21/8/23

دیویندر اِسر کی ادبی اور صحافتی خدمات: محمد تنویر

دیویندراِسر ایک باکمال صحافی، ایک بڑے مفکر، اعلیٰ نقاداورممتاز فکشن نگار کی حیثیت سے نامور دانشمندوں کی فہرست میں شمار کیے جاتے ہیں۔ ادب کی دنیا میں انھیں بڑی عزت وعظمت کی نگاہ سے دیکھاجاتاہے۔ اِسرصاحب ایک منفرد انداز اورمنفرد فکر کی حیثیت کے مالک ہیں۔ انھیں کئی زبانوں پرعبورحاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں اردوکے علاوہ ہندی،انگریزی اور پنجابی زبانوں کے لفظ کثرت سے پائے جاتے ہیں۔ دیویندر اِسر ایک اچھے افسانہ نگار،ناول نگار، تنقیدنگاراور محقق کے ساتھ ساتھ اچھے مترجم بھی ہیں۔ اِسر صاحب بہت ہی خوش مزاج، خوش اخلاق اور نرم طبیعت کے انسان تھے۔ وہ اپنی باتوں کو بہت سلیقے سے کہا کرتے تھے۔ ہمارے ملک ہندوستان کی جنگ آزادی کے لیے ہورہی جدوجہد کے حامی اور کئی تحریکوں میں ذہنی اور عملی طور پر شامل تھے۔ انھوں نے ہندوستان کی مختلف زبانوں کا ایک’ کلچرفورم‘ نام کا ادارہ بھی قائم کیا۔ وہ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے لیے ہمیشہ سرگرم رہنے والی شخصیتوں میں سے ایک تھے۔

اِسرصاحب کا پورا نام دیویندرناتھ اِسر ہے۔ ادب میں وہ اپنا قلمی نام دیویندراِسرلکھا کرتے تھے۔ان کے والدکا نام شر ی نا تھ اِسر تھا، جومغر بی پنجاب کے ضلع کیمبلپو ر کورٹ میں ایڈوکیٹ تھے۔دیویندرناتھ اِسر کی پیدائش/14اگست1928 کوحسن ابد ال(پنجہ صاحب) ضلع کیمبلپور، مغربی پنجاب میں ہوئی اور /01نومبر 2012 کونئی دہلی میں وفات پائی۔انھوں نے گریجویشن کی تعلیم 1947میں گورنمنٹ کالج،پنجاب یونیورسٹی مغربی پنجاب سے حاصل کی۔ 1949 میں الہ آباد یونیورسٹی اترپردیش کے شعبہ معاشیات سے پوسٹ گریجویشن کی تعلیم حاصل کی اور بی ایڈ کی ٹریننگ1953 میں دہلی یونیورسٹی سے لی۔ اورماس کمیونی کیشن کی ڈِگری1974 میں کا رنیل یونیورسٹی امریکہ سے حاصل کی۔ اس کے بعدتا حیات درس وتدریس اور ادب کی تخلیق و صحافت کی خدمت میں مصروف رہے۔ ہمارے ملک ہندوستان کی جنگ آزادی کے لیے ہورہی جدو جہد اور چل رہی تحریکوںمیں عملی اورادبی طور پربڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اِس جدوجہدکی وجہ سے انھیں جیل بھی جانا پڑا۔

ادبی تخلیق کار کے طورپر ہم دیکھتے ہیں کہ اِسرصاحب کے یہاں ترقی پسند تحریک سے جدیدیت اورمابعد جدیدیت کا بہترین امتزاج ملتا ہے۔اس کی مثال خصوصاً ان کے افسانوں کے مجموعہ ’پرندے اب کیوں نہیں اڑتے‘ اور ناولٹ ’خوشبوبن کے لوٹیں گے‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔  دیویندراِسر ترقی پسندتحریک کے مثبت اثرات کا کبھی بھی انکار نہیں کرتے لیکن وہ اشتراکیت کے مبلغ بھی نہیں رہنا چاہتے تھے۔ اس حوالے سے ان کے خیرخواہ ادبی دوست نندکشوروکرم نے اپنے ایک مضمون میں اِسرصاحب کے ایک انٹرویو کا بہت ہی عمدہ حوالہ دیا ہے۔ کہتے ہیں کہ انھوں نے ایک انٹرویو میںمجھ سے کہا تھا کہ:

’’ وہ اشتراکیت سے نہیں بلکہ سیاست سے ہی بیزار ہوگئے ہیں۔اور وہ ہر قسم کے بندنظریات اوراقتدار کی سیاست کی مخالفت کرتے ہیں، کیونکہ یہ فرد کو مانی پولیٹ (Manage)کرتے ہیں۔اوروہ انسان کی مانی پولیشن خواہ وہ سیاسی ہویا معاشی،مذہبی ہویا د لت برادری کی، اس کی تائید نہیں کر سکتے۔‘‘

(ایک دانشور ایک مفکر: دیویندراسر، 2013، مرتب، نندکشوروکرم، ص32)

دیویندراِسر کی پہچان ایک بڑے صحافی کے ساتھ ساتھ ایک اچھے ادیب،محقق اورفکشن نگارکی حیثیت سے کی جاتی ہے۔وہ ہمیشہ جدیدیت، مابعد مابعد جدیدیت کی باتیں کرتے اور انھیں خیالوں میں گم رہتے تھے۔ مستقبل میں ہونے والے حالات اور نئے نئے تجربات و ایجادات کی قیاس آرائیاں کرتے رہتے تھے۔وہ کہتے تھے کہ اس گہما گہمی کے دور میں اطلاعات ومعلومات کی فراہمی کے سبب ایک طرف تو معاشرے حقیقت پسندی اور عقلیت کے حامل ہورہے ہیں تو دوسری طرف ہماری قدیم روایات نے بھی ہمیں جکڑ رکھا ہے۔ آج ہماری تمام خواہشیں اور ضرورتیں ذرائع ترسیل وابلاغ کے تابع ہو گئی ہیں۔ عوامی ذرائع ابلاغ اور ترسیل کے حوالے سے انھوں نے ایک بہت ہی اہم اورجامع کتاب بھی لکھی ہے۔ جس میں جدیدیت اورمابعدمابعدجدیدیت کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔ انھوں نے یہ کتاب انگریزی زبان میںMass Media" and Development Communication" کے نام سے تصنیف کی۔ جس کا اردوزبان میں ترجمہ ’عوامی ذرائع ابلاغ ترسیل اور تعمیروترقی‘ کے عنوان سے ڈاکٹر شاہد پرویز نے کیاہے۔ یہ کتاب ترسیل وابلاغ کے عنوان پر بنیادی نوعیت کی ہے۔ اس کتاب میں ترسیل وابلاغ کے تمام تر نظریات، ترسیلی عمل، ذرائع ابلاغ، تہذیب وثقافت، سماجی تبدیلی اور تعمیر وترقی وغیرہ کوبڑے ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ادیب اور ممتاز صحافی کی حیثیت رکھنے والے دیویندراِسرکو لگتا تھا کہ ہندوستانی ادیبوں میں وہ اپنے اس سفر میں تنہا ہیں۔ انھیں لگتا تھا کہ یہ تنہائی،یہ اجنبی زندگی کاڈھنگ،ایک خاص طرح سے زندگی اور ادب سے متعلق سوچنا ادیب کاحصول ہوتا ہے۔ ادیب کا یہ حصول جب تخلیق میں شامل ہوتا ہے تووہ ادیب ممتاز بن جاتا ہے اور اس کی تخلیق ایک شاہکاراور لاجواب۔ان کا ماننا تھا کہ:

’’ تخلیق کے لیے خود کو مٹادینا پڑتاہے مگر اپنی خواہش کو چھوڑنابھی بہت مشکل ہوتاہے۔ حصولِ لذت کی خواہش فن کار خود سے ہٹا کر تخلیق سے وابستہ کردیتا ہے۔ اس طرح تخلیق اس کی شخصیت کاایک بنیادی جزو بن جاتی ہے لیکن وہ اپنی جس خواہش کو چھوڑدیتا ہے،اس کی تخلیق اسے پھر حاصل کرلیتی ہے۔‘‘ 

(ادب اورجدیدذہن،1968 ، اِسّرص 152)

تخلیق کی تعریف کرتے ہوئے اِسر صاحب اپنی رائے کچھ اس طرح پیش کرتے ہیں

’’تخلیق ایک ایساتحریری عمل ہے جوجلسے، جلوسوں، نعروں، نقا روں،فتوے فرمانوں کے شوروغل میں بھی چلتا رہتا ہے۔اوراپنی آزادیِ تحریرکوبنائے رکھتا ہے۔‘‘

(ایک دانشور ایک مفکردیویندر اسر، 2013، مرتب نندکشوروکرم، ص63)

اردوادب کے حوالے سے دیویندراِسر نے بہت سے تحقیقی وادبی کام کیے ہیں جوان کے تخیل کے اعتبار سے بالکل منفرد ہیں۔ اِسرصاحب نے ادبی زندگی کا آغاز مضمون نگاری سے کیا تھا۔ انھوں نے تقریباً ایک درجن سے زائد کتابیں، کہانیاں، مضامین اور تبصرے وغیرہ لکھے۔ انھوں نے ’ارتقا‘ کے عنوان سے ایک اردو رسالہ بھی جاری کیا تھا۔ مگر وہ زیادہ دنوں تک جاری نہ رہ سکا۔ اِسرصاحب نے بعضـ مضامین اور کتابوں کے ترجمے بھی کیے جن میں ایک اہم کتاب جے پرکاش نارائن کی تصنیف ہے۔ جو1977 میں لکھی ان کی ایک ڈائری ہے، جسے جے پرکاش نارائن نے جیل میں رہ کر ’میری جیل ڈائری‘ کے عنوان سے لکھی تھی۔ اِسرصاحب کی پہلی کہانی ’چوری‘ 1946 میں۔پہلا مضمون ’آرٹ کا سائنٹفک نظریہ‘۔ 1946 میں، پہلا ڈرامہ ’بھوکے دیوتا‘ 1947میں، پہلی ہندی کہانی ’پرَتی کرِیا‘ 1948میں اور آخری کہانی ’مسٹرروسو‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔اِسرصاحب کی بعض تصنیفات کاذکرکرنابھی لازمی سمجھتاہوںجو درج ذیل ہیں گیت اور انگارے (1952)، شیشوں کامسیحاـ (1955)، فکر اور ادب (1958)،  ادب اور نفسیات (1963)، ادب اور جدید ذہن (1968)، کینوس کا صحرا (1983)، مستقبل کے روبرو (1986)، خوشبو بن کے لوٹیں گے (1988)،  پرندے اب کیوں نہیں اڑتے(1992)، ادب کی آبرو (1996) وغیرہ۔ دیویندراِسر نے صحافت کے موضوع پر انگریزی میں ایک کتاب "Mass Media and Development Communication " سال2002  میں لکھی۔

دیویندراِسراردوادب کی خدمت کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے ہیں اوراردو صحافت کی دنیا میں بھی گراں قدراضافہ کیا جو قابلِ قدرہے۔اتنے وسیع پیمانے پرثقافتی مکالمہ قائم کرنے کی کوشش اِسر صاحب ہی کر سکتے تھے۔ ہاں اگران سے آگے کسی کا نام لیا جا سکتا ہے تو وہ باقر مہدی اور زاہدڈارکا ہے۔ان کے علاوہ اردو میں کوئی اور شخصیت نظر نہیں آتی۔اِسرصاحب کو اردو اورہندی ادب کو نئی فکر و تحقیق سے روشناس کرانے اور صحافت میں جدیدیت اور مابعد مابعدجدیدیت سے متعلق نئے نئے رجحانات وخیالات کو پیش کرنے کی وجہ سے کئی بڑے انعام واکرام سے بھی نوازا گیا۔

دیویندراِسرنے صحافت کے علاوہ تنقیداورفکشن کے میدان میں بھی بڑی شہرت حاصل کی ہے۔ ان کے افسانوں کے مجموعے گیت اور انگارے، شیشوں کامسیحا، کینوس کاصحرا اور ’’پرندے اب کیوں نہیں اڑتے‘۔ ناولٹ ’خوشبوبن کے لوٹیں گے‘۔ اور تنقیدی تصانیف فکراورادب، ادب اورنفسیات، ادب اور جدید ذہن، مستقبل کے روبرو، ادب کی آبرو۔ اور ’نئی صدی اورادب‘ کی ادبی دنیامیں بڑی پذیرائی ہوئی۔ افسانوں کا مجموعہ ’پرندے اب کیوں نہیں اڑتے‘ اور ناولٹ ’خوشبوبن کے لوٹیں گے‘ میں ترقی پسندی اورجدیدیت کا امتزاج واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ ممتازمحقق وقارعظیم اِسرصاحب کی انفرادی فکراور تخیل پردازی کو دیکھتے ہوئے افسانوں کے حوالے سے اپنی تحقیقی تصنیف ’داستان سے افسانے تک‘ میں رقمطراز ہیں

’’دیویندراِسرہمارے ان گنتی کے افسانہ نگاروں میں سے ہیں جنھوں نے زندگی کی تلخیوں اور اس کے انتشار و اضطراب سے گھبراکرتصوراورتخیل کی دنیا میں پناہ لینے کی کوشش نہیں کی۔ انھوں نے اِس انتشارواضطراب کا مقابلہ بڑی پامردی سے کیاہے۔ان کی نظر زندگی کی چھوٹی چھوٹی برائیوںپ ربھی ہے۔لیکن ان کاعقیدہ ہے کی بر ائیاں پورے نظام کو بدلے بغیرپوری نہیں ہوسکتیں۔‘‘                       

(ایضاً، ص11

’’ادیب تو تخیل سے تخلیق کرتا ہے،ہم تخیلی ادب کی بات کرتے ہیں نا کہ علوم کی۔ ذاتی تجربے کی ناکہ خارجی مناظرکی۔ اس لیے ہمیں الیکٹرانکس سے کیا لینا دینا۔ انسانی ذہن اوراحساس کومحدودکرناہے۔یہ ایسے ہی جیسے کہ کچھ ادیب یہ دعوے کرتے  ہیں وہ دوسرے ادیبوں کی تحریریں اس لیے نہیں پڑھتے کہ ان کی اوریجنلیٹی ختم ہوجائے گی۔ میراخطاب ایسے عظیم ادیبوں سے نہیں بلکہ ان سے ہے جوتجربے اورعلم کے دائرے کوگہرااوروسیع کرناچاہتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ ہرنیاعلم،نیاواقعہ،نئی اطلاع،دریافت یاتحقیق تخیل،احساس اورفکرکووسعت اورگہرائی عطاکرتی ہے۔‘‘

(مستقبل کے روبرو،1986، اِسر،ص120)  

دیویندر اِسرصاحب نے بطور مہمان استاد جواہرلعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) اور جامعہ ملیہ اسلامیہ (جے ایم آئی) میں اردو میڈیاکے حوالے سے خصوصی کلاسیں لیں ہیں۔ ان کے یہاں تخیل پردازی اِس حد تک تھی کہ میڈیا کی کلاس میں وہ اپنے طلبہ کوہمیشہ نئے نئے تجربات و ایجادات اور اِطلاعات ومعلومات اورنئی کھوج وخبر وغیرہ کی فراہمی سے متعلق آگاہ کیاکر تے تھے۔مستقبل میں ہونے والی تکنا لوجی اورمشینوں کی ایجادات کے امکانات کی طر ف اشارہ بھی کیا کرتے تھے۔تقر یباً دو دہائی سے بھی قبل انھوں نے کہا تھا کہ:

’’ ایک وقت آئے گاجب سائنس خوب ترقی کرے گی اور اس ترقی سے دنیا بہت بدل جائے گی۔ گائوں اور شہر اس قدر ترقی یافتہ ہوں گے کہ ہر ہاتھ میں تکنالوجی کی ڈور نظرآئے گی۔ آج یہ جوبڑی بڑی مشینیں، نئی نئی تکنالوجی اور الیکٹرانک چیزیں جیسے گھڑی، کیمرا، ریڈیو، لاوڈاسپیکر، فوٹو کاپی کی مشینیں، اکسرے کی مشینیں، ایم آر آئی کی مشینیں، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، موبائل، آئی فون، بلوٹوتھ اوربعض مختلف ترقی یافتہ ڈِوائیس وغیرہ سب سِمٹ کر بہت چھوٹے اوراستعمال کرنے میںبہت آسان ہو جائیں گے۔ اس قدر چھوٹے کہ لوگ ا سے اپنے ہاتھو ں کی کلائیوں میں گھڑی کی طرح اور انگلیوں میں انگوٹھی کے نگینے کی طرح پہنا کریں گے۔ بعض تو اتنے چھوٹے ہوں گے کہ اسے کان کے سراخ اورانگلیوں کے ناخون پر پالِش کے ماننداستعمال کریں گے۔‘‘

(درس وتدریس کے وقت کلاس روم میں، اسّر، 2004)

ہم دیکھتے ہیں کہ آج و ہی زمانہ آگیا ہے اور اِسرصاحب کی کہی ہوئی باتیں اورقیاس آرائیاں سچ ہوتی ہوئی نظر آرہی ہیں۔ ان کاکہنا تھا کہ ترسیل وابلاغ میں سب سے تیز کوئی ذرا ئع کام کرتا ہے تووہ ’افواہ‘ہے۔ افواہ کے ذریعے کوئی بات سچی ہو یا جھوٹی برق رفتاری سے عوام الناس تک پہنچ جاتی ہے۔ اس کی تصدیق کے ہونے تک ’افواہ‘ معاشرے کو اپنے گرِفت میں لے لیتی ہے اور عوام اس منفی یا مثبت افواہ کا اثربہت جلد قبول کرلیتی ہے۔جب تک اس افواہ کی صداقت کا پتہ چلتا ہے تب تک قاصد اپنا مقصد پورا کرچکا ہوتا ہے۔ آج ہم اِطلاعاتی تکنا لوجی کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ ہماری زندگی اور معاشرے کا کوئی بھی گوشہ باقی نہیں جو انفارمیشن تکنالوجی سے متاثرنہ ہو۔ مثال کے طورپر جیسے۔ گھر ہو یا دفتر، اسکول ہو یا کالج، یونیورسٹی ہو یا انسٹی ٹیوشن، اِنڈسٹری ہویا فیکٹری، معیشت ہویا ثقافت، کھیل کود ہویا تفریح، فن ہویا کوئی سرکاری محکمہ ہرجگہ جدید تکنا لوجی حاوی ہوتی جارہی ہے اور ہمارا کام آسان ہوتا جارہا ہے۔تکنالوجی نے تعلیم کی دنیا میں بھی بہت اہم رول ادا کیاہے۔انٹرنیٹ کی ایجاد سے عا لمی نظام بالکل بدل گیا ہے ایسا لگتا ہے کہ ساری دنیا گھر کے اندر سِمٹ آئی ہے۔ ’کرلودنیامٹھی میں‘کانعرہ بھی سچ ہوتا نظرآرہا ہے۔ ہرطرح کی انفارمیشن برق رفتاری سے ایک کلِک پرگھربیٹھے ہم تک پہونچ جاتی ہے۔ اسر صاحب لکھتے ہیں:

 ’’تکنالوجی سے فرارممکن نہیں۔ اس کے بڑھتے ہوئے قدموں کو روکا نہیں جاسکتا۔ لیکن اس کی رفتار اور سمت کاتعین کیاجاسکتاہے اوریہ تبھی ممکن ہے، جب ہم تکنالوجی کو سائنسدانوں اور حکمرانوں کے ہاتھوں سے نکال کر نوع انسانی کامشترکہ سرمایہ قراردیں اوراسے انسان کی مادی اورروحانی زندگی کی بہتری کے لیے استعمال  میں لائیں۔نہ کہ اس کے خلاف واویلا مچاکراپنی بے بسی اورلاعلمی کاثبوت دیں۔‘‘

(مستقبل کے روبرو،1986، اِسّر، ص:117)

انٹرنیٹ کے حوالے سے بِل گیٹس نے’ انٹرنٹ اِز دی فیوچر‘ میں لکھا ہے کہ:

’’انٹرنیٹ ایک متلاطم نہر ہے جوکمپیوٹر انڈسٹری کواپنی لپیٹ میں لے رہی  ہے اوروہ بہت سے لوگ جو اس لہر میں تیرنا سیکھنے سے احتراز کریں گے،اس میں ڈوب جا ئیں گے ۔‘‘

(عوامی ذرائع ابلاغ ترسیل اور تعمیر و ترقی، 2002، اسّر، ص12)

جدیدیت اور مابعد جدیدیت کو اپنی فکر کا اہم موضوع بنانے والے دیویندر اِسر نے اردوادب کے حوالے سے جو کچھ بھی تحقیقی و تنقیدی کام کیاہے ان سب میں جدیدیت اور مابعدجدیدیت جیسی فکراو ر منفردرجحان کو مدِنظر رکھا ہے۔اس نئی فکراور نئے خیالات سے اردو ادب میں گراںقدر اضافہ ہوا۔ادیبوں،نقادوں اور دانشوروں نے بھی انھیں دل سے قبول کیا۔ اِسرصاحب جس ذہنی کلچر کی پیداوار ہیں اس میں گہرائی، وقار اور تمکنت بہت زیادہ تھی۔ مجال ہے جو کہیں سوقیانہ پن کا شائبہ تک پیداہو۔ اِسر صاحب کی شخصیت کو جاننے کے لیے قاری کوپہلے جدیدیت اورمابعدجدیدیت کے ساتھ ساتھ بدلتے نظام او رتر قی پسندرجحانات کوسمجھنالازمی ہوگا۔ مابعدجدیدیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اِسرصاحب کہتے ہیں کہ

’’روشن خیال بیدارذہنوں کے لیے یہ ایک لمحہ فکر یہ ہے۔کیونکہ مابعدجدیدیت کا تذکرہ ادب اور فن کے دائرے سے باہر نکل کرپوری تہذیب پرمحیط ہوچکاہے۔ اور اس کے حوالے سے علم،فن اورزندگی کے ہر شعبے سے متعلق متعددکتابیں اورر سائل وجرائد میں تحریریں شائع ہوچکی ہیں۔ لہٰذااس کے تنقیدی محاسبے کی اشدضرورت ہے اوراس کے مثبت پہلووں اورمنفی رویوں،دونوںپر غوروفکر کی ضرورت ہے۔‘‘

(ادب کی آبرو،1996،  اسر،ص41   )

 ہم دیکھتے ہیں کہ جدیدیت ایک ایساتاریخی،ادبی اورفلسفیانہ تصور ہے جو حالاتِ زندگی کاسامنا کرتا ہے اور اسے تمام تر خطرات وغیرروایتی امکانات کے ساتھ برتنے کی سیکھ دیتا ہے۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جومسلسل جاری وساری رہتا ہے۔ جدیدیت صرف انسان کی تنہائی، مایوسی، اس کی اعصاب زدگی کی داستان ہی نہیں بلکہ اس میں انسانیت کی عظمت کے ترانے اورانسان دوستی کا جذبہ بھی شامل ہوتا ہے۔ جدیدیت اورمابعد جدیدیت کے رجحانات کواردو ادب کی تمام تر اصناف میں تعارف کرانے والوں میں اِسرصاحب کانام قابلِ ذکر ہے۔ انھوں نے اردوادب، ہندی ادب اور اردو صحافت کو جدیدیت اور مابعد جدیدیت سے بہت قریب کردیا۔ ’سماجی زندگی فطرت سے تہذیب کی جانب تبدیلی کا سفرہے‘ جس میں انسانی فطرت کو ثانوی فطرت قراردے دیا گیا ہے۔ جدید ادب میں انفرادی احساسات اور ردِعمل کونمایاں حیثیت حاصل ہے۔ جدید فن کاروں نے سماجی اداروں کے بجائے فرد کی خود اپنی خواہش اور انفرادی شعور کو مقدم قرار دیا ہے۔ تہذیب کے مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آسویلڈاسپنگلرنے مثال کے طورپر کچھ یوں اپنی رائے پیش کی ہے کہ

’’ہرتہذیب کی زندگی میں ایک ایسا مقام آتاہے جب اس کے اندر کی سب چیزیں ٹوٹنے لگتی ہیں۔ داخلی نشوونما بندہوجاتی ہے اورتہذیب کے تحفظ کے لیے خارجی ترقی ہی ایک راستہ رہ جاتاہے۔‘‘              

(ادب اور جدید ذہن،1968، اسّر، ص23)

اِسر صاحب کی تصانیف،تالیفات اور ترجموں کی مجموعی تعدادپچاس سے بھی زیادہ ہے۔ یہ سارا کام خود انھیں کا کیا ہوا ہے۔ ان کا یہ کام مستعار یا کسی اور کی محنت کا نتیجہ نہیں ہے۔کبھی کبھی تو حیرانی ہوتی ہے کہ اِسر صاحب اتنا کچھ کیسے کرتے تھے۔ان کے لکھنے پڑھنے کا سلسلہ تقریباََ سترہ سال کی کم عمری سے ہی شروع ہوگیا تھااور جب تک لکھ سکتے تھے لکھتے رہے۔ وہ بھی ہمیشہ کی طرح اسی جوش وجذبات اوراسی پختگی کے ساتھ۔ اِسرصاحب کی تحریروں کا مطالعہ کرنے سے ان کے فکری رجحانات کاپتہ چلتا ہے۔ہم کسی فنی تخلیق کی قدر تب معین کر سکتے ہیں جب ہمیں اس کی تمیزاورپرکھ ہو۔ملاحظہ ہو:

’’لہٰذاجب پرکھ کی کسوٹی کاسوال اٹھتا ہے تو ہمیں ان باتوں پرغور کرنا لازمی ہے کہ اس شے کی ماہیت کیا ہے؟ اس ماہیت سے کیا منصب وابستہ ہے؟اوراس منصب کی تکمیل کیسے ہو سکتی ہے؟اس کے بعدہم عملی طورپرکسی فنی تخلیق کی قدر معین کر سکتے ہیں۔‘‘                                       

(فکروادب،1958، اسّر، ص:8)

اِسر صاحب کے خیال میں ’فن کے شعبے میں تخلیقات اور رائج فکری رجحانات کاسائنسی تجزیہ کرنے کے لیے اس دور کے سماجی اورمعاشی حالات کاشعور لازمی ہے‘‘۔ ان کا سوال اپنے ماضی سے بھی ہے اورمستقبل سے بھی۔ادب،نفسیات اور ماس میڈیاان کی ذہنی اورتخلیقی سرگرمیوں کے تین خاص میدان تھے۔اس کے باوجود انھوں نے اپنے آپ کوزندگی کی تفہیم وتعبیر کے کسی ایک تحریک ورجحانات کا غلام بنا کر نہیں رکھا۔ ادب، آرٹ، سماجی اور سائنسی علوم، فلسفہ اور نفسیات، اسی طرح اساطیر اور تاریخ، مارکسزم اور اینتھروپولوجی، قدیم و جدید روایات اور انفارمیشن ٹکنولوجی وغیرہ سے رابطہ رکھتے تھے۔ جارحانہ طبیعت کا مظاہرہ کیا کرتے تھے۔ انھوں نے اپنی تحریروں کو بہت اضطراب آسا اورپرجوش بنانے کی کوشش کی ہے۔ ادبی حلقوںمیں اِسرصاحب کوبڑی مقبولیت حاصل ہے۔ حتی کہ ان کی شہرت روزبروزبڑھتی ہی گئی۔ ادیب اور دانشور ان کی ذہانت کی تعریف کرتے نہیں تھکتے۔ اردو کے مشہور ادیب وبڑے نقادپروفیسرشمیم حنفی صاحب اِسرصاحب کی تعریف کرتے ہوئے رقمطراز ہیں۔ اقتباس غورفرمائیں:

’’اِسرصاحب بے تحاشا پڑھتے تھے اورصرف ادب نہیں پڑھتے۔ ان کے گیان دھیان کامر کزوہ پر پیچ تخلیقی وحدت ہے جس کی تشکیل میں انسانی تجربوں اورتصورات کے تمام ممکنہ وسائل ایک ساتھ سرگرم ہوتے ہیں۔ اس ہمہ گیراور مختلف النوع احساسات کوایک ساتھ جذب کر لینے کی صلاحیت سے مالامال رویے نے،اِسرصاحب کو صنمیات، تاریخ اوربشریات سے لے کرعلومِ حاضرہ تک مطالعے اورتعبیروتفہیم کے ایک ہزارشیوہ تجربے کاراستہ دکھایاہے۔اپنے مطالعے کی وسعت اور بوقلمونی کے لحاظ سے اِسرصاحب کامعاملہ اردو کے تقریباً تمام ادیبوں اور نقادوں سے مختلف ہے۔ بس زیادہ سے زیادہ باقرمہدی اور زاہد ڈار سے کچھ مماثلت ٹھہرائی جاسکتی ہے۔‘‘

(ایک دانشور ایک مفکر:دیویندر اسر، 2013، مرتب نندکشوروکرم، ص:57  )

اپنے ہم عصر ادیبوںاور تخلیق کاروںمیں اِسر صاحب اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔یہ مقام ان کی منفرداور مختلف فکر کی وجہ سے حاصل ہے۔ ادب اورصحافت میںاس قدر انفرایت اور مضبوط پکڑ ہے کہ کوئی ثانی نہیں رکھتے۔تخیل پردازی اس حد تک ہے کہ ہر تحریر میںایک نئی بات اور نیا انداز ہوتا ہے۔ اِسرصاحب کا لکھناپڑھنا کبھی رکا نہیں بلکہ اس کی رفتار بڑھتی ہی گئی ان کا لکھنا صرف افسانوں اور کہانیوں تک ہی محدود نہیں تھا۔ تفکر، تدبر، انسانی نفسیات، ادبی تحقیق، نئی تکنیک،علمِ ابلاغ سے لے کر زندگی کے خاکوں تک ان کا قلم چلتارہا۔عالمی نظام بڑی تیزی سے بدل رہا تھا۔ نئی نئی ایجاداورتکنیک سے لوگ استفادہ کررہے تھے جس کی وجہ سے لوگوں کا کام آسان ہوتا جارہا تھا۔ اِسر صاحب کی فطرت میں بیباکی اور انانیت حددرجہ کی تھی۔ طبیعت کے نرم اور حساس دل انسان تھے جس کی وجہ سے ان سے ملنے والاکوئی بھی شخص ان کاشیدائی اور پیروکار ہوجاتا تھا۔ کسی بات کا اعتراف کرنے میں بہت جلد بازی  نہیں کرتے تھے پہلے اس پرغوروفکرضرور کیا کرتے تھے پھر اپنی رائے رکھتے تھے۔غصہ آنے پر خاموشی اختیار کرتے اور صبر سے کام لیتے تھے۔جوکچھ ان کے پاس ہوتا اسی پر قناعت کرتے اورخوشی خوشی اپنی تخلیقی کاوشوں کو انجام دیتے رہے۔

اِسرصاحب کا نام اردوادب کی تاریخ میں ہمیشہ عزت کے ساتھ لیا جائے گا۔ ان کی شخصیت کسی کی محتاج نہیں وہ اپنی تحقیقی وتنقیدی بصیرت اورمنفرد رجحانات اور مابعدجدیدیت کے علم بردار کی حیثیت سے اردو دنیا میں ستاروں کے مانند چمکتے رہیں گے۔ ان کی کاوشوں کا ہی نتیجہ ہی ہے کہ آج اردوادب میں ماس میڈیا کوایک اعلٰی مقام حاصل ہوچکا ہے۔ انھوں نے ماس میڈیاسے متعلق بہت سارے مضامین اورکتابیں لکھیں جس کی پذیرائی ادیبوں، دانشوروں اور صحافیوں نے کی۔ جہاں تک جدیدیت اورمابعدجدیدیت کا سوال ہے تو اِسرصاحب نے اپنی تحریروں میں جدید خیالات ورجحانات کو ہمیشہ فوقیت دی۔ جدیدیت اورمابعدجدیدیت کو موضوع بحث بنایا اورمستقبل میں ہونے والے واقعات و ایجادات کی پیشن گوئیاں بھی کیں جو آج حقیقت ہوتی نظر آرہی ہیں۔ اخیر میں ہم یہ کہ سکتے ہیں کی اِسرصاحب نے اپنی منفرد سوچ اور جدید رجحانات سے اردوادب کے کینوس کواور وسیع کردیا۔  

 

Dr. Mohd Tanveer

B3/01, Sector-E-1,DDA Flates

Graound Floor, Mahipalpur Road Near CNG, Vasant Kunj

New Delhi- 110070

Mob.: 8076892245

Email.: mtanveer.w@gmail.com

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...