15/12/15

ولی کی زبان/عبدالستار صدیقی

زبان ہمیشہ بدلتی رہتی ہے لفظوں کی جو صورتیں، جو ترکیبیں آج سے سو پچاس برس اُدھر عام تھیں، آج ان میں سے بہت سی ایسی ہیں کہ اِس زمانے کے لوگ اُن سے واقف تک نہیں۔ اسی طرح  جو آج رائج ہیں، نہیں کہا جاسکتا، اُن میں سے کون کون سی آگے چل کے سراسر ترک ہوجائیں گی،  کن کن کی شکل بدل جائے گی، کیا کیا محاورے اور لفظ نئے پیدا ہوجائیں گے۔ زبان کی یہ بدلتے رہنے کی صلاحیت اس کی زندگی کی علامت ہے جو زبان اس صلاحیت کو کھو بیٹھی ہو، اس کا مردہ ہوجانا ایسا ہی یقینی ہے جیسے سورج ڈوب جانے پر رات کا آجانا۔ زبان جوں جوں بدلتی جاتی ہے، اُس کی صحت اور فصاحت کے معیار میں ترمیم ہوتی جاتی ہے۔ اس لیے واجب ہے کہ جو نظم       یا نثر ہمارے سامنے ہو اُسے ہم اُسی زمانے کی زبان اور صحت و فصاحت کے معیار سے جانچیں پرکھیںجس زمانے میں وہ نظم یا نثر وجود میں آئی ہو۔ جو نقاد اس چودھویں صدی کی زبان کو  بِنا قرار دے کے بارھویں یا تیرھویں صد ی کے شاعروں کی زبان کو غلط یا غیرفصیح کہہ بیٹھتے ہیں وہ      ایسی بنیادی غلطی کرتے ہیں کہ ان کی تحقیق کی دیوار ثُریا تک ٹیڑھی ہی چلی جاتی ہے، افسوس ہے کہ اس کلیات کی پہلی اشاعت میں ایک حد تک اسی انداز سے ولی کی زبان کو کہیں غلط کہیں    غیرفصیح(’’کلیاتِ ولی‘‘:  انجمن ترقی اردو، اورنگ آباد، 1927 مقدمہ ص 98 ۔ نیز ص 101,102 ’’غیرفصیح الفاظ تین قسم کے ملتے ہیں  ……‘‘) بتایا ہے ولی کے ’’غلط الفاظ کے استعمال‘‘ کی تاویل، عذر خواہی کے طور پر کی ہے(مگر ساتھ ہی ساتھ ’’عالمگیر اردو‘‘ کو ’’صحیح اور قابل قدر‘‘بھی مانا ہے۔ (ص 96-98 ) اس طرح زبان کی بحث الجھ کر رہ گئی ہے۔) اور پھر اسی سلسلے میں ’’غلط الفاظ‘‘ کی فہرستیں دی گئی ہیں۔ اس بحث کے دوران میں کچھ دکنی لفظ بھی گنائے گئے ہیں، مگر اُن میں سے بہت سے وہ ہیں کہ ولی سے سو برس بعد دلّی کے مستند شاعروں کےکلام میںبھی جا بہ جا آئے ہیں۔
ولی کی زبان کو لوگ عموماً ’’دکنی‘‘ کہتے ہیں۔ اس لیے پہلے یہ دیکھ لینا چاہیے کہ دکنی (یا دکھنی) زبان کب وجود میں آئی، اُس نے کیا مدارج طے کیے اور کیا صورتیں اختیار کیں اور ولی کی زبان کو اس سے کہاں تک واسطہ ہے۔ ساتویں صدی ہجری کے آخر تک دکھن پر کوئی اثر دلّی کی سلطنت یا شمالی ہند کے تمدن کا نہ تھا۔ 694ھ میں علاء الدین خلجی نے دیوگیر پر حملہ کیا اور اس کے سپہ سالار، ملک کافور نے 709ھ میں مشرقی اور جنوب مشرقی دکن پر حملے شروع کیے اور دو تین برس میں اُدھر کے کئی رجواڑوں کو دلّی کا باج گذار بنایا۔ ان مہموں کا سلسلہ جاری رہا اور دیوگیر، دکن میں دلّی کی سلطنت کا ایک مرکز بن گیا، یہاں تک کہ 725ھ میں سلطان محمد تغلق کا دور آیا اور پائے تخت ہی دلّی سے( 727 ھ میں دارالخلافہ منتقل ہوا (پروفیسر نثار احمد فاروقی))  اُٹھا کر دیوگیر پہنچا دیا گیا۔ دلّی شہر کے بسنے والوں کو حکم ہوا کہ سب کے سب دیوگیر جا بسیں۔ دیوگیر کا نام دولت آباد رکھا گیا اور ایک بڑا با رونق شہر وہاں آباد ہوگیا۔ دلّی سے لاکھوں آدمی وہاں پہنچ کر بس گیا اور علاوہ معمولی لوگوں کے وزیروں اور سپہ سالاروں، عالموں اور شاعروں، کاری گروں اور ہنروروں کا دولت آباد میں جمگھٹا ہوگیا۔ ظاہر ہے کہ اُس زمانے میں دولت آباد ایک چھوٹی دلّی بن گیا ہوگا اور وہاں کی زبان وہی ہوگئی ہوگی جو اُس وقت میں دلّی اور اس کے اطراف میں بولی جاتی تھی ۔( یہ زبان خود دلّی میں کہیں اور سے آئی تھی، مگر اس سے یہاں سے بحث نہیں۔)یہ بات تو دکن کے کسی اور خطّے کو حاصل نہیں ہوئی، پر اِس سے انکار نہیں ہوسکتا کہ اِس نئی زبان کا اثر دکن کے اور حصوں تک کچھ نہ کچھ پہنچا ہوگا۔ محمد تغلق کے بعد حسن بہمنی نے دکن میں سلطنت جمائی تو گلبرگے کو پاے تخت بنایا۔بہمنیوں کو تلنگانے، بیجانگر اور کرناٹک میں بڑی فتوحات ہوئیں اور 764ھ میں گول کُنڈا بھی فتح ہوگیا۔ ان سب جگہوں میں دلّی کی زبان نے کچھ نہ کچھ رواج پایا مگر وہ صورت نہیں ہوسکتی تھی جو دولت آباد اور اس کے پڑوس میں تھی۔ 815ھ میں سیّد محمد گیسودراز گلبرگے پہنچتے ہیں اور تھوڑے ہی زمانے میں صوفیوں کا اثر سارے دکن میں پھیل جاتا ہے۔ اس طرح دلّی کی زبان نے دکن میں بہت رواج پایا مگر دراوڑی زبانوں کے علاقوں میں جو دولت آباد سے دور تھے، اس پردیسی زبان نے کچھ نہ کچھ اثر دراوڑی زبانوں کا ضرور قبول کیا۔ چنانچہ آج بھی مدراس کے علاقے میں جو اردو بولی جاتی ہے اس میں تامل کا موسیقی لہجہ موجود ہے جو اور کہیں کی اردو میں نہیں پایا جاتا۔ کچھ فرق زبان یا لہجے میں ہوجانا اس لیے بھی ضرور تھا کہ یہ لوگ اپنے اصلی مرکز سے دور جا پڑے تھے۔(  پھر بھی ’’دکنی‘‘ زبان نے، خاص کر حیدرآبادی دکنی نے بہت کم دراوڑی اثر قبول کیا اور اس کے اسباب تھے۔)دلّی کی آب و ہوا اور دراوڑی ملک کی آب و ہوا میں بھی بڑا تفاوت تھا۔ بہ خلاف اس کے دکن کا شمال مغربی حصّہ، جس میں دولت آباد واقع ہے، مریٹھ داڑی ملک تھا اور صدیوں پہلے سے جو زبان بولی جاتی تھی وہ بھی مثل ہندستانی کے ایک آریائی زبان تھی جسے شمالی ہند کی بولیوں سے گہرا تعلق تھا پھر، دکن کے اور مقاموں کے مقابلے میں دولت آباد دلّی سے زیادہ قریب بھی تھا اور شمالی ہند سے اس کے تعلقات آئے دن تازہ ہوتے رہتے تھے، یہاں کی آب و ہوا بھی اتنی مختلف نہ تھی جتنی دراوڑی علاقوں کی۔ علاوہ مرہٹی زبان کے گجراتی زبان کا بھی جو ایک دوسری آریائی زبان تھی، کسی قدر اثر پڑا۔
ان حالات کو ذرا غور کی نگاہ سے دیکھیے تو یہ بات صاف دکھائی دینے لگتی ہے کہ دسویں صدی ہجری کے آخر تک دکن میں ہندستانی زبان کی دو صورتیں ہوگئی تھیں، ایک وہ جو دولت آباد کے علاقے سے باہر دکن کے دراوڑی علاقوں میں رائج تھی اور جسے دلّی کی زبان کے ساتھ تعلقات کو تازہ کرنے کے موقعے بہت کم ملے اور جس میں ایک طرف گول کنڈے کے قطب شاہیوں اور دوسری طرف صوفیوں نے ایک خاص دکنی ادب پیدا کردیا تھا۔ دوسری صورت زبان کی وہ صورت تھی جو دولت آباد اور اس کے نواح میں رائج تھی۔ گیارہویں صدی کے آغاز میں مغلوں نے دکن کا رخ کیا اور اس کا اثر تیزی سے بڑھتا گیا۔ انھوں نے بھی اپنا مرکز دولت آباد ہی کو بنایا اور ارونگ زیب نے دولت آباد سے چند میل ہٹ کر اورنگ آباد بسایا ۔(دونوں شہروں میں 14 میل کا فصل ہے، مگر یہ اُس وقت کہ جب اس کا رقبہ بہت گھٹ گیا ہے۔ فرانسیسی سیّاح قے ورئیز صرف 4 کوس یا 8 میل کا فصل بتاتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالنا غلط نہ ہوگا کہ اورنگ زیب کے زمانے میں یہ دونوں شہر اتنے پھیلے ہوئے تھے کہ دونوں کے بیچ صرف 8 میل کا فصل تھا۔ ) شاہ جہاں اور اورنگ زیب کے زمانے میں لوگ دلّی سے جوق درجوق اورنگ آباد آئے اور اپنے ساتھ دلّی کی اردوئے معلی لائے، جس نے دولت آبادی علاقے کی زبان کو تازگی بخشی ( یہ ایک اور وجہ اورنگ آباد کی زبان اور باقی دکن کی زبان میں فرق ہوجانے کی ہوئی۔ اِس کی تجدید ہوگئی اور اُس نے پرانی صورت کو محفوظ رکھا۔) اور دلّی کی نئی زبان کو اورنگ آبادیوں نے شوق سے اختیار کیا، جس پر وہ آج تک فخر کرتے ہیں۔ یہی وہ زبان ہے جسے ہم ولی کے کلام میں پاتے ہیں اور سوا چند بہت خفیف اختلافات کے، یہ وہی زبان ہے جو ولی کے زمانے میں دلّی میں بولی جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس کا دیوان دلّی پہنچا تو دلّی والوں نے اُسے سر آنکھوں پر رکھا، شاعروں نے اس کی غزلوں پر غزلیں کہیں اور زبان دانوں نے اس کے کلام کو سند پکڑا۔ اگر اس کے دیوان میں کہیں دو چار لفظ دلّی کی اُس وقت کی زبان سے مختلف پائے ہوں گے، تو اُن کو چاہے شاعر کا اختراع جانا ہو، چاہے اس کی زبان کا پُرانا پن یا دکنیت، پر اُسے عیب نہیں مانا۔ آج بھی، کہ دلّی کا تعلق چھوٹے ڈیڑھ دو سو برس ہوچکے، اورنگ آباد کی زبان کو دلّی کی زبان سے بہت مناسبت باقی ہے اور دکن کے اور حصوں کی زبان سے وہ الگ دکھائی دیتی ہے، اس لیے زیادہ صحیح ہوگا کہ ہم ولی کی زبان کو ’’اورنگا بادی‘‘ کہیں۔ دکن کے باقی حصے میں اب سے سو ڈیڑھ سو برس پہلے تک جو زبان رائج تھی اور جو اب بھی بولی جاتی ہے، اُسے ’’دکنی‘‘ یا ’’دکھنی‘‘ کہنا نادرست نہ ہوگا۔‘‘(اِ س زمانے میں توحیدرآباد کی اردو اور لکھنؤ، دلّی کی اردو میں کم فرق رہ گیا ہے، مگر اُس سے یہاں بحث نہیں۔)
تیرھویں صدی کے اوائل کا ایک اورنگ آبادی مصنف اسی فرق کو اپنی کتاب ’’چراغ ابدی‘‘ کے دیباچے میں جو 1221ھ میں اس نے تصنیف کی تھی، ان لفظوں میں ظاہرکرتا ہے:
’’اگرچہ بعض عزیزوں نے زبان دکھنی ہندی آمیزش میں تفسیر جُز آخر کی لکھی ہے لیکن بہ سبب الفاظ دکھنی لطف زبان ہندی کا پورا نہیں پاتا اور دل یاروں کا واسطے مطالعے اس کے رغبت کم لاتا ، اِس واسطے خاطر قاصر میں اس فقیر کی آیا کہ تفسیر جُز آخر کی زبان ہندی میں کہ بالفعل اورنگ آباد کے لوگوں کا محاورہ ہے لکھے کہ عوام اُس سے باوجود قلت بضاعت کے فائدہ تمام اُٹھاویں۔‘‘(  دیکھو مولوی عبد الحق صاحب کا مقالہ ’’پرانی اردو میں قرآن شریف کے ترجمے‘‘  (رسالہ ’’اردو‘‘۔ اورنگ آباد 1937 ۔ ج 1 ، ص 32۔)
