22/8/23

اردو میں کالم نگاری:محمد صابر رضا

اردومیں کالم نگاری کا آغاز بیسویں صدی کے وسط میں ہوا۔ د ستیاب تاریخ کے مطابق اس کی ابتداسنجیدہ کالم کی شکل میں ہوئی مگراسے شناخت طنزیہ اورمزاحیہ کالم کے طورپرحاصل ہوئی۔اس کو عروج بخشنے کا سہرا ’اودھ پنچ‘ اوراس کی تقلید میں ملک بھرمیں جاری ہونے والے ’پنچ‘ لاحقے والے اخبارات کے سرسجتا ہے۔

اودھ پنچ‘ میں منشی سجادحسین انگریزی حکومت کی پالیسیوں کاجائزہ لیتے تھے۔اودھ پنچ میں ’لوکل‘ اور ’موافقت زمانہ‘ کے عنوان سے مستقل کالم شائع ہوتے تھے۔ اودھ پنچ کے کالم نگاروںمیں تربھون ناتھ ہجر، رتن ناتھ سرشار، ستم ظریف اور اکبراِلٰہ آبادی کے نام خصوصیت کے ساتھ لیے جاسکتے ہیں۔ اس میں برٹش حکومت کے عوام مخالف ایجنڈوںپرنہ صرف جم کرتنقیدکی جاتی تھی بلکہ طنزومزاح کے تیر ونشترکے ذریعے کالم نگاربروقت عوام کوحکومت کی منشا و مقصد سے بھی آگاہ کرتے تھے۔ اودھ پنچ کا یہ مزاحیہ کالم اتنا مقبول ومعروف ہواکہ اس وقت کے دیگر اخبارات بھی اس کی پیروی کرنے لگے اور پھر پنجاب پنچ، لاہور پنچ، جالندھر پنچ، کلکتہ پنچ ، علی گڑھ پنچ، بنارس پنچ، شملہ پنچ ، آگرہ پنچ اوردکن پنچ وغیرہ میں بھی ایسے کالم کااہتمام کیا جانے لگا۔ جنگ آزادی میں اردو اخبارات اوران کے کالم نگاروں نے ناقابل فراموش کردار اداکیا۔ بیباک اظہارخیال اورٹھوس موقف کے سبب پابندسلاسل کیے جانے والے صحافیوں کی زریں خدمات سے تاریخ صحافت کے اوراق روشن ہیں۔

اردواخبارات میں شائع ہونے والے کالموں پر حکومت انگلشیہ اس قدربرافروختہ ہوجاتی تھی کہ وہ انتقاماً نہ صرف پریس پرقفل لگانے کا فرمان جاری کرتی تھی بلکہ بسااوقات صحافیوں پرنت نئے مظالم ڈھاتی تھی۔ اَن گنت صحافیوں کوسچ کہنے کی پاداش میں پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیاجانا اس کے بیّن ثبوت ہیں۔ مگر انگریزی حکومت کے تشددکے نئے نئے تجربے بھی ان صحافیوں کے حوصلوں کوپست کرنے میں ناکام رہے۔

کالم کسی بھی اخبار کی روح ہوتا ہے۔ اس کا معیار اوراس کے نظریات وخیالات کواخبارکی پالیسی کا عکاس ونقیب سمجھاجاتاہے۔اسی سے اخبارکی منفردشناخت قائم ہوتی ہے۔ اس لیے کالم کواخبارکی جان کہا جاتا ہے۔ اخبارات میں ادارتی صفحے کی اہمیت اس لیے دوچندہوجاتی ہے کہ اس میں حال کی نبض ٹٹول کرکالم نگارماضی کے آئینے میں مستقبل کے نشیب وفرازسے عوام کوباخبر کرتا ہے۔ کالم کا معیارجتنا بلندہوگا اخبارکے قارئین کا حلقہ اسی قدروسیع ہوگااوراس کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا۔

کالم نگاری یا کالم نویسی صحافت کی ایک اہم اور حساس صنف نگارش ہے۔ اپنے خیالات واحساسات کے اظہارکے لیے کالم نویس کونپے تلے لفظوں کا سہارالینا پڑتا ہے۔ کالم نویس کے فرائض میں سب سے اہم یہ ہے کہ وہ متوازن اسلوب اختیارکرے، اشتعال انگیزرویہ اختیار کرنے کے بجائے سنجیدہ لب ولہجے میںایوان اقتدار تک مظلوموں کی آواز پہنچانے کافریضہ انجام دے۔ کالم نویس اپنے پیشہ ورانہ اور مثبت انداز میں معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں کا پردہ چاک کرتا ہے تاکہ ظالم کو مزید ظلم سے روکا جاسکے۔ کالم نویس اپنے مقصدکی ترسیل میں اسی وقت کامران ہوسکتا ہے جب صحافت مکمل طور پر آزاد ہو اور اظہاررائے کی آزادی کے لیے اس کے پاس ایک مستحکم پلیٹ فارم موجود ہو۔

اس سے کسی کوانکارنہیں ہوسکتا کہ اچھااورمعیاری کالم اخبارکومنفردشناخت عطا کرتا ہے اوراس کی مقبولیت میں اہم کرداراداکرتاہے۔فکرتونسوی کے کالم (پیازکے چھلکے)، مجیدلاہوری کا (نمکدان)، عبدالمجید سالک کا (افکاروحوادث)، ریاض خیرآبادی کا (فتنہ اور عطر فتنہ )، حاجی لق لق کا(تعلق)، ساگرچند گورکھا کا(گپ شپ)، کنہیا لال کپورکا (دیکھتا چلا گیا)، عبدالماجد دریابادی کا (سچی باتیں)،  جعفرعباس کا (آئینہ)، رنبیر کا (چٹکیاں) اور مختلف اخباروں کے (سخن درسخن)، (لوکل)، (گلوریاں) کی یادیں آج بھی لوگوں کے ذہن میں تازہ ہیں۔

ایک اچھا اورمعیاری کالم اسی وقت وجود میں آسکتا ہے جب کالم نویس کا مطالعہ وسیع ہو، زبان وبیان پر عبورحاصل ہو، اس کی نزاکتوں اورلفظوں کی تراش خراش کے ہنرسے لیس ہو،  قوت فیصلہ کا جوہربدرجہ اتم موجودہو اوربروقت حالات وواقعات کا تجزیہ کرنے کے ملکہ کے ساتھ عصری تقاضوںپر اس کی گرفت مضبوط ہوتاکہ قارئین کووہ ایک مستحکم نظریہ دے سکے۔ کالم نگار کووقت کی نبض ٹٹولتے ہوئے بڑی صفائی کے ساتھ نپے تلے لفظوں میں اپنے مقصود کی ترسیل کرنی ہوتی ہے کیونکہ قدم قدم پر مصلحت پسندی کے روڑے سے سامنا ہوتا ہے۔ ایسے میں کالم نگار کادودھاری تلوارسے بارہاواسطہ پڑتاہے۔ وہ نہ تواشتعال انگیزی سے کام لے سکتاہے اورنہ ہی اپنے ضمیرسے سمجھوتہ اس کے لیے ممکن ہوتاہے۔ صحافی شاہین صفت ہوتاہے اوراپنے گردوپیش کے حالات پروہ چیل کی سی نگاہ رکھتاہے۔

اخباری کالم کے کئی اقسام ہیں جیسے عمومی کالم، خصوصی کالم، ذاتی کالم، سنڈیکٹ کالم اور مزاحیہ کالم وغیرہ۔  چونکہ میرا مقصود مزاحیہ کالم نگاری ہے ، اس لیے یہاں ہم مزاحیہ کالم سے متعلق گفتگو کریں گے۔کسی بھی کالم کی خصوصیت اس کی انفرادی جہت اوررنگ و آہنگ ہے۔ کالم نگار کا منفرد اسلوب ہی کالم کی جان کہا جائے گا کیونکہ کالم میں جوباتیں کہی جاتی ہیں عموماً وہ بہت پہلے لوگ کہہ چکے ہوتے ہیں شایدبایدہی کوئی نئی بات ،نیا گوشہ اورنیا خیال سامنے آتا ہے ورنہ وہی پرانے تجزیے ہوتے ہیں جنھیں لفظ وجملے کا نیا اسلوب وآہنگ عطا کیا جاتا ہے اوریہی کالم نگار کو امتیاز عطا کرتا ہے۔ بقول مجتبیٰ حسین:

’’اب دنیا میں کوئی ایسی بات نہیں رہ گئی ہے جوکروڑوں برس پرانی دنیا میں پہلے نہ کہی گئی ہو۔ ارسطو اور افلاطون سے لے کر آج کے مشاہیر تک سب نے اپنے اپنے ڈھنگ سے ساری باتیں کہہ دی ہیں۔ لہٰذا اب بات کی اہمیت نہیں رہ گئی ہے البتہ اہمیت اس بات کی رہ گئی ہے کہ آپ کس ڈھنگ سے اپنی بات کہتے ہیں۔ اب جب کہ ساری باتیں بہت پہلے کہی جاچکی ہیں تو ادب اب صرف ایک طرز ادا کانام بن کررہ گیا ہے۔‘‘

(کچھ میرے کالم کے بارے میں، ص14، مشمولہ میرا کالم،مطبوعہ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی)

کالم اورکالم نگاری کی خصوصیت اورکالم نگار کے لیے ضروری امور کے تعلق سے سیداقبال قادری نے کہاہے کہ

’’ ہرکالم نویس کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ اپنی تحریر میں ایک واضح انفرادیت قائم رکھے۔اسے کسی بھی چیز کو بھانپ لینے کی عادت ہو۔ اسے تجزیہ نگاری سے رغبت ہو اور وہ اپنی ہی قوت تخلیق کے ذریعے کالم کو استحکام بخشے۔‘‘

(رہبراخبارنویسی ،از سیداقبال قادری، ص325)

جہاں تک بات مزاحیہ کالم نگاری کی ہے تو باضابطہ رواج 1877 میں لکھنؤسے نکلنے والے اخبار ’اودھ پنچ‘ نے دیا۔ اس کے بعد اس کی مقبولیت وشہرت میں چار چاند لگ گئے کیونکہ اودھ پنچ کے مزاحیہ کالم کی مقبولیت کے بعد غیرمنقسم ہندستان سے کئی ’پنچ ‘ نکلنے لگے۔ ان کے کالموں میں ملک وملت اورسماج کے تمام مسائل کا احاطہ کیا جاتا تھا۔ ’اودھ پنچ‘ کے کالموں نگاروںمیں کچھ ایسے افرادبھی تھے جن کانام آج بھی روشن ہے۔ ان میں پنڈت رتن ناتھ سرشار، پنڈت تر بھون ناتھ سپر و ہجر،مچھو بیگ ستم ظریف، منشی جوالا پرساد برق، احمد علی شوق، سید محمد آزاد، عبد الغفور شہباز، احمد علی کسمنڈوی اور مدیراودھ پنچ منشی سجاد حسین کے نام نمایاں ہیں۔ ان کالم نگاروں نے ظرافت کے پردے میں انگریزی حکومت کے ظلم وتشدد،کسانوں کے استحصال اورہندستانی عوام کے ساتھ انگریزوں کے دوہرے سلوک کانہ صرف پردہ چاک کیا بلکہ ان کے خلاف مورچہ بندی بھی کی۔ رنگ ظرافت کے سبب براہ راست کالم نگاروں کو حکومت وقت عتاب کا شکار نہیں بنا پاتی تھی مگر ان میں کئی ایسے کالم نگارہیں جنھیں اپنی بے باکی کے سبب قید وبند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنی پڑیں۔  اودھ پنچ کا مزاحیہ کالم دراصل احتجاج کا ایک انوکھا باب تھا جو ظرافت کا رنگ لیے ہوئے تھا مگراس میں عوام اورسماج سے متعلق بہت سی سنجیدہ باتیں کہہ دی جاتی تھیں۔ درحقیقت انقلاب 1857 کے بعد انگریزی حکومت نے بولنے لکھنے پر پہرے بٹھادیے اورسنجیدہ کالم نگاری کے لیے کوئی جگہ نہیں رہ گئی تھی تب مزاحیہ کالم نگاری کی راہ اپنائی گئی اوریہ تجربہ نہ صرف کامیاب رہا بلکہ سیاسی، اقتصادی اورمعاشی استحصال کے شکار عوام کا نقیب وترجمان بن گیا۔مزاحیہ کالم میں کالم نگار بڑی ہوشیاری اورکمال فن کاری سے حکومت کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے، عوام کے مسائل اور سماج کی بے راہ رو ی پرچوٹ کرتے مگراس کا رنگ طنز ومزاح کا ہوتا تھا اس لیے کالم نگار گردن زنی سے محفوظ رہتے تھے۔ اودھ پنچ کے کالموں میں کس طرح عوامی مسائل، معاشی واقتصادی استحصال کوبیان کیا جاتا تھا اس کا اندازہ اخبار کے ایک اقتباس سے ہوتا ہے

’’ ایک تو گرانی دوسرے بنیوں کی یہ مہربانی کہ وزن باٹوں سے تولتے ہیں۔ لکھنؤ کا خدا ہی حافظ ہے۔ اس جرم میں چہار شنبہ گزشتہ عدالت سٹی مجسٹریٹ سے چھ بنیوں کو چھ ہفتہ قید کی سزاملی۔ 15اکتوبر کو انسپکٹر پولیس فتح گنج بنیوں کے باٹ جانچ رہے تھے کہ ان لوگوں نے کیا فقرہ چست کیا ( افواہ اڑائی ) کہ امین آبا دلٹا جارہا ہے۔ بنیوں کا غلہ لوگ لے جاتے ہیں۔ دوڑ یو، دوڑ یو... اور یہ کہہ کر سب نے دکانیں بند کرلیں کہ بنیوں کا فریب کھلنے نہ پائے۔ پولیس والے امین آباد کی طرف متوجہ ہوئے۔ ان کی جان بچی ورنہ اس روز قلعی کھل جاتی۔‘‘

(اودھ پنچ ،29مئی 1877، بحوالہ طنزیات ومضحکات ،از رشید احمد صدیقی)

اودھ پنچ کے کالم نگاروں کے موضوعات میں تنوع ہوتا تھا وہ محض ہنسانے کے لیے کوئی قصہ کہانی یا لطیفہ نہیں گڑھتے تھے بلکہ عوام وسماج کا ہر گوشہ ان کی تحریر کا حصہ بنتا تھا۔ رنج وغم، ہنسی وخوشی بلکہ سماجی سطح پر ابھرنے والے ان تمام مسائل اور چیلنجز اوروزہ مرے کے واقعات وحادثات کا احاطہ ہواکرتا تھاجس سے عوام وسماج میں بیداری پیداکی جاسکے۔

اودھ پنچ نے مزاحیہ کالم کی جوتحریک چھیڑی تھی آزادیِ ہند کے بعد اس کی چمک ماندپڑگئی۔ سیاست، ہندسماچار، انقلاب اور منصف کو چھوڑکرشایدہی کوئی اخبار ہوجس نے باضابطہ مزاحیہ کالم کی روایت کو برقرارکھاہو۔ سیاست کا مزاحیہ کالم ’شیشہ وتیشہ‘(شاہدصدیقی)،’کوہ پیما‘ اور ’میراکالم‘(مجتبیٰ حسین) قابل ذکر ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہندستان میں مزاحیہ کالم نگار نہیں رہے ہاں پرانے لوگوں کی جگہ کوئی نیاکالم نگارنہیں لے سکا اورنہ ہی ان کی موت کے بعد ان کا کالم زندہ رہا۔ اخبار فتنہ میں ریاض میگسار کا کالم ’فتنہ عطر فتنہ‘، ’ زمین دار ‘میں خواجہ حسن نظامی کا کالم ’جھینگر کا جنازہ‘،انقلاب ‘میں حاجی لق لق کا کالم، عبدالمجید سالک کا کالم ’افکار و حوادث‘، شیرازہ میں چراغ حسن حسرت کا کالم،ہند سماچار میں کنہیا لال کپورکا کالم، ملاپ میں فکر تونسوی کا کالم ’پیاز کے چھلکے ‘تخلص بھوپالی کا کالم ’پاندان‘، جعفر عباس کا کالم ’جام بکف ‘روزنامہ عوام دہلی اور ہفتہ وارنئی دنیا دہلی میں آئینہ، حیات اللہ انصاری کا کالم’ گلوریاں‘ قومی آواز لکھنؤ میں( جسے بعد میں مجیب سہالوی نے بھی لکھا)۔

نصرت ظہیر کا ’بقلم خود قومی آواز دہلی، خوشتر گرامی کا کالم تیر ونشتر، بیسویں صدی میں یوسف ناظم کا کالم اتوار یہ انقلاب ممبئی، شائع ہوتا رہا۔مگرآج ان میں سے ایک بھی کالم زندہ نہیں ہے۔ان کالموں کے تجزیے سے ایک تاریخی منظر سامنے آتاہے کیونکہ اس سے اس عہد کے سماجی تاریخی اور عوامی رجحانات کا پتہ چلتا ہے۔

کالم نگاری کی ادبی جہت

کالم نگاری کا اسلوب بھی ایک علاحدہ بحث کا متقاضی ہے۔عمومی طورپرسنجیدہ کالم نویس کا اسلوب بہت ہی خشک اورکھردرا ہوتاہے۔ لفظوں کے انتخاب اور جملوں کی سجاوٹ کے لیے انھیں وقت میسرنہیں ہوتا۔ کالم نگارکی پوری توجہ کم لفظوںمیں اپنے مقصود کی ترسیل پر ہوتی ہے کیوںکہ وقت کی قلت کے ساتھ جگہ کی بھی قیدہوتی ہے۔ نپے تلے پیرائے میں اپنی بات وضاحت کے ساتھ پیش کرنے کے دوران کالم نگارکی تحریرمیں کھردراپن آجانا فطری ہے اس لیے صحافی کی تحریروںمیں ادبی پہلوتلاش کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی حالانکہ ہمارے درمیان ایسے افرادکی بھی کمی نہیں ہے جنھوںنے ادب وصحافت دونوںمیں کمال فن کا مظاہرہ کیا۔ادب اورصحافت میں چولی دامن کا رشتہ ہونے کے باوجود کالم نگاری ودیگر صحافتی تحریروںکو ادب کا حصہ نہیں سمجھاجاتا۔ کالم نگاری کو وقتی،چلتا ہوا اور صحافتی مشغلہ قراردے کراس کے دائمی وجودکوتسلیم کرنے سے انکارکردیاجاتاہے حالانکہ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ ادب اورصحافت الگ الگ شعبہ ہونے کے باوجود ہرنازک موڑپرایک دوسرے کو تقویت بخشتے ہیں اورہر انقلاب کی آمدمیں دونوں نے مستحکم کردار نبھایا ہے۔ سرسیداحمد خاں، مولانا ابوالکلام آزاد، محمدحسین آزاد، مولانا حسرت موہانی، مولانا عبدالماجد دریا بادی، کرشن چندر، رتن ناتھ سرشار، خواجہ احمد عباس، خواجہ حسن نظامی، سیدسجاد ظہیر،نیاز فتح پوری ،مشفق خواجہ، شوکت تھانوی ،حیات اللہ انصاری، ظ انصاری ،فکرتونسوی اورمجتبیٰ حسین جیسی شخصیات کی ایک لمبی فہرست ہے جنھوںنے بیک وقت اپنے فکروقلم سے ادب اورصحافت دونوںکومالامال کیااوردونوں شعبوں کو جلابخشی۔

البتہ ادب اورصحافت کے مابین گہرارشتہ ہونے کے باوجود ایک حدفاصل بھی ہے۔ دونوںکے اپنے اپنے تقاضے اوردائرے ہیں اگر صحافتی تحریر یا کالم نگار ادب کے تقاضوں کی تکمیل کرتے ہوں تواسے ادب کا حصہ قرار دیا جائے گا۔یعنی جس طرح ادب کے نام پر لکھی گئی ہرتحریر کو ادب کا حصہ نہیں سمجھاجاتا اسی طرح ہرکالم کوادب کا جز نہیں کہاجائے گا۔ صارفیت اورعالم کاری کے اس عہد میں اردوصحافت میں کالم نگاری کی روایت ہی دم توڑتی جارہی ہے۔ ریڈیمیڈ میٹریل کی دستیابی اورمدیران ومالکان اخبار کی سہل پسندی نے کالم نگاری کی روایت کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔خداکرے کہ اردوصحافت میں کالم نگاری کی شاندارروایت پھر سے پروان چڑھے اورعوام کے جذبات کی ترجمانی کا فریضہ انجام دے۔


Md. Sabir Raza

Md Firoz Ahmed White House

Naugharwa, Sultanganj

Patna- 800006 (Bihar)

Mob.: 8804542020

Email.: sabirrahbar10@gmail.com


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...