10/12/15

راجندر سنگھ بیدی — زندگی اور شخصیت

راجندر سنگھ بیدی، جیسا کہ انھوں نے خود اپنی پیدائش کے متعلق کہا ہے، یکم ستمبر 1915 کی سویر کو لاہور میں 3 بج کر 47 منٹ پر پیدا ہوئے۔بیدی کی ماں سیوا دیوی ہندو برہمن خاندان سے تھیں، اور باپ بابا ہیرا سنگھ کھتری سِکھ تھے۔ بیدی یا ویدی وید سے نکلا ہوا لفظ ہے۔ وہ کھتری جو وید کو اپنا گرنتھ مانتے ہیں، بیدی کہلاتے ہیں۔ جیسا کہ خود بیدی نے بتایا ہے، ان کی ماتا جی ان کے پتا جی کے ساتھ اپنے گھر سے فرار ہوکر آئی تھیں اور دونوں نے لاہور کے ایک آریہ سماج مندر میں شادی کی تھی۔ باپ پوسٹ آفس میں نوکر تھے۔ گھر کا رہن سہن ہندوانہ بھی تھا اور سِکھی بھی۔ گیتا اور جپ جی صاحب، دونوں کا پاٹھ ہوتا تھا۔ بیدی کے بھائی ہربنس سنگھ کا کہنا ہے کہ اسلامی کلچر سے بھی دلچسپی تھی۔ والد صاحب صوفیانہ کلام کے دلدادہ تھے اور گورپرب اور اسٹمی کے تہوار منائے جاتے تو والد صاحب عید کے میلوں میں بھی بچوں کو لے جاتے۔ کسی مذہب یا عقیدے سے عناد نہیں تھا۔ بیدی کی ماں اردو، ہندی اور تھوڑا بہت انگریزی جانتی تھیں۔ بیدی کے کہنے کے مطابق پہلی کہانیاں جو انھوں نے سنیں تھیں، جن اور پری کی داستانیں نہیں تھیں بلکہ مہاتم تھے جو گیتا کے ہر ادھیاے کے بعد ہوتے ہیں اور جنھیں وہ دوسرے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر ماں سے سنا کرتے تھے۔ پانچ برس کی عمر میں رامائن اور مہابھارت کی کہانیوں سے واقف ہوچکے تھے۔ ماں کی بیماری کی وجہ سے بیدی کے پتا جی ایک پیسے روز کرائے پر کوئی نہ کوئی کتاب بازار سے لے آتے تھے اور پڑھ کر ماں کو سنایا کرتے۔ اسی طرح اسکول کی عمر کے ساتھ ٹاڈ کے راجستھان اور شرلاک ہومز کے کارناموں سے واقف ہوچکے تھے۔ گھر میں کتابیں اور رسالے اکثر آتے تھے۔ چچا سمپورن سنگھ لاہور میں ایک پریس کے منیجر تھے جس میں ہر قسم کے ناول اور قصے چھپتے تھے۔ گھر میں کتابوں کا انبار لگا رہتا۔ یا تو مشہور انگریزی ناولوں کے ترجموں کی ورق گردانی ہوتی یا پھر ’’خونی خواب‘‘، ’’ایک رات میں بیس خون‘‘ یا پھر چندرکانتا کا پاٹھ ہوتا۔ بیدی کے چچا نے جب اسٹیم پریس خرید لیا تو اس کے ساتھ پانچ چھ ہزار کتابیں بھی آئی تھیں۔ کتاب کے کیڑوں کی طرح بیدی ان کتابوں کو چاٹتے رہتے۔ سردیوں میں رات گئے چولھے کے اِرد گرد بیٹھے والد صاحب کسی نہ کسی کتاب یا رسالے سے کچھ نہ کچھ پڑھ کر سناتے اور سب گھٹنوں میں سر دیے سنتے رہتے۔ بیدی کالج میں انٹرمیڈیٹ تک ہی پہنچے تھے کہ والدہ کا تپ دق کی بیماری میں انتقال ہوگیا۔ بیماری کے دوران انھوں نے ماںکی بہت سیوا کی۔ ان کی ٹٹی پیشاب تک صاف کرتے۔ انٹرمیڈیٹ کا امتحان بیدی نے غالباً 1933-35 میں پاس کیا۔ ان دنوں بیکاری بہت عام تھی۔ آئے دن گریجویٹوں کے ریل گاڑی کے سامنے کود کر خودکشی کی وارداتیں ہوتیں۔ بیدی نے والد کے کہنے پر پوسٹ آفس میں نوکری کرلی۔ بیدی کی ادبی زندگی کا آغاز بھی کالج کی زندگی یعنی 1931کے لگ بھگ سترہ اٹھارہ سال کی عمر سے ہوتا ہے۔ اس زمانے میں انھوں نے انگریزی میں نظمیں لکھیں۔ اردو اور پنجابی میں افسانے اور مضامین لکھے۔ طالب علمی کے زمانے میں محسن لاہوری کے نام سے لکھا کرتے تھے۔ کلرکی کے زمانے میں دیر گئے رات تک پڑھنے اور لکھنے کی عادت تھی۔ ڈاک خانہ میں بیدی کو بہت کام کرنا پڑتا۔ کئی بار سترہ اٹھارہ گھنٹے ڈیوٹی دینا پڑتی۔ یہی زمانہ بیدی کی سنجیدہ افسانہ نگاری کا بھی ہے۔ وہ رومانی کہانیوں اور الّم غلّم مضامین اور تراجم اور نہایت مفرس اردو کے دور سے نکل آئے اور زندگی کے اہم تجربات کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا۔ یہی وہ کہانیاں ہیں جو 1937 میں ان کے پہلے مجموعہ ’’دانہ و دام‘‘ کی زینت بنیں اور جب دوسرا مجموعہ ’’گرہن‘‘ 1941 میں شائع ہوا تو وہ اردو کے مستند افسانہ نگار تسلیم کیے جا چکے تھے۔ پروفیسر مجیب صاحب، جو روسی ادب کے بہت اچھے طالب علم تھے، ’’دانہ و دام‘‘ کو بغل میں دبائے پھرتے تھے، اورکہتے تھے ’’میں نے آج تک اردو میں اتنا اچھا مجموعہ نہیں دیکھا۔‘‘ بیدی کی شادی 1934 میں، جب کہ ان کی عمر 19 سال کی تھی، ایک قبول صورت لڑکی ستونت کور سے ہوئی۔ جس سے انھیں دو لڑکے اور دو لڑکیاں پیدا ہوئیں۔ ستونت کور ایک سلیقہ مند اور ایثار نفس بیوی ثابت ہوئیں۔ بیدی کے افسانے ’’گرم کوٹ‘‘ میں حسن اور رومانیت کی جھلکیاں اور ’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ کی اِندومیں ایثار نفسی اور ماورائیت کی خصوصیات ستونت کور ہی کا عطیہ ہیں۔ ایک دن تنگ آکر پوسٹ آفس کی نوکری سے استعفا دے دیا۔ بڑی تنگ دستی میں جینے لگے۔ ریڈیو آرٹسٹ کی آسامی کے لیے درخواست دے رکھی تھی۔ احمد شاہ بخاری پطرس آل انڈیا ریڈیو کے ڈائرکٹر جنرل تھے۔ آسامی کے لیے کم از کم گریجویٹ ہونا ضروری تھا۔ بیدی صرف انٹرمیڈیٹ ہی تھے۔ دہلی سے واپسی پر بتایا کہ انٹرویو کے وقت پطرس صاحب اٹھ کر ان سے گلے ملے۔ یہ واقعہ سنایا اور بیدی کی آنکھوں میں آنسو امڈ پڑے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بطور افسانہ نگار کے بیدی کی مقبولیت کا کیا عالم تھا۔ 1943 میں بیدی کا تقرر لاہور ریڈیو اسٹیشن پر بہ حیثیت اسکرپٹ رائٹر کے ہوگیا۔اس ملازمت کے دوران انھوں نے ریڈیو کے لیے کئی ڈرامے لکھے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران ان کا تبادلہ سرحد کے ریڈیو اسٹیشن پر ہوگیا۔ تنخواہ پانچ سو روپئے ماہانہ ہوئی۔ ایک برس کام کرنے کے بعد مستعفی ہوکر لاہور چلے آئے اور مہیشوری فلم کمپنی میں چھ سو روپئے ماہانہ پر ملازمت کرلی۔ اس کمپنی کے لیے انھوں نے پہلی اور آخر فلم لکھی ’’کہاں گئے۔‘‘ فلم کہاں گئی اس کا آج تک کسی کو پتہ نہیں چلا۔ پھر انھوں نے سنگم پبلشرز لمیٹڈ کے نام سے ایک مطبع قائم کیا۔ منجملہ اور کتابوں کے اپنے ریڈیائی ڈراموں کا مجموعہ ’’سات کھیل‘‘ اس مطبع سے شائع کیا۔ کتابوں کا کافی ذخیرہ مطبع کے پاس تھا اور اچھی آمدنی کا امکان تھا کہ ملک تقسیم ہوگیا۔ فسادات نے پورے پنجاب کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر شملہ چلے گئے اور اپنے ایک مصور دوست ایشور سنگھ کے پڑوس میں مکان لے لیا۔ اس مکان کی نچلی منزل میں ایک مسلمان کنبہ رہتا تھا۔ فسادیوں نے اسے گھیر لیا۔ بیدی اپنے دوست ایشور سنگھ کے ساتھ ایک نقلی فوجی پرمٹ لیے فسادیوں کی بھیڑ میں گھس گئے۔ دکھاوا ایسا کیا کہ وہ دونوں گویا فوج کے آدمی ہوں۔ مسلمان کنبہ کو، جس میں عورتیں زیادہ تھیں، صحیح سلامت بچا لائے۔ اردو کے مشہور شاعر حفیظ جالندھری بھی ان دنوں شملہ میں تھے۔ انھیں بچانا بھی ضروری تھا۔ کسی نہ کسی طرح انھیں بھی ڈھونڈھ نکالا۔ دم رخصت حفیظؔ نے نہایت رقت آمیز لہجہ میں یہ شعر پڑھا۔
ہم ہی میں تھی کوئی بات، یاد تم نہ آسکے
ہم نے تمھیں بھلا دیا ، تم نہ ہمیں بھلا سکے
بعد میں حفیظؔ نے ان واقعات کا ذکر ریڈیو لاہور سے بھی کیا۔ اس درمیان بیدی کے بیوی بچے شملہ آچکے تھے۔ بیدی انھیں لے کر پھر دہلی کی طرف روانہ ہوئے۔ لاہور میں ماڈل ٹاؤن میں ان کا مکان لٹ چکا تھا اور اب لاہور جانے کا کوئی مطلب بھی نہیں تھا۔ ہندستان میں سوائے آسمان کے سر پر کوئی چھت نہ تھی۔ کالکا سے ریل گاڑی لی۔ اندر جانے کو کوئی جگہ نہ تھی۔ کسی طرح بیوی بچوں کو اندر داخل کیا اور خود چھت پر جا بیٹھے۔ ریل ایک ٹنل سے گزری تو پگڑی اُڑ گئی مگر سر بچ گیا۔ ہربنس سنگھ (بیدی کے بھائی) لکھتے ہیں ’’ادھر کچھ لوگوں نے، جن میں ایک پولس انسپکٹر بھی تھا، بھاوج صاحبہ سے جو خوبرو تھیں، مذاق شروع کردیا۔ جب گاڑی انبالہ پہنچی تو بچوں نے چیخ پکار کر کے بیدی کو نیچے بلا لیا۔ جب انھوں نے شرارتی آدمیوں سے باز پرس کی تو وہ پوچھنے لگے۔ ’’آپ کرتے کیا ہیں سردار صاحب‘‘ ؟ تو بیدی نے کہا کہ میں اردو میں کہانیاں لکھتا ہوں۔ اس پر بہت قہقہے بلند ہوئے۔‘‘ 
دہلی میں رسالہ ’’آجکل‘‘ کی ادارت کے لیے کوشش کی لیکن اس درمیان اردو مصنفین کا ایک وفد کشمیر گیا۔ جب واپس آنے لگے تو شیخ عبد اللہ، جو ان دنوں چیف منسٹر تھے، کہنے لگے کہ باقی سب لوگ جاسکتے ہیں مگر ایک شخص کو میں نے حراست میں لے لیا ہے۔ اشارہ بیدی کی طرف تھا جنھیں انھوں نے ڈائرکٹر جموں ریڈیو کے عہدے پر متعین کردیا۔
لیکن اب بیدی کا رخ بمبئی کی طرف تھا جہاں وہ تا دم آخر سکونت پذیر رہے۔ خوب کہانیاں لکھیں اور خوب فلمیں بنائیں۔ فلمی دنیا میں بیدی عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے کیونکہ انھوں نے فلمی دنیا میں آرٹ کی پاکیزگی کو کمرشیل دست برد سے محفوظ رکھا۔ ’’دستک‘‘ جو ان کے ایک ڈرامے ’’نقل مکانی‘‘ پر مبنی تھی، آف بیٹ فلم تھی اور اس نے آرٹ فلم کے میلان کو تقویت دی۔ ان کی پہلی فلم ’’بڑی بہن‘‘ تھی جس میں دلیپ کمار نے ہیرو کا پارٹ ادا کیا تھا۔ ’’داغ‘‘ کا ہیرو بھی دلیپ کمار تھا اور یہ فلم باکس آفس پر بھی ہٹ ہوئی تھی۔ بیدی بہت ہی ذہین اور چابک دست مکالمہ نگار تھے۔ ’’داغ‘‘ کے مکالمے اس قدر برجستہ ، طرار اور شوخ تھے کہ فلم انڈسٹری میں بیدی کی مکالمہ نویسی کا سکّہ بیٹھ گیا۔ پھر انھوں نے ’’دیوداس‘‘ کے مکالمے لکھے۔ فلم کے رومانی، المیہ اور ڈرامائی واقعات کو اثرانگیز بنانے میں بیدی کے مکالموں کا بہت بڑا حصہ ہے۔ ’’دیوداس‘‘ کو شہرہ آفاق فلم بنانے میں بمل رائے کی ہدایت کاری، دلیپ کمار کی ادا کاری اور بیدی کی مکالمہ نگاری کا مساوی حصہ ہے۔ بمل رائے ہی کے لیے بیدی نے وہ سحر انگیز کہانی لکھی جو ’’مدھومتی‘‘ کے نام سے فلمائی گئی۔ بیدی نے اپنی کہانی ’’گرم کوٹ‘‘ کو بھی فلمایا جواتنی کامیاب نہیں رہی۔ جب یہ خبر عام ہوئی کہ بیدی مرزا غالبؔ کے مکالمے بھی لکھ رہے ہیں تو لوگوں کو یقین نہیں آیا کہ دیہاتی فضاؤں میں پلا بڑھا ایک اکھڑ پنجابی سِکھ مغلیہ سلطنت کی شان و شوکت اور اس کی تہذیب اور آداب کی نزاکتوں کو مکالموں کے ذریعہ کیسے پیش کرسکے گا۔ لیکن بیدی نے یہ کام بھی کر دکھایا۔ مرزا غالبؔ کے مکالموں کا امتیازی وصف، صیقل شدہ زبان، بذلہ سنجی، ظرافت اور شائستگی ہے۔ اس کے علاوہ بیدی نے رشی کیش مکرجی کے لیے’’ انوپما‘‘ اور ’’ستیہ کام‘‘ جیسی فلموں کی کہانی اسکرین پلے اور مکالمے لکھے۔ ان فلموں کے علاوہ ’’ بہاروں کے سپنے‘‘ اور ’’میرے ہمدم میرے دوست‘‘ بھی بیدی سے منسوب ہیں۔ اپنے بیٹے نریندر، جو خود ڈائرکٹر بن چکا تھا ،کے مشورے پر انھوں نے ’’پھاگن‘‘ بنائی جو بری طرح ناکام ہوئی۔ آخری عمر میں ہریجنوں کے مسئلہ پر ایک فلم ’’آنکھیں دیکھی‘‘ بھی مکمل کی، لیکن ہنوز اسے دیکھنے کے لیے آنکھیں ترستی ہیں۔ ریلیز ہی نہیں ہوئی۔
بمبئی کے قیام کے دوران شدید خواہش کے باوجود افسانہ نگاری کے لیے وہ بہت وقت نکال نہ سکے، پھر بھی ان کے افسانوں کے چار مجموعے سامنے آئے۔ ’’کوکھ جلی‘‘ 1949 میں ’’اپنے دکھ مجھے دے دو‘‘ 1965 میں، ’’ہاتھ ہمارے قلم ہوئے‘‘ 1974 میں اور ’’مکتی بودھ‘‘ 1983 میں شائع ہوئیں۔ ’’کوکھ جلی‘‘ گو بمبئی سے شائع ہوئی، لیکن اس کی کہانیاں جموں اور دہلی کی سکونت کے دوران ضبط قلم ہوئی تھیں۔ اپنے بمبئی کے 35 سالہ قیام کے دوران وہ لگ بھگ 25,30 کہانیاں لکھ سکے۔ بیدی کا انتقال بمبئی میں گیارہ نومبر 1984 میں ہوا۔

کلیات راجندر سنگھ بیدی، جلد اول میں راجندر سنگھ بیدی کے لکھے ہوئے تمام مطبوعہ و غیرمطبوعہ افسانے موجود ہیں
مرتبہ: وارث علوی
مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان
قیمت: 550 روپے

اگر آپ اس کتاب کو حاصل کرنا چاہتے ہیں تو رابطہ کریں:
قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، وزارت ترقی انسانی وسائل، فروغ اردو بھون، ایف سی33/9 ، انسٹی ٹیوشنل ایریا جسولہ، نئی دہلی۔110025
ای میل: sales@ncpul.in, ncpulsaleunit@gmail.com
فون: 011-49539000

اگر آپ اس کتاب کو آن لائن پڑھنا چاہتے ہیں تو درج ذیل لنک پر کلک کریں
کلیات راجندر سنگھ بیدی، جلد اول

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں