25/8/23

ادبی تحریکات و رجحانات میں اردو تنقید:تنویر احمد

ادب سماج کا آئینہ ہے اور انسانی سماج مختلف سماجی، سیاسی اور معاشی تبدیلیوں اور انقلابات کی آماجگاہ ہے ہر دور میں سماج کی عکاسی کا بہترین نمونہ اس وقت کے ادبی فن پاروں میں ملتا ہے ایک کامیاب فن پارہ یا حقیقی ادب وہی ادب کہلاتا ہے جو اپنے دور، اپنے عہد کی تہذیب و تمدن کی صحیح عکاسی کرتا ہو۔جمود و یکسانیت اور تحریکات و انقلابات یہ سب ہماری سماجی سیاسی و ادبی تاریخ کا حصہ ہیں۔ تغیر و تبدل انسانی فطرت میں ہے، انسانی سماج میں جب بھی جمود ویکسانیت نے ڈیرا ڈالا ہے ٹھیک اسی وقت ردعمل کے طور پر جمود و یکسانیت کو مٹاتے ہوئے انقلاب برپا ہوئے ہیں۔ سماج کی یک رنگی اور یکسانیت کو مٹا کر ہمہ رنگی اور حرکت کے عمل تک لانے میں ایک تحریک یا رجحان کارفرما ہوتا ہے۔ تحریک اور رجحان کا زندگی کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز،نئے رجحانات، نئی کروٹیں،نئی امنگیں سب تحریک سے ہی وابستہ ہوتے ہیں۔ تحریک و رجحان سماج میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ نئے غور و فکر کو جنم دیتے ہیں۔

 آگے بڑھنے سے پہلے تحریک اور رجحان میں فرق واضح کر دینا مناسب ہے۔

اصل میں کسی بھی جمود کے رد عمل میں پہلے پہل ایک رجحان بنتا ہے جو دھیرے دھیرے ایک مقصد کے تحت فروغ پاتے ہوئے ایک مکمل تحریک کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔

رجحان اور تحریک کا ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ رجحان اکثر نمایاں اور تیز رفتار نہیں ہوتے اس کے برعکس تحریک ہمیشہ تیزوتند ہوتی ہے۔

تحریک ایک واضح مقصد کے تحت باضابطہ ایک سمت میں چلتی ہے جبکہ رجحان کا پہلے سے طے شدہ مقصد نہیں ہوتا اور نہ ہی کوئی واضح سمت ہوتی ہے۔

رجحان کو ہم انفرادیت اور تحریک کو اجتماعیت سے وابستہ کر سکتے ہیں ۔

ہمارے یہاں اردو ادب کے فروغ اور ترقی میں مختلف ادبی تحریکات و رجحانات نے گراں قدر خدمات سرانجام دی ہیں۔ اردو ادب کی تاریخ میں ادبی تحریکات اور رجحانات کی ایک شاندار روایت رہی ہے ۔خاص طور پر انیسویں صدی کے نصف آخر سے اب تک اردو ادب میں تحریکات و رجحانات کی ایک خوبصورت کڑی نظر آتی ہے جس میں سرسید، رومانیت، ترقی پسند تحریک کے ساتھ ساتھ جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے رجحانات قابل ذکر ہیں۔ان تمام تحریکات و رجحانات نے اردو تنقید کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اردو میں ادبی تنقید کاآغاز ایک بڑی اصلاحی و ادبی تحریک،علی گڑھ تحریک کے زیر سایہ ہوا، اور آگے چل کر سر سید تحریک کے ساتھ ساتھ رومانی رجحان، ترقی پسند تحریک اور پھر جدیدیت اور مابعد جدیدیت میں اردو تنقید خوب فروغ پاتی ہے اور اپنا ادبی وجود بھی قائم کر لیتی ہے۔آج اردو تنقید کی جو بیل پروان چڑھی ہے اس کی جڑوں کو مختلف ادبی تحریکوں اور رجحانوں نے سینچا ہے۔مختلف ادبی تحریکات اور رجحانات کے زیر اثر اردو تنقید کی حیات میں جو رنگ بھرے گئے ہیں اور ابھی تک تشنہ لب ہیں انہیں ادبی حلقوں میں روشناس کروانا بہت ضروری ہے۔

اردو ادب میں علی گڑھ تحریک سے قبل بھی ادبی تحریکات و رجحانات کی باضابطہ روایت موجود ہے لیکن ان تحریکات ورجحانات میں اردو تنقید کا وجود نہ ہونے کے برابر ہے اور ہمیں علی گڑھ تحریک سے قبل اردو تنقید کے چند بکھرے ہوے بے ربط و بے ضبط نقوش تذکروں، تقریظوں، مشاعروں وغیرہ میں ملتے ہیں۔ میں اپنے اس مضمون میں علی گڑھ تحریک اور اس کے بعد وجود میں آنے والی مختلف تحریکات و رجحانات میں اردو تنقید کی صورتِ حا ل پر گفتگو کر رہا ہوں۔اتنی بات تو ہر خاص و عام جانتا ہے جب کہ 1857کی پہلی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد پورا ملک اور خصوصی طور پر مسلمان ظلم کی تاریکی میں اپنی جان و مال کی بھیک مانگنے پر مجبور ہو گئے تو قدرت کی طرف سے ان ناموافق حالات میں ایک کشادہ ذہن وگہری فہم کا مالک نہایت ہی دوراندیش رہنما قومی خدمت اور ملت کی مدد کو آپہنچا۔جسے دنیا سر سید احمد خان کے نام سے جانتی ہے، سر سید 1857کے بعد پیدا ہونے والے ناقابل بیان جبرو تشدد اوربے بسی و ناکامی کے حالات سے قوم کو باہر نکال کر دوبارہ وقار و عظمت دلانے میں ہمیشہ سر گرداں رہے۔ہزار اختلاف اپنی جگہ لیکن سرسید نے جس دور میں جس انداز سے قومی خدمت کا انسانی فریضہ ادا کیا اس کی نظیر ملنا بہت مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ سرسید نے قوم کو نااُمیدی وبے بسی کے دلدل سے تعلیم و تدریس،علم و عمل کے ذریعے نکال کر قومی وقار و عظمت بحال کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ چونکہ 57 کے بعد سرسید کی سرپرستی میں شروع ہونے والی علمی و ادبی اصلاحی تحریک کا مرکز علی گڑھ کی سر زمین تھی اس لیے سر سید تحریک کو علی گڑھ تحریک بھی کہا جاتا ہے۔ سماج کے تمام تر شعبہ جات کی تعمیر و ترقی کے ساتھ ساتھ اس تحریک کا علم و ادب کے فروغ میں بھی بڑا حصہ ہے۔ جس کی زندہ جاوید مثال آج ہمارے سامنے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہے۔ علی گڑھ تحریک نے بے شمار علمی و ادبی اصلاحات سرانجام دے کر قوم کوجدیدتعلیم اور علم و ادب کی دولت سے مالا مال کیا۔ خصوصی طور پر اردو ادب پر علی گڑھ تحریک کے ناقابلِ فراموش احسانات ہیں۔ اردو فکشن، اردو شاعری،غیر افسانوی اردو ادب اور بالخصوص اردو تنقید کے جہان میں علی گڑھ تحریک کے زیر سایہ ایک نئی صبح اور نیا سورج طلوع ہوا۔ ابتدائی نقوش کے بعد علی گڑھ تحریک کے دورانیے میں ہی1880 میں محمد حسین آزاد کے تصنیف کردہ تذکرہ ’آب حیات‘میں اردو تنقید کی پو پھوٹتی ہے اور پھر آگے چل کر اسی تحریک کے سائے میں سر سید کے قریبی ساتھیوں میں سے ایک خواجہ الطاف حسین حالی نے ’مقدمہ شعر و شاعری‘ تصنیف کر کے نہ صرف اردو تنقید کو دماغی شکل عطا کی بلکہ باضابطہ طور پر اردو تنقید کا آغاز بھی کیا، اوراردو تنقید ایک صنف کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔  علی گڑھ تحریک میں اردو تنقیدنے نہ صرف باقاعدہ آغاز کیابلکہ ترقی کے ابتدائی مدارج بھی طے کیے۔علی گڑھ تحریک میں تنقید کی پرورش کرنے والوں میں دو نام نہایت ہی اہمیت کے حامل ہیں جنھوں نے نظری و عملی تنقید کو اساسی قوت عطا کی۔ میری مراد مولانا الطاف حسین حالی اور مولانا شبلی نعمانی سے ہے۔ان دو جلیل القدر بزرگوں کی ہی وجہ سے اردو تنقید نے نظریاتی اور عملی دونوں زاویوں سے اپنا وجود قائم کیا:

 ’’حقیقت یہ ہے کہ علی گڑھ تحریک سے پہلے ادبی تنقید صرف ذاتی تاثر کے اظہار تک محدود تھی سرسید کے شعورفن کی پہلی کرن بیدار ہوئی توانہوں نے ادب کو بھی زندگی کے مماثل قرار دیا اور اس پر نظری اور عملی زاویوں سے تنقید کی۔چنانچہ سرسید نے تنقید کی کوئی باضابطہ کتاب نہیں لکھی۔ تاہم ان کے رفقا میں سے الطاف حسین حالی نے مقدمہ شعر و شاعری لکھ کر علی گڑھ تحریک کو بوطیقا مہیا کر دی اور اس کا عملی اطلاق یادگارغالب میں کیا۔ شبلی کے تنقیدی نظریات ان کی متعدد کتابوں میں موجود ہیں۔ اور ان نظریات کی عملی تقلید شعر العجم ہے‘‘

(اردو ادب کی تحریکیں ابتدا تا 1975: ڈاکٹر انور سدید،ص 318)

جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے کہ مولانا حالی نے’ مقدمہ شعر و شاعری‘ لکھ کر اردو تنقید کو اساس فراہم کی۔ مولانا نے مقدمے کے پہلے حصے میں بڑی تفصیل کے ساتھ ادبی فن پاروںکے اصول و ضوابط بیان کیے اور دوسرے حصے میں اپنے بیان کردہ اصولوں کی روشنی میں اصناف ادب پر عملی تنقید کا نمونہ پیش کیا۔ مولانا کی سوانحی تصنیف ’یادگار غالب‘ میں عملی تنقید کا بہترین نمونہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ حالی نے مقدمہ میں اردو شعریات کے لیے سادگی،اصلیت اور جوش کو لازمی قرار دیا ہے اور فنکار میں وسیع مطالعے،اعلی تخیل اور تفحص الفاظ جیسے اوصاف گنوائے ہیں۔حالی کے نزدیک فن پارے میں معنی کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔حالی کے بعد علی گڑھ تحریک میں تنقید کے حوالے سے  دوسرا اہم نام مولانا شبلی نعمانی کا ہے۔ان کی شاہکار تصانیف ’شعرالعجم‘ اور ’موازنہ انیس و دبیر‘ اردو تنقید میں نظریاتی اور عملی تنقید کے حوالے سے خاصی اہمیت رکھتی ہیں۔مولانا شبلی کے نزدیک الفاظ معنی کے مقابلے میں نمایاں اہمیت رکھتے ہیں۔مولانا شبلی کے یہاں جمالیاتی عنصر نمایاں ہے ۔اردو میں جمالیاتی تنقید کے حوالے سے مولانا شبلی منفرد مقام رکھتے ہیں۔اس کے علاوہ علی گڑھ تحریک کے ہی پرچم تلے تاثراتی تنقید کے رجحان نے واضح شکل و صورت اختیار کی۔الغرض اردو تنقید جو علی گڑھ تحریک سے قبل عام طور پر تذکروں میں بکھری ملتی تھی وہ اب سرسید تحریک کے دامن میں ایک شانداراور روشن آغاز کرتے ہوئے اپنا اچھا خاصا ادبی وجود بھی قائم کر لیتی ہے۔علی گڑھ تحریک میں ادبی منظر نامے پر اصلاح سماج، مقصدیت اور منطقیت و استد لال کے عنصر نمایاں تھے۔ اس تحریک میں سرسید کے سائنٹفک زاویے کے ساتھ ساتھ حالی کی فہم و ادراک اور اصلاح معاشرہ کی ترغیب اور مولانا شبلی کے جمالیاتی نظریہ نقد نے اردو تنقید کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔

علی گڑھ تحریک کے بعد اردو ادب میں رومانی رجحان دیکھنے کو ملتا ہے اصل میں علی گڑھ تحریک کی منطقیت اور مقصدیت کے جواب میں رومانیت کا رجحان پروان چڑھتا ہے۔ رومانیت کی بنیادی فکر ادب میں جذبات کے بے ساختہ اظہار،قاری کی اصلاح کے بجائے اس کو مسرت پہنچانا وغیرہ ہے۔رومانی ادب میں تخیل کی بنیاد پر شاعری کو الہامی و وجدانی کہا گیا ہے اور جذبات کی انتہا رومانیت کی پہچان ہے۔حالانکہ ہمارے یہاں اردو ادب میں رومانی انداز اور رومانیت کا وجود اختر شیرانی، علامہ اقبال،عبدالقادر سروری اور محمد حسین آزاد کے دور سے ہے لیکن ایک رجحان کی شکل میں رومانیت نے علی گڑھ تحریک کی ٹکر میں فروغ پایا اور پورے اردو ادب کو اپنی لپیٹ میں لینے کی کوشش کی اور شاید ایک حد تک وہ مختلف اصنافِ ادب پر حاوی بھی رہا لیکن بہت زیادہ عرصے تک نہیں۔ باقی اصناف ادب کے ساتھ ساتھ رومانی رجحان کے دامن میں اردو تنقید کی بھی آبیاری ہوئی۔ چونکہ رومانی ادیب و نقاد تخیل اور جذبات کو اساسی پہلو قرار دے رہے تھے اور یہ ہونا بھی تھا کیونکہ رومانی رجحان کا مقصد ہی اردو ادب کو صرف اور صرف حد سے تجاوز عقلیت پسندی سے آزادی دلانا تھا اس لیے رومانیت کے رجحان میں اردو تنقید کی ایک نئی جہت دیکھنے کو ملتی ہے۔ جسے ہم تخیل،جذبہ اور مسرت سے منسوب کر سکتے ہیں حالانکہ شعر و ادب میں تخیل اور جذبات کی باتیں تو بہت پرانی ہیں، لیکن اردو تنقید کے میدان میں اس پہلو کو رومانی رجحان والوں نے مرکزی اہمیت دی۔رومانی رجحان میں اردو تنقید نے علی گڑھ تحریک کی عقلیت اور اصلاحی رنگ سے نکل کر احساس و جذبات،سرور و مسرت اور انفرادیت کے رنگ میں خوب ترقی کی۔رومانیت کے رجحان میں رومانی نقاد کی حیثیت سے سجاد حیدر یلدرم،نیاز فتح پوری،عبدالرحمن بجنوری،مجنوں گورکھپوری اور مہدی افادی کے نام قابل ذکر ہیں۔نیاز فتح پوری کی ’انتقادیات‘، مہدی افادی کی ’افادات مہدی‘، مجنوںگورکھپوری کی’خیالستان‘ اور ’تنقیدی حاشیے‘ وغیرہ اہم تصانیف ہیں۔یہاں ایک بات ذکر کرتا چلوں کہ اردو ادب میں تاثراتی، رومانی اور جمالیاتی دبستانوں یا ان کے ادبا و شعرا اور ناقدین میں کوئی حتمی اور واضح فرق کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ وقتاً فوقتاً ایک ہی ادیب یا نقاد ان تمام دبستانوں سے جڑا رہا ہے اس لیے یہاں رومانیت کے رجحان میں ذکر کیے گئے نقاد جمالیاتی اور تاثراتی تنقید میں بھی برابر ذکر ہوتے ہیں۔

علی گڑھ تحریک اور رومانی رجحان کے بعد اردو ادب ایک بڑی انقلابی تحریک ترقی پسند تحریک کے زیر اثر پروان چڑھتا ہے۔ اردو ادب یا ہندوستان میں ترقی پسند تحریک کا باقاعدہ آغاز 1936 میں لکھنؤ میں منعقد ہونے والی ترقی پسند تحریک کی پہلی قومی کانفرنس سے ہوتا ہے۔ ترقی پسند تحریک کا بنیادی مقصد کارل مارکس کے نظریات پر عمل پیرا ہوتے ہوئے دنیا بھر میں سماجی سیاسی معاشی ناانصافی اور نابرابری کے خلاف لڑتے ہوئے سماج کے دبے کچلے مظلوم طبقے کے حقوق کی پاسداری کرنا تھا۔اس سلسلے میں پیرس میں دنیا بھر کے ادباو شعرا کی ایک کانفرنس بھی منعقد ہوئی، جس میں مشترکہ طور پر یہ اعلان کیا گیاکہ ادب بھی غیر جانبدار نہیں رہ سکتا اور ادبی فن پاروں میں سماج کے دبے کچلے طبقے کی نمائندگی ضروری ہے۔اسی دوران  ہندوستان کے چند نوجوان جو اعلی تعلیم کے حصول کے لیے بیرون ملک خصوصی طور پر لندن میں مقیم تھے ان کے ذہن بھی جاگ اٹھے اور انھوں نے ہندوستانی سماج و ادب میں بھی ترقی پسند تحریک کی ضرورت کو ناگزیر سمجھتے ہوئے یہاں ترقی پسند تحریک کی بنیاد ڈالنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ان نوجوانوں میں ملک راج آنند، سجاد ظہیر، محمد دین تاثیر اور جیوتی گھوش وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ پہلے پہل جب انیس سو تینتیس میں سجاد ظہیر اور ان کے چند ساتھیوں کا ’انگارے‘نام کا افسانوی مجموعہ شائع ہوا تو اسی وقت انقلابی تحریک کی دستک شروع ہو گئی تھی پھر سجاد ظہیر اور ان کے ساتھیوں کی انتھک کوششوں سے بالآخر لکھنؤ کے اجلاس سے باضابطہ تحریک کا آغاز ہوتا ہے۔ اس وقت ہندوستان انگریزوں کے قبضے میں تھا اور یہاں غیور عوام پر ظلم وتشدد کا بازار گرم تھا۔ ایسے ماحول میں انقلابی ترقی پسند تحریک نے عوام میں بہت جلد مضبوط پکڑ بنا لی۔ ترقی پسند تحریک کے پہلے ہی اجلاس میں اس کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں ترقی پسند ادبا و شعرا اور دانشوروں نے دوٹوک اعلان کیا کہ اب باقی دنیا کی طرح ہمیں بھی ادبی جمود کو توڑنا ہوگا۔اور ادبی فن پاروں میں دبے کچلے مظلوم لوگوں کی جانب داری،کسان اور مزدور طبقے کے حقوق کی پاسداری ہمارا واحدمقصد رہے گا۔کانفرنس میں ایک خاص نظریے(ماکسزم) کے کچھ اہم نکات کی نشاندہی کی گئی جن کی روشنی میں ادب میں سماجیات کی ترجمانی کو اور غیر جانبداری کے بجائے جانبداری کو فوقیت دی جانے لگی۔یہی وہ نظریہ ہے جسے ترقی پسند مصنّفین نے ادب برائے زندگی کہا ہے۔ترقی پسند تحریک میں اردو ادب کی ایسی کوئی صنف نہیںہے جو متاثر نہ ہوئی ہو اور کم یا زیادہ ترقی پسند راہ اختیار نہ کی ہو۔ترقی پسند تحریک اردو ادب کی سب سے زیادہ موثر اور دیرپا تحریک ہے۔ترقی پسند اردو ادیبوں،شاعروں اور نقادوں نے اپنی تخلیقات اور تحقیق و تنقید میں ایک خاص مقصد اور جانبداری کے عنصر کو نمایاں رکھایہی وجہ ہے کہ ترقی پسند تحریک کے دورانیے میں ادبی تخلیقات میں موضوع اور مواد کو مرکزی حیثیت حاصل رہی اور زبان و بیان،اسلوب اور ہیئت وغیرہ حاشیے پر رہے۔ اردو تنقید جو اب تک علی گڑھ تحریک کے دامن میں منطقیت و مقصدیت اور رومانی رجحان میں جمالیاتی اور رومانی لبادہ اوڑھے ہوئے تھی۔ترقی پسند تحریک میں ایک الگ اور منفرد انداز اختیار کر لیتی ہے:

’’اردو تنقید میں ترقی پسند تحریک اور اس کے علمبرداروں نے ایک نئی روح پھونکی،ادب کو ایک نئے زاویہ نظر سے دیکھنا شروع کیا۔اور اس کو پرکھنے کے لیے نئے معیار قائم کیے۔انہوں نے ادب کو سماجی زندگی کی پیداوار سمجھا اور یہ بات ذہن نشین کرائی کہ سماجی زندگی کے ساتھ ساتھ اس کا بدلنا ضروری ہے اور ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ ادب بھی سماج کو بدلتا ہے گویا وہ اس کے تنقید حیات ہونے کے قائل تھے۔‘‘

(اردو تنقید کا ارتقا:عبادت بریلوی، ص353)

ترقی پسند تحریک نے اردو تنقید کو وسیع پیمانے پر فروغ دیا۔ کیونکہ ترقی پسند تحریک میں جب ادب برائے ادب اور ادب برائے زندگی کی بحث چھڑی تو اس بحث میں اردو تنقید کے مختلف دبستان زیر بحث آے۔ اور یہیں سے ادبی تنقید، ترقی پسند تنقید، جمالیاتی تنقید، نفسیاتی تنقید، تاثراتی تنقید،عمرانی تنقید حتیٰ کہ اردو تنقید کے تمام دبستانوں اور نظریوں پر تفصیلی بحث کا آغاز ہوا حالانکہ نفسیاتی نظریہ تنقید کا وجود بہت پہلے سے ہے اور ادبی و جمالیاتی پہلو بھی ترقی پسندی کی دین نہیں ہیں بلکہ پہلے سے موجود تھے۔ اصل بات یہ ہے کہ ترقی پسند تحریک میں ادب برائے زندگی اور ادب برائے ادب کی بحث میں ادبی تنقید کے سارے نظریات و تصورات کی تشکیلِ نو کا سلسلہ شروع ہوا اور اس طرح سے اردو تنقید کے وہ تمام پہلو بھی عیاں ہو گئے جو ابھی تک پردہ خفا میں تھے۔ترقی پسند تحریک کے زیر سایہ تنقید کے میدان میں ترقی پسند تنقید کا نظریہ تو وجود میں آیا ہی جس کے مطابق یا جس تنقید میں ادب کو جانبدار ہونا اور سماج کی ترجمانی کرنا ہی اصلی ادب مانا گیا۔ اور اسی نظریے کے مطابق ادبی فن پاروںکو فوقیت دی جانے لگی۔لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ترقی پسند تحریک سے قبل ادب اور زندگی کا کوئی واسطہ ہی نہ تھا بلکہ ادب تو سماج کا ترجمان ہے اور روز اول سے ہی ادب اور زندگی لازم و ملزوم ہیں لیکن ترقی پسند تحریک میں ادب برائے زندگی کی ایک الگ اور نئی تعریف یا تشریح کی گی،جس میں ایک خاص سیاسی نظریے کا عمل دخل نمایاں تھا اور ترقی پسند نقاد اسی تشریح و توضیح کے مطابق ادب کو پرکھنے و فیصلہ صادر کرنے لگے۔اس لیے کہا جا سکتا ہے ترقی پسند تحریک میں ادب برائے زندگی کی تشریح اور ترقی پسند تحریک کے اصول و قواعد اور پھر اس وقت کے سماجی منظر نامے کی روشنی میں بالعموم اردو ادب اور بالخصوص اردو تنقید کی ایک نئی دنیا وجود میں آئی

’’ترقی پسند تحریک نے شاعری اور افسانہ نگاری  کے علاوہ اردو زبان کے جس شعبے کو سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ادبی تنقید ہے ۔اگر یہ کہا جائے تو کچھ بے جا نہ ہو گا کہ اس تحریک کی بدولت اردو تنقید کو ایک نیا ذہن ، ایک نیا مزاج اور ایک منفرد کردار نصیب ہوا۔‘‘

(اردو میں ترقی پسندادبی تحریک: خلیل الرحمن اعظمی، ص 243)

ترقی پسند تحریک کے نمائندہ نقادوں میں اختر حسین رائے پوری، سجاد ظہیر، ڈاکٹر عبدالعلیم، علی سردار جعفری، احتشام حسین، ڈاکٹر محمد علی صدیقی، محمد حسن وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ یہ سچ ہے کہ ایک بڑی تحریک جب بھی اپنے اختتام کو پہنچتی ہے تو اس کے اختتام کے باوجود طویل عرصے تک اس کے اثرات باقی رہتے ہیں یا اس کی پرورش کردہ فکر کا وجود باقی رہتا ہے یہی معاملہ ترقی پسند تحریک کا ہے انیس سو چھپن کے سالانہ قومی اجلاس کے ساتھ یہ تحریک اپنے اختتام کو پہنچ گئی تھی۔لیکن اس کے باوجود آج بھی ترقی پسند نقوش،رجحان یا ترقی پسند نظریہ سماج و ادب میں موجود ہے۔

بہرحال ترقی پسند تحریک کے بعد  60کی دہائی میں شمس الرحمن فاروقی کی قیادت میں اردو ادب میں ایک نئی گونج سنائی دی، جسے دنیائے ادب میں جدیدیت کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جدیدیت کے حوالے سے گفتگو کو آگے بڑھانے سے قبل اس بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ مغربی جدیدیت اور ہمارے یہاں اردو ادب میں جدیدیت کے رجحان میں ایک واضح فرق ہے۔مغرب میں جدیدیت روشن خیالی پر قائم تھی اور ترقی پسندی اس کا ایک جوہر تھا۔ جبکہ اردو میں جدیدیت نے اپنی پہچان ترقی پسندی کی ضد کے طور پرکروائی:

’’اردو میں جدیدیت ترقی پسندی کی ضدکے طور پر سامنے آئی جبکہ مغرب کی جدیدیت میں ترقی پسند رویہ ایک اہم عنصر تھا۔اس لیے یہ گمان غالب ہے کہ دنیا میں جدیدیت روشن خیالی کا حصہ تھی اور ترقی پسندی اس کا ایک جوہر تھا۔‘‘

(اردو میں ما بعد جدید تنقید:الطاف انجم،ص 62)

خواجہ الطاف حسین حالی کے بعدجدیدیت کے امیر کارواں شمس الرحمٰن فاروقی نے اردو تنقید کو نظری اور عملی دونوں زاویوں سے سنوارنے اور نکھارنے کا کام بحسن خوبی سر انجام دیا۔ جدیدیت کے وجود میں آنے کی دو اہم وجوہات ہیں ایک تو ترقی پسند تحریک کی خارجیت،کٹر پسندی، اجتماعیت اور سیاسی یک رخی کے ردعمل میں اس رجحان نے جنم لیا، دوسرے اس وقت کی سماجی صورت حال، کیونکہ یہ دور ہندوستان کی آزادی اور تقسیم کے ٹھیک بعد کا دور ہے اس لیے تقسیم ملک اور فسادات نے اس وقت کے ادیب و فنکار کو ذات کی اتھاہ گہرائیوں میں رہنے کے لیے مجبور کر دیا۔تقسیم کے خونی کھیل کے بعد جب اردو تخلیق کاروں نے قلم اٹھایا تو انتشار و بحران، تنہائی و تاریکی،سماجی مسائل و مصائب،درد و کرب، بے بسی و بے چارگی،بے کیفی و بے زاری جیسے موضوعات فن پاروں میں سمونے لگے۔انفرادی آزادی،داخلی جمالیات اور متن کی خود مختاری کے عناصر جدیدیت کا خاصہ بنے۔ اس رجحان سے وابستہ تخلیق کاروں نے خارجی حالات و واقعات سے انحراف کر کے انتہائی ذاتی و داخلی موضوعات کو اپنایا اور اسلوب بیان کی سطح پر تجریدی اور علامتی اظہار بیان کو اہمیت دی گئی۔جدیدیت کے زیر سایہ جو تنقیدی نظریات وجود میں آئے وہ بھی انفرادی خودمختاری،داخلی آزادی،لسانی ترتیب اور اسلوب کو فن پارے میں مقدم قرار دیتے ہیں۔جدیدیت میں نمایاں طور پر اپنی شناخت بنانے والے تنقیدی نظریات میں ہیئتی تنقید،نئی تنقید، اسلوبیاتی تنقید وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔جدیدتنقید میں شعری فن پاروں میں موزونیت،اجمال،ابہام اور جدلیاتی نظام کو مرکزی حیثیت حاصل ہے جبکہ نثری تخلیقات میں اساطیری طرز اظہار ،علامتی و تمثیلی تحریروں کو فروغ ملا۔ جدیدیت میں اردو تنقید نے فن پارے میں فنکار کی داخلیت، وحدانیت، کلیت پسندی، اساطیری اور استعاراتی اسلوب،ابہام،تجریدیت و آفاقیت وغیرہ کو فوقیت دی۔ جدید نقادوں نے اجتماعیت کے بجائے انفرادیت کو ترجیح دی۔ اس رجحان میں تنقید نے فنکار کے تجربات و احساسات اور طریقہ اظہار کو اساسی اہمیت دی۔ جدیدیت میں اردو تنقید نے گزشتہ تمام مراحل سے آگے بڑھتے ہوئے اپنے دامن کو اور وسیع کر لیا،جدیدیت کے نقادوں نے کلاسیکیت اور تاریخی پہلوؤں پر بھی زور دیا اور ادب کو محض کسی ایک طبقے کی ترجمانی کرنے کی روایت سے باہر نکال کر ادبیت کے پیمانے پر پرکھا۔اس رجحان میں تنقید نے ادب کو پروپیگنڈا بننے سے روک کر اصلی معنوں میں زندگی کی ترجمانی کرنے کی ترغیب دی۔جدیدیت کے معتبر نقادوں میں شمس الرحمن فاروقی، شمیم حنفی، فہیم اعظمی وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں ان سے پہلی صف کے نقادوں میں کلیم الدین احمد اور آل احمد سرور نے بھی جدیدیت میں پنپنے والے تنقیدی زاویوں کی خوب حوصلہ افزائی کی ہے۔

جدیدیت کے ساتھ ساتھ گوپی چند نارنگ کی قیادت میں مابعد جدیدیت کا رجحان وجود میں آیا اردو تنقید مابعد جدیدیت میں بھی پوری آب و تاب کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔اردو میں مابعد جدیدیت کا دور 80کی دہائی سے شروع ہوتا ہے۔مابعد جدیدیت کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ نہ تو ترقی پسند تحریک کی طرح کسی واضح سیاسی نظریے کی تحریک ہے اور نہ ہی جدیدیت کی طرح کوئی غیر سیاسی رجحان ہے بلکہ یہ ایک ثقافتی صورت حال ہے جو تمام تر نظریات کی حتمیت اور کلیت کو رد کرتی ہے:

’’مابعد جدیدیت نہ ترقی پسندی کی ضد ہے اور نہ جدیدیت کی اور چونکہ یہ پہلے سے چلے آ رہے نظریوں کی ادعایت کو رد کرنااور طرفوں کو کھولنے والا رویہ ہے،اس کی کوئی بندھی ٹکی فارمولائی تعریف ممکن نہیں ہے۔اس اعتبار سے دیکھا جائے تو مابعد جدیدیت ایک کھلا ڈلا ذہنی رویہ ہے تخلیقی آزادی کا۔‘‘

(جدیدیت کے بعد:گوپی چند نارنگ، ص31)

مابعد جدیدیت کی فکری اساس پس ساختیات، نسوانیت، نئی تاریخیت، تکثیریت، بین المتونیت اور مقامیت جیسے اوصاف پر قائم ہے۔مابعد جدیدیت میں مختلف آئیڈیالوجیکل زاویوں کو مناسب اور نمایاں مقام حاصل ہے۔ اس رجحان کا ایک اہم ادبی زاویہ تخلیقیت کی آزادی ہے،حالانکہ یہ نظریہ جدیدیت کے رجحان میں بھی موجود تھا لیکن وہاں پر صرف تخلیق کار کو اپنی داخلیت کے اظہار کی آزادی تھی۔ جبکہ مابعد جدیدیت میں مصنف، متن، قاری، اور قرأت سب کے حوالے سے تخلیقیت کو آزادی حاصل ہے۔ مصنف موضوع اور اسلوب کے حوالے سے،قاری متن کے اخذ معنی کے معاملے میں پوری طرح خودمختار ہے۔قاری اور قرأت کی آزادی کی ہی وجہ سے مابعد جدیدیت میں متن پر متن کی تخلیق کا نظریہ پروان چڑھا۔ مابعد جدیدیت میں جو تنقیدی تصورات ادبی منظر نامے پر نمایاں ہوئے ان میں پس ساختیات،نئی تاریخیت، قاری اساس تنقید، اکتشافی تنقید،تانیثی تنقید اور بین المتونیت قابل ذکر ہیں۔ مابعد جدیدیت نقاد وں کے یہاں بین المتونیت کی خاصی اہمیت ہے، وہ صرف فنکار کی ذات کے تعلق سے معنی نہیں دیکھتے بلکہ وہ معنی کی تشکیل میں سماجی، ثقافتی اور تاریخی پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھتے ہیں۔ مابعد جدید تنقید فنکار کی داخلیت کو مناسب حد تک قابل قبول مانتے ہوئے فن پارے کے خارجی عوامل و عناصر پر بھی نظر رکھتی ہے۔ اس رجحان میں قاری اساس تنقیدی نظریے میں قاری کو مرکز بنا کر قرأت کے طور و اقسام اور ادبی متون کی تفہیم میں متن کی قرأت کے ساتھ ساتھ قاری کی اہمیت کو مسلم مانا گیا ہے۔نئی تاریخیت میں فن پارے کے لیے جدید تصورات کے ساتھ اپنے زمانے کا پابند رہناضروری ہے۔ نئی تاریخیت میں ادب اور تاریخ کے باہمی تعلق پر زور رہتا ہے۔ مابعد جدیدیت میں ادبی تنقید نے اساطیری عناصر اور رومانیت پسندی کے مقابل حقیقت نگاری کو اہمیت دی ہے۔مابعد جدیدیت تنقید فن پارے میں ہر طرح کی طرز فکر کو مناسب فنی وسائل کے ساتھ پیش کرنے کی حامی ہے۔مابعد جدیدیت کے نقاد نہ تو کسی ایک نظریہ تنقید کی قید میں ہیں اور نہ ہی کسی خاص نظریہ کی تردید میں مشغول ،بلکہ مابعد جدیدیت نقاد ایک بہترین توازن قائم رکھتے ہوئے ادب کو محض ادبیت کے پیمانے پر پرکھ رہے ہیں۔سیدھی بات یہ ہے کہ اصل حقیقت کا جمالیاتی و فنی دروبست کے ساتھ اظہار مابعد جدیدیت کا خاصہ ہے۔ مابعد جدیدیت کے نقادوں میں گوپی چند نارنگ، حامدی کاشمیری، وہاب اشرفی، ابوالکلام قاسمی، ناصر عباس نیر، قاضی افضال حسین،عتیق اللہ اور قدوس جاوید وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

Tanveer Ahmad

Research Scholar, Dept of Urdu

Delhi University

Delhi- 1100007

Mob.: 6004999352


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...