اس سے معلوم ہوتا ہے خود اورنگ آباد کے لوگ اپنی زبان کو دکنی سے کتنا دور اور دلّی کی زبان سے کتنا قریب جانتے تھے اور اورنگ آباد کے عوام بھی دکنی زبان کی کتابوں سے پورا فائدہ  نہ اُٹھا سکتے تھے۔ دونوں بولیوں میں اس طرح امتیاز کرلینے کے بعد، یہ بھی سمجھ لینا ضروری ہے کہ ’’اورنگابادی‘‘ پر ایک حد تک ’’دکھنی‘‘ کا اور اُس کا اِس پر اثر پڑا ہے۔
اب ولی کی زبان کو دیکھنا چاہیے۔ پہلے ان اجزاء سے بحث کرلی جائے، جو ولی کی زبان اور دلّی کے شاعروں میر، سودا، درد اور اُن کے ہم عصروں کی زبان میں مشترک ہیں۔
1 ۔  لفظ: — بوجھنا (پہچاننا سمجھنا) ، بولنا (کہنا کی جگہ)، پَوَن (ہوا)، پی، پیو ، سجن، موہن (محبوب کے لیے)، پیونا (پینا) تجھ، مجھ، (تیرا، میرا) جیو، (جی)، لگ (تلک) نین، نَین(آنکھ)، ستی، سیتی (سے) کنے (پاس) نپٹ، نپٹھ (بالکل، سراسر) یہ اور اس طرح کے بہت سے لفظ شاعروں کے کلام کے علاوہ دلّی، پنجاب، صوبہ متحدہ اور بہار میں اب تک بولے جاتے ہیں۔ کسی لفظ میں حرف علّت کاگھٹ کر ایک حرکت ہی رہ جانا یا حرکت کا کھنچ کر حرف ہوجانا، جیسے اُپر (اوپر) دکھو (دیکھو) لاگا (لگا)، لوہو (لہو)، اودھر، ایدھر، جیدھر۔ تشدید، کا جاتا رہنا یا اکہرے حروف پر تشدید کا آجانا، جیسے ’’اتنا‘‘ سے ’’اتّا‘‘ اور ’’پات‘‘ سے ’’پتّا‘‘ ہوجانا۔ یہ سب صورتیں دلّی کے شاعروں کے کلام میں بھی موجود ہیں۔ نون غنّہ پُرانے زمانے میں بہت تھا، یہاں تک بعضے لوگ فارسی لفظوں ’’کوچہ‘‘، ’’پیچ‘‘، ’’پائچہ‘‘ کو ’’کونچہ‘‘، ’’پینچ‘‘، ’’پائنچہ‘‘ لکھا کرتے تھے۔ توں (تو) کوں (کو) سیں (سے) نیں (نے) سداں (سدا)، دیکھناں (دیکھنا) وغیرہ بہت عام تھے۔ ملفوظ  ہؔ خاص کر دلّی اور پچھاں کے اور مقامات میں اکثر جاتی رہتی ہے اور اس کی جگہ اکثر ایک مخلوط یؔ یا ہمزہ لے لیتا ہے، جیسے ’’بہت‘‘ کی جگہ ’’بوت‘‘، ’’کہتا‘‘ کے لیے ’’کے تا‘‘، ’’کہوں‘‘، (کئوں)اسی طرح ’’کئیں‘‘ یا ’’کئں‘‘ اور ’’وئن‘‘ اور ’’نِئں‘‘ عام طور پر سناجاتا ہے۔ لکھاوٹ میں آکر ایک صورت کی ترجمانی نہیں ہوتی یا نہیں ہوسکتی، تو وہ صورت زبان سے مٹ نہیں جاتی۔ ملفوظ ہؔکہیںحذف ہوجاتی ہے، جیسے ’’گھبراہٹ‘‘ سے ’’گھبراٹ‘‘ کہیں مخلوط ہوجاتی ہے، جیسے ’’وہاں‘‘ سے ’’وھاں‘‘، ’’یہاں‘‘ سے ’’یھاں‘‘ کہیں مخلوط ھ اپنی جگہ بدل لیتی ہے، جیسے ’’گڑھنا‘‘ (گھڑنا) بعضے لفظوں میں ان دونوں کا قلب اور ابدال ایک ساتھ ہوا ہے، جیسے ’’پہچان‘‘ اور پیچھان‘‘، ’’پہونچا‘‘ اور ’’پونچھا‘‘۔ لفظ کے بیچ یا آخر میں سے مخلوط ھ اکثر جاتی رہتی ہے اور بھوک (بھوکھ) تڑپ (تڑپھ)، دھوکا (دھوکھا) سامنا (سامنھا) مانجنا (مانجھنا) بھکاری (بھکھاری) اب سے تھوڑے دن پہلے تک دونوں طرح سے لکھے جاتے رہے ہیں۔
2 ۔  جنس یا تانیث تذکیر کا اختلاف ہر دور میں رہا ہے اور یہ اختلاف مکان اور زمان دونوں پر مبنی ہے۔ بعض صورتیں ایسی بھی ہیں کہ زمان و مکان کا تفاوت نہیں پھر بھی اختلاف موجود ہے، ایک ہی شاعر ایک ہی لفظ کو کبھی مونث کبھی مذکر کہہ جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ اردو نے مختلف اور متعدد زبانوں سے لفظ لیے ہیں۔ جب کوئی نیا لفظ آیا۔ اگر اس میں اردو کی رو سے کوئی علامت تانیث و تذکیر کی نہ تھی تو ایک مدت تک اس کی جنس متعین نہ ہوسکی اور اسی لیے اکثر لفظوں کا آج تک قطعی فیصلہ نہ ہوسکا۔ جنس ہی کے متعین ہونے پر جمع کی صورت کا انحصار ہواکرتا ہے۔ اس لیے اردو میں جنس اور عدد دونوں ایک سیّال حالت میں ہیں اور یقین ہوتا ہے کہ شمالی ہند کے لوگوں نے ولی کے زمانے میں اور اس کے بعد بھی اس کے کلام میں کوئی اجنبیت محسوس نہیں کی۔ خود ولی نے بھی ایک ہی لفظ کو کہیں مونث کہیں مذکر باندھا ہے۔
3 ۔  نحوی ترکیب کو دیکھیے تو اس میں بھی ولی کے ہاں بیشتر وہی ترکیبیں ملتی ہیں جو شمالی ہند کی پرانی زبان میں ہیںجیسے ’’نے‘‘ کا استعمال کبھی کرنا کبھی نہ کرنا اور کبھی اس کا استعمال آج کل کے استعمال سے مختلف ہونا یا اضافی ترکیب میں ’’کا‘‘ ، ’’کی‘‘ ، ’’کے‘‘ کا مقدر رکھنا۔
4 ۔  لوگ اکثر املا کو بھی زبان سمجھ بیٹھتے ہیں، حالاں کہ املا تو لفظوں کی تصویر کھینچنے کی ایک کوشش ہے جو ہمیشہ کامیاب نہیں رہتی۔ املا کے قاعدے کیسے ہی ہمہ گیر اور مکمل بنائے جائیں زبان کی پوری اور سچی ترجمانی ان سے مشکل ہی سے ہوسکتی ہے۔ ایک ’’کوئی‘‘ کا لفظ ہم کئی طرح پر ادا کرتے ہیں(۱)  فعِلُن(۲) فَعِل (۳) فع ۔ ’’کو‘‘، ’’کے‘‘ ، ’’کا‘‘، ’’کی‘‘، ’’سے‘‘ وغیرہ کو کبھی فع کے وزن پر ، کبھی صرف ایک حرکت کے برابر کردیتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ حال ’’کہیں‘‘ اور ’’نہیں‘‘ کا ہے کہ کبھی  فِعل کے وزن پر، کبھی ہ  کو گرا کے فع کے وزن پر بولتے ہیں، پرانے شاعروں میں کوئی ایسا نہیں جس نے ان مختلف صورتوں میں ان لفظوں کو نہ برتا ہو املا کی یکسانی کے لفظ کی شکل ایک معین کرلی جاتی، تلفظ مختلف طرح سے ہوتا۔آخری دور کے شاعروں نے یہ اُلٹی گنگا بہائی کہ زبان کو رسم کتابت کے تابع کر کے زبان پر قیدیں لگائیں۔ اس میں لوگوں نے بعضی ایسی غلطیاں کی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ صرف ایک مثال کافی ہوگی: ایک لفظ تھا ’’کیوں کر‘‘۔ ’’کر‘‘ کابدل ہے ’’کے‘‘ اس لیے ’’کیوںکر‘‘ کا بدل ہوا ’’کیوں کے‘‘۔ بالکل اسی طرح جیسے ’’آکر، جاکر، کرکر‘‘ کی جگہ آکے، جاکے، کر کے‘‘ بھی بولتے ہیں۔ پرانے زمانے میں ’’کیوں کے‘‘      لکھتے تھے۔
ایک دوسرا لفظ تھا ’’کیوں کہ‘‘ (جس کا پہلا ٹکڑا ہندی، دوسرافارسی ہے) اس کا بدل ہے ’’کس لیے کہ‘‘ یا ’’اس لیے کہ‘‘۔ بھلا فارسی ’’کہ‘‘ کو ہندی ’’کے‘‘ سے، جو ’’کر‘‘ کا قائم مقام ہے، کیا واسطہ؟ مگر اصرار ہے کہ ’’کیوں کے‘‘ غلط ہے۔ ’’کیوں کہ‘‘ لکھو۔ اگر کوئی کہے کہ یہ لفظ اب بولا نہیں جاتا، تو یہ دعویٰ بھی غلط ہے۔ دلّی والے آج بھی بولتے ہیں اور اس کی صحیح کتابت ’’کیونکے‘‘ یا (کیوں کے) ہے۔
جو یہ کہے کہ ریختہ، کیوں کے ہو رشک فارسی
گفتۂ غالب ایک بار، پڑھ کے اُسے سُنا کہ یوں
نہ جانوں کیوں کے مٹے داغ طعنِ بد عہدی
تجھے کہ آئینہ بھی ورطۂ ملامت ہے
5 ۔  ایک بڑا اعتراض ولی اور پرانے شاعروں پر کیا جاتا ہے کہ عربی، فارسی لفظوں کو، جن کے بچلے حرف کو جزم ہے انھیں حرکت دے دی ہے، جیسے ’’شہر‘‘ اور ’’مہربان‘‘ ہ کے زبر سے، ’’طبع‘‘ اور ’’شمع‘‘ کو ب اور م کے زبر سے باندھا ہے اور ’’ثلث‘‘ کو ل کی حرکت سے۔ ان اعتراض کرنے والوں کو یہ بھی تو نہیں معلوم کہ کس عربی لفظ کے حرکات عربی میں کیا ہیں۔’’شمع‘‘ کا م مفتوح اور ساکن دونوں طرح صحیح ہے اور ’’ثلث‘‘ کا  ل ساکن بھی درست ہے اور مضموم بھی۔ یہ لفظ کلام اللہ میں کئی جگہ آیا ہے اور ہر جگہ ل کے پیش سے ہے ’’خط ثلث ‘‘ کو عربی میں ’’الخط الثُلُثی‘‘ (ل کے پیش سے)کہتے ہیں۔ اب رہے وہ لفظ جو سچ مچ عربی یا فارسی میں بچلے حرف کے جزم ہی سے ہیں سو ان کو بھی اکثر حرکت کے ساتھ بولتے ہیں ’’ذکر‘‘ اور ’’فکر‘‘ اور ’’تخت‘‘ اور ’’مہر‘‘ اور ’’شہر‘‘ بچلے حرف کی حرکت سے اردو کے فصیحوں کی زبانوں پر ہیں اور سیّدانشاء نے تو صاف صاف کہا ہے کہ اردو میں یہ لفظ یوں ہی صحیح ہیں۔ ولی پر اس طرح اعتراض کرنا نادانی ہے۔ اُس کے تو برسوں کے بعد لوگوں نے حکم لگایا کہ شعر میں وہی صورت ان لفظوں کی جگہ پائے جو فارسی یا عربی میں ہے، مگر مزا یہ کہ خود ایرانیوں نے عربی لفظوں میں بہت تصرف کرلیے تھے۔ پھر جب فارسی عربی لفظ ہندستانی میں آئے تو اس نے انھیں اپنے جنتر پر کھینچا۔ سوا دو چار قاریوں کے کون ہے جو ح  اور ع کو حلق کی گہرائی سے نکالتا ہوگا اور ز، ذ، ض یا س، ث، ص میں فرق کرتا یا کرسکتا ہوگا اور تو اور ہندستان کے ممتاز شاعر جب اردو میں شعر کہتے تو ان لفظوں کو اسی صورت سے اپنے کلام میں لاتے جس صورت سے وہ ہندی عوام کی زبانوں پر تھے۔ ناصر علی سرہندی کاسا سربرآوردہ فارسی شاعر جب اردو کہتا ہے، ’’حیران‘‘ (ی کی تخفیف سے) ’’بیچارہ‘‘ کو ’’بچارہ‘‘ ’’مِصَر‘‘ (ص کے زبر سے) ’’شرح مُلاّ‘‘ کو ’’شرح ملاّں‘‘ اور ’’درس‘‘ ( ر کے زبرسے) باندھتا۔ ’’فکر‘‘اور’’ فکَر‘‘ کو ’’اثر‘‘ اور ’’سفر‘‘ کا قافیہ کرتا ہے۔ اسی کا ایک مصرع ہے:
بت فرنگی بہ قتل ہمنا رکھے جو پُرچیں جبیں دمادم (شیرانی ’’پنجاب میں اردو‘‘ ص 1240-41 ۔)
اب کیوں کر کہیے کہ ’’ہمنا‘‘ اور ’’تُمنا‘‘ دکن کی مخصوص بولی تھی اور ہندی لفظ کو فارسی ترکیب میں نہ لاتے تھے؟
6 ۔  اسی طرح کا ایک اور وسوسہ ہے کہ مجہول اور معروف و یا ی کا یا ز کو ض کا اور س کو ص کا قافیہ کرنا دکنی زبان کی خصوصیت یا دکن کے شاعروں کی سادگی ہے۔معروف اور مجہول کا قافیہ فارسی کے اساتذہ کے کلام میں بھی کثرت سے ہے اور اردو کے مستند شعرا نے بھی بے تکلف اس طرح کہا ہے۔ ہم مخرج بلکہ قریب المخرج حرفوں کے قافیہ کرنے کا حال یہ ہے کہ فردوسی نے ’’وحی‘‘ کو ’’نہی‘‘ کا، سعدی نے ’’صباحی‘‘ کو ’’ماہی‘‘ کا ’’عدل‘‘ کو ’’فضل کا‘‘ اور ’’کسب‘‘ کو ’’اسپ‘‘ کا، کابتی نے ’’اصل‘‘ کو ’’نسل‘‘ کا، اور ظہوری نے ’’خراط‘‘ کو عامیوں کے تلفظ کے مطابق ’’خراد‘‘ قرار دے کے ’’نہاد‘‘ کے ساتھ قافیہ کیا ہے۔ پھر اگر ولی نے ’’تسبیح‘‘ کو عین اہل اردو کے مطابق ’’تسبی‘‘ کہا تو کیا گناہ کیا اور ز اور ض کا قافیہ کیا تو کیا بدعت ہوئی؟
یہ تو ان لفظوں اور ترکیبوں کا بیان ہوا جن کو دکنی زبان سے مخصوص جاننا درست نہیں، اس لیے کہ یہ سب صورتیں شمالی ہند کے شاعروں کے یہاں بھی ملتی ہیں۔ مگر شمالی ہند کے شاعروں میں سے، جن کا کلام ایک اچھی مقدار میں ملتا ہے وہ سب ولی کے بعد کے لوگ ہیں، ولی کے ہم عصروں یا اُن سے پہلے کے شاعروں یا مصنفوں کا کلام بہت ہی کم اور ناکافی ہے، جس سے یہ معلوم کرنا مشکل ہے کہ کون کون سے لفظ اس وقت کی زبان میں رائج تھے اور کون کون سی ترکیبیں استعمال ہوتی تھیں، اس لیے یہ طے کرنا بھی آسان نہیں کہ جو لفظ ہم صرف دکنی یا اورنگابادی مصنفوں کے ہاں پاتے ہیں وہ اس وقت کی شمالی زبان میں بھی تھے اور بعد کو شمال میں تو محو ہوگئے مگر جنوب میں باقی رہے یا شمال میں کبھی تھے ہی نہیں اور حقیقت میں دکن کی پیداوار ہیں۔ آئندہ اگر مزید معلومات بہم پہنچے تو فیصلہ ہوسکے گا کہ ان کو شمالی زبان کے اجزا ماننا چاہیے یا جنوبی زبان کے۔ اس صورت حال کو سامنے رکھ کر یہاں ان اجزا سے مختصر طور پر بحث کی جاتی ہے۔
1 ۔  لفظوں میں تغیر (حرف کے بدل جانے سے):
(الف)   ہ اور ھ کے حذف، قلب اور ابدال سے اوپر بحث ہوچکی ہے دکن کی خصوصیت یہاں بھی وہی ہے کہ تغیر میں تعمیم زیادہ ہوگئی ہے ’’سوکھا‘‘ کو ’’سُکا‘‘، ’’باہر‘‘ کو ’’بھار‘‘ بولتے ہیں۔ ’’انکھاں‘‘ کو ’’ہانکاں‘‘ ’’انکھیاں‘‘ کو ’’ہنکیاں‘‘ بولتے ہیں۔ (گو کہ کتابت اس طرح نہیں     کی جاتی)
(ب)   ٹ، ڈ، ڑ میں سے اگر دو حرف یا ایک ہی حرف دوبارہ کسی لفظ میں آئے تو پہلا ٹ کے بجائے ت، ڈ کے بجائے د ہوجائے گا۔ ’’توٹ گیا‘‘ یا ’’تُٹ گیا‘‘ (ٹوٹ گیا) ’’دنڈا‘‘ (ڈنڈا) ’’تکڑا‘‘ (ٹکڑا) ’’داٹنا‘‘ (ڈاٹنا) ’’دیڑھ‘‘ (ڈیڑھ) ’’دیوڑھی‘‘ (ڈیوڑھی) ’’تھاٹ‘‘ (ٹھاٹ) ’’تھٹ‘‘ (ٹھٹ)۔
(ج)  حرف حصر یعنی ’’ہی‘‘ کی ہ حذف ہوجاتی ہے۔ جیسے تُمی (تمھی) مگر ایسی صورتوں میں چ، چہ  لگاتے ہیں: ’’ووچ‘‘ (وہ ہی) ’’تمچ‘‘ (تم ہی) یہ چ یا مؤقوف ہوجاتی ہے یا مکسور اور کتابت میں اس کا مکسور ہونا ہ سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ اس کو ھ (مخلوط) قرار دینا درست نہیں یعنی چھ نہیں ہے۔ یہ لاحقہ غالباً گجراتی زبان سے دکن کی بولی میں آیا۔ سنسکرت میں چ بطور لاحقہ کے آتی ہے مگر وہ حصر کے بجائے ترقی کا حرف ہے یعنی ’’بھی‘‘ کے معنی دیتی ہے اور دکن میں بھی ’’بھی‘‘ (تلفظ’’بی‘‘) بالکل اسی طرح استعمال ہوتا ہے جیسے سنسکرت میں چ  لاحقہ، یعنی دو اسموں کے بیچ میں چ  آتی ہے۔ دکن میںکہیں گے۔ ’’ماں بی بچہ‘‘ (یعنی ماں اور بچہ یا ماں بھی بچہ بھی) عجب نہیں کہ گجراتی اور دکنی میں یہ چ سنسکرت سے آئی ہو مگر معنی بدل کر بجائے حصر کے ترقی کے ہوگئے۔
2 ۔  اردو والوں کا دستور ہے کہ لفظ کے بیچ یا آخر میں یا ہو تو ی کو الف سے مخلوط کردیتے ہیں جیسے ہندی ’’پ یار، پ یاس، دھ یان‘‘ سے پیار، پیاس، دھیان‘‘۔ فارسی ’’ پ یاز‘‘ اور   ’’م یان‘‘ سے ’’پیاز‘‘ اور ’’میان‘‘ عربی خ یا ل سے ’’خیال‘‘۔ دکن میں یہ تصرف بہت عام ہوگیا اور ’’دریا‘‘ اور ’’دنیا‘‘ بھی در+یا اور دن+یا ہوگئے۔ اسم سے گزر کر فعل کے صیغوں تک پر اس کا عمل ہوا۔ چلیا، لکھیا، کھلیا، ملیا وغیرہ۔
3۔  اں لگا کر جمع بنتی ہے (اسم چاہے مذکر ہو چاہے مونث) اور یہ پنجاب، پانی پت، سہارن پور وغیرہ میں عام ہے اور دکن میں بہت ہی عام۔ بات، باتاں۔ تروار، ترواراں۔ ہات(ہاتھ) ہاتاں۔ پانو، پانواں۔ پیچ ، پیچاں۔ آنکھ، آنکھاں ۔ جورو، جورواں۔ وغیرہ۔
(الف)  واحد مونث الف پر ختم ہوتا ہو، تو ایک ی(ملفوظ) بڑھا کراں  لگائیں گے ادا، ادایاں۔ دعایاں۔ دوایاں ۔ یہ ی کبھی مخلوط نہیں بولی جاتی۔
(ب)  اگر واحد مونث یا مذکر ی  ( معروف)پر ختم ہوتا ہو تو اں لگنے سے وہ ی مخلوط ہوجائے گی۔ انکھی، انکھیاں، پشانی (پیشانی) پشانیاں، تسبی۔ تسبیاں، چھری۔ چھریاں، چھتری۔ چھتریاں، برچھی۔ برچھیاں، موتی۔ موتیاں، درزی۔ درزیاں، مالی۔ مالیاں، گھوڑی۔ گھوڑیاں۔ اگر واحد ء ی (یاعی) یاہی پر ختم ہو، تو جمع میں ئ، ع، ہ حذف ہوکر ی ملفوظ ہوجاتی ہے بھائی۔ بھایاں، رباعی۔ ربایاں (کتابت، رباعیاں) سپاہی (تلفظ سپاء ی) سپاہیاں (تلفظ۔ سپایاں)۔
(ج)  الف پر ختم ہونے والے مذکر لفظوں کی جمع قائم حالت میں تو الف کو ے (مجہول) کر کے بنتی ہے، جیسے ’’بکرا‘‘ اور ’’گھوڑا‘‘ سے ’’بکرے‘‘ اور ’’گھوڑے‘‘۔ محرف حالت میں ’’بکریاں‘‘ کو اور ’’گھوڑیاں‘‘ سے وغیرہ۔ اس طرح محرف حالت میں مونث مذکر میںگویا فرق ہی نہیں رہتا اور سیاق عبارت سے تانیث و تذکیر میں امتیاز کرنا پڑتا ہے۔
4 ۔  نحوی خصوصیتوں کی تفصیل یہاں نہیں بیان کی جاتی۔ چند غزلیں غور سے پڑھنے پر وہ خصوصیتیں آپ ہی نمایاں ہوجاتی ہیں۔
آخر میں یہ کہہ دینا ضروری ہے کہ ولی نرا شاعر نہ تھا۔ اس کے دیوان میں جابجا ایسے مقامات ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے زمانے کے اہل علم میں سے تھا، عربی نظم و نثر کے شہ کار ہی اس کے مطالعے میں نہ رہتے تھے، علوم پر بھی اس کی نظر تھی۔ کلام کے صواب و خطا کو وہ خوب جانتا تھا یہ بھی سمجھتا تھا کہ لفظوں کے ذرا سے ہیرپھیر سے شعر میں کیوں کر جان      پڑجاتی ہے، یہ بات حاصل نہیں ہوتی جب تک کہ شاعر صحیح اور فصیح کو نہ پہچانے اور شعر کے فن کو نہ جانے۔ ولی کے کلام سے ہم شعر اور زبان دونوں کا لطف اٹھاسکتے ہیں۔ اگر ہم اس زمانے کی زبان
سے واقف ہونے کی سچی کوشش کریں۔

کلیات ولی میں ولی دکنی کی ساری غزلیں اور دیگر اصناف میں لکھی ہوئی ان کی تخلیقات موجود ہیں۔
مرتبہ: نور الحسن ہاشمی
مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان
قیمت: 148 روپے

اگر آپ اس کتاب کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو رابطہ کریں:
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، وزارت ترقی انسانی وسائل، فروغ اردو بھون، ایف سی33/9 ، انسٹی ٹیوشنل ایریا جسولہ، نئی دہلی۔110025
ای میل: sales@ncpul.in, ncpulsaleunit@gmail.com
فون: 011-49539000

اگر آپ اس کتاب کو آن لائن پڑھنا چاہتے ہیں تو درج ذیل لنک پر کلک کریں


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں