19ویں
صدی کا ابتدائی زمانہ برطانیہ میں انگریزی شاعری کی ترقی اور فروغ کے لحاظ سے بڑااہم
مانا جاتا ہے۔اس دور کو انگریزی شاعری کے رومانی عہد سے بھی منسوب کیا جاتا ہے جس میں
برطانوی انگریزی شاعری کی صحیح معنی میں نشوونما ہو پائی۔اگرتحریک نشاۃ الثانیہ کے
بعد کسی دوسری ادبی تحریک نے انگریزی ادب پر مستحکم، ہمہ گیر اور دیرپا اثرات چھوڑے
تو وہ یقینا رومانی تحریک ہے جو19ویں صدی کے نصف اول میں پوری طرح سے انگلستان کی فضا
پر چھائی رہی۔یہ ایک ادبی، ثقافتی اور فکری تحریک تھی جو یورپی لوگوں کے خیالات میں
رونما ہوئی تبدیلیوں کا نتیجہ تھی۔دراصل یہ تحریک کلاسیکی روایت اور ہیئت پرستی کے
خلاف ایک طرح کی بغاوت تھی جس میں ادب اور زندگی میں نئی قدروں کی بازیافت مضمر تھی۔
خیالات کی یہ تبدیلیاں یورپ کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی انقلابات کی مرہون منت تھی
جن میں فرانسیسی انقلاب کا نام خاص ہے۔ کیونکہ اس انقلاب کے بعد یورپی ادبیات کی صورت
حال میں زبردست تبدیلی رونمائی ہوئی جس کا اثر انگریزی شعرا پر بھی پڑا اوریہیں سے
برطانوی انگریزی شاعری کے نئے دور کا آغاز ہوا جسے رومانی عہد کا نام دیا گیا۔انگریزی
شاعری میں جان کیٹس، پی بی شیلی اور ولیم ورڈزورتھ جیسے شعرا کا تعلق اسی عہد سے رہا۔
18ویں صدی کے اواخر1798 میں اپنے مجموعۂ کلام "Lyrical Ballads" کے ذریعے رومانیت کی تحریک کو تقویت دینے والے پہلی نسل کے سب سے ممتازو غیر معمولی رومانی شاعرولیم ورڈزورتھ کسی بھی لحاظ سے تعارف کا محتاج نہیں۔وہ ایک ایسا لافانی شاعر ہے جسے ادبی حلقوں میں آج بھی ’پیغمبر فطرت‘ کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔دراصل ’لیریکل بیلیڈز‘ورڈزورتھ اورایس ٹی کالرج کی نظموں کا ایسا مجموعہ ہے جس کی اشاعت سے انگریزی ادب میں ایک نئے قسم کی جذباتیت پیدا ہوئی۔ اسی مجموعہ میں کالرج کی معروف طویل نظم ’مُعمّرجہازی‘ بھی شامل ہے۔ میری تحقیق کے مطابق اس نظم کے اردو میں اب تک دو منظوم تراجم ’بوڑھا جہازراں‘ کے نام سے بازیافت ہوئے ہیں جن میں پہلا ترجمہ رحم علی الہاشمی کا جبکہ دوسرا ترجمہ شبنم گورکھپوری کا ہے۔اس مجموعے میں زیادہ تر نظمیں ورڈزورتھ کی شامل ہیں۔ڈاکٹر محمد یٰسین نے تو اس مجموعۂ کلام کو انگریزی شاعری کی ایک نئی سمت قرار دیا ہے1 وہیں ڈاکٹر ذکی کاکوروی اپنی ترجمہ شدہ کتاب ’انگریزی ادب کی مختصر تاریخ‘ میں اس مجموعۂ کلام کے فکری و فنی پہلوؤں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اپنی ذاتی زندگی میں
ورڈزورتھ کا پہلا تعارف ’لیریکل بیلیڈز(1798)‘ سے ہواجس میں ایس ٹی کالرج نے’ معمر
جہازی‘ کے ساتھ شرکت کی۔ یہ کتاب ایک تجربہ تھی کیونکہ ورڈزورتھ سادہ دیہاتی زندگی
کے حادثات پر ایسی زبان میں جو معمولی تقریر کے جملوں سے لی گئی تھی، نظم لکھنا چاہتا
تھا۔ کالرج اپنی شاعری کے ذریعے حیرت انگیز موضوعات کو پیش کرنا چاہتا تھا۔ ورڈزورتھ
کی تجرباتی شاعری نیم کامیاب تھی لیکن’میکائل‘ میں اس نے دکھایا کہ ایک گدڑیے اور اس
کے بیٹے کے المیے کو کس طرح قابل قدر کہانی بنایا جاسکتا ہے۔‘‘2
ورڈزورتھ کی ادبی خدمات سے متاثر ہوکر 1843 میں ملکہ وکٹوریہ
نے اسے ملک الشعرا کا خطاب عطا کیا تھا۔ اپنی ادبی زندگی میں یوں تو اس نے بہت سی شاہکار
نظمیںلکھی ہیں لیکن ایسی نظمیں نسبتاً بہت کم ہیں جنہیں اردو مترجمین نے منظوم تخلیقی
پیراہن عطا کیا ہو۔اردو ادب میں ورڈزورتھ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا
جاسکتا ہے کہ جس انگریزی شاعر کی نظموں کے اردو میں سب سے زیادہ منظوم تراجم ہوئے ہیں،
ورڈزورتھ ان میں سر فہرست ہے۔وہ شیلی کے بعد دوسرا ایسا شاعر ہے جس کی تقریباً پندرہ
نظموں کے منظوم کثیر التراجم ہوئے ہیں۔ ایسی ہی ایک خوبصورت نظم "The
Rainbow" ہے جس کے شعری محاسن سے متاثر ہوکر آٹھ مترجمین
نے اسے اردو کے سانچے میں پیش کیا ہے اور یہ تمام تراجم ’ساز مغرب‘ میں شامل ہیں۔
ورڈزورتھ نے اپنی یہ نظم 1802 میں بلا عنوان لکھی تھی۔ کوئی
نام نہ ہونے کی وجہ سے اہل زبان نے مذکورہ نظم کے دو عنوان رکھ دیے جس میں پہلا نام
تو"The
Rainbow" ہے جو کہ اصل نظم کے وجود میں آنے کابنیادی
سبب ہے کیونکہ قوس قزح کو دیکھنے کے بعد ہی شاعر اپنے ایام طفلی کی یادوں میں کھوجاتا
ہے جس کے بعد وہ اس نظم کو تخلیق کرتاہے۔شاعر نے اس نظم میں نیچر کی خوبصورتی کو بیان
کرتے ہوئے انسانی زندگی کے مرحلوں کی حقیقت بیان کی ہے۔وہیں اس نظم کا دوسرا نام’مائی
ہارٹ لِیپس اپ‘ ہے جو کہ اس نظم کا پہلا مصرعہ ہے۔دراصل ورڈزورتھ کی بہت سی نظمیں بغیر
کسی عنوان کے ہی شائع ہوئی ہیں کیونکہ اس عہد میں نظموں کے عناوین کا کوئی چلن نہیں
تھا۔ اس وجہ سے شعرا کی جونظمیں ہوتی تھیں ان کے مصرعۂ اولیٰ کوہی نظموں کا عنوان
مان لیا جاتا تھا۔یہ نظم پہلی دفعہ 1807 میں وردزورتھ کے مجموعۂ کلام ’نظمیں دوجلد‘
میں شائع ہوئی تھی۔انگریزی ادب میں یہ نظم اپنی ساخت اور آسان زبان و بیان کی وجہ
سے انتہائی مقبول عام کا درجہ رکھتی ہے۔ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس نظم کو مکمل کرنے
کے بعد جب ورڈزورتھ نے1804 میں اپنی ایک طویل نظم ’قصیدہ حیات جاوید‘لکھی تو اس کے
آغاز میںمذکورہ نظم کے آخر تین مصرعوں کو بطور ذیلی اقتباس استعمال کیا تاکہ پوری
نظم کا بنیادی خیال پڑھنے سے سمجھ میں آسکے۔ واضح رہے کہ ورڈزورتھ کی دوسری متذکرہ
نظم کا بنیادی خیال انہی درج ذیل تین مصرعوں پر مبنی ہے جوکہ نظم"The
Rainbow" میں شامل ہیں۔
یہی وہ نظم ہے جس میں ورڈزورتھ نے دنیا کو ایک ایسا محاورہ"Child is
father of the Man" دیا جو آج ضرب المثل کے طور
پرخوب استعمال کیا جاتا ہے جس کا مطلب ہے ’’لوگوں کی شخصیتیں بچپن میں ہی وقوع پذیر
ہوتی ہیں اس وجہ سے ایک بالغ شخص میں بھی وہی خصوصیات ہوں گی جو بچپن میں تھیں‘‘ یعنی
بچپن میں جو تجربات حاصل ہوتے ہیں ان کی بنیاد پر ہی ایک انسان کا مستقبل تیار ہوتا
ہے۔ورڈزورتھ سے پہلے جان ملٹن بھی 1671 میں اپنی طویل نظم "Paradise Regained" کی
چوتھی جلد میں اس کہاوت سے ملتا جلتا مضمون پیش کرچکا ہے بلکہ اس کے علاوہ بھی انگریزی
تخلیقات میں اس کہاوت کو کئی مرتبہ استعمال کیا گیا ہے ۔
ملٹن کی مذکورہ نظم کو معروف
شاعر عیسیٰ چرن صدا 1922 میں ’فردوس بازیافتہ‘ کے عنوان سے اردو میں پیش کرچکے ہیں
جو ساز مغرب کی پانچویں جلد میں شامل ہے۔ بہرحال ورڈزورتھ کی مذکورہ نظم میں کل نو
اشعار ہیں تو آئیے اصل نظم کے مفہوم پر ایک نظر ڈالتے چلیں۔
اصل نظم میں شاعر کہتا ہے کہ جب میں آسمان میں کسی قوس
قزح کو دیکھتا ہوں تو میرا دل خوشی سے جھوم اٹھتا ہے۔بچپن کے یہی تجربات آج جوانی
میں بھی میں محسوس کررہا ہوں یعنی جو حال میرا بچپن میں تھا آج جوانی میں بھی وہی حال
ہے۔کل جب میں بڑھاپے کو پہنچ جاؤں گا تب بھی میرا یہی حال ہوگا لیکن اگر ایسا نہیں
ہواتو مجھے خود موت آجائے۔اس کے بعد شاعر کہتا ہے کہ انسان کا بچپن ہی اس کے مستقبل
کا آئینہ ہوتا ہے۔آخر میں شاعر کہتا ہے کہ میری خواہش ہے کہ آخر عمر تک میں فطرت
کے حسن سے سرشار ہوتا رہوں۔آئیے اب ذرا اس نظم کے کچھ منظوم تراجم پر تنقیدی نظر ڈالتے
چلیں:
قوس قزح :سید عبدالولی قادری
آکاش پہ ابھری قوسِ قزح
دل میرا خوشی سے جھوم گیا
طفلی کا یہ ذوق نظارا
جو عہد جوانی میں بھی
رہا
پیری میں بھی یہ اے
کاش رہے
ورنہ مجھے خود موت
آجائے
کردار بشر کا آئینہ
بچپن کا جذبۂ دیرینہ
آئین ہے گردش دوراں
کا
بچہ کل باپ انسان کا
پس جب تک میں دنیا
میں رہوں
قدرت کے مناظر کو چاہوں4
دھنک ارشد
صدیقی
مرا دل فرط مسرت سے اچھل پڑتا ہے
آسماں پر نظر آتی ہے دھنک
جب مجھ کو
مرے بچپن کے زمانے
میں تھی اس کی یہی شکل
اور اب بھی ہے یہ ویسی ہی
کہ جب میں ہوں جواں
عمر آخر میں بھی اس
کی یہی صورت ہوگی
اور یہی شکل رہے گی مرجانے
کے بعد
طفلی انسان کی فطرت کو جنم
دیتی ہے
میری خواہش ہے کہ بندھ جائیں مری عمر کے دن
اسی معصوم محبت کے
حسیں رشتے میں
)فطرتاً ہوتی ہے بچے
کو جو ماں باپ کے ساتھ) 5
عاشق فطرت کا ترانہعبدالرحمن
غازی
دل اچھلتا ہے مرا قوس و قزح
کو دیکھ کر
یاد آجاتی ہے ایام کہن کی داستاں
کیفیت اس کی یہی تھی عہد طفلی میں مرے
اور جوانی میں مرے اس کا ہے ویسا ہی سماں
اب یہ خواہش ہے کہ گو ہوجاؤں پیری کا اسیر
پر مئے اُلفت کا لذت آشنا یہ دل رہے
ورنہ گر یہ روح فطرت کر گئی پرواز تو
کس لیے یہ جسم پھر مربوط آب وگل رہے
—
طفلِ ناداں درحقیقت آدمی کی اصل ہے
اس کے ہر اک فعل سے حیوانی فطرت ہے عیاں
اس تن خاکی میں جن جذبات کا ہوگا کمال
ہم کو مل جاتا ہے ان کا شیر خواری میں نشاں
آرزو ہے خواہ باقی زندگی کیسے کٹے
کامرانی سے رہوں یا رہن نومیدی رہوں
ہاں مگر جب تک رہوں دنیا میں پابندِ حیات
زلفِ فطرت کے مسلسل عشق کا قیدی رہوں6
قوس قزحعزیز
احمدجلیلی
جھوم اٹھتا ہے مسرت سے مرا
دل اس دم
دیکھ لیتا ہے سرِ چرخ دھنک کو جس دم
یہی بچپن میں مرا حال ہوا کرتا تھا
اور جوانی میں بھی ہوتا تھا یہی حال مرا
جب میں بوڑھا ہوں یہی ہو مرے دل کی حالت
ورنہ پھر موت کی یارب مجھے دیدے نصرت
باپ میں بیٹے کی تصویر نظر آتی ہے
آدمی میں یہی تنویر نظر آتی ہے
میری حسرت ہے یہی اور مری خواہش ہے یہی
یاد باری میں مری زندگی گزرے ساری 7؎
درج بالامنظوم تراجم کے علاوہ ورڈزورتھ کی اس نظم کومنظوم
شکل میں پیش کرنے والے مترجمین میں دھرم سروپ، مرزا سرفراز علی، حیرت اور رسا ہمدانی
کے نام شامل ہیں۔ان تمام ترجموں کو دیکھنے کے بعد یہ کہہ پانا تھوڑا مشکل ضرور ہے کہ
کس مترجم نے ورڈزورتھ کی شاعرانہ خوبیوں کو اپنے ترجمہ میں پوری ذمے داری کے ساتھ ڈھالتے
ہوئے اصل نظم کے بنیادی خیال کے ساتھ کہاں تک انصاف کیا ہے۔یقیناً غلطیاں کسی سے بھی
ہوسکتی ہیں اور پھر ترجمے کا عمل تو جوئے شیرلانے کے مصداق ہے جہاں فن ترجمہ کے رموز
و نکات کا عالم بھی خود کو کامل و مکمل خیال نہیں کرسکتا۔متذکرہ چھ مترجمین نے اپنی
منظوم تخلیقات کا عنوان اصل نظم کے موضوعی نام "The Rainbow" کی
مناسبت سے ’قوس قزح‘ رکھا ہے جبکہ ارشد صدیقی نے اپنے ترجمے کے لیے سنسکرت متبادل
’دھنک‘ کا خوب استعمال کیا ہے جو کہ اصل سے قریب ہے۔صرف عبد الرحمن غازی کے ترجمہ کا
نام اصل متبادل کے بجائے نظم کے بنیادی خیال پر مبنی ہے۔اصل نظم میں کوئی بھاری یا
ثقیل لفظ استعمال نہیں کیا گیا ہے صرف پہلے مصرعہ میں "Leaps up" اور "Behold" ایسے
الفاظ ہیں جن کے معنی معلوم ہونے ضروری ہیں۔ لفظ "Leaps up" کے
لغوی معنی ’ چھلانگ لگانا یا اچھلنا کودنا‘ کے ہوتے ہیں لیکن شاعر نے یہاں ’خوشی اور
مسرت سے جھومنا‘ کے معنی میں استعمال کیا ہے۔وہیں دوسرا لفظ"Behold" ایک فعل لازم ہے جس
کے معنی ’غور سے دیکھنا یا مشاہدہ کرنا‘ کے ہیں۔چونکہ شاعر کی نظرجس وقت قوس قزح پر
پڑتی ہے تو خوشی و مسرت کے عالم میں اس کا دل جھوم اٹھتا ہے۔یہاں شاعر نے قوس قزح کو
دیکھنے کے لیے"Behold"کا
استعمال کیا ہے کیونکہ قوس قزح سات رنگوں کی ایسی ہلکی سی روشنی ہوتی ہے جس کو دیکھنے
کے لیے تیز نگاہ کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ بنا مشاہدہ کے وہ آسانی سے نظر نہیں آتی ہے۔ایک
تیسری توجہ دینی والی بات اس نظم میںیہ ہے کہ اس کے ساتویں مصرعے میں "Paradox
Figure of Speech" کا استعمال کیا گیا ہے۔"Paradox"دراصل
ایک اصطلاح ہے جو یونانی زبان کے لفظ"Paradoxa" سے مشتق ہے جس کے معنی
’’ناقابل یقین یا توقع کے برخلاف‘‘ کے ہیں۔ ایک ایسا متناقض بیان جو بظاہر تو مہمل
معلوم ہو لیکن درحقیقت صحیح ہو"Paradox"کہلاتا ہے یعنی ایسا
بیان جس میں بیک وقت دو متناقض باتیں کی جائیںجو ناقابل یقین ہوں۔پروفیسر کلیم الدین
احمد نے اس لفظ کی تعریف کچھ اس طرح کی ہے کہ ’’ایسا متناقض قول یا بیان جو بظاہر مہمل
معلوم ہولیکن درحقیقت صحیح ہو‘‘8مثال کے طور پر1945 میں"Animal Farm"کے نام سے ایک ناول
شائع ہوا تھا جسے معروف انگریزی ناول نگار "George Orwell" نے
لکھا تھا۔اس ناول میں اس نے ایک قول نقل کیا ہے کہ’’ تمام جانور برابر ہیں لیکن کچھ
جانور زیادہ برابر ہیں‘‘۔ اب اس جملے میں دو علیحدہ باتیں کی جارہی ہیں۔جب سارے جانور
برابر ہیں تو کچھ جانور زیادہ برابر کیسے ہوئے؟ لیکن اگر تھوڑا غور کیا جائے اور اس
جملے کے پس منظر پر نظر ڈالی جائے تو سمجھ میں آجائے گا کہ یہاں بھید بھاؤ کی بات
کی جارہی ہے۔یعنی سارے جانور تو برابر ہیں لیکن کچھ خاص جانور ہیں جو برابر نہیں ہیں۔بالکل
اسی طرح ورڈزورتھ نے بھی اپنی نظم میں ایک متناقض قول "Child is father of the man"کو
بیان کیا ہے۔
آئیے اب ذرا مذکورہ الفاظ و اصطلاحات کی روشنی میںمنظوم
ترجموں پر نظر ڈالیں۔سید عبدالولی قادری نے اس نظم کا منظوم ترجمہ ’قوس قزح‘ کے نام
سے کیا ہے جو کہ ایک آزاد ترجمہ ہے۔قادری اردو زبان کے معروف شاعر و مترجم کی حیثیت
سے ادبی حلقوں میں مقبول ہیں انھوں نے بہت سے انگریزی شعرا کے کلام کو اردو کے قالب
میں پیش کیا ہے۔مذکورہ منظوم ترجمے میں بھی انھوں نے ورڈزورتھ کی شاعرانہ خوبیوں کا
احاطہ کرتے ہوئے اصل بنیادی خیال کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا ہے جس کی وجہ سے ان کا یہ
منظوم ترجمہ لسانی و فنی اعتبار سے کامل و مکمل ہے۔قادری نے تفصیل میں نہ جاکر نظم
کے اختصارپر خصوصی توجہ مرکوز کی ہے۔اصل نظم کا ترجمہ لفظ بہ لفظ کیا ہے۔ لفظ "Leaps
up" کے لیے بھی قریب تر متبادل ’جھومنا‘ کا خوب
انتخاب کیا ہے جس سے اصل نظم کے مصرعۂ اولیٰ کی مکمل ترجمانی ہورہی ہے۔ پانچویں شعر
میں قادری نے بڑے علمی انداز میں مذکورہ متناقض قول کی و ضاحت بھی خوب کی
ہے۔لکھتے ہیں کہ ؎
آئین ہے گردشِ دوراں کا
بچہ کل باپ ہے انساں کا
دوسرا ترجمہ معروف شاعر و مترجم ارشد صدیقی کا ’دھنک‘ ہے
جس کا نام انھوں نے دیگر مترجمین کی روش سے ہٹ کر سنسکرت میں رکھا ہے۔عام طور پر ارشد
صاحب نے اپنے بیشتر ترجموں میں لفظیات پر خاص توجہ دی ہے۔ ان کے زیادہ تر منظوم تراجم
ادب میں اضافے کا حکم رکھتے ہیں۔ان کے زیادہ تر منظوم تراجم کافی حد تک کامیاب ہیں
کیونکہ انھوں نے ان تراجم میں دونوں زبانوں کی لطافت و حلاوت کو قائم رکھنے کی پوری
کوشش کی ہے۔ ’دھنک‘ ایک آزاد ترجمہ ہے جس میں ارشد صاحب نے اصل نظم کے بنیادی خیال
کو ذہن میں رکھتے ہوئے آسان انداز بیان میں مکمل ترجمہ کردیا ہے۔ان کی اسی شاعرانہ
و مترجمانہ صلاحیت کی وجہ سے یہ منظوم ترجمہ فنی و معیاری اعتبار سے کامل و مکمل تخلیق
کی حیثیت رکھتا ہے۔ قادری نے جہاں اصل نظم کے ساتویں مصرعے کو دو مصرعوں میں ترجمہ
کیا ہے وہیں ارشد صاحب نے ایک ہی مصرعے میں اپنی بات مکمل کردی۔ ملاحظہ فرمائیں ؎
طفلی انسان کی فطرت کو جنم دیتی ہے
آئیے اب اس نظم کے تیسرے منظوم ترجمے پر نظر ڈالیںجو عبدالرحمن
غازی نے ’عاشق فطرت کا ترانہ‘ کے عنوان سے لکھا ہے۔غازی نے دیگر تمام مترجمین کے خیالات
سے ہٹ کر اس نظم کا ترجمہ کیا ہے۔اول تو نظم کا عنوان ہی انھوں نے بڑا منفرد اور اچھوتا
رکھا ہے جو اصل نظم کے بنیادی خیال کے عین مطابق ہے۔غازی نے اپنا ترجمہ چار مربع بندوں
میں کیا ہے جس کے لیے اس نے اسٹینزا کی ہیئت ’اب ج ب‘کی ترتیب قوافی کا استعمال کیا
ہے۔انھوں نے یہ ترجمہ اصل کے مطابق تو کیا ہے لیکن لفظی ترجمے سے زیادہ تخلیقی ترجمے
پرتوجہ دی ہے جس کی وجہ سے ترجمہ میں غیر ضروری طوالت پیدا ہوگئی ہے۔حالانکہ اس طوالت
سے ان کی تخلیق میں دلکشی پیدا ہوگئی ہے لیکن لفظی ترجمے کا مقصد بے معنی ہو گیا ہے۔ متناقض قول پرمبنی مصرعے کے ترجمہ میں بھی انھوں
نے بڑے پھیلاؤ سے کام لیتے ہوئے چار مصرعوں میں اپنی بات مکمل کی ہے۔ یقینا غازی کے
اس ترجمے کے مطالعے کے بعد یہ کہنا کوئی مشکل نہیں کہ یہ ترجمے سے زیادہ تخلیق نظر آتا
ہے۔غازی کا یہ منظوم ترجمہ کانپور کے معروف ادبی رسالے ’زمانہ‘ کے جون1918 کے شمارے
میں شائع ہوا تھا۔ چوتھا اور آخر ی منظوم ترجمہ معروف مترجم عزیز احمد جلیلی کا ہے جو انھوں نے ’قوس قزح‘ کے نام سے ترجمہ کیا
ہے۔جلیلی نے اس نظم کا ترجمہ مثنوی کی ہیئت میں کیا ہے جو کہ ایک پابند ترجمہ ہے۔پورے
ترجمہ میں جلیلی نے اختصار کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیا بلکہ اصل خیال کے عین مطابق
پوری نظم کو تسلسل کے ساتھ ترجمے کی شکل میں بیان کردیا۔ ساتویں مصرعے میں "Paradox"
کی اصطلاح کو جس خوبصورت انداز میں جلیلی نے شعری پیکرمیں
ڈھالا ہے وہ کسی دوسرے مترجم کی تخلیقات میں نظر نہیں آیا۔ملاحظہ فرمائیں ؎
باپ میں بیٹے کی
تصویر نظر آتی ہے
آدمی میں یہی
تنویر نظر آتی ہے
جلیلی نے جس خوبصورت
انداز میں اس شعر کی تخلیق کی ہے وہ ان کی شاعرانہ اور مترجمانہ خوبیوں کی پہچان ہے۔
جلیلی اپنے عہد کے مایۂ ناز مترجم ہیں انھوں نے بہت سی انگریزی نثری تخلیقات کا بھی
اردو میں کامیاب ترجمہ کیا ہے لیکن بنیادی طور پر انھیں انگریزی شاعری کے تراجم پر
عبور حاصل تھا۔ڈاکٹر حسن الدین احمدجلیلی کی مترجمانہ صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے
ایک جگہ لکھتے ہیں:
حواشی
- یٰسین، محمد، انگریزی ادب کی مختصر تاریخ، ایجوکیشنل بُک ہائوس،علی گڑھ، 2009،ص 170
- کاکوروی، ذکی۔انگریزی ادب کی مختصر تاریخ۔اتر پردیش اردو اکادمی،لکھنؤ1985،ص 100-1
- احمد، حسن الدین۔ انگریزی شاعری کے منظوم اردو ترجموںکا تحقیقی و تنقیدی مطالعہ۔ ایجوکیشنل پبلشنگ ہائوس، دہلی، 2013،ص 375-376
- احمد، حسن الدین، ساز مغرب، جلد دہم، ولا اکیڈمی، حیدر آباد، 1981،ص32
- صدیقی، ارشد: پس عکس خیال، مکتبۂ دانش کدہ، بھوپال، 2000،ص 35-36
- احمد، حسن الدین۔ ساز مغرب، جلد چہارم۔ ولا اکیڈمی، حیدر آباد، 1978، ص 321-322
- احمد، حسن الدین، ساز مغرب، جلد ہفتم، ولا اکیڈمی، حیدر آباد، 1979،ص 89
- احمد، کلیم الدین، فرہنگ ادبی اصطلاحات، ترقی اردو بیورو، نئی دہلی 1986،ص 144
Mohd Riyaz
Kucha Neel Kanth, Behind Golcha Cinema
Darya Ganj, New Delhi - 110002
Mob: 9958161814
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں