ہندوستان دنیا کا ایک ایسا ملک ہے جہاں مختلف
دھرم و مذہب کے ماننے والے، مختلف زبانیں بولنے والے اورمختلف رنگ و روپ رکھنے والے
لوگ رہتے ہیں۔ ہمارا ملک ہندوستان ایک ایسے گلدستے کی طرح ہے جس میں رنگ برنگ کے پھول
کی طرح مختلف نسل و رنگ کے لوگ ہیں یہ ہندوستان کی خوبصورتی اور اس کی پہچان ہے۔
قومی یکجہتی کا مطلب یہ ہے کہ کسی ملک کے مختلف
فرقوں اور علاقوں کے افرادکو ایک کیا جائے تاکہ وہ ایک سیاسی اکائی میں کام کرسکیں۔
یعنی ملک میں بسنے والے تمام افراد اپنے مذہب، علاقے اور تہذیب سے اٹھ کر ملک کی ترقی
کے لیے کام کریں یہی قومی یکجہتی کا مقصد اور محورہے۔
امیر خسرو سے لے کر قلی قطب شاہ اور میر وغالب
سے لے کر آج تک کے تمام شاعروں نے اپنی شاعری میں ہندومسلم اتحاد کو برتا ہے اوراسے
خوبصورت انداز میں پیش بھی کیا ہے۔ ہندو مسلم کے مذہبی عقائد،مذہبی تہوار وغیرہ کا
ذکر اردو شاعری میں موجود ہے۔ہندو مسلم اتحاد پر ہمارے شاعروں نے کافی زور دیا ہے۔
اسی کڑی میں جدید دور کے ایک شاعر اور مشاعرے کی دنیاکے مشہور و معروف ناظم جناب انورجلال
پوری صاحب ہیں جنھوں نے قومی یکجہتی ا ور ہندومسلم اتحاد پر بہت کام کیا ہے۔ ڈاکٹر
اسلم الہ آبادی لکھتے ہیں:
’’انور
جلالپوری کو عہدِ حاضر کا نظیر اکبر آبادی کہا جاسکتا ہے۔انھوں نے سماج کے ہر طبقے
کو متاثر کیا ہے۔ انھوں نے غزل کے ساتھ نظمیہ شاعری میں نئے نئے تجربے کیے ہیں۔ تیج
تیوہاروں کے سلسلے میں بھی ان کے یہاں نظمیں مل جاتی ہیں۔انور جلالپوری چومکھے شاعر
ہیں۔ انھوں نے اردو کی تمام اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔‘‘
اردو ادب کی دنیا میں الگ پہچان
اور شناخت رکھنے والے شاعر انور جلال پوری کا اصل نام انوار احمد تھا۔ یہ صوبہ اترپردیش
کے ضلع امبیڈکر نگر کے شہر جلال پور میں 6جولائی 1947 کو پیدا ہوئے۔ انور جلال پوری
عالمی سطح پر ایک ناظم مشاعرہ اور شاعرکی حیثیت سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔جلال پور
میں ہی ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
گئے اور وہاں انھوں نے ایم اے انگریزی کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد اودھ یونیورسٹی فیض
آباد سے انھوں نے اردو میں ایم اے کیا۔ علاوہ ازیں انھوں نے ادیب کامل کی بھی ڈگری
حاصل کی۔ انھوں نے شاعری کا آغاز 1960کی دہائی میں کیا اور تقریباً پانچ دہائیوں تک
تصنیف و تالیف کا سلسلہ چلتا رہا۔ان کی تصانیف و تالیف یہ ہیں کھارے پانیوں کا سلسلہ (1984)، خوشبو کی رشتہ داری (2000)، جاگتی آنکھیں
(2008)، روشنائی کے سفیر (2009)، اپنی دھرتی اپنے لوگ (2010)، بعد از خدا (2010)، حرف
ابجد (2010)، راہرو سے رہنما تک (2012)، اردو شاعری میں گیتا (2013)، توشۂ آخرت
(2013)، قلم کا سفر (2013)، سفیران ادب
(2013)، اردو شاعری میں گیتانجلی (2014)، اردو شاعری میں رباعیات خیام (2014)، ادب
کے اکشر (2014)، پیار کی سوغات (2016) ۔ ان کی وفات 2جنوری 2018کو لکھنؤ میں ہوئی۔
انور جلال پوری نے ہندوستان کی ایکتا اور اتحاد
کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے تخلیقی سرمائے کا سہارا لیااور نظم و نثر کے ذریعے انھوں
نے مختلف قوموں میں بھائی چارہ اور میل جول کو بڑھاوا دیا۔انھوں نے ہندوستان کی آزادی
اور اس کی ترقی کے ساتھ قومی یکجہتی کے عناصر کو اپنی نظم و نثر میں پیش کیا ہے۔
/15اگست کے عنوان سے انھوں نے نظم لکھی ہے جس میں شاعری کی خوبصورتی کے ساتھ ان کی
وطن سے محبت موجود ہے۔اس نظم کے اشعار نمونے کے طور پر ملاحظہ ہوں:
یہ مسکراتی کھیتوں کے کہلاتے دھان
کہ جیسے کمسنی کے وقت سینے کی اٹھان
ہر ایک شے حسین ہے ہر ایک شے جوان
یہ پندرہ اگست ہے کہ رقص کائنات
یہ پندرہ اگست ہے کہ سہاگ رات
انور جلال پوری نے اپنی اس نظم میں یہ بات واضح
کی ہے کہ ہمارے اسلاف نے یکجہتی کی اعلیٰ مثال پیش کرکے عوام کے ساتھ مل جل کر آزادی
کے لیے جو خواب دیکھا تھا وہ /15اگست کی شکل میں نمودار ہوا۔ان کی اس نظم میں انگریزوں
کے ظلم و جبر کو بیان کیا گیا ہے ساتھ ہی اس نظم میں /15اگست کی ہندوستانیوں کے لیے
جو اہمیت اور وقعت ہے اس کا اظہار ہے۔اس کے اظہارکے لیے انور جلال پوری نے رومان پرور
فضا کا انتخاب کیا ہے جس میں شیرینی،سادگی اور سنجیدگی ہے جس کو پڑھنے کے بعد یہ محسوس
ہوتا ہے کہ /15اگست ایک روشن چراغ کی طرح ہمارے سامنے جل رہا ہے۔اس ضمن کے کچھ اشعار
ملاحظہ ہوں:
یہ صبح
اگ رہی ہے یا کوئی کنواراپن
یہ سج رہا ہے اپنا دیش یا کوئی دلہن
یہ کیٹس کا خیال ہے کہ فکرِ بائیرن
نہیں نہیں یہ پندرہ اگست کا شباب ہے
تمام عمر پی کے مست ہو یہ وہ شراب ہے
ان کی شاعری سیاسی و قومی اور انسان دوستی کی
بہترین مثال پیش کرتی ہے جس میں ایکتا،اتحاد،بھائی چارے پر زیادہ زور دیاگیا ہے۔ہندوستان
میں گنگا جمنی تہذیب کو زندہ رکھنے میں اردو نظموں کا بہت بڑا ہاتھ ہے انھیں کبھی فراموش
نہیں کیا جاسکتا۔ جس میں کیفی اعظمی،علی سردار جعفری، ساحر لدھیانوی، مخدوم محی الدین،
فراق گورکھپوری، فیض احمد فیض،مجاز لکھنوی اور جوش ملیح آبادی وغیرہ جیسے شاعروں نے
اتحاد اور مختلف قوموں کے بھائی چارے پر عمدہ نظمیں تحریر کی ہیں۔ان نظموں سے عوام
و خواص بہت متاثر بھی ہوئے ہیں۔اسی کڑی میں انور جلال پوری نے بھی ہم وطنوں کو اپنی
نظموں کے ذریعے خوبصورت پیغام دیا ہے جس میں ایکتا ہے،اتحاد ہے۔نظم کے چند اشعار ملاحظہ
ہوں ؎
آئو پھر عہد کریں دیش کی رکچھا کے لیے
آئو پھر عہد کریں امن و اہنسا کے لیے
آئو پھر عہد کریں رونقِ دنیا کے لیے
مادرِ ہند کی یکجہتی و ایکتا کے لیے
آئو طے کرلیں کہ اب جنگ نہ ہونے دیں گے
عرصۂ زیست بشر تنگ نہ ہونے دیں گے
انور جلال پوری نے ملک کی سا لمیت اور لوگوں کی کامیابی کے لیے یکجہتی کو ضروری
سمجھا اور یہ بتایا ہے کہ عوام کی فلاح و بہبودی اور ملک کی بقا ایکتا ہی میں ہے۔
انورجلال پوری کی نظم و نثر میں قومی یکجہتی کے پیرائے دلکش انداز میں ملتے ہیں۔ انھوں نے رویندر ناتھ ٹیگور کی گیتانجلی کا منظوم ترجمہ کیا ساتھ ہی شریمد بھگوت کا بھی اردو میںترجمہ کیا ہے۔ان کے یہ تراجم ہند ومسلم اتحاد اور بھائی چارے کی ایک کڑی ہے، جو ملک کے دو مذہبی افراد کے درمیان محبت و اتحاد کے پودے کو ہرا بھراکرنے کی غیر معمولی سعی کرتے ہیں۔انور جلال پوری نے اپنی شاعر میںہندو مسلم اتحاد کو بڑی خوبصورتی سے پیش بھی کیا ہے۔ ان کی شاعری میں قومی یکجہتی، محبت، اخوت اوربھائی چارہ ہے، ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا دھرم نہیں ہے جو انسانیت کا درس نہ دیتا ہو۔ ہر مذہب تمام لوگوں کو آپس میں مل جل کر رہنے کی بات کرتا اور سکھاتا ہے۔ انور جلال پوری کی شاعری میں ہندوستان کی صدیوں پرانی گنگا جمنی تہذیب اور اتحاد و ایثار بہترین سانچے میں ڈھل گئے ہیں۔مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ ہوں :
ہم قومی ایکتا کے راہی ہم کیا جانیں جھگڑا بابا
اپنے دل میں سب کی الفت اپنا سب سے رشتہ بابا
پیار ہی اپنا دین دھرم ہے پیار خدا ہے پیار
صنم ہے
دونوں ہی اللہ کے گھر ہیں مسجد ہو کہ شوالہ
بابا
ہر انساں میں نور خدا ہے ساری کتابوں میں لکھا
ہے
وید ہوں یا انجیل مقدس،ہو قرآن کہ گیتا بابا
مرجانے کے بعد تو سب کا ہوتا ہے انجام ایک سا
دونوں کے ہیں ایک معنی ارتھی ہو کہ جنازہ بابا
ہندومسلم،سکھ،عیسائی،آپس میں سب بھائی بھائی
ہم جتنے بھارت واسی ہیں سب کا ہے یہ نعرہ بابا
انورجلال پوری کی شاعری میں قومی یکجہتی اور
ہندوستانیوں کے میل جول کی بہتات ہے۔ انھوں نے اپنی پوری زندگی قومی یکجہتی اور اس
کے فروغ میں لگادیا۔
انور جلال پوری کبھی کبھی ہندوستان کے حالات و واقعات کو دیکھ کر مایوس بھی ہوتے تھے اور کبھی کبھی انھیں یہ خیال بھی آتا تھا کہ ہمارے ملک سے ہندومسلم اتحاد غائب ہورہا ہے۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ ہمارے درمیان اگر یکجہتی رہے گی تو ہم اور ہمارا ملک ترقی کرے گا اور اگر یکجہتی کا فقدان ہوگا تو ملک اور ملک کے تمام افراد کا نقصان ہوگا۔ اس ضمن کے یہ اشعار ملاحظہ ہوں :
ہر آدم آپس کا یہ جھگڑا میں بھی سوچوں تو بھی سوچ
کل کیا ہوگا شہر کا نقشہ میں بھی سوچوں تو بھی
سوچ
پیار کی شبنم ہر آیت میں،پریم کا امرت ہر اشلوک
پھر کیوں انساںخون کا پیاسا میں بھی سوچوں تو
بھی سوچ
ایک خدا کے سب بندے ہیں اک آدم کی سب اولاد
تیرا میرا خون کا رشتہ میں بھی سوچوں تو بھی
سوچ
بس اسی انسانیت کو ایک کنبہ جان کر
دوسروں کے دکھ میں بھی آنسو بہانا چاہئے
کاش یہ سمجھیں گھر کو جلانے والے بھی
پیار کا بس اک دیپ جلانا کتنا مشکل ہے
غرض کہ انور جلال پوری کو اس بات کا یقین تھا کہ جو ملک میں محبت اور اتحاد قائم کرنا چاہتے ہیں ان کے راستے میں رکاوٹیں تو بہت آئیں گی لیکن وہ کبھی نہ کبھی ضرور کامیاب ہوں گے۔ محبت ایک ایسی چیز ہے جو نفرت پر حاوی ہوجاتی ہے۔ ان کا یہ ایک شعر ملاحظہ ہو :
تم پیار کی سوغات لیے گھر سے تو نکلو
رستے میں تمہیں کوئی بھی دشمن نہ ملے گا
انورجلال پوری کی زندگی اور ان کی تمام تخلیقات
اس بات کی ضامن ہیں کہ وہ قومی ترقی کے ساتھ انسانی ترقی،انسانیت اوربھائی چارہ، اخوت
و محبت،ہمدردی اور اخلاقی اقدار کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ یہ سارے جذبات و خیالات انور جلال
پوری کی شاعری اور ان کے ذہنی و فکر و فلسفے کی بنیاد ہیں۔ اس لیے وثوق سے کہاجاسکتا
ہے کہ انور جلال پوری کی شاعری قومی یکجہتی اور ہندوستانی تہذیب و تمدن کی ایک جیتی
جاگتی مثال ہے۔
مراجع و مصادر:
- ڈاکٹرذاکر:حسین،قومی یکجہتی اور اردو شاعری
- سید مجاور :حسین،اردو شاعری میں قومی یکجہتی کے عناصر
- انور جلال پوری کی شاعری کا اجمالی مطالعہ(مضمون) حبیب ہاشمی،خوشبو کی رشتہ داری
- سیکولرزم کے مضبوط سپاہی انور جلال پوری(مضمون) شبیہ الحسن نقوی،جدید مرکز لکھنؤ
- اردو اور مشترکہ ہندوستانی تہذیب (مرتب) ڈاکٹر کامل قریشی
- ڈاکٹر اسلم الہ آبادی،انور جلال پوری شخصیت اور ادبی جہات
Mahboob
Alam
University of Hyderabad
Hyderabad- 500046 (Telangana)
Mob.: 9506713607
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں