سہیل
عظیم آبادی کی طرح ہی اختر اورینوی نے بھی اپنے افسانوں اور بالخصوص ناول ’حسرت
تعمیر‘ میں آدی باسیوں کی زندگی اور چھوٹا ناگپور کی ٹوپو گرافی کرکے ایک خاص
معاشرت سے اردو فکشن کو آشناکیاہے۔ چھوٹا ناگپور مشترکہ بہار کا ایک سرسبز وشاداب
حصہ ہے جہاں فطرت حسین مناظر، خوبصورت جھرنے،سرسبز پہاڑیاں قدرتی حسن کا لاجواب
نمونہ پیش کرتی ہیں۔ اختر اورینوی نے وہاں کے قدرتی حسن کے ساتھ آدی باسیوں کی
قبائلی تہذیب،ان کی غربت و افلاس،رسم و رواج،رہن سہن اور پسماندگی کو بھی نمایاں
کرنے کی کوشش کی ہے۔یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ وہاں کی تہذیب و ثقافت کی تصویر
کشی کے لیے جزئیات کی جو تفصیل پیش کی گئی ہے وہ اردو کے کسی دوسرے ناول میں نہیں
ملتی۔حسرت تعمیر کی دوسری خوبی یہ ہے کہ یہ اپنے اندر اپنے عہد کی بہت سی
دھاراؤں،رجحانوں اور تحریکوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔اس میں جہاں روس اور چین کے انقلاب
اور مسولینی کے زوال کے تذکرے ہیں وہیں بھارت چھوڑو تحریک کے لوازمات،چرخہ اور
کھدر کی بحث،گاندھی جی کا نقطۂ نظر، انگریزوں کے اکھڑتے قدم،ان کی سازشیں اور
تقسیم ہند کی باتیں بڑے حقیقی اور فطری انداز میں پیش کی گئی ہیں۔
اختر
اورینوی کی اہلیہ شکیلہ اختر کا نام بھی اس سلسلے میں اہم ہے کہ ان کاپورا افسانوی
کینوس بہار اور اس کے تہذیبی اور ثقافتی منظرنامے پر محیط ہے۔’بہار‘ کو مرکز میں
رکھ کر شکیلہ نے جتنے افسانے تحریر کیے ہیں کسی اور افسانہ نگار نے نہیں کیے۔ان کا
سب سے مشہور افسانہ ’ڈائن‘ ہی اگر غور سے پڑھا جائے تو یہ اپنے دور کے کئی مسائل
اور معاملات سموئے ہوئے ہے۔صوبہ بہار ایک پسماندہ اورپچھڑے علاقے کے طور پر جانا
جاتا رہاہے،جہاں تعلیمی پسماندگی نے توہم پرستی،ضعیف الاعتقادی، دوچہرگی، غربت و
افلاس اور طبقاتی کشمکش جیسی برائیوں کو سماجی زندگی کا حصہ بنادیاہے۔اِس کہانی کی
نائکہ ایک بوڑھی عورت اور نہایت کریہہ شکل و صورت والی مچھوائن ہے جس کا پختہ رنگ
اسے مزید خوفناک بنادیتاہے۔بڑھیا اپنی دیورانی کے کہنے پر ایک دن گاؤں کے رئیس کے
گھر صبح صبح اْسے بقایا پیسے مانگنے آدھمکتی ہے۔حویلی کی مالکن کا چند ماہ قبل انتقال
ہو چکا ہے۔گھر کی بیٹیوں کو اس حساب کتاب کا علم نہیں، لہٰذا وہ اسے نہ صرف دھتکار
دیتی ہیں بلکہ اس پر پیسہ اینٹھنے کا الزام بھی عائد کردیتی ہیں۔اسی درمیان گھر کی
نوکرانیاں یہ انکشاف کرتی ہیں کہ یہ عورت ڈائن ہے اور ابھی تک نہ جانے کتنے لوگوں
کا کلیجہ بھون کر کھاچکی ہے۔دوسری جانب بڑھیا ان سب سے بے پروا مسلسل اپنی فریاد
رکھے جارہی تھی:
’’بی بی
مچھلی کے دام۔دام باکی ہے۔اوہی لا ایلی ہے۔اِگارہ آنہ پیسہ اور پہیلے کے
سواگو روپیہّ‘‘
بالآخر
اس کی دیورانی کو بلایا جاتاہے جو بتاتی ہے کہ بڑی مالکن نے چند ماہ قبل پٹنہ جانے
سے پہلے ڈیڑھ سیر مچھلی خریدی تھی اور عجلت میں پیسے نہ دے سکی تھی۔ اس کی تصدیق
گھر کی ملازمہ کھلائی بوا بھی کرتی ہیں۔ اس پورے تماشے کے بعد گھر کی عورتیں سوا
روپیہ بڑھیا کے آگے پھینکتے ہوئے قصہ ختم کرنے کی بات کہتی ہیں۔لیکن اْس بڑھیا کو
جیسے ہی یہ علم ہوتا ہے کہ بقایا بڑی مالکن کے ہاتھوں کا ہے،فوراً پیسہ واپس
کردیتی ہے اور لاکھ کوششوں کے باوجود واپس نہیں لیتی۔اْسی کے الفاظ سنیے:
’’نا
بیٹی نا۔ہائے اب دوسر کے ہاتھ سے ان کر باکی پیسہ نا تو لیب اور نا لیوے دیب۔ہائے
ہمر مالکینی تو ہمر مائی باپ تھے لا۔ای سوا گو روپیہ سے دن نا کٹ جائی‘‘
خاص
بہار کی دیہی معاشرت کی عکاسی کرتا یہ افسانہ نصف صدی کے بعد بھی اپنی معنویت کے
اعتبار سے تروتازہ ہے کیوں کہ ڈائن نام دینا،کلیجہ بھون کر کھانے کا الزام
لگانا،ایک خاص طرز کی زبان بولنااور طبقاتی تفریق جیسے عناصرآج بھی بہار کے دیہی
سماج کا حصہ ہیں۔بہار کے ایسے بہت سارے مسائل پر شکیلہ اختر نے خاص بہاری اسلوب
اور بہار ی پس منظر میں افسانے لکھے ہیں جنھیں ایک دن، نفرت، دھندلکا، موسی اور
شاید جیسی کہانیوں میں بہت واضح طور پر دیکھا جاسکتاہے۔نوجوان ناقد ڈاکٹر ابوبکر
رضوی نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ’’جس نے شکیلہ اختر کے افسانے نہیں پڑھے اس نے
بہار نہیں دیکھا۔‘‘
ذات
پات، طبقاتی کشمکش اور چھواچھوت جیسی سماجی برائیوں کی جڑیں بہار میں گہری پیوست
ہیں۔ اس مسئلے پر شکیلہ اختر،شین مظفرپوری،ذکی انور سے موجودہ عہد کے
عبدالصمد،صغیر رحمانی،غضنفر اور احمد صغیر تک مسلسل کہانیاں لکھتے رہے ہیں۔ میں
یہاں مثال کے طور پر صرف شین مظفرپوری کے ایک افسانے ’کسی سے کہنا نہیں‘ کا ذکر
کرناچاہتاہوں۔
یہ
افسانہ ’بہار‘ کے موجودہ سماج کی ایک تلخ حقیقت کی بھر پور عکاسی کرتاہے اور یہ
حقیقت بہار کی زمین میں اس قدر مضبوط جڑیں پیوست کرچکی ہے کہ ہندوؤں ہی نہیں
مسلمانوں میں بھی ذات پات کی تفریق نے پاؤں پسار لیے ہیں۔شین مظفر پوری جو زمینی
سچائیوں سے باخبر تھے انھوں نے بہاری معاشرے میں موجود اس برائی پر کھل کر اظہار
کیاہے۔
شکیلہ
اخترکی طرح ہی شین مظفرپوری نے بھی اپنے افسانوں میں بہار کی معاشرت اورتہذیب کو
کھل کر برتا ہے۔ اسی لیے بہار کی سماجی زندگی میں پھیلی ہوئی بہت ساری برائیاں ان
کے افسانوں کے موضوعات ہیں۔مثلاً حلالہ، طلاق، عقدبیوگاں پرافسانہ’حلالہ‘،جہیز کے
موضوع پرافسانہ ’جہیز ‘،کثرت ازدواج پر’سکنڈ ہینڈ وائف‘،کثرت اولاد پر ’بھگوان کی
اِچھا‘ ملاوٹ اور کالابازاری پر ’ ثبوت‘ جیسے افسانے بہار کوزندہ تصویروں کی شکل میں ہمارے سامنے پیش کرنے کی قوت رکھتے ہیں۔
تعلیم
ہر معاشرے کاایک اہم جزو ہے جو اُس معاشرے کی تہذیبی، ثقافتی اور دانشورانہ
پہلوؤں کی عکاسی کرتی ہے۔بہار کے تعلیمی نظام اورصورت حال کو موضوع بناکر کئی
افسانوں اور ناولوںمیں گفتگوکی گئی ہے مگر خصوصی طور پر دوناول ایسے لکھے گئے
ہیں جن کا موضوع ہی بہار کا تعلیمی نظام ہے۔بولومت چپ رہو از حسین الحق اور مہاتما
از عبدالصمد۔حسین الحق کے ذریعے
’بولومت
چپ رہو‘ میں پرائمری و مڈل اسکول کی تعلیم اور سکنڈری لیول پر ایجوکیشن افسران کی
نوکر شاہی سے بہار میں تعلیمی بدنظمی اورتعفن زدہ تعلیمی نظام کواکسپوز کیا گیا ہے
جوبڑی حدتک حقیقت پرمبنی ہے۔ اس لیے اس ناول کو ہم بہاری سماج کاآئینہ یاسماج
کانقیب کہہ سکتے ہیں۔پہلے اچھا عہدہ پانے کے لیے علمی صلاحیت اورقابلیت کی شرط تھی
اوربعدمیں پیسے کی ضرورت پڑی اوراب کسی محکمے میں کام کرانے کے لیے یاجگہ پانے کے
لیے نہ علمی صلاحیت کی ضرورت ہے اورنہ قابلیت کی۔کچھ دنوں تک پیسے کی ضرورت پڑی۔
پھر پیسے کے ساتھ سفارش کی اور اب جب سے ذات پات کی لعنت آئی تو اس شخص کی سفارش
چاہیے جس ذات کا حاکم ہو۔گویاتعلیمی نظام کے بہانے ناول نگارنے بہار میں کرپشن،
رشوت خوری، اقرباپروری اورتعلیمی زبوں حالی کی ایسی تصویرپیش کی ہے کہ اس میں
ہمارا پوراسماج برہنہ نظر آتا ہے۔ عبدالصمد کا ناول ’مہاتما‘ بہارمیں اعلیٰ تعلیم
کی صورت حال کاعکاس ہے۔ انھوں نے دکھایا ہے کہ بہار میں اعلیٰ تعلیم اقتدار
پرستوں، تجارتی ذہن رکھنے والوں کے ہاتھ کا کھلونا بن گئی ہے۔ اس صورت حال کا ذمے
دارکون ہے؟ سیاستداں، والدین یاخود اساتذہ؟ ناول اس تشویشناک صورت حال کاکوئی حل
پیش نہیں کرتابلکہ اس کی بھر پور ترجمانی کرتا ہے اور مسئلے کی شدت کا احساس دلات اورا
ذہنوں پر ایک سوالیہ نشان ثبت کرتا ہے۔ ناول کاعنوان ’مہاتما‘ بے ایمان،
ضمیرفروش،گھناؤنے کردار کے حامل اساتذہ کے لیے طنز کے طورپراستعمال کیا گیاہے۔
بہار
میں فرقہ وارانہ فسادات یہاں کے سماجی اسٹرکچر کو وقتاًفوقتاً مجروح کرتے رہے ہیں۔
یہ بہار کی معاشرت اورتہذیب پر اثرانداز ہوئے ہیں۔ بہارسے تعلق رکھنے والے
اکثرفکشن نگاروں نے اس موضوع پراپنے کرب کا اظہارکیا ہے۔ شکیلہ اختر، شین
مظفرپوری، سہیل عظیم آبادی ہوں یا دور حاضرکے عبدالصمد، ذوقی اور حسین الحق۔ سب
نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں مشترکہ تہذیب کو تار تار کرنے والے ایسے فسادات
اور ان کے پس پشت کارفرما عناصرکواظہارکا حصہ بنایاہے۔ عبدالصمد کا ناول ’مہاساگر‘
ذوقی کا ’بیان‘ کوثرمظہری کا ’آنکھ جو سوچتی ہے‘ علی امجد کا ’کالی ماٹی‘ اور
محمدعلیم کا ’میرے نالوں کی گمشدہ آواز‘ اس سلسلے کی اہم کڑیاں ہیں۔ بالخصوص آنکھ
جو سوچتی ہے، اور میرے نالوں کی گمشدہ آواز، مکمل طور پر بہار کے دوشہروں کے
فسادات پرمبنی ہیں۔ ’آنکھ جو سوچتی ہے‘ ہر چندکہ بہار کے شہرسیتامڑھی
میں برپاہندومسلم فساد اورفرقہ وارانہ منافرت کے پس منظر میں لکھاگیاہے مگرفکری
طورپر ایسے سوالات اٹھاتا ہے کہ فساد کامسئلہ پورے عالم انسانیت کامسئلہ بن
جاتاہے۔دنیا کی ہر بڑی طاقت کمزور طاقت کوروند رہی ہے،حیوانیت کاننگا ناچ عروج
پرہے۔بہار جیسے صوبے کا عام سچا اورسیدھا سادانوجوان انتشار اور کسادبازاری
کے کنارے بدلتی زندگی کودیکھ کھڑا سسک رہاہے۔کوثرنے فسادات کی تفصیلات اورمناظر
بڑی محنت اورخوش اسلوبی سے پیش کیے ہیںجوحواس پرچھاجانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
محمدعلیم کاناول ’میرے نالوں کی گمشدہ آواز‘ اِسی موضوع پرنسبتاً بڑے کینوس پر
لکھا گیا ہے۔ کہانی بہار کے ایک شہر سے شروع ہوتی ہے مگر اس کادائرہ اتنا وسیع ہو
جاتاہے کہ وہ پورے ہندستان پر منطبق ہوجاتی ہے۔یہ ناول زندگی کااحتجاج ہے، ظلم
بربریت اورخوف کے خلاف ایک مسلسل جدوجہد کی آوازہے۔ ناول کادوسرا پہلو بہار کی
معاشرت، گاؤںکی زندگی اور بہاری باشندوں کی نفسیاتی پیش کش ہے۔ان کامشاہدہ ہے کہ
بہار میں تعلیمی پسماندگی اورمعاشی بدحالی حددرجہ ہے۔ خاص کرمسلمانوں کے یہاں تو
اس کا فیصدصفرکے برابر ہے۔ یہ پسماندگی نہ صرف ان کے اجتماعی مسائل کو ہوا دیتی ہے
بلکہ انھیں استحصال کاشکار بھی بناتی ہے۔یہ طبقہ کھانے پینے اورکھیتوںمیںمزدوری
کوہی زندگی کا اولین مقصد سمجھتا ہے۔ یہ پسماندہ طبقہ بدلتی زندگی اور انقلاب سے
دوچار سماج سے ہم آہنگ نہیں ہوپاتا تو خود کو مختلف برادریوں، بولیوں، مسلکوں اور
رسموں میں محبوس کرکے مذہب اور تہذیب وثقافت کی گمشدگی کا رونا روتاہے۔
آخر
میںمشترکہ بہارکے تین ناولوں کا ذکر ناگزیر سمجھتا ہوںجو مکمل طور پر علاقائی
تہذیب وثقافت کی نمائندگی کرتے ہیں۔اول ’فائر ایریا‘دوم ’ تخم خوں ‘ اور سوم ’کالی
ماٹی‘۔ ’کالی ماٹی‘ علی امجد کا ناول ہے جس میں انھوں نے صنعتی شہر جمشید پور کے
کارخانے اور اس سے متعلق افراد کی زندگی کو موضوع بنایاہے۔کارخانے میں مختلف جگہوں
سے آکر بسنے والے افراد سے کام کرتے ہیں اس لیے فرقہ واریت،طبقاتی کشمکش اور
مختلف تہذیبی و ثقافتی اقدار کے نقوش اس ناول میں نظرآتے ہیں۔ناول سے پہلے علی
امجد کی پیش کردہ تحریر کا یہ حصہ دیکھیے جس سے موضوع کی ثقافتی و تہذیبی اہمیت کا
اندازہ ہو پائے گا:
’’اِس شہر
کے ارد گرد سیکڑوں میل میں آدی باسی، سنتھال، ہو، منڈاری، لوہے میگنیزتانبے اور
سونے کی زمین میں دفن خزانوں کے امین اب بنگالی، بہاری، اڑیہ، مدراسی، پنجابی،
پٹھان، ہندواور مسلمانوں کے ساتھ جمع ہو کر ایک نئے معاشرے کا تانا بانا بن رہے
ہیں۔اپنی محبتوں، اپنی نفرتوں، اپنی علاحدہ علاحدہ انفرادی اور اجتماعی پہچان ا
پنے ساتھ لیے قدیم قبائلی نظام سے براہ راست صدیوں کی جست لگا کر بیسویں صدی
میں صنعتی زندگی زندگی کی گہما گہمی اور افراتفری میں کھوئے ہیں۔‘‘
(ایک قرض ماضی کا)
یہ ایک
ایسے مخلوط معاشرے کی کہانی ہے جس میں مختلف مذاہب اور مختلف زبان کے لوگ محبت اور
محنت کے بل بوتے پر خوشی اور غم بانٹتے ہیں اور شہرآہن کو ایک منفرد تہذیبی و
ثقافتی شناخت عطا کرتے ہیں۔
الیاس
احمد گدی کا ناول ’فائر ایریا ‘ بھی ایک ایسے ہی کارخانے کو مرکز میں رکھ کر لکھا
گیا ہے مگر ’کالی ماٹی‘ کے مقابلے میں زبان وبیان،علاقائی تہذیب اور موضوع کے لحاظ
سے زیادہ ہمہ گیر اور حقیقت پسندانہ ہے۔کوئلے کے کارخانے میں کام کرنے والے
مزدوروں، اس سے وابستہ ٹھیکے داروں، سیاست دانوں اور غنڈے بدمعاشوں کی زندگی اور
ان کے اعمال کے علاوہ آدی باسیوں، پسماندہ طبقوں اور بہار کے مختلف شہروں سے کام
کی تلاش میںآئے غریبوں کے استحصال کا قصہ الیاس احمد گدی نے بڑی سچائی کے ساتھ
ناول کی شکل میں پیش کردیاہے۔
’فائر
ایریا‘کا محور جس صنعتی و سرمایہ دارانہ نظام پر مبنی ہے وہاں کے مزدور منظم سیکٹر
کے زمرے میںآتے ہیں اس لیے ٹریڈ یونینزم ان کی زندگی کا اٹوٹ حصہ ہے۔ ناول کا یہ
پہلو ایسا ہے جو اب تک کہیں پیش نہیں ہوا تھا۔ الیاس احمد گدی نے ٹریڈ یونین کی
سیاست کی مختلف شکلیں، اس کے مختلف رْخ اور اس کے زندگی و سماج پر اثرات کو بڑی
مہارت سے پیش کیاہے۔اس پیش کش میں انھوں نے کرداروں کی تشکیل،پلاٹ کی بنت اور زبان
وبیان کو پوری طرح بہار کے مختلف علاقوں سے ہم آہنگ رکھا ہے۔ چونکہ ناول کے کردار
آرہ، چھپرہ، بلیا، دربھنگہ، مگدھ، متھلا اور بھوجپور جیسے علاقوں سے تعلق رکھتے
ہیں،ناول نگار نے نہ صرف ان کے عادات و اطوار،طرز رہائش میں فرق دکھایا ہے بلکہ ان
کی زبان،لب و لہجے اور محاورات میں بھی حقیقی رنگ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ صاف
ظاہر ہو جاتا ہے کہ فائر ایریا کی تخلیق وہ شخص کررہا ہے جو بہار کے جغرافیائی
حدود،زبان،ماحول اور کلچر سے بخوبی واقف ہے۔علاقائی زبان کی چند مثالیں دیکھیے:
’’سنلا
ہودلری کے مائی اب تو املی کے پیڑ میں آم لاگی‘‘
دوسری بولی۔ ’’ہاں بہن نالی میں گنگا بہے لاگل ای کلجگ ما‘‘ (ص28)
’’میاں کے گھر کا بھات بھکوس کر واپس ہوا تو من ایک دم ہلکا ہو چکا تھا‘‘ (93)
’’چار اکشرکیا پڑھا دیے کہ ایکدم سے پنڈت ہوگئے مطلب یہ کہ گروگڑرہ گیا اور چیلا چینی ہوگیا۔‘‘ (ص79)
’’کاہو کو لیری میں کام کرے کے من با کہ نا؟ کول وری کے گینتا جھوری تک ہم کو پہچانتا ہے کتنا دن ہو گئیل ہو؟ جب کچھ نیکھے جانت تو اوچِھنری کے بھائی سنگ دوستی کیسے ہو گئیل۔‘‘ (ص48)
ایسے
مخصوص علاقائی الفاظ اور محاورے کثرت سے استعمال ہوئے ہیں جو مخصوص معاشرے کی
نشاندہی کرتے ہیں۔ دونا، ماں للوری، بھات، چوکھا، جھورا، پوکھر، گمٹی، کامِن،
ملکٹا، گانٹھ کا پورا، دیہہ جرا کے پوت، ڈھبری، بھکوسنی، بترو،منہ جھونسا،مہارو
وغیرہ بہت سے الفاظ و تراکیب ہیں جن کا مطلب سیاق وسباق سے ہی سمجھا جاسکتا ہے۔یہ
الفاظ مکمل طور پر بہار کے مختلف علاقوں کی زبان اور تہذیب کی نمائندگی کرتے ہیں۔
صوبہ
بہار کا ایک بڑا حصہ طبقاتی جنگ یعنی دلت اور اعلیٰ ذات کی سماجی جنگ لڑتا رہا ہے۔
گذشتہ تین چار دہائیوں میں اس جنگ نے صورت حال خاصی حدتک بدل دی ہے۔ بہار میں ’دلت
تحریک ‘ اور دلت صورت حال کو مدنظر رکھ کریوں تو سبھی فکشن نگاروں نے لکھا ہے مگر
جن لوگوں نے اس پر زیادہ لکھا ہے ان میں جابر حسین، غضنفر، احمد صغیر اور صغیر
رحمانی کے نام قابل ذکر ہیں۔جابر حسین کی ڈائری ’سن ائے کاتب‘ میں اکثر واقعات
بہار کی دلت آبادی اور اس کے درد و کرب کی عکاسی کرتے ہیں۔مالن مائی،کلوا
کہار،رام سینہی،گاڑھو رام،رام روپ، مرنی،مالتی،جمنا نائی،شانتی دیوی وغیرہ ایسے
کردار ہیں جو بہار کی اْس معاشرتی سطح کو اجاگر کرتے ہیں جس پر ہماری نگاہ بھی نہیں
جاتی۔
احمد
صغیر نے بھی دلتوں کے ساتھ ہونے والے اشرافیہ طبقات کے سوتیلے سلوک کو شدت سے
محسوس کیا ہے اس لیے اردو میں شاید پہلا ایسا مجموعہ انھوں نے پیش کردیا جو
مکمل طور پر دلت کہانیوں پر مشتمل ہے۔احمد صغیر کی نگاہ میں بہار کے
مگدھ،بھوجپور،متھلا وغیرہ کے علاقے رہے ہیں جہاں یہ تفریق نسبتاً زیادہ نظرآتی
ہے۔
مکمل
طور پر دلت مسائل کو موضوع بنا کر اردو میں دو ناول لکھے گئے ہیں۔ایک غضنفر کا
’دویہ بانی‘ اور دوسرا ’صغیر رحمانی کا ’تخم خوں‘۔دویہ بانی کا تعلق بظاہر صوبہ
بہا رسے نہیں ہے مگر جس طرح کے مناظر،لفظیات اور جزئیات سے ہمارا واسطہ پڑتاہے اس
سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف کی نگاہ میں بہا ر کے ہی علاقے اور گاؤں رہے ہیں۔
مگر
ناول کی شاعرانہ زبان اور قدیم روایت پر مبنی کہانی کی وجہ سے یہ دلتوں کی معاصر
صورت حال کا عکاس نہیں ہو سکاہے۔اس کے مقابلے میں صغیر رحمانی کا ناول ’تخم خوں‘
بہار کے دلت سماج اوران کی معاشرت کو زیادہ حقیقی انداز میں پیش کرتاہے۔جنوبی بہار
میں شاہ آباد کا علاقہ بھوجپور ہے جو دھان کی زبردست پیداوار کی وجہ سے ’چاول کا
کٹورا‘ بھی کہلاتاہے۔ اِس علاقے میںنکسل موومنٹ اور دلت تحریک کی ایک طویل تاریخ
رہی ہے۔ صغیر رحمانی نے اس تاریخ کا مطالعہ گہرائی سے کیاہے اور ماضی قریب کے دلت
جدوجہد،طبقاتی احتجاج اور اس سے وابستہ سیاست کا مشاہدہ بغور کیاہے۔اس لیے تخم خوں
کا ہر صفحہ ان کے مطالعے اور مشاہدے کا عکاس ہے۔انھوں نے دلت معاشرے کو اخباروں او
ر کتابوں سے نہیںجانا ہے بلکہ دلت کرداروں کے ساتھ جی کر ان کی سائیکی میں اترنے
کی کوشش کی ہے۔
آل احمد
سرور نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’کسی ملک کے رہنے والوں کے تخیل کی پرواز کا اندازہ
وہاں کی شاعری میں ہوتاہے مگر اس کی تہذیب کی روح اس کے ناولوں میں اجاگر ہوتی
ہے۔‘‘ بہار کی تہذیب و ثقافت کی روح بھی وہاں لکھے گئے فکشن کی مدد سے بہتر طور پر
سمجھا جاسکتاہے۔گویا بہار کی ایک ذہنی اور سماجی تاریخ اِس فکشن میں محفوظ ہو گئی
ہے۔یہ ناول صرف بہار کا نام استعمال نہیں کرتے بلکہ ان میں ہم صدیوں سے جوجھتے،
جدوجہد کرتے انسانوں کی پوری تاریخ دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں یہ بات بھی واضح کردوں کہ
طوالت کے خوف سے ایسے بہت سارے ناولوں اور افسانوں کا ذکر نہیں ہو سکا ہے جن میں
بہار کے علاقائی اور تہذیبی اثرات کو واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے۔ میں
ذکی انور، انور عظیم، ظفر اوگانوی، کلام حیدری، قاسم خورشیدوغیرہ کا بھی ذکر کرنا
چاہتا تھااور خواتین کے مسائل کے ذکر کے لیے آشا پربھات، ذکیہ مشہدی، قمر جہاں،
اشرف جہاں اور نوشابہ خاتون وغیرہ پر بھی گفتگو کرنا چاہتا تھا، اخترآزاد، مجیر
احمدآزاد اور خورشید حیات وغیرہ کے نئے موضوعات و مسائل کو بھی گرفت میں لینا
چاہتاتھا اور چاہتا تھا کہ شوکت حیات، پیغام آفاقی، ذوقی وغیرہ کے فکشن سے بہار
کا عطر کشید کروں، اور بھی باتیں تھیں، اور بھی نکات تھے جنھیں وقت اور صفحات کی
تنگی کے سبب چھوڑدینا پڑا ہے۔ مگر مجھے یقین ہے کہ یہ جائزہ اس کا اعتراف کروانے
کے لیے کافی ہے کہ بہار کی علاقائی اور تہذیبی زندگی مذکورہ افسانوں اور ناولوں
میں پوری طرح واضح ہوکر سامنے ا ٓتی ہے۔یہ فکشن بہار کی خارجی حقیقتوں اور تجربوں
کاہی احاطہ نہیں کرتا بلکہ خارجی وسیلے سے یہاں کے باشندوں کی ذات کے نہاں
خانوںمیں اتر کر ان کی خوابیدہ حِس کو بیدار کرنے اور ان کے ساکت وجدان میں تحرک
پیدا کرنے کی بھی سعی کرتا ہے۔ مجموعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے اردو فکشن
کا ایک بڑا حصہ فکری و موضوعاتی سطح پر بہار کی زندگی اور معاشرے کے مختلف النوع
گوشوں اور جہتوں کا بخوبی احاطہ کرتاہے اوردونوں سطح پر اردو ناول نگاری کے دامن
کو وسعت و تنوع سے ہمکنار کرتاہے۔
Dr. Shahab Zafar Azmi
Associate Professor & Head
Department of Urdu
Patna University Patna 800005
drshahabzafar.azmi@gmail.com
Mob;8863968168
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں