22/12/15

پروفیسر ارتضیٰ کریم سے خصوصی بات چیت

نظام فتح پوری:پروفیسر ارتضی کریم صاحب آج آپ سے پٹنہ میں ملاقات ہورہی ہے ۔یہ جان کر ازحد خوشی ہوئی ہے کہ قومی اردو کونسل برائے فروغ  اردو زبان نئی دہلی کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے آپ بہت کم وقفے میں نہ صرف یہ کہ ہندوستان میں بلکہ بیرون ممالک میں بھی قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان  کی ترویج و ترقی کے لئے بہت ہی اہم رول ادا کررہے ہیں۔ آج پوری اردو آبادی استفادہ کررہی ہے، اِسی سلسلے میں آپ نے پٹنہ میں اردو صحافت کے 200 سال مکمل ہونے پر مقامی اے این سنہا انسٹی ٹیوٹ پٹنہ میں دو روزہ سمینار ۱۹ اور ۲۰ دسمبر۲۰۱۵ء کو منعقد کیا ہے۔ ہم آپ سے اس سلسلے میں سب سے پہلے یہ جاننا چاہتے ہیں کہ کس طرح اردو صحافت پر 200 سالہ تقریبات کے انعقاد کا خیال آپ کے ذہن میں آیا ۔
پروفیسر ارتضی کریم:سب سے پہلے میں آپ کا شکریہ اداکرتاہوںکہ آپ کونسل کی سرگرمیوں سے بخوبی واقف ہیں ساتھ ہی آپ نے ہماری بڑی ہمت افزائی بھی کی۔ در اصل میں خود کو اردو کا ایک ادنیٰ سا سپاہی مانتاہوںاور مجھے یاد ہے کہ ہر دور میں جب کبھی موقع ملا تو میںنے غیر مشروط طریقے سے اردو کی خدمت کی ہے ۔آج ہمیں جو ذمہ داری سونپی گئی ہے اس کے تحت بھی پوری عرق ریزی کے ساتھ کونسل کے اغراض و مقاصد کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس کے فروغ کے لئے کوشاںہوں ظاہر اس میں اردو آبادی کا بے حد تعاون حاصل ہے اور میں جہاںکہیں جاتاہوں اردو کے سچے بہی خواہ اور ہمدرد ہمیں بھرپور تعاون عطا کرتے ہیں یہ بڑی وجہ ہے کہ ہمیں کام کرنے کا حوصلہ ملتاہے جہاں تک آپ نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ اردو صحافت کے 200 سال مکمل ہونے پر ہمیںکس طرح یہ خیال آیا کہ اس کو تاریخی دستاویز بنایاجائے ۔میںمانتاہوںکہ صحافت کی جو خدمات ہیں وہ ہر دور میں سماجی ،ملّی، قومی سطح پر بے حد اہم رہی ہے۔ ہمارے ادیبوں ،شاعروں اور صحافیوں نے مل جل کر آزادی کی تحریک میں اپنی تحریروں کو حربے کے طور پر استعمال کیااِسی سلسلے میں اردو صحافت نے جو کارہائے نمایا ںانجام دیےوہ بہر حال ہمارے لئے ناگزیر ہیں ،چونکہ اردو صحافت کی باضابطہ بنیادی آماجگاہ کلکتہ رہی ہے اس لئے ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ اردو صحافت کے 200 سال مکمل ہونے پر سمینار کا انعقاد کلکتہ سے ہی شروع کیاجائے ۔اس کے بعد ہم نے کشمیر کا انتخاب کیااب بہار کی راجدھانی پٹنہ میں کر رہاہوں اس کے بعد اتر پردیش مہاراشٹر اور تلنگانہ میں بھی ہم یہ تقریب کریںگے ۔
نظام فتح پوری:آپ ہمیں یہ بتائیں کہ کلکتہ کے علاوہ دوسرے صوبوں میں اس سمینار کے انعقاد کی ضرورت کیوں آن پڑی جب کہ عام طور پر نیشنل سمینار کی یہ روایت رہی ہے کہ ہم ایک ہی جگہ اس کا انعقاد کر لیا کرتے ہیں اور رسم اداہوجاتی ہے۔
پروفیسر ارتضی کریم :آپ نے صحیح فرمایا یہ سمینار کسی ایک صوبے میں بھی قومی سمینارکے نام پر منعقد کیا جاسکتا تھا لیکن میرا یہ مانناہے کہ جو اردو کے اہم ترین گہوارے ہیں وہاں کے مقامی صحافیوں ، ادیبوںکی شمولیت سے اُسی صوبے کی 200 سالہ صحافتی تاریخ پر بحث کی جائے تو زیادہ معتبر ہوگی۔اِسی لئے جن دو صوبوں میں ہم نے ا س سمینار کا انعقاد کیا وہاں کے صحافیوں ، ادیبوں او راردو دوستوں کی شمولیت سے ہمیں جو دستاویز حاصل ہے وہ شائع ہونے کے بعد تاریخ کا ایک حصہ ہوگا۔
نظام فتح پوری:آپ کو اس سمینار سے اور کیا توقعات ہیں؟
پروفیسر ارتضی کریم :ہماری کوشش ہے کہ سمینار میں جو پرچے پیش کئے جائیںگے ان پر جو بحثیں ہوں گی جو مشورے آئیں گے ان کی روشنی میںہم ایک ایسی کتاب ترتیب دینا چاہتے ہیں جس سے ہر صوبے میں اردو صحافت کی صورت حال کا بخوبی اندازہ لگا یا جاسکے اورہم کسی مثبت نتیجے پر پہنچنے کے اہل ہوجائیں اور اس موقع پر ہماری یہ بھی کوشش ہے کہ ان تمام صحافیوں کوہمارے شرکا یاد کریں جن کی خدمات بہر حال ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔حالانکہ یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہوگا۔ چونکہ ہم نے تو بحث کے دروازے وا کئے ہیں اورجو لوگ اپنی خدمات دینا چاہتے ہیں وہ تحریری طور پر الگ سے بھی ہمیں دے سکتے ہیں تاکہ ہم مزید بہتر کام کرنے کے اہل ہوسکیں ۔
نظام فتح پوری:غالباً ایسا ہر سمینار میں یا دوسرے ادبی پروگراموںمیں ہوتاہے کہ لوگ جاری فہرست میں مزید اضافہ یا ترمیم چاہتے ہیں۔کیا اس سے کہیں کوئی فرق پڑتاہے؟
پروفیسر ارتضی کریم:دیکھئے دنیا میں رو ز ہزاروں پروگرام ہوتے ہیں ہر پروگرام میںہر شخص نہیں ہوتااور ہو بھی نہیں سکتا مگر جو لوگ مثبت رویے کے حامل ہوا کرتے ہیں وہ غیر مشروط انداز میں اپنا تعاون عطا کرتے ہیں ۔ہم تو صرف یہ کوشش کرتے ہیں کہ فضا آفرینی ہو اور علامتی انداز میں ایک تحریک کی شروعات ہوجائے جو لوگ اپنی خدمات دینا چاہتے ہیں وہ بہت خاموشی کے ساتھ کام کرتے رہتے ہیں اور ان کی خدمات کا زمانہ بھی معترف ہوتا رہتا ہے ہر شخص ہر جگہ نہیں ہوسکتا صرف اللہ میاںکی ہی ذات ہے جو ہر جگہ موجود ہوتی ہے ۔ اس لئے زندہ قومیں اپنے اثاثے کو بچائے رکھنے اور اُسے مزید استحکام بخشنے کے لئے بے لوث جذبے کے ساتھ کام کرتی ہیں ۔میں ہندوستان کے علاوہ بیشتر ممالک میں جاتارہتاہوں اور آپ یقین جانئے کہ جو لوگ اسٹیج پر ہوتے ہیں ان سے زیادہ تعاون جو بیک گراؤنڈ میں موجود لوگ ہیں ان کا ہوا کرتاہے اور یہ بات بالکل واضح  ہے کہ جب تک ہمیں مثبت اقدار کے حامیوں کا تعاون نہیںملتا تب تک کوئی بھی کام پائے تکمیل تک نہیںپہنچ سکتا۔
نظام فتح پوری           :ڈاکٹر صاحب آپ نے بہت ہی خوبصورت باتیں کہیں اور اس سے ذاتی طور پر مجھے بھی تحریک ملی ہے۔ آپ یہ بتائیں کہ ہندوستان میں اردو کے فروغ کا مستقبل کیا ہے؟
پروفیسر ارتضی کریم:آپ نے بہت ہی خوبصورت سوال کیا ہے میں یہ گوش گزار کرنا چاہتاہوں کہ اردو ہندوستان میں پیدا ہونے والی زبان ہے اس کے فروغ میں ہر قوم و ملت کے افراد نے عملی کاوشیں کی ہیں اس لئے روح سے وابستہ یہ زبان اپنے فروغ کی طاقت خود ہی رکھتی ہے ہم تو صرف اس زبان کے ساتھ جڑ کر اپنی پہچان  بناتے ہیں۔اردو یا کسی بھی زبان کے فروغ کے لئے اس وطن کی دوسری زبانوں کا احترام بے حد ضروری ہے اور حتی الامکان یہ کوشش بھی کی جانی چاہئے کہ ہم اپنی زبان کے ساتھ دوسری زبانیںبھی سیکھیں اس سے اپنی زبان کا فروغ ہوتا ہی ہے ساتھ ہی ہم مشترکہ تہذیبی وراثت کو سمجھنے اور انہیں فروغ دینے کے اہل بھی ہوجاتے ہیں اردو کا فروغ آج الیکٹرونک میڈیا اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے بغیر قطعی ممکن نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ تکنیکی سطح پر ہمار ا فروغ نہیں ہوتاہے تو عالمی سطح پر ہم اپنی زبان کے فروغ کے اہل بھی نہیں ہوسکتے ۔ظاہر ہے اس میں اردو کے فروغ کے لئے دوسری تکنیکی زبانوں کی صلاحیت بھی پیدا کرنی ہوگی۔ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ آج برقی رسائل بھی اردو میں شائع ہورہے ہیں اور ہم اس سے استفادہ بھی کر رہے ہیں ۔ جس طرح مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہونے کے لئے اور اردو کی صلاحیتوںکے فروغ کے لئے دوسری زبانوںمیں بھی مہارت ضروری ہے اُسی طرح آج ہمیں گلوبل سطح پر باخبر ہونا ہوگا۔ بہتوںکو یہ معلوم نہیں ہے کہ اردو کا اہم ترین سرمایہ تیزی سے ویب سائٹ پر منتقل کیا جارہاہے اور ہم اس سے استفادہ بھی کررہے ہیں۔ اس 200 سالہ صحافت کی  تقریبات کے انعقاد میں بھی ہمیں انفارمیشن ٹکنالوجی اور ایسے ہی دوسرے وسائل سے کافی مدد مل رہی ہے ظاہر ہے کہ ہم اگر واقعی اپنی زبان کا فروغ چاہتے ہیں تو بہت ساری فرسودہ روایتوں سے انحراف کرنا ہوگا اور خود کو قومی دھارے میں لانا ہوگا۔
نظام فتح پوری :کیا نوجوانوں کی کیریئر سازی میںاردو میڈیا کا کوئی رول ہے؟
پروفیسر ارتضی کریم :آپ بخو بی واقف ہیں کہ دنیا کے ہر شعبے میںاردو سے متعلق لوگ اپنی خدمات دے رہے ہیں۔چاہے وہ آئی اے ایس ہوں، آئی پی ایس ہو ں،ڈاکٹر ہو انجنیئر ہوں، بینک کے اعلیٰ افسران ہوں، پروفیسر ہوں یا دوسرے متعلقہ اداروں میں کام کررہے ہوں ۔ دیکھئے زبان ترسیل کا ایک وسیلہ ہے دراصل ہم اپنے شعور کو بالیدہ کرنے کے لئے کسی بھی زبان کا استعمال کرتے ہیں اگر ہم ایک زبان میں مہارت حاصل کر لیتے ہیں تو دوسری زبانیں سیکھنے میں بھی ہمیں سہولت ہوتی ہے۔اردو پڑھنے والے لوگ آئی اے ایس ہیں اس کا  مطلب یہ نہیںکہ صرف اردو کی وجہ سے آئی اے ایس ہوئے ہیں یا ہندی سے وابستہ لوگ آئی اے ایس بن گئے تو صرف ہندی کا رول ہو، ایسا اس لئے ممکن نہیں ہے کہ ہم اپنی زبان کے ساتھ جب تک دوسری اہم ترین زبانوں میں بھی مہارت حاصل نہیںکریںگے نہ اپنا فروغ کر سکتے ہیں اورنہ ہی اپنی زبان کا  اس لئے ہم یہ ضرور چاہتے ہیں کہ آج کے نوجوان اردو میں مہارت تو حاصل کریں ہی ساتھ ہی وہ دوسری ان زبانوں کو بھی سیکھیں جن میں وہ اپنا کیریئر تلاش کرتے ہیں ۔خصوصی طور پر برقی نظام سے بھی وابستہ ہونا ضروری ہے ، کوئی وجہ نہیں کہ ہمیں خواطر خواہ کامیابی نہ ملے ۔قومی اردو کونسل بھی اس سلسلے میں لگاتار کوشاںہیں کہ ہم بنیادی طور پر اردو کے طالب علموںکے لئے کس طرح روز گار کے  وسائل فراہم کرانے میں معاونت کر سکیں۔ کہا گیا ہے کہ حوصلہ ہو، جذبہ ہو، ارادہ ہوتو دنیا کاکوئی کام ناممکن نہیںہے۔
نظام فتح پوری:آپ نے اپنا بہت ہی قیمتی وقت عطا کیا اور ساتھ ہی اردو کے فروغ کے حوالے سے بہت مفید باتیں کیں اردو صحافت کی 200 سالہ تقریبات کی کامیابی کے لئے بھی ہماری تمام تر نیک خواہشات… شکریہ!
پروفیسر ارتضیٰ کریم :آپ کا بہت بہت شکریہ!!

مذکورہ بالا گفتگو پروفیسر ارتضیٰ کریم صاحب سے پٹنہ میں منعقد کی گئی ۲۰۰ سالہ صحافت کی تقریبات کے موقع پر صحافی نظام فتح پوری نے کی، جو کہ قومی اردو کونسل برائے فروغ اردو زبان کے قارئین کے لیے پوسٹ کی جارہی ہے۔شکریہ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں