رضوان
خان: بدنام
نظر صاحب آپ اپنے اور والدین کے بارے میں کچھ بتائیے۔
بدنام
نظر: میرا
اصلی نام عالمگیر نظر ہے۔ سید منظر حسن میرے والد تھے جو کسی اعلیٰ وارفع گھرانے سے
تعلق نہیں رکھتے تھے یہی وجہ ہے کہ میں اپنے آپ کو ایک مزدور گھرانے کا فرد تسلیم
کرتا ہوں کیونکہ میں نے اپنے باپ کو عمر بھر محنت و مشقت کرکے کماتے کھاتے دیکھا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ میں نے بھی پوری عمر محنت مزدوری کرکے گز بسر کی۔ میرے دادا اپنے زمانے
کے پڑھے لکھے انسان تھے اور وہ کھدر پور بنگال کے پورٹ پر (پانی جہاز کے رکنے کی جگہ)
قلیوں کے سردار تھے۔ لہٰذا آپ یہ مان لیجیے کہ میں پڑھے لکھے مہذب ایک قلی گھرانے
کا چراغ ہوں۔ اس لیے میں خود یہ کہتا ہوں کہ میرا گھرانہ علمی،اقتصادی اور ادبی یا
کسی بھی طور پر بڑا نہیں تھا۔ میری والدہ کا نام سیدہ مہر النساتھاوہ ایک جاگیر دار
گھرانے کی خاتون تھیں۔ میری والدہ کے مزاج میں عمر کے آخری حصے تک جاگیر دارانہ نظام
کے عناصر موجود رہے۔ انھوں نے ہمیشہ تحکمانہ رویہ روا رکھا ان کا انداز اور برتاؤ بھی تحکما نہ تھا۔یہی
وجہ تھی کہ انھوں نے گھر کے ملازمین کو کبھی بھی برابر ی کا درجہ نہیں دیا۔جس کو لے
کر والد محترم سے کبھی کبھا رکھینچا تانی بھی ہوتی تھی۔ میری ماں کا کمال یہ ہے کہ
وہ اردو اور فارسی کی بڑی عالمہ تھیں اور آج میں جوبھی اور جتنا بھی اردو جانتا ہوں
اپنی ماں کی ہی وجہ سے جانتا ہوں۔ اردو فارسی اور عربی یعنی قرآن مجید جو بھی جانتا
ہوں صرف اور صرف والدہ کی وجہ سے ہی جانتا ہوں۔ مگر آپ کو یہ جان کرحیرانی ہوگی کہ
جب میں شاعر ہو چکا تھا اور میری شاعری اہم رسائل میں شائع بھی ہونے لگی تھی، تب تک
والدہ میری شاعری میں نقائص نکالا کرتی تھیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان
کا ذوق کس قدر بلا کا بلند تھا۔ اور حقیقت ہے کہ آج میں اپنی والدہ کی ہی وجہ سے اردو
زبان جانتا ہوں۔مجھے افسوس ہے کہ اگر اماں کے خاندان والے ان کی قدر کرتے تو وہ اردو
اور فارسی کی بڑی پروفیسر ہو سکتی تھیں۔
ر
خ: بدنام
نظر صاحب آپ اپنی پیدائش کے تعلق سے کچھ بتائیں۔
ب
ن: صوبہ
بہار کا قدیم ضلع مونگیر میں ایک جگہ شیخ پورہ ہے جو کہ اس وقت خود ضلع ہے۔ شیخ پورہ
ریلوے اسیشن سے تقریباتین کلو میٹر مشرق کی جانب میرا گاؤں جس کا نام کُندہ ہے۔ یہیں
میرا ننھیال ہے اور ددھیال بھی۔ یہیں 27 اپریل
1941 کو میری پیدائش ہوئی۔
ر
خ: بدنام
صاحب آپ اپنی تعلیم کے سلسلے میں قارئین کو کچھ بتائیں
ب
ن: میری تعلیم کا سلسلہ اور طرز تعلیم بھی وہی پرانا
ہے جو کبھی ہمارے وقت میں ہوا کرتا تھا۔ یعنی مسجد کے مولوی صاحب سے ابتدائی تعلیم
حاصل کی۔ ہوا یہ کہ والد صاحب نے محلے کی مسجد کے مولوی صاحب کے حوالے مجھے کر دیا
جہاں قاعدہ بغدادی سے میری تعلیم کا آغاز ہوا۔ معلوم نہیں یہ کتاب اب پڑھائی جاتی
بھی ہے یا نہیں۔ چوں کہ بچپن ہی سے میری طبیعت متجسس رہتی تھی جس کی وجہ سے سوالات
کرنا میری فطرت بن چکی تھی۔ میں کسی بھی کام کو دباؤ یا زور زبردستی سے کرنے کا قائل
نہیں تھا اور نہ ہی روایت پرستی کا قائل تھا یہی وجہ تھی کہ میری طبیعت میں شرارتی
عنصر در آگیا تھا۔ ہوا یہ کہ جب قاعدہ بغدادی پڑھاتے وقت مولوی صاحب کہتے کہ الف،
ب پڑھنے سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھو۔ اس کے بعد الف، ب پڑھو۔مگر میرے ذہن
میں یہ بات نہ جانے کیوں اور کیسے بیٹھی ہوئی تھی کہ کیا اگر میں بسم اللہ نہیں پڑھوں
گا تب تک مجھے الف، ب یاد نہیں ہوگا؟۔ میرے اس سوال و جواب پر مولوی صاحب نے روایتی
کھجور کی چھڑی سے مجھے خوب پیٹا یہی نہیں بلکہ دوران دھنائی غضبناکی کے عالم میں گالیاں
بھی دیں۔ گالی سننا تھا کہ میری غیرت نے گوارا نہ کیا کہ میں ایک لمحہ بھی وہاں رکوں
اور وہاں سے بھاگ نکلا اور پاس کے ہی ایک مکان
کے سائے میں چھپ کر کھڑا ہوگیا۔ اپنے دونوں ہاتھ میں پتھر لیے مولوی صاحب کے انتظار
میں چھپا رہا کہ مولوی صاحب اب آئیں کہ تب آئیں۔ جب وہ ادھر سے گزرے میں نے انھیں
پتھر دے مارا جس سے ان کا چشمہ تو ٹوٹا ہی ان کی دائیں آنکھ بھی تقر یباً خراب ہو
گئی۔ جس کے بعد محلے میں ہنگامی میٹنگ ہوئی جس میں میرے والد صاحب شریک تھے، مجھے نہیں
معلوم کہ اس میٹنگ میں میرے خلاف کیا فیصلہ ہوا مگر ہاں اتنا تو ضرور ہوا کہ مجھے گاؤں
سے ہٹا کر کلکتہ بھیج دیا گیا۔ کلکتہ آنے
کے بعد نئے سرے سے میری ابتدائی تعلیم کا آغاز ہوا جس میں اردو کے بجائے انگریزی زبان
کو جگہ ملی۔ اور میں ’الف سے اللہ کو پہچان‘،’ب سے بڑوں کا کہنا مان‘ کے بجائے ’ٹو
نکل ٹونکل لٹل اسٹار‘ پڑھنے لگا۔ یہاں پانچویں جماعت تک میری تعلیم ہوئی۔ پھر اچانک
ایک دن میرا اکسیڈنٹ ہو گیا جس میں میرا دایاں پیر ٹوٹ گیا۔ جس کی وجہ سے میں مستقل
تین ماہ تک اسکول جانے سے قاصر رہا جس کی بنیاد پر اسکول سے میرا نام اسٹرائیک آف
کردیا گیا اور پھر لا محالہ مجھے دوبارہ گاؤں واپس آنا پڑا۔ اس طرح میرا ایک سال
ضائع ہو گیا۔ اس وقت شیخ پورہ میں صرف دو ہائی اسکول تھے ایک اسلامیہ ہائی اسکول دوسرا
ڈی ایم ہائی اسکول۔ مگر میرے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ ان دونوں ہائی اسکولوں میں ہندی
اور اردو سبجیکٹ تو پڑھائے جاتے تھے مگر انگریزی سبجیکٹ کا کوئی نظم نہیں تھا۔ طرفہ
تماشا یہ کہ انگریزی کے علاوہ میں اردو اور ہندی نہیں جانتا تھا۔ ڈی ایم اسکول کے پرنسپل
ششی بابو چاہتے تھے کہ میرا داخلہ یہاں ہو جائے، مگر مسئلہ یہی تھا کہ وہاں انگریزی
سبجیکٹ کا کوئی نظم نہیں تھا۔ مگر اسلامیہ ہائی اسکول کے ہیڈ ماسٹر خیرات حسین صاحب
نے مجھے اس بنیاد پر واخلہ دیا کہ میرے انگریزی سوالات و جوابات کا وہ خود نظم کریں
گے۔ اور ہمارے انگریزی پرچے کووہ چیک بھی کروائیں گے۔ دراصل یہیں سے باضابطہ میر ی
تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا۔ یہاں کے بعد میں کا نپور گیا پھر دوسری اور جگہوں پر بھی
گیا۔کیونکہ اس وقت میرے حالات ایسے نہیں تھے کہ میں کسی ایک جگہ پر تعلیم حاصل کر سکوں
وجہ یہ تھی کہ میرا گھر مفرح الحال نہ تھا۔ اس وجہ سے مجھے کچھ یاد نہیں کہ میں نے
کب تعلیم کے سلسلے کو جاری کیا اور کب منقطع کیا۔ اس طرح میں نے کسی حد تک تعلیم حاصل
کرلی
ر
خ: بدنام صاحب یہ بتائیے کہ آپ نے آخری ڈگری کہاں
سے اور کون سی حاصل کی۔
ب
ن: آپ کا یہ سوال سرا سر غلط ہے کیونکہ میں کل بھی
طالب علم تھا اور آج بھی ہوں۔ کیونکہ تعلیم کی کوئی آخری ڈگری ہوتی ہی نہیں ہے۔ اس
لیے میں نے ڈگری والی کوئی تعلیم حاصل نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنی کسی ڈگری کو
تعلیمی لیاقت کی بنیاد کے لیے شمار نہیں کرتا۔ کیونکہ مجھے جو ڈگریاں ملی ہیں وہ میری
صلاحیتوں کے اعتراف میں نہیں ہیں وہ تو صرف مارکس کی ڈگری ہے کہ کس مضمون میں میںنے
کتنا نمبر حاصل کیا ہے۔ اسی لیے میں یہ کسی کو نہیں بتاتا کہ میں نے کہاں تک تعلیم
حاصل کی ہے۔ لہٰذا آپ کو بھی نہیں بتاؤں گا کہ میری آخری ڈگری کون سی ہے۔
ر
خ: محترم آپ اپنی ملازمت کے سلسلے میں بتائیے۔
ب
ن: میں نے پوری عمر ڈگری کی بنیاد پر کوئی ملازمت نہیں
کی سوائے ایک کے۔ میری ملازمت جہاں جہاں ہوئی صرف اپنی صلاحیت اور لیاقت کی بنیاد پر
ہوئی۔
ر
خ: بد نام نظر صاحب چونکہ
آپ نے عمر کا طویل سفرطے کیا،لہٰذا یہ بتائیں کہ اس سفر میں کن کن قابل قدر شخصیات
سے آپ کی ملاقات رہی۔
ب
ن: جب
میں کلکتے میں تھا تو بیشتر لوگوں سے میرا تعلق رہا، مگر ان میں دو اشخاص میرے بہت
قریب اور خاص تھے۔ وکیل اختر اور اختر جاوید۔ دونوں ہی اختر تھے۔ وکیل اختر سے میرا
غیر معمولی تعلق کل بھی تھا اور آج بھی ہے۔ آج بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ میرے
اندر کہیں سمایا ہوا ہے۔ وکیل اختر کے علاوہ معروف افسانہ نگار تسکین انصاری جنھیں
اب کم ہی لوگ جانتے ہیں۔ مضطر حید ری جو کہ ایک مجذوب شاعر تھے ان سے بھی میرا بہت
قریبی تعلق رہا۔ ان میں ایک جرم محمد آبادی تھے مجھے غزل گو شاعر بنانے میں ان کا
بھی ہاتھ ہے۔ ورنہ اس سے قبل میں صرف نظمیں
ہی لکھتا تھا۔ اس کے علاوہ انیس رفیع اور کامل اختر جو کہ خود بھی شاعر تھے نہیں معلوم
اس وقت کہاں ہیں۔انھیں دوستوں میں ایک فیروز مرزاتھے جو کہ عمدہ اور اچھے تخلیق کا
رتھے۔مگر نہیں معلوم کہ یہ سارے لوگ اب کس دنیا میں اور کس حال میں ہیں۔
ر
خ: بد نام صاحب اتنی طویل گفتگو کے بعد بھی یہ نہیں
معلوم ہو سکا کہ آپ کا اصل میدان کیا ہے۔
ب
ن: خان
صاحب میں نے اپنا تخلیقی سفر آزاد نظموں سے شروع کیا۔ جب کہ اس وقت آزاد نظمیں لکھنے
کی بنیاد پر مجھے کوئی پوچھتا نہیں تھا با وجود اس کے میں مطمئن تھا۔ غالباً 1962 میں
میرے ایک دوست را ج نارائن تھے انھوں نے مجھ سے کہا کہ یار تم لکھتے ہو مگر یہ کیسے
پتہ چلے گا کہ تم جو لکھتے ہو اس کا معیار کیا ہے۔ لہٰذا میں نے یوسف دہلوی کے ر سالہ
شمع میں اپنی نظم بھیج دی۔ مجھے اس وقت حیرت ہوئی جب انھوں نے مجھے خط لکھ کر یہ کہا
کہ یہ نظم میں شمع میں شائع کروں گا، لہٰذا آپ اسے کہیں اور نہ بھیجیں۔ اس طرح میری
پہلی نظم رسالہ شمع میں شائع ہوئی جس کا عنوان ’ دیوانہ‘ تھا۔ اس نظم کے شائع ہونے
کے بعد میرا عالم یہ تھا کہ میں ا پنے عہد کا سب سے بڑا شا عر سمجھنے لگا تھا اورپھر
میں شمع کو بغل میں دبائے گھومتا رہا جیسے اس نظم کے شائع ہونے کے بعد میں غالب سے
بھی بڑا شاعر ہو گیا۔ اس کے بعد میں تواتر سے رسائل وجرائد میں شائع ہونے لگا۔میری تخلیق’ شب خون ‘میں بھی
شائع ہوئی۔ جب کہ اس وقت شب خون میں ہما شما کی تخلیق کا شائع ہونا اپنے آپ میں بہت
بڑی بات تھی۔ آپ یقین کیجیے کہ شب خون میں شائع ہوتے ہی میرا اعتماد آسمان چھو نے
لگا۔جس کے نتیجے میں اس عہد کے بڑے بڑے ادبا اور شعرا سے الجھتا رہا۔ا ن میں اختر اور
ینوی، سجاد ظہیر اور کلام حیدری جیسے اہم ادبا سے میں کافی دنوں تک الجھا رہا۔ ہماری
یہ ادبی بحثیں، حیات، مورچہ اور شاعر میں شائع ہوتی رہیں۔ اس کے بعد ہوا یہ کہ میں
شاعر کم ہنگامہ پرور زیادہ ہو گیا۔ جس کی وجہ سے میری کافی شہرت بھی ہوئی۔ اسی اثنا
میں(1977) میں میری جان وکیل اختر کا انتقال ہو گیا۔اس کے انتقال کے غم نے مجھے اندر
سے اس قدر تو ڑ دیا کہ میں 12 جنوری 1972 کو اپنی بیوی اور بچوں کو چھوڑ کر اچانک کلکتہ
سے بھاگ گیا۔ بعد میں میرے بچے بہار لوٹ آئے اور میں اس کے غم میں لکھنؤ، ممبئی،
چنئی اور کچھ ایسی جگہوں کی خاک چھانتا رہا جہاں کسی بھی شاعر کا نام و نشان تک نہ
تھا۔ کچھ عرصے بعد جب مجھے کچھ سکون ملا تو میں اپنے بچوں کو لے کر گیا شہر میں کر
ائے کے مکان میں رہنے لگا۔ جہاں میں نے ایک ادارہ’ شبستا ن ادب ‘ قائم کیا۔جس کے سکریٹری
معروف افسانہ نگار عشرت ظہیر تھے۔ شبستان ادب کا ایک ذیلی ادارہ ’ الوا‘ آل لینگویج
رائٹر ایسوسی ایشن،تھا جس کے تحت مختلف زبان و ادب کے شعرا کو مدعو کیا جاتا اور ان
کی تخلیق پر بحثیں ہوتی تھیں۔ یہ سب کچھ ایک چھوٹے سے کمرے میں ہوتا جس میں درجن پھر
شعرا اور او با شریک ہوتے اور خوب بحثیں ہوتی تھیں۔ اس ادارے سے وابستہ ادب کے افق
پر کئی ستارے چمکے ان میں کلپنا سنگھ، خورشید
حیات اور فردوس گیا وی قابل ذکر ہیں۔ اسی طرح شبستان ادب کے بینر تلے جنھیں
بین الاقوامی شہرت ملی ان میں عشرت ظہیر، م ق خان، عبد الصمد اور شاہد کلیم خاص ہیں۔
شبستان ادب کے تحت جن اہم اد با اور شعر ا کو مدعو کیا گیا اور ان کی موجودگی میں ان
کی تخلیق پر بحثیں ہو ئیں ان میں جو گندر پال، ساجدہ زیدی، زاہدہ زیدی، سلطان اختر،
احمد یوسف اور شوکت حیات قابل ذکر ہیں۔اس ادارے کی جانب سے ہونے والے مباحثے کا طریقہ
یہ ہوتا تھا کہ افسانہ نگار سے ان کا کوئی افسانہ اور شاعر سے ان کا کلام سناجاتا اور
پھر اس پر گھنٹوں گفتگو ہوتی۔ اس طرح کبھی
کبھی تو گفتگو کا سلسلہ اتنا طویل ہو جاتا کہ ایک افسانہ اور ایک غزل پر کئی کئی گھنٹے
بحث ہوتی۔ کئی دفعہ تو ایسا ہوا کہ صبح دس بجے سے شام چھ بجے تک بحث ہوتی رہی۔ اس دوران
میں بالکل خاموش ہو گیا اور تقریبا اکیس بائیس برسوں تک میں نے ایک مصرع تک نہیں کہا۔
جس کے نتیجے میں ادبی افق سے غائب ہو گیا۔ کلکتے کے ایک معروف ادیب محفوظ صاحب نے اپنے
ایک مضمون میں یہاں تک لکھ دیا کہ بد نام نظر کا انتقال ہو گیا اور سبب یہ لکھا کہ
وکیل اختر جو کہ ان کے اچھے دوست تھے ان کے انتقال کے بعد کینسر کے مرض میں مبتلا ہو
کر جاں بحق ہو گئے جو کہ غلط اطلاع تھی۔ یہ بات تو درست ہے کہ وکیل اختر کو کینسر ہو
گیا تھا اور ڈاکٹرنے علاج کے دوران ایک جانچ میں مجھے بھی کینسر کا مریض بتا دیا تھا
جو کہ غلط رپورٹ تھی۔ اسی اثنا میں میرے چاہنے
والوں نے تعزیتی نشست بھی منعقد کی۔
ر
خ: بد نام نظر صاحب اب تک ہم یہ نہیں جان سکے کہ شاعری
سے آپ کی دلچسپی کا سبب کیا تھا۔
ب
ن: دیکھیے
رضوان صاحب میں نے ساٹھ کے آس پاس شاعری شروع کی، ذہنی میلان اور طبعی موزونیت نے
شعر کہنے کی جانب مائل کیا مگر یہ جان لیجیے کہ وکیل اختر ہی میرااصل محرک تھا۔آپ
یقین کیجیے کہ اس کے انتقال کے بعد تو جیسے میرے اندر کا تخلیقی سوتا ہی خشک ہو گیا
ہو۔ اور پھر ہوایہ کہ میں اس جانب سے رو گردانی کرنے لگا۔ کیونکہ میرے لیے وکیل اختر
ہی سب کچھ تھا۔اس سے میرا غیر معمولی رشتہ تھا اور جب وہی نہیں رہا تو اس کے بعد میں
زندگی سے مایوس سا ہو گیا۔ جیسے زندگی کی ساری رونقیں ماند پڑ گئی ہوں۔
ر
خ: بدنام
نظر صاحب آپ کی اب تک کتنی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔
ب
ن: دیکھیے
میرے تین شعری مجموعے شائع ہوئے ہیں۔ 1979 میں میرا پہلا نظموں کا مجموعہ ’تہی دست
‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس کے ٹھیک 36 برسوں بعد غزلوں کا مجموعہ’نزول‘کے عنوان سے
2015 میں شائع ہوا۔ پھر اس کے دو برس بعد 2017 میں’ بارِ گراں‘کے عنوان سے نظموں کا
مجموعہ شائع ہوا۔ اس کے بعد 1982 میں وکیل اختر کا انتخاب ’ دائروں کی شکست ‘کے نام
سے شائع کروایا۔ میں نے اب تک کوئی نثری کام نہیں کیا ہے البتہ میرے چند مضامین ضرور
شائع ہوئے ہیں۔ مجھے یاد آتا ہے کہ میرا پہلا مضمون ’شب خون‘ نے’ فیض احمد فیض‘ پر
شائع کیا تھا۔وہ کوئی خاص اور بہت اہم مضمون نہیں تھا مگر ہاں فیض کی شاعری کے کچھ
ا چھوتے اور نئے گوشوں کو میں نے ضرور مس کیا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ مضمون شب
خون میں شائع ہوا۔ ادھرحالیہ برسوں میں میں نے کئی مضامین لکھے ہیں۔
ر
خ: بد نام صاحب بحیثیت شاعر آپ کو کس شاعر نے سب سے
زیادہ متاثر کیا۔
ب
ن: سچ
پوچھیے تو ساحر لدھیانوی نے مجھے بے حد متاثر کیا، بلکہ میں یہ کہوں تو غلط نہ ہوگا
کہ مجھے شاعر بنانے میں ساحر کا بڑا ہاتھ ہے۔ ساحر کی شاعری کا دھیما پن اور اس کے
اندر کے رومانی انقلاب نے مجھے بہت متاثر کیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ذہنی اور نفسیاتی
طور پر میںاپنے آپ کو ساحر کے قریب پاتا ہوں۔
ر
خ: بد
نام صاحب اردو کی صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے یہ بتائیے کہ کل اردو کی کیا صورت حال
تھی اور آج کیا ہے؟
ب
ن: دیکھے ہمارے عہد میں تقریبا اسکولوں میں
اردو کو بحیثیت سبجیکٹ پڑھایا جاتا تھا اور اردو کی کتا بیں دستیاب بھی ہوتی تھیں۔
مجھے کہنے دیجے کہ ہمارے عہد کے ٹیچرس آج کے ٹیچرس کے مقابلے میں پڑھے لکھے اور قابل
ہوتے تھے۔ کیونکہ اس وقت کے ٹیچراس قدر ملٹی لنگول ہوتے تھے کہ جب وہ’ زاویہ حادہ
‘اور’ زاویہ قائمہ‘ پڑھا تے تھے تو اس کی ہندی بھی بتاتے تھے کہ اس کو ہندی میں یہ
کہتے ہیں۔ میں نے ڈی اے وی اسکول میں دیکھا کہ اس اسکول کے اسا تذہ نہ ہندو ہوتے تھے،
نہ مسلمان بلکہ ان کو صرف پڑھائی سے مطلب ہوتاتھا اور اسی اعتبار سے وہ زبان بھی استعمال
کرتے تھے۔ جو ہر کوئی سمجھ لے، میں نے یہی اسلامیہ اسکول میں بھی دیکھا اورقیام کانپور
کے دوران بھی میںنے یہی دیکھا۔د یکھیے رضوان صاحب ہمارے وقت میں اردو کی صورت حال بہت
اچھی تھی مگر ایک وقت وہ آیا کہ عصمت چغتائی، رضیہ سجاد ظہیر اور ر اہی معصوم رضا
وغیرہ نے مل کر اردو لیپی کے خلاف ایک تحر یک چھپڑدی۔ مگر اس کے خلاف الٰہ آباد میں
ایک دستخطی میٹنگ ہوئی اور یہ طے ہوا کہ کسی بھی زبان کی لیپی ہی اس کا لباس ہوتی ہے
لہٰذااس کی لیپی نہیں بدلی جائے گی۔ مگر مجھے لگتا ہے کہ یہی وہ وقت تھا جس کے بعد
ار دو زوال کا شکار ہونے لگی۔ اسی زمانے میں ایک صاحب ہوا کرتے تھے شمس کنول انھوں
نے بعض مشکل الفاظ کو آسان کرنے کی جانب پہل کی جیسے لفظ شمع ہے جسے ہم ش م ع کے املا
سے لکھتے ہیں مگر ان کا ماننا تھا کہ اس لفظ کو ہم کیوں نہ ش م ع کے بجائے ش م الف
سے ’ شما‘ لکھیں۔تاکہ لکھنے اور پڑھنے والوں کو پریشانی نہ ہو، آسانیاں پیدا ہوں۔پھر
یہ ہوا کہ ان کے کچھ مشورے مان لیے گئے اور کچھ نہیں مانے گئے،مگر ان کے اس عمل پر
اگر غور کیا جائے تو محسوس ہوگا کہ انھوں کچھ مثبت کرنے کی سعی کی ہے۔
ر
خ: بدنام نظر صاحب یہ بتائیے کہ تقریبا ادبا اور شعرا
صحافی بھی ہوتے ہیں تو کیا آپ نے بھی صحافتی خدمات انجام دی ہیں۔
ب
ن: جی خان صاحب آپ نے درست فرمایا! سب سے پہلے میں
نے جے کمار پالٹ کی سرپرستی میںروزنامہ ’ دی بہار ریویو‘ نکالا۔جے کمار صاحب اس کے
مالک اور کانگریسی لیڈر تھے بعد میں ایم ایل اے بھی ہوگئے تھے۔ مگر اس اخبار کو پڑھ
یا دیکھ کر یہ اندازہ نہیں لگایا جاسکاتاتھا کہ یہ کانگریس کا اخبار ہے یا کسی کانگریسی
لیڈر کی سر پرستی میں شائع ہورہا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس وقت کسی بھی اخبار کے پاس
ٹیلی پرنٹر نہیں تھا مگر ہمارے پاس تھا۔ اس اخبار کی پیشانی پر وکیل اختر کا ہم یہ
شعر ضرور لکھتے تھے ؎
جو
بھی کرنا ہے وہ کر گزرو یہ دل کی رائے ہے
سوچنے
والا ہمیشہ سوچتا رہ جائے ہے
اس
کا انگریزی ایڈیشن ہفت روزہ تھا اس کا بھی مدیر میں ہی تھا۔یہ اپنے عہد کا شاندار اور
اچھا اخبار تھا یہی وجہ تھی کی اس کی کافی شہرت بھی تھی۔اسی طرح روزنامہ ’اخبار مشرق‘
سے میں بحیثیت مترجم کے وابستہ تھا مگر اخبار میں میرا نام اسسٹنٹ ایڈیٹر کی حیثیت
سے شائع ہوتا تھا۔ اس طرح ہم نے اپنے صحافی ہونے کا فرض بھی ادا کیا۔ لہذا اب مجھے
کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ میں صحافی نہیں ہوں۔
ر
خ: بد
نام صاحب یہ بتائیے کہ اردو زبان کا مستقبل کتنا روشن اور کتنا تاریک ہے۔
ب
ن: خان رضوان صاحب اردو
کے مستقبل کے تعلق سے میں بہت خوش فہم نہیں ہوں مگر ہاں اردو کی نئی بستیاں جو بس رہی
ہیںان سے پر امید ضرور ہوں۔ اردو کا مستقبل تاریک بالکل نہیں ہے۔ یہ تو ہو سکتا ہے
ہندوستان میں اس کی زمین تنگ ہوجائے یا کر دی جائے مگر میں دیکھ رہا ہوں کہ اردو کے
تعلق سے کچھ لوگ کافی محنت کر رہے ہیں۔ توقع ہے کہ اردو کی نئی بستیاں جو بس رہی ہیں
وہ اردو کے تعلق سے ضرور اطمینان بخش کام کریں گی۔
Md.
Rizwan Khan
D-307, Abul Fazal Enclave
Jamia Nagar, Okhla
New Delhi- 110025 (UP)
Mob.: 9810862283
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں