مدرسہ القران
سلطان قطب الدین نے حضرت میر سید علی ہمدانیؒ کی فرمائش پر قران حکیم کی
تعلیم عام کرنے کے لیے ایک مدرسہ تعمیر کروایا اور اس مدرسے نے وسیع پیمانہ پر علم
و ادب اور قرانی تعلیم سے اہل کشمیر کو روشناس کرایا۔ مشہور بزرگ اور عالم دین
ابوالمشایخ شیخ سلیمان کو اس مدرسے کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ شیخ موصوف کو حکومت کی
طرف سے امام القرا کا خطاب بھی ملا تھا۔
مدرسہ قطب الدین
سلطان قطب الدین کا عہد کشمیر میں فارسی زبان و ادب اور علوم و فنون کے
ارتقا کے آغاز کا زمانہ ہے۔ سلطان نے اپنے نام پر ایک وسیع شہر قطب الدین پورہ
آباد کیا تھا جو بعد میں علوم و فنون اور شعر و شاعری کا مرکز بنا۔ انھوں نے اپنے
بسائے ہوئے شہر قطب الدین پورہ (سرینگر) میں ایک مدرسے کی تعمیر کروائی تھی جو
فارسی علم و ادب کا مرکز رہا ہے۔ سلطان نے اس کے ساتھ ایک ہوسٹل بھی بنوایا تھا جس
میں دور دراز کے طلبا اقامت کرتے تھے۔ ان کے لیے حکومت ہی کی طرف سے طعام و قیام
اور مصارف تعلیم کا مفت انتظام تھا۔ طلبا سے کوئی فیس نہیں لی جاتی تھی۔ اس مدرسے
کے پہلے صدر مدرس حاجی محمد قادری تھے جو فارسی کے ایک بہت بڑے شاعر بھی تھے۔ ان
کے کلام سے چند اشعار درج کے جاتے ہیں ؎
زیں جہان رفتیم و دل برداشتیم
با جہانیان را جہان بگزاشتیم
ایمنی جستیم از دست اجل
و او ریغا ما غلط پنداشتیم 1
’’ہم نے دنیا والوں کے ساتھ دنیا کا انتخاب کیااور اس جہان سے دل
برداشتہ ہو کر گئے، موت ہی اصل میں امن کا دامن تھی، اس لیے موت کے ہاتھوں
خلاصی چاہتا ہوں لیکن اس دامن کو ہم نے(یعنی موت کے دامن) غلط سمجھا)‘‘
اس دارالعلوم نے فارسی ادب و شاعری کا ذوق پیدا کرنے میں بھی بنیادی
خدمات انجام دیں اس دار العلوم کے دوسرے صدر مدرس مولانا رضی الدین فائز
ہوئے۔ مولانا کے علم و فضل کا بین ثبوت یہ ہے کہ علامہ بابا داؤد خاکی کشمیری جیسے
فقیہ اور صوفی عالم اور مولانا شمس الدین پال کشمیری محدث ان کے تلامذہ میں سے
تھے۔ جہانگیر کے عہد میں اس منصب پر مولانا جوہر نانت کشمیری (شاگرد علامہ حافظ
ابن حجر مکی) نے اپنے فرائض انجام دیے۔ اس دانشگاہ کے اساتذہ میں ملا محسن فانی
کشمیری، مولانا عبدالستار، مولانا حاجی شیخ گنائی کشمیری کے اسمائے گرامی سرفہرست
ہیں۔ یہاں کے فارغ التحصیل طلبا میں علامہ بابا داؤد خاکیؒ، ملا طاہر غنی عشائی،
محمد زمان اشعی، خواجہ قاسم ترمزی اور مولانا کاؤس کے نام قابل ذکر ہیں۔ یہ دار
العلوم صدیوں تک علم و ادب کا مرکز رہا ہے۔ اس مدرسے کے چند فارغ التحصیل طلبا کے
فارسی کلام کا نمونہ۔
’’بعد حمد خالق و نعت رسول ذو الجلال
با دعای آل و اصحابش بکن گوش ایمنقال
دل بر این دنیا منہ گو خالی است و بی بقا
کس نماند و کس نماند جز خدای لا یزال
(بابا داؤد خاکی)
’’اللہ تعالی کی حمد و ثنا اور رسولؐ کی نعت کے بعد آل رسولؐ اور اصحاب
رسولؐ کی دعا کے ساتھ ان کے پیغام کی طرف اپنے کان رکھ،اس دنیا سے دل مت لگاو ۡ یہ فانی اور ناپائیدار ہے، اس دنیا میں سوا اللہ تعالی ہر شے فنا فی
اللہ ہونے والی ہے صرف اور صرف ذات باری باقی رہنے والی ہے۔‘‘
’’فراغتی بہ نیشانِ بوریا دارم
مباد راہ در این پیشہ شہر قالین را
کند در ہر قدم فریاد خلخال
کہ حسن گل رُخان پا در رکاب است
با دامن تر شدم بہ مشحر
گفتند در افتاب بنشین
حسن سبزی بہ خط سبز مرا کرد اسیر
دام ہمرنگ زمین چون گرفتار شدم ـ‘‘3
(ملا غنی کشمیری)
’’چٹائی کے نیشان میں بڑی راحت محسوس کرتا ہوں، خدا نہ کرے اس جنگل میں شہر
قالین راہ پائے،ہر قدم پر پازیب فریاد کرتی رہتی ہے کہ پھول جیسا چہرہ رکھنے والے
حسینوں کا حسن پا بہ رکاب ہے،تر دامنی (گنگاری) کے ساتھ میدان حشر میں آیا تو مجھ
سے کہا دھوپ میں بیٹھ جائو،حسن سبز نے خط سبز میں مبتلا کر دیا ،جال زمین کے ہمرنگ
تھی میں گرفتار ہو گیا‘‘
ملا محمد زمان نافع ملا طاہر غنی کشمیری کے بھائی تھے۔ ان کے کلام سے چند
اشعار بطور نمونہ پیش ہیں ؎
می حرامی بہر قتلم مرحبا می زیبدت
جان ندامی زیبدت سر مزدیامی زیبدت
پیکرت را تار و پود جامہ مسطرمی کشد
از شمیم گل قبای تہ نمامی زیبدت
می کشی و باز می پرسی شہید کیستی
این غلط اندازی و بازی بہ مامی زیبدت
ہمچو می از پردہ زنبوری جام بلور
چہرہ ساز یہای رنگین از حنا می زیبدت
پیر گشتی نافع اکنون ہالہ سان شب تا سحر
خرمن ماہی در آغوش دو تا می زیبدت4
(محمد زمان نافع)
’’مجھے قتل کرنے کے لیے ناز سے چل رہے ہو مرحبا زیب دیتا آپ کو، آپ
پر جان فدا کرنا زیب دیتا ہے، آپ پر سر کو زحمت قدم پر قربان کرنا زیب دیتا
ہے، لباس کا تار و پود آپ کے جسم پر سطر کشی کر رہا ہے،شمیم گل کی تہ نما قبا آپ
کو زیب دیتی ہے،قتل کر رہے ہو اور پھر پوچھ رہے ہو کس کے شہید ہو، یہ غلط اندازی
اور ہم سے یہ کھیل آپ کو زیب دیتا ہے،شیشے کے جام کے شفاف شراب کی سی یہ
رنگین حنا کی چہرہ سازی آپ کوزیب دیتی ہے، نافع! بوڑھے ہو چکے ہو کیا اب ہالہ کی
طرح رات سے صبح تک چاند کا خرمن تمھارے کپڑے کی آغوش میں زیب دیتا ہے۔‘‘
مدرسۃ عروۃ الوثقی
سلطان قطب الدین کے عہد کے مدارس میں شیخ جمال الدین محدث کی درسگاہ قابل
ذکر ہے۔ یہ درس گاہ کشمیر کی علمی تاریخ میں مدرسہ عروۃ الوثقی کے نام سے مشہور ہے
لیکن عام بول چال کی زبان میں یہ نام بگڑ کر روٹھ میں بدل گیا ہے۔ سلطان قطب الدین
کی وفات کے بعد ان کا بیٹا سلطان سکندر تخت نشین ہوا۔ اس کے زمانے میں حضرت میر
سید علی ہمدانیؒ کے فرزند ارجمند میر محمد ہمدانیؒ تین سو علما و فضلا کے
ساتھ کشمیر میں تشریف فرمائے ہوئے۔ سلطان بھی اُن کا بڑا معتقد تھا۔ سلطان موصوف
بہت ہی سخی اور دیندار حکمران تھا۔ اس نے کشمیر میں شیخ الاسلام کی سرپرستی میں
ایک مستقل ادارہ قائم کیا اور تمام دینی اور ملکی معاملات میں ان کی طرف رجوع کرتا
تھا۔ بچوں کی تعلیم کے لیے مدرسے کھولے اور ہسپتال بنوائے سلطان سکندر کی فیاضی،
علم دوستی اور دریا دلی کی شہرت سن کر عراق،خراساں، اور ماوراء النہر سے علما اور
دانش مند وارد کشمیر ہوئے۔ان علما نے جہاں قیام فرمایا وہاں درس و تدریس کی مجلسیں
گرم کیں۔ ان میں سید حسین شیرازی، سید جلال الدین بخاری، سید احمد اصفہانی، سید
محمد خوارزمی کے اسمائے گرامی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
جامع مدرسہ
سلطان سکندر نے جامع مسجد کے قریب ایک مدرسہ قائم کیا تھا۔ جو جامع مدرسہ
کے نام سے موسوم تھا۔ اس مدرسے میں قران اور علوم دینیہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔
مدرسے کی صدارت سلطان نے میر محمد علی بخاری کوتفویض کی تھی۔ ملا محمد یوسف کشمیری
ہمدانی مدرسے میں فلسفے کا درس دیتے تھے۔ ریاضی کی تعلیم ملا صدر الدین کاشی کے
سپرد تھی اور مولانا سید حسین منطق اور ماورالطبیعات پڑھاتے تھے۔ ملا محمد افضل
بخاری معلم حدیث تھے۔ یہ تمام علوم و فنون فارسی زبان میں پڑھائے جاتے تھے۔
دار العلوم نوشہرہ
سلطان زین العابدین نے نوشہرہ میں بھی ایک دارالعلوم کی بنیاد رکھی تھی۔
مولانا کبیر کے علم و فضل اور فیض کو عام کرنے کے مقصد سے سلطان نے یہ مدرسہ کھولا
تھا۔ مولانا کبیر مدرسے کے صدر تھے۔ وہ نحو کے جید عالم مانے جاتے تھے اور اسی
مدرسے میں درس و تدریس کا کام بھی انجام دیتے تھے۔ انھوں نے ’شرح ملا‘ کی تفسیر
بھی لکھی تھی۔ مدرسے کے دوسرے اساتذہ میں ملا پارسا، ملا احمد کشمیری، ملا حافظ
بغدادی،ملا پارسا بخاری،ملا جلال الدین خوارزمی، میر علی بخاری، اور ملا یوسف
راشدی اسم با مسمی قابل ذکر ہیں۔ اس مدرسے میں عربی اور فارسی کی تعلیم کے ساتھ
ساتھ اساتذہ نے تصنیف و تالیف کا شغل بھی جاری رکھا جو فارسی ادبیات کی ترویج میں
گران قدر ادبی سرمایہ ہے۔ ان اساتذہ میں ملا احمد کشمیری ایک پختہ کار شاعر ہونے
کے علاوہ ایک زبر دست ادیب بھی تھے۔ ملا احمد کشمیر کے کلام سے چند اشعار بطور نمونہ
؎
ز ھجر شاہ دل ہوکہ ہست پر خون اسر
جگر ز درد کباب است دہدہ جیحونست
خدائی داند و شاہ جہان و روح شریف
کہ حالت دل درویش بینوا چون است5
’’بادشاہ کی جدائی کی وجہ سے دل پُر درد اور رگوں کا خون مقید ہو گیا
ہے،جگر درد کی وجہ سے بھگن گیا ہے اور آنکھ دریائے جیحون کی طرح پر آب ہے،خدا
جانتا ہے بادشاہ جہان کے عزت نفس کو اسی وجہ سے یعنی بادشاہ کی درویشانہ صفت کی
وجہ سے دل افسردگی کی حالت اختیار کر گیا ہے۔‘‘
اس مدرسے سے کئی فارغ التحصیل طلبا نے فارسی ادبیات میں گران قدر خدمات
انجام دیں اور فارسی زبان کو گستردہ کرنے میں اہم رول ادا کیا۔
ادارہ تراجم دار العلوم
سلطان کا ایک اہم کارنامہ دارالترجمہ کا قیام تھا۔ یہ دارالترجمہ بھی
نوشہرہ میں ہی تھا۔ اس دارالترجمہ میں ملا احمد کشمیری اور دوسرے دار العلوم کے
اساتذہ میں بہت سے علما تراجم کی خدمات انجام دیتے تھے۔ سلطان کے دربار اور نظم و
نسق کی زبان فارسی تھی اور دارالعلوم میں ذریعہـ تعلیم بھی فارسی ہی تھا۔ اس طرح سے جو اساتذہ دارالعلوم نوشہرہ میں مدرسی
کے فرائض انجام دیتے تھے وہی اس دارالترجمہ کے کام کو بھی انجام دے رہے تھے۔ اس
دارالترجمہ میں عربی اور سنسکرت کی اہم کتابوں سے ترجمے فارسی میں کیے گئے تھے۔
علوم و فنون کے درمیان سے زبانوں کے حدود کو ختم کرنے کی سلطان کی یہ بڑی مستحسن
کوشش تھی۔ ان دونوں اداروں کی بدولت فارسی زبان و ادبیات خوب پھلی پھولی۔ ان
اداروں سے بہت سارے انشا پرداز اور شاعر اور قلم کار پیدا ہوئے جہنوں نے فارسی
ادبیات میں گراں قدر خدمات انجام دی۔
مدرسہ طبیہ و دارالشفا
طب کی تعلیم کے لیے بڈشاہ نے ایک مدرسہ طبیہ اور علاج کے لیے دارالشفا بھی
قائم کیا تھا۔ بادشاہ زین العابدین کے دربار میں سر برآوردہ طبیب موجود تھے جو
مدرسہ طبیہ میں درس بھی دیتے تھے۔ اس مدرسے کے مشہور طبیبوں میں محمد بن احمد بن
یوسف بن الیاس کا نام قابل ذکر ہے۔ اس نے طب میں ایک کتاب ’کفایہ مجتہدیہ‘ تصنیف
کی تھی جو عام طور پر ’ کفایہ منصوری‘ کے نام سے مشہور ہے۔
اس مدرسے میں یہ تمام علوم فارسی زبان میں پڑھائے جاتے تھے۔ فارسی زبان میں
علوم و فنون کو پھیلانے میں مدرسہ طبیہ نے اہم رول ادا کیا ہے۔
مدرسہ گل خاتون
سلطنت میں علم و فن کی ترقی سے ملکہ اور شہزادیوں کو بھی دلچسپی تھی۔ اس
دلچسپی کی بدولت سلطان کی والدہ گل خاتون نے ڈل کے کنارے پکھری بل میں ایک عالی
شان مدرسے تعمیر کروایا تھا۔ مورخین نے اس عمارت میں کمروں کی تعداد تین سو ساٹھ
بتائی ہے۔ اس عظیم الشان مدرسہ کے انتظامات اور اخراجات کا اندازہ اس کی وسعت سے
ہوتا ہے۔ مدرسے کے اخراجات کے کیے ملکھا اور وادی سندھ کے گاؤں بناہام اور لار وقف
کیے گئے تھے۔ اس مدرسے کے صدر بابا اسماعیل کبروی مقرر ہوئے تھے۔
مدرسہ درسگاہ علامہ حیدر
ملا حیدر چرخی نے جہانگیر کے عہد میں ایک مدرسہ مزار شعرا کے قریب گوجوارہ
میں قائم کیا تھا۔اس درسگاہ سے عرصے تک تشنگان علم سیراب ہوتے رہے۔ ملا حیدر خود
اس مدرسے میں درس دیتے تھے۔ وہ علوم دینیہ اور عربی اور فارسی کے عالم تھے۔اس
درسگاہ نے فارسی علم و ادب کی اشاعت میں بہت اہم خدمت انجام دی ہیں۔ اس مدرسے
کے فارغ التحصیل طلبا نے فارسی علوم و فنون میں بہت ساری تصنیف اپنی یادگار
چھوڑی ہیں۔ ان میں ایک بابا داؤد مشکواتیؒ بھی سہرفرست ہیں۔ بابا داؤد مشکواتیؒ نے
اسرار الابرار لکھ کر فارسی علوم و فنون کو گران قدر تحفہ دیا ہے۔ جس میں
علما،اولیا اور ریشیان کشمیر کے حالات درج ہیں۔ یہ اسی مدرسے کی دین ہے۔
مدرسہ خواجگان نقشبند
اس مدرسے کے بانی خواجہ خاوند محمود نقشبندی ہیں۔ اس مدرسے نے علوم
دینی کے ساتھ ساتھ ادبیات فارسی کی ترویج میں ایک اہم رول ادا کیا۔ ملا حقدار
بدخشانی اس مدرسے کے صدر تھے۔ خود بھی خواجہ خاوند محمود اس مدرسے میں درس و تدریس
کا کام انجام دیتے تھے۔ جب تک خواجہ خاوند محمود کشمیر میں رہے درس و تدریس کا
سلسلہ جاری رہا۔ طلبا کی ایک بڑی تعداد آپ کے گرد رہتی اور علوم و فنون سے فیضیاب
ہوتی تھی۔ ان طلبا میں ابو الفقرا بابا نصیب الدین غازیؒ اور خواجہ نور محمد کلو
کلاشپوری قابل ذکر ہیں جنھوں نے آپ کی اور اخوند ملا شاہ بدخشانی کی با اثر صحبت
کا فائدہ اٹھایا اور خدمت با برکت میںحاضر رہ کر تصوف سلوک روحانی معارف و مقامات
کی کامل شناخت کا خاصہ پیدا کیا۔ اس کے علاوہ فارسی زبان میں تصنیف بھی اپنی
یادگار چھوڑی ہیں۔ بابا نصیب الدین غازی نے فارسی زبان میں ایک ضخیم کتاب تصنیف کی
تھی جو فارسی ادبیات میں ایک گران قدر سرمایہ ہے۔ یہ تصنیف بابا غازی کی اسی مدرسے
کی دین ہے۔
مدرسہ منصوریہ
عنایت اللہ خان کے دور نظامت میں ایک مدرسہ ’مدرسہ منصوریہ‘ کے نام
سے سرینگر میں قائم ہوا تھا۔ جس کے صدر اخوند ملا سلیمان کلو تھے۔ مدرسے کے
اخراجات کے لیے دناگام کا گاؤں وقف کیا گیا تھا۔ اس مدرسے سے بھی کئی تشنگان علم
سیراب ہو کر نکلے اور علم و ادب اور فارسی زبان کی خدمت کی۔
گوجرواری مدرسہ
یہ مدرسہ اخوند ملا عبیداللہ شہیر نے درس و تدریس کے لیے کھولا تھا۔ اس
مدرسے کے اساتذہ میں خود اخوند ملا عبیداللہ شہیر اور ملا عبدالرزاق قابل ذکر ہیں۔
اس مدرسے سے تشنگان علم نے اپنی پیاس بجھائی اور علم و ادب اور فارسی زبان کی خدمت
انجام دی اس مدرسے سے فارغ التحصیل طلبا میں محمد اعظم دیدہ مری قابل ذکر ہیں۔ خواجہ
محمد اعظم دیدہ مری نے فارسی ادبیات کی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں اور کئی ادبی
فن پارے تخلیق کیے ہیں جن میں تجرید الطالبین، رسالہ قوائد الرضا، قواعد المشایخ،
اشجار الحلد، ثمرات الاشجار، رسائل الاعظم، واقعات کشمیر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
ان مدارس کے ذریعے نہ صرف فارسی زبان و ادبیات کی ترقی و ترویج ہوئی بلکہ
سماجی، سیاسی، اقتصادی، اور علمی پیش رفت بھی ہوئی۔ ان مدارس میں فارسی زبان و
ادبیات کے ساتھ ساتھ دوسرے علوم و فنون کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ ان علوم و فنون
میں نقاشی، خطاطی، علم طب، علم سائنس، علم ریاضی، علم نجوم، علم حیوانات، علم
ادویہ، علم حدیث، علم فقہ، فن تعمیر، فن پیپر ماشی، فن چوبکاری، فن حرب چاندی و
پیتل، وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ ان علوم و فنون کی گسترش کے لیے سلاطین وقت نے مدارس
قائم کیے اور ان مدارس میں زیر تعلیم طلبا کے اخراجات خود حکومت برداشت کرتی تھی۔
سلاطین وقت کے اس علمی رویے سے ہر خاص و عام علم کے نور سے منور ہوئے اور اپنی
علمی تشنگی کوسیراب کیا۔ اس طرح سے ان علمی مدارس کی بدولت کشمیر کے علمی خزانے
میں چار چاند لگ گئے اور روز بروز فارسی زبان و ادبیات اپنی ترقی کی منازل طے کرتی
گئی بلکہ زبان و ادب کو بھی بتدریج وسعت ملی۔ علمی خدمات کی بدولت کشمیر کو ایران
صغیر کے نام سے بھی پکارا جانے لگا۔
حواشی
- عبدالقادر سروری پروفیسر، کشمیر میں فارسی ادب کی تاریخ، ص 35 مطبع شیخ عثمان اینڈ سنز تاجران کتُب مدینہ چوک، گاؤ کدل سرینگر،2012
- سیدہ رقیہ ڈاکٹر،کشمیر میں فارسی شاعری کی ابتدا و ارتقا مع تاریخ کشمیر(994ھ تک)، ص 237 مطبع شالیمار آرٹ پریس، اشاعت اول 2004
- خواجہ محمد اعظم دیدہ مری، واقعات کشمیر(ترجمہ مع حواشی و توضیحات و تعلیقات،شمس الدین احمد پروفیسر)، ناشرجموں اینڈ کشمیر اسلامک ریسرچ سینٹر، سرینگر،طبع اول اپریل 2001، ص 288
- خواجہ محمد اعظم دیدہ مری، واقعات کشمیر(ترجمہ مع خواشی و توضیحات و تعلیقات،شمس الدین احمد پروفیسر)، ناشرجموں اینڈ کشمیر اسلامک ریسرچ سینٹر، سرینگر،طبع اول اپریل 2001، ص348
- عبدالقادر سروری پروفیسر، کشمیر میں فارسی ادب کی تاریخ، مطبع شیخ عثمان اینڈ سنز تاجران کتُب مدینہ چوک، گاؤ کدل سرینگر، 2012، ص 49
Gulzar Hussain
Research Scholar, Dep of Persian
University of Kashmir, Hazratbal
Srinagar- 190006 (J&K)
Mob.: 962218377
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں