29/8/23

موسیٰ کلیم کی غزل گوئی:سعدیہ پروین

 

سارن کمیشنری ارضِ بہار کا وہ خطہ ہے جہاں سیاست،ادب،ثقافت اور تہذیب و تمدن کی کرنیں سب سے پہلے روشن ہوئیں۔جہاں سیاست میں مولانا مظہرالحق، ڈاکٹر راجندر پرساد، بابو برج کشورپرساد، ڈاکٹر سید محمود وغیرہ نے قومی سطح پر عوام کی نمائندگی کی، وہیں ادب کی دنیا میں سید اجتبیٰ حسین رضوی، عبداللطیف چھپروی،علامہ جمیل مظہری، رضانقوی واہی،حمید تمنائی، سید صالح حسین شوق اور احمد جمال پاشا نے نمایاں مقام حاصل کیا۔ سارن کے متعدد فنکاروں نے فلمی دنیا میں بھی نام کمایا اور اس خطے کو قومی سطح پر روشناس کرایا۔ان میں موسیٰ کلیم، چترگپت، ابو سیوانی، ونئے سنہا، پنکج ترپاٹھی اور اکھیلیندر مشرا نے بہترین کارگردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس علاقے کا نام روشن کرنے میں اہم کردارنبھایا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

موسیٰ کلیم کا تعلق بھی اسی خطے سے ہے۔انھوں نے 1920 میں موضع چھوٹا تلپا ضلع سارن میں ایک علمی و دینی گھرانے میں آنکھیں کھولیں۔ان کے والد مولوی رسول بخش سرکاری ملازمت کرتے تھے۔ موسیٰ کلیم کے علاوہ ان کے تین لڑکے بالترتیب محمد سالم، محمد سلیم اور محمد اسلم بھی تولد ہوئے۔ ان کی والدہ کا نام بی بی محرومن تھا۔ وہ سادہ دل، خدا ترس اور مہمان نواز خاتون تھیں۔ موسیٰ کلیم کی ابتدائی تعلیم چھپرہ کے بی سیمینری ہائی اسکول میں ہوئی۔بعد ازاں انھوں نے کلکتہ سے 1939 میں انٹرینس کا امتحان پاس کیا۔ پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے چھپرہ کے راجندر کالج میں داخلہ لیا۔ وہاں ان کا سابقہ ذی علم اور ذی وقار اساتذہ سے ہوا۔ انھو ں نے سید احمد جعفری بیخود عظیم آبادی اور سید اجتبیٰ حسین رضوی سے شعر و ادب کی باریکیاں سیکھیں۔ کچھ دنوں کے بعد’انگریزو ! بھارت چھوڑو‘ کی تحریک شروع ہو گئی۔ موسیٰ کلیم نے اس تحریک میں بڑھ چڑھ حصہ لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ فرنگی حکومت نے انھیں گرفتار کر لیا اور مظفر پور کی جیل میں قید کر دیا۔ وہاں قید خانے میں رام برچھہ بینی پوری اور دیگر قومی رہنمائوں سے ملاقات ہوئی۔ پہلے سے ہی ان کا ذہن قومی تحریک سے ہم آہنگ تھا۔ جیل جانے کے بعد اس میں اور پختگی آئی۔ انھوں نے ہندی اور بھوجپوری زبانوں میں بھی شاعری شروع کر دی۔ ان کی ہندی شاعری کا بڑا حصہ قومی گیت اور ترانے کی شکل میں آج بھی موجود ہے۔انھوں نے بنگلہ فلموں سے اپنے کیریئر کی شروعات کی اور عرصہ دراز تک ہندی فلموں میں مختلف طرح کی خدمات انجام دیتے رہے۔ موسیٰ کلیم نے بانیِ برج کشور کنڈر گارٹن اسکول، چھپرہ بابو کپل دیو پرساد سری واستو کی فرمائش پر ہندی زبان میں بچوں کے لیے ایک قومی ترانہ لکھا۔ یہ ترانہ آج بھی اسکول ہٰذا کے طلبا و طالبات مترنم آواز میں گاتے ہیں۔بابو مہیندر پرسادنے چھپرہ میں امیچیور ڈرامٹک ایسو سی ایشن قائم کیا اور اس کے تحت ہر سال ایک تقریب منعقد ہوتی تھی جس میں موسیٰ کلیم کے طبع زاد ڈرامے اسٹیج ہوتے تھے۔ ان کے انتقال کے بعداس کا نام بدل کر مہیندر مندر ٹرسٹ رکھ دیا گیا۔اس کے بعد مہیندر جینتی منانے کا آغاز ہوا۔ ڈاکٹر راجندر پرساد نے موسیٰ کلیم سے بابو مہیندر پرساد کے لیے ایک قصیدہ لکھنے کی فہمائش کی۔ موسیٰ کلیم نے مہیندر گان کے نام ایک نظم لکھی جو آج بھی جشن یومِ مہیندر کے موقعے سے مترنم آواز میں گائی جاتی ہے۔ موسیٰ کلیم کی وفات ان کے آبائی مکان میں 29؍ستمبر 1995 کو  ہوئی اور تکیہ قبرستان میں تدفین عمل میں آئی۔ ان کی شخصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر ارشاد احمد اپنی کتاب ’ موسیٰ کلیم شخص اور شاعری‘ میں رقم طراز ہیں:

’’موسیٰ کلیم کی شخصیت ہمہ جہت تھی۔ وہ ایک جواں مرد مجاہدِ آزادی، مایہ ناز اور قادر الکلام شاعر، مستندو معتبر ڈراما نگار، عظیم فلمی نغمہ نگار، انعام یافتہ کہانی کارقابل افتخار اسٹیج اداکار اور ماہر موسیقی تھے۔ ‘‘

(موسیٰ کلیم شخص اور شاعر، ص  24)

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی شخصیت کے متعدد پہلو ہیں۔ ڈاکٹر ارشاد احمد نے اپنی کتاب موسیٰ کلیم شخص اور شاعری میں ان کے حالاتِ زندگی، فلمی خدمات، ڈراما نگاری، غزل گوئی اور مختلف تذکروں میں تذکرہ کے عنوانات سے تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے موسیٰ کلیم کے متعلق وافر معلومات جمع کر دی ہیں۔ اس طرح یہ کتاب دستاویزی حیثیت کی حامل ہو گئی ہے۔ لیکن اس مضمون میں دیگر عنوانات سے صرف ِنظر کرتے ہوئے صرف موسیٰ کلیم کی غزل گوئی کی انفرادیت اور اختصاص سے بحث کی گئی ہے۔ 

موسیٰ کلیم:شخص اور شاعری میں ڈاکٹر ارشاد احمد نے ان کی 101غزلوں کا انتخاب پیش کیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ یہ غزلیں معنوی و صوری اعتبار سے بہتر ہوں گی۔ ان غزلوں کے عمیق مطالعے کے بعد ذہن میں جو پہلا تاثر ابھرتا ہے وہ ہے وقت شناسی کا۔ انھوں نے اپنی زندگی میں زمانے کے کھٹے میٹھے واقعات سے جوتجربات حاصل کیے انھیں بڑی جابکدستی اور ہنر مندی سے اپنی غزلوں میں پیش کیا ہے۔اپنے عزیز و اقارب اور زمانے کی شکایت بھی کی ہے تو اس میں تہذیبی سلیقہ مندی ہے، ان کااخلاق بلند و بالاہے اور صبر و استقامت کا جذبہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اس میں ان کے خاندانی پس منظر کا دخل و عمل ہو، کیونکہ ان کے جد اعلیٰ شیخ حسین بخش عربی فارسی اور اردو کے جید عالم تھے اور دور دور تک ان کی علمی صلاحیت واہلیت کا شہرہ تھا۔ ان کے والد مولوی رسول بخش بھی عربی اور اردو دونوں زبانوں پر کامل دستگاہ رکھنے والے مذہبی شخص تھے۔ گھر کا ماحول دینی تھا اور ان کے اسلاف کا اخلاق بلند تھا۔ موسیٰ کلیم اسی بلند وبا لااخلاقی ماحول کے پروردہ تھے۔ ان کی غزل گوئی میں یہ عناصر نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں           :

کس منہ سے بزم غیر میں جاتے ہو اے کلیم

سب جان جائیں گے کہ یہ خانہ خراب ہے

نہ چھوٹے صبر کا دامن نہ چھوٹے

وہ نشتر پھر چبھوتے جا رہے ہیں

شکل و صورت تو بڑی چیز ہے پھر بھی اے کلیم

چاہیے اور بھی کچھ دل میں سمانے کے لیے

یہ بار غم عشق اٹھایا نہیں جاتا

اس تاج کو سر سے بھی گرایا نہیں جاتا

موسیٰ کلیم کی غزل گوئی پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر ارشاد احمد لکھتے ہیں           :

’’موسیٰ کلیم نے ہم عصر شعرا کی طرح روایت پسند ہونے کے ساتھ ساتھ جدت پسند ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے۔ انھوں نے زندگی کے تلخ حقائق،معاشرے کی برائیوں اور موقع پرست انسانوں کی فطرت کو فلسفیانہ انداز میں قارئین کے سامنے رکھنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ ان کے اشعار سماج کے آئینہ اور معاشرے کے عکس ہیں۔ ان میں معاشرتی تلخیاں ہیں، نا آسودہ  تمنائوں کا طوفان ہے اور تگ و دو کرتی زندگی کی کروٹیں ہیں۔‘‘

(موسیٰ کلیم: شخص اور شاعری، ص 56)

مرے خیال سے جینا ہے شرم ان کے لیے

دعا جنھوں نے مصیبت میں موت کی مانگی

میری پامالی پہ ہنستے ہیں جو، ان سے کہہ دو

کل وہی اٹھتا ہے جو آج گرا ہوتا ہے

بگڑی ہوئی ہے دنیا بگڑے ہوئے ہیں لوگ

ایسے میں آپ کرتے ہیں کیا کیا بتائیے

دل میں کینہ لیے جب بھائی ملا کرتے ہیں

ان کے ہی گھر میں طوفان اٹھا کرتے ہیں

موسیٰ کلیم کثیر الجہات فنکار تھے۔ انھوں نے ہندی اور بھوجپوری میں بھی شاعری کی ہے۔ ان کے ہندی کلام کا مجموعہ ’’امن کے گیت ‘‘ شائع ہو چکا ہے۔ان کے قومی ترانے یوٹیوب پر چندن تیواری کی آواز میںموجود ہیں۔ ان کی غزلوں کا رنگ و آہنگ بھی قومی اور عوامی ہے لیکن ان میں سطحیت نہیں ہے۔ معنوی اعتبار سے عمدہ ہیں۔ موضوعات میں تنوع ہے اور طرزِادا رواں ہے۔پختہ کار شاعر و عالم پروفیسرسراج الحق نادر نے ان غزل گوئی پر تبصرہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:

’’موسیٰ کلیم کی غزلوں کو دیکھنے کے بعد بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ان کا کلام اساتذہ کے کلام سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ ان کی غزلوں میں جدت کے ساتھ فکر و خیال اور موضوعات کی وسعت پائی جاتی ہے۔ موسیٰ کلیم نے دنیا اور زندگی کو بڑے قریب سے دیکھا ہے اور جھیلا ہے۔ تبھی تو وہ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں           :

واعظ ڈراتا کیا ہے جہنم کی آگ سے

دنیا سے بڑھ کے اور جہنم بھی ہے کہیں

کسی مظلوم کے دل کی دعا کو مت دعا سمجھو

 اسے تم بد دعا سمجھو اسے قہرِ خدا سمجھو

(مطبوعہ، قومی تنظیم، پٹنہ19؍مئی21)

غزلوں میں اثر آفرینی پیدا کرنا بھی ہنر مندی ہے۔ اس کے لیے شاعر مختلف صنعتوں، استعاروں اور رواں دواں بحروں کا استعمال کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ لفظیات، محاوروں اور تراکیب کا استعمال بھی مناسب و موزوں طریقے سے کرتے ہیں۔ موسیٰ کلیم نے اپنی غزلوں کو پر اثر، پر لطف اور خوبصورت بنانے کے لیے ان تمام عناصرکا مناسب استعمال کیا ہے جو اساتذہ کا طرۂ امتیاز تھا۔متعدد کتابوں کے مصنف افتخار عظیم چاند نے موسیٰ کلیم کی غزلوں کی خصوصیات درج ذیل لفظوں میں اس طرح کیا ہے:

’’موسیٰ کلیم کی غزلوں سے یہ تاثر بخوبی تمام ملتا ہے کہ ان کا کلام مضمون آفرینی کے وصف سے تمام تر آراستہ ہے۔انھوں نے غزلوں میںمکالمے کی صنعت بھی بخوبی برتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی بحر میں رواں اشعار نکالنے کا معاملہ ہویا قافیے کی تلاش میں کامیابی کا معاملہ ہویا قافیے کی تلاش میں کامیابی کا معاملہ ہو، بہر کیف ان کی غزلیں اپنے قاری کو متوجہ کر لیتی ہیں۔ زبان میں معصومیت، روانی اور سلاست بھی نمایاں ہے۔ طنز، استعارہ و محاورہ، حر کی تصویر کشی، منظر نگاری، لطیف احساسات کی استعاراتی عکاسی اور اس قسم کی دیگر خوبیاںبھی موسیٰ کلیم کی غزلوں میں روشن ہیں۔ انھوں نے ’ غزل‘ کی ردیف میں  بھی ایک نہایت عمدہ غزل کہی ہے ‘‘             :

میں نے لکھی تھی کبھی آنکھوں پہ بالوں پہ غزل

آج لکھتا ہوں مگر اپنے ہی حالوں پہ غزل

آج مضمون پھرا کرتے ہیں سڑکوں پہ کلیم

لکھو تم آج کے سارے ہی وبالوں پہ غزل

(موسیٰ کلیم: شخص اور شاعری پر تبصرہ، افتخار عظیم چاند،زبان و ادب، مارچ  2022ص 68)

اسی قبیل کے چند اشعار اور ملاحظہ کریں          

کچھ تو حضور کہیے /میرا قصور کہیے

جو سوچتے ہیں دل میں/اس کو ضرور کہیے

خواہشِ روشنی جب بڑھائی گئی

آگ میرے ہی گھر کو لگائی گئی

گیا حال دل میں جو ان کو سنانے

لگے مجھ سے پہلے ہی آنسو بہانے

کلیم میرا فن تو مجھے جانتا ہے

بلا سے کوئی مجھ کو جانے نہ جانے

اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ موسیٰ کلیم کی غزلوں میں زندگی سانس لیتی ہوئی دکھائی ہے۔ ان کی غزلوں کے موضوعات میں تنوع ہے، عصری حسیت ہے، طنزیہ رنگ و آہنگ ہے، اسلوب سادہ اور رواں ہے۔ ہم ان کی غزلوں سے نہ صرف محظوظ ہوتے ہیں بلکہ متاثر بھی ہوتے ہیں۔ یہ بات بالکل سچ ہے کہ موسیٰ کلیم عرصہ دراز تک گمنامی کے دبیز پردے میں پڑے ہوئے تھے۔ ڈاکٹر ارشاد احمد انھیں اپنے تحقیقی ذہن اور تلاش و جستجو کے ذوق سے کھوج منظرِ عام پر لائے۔  یہ کام اہل اردو اور بالخصوص اہل سارن کے لیے باعث افتخار ہے۔ مجھے امید ہے کہ مستقبل میں موسیٰ کلیم کی ادبی خدمات پر ناقدین کی نظر جائے گی اوراردو ادب میں ان کے مقام و مرتبے کا تعین منصفانہ طور پرہوگا۔

Sadia Parveen

Research Scholar,

JP University

Chapra - 841301 (Bihar)

Mob.: 9798953598

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...