9/12/15

عنایت اللہ حجام اور میر تقی میر کا ادبی معرکہ

عنایت اللہ، حجام عرف کلو قوم کے حجام تھے۔اسی مناسبت سے تخلص بھی حجام رکھا تھا۔انہیں سودا کی شاگردی پر بہت ناز تھا۔ان کے سوا کسی شاعر کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔مصحفی نے ان کے کلام کی تعریف میں لکھا ہے۔کہ وہ باوجود کم علمی کے شعر خوب کہتے تھے۔ان کے اشعار سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ باریک بیں تھے۔اور ندرت مضمون سے کلام کو جلادیتے تھے۔ان کے شعروں میں کیفیت ملتی ہے۔اسی سبب سے مشاعروں میں انہیں خوب داد ملتی تھی۔مزاج میں ظرافت تھی۔غزلوں کے مقطعوں میں اکثر اپنے پیشے کے رعایت سے مضمون باندھتے تھے۔جو خوب بامزہ ہوتے تھے۔میر حسن نے لکھا ہے کہ مدرسہ غازی الدین خاں کے قریب ان کی شعر و سخن کی محفل جما کرتی تھی۔
مختلف تذکرہ نگاروں کے بیانات سے پتہ چلتا ہے کہ عنایت اللہ حجام کے مزاج میں شوخی اس قدر تھی کہ وہ اپنے آپ کو بھی نہیں بخشتے تھے۔چنانچہ ان کی غزلوں کے مقطعے اسی وجہ سے محفلوں میں مزہ دے جاتے تھے اور ان پر خوب واہ واہ ہوتی تھی۔اول تو وہ خود قوم کے حجام اس پر مستزاد یہ کہ تخلص بھی حجام۔پھر اس تخلص کی رعایت سے اپنے پیشے کی کارگزاریاں۔یہ کیفیت پوری محفل کو لوٹ پوٹ کرنے کے لیے کافی تھی۔چند اشعار دیکھیے۔

اس شوخ کے کوچے میں نہ جایا کرو حجام
چھن جائیں گے اک دن کہیں ہتھیار تمہارے
۔۔۔
رقیبوں پر میاں پڑتا ہے تب سو سو گھڑے پانی
بلا حجام کو جس روز تم حمام کرتے ہو
۔۔۔
روز رخسار کے لیتا ہے مزے خوباں کے
بہتر اس سے کوئی حجام ہنر کیا ہوگا
۔۔۔
حجام تیرے دل کی تو آرزو بر برآئے
چہرے پہ اس کے خالق گر خط شتاب لایا
۔۔۔
اس سے بڑح کر ان کی شوخی کا اور کیا ثبوت ہوگا کہ اپنی زبان سے خود اپنے آپ کو رجالا (کم قوم)کہہ دیا۔ان کا قطعہ ہے:

حجام پڑا سخت حیاناک کے پالے
کچھ اور تو کیا بات کہ وہ منھ سے نکالے
لگ چلتا ہوں اس شوخ سے رستے میں تو مجھ کو
جھنجھلا کے یہ کہتا ہے کہ چل دور رجالے

اس موقع پر میر کا وہ شعر خود بخود ذہن میں آتا ہے۔

پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی

حجام کو ایک طرف تو مشاعروں میں کافی مقبولیت حاصل تھی۔خواہ اس کی وجہ ان کا ظریفانہ انداز بیان ہو یا اپنے پیشے کے مضامین کا مضحک اظہار۔دوسرے اس زمانے کے ایک بڑے استاد فن سے انہیں تلمذ حاصل تھا۔جوان جیسے کم علم اور بے رتبہ لوگوں کے لیے فخر کی بات تھی۔اس کے علاوہ اس زمانے کے بہت بڑے متقی اور پرہیز گار صوفی محمد فخرالدین سے انہیں بیعت حاصل تھی۔جس سے ان کی سماجی حیثیت بھی بڑھ گئی تھی۔چنانچہ وہ اپنے محلے میں اپنی عرفیت کلو سے نہیں بلکہ شاہ جی کے لقب سے مشہور تھے۔ان سب باتوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے لگے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ پھر اپنے سامنے کسی کی کوئی حقیقت نہ سمجھی۔

میر قدرت اللہ قاسم نے لکھا ہے:

شاگرد رشید سر آمد شعرائے فصاحت آما مرزا محمد رفیع سودا است۔بنا بر آنکہ سنگ یک پہلو بود۔غیر از مرزا را شاعرے نمی دانست۔تانجو شگووے خود چہ رسد۔ 
حالانکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ تذکرہ نگاروں نے ان کی کم علمی کا بھی ذکر کیا ہے۔ 
مصحفی نے لکھا ہے:

باوجود کم علمی شعر ہندی رابخوبی سر انجام می دہد۔

 میر حسن نے لکھا ہے:

لیکن ازیں شعراومعلوم شد کہ کلامش بے اصلاح است ، درموشگافی معانی قصردارد۔شعر ایں است۔
کام کیا زور یہ حجام نے
شیخ کی داڑھی کو قصر کرگیا

میر نے نکات الشعرا میں عنایت اللہ حجام کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ہوسکتا ہے کہ اپنی مقبولیت کے پیش نظر انہیں یہ بات بری لگی ہو اور میر کے مقابلے پر آئے ہوں۔دوسری وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اپنے استاد کی حمایت میں انہوں نے بلاوجہ عداوت مول لی ہو۔جیسا کہ قائم اور مجذوب نے حق شاگردی ادا کیا تھا۔
میر کی مثنوی اژدر نامے نے بھی معاصرین پر ناخوشگوار اثر چھوڑا تھا۔فضا میں اس کے شرارے بھی موجود تھے۔بہت سے شاعر میر کے خلاف ہجویں کہنے لگے تھے۔بہت ممکن ہے کہ اس رو میں ان کے منہ سے بھی ہجویہ کلمات نکل گئے ہوں۔مزاج کی شوخی کے سبب بھی ان کی رگ ظرافت پھڑک سکتی ہے۔علاوہ ازیں میر کے بعض شعر بھی ان کو گمراہ کرسکتے ہیں۔میر نے بعض جگہ جہاں دوسرے پیشوں کے خوب رویوں کا اپنے کلام میں ذکر کیا ہے وہاں نائی بچے پر بھی اظہار خیال کیا ہے۔لیکن یہاں یہ ذکر حد اعتدال سے تجاوز اختیار کرگیا ہے۔

مل بیٹھے اس نائی کے سے کوئی گھڑی جو زاہد تو
جتنے بال ہیں سارے سر میں ویسے ہی اس کی حجامت ہو

ممکن ہے اس قسم کے اشعار سے بھی حجام کی دل آزادی ہوئی ہو۔بہرحال حجام نے میر کو اشتعال دلایا ہے۔یہ طے ہے۔اگرچہ ہمارے سامنے حجام کا ایسا کلام موجود نہیں جس سے میر کی تضحیک کا علم ہوسکے اور اس کی نوعیت کا جائزہ لیا جاسکے لیکن حجام کی مذمت میں میر کی مثنوی ’در مذمت آئینہ دار‘ موجود ہے۔جو تریپن اشعار پر مشتمل ہے۔اس مثنوی میں میر نے حجام پر الزام لگایا ہے۔

کیا کہوں کیسے ہیں یہ اوندھے لچر
کیجیے اصلاح عائد ہوئے شر

معلوم نہیں اصلاح کرنے سے میر کی کیا مراد ہے؟ شعر کی اصلاح سے تو حجام شر انگیزی نہیں کرسکتے تھے۔البتہ ان کو ان کے طور و طریق کے متعلق تنبیہ کی ہوگی۔قاضی عبدالودود صاحب نے اس معرکہ کی وجہ مخاصمت بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اس کا(عنایت اللہ حجام کا)قصور تو ظاہر ہے کہ وہ میر کی عظمت کا قائل نہ تھا۔لیکن بات صرف اتنی ہی نہیں ہے۔قیاس کہتا ہے کہ حجام نے میر کی شان میں یا تو کوئی ایسی ہجو کہی ہے جس میں میر اور مرزا کی شاعری کا موازنہ کرکے سودا کو میر پر فوقیت دی ہے۔یا کسی محفل میں انہوں نے اس کا اظہار کیا ہے جبھی تو میر حجام کی ہجو پر اتر آئے ہیں اور سودا کا ذکر بیچ میں لے آئے ہیں۔

موشگافوں کا نہیں ہے نام اب
مدعی شعر ہیں حجام اب
میر و مرزا میں حکم ہووے خرد
نے کہ نائی جن پہ سب دست رد
سمجھے مرزا میر کو مرزا کو میر
نے وہ رگ زن جو نہ سمجھے شیر شیر
مجھ میں مرزا میں تفاوت ہے بہت
یاں تانی واں عجالت ہے بہت
جس جگہ میں نے رکھی منہ میں زباں
ہوتے اس جاگہہ جو مرزا بے گماں
استرے کانوں میں اپنے باندھ کر
کب کے اب تک گھس گئے ہوتے ادھر

بقا کی طرح عنایت اللہ حجام بھی ظرافت نگار تھے۔ہوسکتا ہے جس طرح بقا نے میر کو اپنی ظرافت نگاری سے زچ کیا تھا۔حجام نے بھی مزاحیہ اشعار میں میر کو طنز و تعریض کا نشانہ بنایا ہو۔میر کی لعن طعن اور فحش گوئی سے بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ حجام سے بہت زیادہ کبیدہ خاطر تھے۔بلکہ اس ہجو میں کدورت اور رنجش کے تنائو سے حجام پر پھٹ پڑے ہیں۔
قاضی عبدالودود صاحب کے الفاظ میں (میر)’’خودداری کا جامہ اتار کر ایک حجام کے مقابلے میں خم ٹھونک کر میدان میں آگئے ۔اصل میں محض حجام اور میر کا جھگڑا نہ تھا۔بلکہ سودا اور میر کا معرکہ تھا۔جس میں ایک طرف میر تھے اور دوسری طرف سودا کے وہ شاگرد جو علاوہ سودا کے اور کسی کو شاعر ہی نہ سمجھتے تھے۔ان میں قائم، مجذوب اور حجام سر فہرست تھے۔غالبامیر کو یہ احساس تھا کہ سودا ہی حجام کو ترغیب دیتے ہیں۔اور وہ انہیں کی شہہ پر ان کے خلاف آگ بھڑکا رہے ہیں۔اس در پردہ دشمنی کا میر کو دکھ تھا۔کیونکہ یہ کچھ اس طرح کا معاملہ تھا۔

ایک کہتا ہوں میں تو منہ پہ رقیب
تیری پشتی سے سو سناتے ہیں

انہیں سودا سے ایک کم قوم کو اپنا شاگرد بنانے کی اور اس سے اپنے ہم رتبہ شخص کا مقابلہ کروانے کی شکایت ہے۔اس پس منظر کے بغیر یہ سمجھنا مشکل ہوگا کہ حجام کے ساتھ سودا کو لے دے کیوں کی گئی۔ 
***

 ماخوذ از’’اردو کے ابتدائی ادبی معرکے‘‘
مصنف : ڈاکٹر یعقوب عامر

اگر آپ یہ کتاب آن لائن پڑھنا چاہتے ہیں تو یہاں کلک کیجیے


اگر آپ اس کتاب کو خریدنا چاہتے ہیں تو براہ کرم رابطہ کیجیے:

قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان
وزارت ترقی انسانی وسائل، حکومت ہند
فروغ اردو بھون، FC-33/9، انسٹی ٹیوشنل ایریا، جسولہ نئی دہلی 110025
فون نمبر: 011-26109746
ای میل: ncpulsaleunit@gmail.com, sales@ncpul.in

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں