا ۔ جناب اس سے چاہے گھڑے مٹکے اور کونڈے بھرلو۔
محسن کا ناطقہ بند ہوگیا نوری نے کمک پہنچائی’’بچّہ گرفتار ہو جائیں توعدالت میں بندھے بندھے پھریں گے تب تو ہمارے وکیل صاحب ہی پیروی کریں گے  بولیے جناب۔‘‘
حامد کے پاس اس وار کا دفیعہ اتنا آسان نہ تھا دفعتاً اس نے ذرا مہلت پا جانے کے ارادے سے پوچھا’’اسے پکڑنے کون آئے گا۔‘‘؟
محمود نے کہا ’’یہ سپاہی بندوق والا۔‘‘
حامد نے منہ چڑھا کر کہا یہ بیچار ے اس رستم ہند کر پکڑلیں گے۔؟اچھا لائو ابھی ذرا مقابلہ ہوجائے۔ اس کی صورت دیکھتے ہی بچّہ کی ماں مرجائے گی پکڑیں گے کیا بے چارے۔
محسن نے تازہ دم ہو کر وار کیا۔’’تمھارے دست پناہ کا منہ روز آگ میں جلا کرے گا۔‘‘
حامد کے پاس جواب تیار تھا۔’’آگ میں بہادر کودتے ہیں جناب تمھارے یہ وکیل اور سپاہی اور بھشتی ڈرپوک ہیں سب گھر میں گھس جائیں گے آگ میں کودنا وہ کام ہے جو رستم ہی کرسکتا ہے۔‘‘
نوری نے انتہائی جدّت سے کام لیا۔ ’’تمھارادست پناہ باورچی خانہ میںزمین پر پڑا رہے گا۔ میرا وکیل شان سے میز کرسی لگا کر بیٹھے گا۔ اس جملہ نے مردوں میں بھی جان ڈال دی ۔سمیع بھی جیت گیا۔’’ بے شک بڑے معرکے کی بات کہی ‘‘دست پناہ باورچی خانہ میںپڑا رہے گا۔
حامد نے دھاندلی کی میرا دست پناہ باورچی خانہ میں رہے گا وکیل صاحب کرسی پر بیٹھیں گے تو جاکر انھیں زمین پر پٹک دے گا اور سارا قانون ان کے پیٹ میں ڈال دے گا۔‘‘
اس جواب میں بالکل جان نہ تھی بالکل بے تکی سی بات تھی لیکن قانون پیٹ میں ڈالنے والی چھا گئی تینوں سورما منہ تکتے رہ گئے حامد نے میدان جیت لیا۔گوثلاثہ کے پاس ابھی گیند ، سیٹی اور بت ریزرد تھے مگر ان مشین گنوں کے سامنے ان بزدلوں کو کون پوچھتا ہے دست پناہ رستم ہند ہے اس میںکسی کو چوں و چراکی گنجائش نہیں۔‘‘
فاتح کو مفتوحوں سے تمھارا اور خوشامد کا مزاج ملتا ہے وہ حامد کو ملنے لگا اور سب نے تین تین آنے خرچ کیے اور کوئی کام کی چیز نہ لے سکے حامد نے تین ہی پیسوں میں رنگ جمالیا کھلونوں کا کیا اعتبار دو ایک دن میں ٹوٹ پھوٹ جائیں گے۔حامدکا دست پناہ تو فاتح رہے گا، ہمیشہ صلح کی شرطیں طے ہونے لگیں۔
محسن نے کہا’’ذرا اپنا چمٹا دوہم بھی دیکھیں تم چاہو تو ہمارا وکیل دیکھ لو حامد ہمیں اس میں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ وہ فیاض طبع فاتح ہے دست پناہ باری باری سے محمود ، محسن، نوراور سمیع سب کے ہاتھوں میں گیا اور ان کے کھلونے بار ی باری حامد کے ہاتھ میں آئے کتنے خوبصورت کھلونے ہیں معلوم ہوتا ہے بولا ہی چاہتے ہیں،مگر ان کھلونوںکے لیے نھیں دعا کون دے گا؟ کو ن کون ان کھلونوں کو دیکھ کر اتناخوش ہوگا جتنا امّاں جان دست پناہ کو دیکھ کر ہوں گی۔ اسے اپنے طرز عمل پر مطلق پچھتاوا نہیں ہے پھر اب تو دستِ پناہ تو ہے اور سب کا بادشاہ راستے میں محمود نے ایک پیسے کی لکڑیاں لیں۔اس میں حامد کو بھی خراج ملا حالانکہ وہ انکار کرتا رہا۔ محسن اور سمیع نے ایک ایک پیسے کے فالسے لیے حامد کو خراج ملا یہ سب رستم ہند کی برکت تھی۔
گیارہ بجے سارے گائوں میں چہل پہل ہوگئی میلے والے آگئے۔ محسن کی چھوٹی بہن نے دوڑکر بھشتی اس کے ہاتھ سے چھین لیااور مارے خوشی جو اچھلی تو میا ںبھشتی نیچے آرہے۔ اور عالم جاو دانی کو سدھارے اس پر بھائی بہن میں مار پیٹ ہوئی۔ دونوںخوب روئے ان کی امّاں جان یہ کہرام سن کر اور بگڑیں دونوں کو اوپر سے دودوچانٹے رسید کیے۔میاں نوری کے وکیل صاحب کا حشر اس سے بھی بدتر ہوا ۔وکیل زمین پر یا طاق پر تو نہیں بیٹھ سکتا۔ اس کی پوزیشن کا لحاظ تو کرنا ہی ہوگا دیوار میں دو کھو نٹیاں گاڑی گئیں ان پر چیڑ کا ایک پرانا پٹرا رکھا گیا پٹرے پر سرخ رنگ کا ایک چیتھڑا بچھادیا گیا جو منزلہ قالین کے تھا وکیل صاحب عالم بالا پہ جلوہ افروز ہوئے یہیں سے قانونی بحث کریں گے نوری ایک پنکھا لے کر جھلنے لگا ۔معلوم نہیں پنکھے کی ہوا سے یا پنکھے کی چوٹ سے وکیل صاحب عالم بالا سے دنیائے فانی میںآرہے اوران کی مجسمہ خاکی کے پرزے ہوئے۔ پھر بڑے زور کا ماتم ہوا اور وکیل صاحب کی میت پارسی دستور کے مطابق کوڑے پر پھینک دی گئی۔ تاکہ بے کار نہ جاکر زاغ وزغن کے کام آجائے۔
اب رہے میاں محمود کے سپاہی محترم اور ذی رعب ہستی ہے اپنے پیروں چلنے کی ذلت اسے گوارا نہیں محمود نے اپنی بکری کا بچّہ پکڑا اور اس پرسپاہی کو سوار کیا محمود کی بہن ایک ہاتھ سے سپاہی کو پکڑے ہوئے تھی اور محمود بکری کے بچّہ کا کان پکڑ کر اسے درووازے پر چلارہا تھا۔اور اس کے دونوں بھائی سپاہی کی طرف سے تھونے والے داگتے لہو۔’’پکارتے چلتے تھے معلوم نہیں کیا ہوا میاں سپاہی اپنے گھوڑے کی پیٹھ سے گر پڑے اور اپنی بندوق لیے زمین پر آرہے ۔ایک ٹانگ مضروب ہوگئی۔ مگر کوئی مضائقہ نہیں،محمود ہوشیار ڈاکٹر ہے ڈاکڑ نگم اور بھاٹیہ اس کی شاگردی کر سکتے ہیںاوریہ ٹوٹی ٹانگ آناًفاناً میں جوڑدے گا صرف گولر کا دودھ چاہیے ۔ گولر کا دودھ آتا ہے ٹانگ جوڑی جاتی ہے لیکن جوں ہی کھڑ ا ہوتا ہے ٹانگ پھر الگ ہوجاتی ہے۔ عملی جراہی کا نام ہوجاتی ہے تب محمود اس کی دوسری ٹانگ بھی توڑدیتا ہے۔ اب وہ آرام سے ایک جگہ بیٹھ سکتاہے۔ ایک ٹانگ سے تو نہ چل سکتا تھا۔نہ بیٹھ سکتا تھا۔ اب وہ گوشہ میں بیٹھ کر ٹٹی کی آڑ میں شکار کھیلے گا۔
اب میاں حامد کا قصّہ سنئے۔امینہ اس کی آوازسنتے ہی دوڑی اور اسے گود میں اٹھاکر پیار کرنے لگی۔ دفعتاً اس کے ہاتھ میں چمٹا دیکھ کر چونک پڑی۔
’’یہ دست پناہ کہاں تھا بیٹا۔‘‘؟
’’میں نے مول لیا ہے تین پیسے میں۔‘‘
امینہ نے چھاتی پیٹ لی۔’’یہ کیسا بے سمجھ لڑکا ہے کہ دوپہر ہوگئی نہ کچھ کھایا نہ پیا۔لایا کیا یہ دست پناہ۔ سارے میلے میں تجھے اور کوئی چیز نہ ملی۔‘‘
حامد نے خطاوار انہ انداز سے کہا’’تمھاری انگلیاں توے سے جل جاتی تھیں کہ نہیں۔‘‘
امینہ کا غصّہ فوراًشفقت میں تبدیل ہوگیا۔ اور شفقت بھی وہ نہیں جومنہ پر بیان ہوتی ہے اور اپنی ساری تاثیر لفظوں میں منتشر کردیتی ہے یہ بے زبان شفقت تھی۔دردالتجا میں ڈوبی ہوئی اف کتنی نفس کشی ہے ۔کتنی جانسوزی ہے ۔غریب نے اپنے طفلانہ اشتیاق کو روکنے کے لیے کتنا ضبط کیا جب دوسرے لڑکے کھلونے لے رہے ہوں گے مٹھائیاں کھارہے ہوں گے اس کا دل کتنا لہراتا ہوگا۔ اتنا ضبط اس سے ہوا۔ کیونکہ اپنی بوڑھی ماں کی یاد اسے وہاں بھی رہی۔ میرا لال میری کتنی فکر رکھتا ہے اس کے دل میں ایک ایساجذبہ پیدا ہوا کہ اس کے ہاتھ میں دنیا کی بادشاہت آجائے اور وہ اسے حامد کے اوپر نثار کردے۔
اور تب بڑی دلچسپ بات ہوئی بڑھیا امینہ ننّھی سی امینہ بن گئی وہ رونے لگی۔دامن پھیلاکر حامد کو دعائیں دیتی جاتی تھی اور آنکھوں سے آنسو کی بڑی بڑی بوندیں گراتی جاتی تھی۔ حامد اس کا راز کیا سمجھتا اور نہ شاید ہمارے بعض ناظرین ہی سمجھ سکیں گے۔
٭٭٭٭

دو بیل

جانور وں میں گدھا سب سے بیوقوف سمجھا جاتاہے۔ جب ہم کسی شخص کوپرلے درجہ کا احمق کہنا چاہتے ہیں تو اسے گدھا کہتے ہیں۔گدھاواقعی بیوقوف ہے۔یا اس کی سادہ لوحی اور انتہا درجہ کی قوتِ برداشت نے اسے یہ خطاب دلوایا ہے۔ اس کا تصفیہ نہیں ہوسکتا۔ گائے شریف جانور ہے ۔ مگر سینگ مارتی ہے۔کتّا بھی غریب جانور ہے لیکن کبھی کبھی اسے غصّہ بھی آجاتا ہے۔ مگر گدھے کو کبھی غصّہ نہیں آتا جتنا جی چاہے مارلو۔چاہے جیسی خراب سڑی ہوئی گھاس سامنے ڈال دو ۔اس کے چہرے پر ناراضگی کے اثار کبھی نظر نہ آئیں گے۔ اپریل میںشاید کبھی کلیل کرلیتا ہو۔ پر ہم نے اسے کبھی خوش ہوتے نہیں دیکھا۔ اس کے چہرے پر ایک مستقل مایوسی چھائی رہتی ہے سکھ دکھ،نفع نقصان سے کبھی اسے شاد ہوتے نہیں دیکھا۔ رشی منیوں کی جس قدر خوبیاں ہیں۔ سب اس میں بدرجہ اتم موجود ہیں لیکن آدمی اسے بیوقوف کہتاہے۔ اعلیٰخصلتوں کی ایسی توہین ہم نے اور کہیں نہیں دیکھی۔ممکن ہے دنیا میں سیدھے پن کے لیے جگہ نہ ہو۔
لیکن گدھے کا ایک بھائی اور بھی ہے ۔ جو اس سے کچھ کم ہی گدھا ہے اور وہ ہے بیل جن معنوں میں ہم گدھے کا لفظ استعمال کرتے ہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں۔ جو بیل کو بیوقوفوں کا سردار کہنے کو تیار ہیں۔ مگر ہمارا خیال ایسا نہیں۔بیل کبھی کبھی مارتا ۔ کبھی کبھی اڑیل بیل بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔ اور کبھی کئی طریقوں سے وہ اپنی ناپسندیدگی اور ناراضگی کا اظہار کردیتا ہے۔ لہذٰ اس کا درجہ گدھے سے نیچے ہے۔
جھوری کاچھی کے پاس دو بیل تھے۔ ایک کا نام ہیرا تھا دوسرے کا موتی۔دونوں پچھائیں نسل کے تھے۔ دیکھنے میں خوبصورت کام میں چوکس ڈیک ڈول میں اونچے بہت دنوں سے ایک ساتھ رہتے رہتے دونوں میں محبت سی ہوگئی۔ دونوں آمنے سامنے یا ایک دوسرے کے پاس بیٹھے زبانِ خاموش میں ایک دوسرے سے بات چیت کرتے تھے وہ ایک دوسرے کے دل کی بات کیوں کر سمجھ جاتے تھے۔ یہ ہم نہیں کہہ سکتے۔ضروران میں کوئی نہ کوئی ناقابلِ فہم قوت تھی۔ جس کے سمجھنے سے اشرف المخلوقات ہونے کا مدعی انسان محروم ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو چاٹ کر اور سونگھ کر اپنی محبت کا اظہار کرتے تھے۔ کبھی دونوں سینگ ملالیا کرتے تھے۔ عناد سے نہیں محض زندہ دلی سے محض ہنسی مذاق سے جیسے یار دوستوں میں کبھی کبھی دھول دھپّا ہو جاتا ہے۔ اس کے بغیر دوستی کچھ پھیکی اور ہلکی سی رہتی ہے۔ جس پر زیادہ اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔
جس وقت یہ دونوں بیل ہل یا گاڑی میں جوتے جاتے اور گردنیں ہلاہلا کر چلتے تو ہر ایک کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ زیادہ بوجھ میر ی ہی گردن پر رہے کام کے بعد دوپہر یا شام کو کھلتے، تو ایک دوسرے کو چوم چاٹ کر اپنی تھکان اُتار لیتے ۔ ناند میں کھلی بھوسا پڑجانے کے بعد دونوں ایک ساتھ اُٹھتے۔ ایک ساتھ ناند میں منہ ڈالتے اور ایک ہی ساتھ بیٹھتے ایک منہ ہٹا لیتا تو دوسرا بھی ہٹا لیتا تھا۔
ایک مرتبہ جھوری نے دونوں بیل چند دنوں کے لیے اپنے سسرال بھیجے ، بیلوں کو کیا معلوم وہ کیوں بھیجے جاتے ہیں۔سمجھے مالک نے ہمیں بیچ دیا کون جانے بیلوں کو اپنا بیچا جانا پسندآیا یا نہیں۔ لیکن جھوری کے سالے کو انھیں اپنے گائوں تک لے جانے میں دانتوں پسینہ آگیا ۔ پیچھے سے ہانکتا تو دونوں دائیں بائیں بھاگتے ۔آگے سے پکڑکر کھینچتا تو دونوں پیچھے کو زور لگاتے۔مارتا تو دونوں سینگ نیچے کرکے پھنکارتے ۔ اگر ان بے زبانوں کے زبان ہوتی تو جھوری سے پوچھتے تم نے ہم غریبوں کو کیوں نکال دیا۔ ہم نے تمھاری خدمت کرنے میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ اگر اتنی محنت سے کام نہ چلتا تھا ۔ تو اور کام لے لیتے۔ ہم کو انکار نہ تھا۔ ہمیں تمھاری خدمت میں مرجانا قبول تھا۔ ہم نے کبھی دانے چارے کی شکایت نہیں کی۔ تم نے جو کچھ کھلایا سر جھکا کر کھالیا۔ پھر تم نے ہمیں اس ظالم کے ہاتھ کیوں بیچ دیا۔؟
شام کے وقت دونوں بیل گیاکے گائوں میں جا پہنچے دن بھر بھوکے تھے۔ لیکن جب ناند میں لگائے تو کسی نے بھی اس میں منہ نہ ڈالا۔ دونوں کا دل بھاری ہورہا تھا۔جسے انھوں نے اپنا گھر سمجھا تھا وہ آج ان سے چھوٹ گیا یہ نیا گھر نیا گائوں نئے آدمی سب انھیں بے گانے لگتے تھے۔ دونوں نے چپ کی زبان میں کچھ باتیں کیں۔ ایک دوسرے کو کنکھیوں سے دیکھا اورلیٹ گئے۔
جب گائوں میں سوتا پڑگیا تو دونوں نے زور مار کر پگہتے تڑالیے اور گھر کی طرف چلے پگہے مضبوط تھے کسی کو شبہہ بھی نہ ہوسکتا تھا کہ بیل انھیں توڑ سکیں گے پر ان دونوں میں اس وقت دگنی طاقت آگئی تھی ۔ ایک جھٹکے میں رسیاں ٹوٹ گئیں۔
جھوری نے صبح اٹھ کردیکھاکہ دونوں بیل چرنی پر کھڑے تھے دونوں کی گردنوں میںآدھا آدھارسّہ لٹک رہا تھا۔ گھٹنوں تک پائوں کیچڑ میں بھرے ہوئے تھے اور دونوں کی آنکھوں میں محبت اور ناراضگی جھلک رہی تھی جھوری ان کو دیکھ کر محبت سے بائو لا ہوگیا۔ اور دوڑکر ان کے گلے سے لپٹ گیا انسان اور حیوان کی محبت کا یہ منظر نہایت دلکش تھا۔
گھر اور گائوں کے لڑکے جمع ہوگئے اور تالیاںبجا بجا کران کا خیر مقدم کرنے لگے۔ گائوں کی تاریخ میں یہ واقعہ اپنی قسم کا پہلا نہ تھا۔ مگر اہم ضرور تھا۔ بال سبھا نے فیصلہ کیا کہ ان دونوں بہادروں کا ایڈریس دیا جائے۔ کوئی اپنے گھر سے روٹیاںلایا۔ کوئی گُڑ چوکر، کوئی بھوسی۔
ایک لڑکے نے کہا ’’ایسے بیل اور کسی کے پاس نہ ہوں گے۔‘‘
دوسرے نے تائید کی’’اتنی دور سے دونوں اکیلے چلے آئے۔‘‘
تیسرا بولا۔’’پچھلے جنم میں ضرور آدمی ہوں گے۔‘‘
اس کی تردید کرنے کی کسی میں جرأت نہ تھی۔ سب نے کہا۔
’’ہاں بھائی ضرور ہوں گے۔‘‘
جھوری کی بیوی نے بیلوں کودروازہ پر دیکھا تو جل اٹھی اور بولی۔
کیسے نمک حرام بیل ہیں ایک دن بھی وہاں کام نہ کیا۔ اور بھاک کھڑے ہوئے۔
جھوری اپنے بیلوں پر یہ الزام برداشت نہ کرسکا۔ بولا ’’نمک حرام کیوں ہیں۔‘‘ چارہ دانہ نہ دیا ہوگا کیا کرتے‘‘؟
عورت نے تنگ آکر کہا۔’’بس تم ہی بیلوں کو کھلانا جانتے ہو اور تو سبھی پانی پلا پلا کر رکھتے ہیں۔‘‘
جھوری نے چڑھا ۔‘‘ چارہ ملتا ‘ تو کیوں بھاگتے۔؟
عورت چڑھی۔’’بھاگے اس لیے کہ وہ لوگ تم جیسے بدھوئوں کی طرح بیلوں کو سہلاتے نہیں  کھلاتے ہیں‘ تو، توڑ کر جوتتے بھی ہیں، یہ دونوں ٹھہرے کام چور بھاگ نکلے۔ اب دیکھتی ہوں کہاں سے کھلی اور چوکر آتا ہے خشک بھوسے کے سوا کچھ نہ دوں گی کھائیں چاہے مریں۔‘‘
وہی ہوا مزدور کو تاکید کردی گئی کہ بیلوں کوصرف خشک بھوسا دیا جائے بیلوں نے ناند میں منہ ڈالا تو پھیکا پھیکا۔نہ چکناہٹ نہ رس کیا کھائیں۔؟ پر امید نگاہوں سے دروازے کی طرف دیکھنے لگے۔
جھوری نے مزدور سے کہا ۔’’تھوڑی سی کھلی کیوں نہیں ڈال دیتا ہے۔ــ؟‘‘
مزدور۔’’مالکن مجھے مارہی ڈالے گی۔‘‘
جھوری۔’’ڈال دے تھوڑی سی۔‘‘
مزدور ۔’’نہ دادا۔ بعد میں تم بھی انھیں کی سی کہو گے۔‘‘
دوسرے دن جھوری کا سالا پھر آیا اور بیلوں کو لے چلا۔ اب کے اس نے دونوں کو گاڑی میں جوتا دوچار مرتبہ موتی نے گاڑی کو کھائی میں گرانا چاہا مگر ہیرا نے سنبھال لیا۔اس وقت دونوں میں قوتِ برداشت زیادہ تھی۔
شام کے وقت گھر پہنچ کر گیا نے دونوں کو موٹی رسیوں سے باندھا اور کل کی شرارت کا مزہ چکھایا پھر وہی خشک بھوسہ ڈال دیا۔ اپنے بیلوں کو کھلی چونی سب کچھ کھلایا۔
ہیرا اور موتی اس برتائو کے عادی نہ تھے۔جھوری انھیں پھول کی چھڑی سے بھی نہ مارتا تھااس کی آواز پر دونوں اڑنے لگے تھے یہاں مار پڑی اس پر خشک بھوسہ ناند کی طرف آنکھ بھی نہ اٹھائی ۔
دوسرے دن گیا نے بیلوں کو ہل میں جوتا پران دونوں نے جیسے پائوں اٹھانے کی قسم کھالی تھی ۔ وہ مارتے مارے تھک گیا۔ مگر انھوں نے قدم نہ اٹھایا۔ ایک مرتبہ جب اس ظالم نے ہیرا کی ناک پر ڈنڈا جمایا تو موتی غصّہ کے مارے آپے سے باہرہوگیا ہل لے بھاگا ، ہل رسی اور جواجوت سب ٹوٹ کر برا بر ہوگئے۔گلے میں بڑی بڑی رسیاں نہ ہوتیں ، تو دونوں نکل گئے تھے۔
ہیرا نے زبان خاموش سے کہا۔’’بھاگنا مشکل ہے۔‘‘
موتی نے بھی نگاہوں سے جواب دیا۔’’تمھاری تو اس نے جان لے لی تھی۔اب کے بڑی مار پڑے گی۔‘‘
ہیرا۔’’پڑنے دو۔ بیل کا جنم لیا ہے ‘تو مار سے کہاں بچیں گے۔‘‘
گیا دو آدمیوں ساتھ دوڑا آرہا ہے۔ دونوں کے ہاتھوں میں لاٹھیاں ہیں۔
موتی۔’’کہو تو میں بھی دکھادوں کچھ مزا۔؟
ہیرا ۔’’نہیں بھائی کھڑے ہوجائو۔‘‘
موتی۔’’مجھے مارے گا، تو میں ایک آدھ کو گرادوں گا۔‘‘
ہیرا۔’’یہ ہمارا دھرم نہیں ہے۔‘‘
موتی دل میں اینٹھ کر رہ گیا۔ اتنے میں گیا آپہنچا اور دونوں کو پکڑکر لے چلا۔خیریت ہوئی کہ اس نے اس وقت مارپیٹ نہ کی۔نہیں تو موتی بھی تیار تھا۔ اس کے تیور دیکھ کر سہم گیا اور اس کے ساتھی سمجھ گئے کہ اس وقت ٹال جانا ہی مصلحت ہے۔
آج دونوں کے سامنے پھر وہی خشک بھوسا لایا گیا۔ دونوں چپ چاپ کھڑے رہے۔ گھر کے لوگ کھانا کھانے لگے۔ اسی وقت ایک چھوٹی سی لڑکی دو روٹیاں لیے نکلی اور دونوں کے منہ میں دے کر چلی گئی۔ اس ایک ایک روٹی سے ان کی بھوک تو کیا مٹتی مگر دونوں کے دل کو کھانا مل گیا۔ معلوم ہوا۔ یہاں بھی کوئی صاحب دل رہتا ہے یہ لڑکی گیا کی تھی اس کی ماں مر چکی تھی۔ سوتیلی ماں اسے مارتی تھی اس لیے ان بیلوں سے اسے ہمدردی تھی۔
دونوں دن بھر جوتے جاتے۔ اڑتے ، ڈنڈے کھاتے، شام کو تھان پر باندھ دیے جاتے اوررات کو وہی لڑکی انھیں ایک ایک روٹی دے جاتی۔ محبت کے اس کھانے کی یہ برکت تھی، کہ دوچار خشک بھوسے کے لقمے کھاکر بھی دونوں کمزور نہ ہوتے تھے۔دونوں کی آنکھوں کی نس نس میں سرکشی بھری تھی۔ 
ایک دن چپ کی زبان میں موتی نے کہا۔’’اب تو نہیں سہا جاتا ہیرا۔‘‘
ہیرا۔ کیاکرنا چاہیے۔؟
موتی ۔’’گیا کو سینگ پر اٹھاکر پھینک دوں۔‘‘؟
ہیرا۔’’مگر وہ لڑکی اس کی بیٹی ہے اسے مار کر گرائو گے تووہ یتیم ہوجائے گی۔‘‘
موتی۔’’تومالکن کو پھینک دوں ، وہ لڑکی کو ہر روز مارتی ہے۔‘‘
ہیرا۔’’عورت کو ماروگے بڑے بہادر ہو۔‘‘
موتی۔’’تم کسی طرح نکلنے ہی نہیں دیتے تو آئوآج رسّا تڑاکر بھاگ چلیں۔‘‘
ہیرا۔’’ہاں یہ ٹھیک ہے لیکن ایسی موٹی رسّی ٹوٹے گی کیونکر۔‘‘
موتی ۔’’پہلے رسّی کو چبالو پھر جھٹکا دے کر تڑالو۔‘‘
رات کو جب لڑکی روٹیاں دے کر چلی گئی۔دونوں رسّیاں چبانے لگے۔ پرموٹی رسّی منہ میں نہ آتی تھی۔ بچارے بار بار زور لگاکر رہ جاتے۔
معاًگھر کا دروازہ کھلا اور وہی لڑکی نکلی دونوں سر جھکا کر اس کے ہاتھ چاٹنے لگے۔ دونوں  کی دُمیں کھڑی ہوگئیں۔ اس نے ان کی پیشانی سہلائی اور بولی:۔
کھول دیتی ہوں۔ بھاگ جائو۔ نہیں تو یہ لوگ تمھیں مارڈالیں گے۔آج گھر میں مشہور ہورہا ہے کہ تمھاری ناک میں ناتھ ڈال دی جائیں۔‘‘
اس نے  دونوں کے رسّے کھول دیے پر دونوں چپ چاپ کھڑے رہے۔
موتی نے اپنی زبان میں پوچھا۔’’اب چلتے کیوں نہیں۔‘‘؟
ہیرا نے جواب دیا۔’’اس غریب پر آفت آجائے گی۔ سب اسی پر شبہہ کریں گے۔‘‘
یکایک لڑکی چلّاتی او دادا۔اودادا۔دونوں پھوپھاوالے بیل بھاگے جارہے ہیں۔ دوڑو۔ دونوں بیل بھاگے جارہے ہیں۔‘‘
گیا گھبرا کر باہر نکلا اور بیلوں کو پکڑنے چلا بیل بھاگے گیا نے پیچھا کیا وہ اور بھی تیز ہوگئے گیا نے شور مچایا پھر گائوں کے کچھ اور آدمیوں کو ساتھ لانے کے لیے لوٹا۔ دونوں بیلوں کو بھاگنے کاموقع مل گیا۔ سیدھے دوڑے چلے گئے یہا ں تک کہ راستہ کا خیال نہ رہا۔ جس راہ سے یہاں آئے تھے اس کا پتہ نہ تھا نئے نئے گائوں ملنے لگے۔تب دونوں ایک کھیت کے کنارے کھڑے ہوکر سوچنے لگے۔کہ اب کیا کرنا چاہیے۔؟
ہیرا نے اپنی زبان میں کہا۔’’معلوم ہوتا ہے راستہ بھول گئے۔‘‘
موتی۔’’تم بھی بے تحاشا بھاگے وہیں اسے مار گراتے۔‘‘
ہیرا۔’’اسے مارگراتے تو دنیا کیا کہتی وہ اپنا دھرم چھوڑدے لیکن ہم اپنا دھرم کیونکر چھوڑدیں۔‘‘
دونوں بھوک سے بے حال ہورہے تھے۔ کھیت میں مٹر کھڑی تھی چرنے لگے۔رہ رہ کر آہٹ لے رہے تھے کہ کوئی آ تو نہیں رہا جب پیٹ بھر گیا اور دونوں کو آزادی کا احساس ہوا تو اچھلنے کودنے لگے پہلے ڈکار لی پھر سینگ ملائے اور ایک دوسرے کو دھکیلنے لگے موتی نے ہیرا کو کئی قدم پیچھے ہٹادیا۔ یہاں تک کہ وہ ایک کھائی میں گر گیا۔تب اسے بھی غصّہ آیا سنبھل کر اٹھا اور پھر موتی سے لڑنے لگا۔ موتی نے دیکھا کہ کھیل میں جھگڑا ہو اچاہتا ہے تو ایک طرف ہٹ گیا۔
ارے یہ کیا کوئی سانڈڈونکتا چلا آتا ہے۔ ہاں سانڈہی تو ہے وہ سامنے آپہنچا دونوں دوست تذبذب میں پڑگئے۔
سانڈ بھی پور اہاتھی ۔ اس سے لڑنا جان سے ہاتھ دھونا تھا لیکن نہ لڑنے سے بھی جان بچتی نظر نہ آتی تھی انھیں کی طرف آرہا تھا کتنا جسیم تھا۔
موتی نے کہا’’بُرے پھسے جان کیسے بچے گی؟ کوئی طریقہ سوچو۔‘‘
ہیرا نے کہا ’’غرور سے اندھا ہورہا ہے منّت سماجت کبھی نہ سنے گا۔‘‘
موتی۔’’بھاگ کیوں نہ چلیں۔‘‘؟
ہیرا۔’’بھاگنا پست ہمتی ہے۔‘‘
موتی۔’’تو تم یہیں مروبندہ نودوگیارہ ہوتا ہے۔‘‘
ہیرا ۔’’اور جودوڑآئے تو پھر۔‘‘؟
موتی۔ کوئی طریقہ بتائو۔ لیکن ذرا جلدی ۔ وہ تو آپہنچا۔
ہیرا۔ طریقہ یہی ہے کہ ہم دونوں ایک ساتھ حملہ کردیں میں آگے اس دھکیلوں تم پیچھے سے دھکیلو۔ دیکھتے دیکھتے بھاگ کھڑا ہوگا۔ جوں ہی مجھ پر حملہ کرے تم پیٹ میں سینگ چبھودینا۔جان جوکھوں کا کام ہے۔ لیکن دوسرا کوئی طریقہ نہیں۔‘‘
دونوں دوست جان ہتھیلیوں پر لے کر آگے بڑھے سانڈ کو کبھی منظّم دشمن سے لڑنے کا اتفاق نہ ہوا تھا۔وہ  انفرادی جنگ کا عادی تھا جوں ہی ہیرا پرجھپٹتا موتی نے پیچھے سے ہلّہ بول دیا۔ سانڈ اس کی طرف مڑا تو ہیرا نے دھکیلنا شروع کیا سانڈ چاہتا تھا ایک ایک کرکے دونوں کر گرالے۔ پھر یہ بھی استاد تھے اسے یہ موقعہ ہی نہ دیتے تھے ایک مرتبہ سانڈ جھلّا کر ہیرا کو ہلاک کرنے چلا۔ تو موتی نے بغل سے آکر اس کے پیٹ میں سینگ رکھ دیے۔ بے چارہ زخمی ہوکر بھاگا اور دونوں فتحیاب دوستوں نے دور تک اس کا تعاقب کیا۔ یہاں تک کہ سانڈ بے دم ہوکر گر پڑا۔ تب دونوں نے اس کا پیچھا چھوڑدیا۔
دونوں بیل فتح کے نشہ میں جھومتے چلے جاتے تھے۔ موتی نے اپنے اشاروں کی زبان میں کہا۔’’میرا جی تو چاہتا تھا کہ ہتچہ جی کو مار ہی ڈالوں۔‘‘
ہیرا۔’’گرے ہوئے دشمن پر سینگ چلانا نا مناسب ہے۔‘‘
موتی۔’’یہ سب فضول ہے اگر اس کادائو چلتا تو کبھی نہ چھوڑتا۔‘‘
ہیرا۔’’اب کیسے گھر پہنچوگے؟یہ سوچو۔‘‘
موتی ۔’’پہلے کچھ کھالیں تو سوچیں ابھی عقل کام نہیں کرتی۔‘‘
یہ کہ کر موتی مڑکے کھیت میں گھس گیا ہیرا منع کرتا ہی رہ گیا لیکن اس نے ایک نہ سنی۔ابھی دو ہی چار منہ مارے تھے کہ دوآدمی لاٹھیاں لیے آگئے اور دونوں بیلوں کو گھیر لیا۔ ہیرا تو مینڈ پر تھا۔ نکل گیا موتی کھیت میں تھا۔ اس کے کُھر کیچڑ میں دھنسنے لگے نہ بھاگ سکا۔ پکڑا گیا۔ ہیرا نے دیکھا دوست تکلیف میں ہے تو لوٹ پڑاتو پھنسیں گے، تو اکٹھے۔رکھوالوں نے اسے بھی پکڑ لیا۔ دوسرے دن دونوں دوست کانجی ہائوس میں تھے۔
ان کی زندگی میں یہ پہلا موقعہ تھا کہ سارا دن گذراگیا اور کھانے کو ایک تنکا بھی نہ ملا۔ سمجھ میں نہ آتا تھا۔ یہ کیسا مالک ہے اس سے تو گیا ہی اچھا تھا۔ وہاں کئی بھینسیں تھیں، کئی بکریاں ، کئی گھوڑے ، کئی گدھے چارہ کسی کے سامنے بھی نہ تھا۔سب زمین پر مّردے کی طرح پڑے تھے کئی تو اس قدر کمزور ہوگئے تھے کہ کھڑے بھی نہ ہوسکتے تھے۔ سارا دن دروازہ کی طرف دیکھتے رہے۔ مگر چارہ لے کر نہ آیا تب غریبوں نے دیوار کی نمکین مٹّی چاٹنی شروع کی مگر اس سے کیا تسکین ہوسکتی تھی۔؟
جب رات کو بھی کھانا نہ ملا ، تو ہیرا کے دل میں سرکشی کے خیالات پیدا ہوئے۔ موتی سے بولا۔‘‘مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جان نکل رہی ہے۔‘‘
موتی۔’’اتنی جلدی ہمت نہ ہار و بھائی ۔یہاں سے بھاگنے کا طریقہ سوچو۔‘‘
ہیرا۔’’آئو دیوار توڑڈالیں۔‘‘
موتی۔’’مجھ سے تو اب کچھ نہ ہوگا۔‘‘
ہیرا۔’’بس اسی بوتے پر اکڑتے تھے۔‘‘
موتی ۔’’ساری اکڑ نکل گئی بھائی۔‘‘
باڑے کی دیوار کچی تھی ہیرا نے اپنے نوکیلے سینگ دیوار میں گاڑ دیے اور زور سے مارا تو مٹّی کا ایک چیڑ نکل آیا۔ اس سے اس کا حوصلہ بڑھ گیا۔ اس نے دوڑ دوڑ کر دیوارسے ٹکّریں ماریں ہر ٹکّر میں تھوڑی تھوڑی مٹی گرنے لگی۔
اتنے میں کانجی ہاوس کا چوکیدار لالٹین لے کر جانوروں کی حاضری لینے آنکلا۔ہیرا کی وحشت دیکھ کر اس نے اسے کئی ڈنڈے رسید کیے اور موٹی سی رسّی سے باندھ دیا۔
 موتی نے پڑے پڑے اس کی طرف دیکھا گویا زبان ِ حال سے کہا آخر مارکھائی کیا ملا۔
ہیرا۔’’ زور توآزمالیا۔‘‘
موتی۔’’ایسا زور کس کام کا ۔اور بندھن میں پڑگئے۔‘‘
ہیرا ۔’’اس سے باز نہ آئوں گا۔ خواہ بندھن بڑھتے جائیں۔‘‘
موتی۔’’جان سے ہاتھ دھو بیٹھوگے۔‘‘
ہیرا۔’’اس کی مجھے پرواہ نہیں۔ یوں بھی مرناہے ذرا سوچو اگر دیوار گر جاتی، تو کتنی جانیں بچ جاتیں۔ اتنے بھائی یہاں بند ہیں کسی کے جسم میں جان بھی نہیں ۔ دوچار دن یہی حال رہا تو سب مرجائیں گے۔‘‘
موتی نے بھی دیوار میں اسی جگہ سینگ مارا۔تھوڑی سی مٹّی گری اور ہمّت بڑھی تودیوار میں سینگ لگا کر اس طرح زور کرنے لگا۔ جیسے کسی سے لڑ رہا ہو۔آخر کوئی دو گھنٹہ کی زور آزمائی کے بعد دیوار کا کچھ حصّہ گر گیا۔ اس نے دوگنی طاقت سے دوسرا دھکّا لگایا تو آدھی دیوار گر پڑی۔
دیوار کا گرنا تھا کہ نیم جان جانور اُٹھ کھڑے ہوئے تینوں گھوڑیاں بھاگ نکلیں بھیڑ بکریاں نکلیں۔ اس کے بعد بھینسیں بھی کھسک گئیں۔ پر گدھے ابھی کھڑے تھے۔
ہیرا نے پوچھا۔’’تم کیوں نہیں جاتے۔‘‘؟
ایک گدھے نے کہا۔’’کہیں پھر پکڑ لیے جائیں تو۔‘‘؟
ہیرا ۔’’پکڑ لیے جائو پھر دیکھا جائے گا اس وقت تو موقعہ ہے۔‘‘
گدھا ۔’’ہمیں ڈرلگتا ہے ہم نہ بھاگیں گے۔‘‘
آدھی رات گذر چکی تھی۔ دونوں گدھے کھڑے سوچ رہے تھے بھاگیں یا نہ بھاگیں موتی اپنے دوست کی رسّی کاٹنے میں مصروف تھاجب وہ ہار گیا تو ہیرانے کہا۔تم جائو مجھے یہیں رہنے دو۔ شاید کبھی ملاقات ہوجائے۔
موتی نے آنکھوں میں آنسو لاکر کہا۔’’تم مجھے خود غرض سمجھتے ہو ہیرا ، ہم اور تم اتنے دنوں ساتھ رہے۔ آج تم مصیبت میں پھنسے ۔ تو میں چھوڑ کر بھاگ جائوں۔‘‘
ہیرا ۔’’بہت مار پڑے گی۔ سمجھ جائیں گے یہ تمھاری شرارت ہے۔‘‘
موتی ۔’’جس قصور کے لیے تمھارے گلے میں رسّا پڑا۔ اس کے لیے اگر مجھ پر مارپڑے گی۔توکیا بات ہے اتنا تو ہوگیا کہ نودس جانوروں کی جان بچ گئی۔‘‘
یہ کہہ کر موتی نے دونوں گدھوں کو سینگ مارمار کر باہر نکال دیا اور اپنے دوست کے پاس آکر سوگیا۔
صبح ہوتے ہوتے منشیوں، چوکیداروں اور دوسرے ملازموں میں کھلبلی مچ گئی۔ اس کے بعد موتی کی مرمت ہوئی اور اسے بھی موٹی رسّی سے باندھ دیا گیا۔
ایک ہفتہ تک دونوں بیل بندھے پڑے رہے ۔ خدا جانے اس نجی ہائوس کے آدمی کیسے بے درد تھے، کہ کسی نے چارے کو ایک تنکا تک نہ ڈالا۔ ہاں ایک مرتبہ پانی دکھادیا جاتاتھا۔ یہی ان کی خوراک تھی دونوں اتنے کمزور ہوگئے کہ اٹھا تک نہ جاتا تھا۔ ہڈیاں نکل آئیں۔
ایک دن باڑے کے سامنے ڈگڈگی بجنے لگی۔ اور دوپہر ہوتے ہوتے پچاس ساٹھ آدمی جمع ہوگئے۔ تب دونوں بیل نکالے گئے اور ان کی دیکھ بھال ہونے لگی۔لوگ آآکر ان کی صورت دیکھتے اور چلے جاتے تھے۔ ایسے نیم جان بیلوں کو کون خریدتا۔؟
معاً ایک آدمی جس کی آنکھیں سرخ تھیں اور جس کے چہرہ پرسخت دلی کے آثار نمایاں تھے۔ آیا اور منشی جی سے باتیں کرنے لگا۔ اس کی شکل دیکھ کر کسی نا معلوم احساس سے دونوں بیل کانپ اٹھے وہ کون ہے اور انھیں کیوں خریدتاہے۔؟ اس کے متعلق انھیں کوئی شبہہ نہ رہا۔ دونوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور سر جھکالیا۔
ہیرا نے کہا۔’’گیا کے گھر سے ناحق بھاگے۔ اب جان نہ بچے گی۔‘‘
موتی نے جواب دیا۔’’کہتے ہیں۔ بھگوان سب پر مہربانی کرتے ہیں۔’’انھیں ہماری حالت پر رحم کیوں نہیں آتا۔‘‘؟
ہیرا ۔’’بھگوان کے لیے ہمارا مرنا جینا دونوں برابر ہیں۔‘‘
موتی۔’’چلو اچھا ہے کچھ دن ان کے پاس رہیں گے۔‘‘
ہیرا۔’’ایک مرتبہ بھگوان نے اس لڑکی کے روپ میں بچایا تھاکیا اب نہ بچائیں گے۔
موتی۔’’یہ آدمی چھُری چلائے گا دیکھ لینا۔‘‘
ہیرا ۔’’معمولی بات ہے مرکر ان دکھوں سے چھوٹ جائیں گے۔‘‘
نیلام ہوجانے کے بعد دونوں بیل اس آدمی کے ساتھ چلے دونوں کی بوٹی بوٹی کانپ رہی تھی۔بچارے پائوں تک نہ اٹھاسکتے تھے۔ مگر ڈر کے مارے چلے جاتے تھے ذرا بھی آہستہ چلتے تو ڈنڈا جما دیتا تھا۔
راہ میں گائے بیلوں کا ایک ریوڑ مرغزالہ میں چرتا نظر آیا۔ سبھی جانور خوش تھے کوئی اُچھلتا تھا کوئی بیٹھاجگالی کرتا تھا کیسی پُر مسرت زندگی تھی۔ لیکن وہ کیسے خود غرض تھے کسی کو ان کی پرواہ نہ تھی۔ کسی کو خیال نہ تھا ، کہ ان کے دو بھائی موت کے پنجہ میں گرفتار ہیں۔
معاًانھیں ایسا معلوم ہوا، کہ یہ راستہ دیکھا ہوا ہے۔ ہاں ادھر ہی تو سے گیا ان کو اپنے گائوں لے گیا تھا۔ وہی کھیت ہیں وہی باغ وہی گائوں۔اب ان کی رفتار تیز ہونے لگی۔ ساری تھکان ، ساری کمزوری ، ساری مایوسی رفع ہوگئی۔ ارے یہ تو اپنا کھیت آگیا۔ یہ اپنا کنواں ہے۔ جہاں ہر روز پانی پیا کرتے تھے۔
موتی نے کہا۔’’ہمارا گھر نزدیک آگیا۔‘‘
ہیرا بولا۔’’بھگوان کی مہربانی ہے۔‘‘
موتی۔’’میں تواب گھر بھاگتا ہوں۔‘‘
ہیرا ۔’’یہ جانے بھی دے گا اتناسوچ لو۔‘‘
موتی۔’’اسے مارگراتا ہوں۔ جب تک سنبھلے تب تک گھرجا پہنچیں گے۔‘‘
ہیرا۔’’نہیں ڈور کر تھان تک چلو۔وہاں سے آگے نہ چلیں گے۔‘‘
دونوں مست ہوکر بچھڑوں کی طرح کُلیلیں کرتے ہوئے گھر کی طرف دوڑے اور اپنے تھان پر جا کر کھڑے ہوگئے۔ وہ آدمی بھی پیچھے پیچھے دوڑا آتا تھا۔
جھوری دروازہ پر بیٹھا دھوپ کھارہا تھا۔ بیلوں کو دیکھتے ہی دوڑا۔اور انھیں پیار کرنے لگا۔ بیلوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ایک جھوری کا ہاتھ چاٹ رہا تھا۔ دوسرا پیر۔
اس آدمی نے آکر بیلوں کی رسّیاں پکڑلیں۔ جھوری نے کہا۔’’یہ بیل میرے ہیں۔‘‘
’’تمھارے کیسے ہیں۔ میں نے نیلام میں لیے ہیں۔‘‘
جھوری’’میرا خیال ہے چراکر لائے ہو چپکے سے چلے جائو بیل میرے ہیں بیچوں گا تو بکیں گے، کسی کو میرے بیل کو بیچنے کا کیا حق ہے۔‘‘؟
’’میں نے تو خرید ے ہیں۔‘‘
’’خریدے ہوں گے۔‘‘
اس پروہ آدمی زبردستی بیلوں کولے جانے کے لیے آگے بڑھا۔اسی وقت موتی نے سینگ چلایا۔ وہ آدمی پیچھے ہٹا۔ موتی نے تعاقب کیا۔اور اسے ریلتا ہوا گائوں کے باہر تک لے گیا۔اور تب اس کا راستہ روک کھڑا ہوگیا وہ آدمی دور کھڑا دھمکیاں دیتا تھا۔ گالیاں دیتا تھا۔ پتھر پھینکتا تھا اور موتی اس کا راستہ روکے ہوئے تھا گائوں کے لوگ یہ تماشہ دیکھتے تھے اور ہنستے تھے۔
جب وہ آدمی ہارکے چلا گیا تو موتی اکڑتا ہوا لوٹ آیا۔
ہیرا نے کہا۔’’میں ڈر رہا تھا کہ کہیں تم اسے مار نہ بیٹھو۔‘‘
موتی۔’’اگر نزدیک آتا تو ضرور مارتا۔‘‘
ہیرا۔’’اب نہ آئے گا۔‘‘
موتی ۔’’آئے گا تو دور ہی سے خبر لوں گا۔ دیکھوںکیسے لے جاتا ہے۔‘‘
ذرا دیر میں ناند میں کھلی بھوسہ چوکر دانہ سب کچھ بھردیا گیا۔ دونوں بیل کھانے لگے۔
جھوری کھڑا ان کی طرف دیکھتا اور خوش ہوتا تھا۔ بیسوں لڑکے تماشہ دیکھ رہے تھے سارا گائوں مسکراتامعلوم ہوتا تھا۔
اسی وقت مالکن نے آکر اپنے دونوں بیلوں کے ماتھے چوم لیے۔

٭٭٭٭

پوس کی رات

ہلکو نے آکر اپنی بیوی سے کہا،’’شہنا آیا ہے لائو جو روپے رکھے ہیں اسے دے دو کسی طرح گردن تو چھوٹے۔‘‘
منی بہو جھاڑو لگارہی تھی ۔ پیچھے پھرکر بولی’’تین ہی تو روپے ہیں دے دوں ، تو کمبل کہاں سے آئے گا ۔ ماگھ پوس کی رات کھیت میں کیسے کٹے گی۔ اس سے کہہ دو فصل پرروپے دے دیں گے۔ابھی نہیں ہے۔‘‘
ہلکو تھوڑی دیر تک چپ کھڑا رہا۔اور اپنے دل میںسوچتا رہا پوس سر پر آگیا ہے۔بغیر کمبل کے کھیت میں رات کو وہ کسی طرح سو نہیں سکتا۔مگر شہنا مانے گا نہیں،گھڑکیاں دے گا۔یہ سوچتا ہوا وہ اپنا بھاری جسم لیے ہوئے (جو اس کے نام کو غلط ثابت کررہا تھا) اپنی بیوی کے پاس گیا۔اور خوشامد کرکے بولا’’لادے دے گردن تو کسی طرح سے بچے کمبل کے لیے کوئی دوسری تدبیر سوچوں گا۔
منی اس کے پاس سے دور ہٹ گئی۔ اور آنکھیں ٹیڑھی کرتی ہوئی بولی۔’’کر چکے دوسری تدبیر ۔ ذرا سنوں کون سی تدبیر کروگے؟کون کمبل خیرات میں دے دے گا۔نہ جانے کتنا روپیہ باقی ہے جو کسی طرح ادا ہی نہیں ہوتا۔میں کہتی ہوں تم کھیتی کیوں نہیں چھوڑ دیتے۔ مرمر کر کام کرو۔پیداوار ہو تو اس سے قرضہ ادا کرو چلو چھٹی ہوئی قرضہ ادا کرنے کیلیے تو ہم پیدا ہی ہوئے ہیں۔ ایسی کھیتی سے باز آئے۔ میں روپے نہ دوں گی نہ دوں گی۔‘‘
ہلکو رنجیدہ ہوکر بولا’’تو کیا گالیاں کھائوں۔‘‘
منی نے کہا۔گالیوں کیوں دے گا۔؟ کیا اس کا راج ہے ؟ مگر یہ کہنے کے ساتھ ہی اس کی تنی ہوئی بھویں ڈھیلی پڑگئیں۔ہلکو کی بات میں جو دل دہلادینے والی صداقت تھی۔معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس کی جانب ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی تھی اس نے طاق پرسے روپے اٹھائے اور لاکر ہلکو کے ہاتھ پر رکھ دیے ۔ پھر بولی تم اب کی کھیتی چھوڑ دو۔ مزدوری میں سکھ سے ایک روٹی تو کھانے کو ملے گی۔کسی کی دھونس تو نہ رہے گی اچھی کھیتی ہے مزدوری کر کے لائو وہ بھی اس میں جھونک دو۔اس پر سے دھونس۔‘‘
ہلکو نے روپے لیے اور اس طرح باہر چلا معلوم ہوتا تھا ۔وہ اپنا کلیجہ نکال کر دینے جارہا ہے۔ اس نے ایک ایک پیسہ کاٹ کر تین روپے کمبل کے لیے جمع کیے تھے۔ وہ آج نکلے جارہے ہیں۔ ایک ایک قدم کے ساتھ اس کا دماغ اپنی ناداری کے بوجھ سے دباجارہا تھا۔
پوس کی اندھیری رات۔آسمان پر تارے بھی ٹھٹھرتے ہوئے معلوم ہوتے تھے ہلکو اپنے کھیت کے کنارے اوکھ کے پتوں کی ایک چھتری کے نیچے بانس کے کٹھولے پر اپنی پرانی گاڑھے کی چادراوڑھے ہوئے کانپ رہا تھا۔کھٹولے کے نیچے اس کا ساتھی کتّا ’’جبرا‘‘پیٹ میں منہ ڈالے سردی سے کوں کوں کررہاتھا۔ دومیں سے ایک کوبھی نیند نہ آتی تھی۔
ہلکو نے گھٹنوں کو گردن میں چمٹاتے ہوئے کہا۔’’کیوں جبرا جاڑا لگتا ہے کہا تو تھا گھر میں پیال پر لیٹ رہ ۔ تو یہاں کیا لینے آیا تھا! اب کھاسردی میں کیا کروں۔جانتا تھا۔ میں حلوہ پوری کھانے آرہا ہوں ۔دوڑتے ہوئے آگے چلے آئے اب روئوں اپنی نانی کے نام کو۔‘‘جبرا نے لیٹے ہوئے دم ہلائی اور ایک انگڑائی لے کر چپ ہوگیا شاید وہ یہ سمجھ گیا تھا کہ اس کی کوں، کوں کی آواز سے اس کے مالک کونیند نہیں آرہی ہے۔
ہلکو نے ہاتھ نکال کر جبرا کی ٹھنڈی پیٹھ سہلاتے ہوئے کہا۔کل سے میرے ساتھ نہ آنا نہیں تو ٹھنڈے ہوجائو گے۔ یہ رانڈپچھوا ہوانہ جانے کہاں سے برف لیے آرہی ہے۔اٹھوں پھر ایک چلم بھروں کسی طرح رات تو کٹے۔ آٹھ چلم تو پی چکا ۔ یہ کھیتی کا مزہ ہے اور ایک بھاگوان ایسے ہیں جن کے پاس اگر جاڑاجائے تو گرمی سے گھبرا کر بھاگے۔ موٹے گدے لحاف کمبل مجال ہے کہ جاڑے کا گذر ہوجائے۔ تقدیر کی خوبی ہے مزدوری ہم کریں۔ مزہ دوسرے لوٹیں۔‘‘
ہلکو اٹھا اور گڈے میں سے ذراسی آگ نکال کر چلم بھری۔ جبرابھی اٹھ بیٹھا ہلکو نے چلم پیتے ہوئے کہا۔ پیئے گا چلم ؟ جاڑا تو کیا جاتا ہے ہاں ذرا من بہل جاتا ہے۔
جبرا نے اس کی جانب محبت بھری نگاہوں سے دیکھا ۔ ہلکو نے کہا۔’’آج اور جاڑاکھا لے۔ کل سے میں یہاں پیال بچھادوں گا۔اس میں گھس کر بیٹھناجاڑا نہ لگے گا۔
جبرا نے اگلے پنجے اس کی گھٹنوں پر رکھ دیے۔اور اس کے منہ کے پاس اپنا منہ لے گیا۔ ہلکو کو اس کی گرم سانس لگی۔ چلم پی کر ہلکو‘پھر لیٹا اور یہ طے کرلیا کہ چاہے جو کچھ ہو اب کی سوجائوں گا۔ لیکن ایک لمحہ میں اس کا کلیجہ کانپنے لگا۔ کبھی اس کروٹ لیٹا کبھی اس کروٹ جاڑا کسی بھوت کی مانند اس کی چھاتی کو دبائے ہوئے تھا۔
جب کسی طرح نہ رہا گیا تو اس نے جبرا کو دھیرے سے اٹھایا اور اس کے سرکو تھپ تھپا کر اسے اپنی گود میں سلالیا۔ کتّے کے جسم سے معلوم نہیں کیسی بدبو آرہی ہے تھی پراسے اپنی گود سے چمٹاتے ہوئے ایسا سکھ معلوم ہتا تھا جو ادھر مہینوں سے اسے نہ ملا تھا۔ جبرا شاید یہ خیال کررہا تھا کہ بہشت یہی ہے اور ہلکو کی روح اتنی پاک تھی کہ اسے کتّے سے بالکل نفرت نہ تھی وہ اپنی غریبی سے پریشان تھا جس کی وجہ سے وہ اس حالت کو پہنچ گیا تھا۔ ایسی انوکھی دوستی نے اس کی روح کے سب دروازے کھول دیے تھے اور اس کا ایک ایک ذرہ حقیقی روشنی سے منور ہوگیا تھا اسی اثنا میں جبرا نے کسی جانور کی آہٹ پائی اس کے مالک کی اس خاص روحانیت نے اس کے دل میں ایک جدید طاقت پیدا کردی تھی جو ہوا کے ٹھنڈے جھونکوں کو بھی نا چیز سمجھ رہی تھی۔ وہ جھپٹ کر اٹھا اور چھپری سے باہر آکر بھونکنے لگا۔ہلکو نے اُسے کئی مرتبہ پچکار کر بلایا پر وہ اس کے پاس نہ آیا کھیت میں چاروں طرف دوڑ دوڑ کر بھونکتا رہا۔ایک لمحہ کے لیے آبھی جاتا تو فوراً ہی پھر دوڑتا فرض کی ادائیگی نے اسے بے چین کررکھا تھا۔
ایک گھنٹہ گذر گیا سردی بڑھنے لگی۔ ہلکو اٹھ بیٹھا اور دونوں گھٹنوں کو چھاتی سے ملا کر سر کو چھپالیا پھربھی سردی کم نہ ہوئی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سارا خون منجمد ہوگیا ہے اس نے اٹھ کر آسمان کی جانب دیکھا ابھی کتنی رات باقی ہے۔ وہ سات ستارے جو قطب کے گرد گھومتے ہیں۔ ابھی اپنا نصف دورہ بھی ختم نہیں کرچکے جب وہ اوپر آجائیں گے تو کہیں سویرا ہوگا۔ ابھی ایک گھڑی سے زیادہ رات باقی ہے۔
ہلکو کے کھیت سے تھوڑی دیر کے فاصلہ پر ایک باغ تھا پت جھڑ شروع ہوگئی تھی۔ با غ میں پتوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا ہلکو نے سوچا چل کر پتیاں بٹوروں اور ان کوجلاکر خوب تاپوں رات کو کوئی مجھے پتیاں بٹورتے دیکھے تو سمجھے کہ کوئی بھوت ہے کون جانے کوئی جانور ہی چھپا بیٹھا ہو۔ مگر اب تو بیٹھے نہیں رہا جاتا۔
اس نے پاس کے ارہر کے کھیت میں جاکر کئی پودے اکھاڑے اور اس کا ایک جھاڑو بنا کر ہاتھ میں سلگتا ہوا اپلہ لیے باغ کی طرف چلا جبرا نے اسے جاتے دیکھاتو پاس آیا اور دم ہلانے لگا۔
ہلکو نے کہا اب تو نہیں رہا جاتا جبرو ، چلو باغ میں پتیاں بٹورکرتاپیں ٹاٹھے ہوجائیں گے تو پھر آکر سوئیں گے۔ابھی تو رات بہت ہے۔
جبرا نے کوں کوں کرتے ہوئے اپنے مالک کی رائے سے موافقت ظاہر کی اور آگے آگے باغ کی جانب چلا۔ باغ میں گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ درختوں سے شبنم کی بوندیں ٹپ ٹپ  ٹپک رہی تھیں یکایک ایک جھونکا مہندی کے پھولوں کی خوشبو لیے ہوئے آیا۔
ہلکو نے کہا کیسی اچھی مہک آئی جبرا ۔ تمھاری ناک میں بھی کچھ خوشبو آرہی ہے؟
جبرا کو کہیں زمین پر ایک ہڈی پڑی مل گئی تھی۔وہ اسے چوس رہا تھا۔
ہلکو نے آگ زمین پررکھ دی۔ اور پتیاں بٹورنے لگا۔ تھوڑی دیر میں پتوں کاایک ڈھیر لگ گیا۔ ہاتھ ٹھٹھرتے جاتے تھے ننگے پائوں گلے جاتے تھے اور وہ پتیوں کا پہاڑ کھڑا کررہا تھا اسی الائو میں وہ سردی کو جلا کر خاک کردے گا۔
تھوڑی دیر میں الائو جل اٹھا ۔ اس کی لو اوپر والے درخت کی پتیوں کو چھو چھو کر بھاگنے لگی۔ اس متزلزل روشنی میں باغ کے عالی شان درخت ایسے معلوم ہوتے تھے۔                                                  کہ وہ اس لا انتہا اندھیرے کو اپنی گردن پر سنبھالے ہوں۔ تاریکی کے اس اتھاہ سمندر میں یہ روشنی ایک نائو کے مانند معلوم ہوتی تھی۔
ہلکو الائو کے سامنے بیٹھا ہوا آگ تاپ رہاتھا۔ ایک منٹ میں اس نے اپنی چادر بغل میں دبالی اور دونوں پائوں پھیلادیے۔ گویا وہ سردی کو للکار کر کہہ رہا تھا تیرے جی میں آئے وہ کر۔‘‘ سردی کی اس بے پایاںقاقت پر فتح پاکر وہ خوشی کو چھپا نہ سکتا تھا۔
اس نے جبرا سے کہا۔ کیوں جبرا ۔اب تو ٹھنڈ نہیں لگ رہی ہے۔؟
جبرا نے کوں کوں کرکے گویا کہا۔اب کیا ٹھنڈلگتی ہی رہے گی۔
’’پہلے یہ تدبیر نہیں سوجھی نہیں اتنی ٹھنڈ کیوں کھاتے؟‘‘
جبر انے دم ہلائی۔
’’اچھا آئو ، اس الائو کو کو دکر پار کریں۔دیکھیں کون نکل جائے ہے اگر جل گئے بچّہ تو میں دوانہ کروں گا۔‘‘
جبرا نے خوف زدہ نگاہوں سے الائو کی جانب دیکھا۔
’’منی سے کل یہ نہ جڑدینا کہ رات ٹھنڈ لگی اور تاپ تاپ کر رات کاٹی۔ ورنہ لڑائی کرے گی۔‘‘
یہ کہتا ہوا وہ اچھلا اور اس الائو کے اوپر سے صاف نکل گیا۔ پیروں میں ذراسی لپٹ لگی پر وہ کوئی مات نہ تھی۔ جبرا الائو کے گرد گھوم کر اس کے پاس کھڑا ہوا۔
ہلکو نے کہا چلو چلو، اس کی سہی نہیں ۔ اوپر سے کود کر آئو وہ پھر کودا اورالائو کے اس پار آگیا۔
پتیاں جل چکی تھیں۔باغیچے میں پھر اندھیرا چھاگیا تھا راکھ کے نیچے کچھ کچھ آگ باقی تھی۔ جو ہوا کا جھونکا آنے پر ذرا جاگ اٹھتی تھی پر ایک لمحہ میں پھرآنکھیں بندکرلیتی تھی۔
ہلکو نے پھر چادر اوڑھ لی اور گرم راکھ کے پاس بیٹھا ہوا ایک گیت گنگنانے لگا اس کے جسم میں گرمی آگئی تھی۔ پر جوں جوں سردی بڑھتی جاتی تھی اسے سستی دبا لیتی تھی۔
دفعتاً جبرا زور سے بھونک کر کھیت کی طرف بھاگا۔ہلکو کو ایسا معلوم ہوا کہ جانوروں کا ایک غول اس کے کھیت میں آیا۔ شاید نیل گائے کا جھنڈ تھا۔ ان کے کودنے اور دوڑنے کی آوازیں صاف کان میں آرہی تھیں۔ پھر ایسا معلوم ہواکہ کھیت میں چر رہی ہیں۔۔۔۔۔اس نے دل میں کہا۔ بہن جبرا کے ہوتے ہوئے کوئی جانور کھیت میں نہیں آسکتا۔ نوچ ہی ڈالے، مجھے وہم ہورہا ہے۔ کہاں اب تو کچھ سنائی نہیں دیتا مجھے بھی کیسا دھوکا ہوا۔
اس نے زور سے آوازلگائی جبرا جبرا۔
جبرا بھونکتا رہا۔ اس کے پاس نہ آیا۔
جانورں کے چرنے کی آواز چرچر سنائی دینے لگی۔ ہلکو اب اپنے کو فریب نہ دے سکا مگر اسے اس وقت اپنی جگہ سے ہلنا زہر معلوم ہوتا تھا کیسا گرمایا ہوا مزے سے بیٹھا ہوا تھا اس جاڑے پالے میں کھیت میں جاناجانوروں کو بھگانا ان کا تعاقب کرنا اسے پہاڑ معلوم ہوتا تھا۔ اپنی جگہ سے نہ ہلا ۔ بیٹھے بیٹھے جانوروں کو بھگانے کے لیے چلانے لگا۔ لہو لبہو، ہو۔ہو۔ ہاہا۔
مگر جبرا پھر بھونک اٹھا ۔اگر جانور بھاگ جاتے تو وہ اب تک لوٹ آیا ہوتا۔ نہیں بھاگے ابھی تک چررہے ہیں۔ شاید وہ سب بھی سمجھ رہے ہیں کہ اس سردی میں کون بیدھا ہے جو ان کے پیچھے دوڑے گا۔ فصل تیار ہے کیسی اچھی کھیتی تھی۔سارا گائوں دیکھ دیکھ کر جلتا تھا اسے یہ ابھاگے تباہ کیے ڈالتے ہیں۔
اب ہلکو سے نہ رہا گیا وہ پکا ارادہ کرکے اٹھا اور دوتین قدم چلا۔ پھر یکایک ہوا کا ایسا ٹھنڈا چبھنے والا ،بچھو کے ڈنک کا سا جھونکا لگا وہ پھر بجھتے ہوئے الائو کے پاس آبیٹھا اور راکھ کو کر ید کر ید کر اپنے ٹھنڈے جسم کو گرمانے لگا۔
جبرا اپنا گلا پھاڑ ے ڈالتا تھا نیل گائیں کھیت کا صفایا کیے ڈالتی تھیں اور ہلکو گرم راکھ کے پاس بے حس بیٹھا ہوا تھاافسردگی نے اُسے چاروں طرف سے رسی کی طرح جکڑ رکھا تھا۔
آخر وہیں چادر اوڑھ کر سوگیا۔
سویرے جب اس کی نیند کھلی تو دیکھا چاروں طرف دھوپ پھیل گئی ہے ۔ اور منی کھڑی کہہ رہی ہے۔ کیا آج سوتے ہی رہوگے تم یہاں میٹھی نیند سور ہے ہواور ادھر سارا کھیت چوپٹ ہوگیا۔ سارا کھیت کا ستیاناس ہوگیا بھلا کوئی ایسا بھی سوتا ہے تمھارے یہاں منڈیا ڈالنے سے کیا ہوا۔
ہلکو نے بات بنائی ۔ میں مرتے مرتے بچا۔ تجھے اپنے کھیت کی پڑی ہے پیٹ میں ایسا درد اٹھا کہ میں ہی جانتا ہوں۔
دونوں پھر کھیت کے ڈانڈ پر آئے۔ دیکھا کھیت میں ایک پودے کا نام نہیں اور جبرا منڈیا کے نیچے چت پڑا ہے۔ گویا بدن میں جان نہیں ہے۔
دونوں کھیت کی طرف دیکھ رہے تھے ۔منی کے چہرے پر اداسی چھائی ہوئی تھی ۔پر ہلکو خوش تھا۔
منی نے فکر مند ہوکر کہا۔ اب مجوری کرکے مال گجاری دینی پڑے گی۔
ہلکو نے مستانہ انداز سے کہا۔ رات کو ٹھنڈ میں یہاں سونا تو نہ پڑے گا۔
’’میں اس کھیت کا لگان نہ دوں گی یہ کہے دیتی ہوں جینے کے لیے کھیتی کرتے ہیں مرنے کے لیے نہیں کرتے۔‘‘
’’جبرا ابھی تک سویا ہوا ہے۔ اتنا تو کبھی نہ سوتا تھا۔‘‘
’’آج جاکر شہنا سے کہہ دے ، کھیت جانور چرگئے ہم ایک پیسہ نہ دیں گے۔‘‘
’’رات بڑے گجب کی سردی تھی۔‘‘
’’میں کیا کہتی ہوں تم کیا سنتے ہو۔‘‘
’’تو گالی کھلانے کی بات کہہ رہی ہے شہنا کو ان باتوں سے کیا سروکار تمھاراکھیت چاہے جانور کھائیں چاہے آگ لگ جائے چاہے اولے پڑ جائیں،اسے تو اپنی مال گجاری چاہیے۔‘‘
’’تو چھوڑدو کھیتی، میں ایسی کھیتی سے باز آئی۔
ہلکو نے مایوسانہ اندازسے کہا جی میں تو میرے بھی یہی آتا ہے کہ کھیتی باڑی چھوڑدوں منی تجھ سے سچ کہتا ہوں مگر مجوری کا کھیال کرتا ہوں تو جی گھبرا اٹھتا ہے کسان کا بیٹا ہوکر اب مجوری نہ کروں گا۔ چاہے کتنی ہی درگت ہوجائے۔ کھیتی کا مرد جاد نہیں بگاڑوں گا۔
جبرا۔جبرا ۔کیا سوتا ہی رہے گا ۔ چل گھر چلیں۔

٭٭٭٭

کتاب کا نام: پریم چند کی کہانیاں
مرتب: جوگندر پال
مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان
کتاب حاصل کرنے کا پتہ:
وزرات ترقی انسانی وسائل،حکومت ہند
فروغ اردو بھون،ایف سی۔33/9،
انسٹی ٹیوشنل ایریا، جسولہ،نئی دہلی۔110025
فون نمبر: 011-26109746

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں