شعری اصناف میں غزل کواہم مقام حاصل ہے۔ اس میں انسانی جذبات
اور قلبی واردات کو ایجاز واختصار کے ساتھ بیان کیاجاتا ہے۔ تغزل اورغنائیت اس کی اہم
خصوصیت ہے۔ انسانی جذبوں اور تجربوں کی جیسی رنگارنگی اس صنف میں دکھائی دیتی ہے؛ کسی
اور صنف میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اسی لیے عام طورپرغزل کسی موضوع کی پابندنہیں ہوتی۔
اس کاہرشعراپنے آپ میں مکمل ہوتا ہے۔ اس میں مطلع، حسن مطلع، قافیہ اورردیف وغیرہ
کی خاص اہمیت ہوتی ہے۔
علامہ شبنم کمالی کی غزلوں کامطالعہ کرنے کے بعد میں اس
نتیجے پرپہنچاکہ ان کی غزلوں کامعیارہر نہج سے کافی بلندہے۔ انھوںنے انسانی جذبات کی
ترجمانی انتہائی اچھوتے اوردلکش اندازمیں کی ہے۔تغزل اور غنائیت جوغزل کی اہم خصوصیات
میں شامل ہیں؛وہ شبنم کمالی کی غزلوں میں بدرجۂ اتم موجودہیں۔ اس کا سب سے بڑاثبوت
یہ ہے کہ وہ اپنی غزلوں کو ترنم کے ساتھ مشاعروں میں پڑھتے تھے اور محفل میں جان ڈال
دیتے تھے۔ ان کی شعری خصوصیات کے ضمن میں پروفیسرمحمد حسن کایہ قول اہمیت کاحامل ہے،’’مولاناکی
معروف دینی شخصیت اور ان کے سحرانگیزترنم کااثرتھا(کہ انھوںنے سامعین کادل جیت لیا)،
لیکن میں اس میں ایک تیسراپہلوبھی دیکھتاہوں اوروہ ہے شبنم کمالی کے کلام کی تازگی
اور ان کااپنامخصوص رنگ وآہنگ ۔‘‘
شبنم کمالی کے شعری مجموعوں کے نام کچھ اس طرح ہیں انوارعقیدت(1964)، فردوس عقیدت(1965)، ریاض عقیدت (1976)، ضیائے عقیدت
(1980)، نوائے دل (1980)، آئوگیت گائیں (1985)، تنویرخیال (1994)، صہبائے عقیدت
(1996)۔ ان میں سے صرف ’نوائے دل‘ ان کی غزلوں کامجموعہ ہے، جب کہ ’تنویرخیال‘ میں
غزلیں اورنظمیں دونوں شامل ہیں۔ ’آئوگیت گائیں‘ بچوں کے لیے شعری مجموعہ ہے۔ انوار
عقیدت، فردوس عقیدت، ریاض عقیدت، ضیائے عقیدت اور صہبائے عقیدت نعتیہ مجموعے ہیں۔ گویاشبنم
کمالی نے غزلوں سے زیادہ نعت میں اپنی صلاحیتوں کے جوہردکھائے ہیں، لیکن اس کایہ مطلب
ہرگز نہیں کہ ان کی غزلیں دوم درجے کی ہیں۔ ان کی غزلوں کامعیاربہت بلندہے۔چنانچہ اس
سلسلے میں پروفیسرطلحہ رضوی برق کی رائے بے حداہم ہے۔ وہ تحریرکرتے
ہیں
’’مولاناشبنم
کمالی فطرۃً غزل کے شاعرہیں اور انھوں نے اپنی بے شمارغزلوں میں اپنی نمایاں انفرادیت
کوبروئے کارلایاہے۔ دبستان بہارکے معاصرشعرا میں ان کے کلام کی یہی خوبیاں ان کامقام
محفوظ کرتی ہیں۔‘‘1
شبنم کمالی کی غزلوں کامجموعہ ’نوائے دل‘ 1980 میں منظرعام
پرآیا۔ اس میں کل 60 غزلیں ہیں۔یہ وہ غزلیں ہیںجوانھوں نے1980 میں کہی۔ ’نوائے دل‘
میں ’اظہارحقیقت‘ کرتے ہوئے خود شبنم کمالی رقم طراز ہیں
’’اس
حقیقت سے مجھے انکارنہیں کہ میرے مشغلوں میں سے ایک شاعری بھی ہے۔ چونکہ میرے مشاغل
ومصروفیات کی فہرست طویل ہے؛ اس لیے فرصت وموقع ملنے پرکبھی کبھی رات میں دوگھنٹہ شعرگوئی
میں صرف کرتا ہوں۔ اسی مدت میں دوغزلیں مکمل ہوجاتی ہیں، ورنہ ایک میں توکسی شک کی
گنجائش نہیں۔ میری یہ زودگوئی گرچہ شاعری میں مستحسن امرنہیں لیکن یہ میری مجبوری ہے،
کیونکہ میں مکمل طورسے خالی الذہن ہوکرپھردوسرے کاموں میں لگ جاتاہوں جواس سے زیادہ
اہم ہے۔
تیس برسو ں سے میدان شاعری میں میرا اشہب قلم تیزگامی سے
رواں ہے، کبھی تسلسل کے ساتھ کبھی طویل وقفہ کے ساتھ…میری غزلوں، نظموں اورنعتیہ کلاموں
کی تعدادتیرہ سو سے تجاوزکررہی ہے…ایسے عالم میں خیال ہواکہ نمونہ کے طورپرچند غزلیں
کتابی صورت میں پیش کردوں، اس کے لیے بھی میں نے اپنی آسانی کی خاطریہی پسندکیاکہ
سال رواں یعنی 1980 میں کہی گئی ساٹھ غزلیں ہی اہل نظراور صاحب قدرکی آنکھوں سے گزاردوں۔‘‘
مذکورہ عبارت سے پتہ چلتاہے کہ1951 کے آس پاس شبنم کمالی
کے تخلیقی سفر کا آغاز ہوا، وہ زودگو شاعر تھے، محض دوگھنٹے میں دوغزلیںکہہ لینے کی
صلاحیت ان کے اندرموجودتھی،ساتھ ہی غزلوں، نظموں اورنعتیہ کلاموں کی تعدادتیرہ سو سے
زائدہے۔ اس سے ان کی شاعرانہ عظمت کابخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے۔ ’نوائے دل‘ میں ’اظہارحقیقت‘
کے عنوان کے تحت انھوں نے جوشعرنقل کیا ہے؛ اس سے ان کی غزلوں کے معیارکااندازہ لگایا
جاسکتاہے۔ ملاحظہ فرمائیں ؎
ٹیس زخموں کی مرے،
ان کے جگر تک پہنچے
پھروہ آہیں بھریں،
میں ان کاتماشہ دیکھوں
ساٹھ غزلوں پرمشتمل اس مجموعۂ کلام ’نوائے دل‘ کودیوان
کی حیثیت حاصل ہے۔ الف سے ے تک صرف ’ث ڈ ڑ اور ع
‘ کوچھوڑکرتمام حروف تہجی کی ردیفوں میں انھوں نے طبع آزمائی کی ہے؛جوان کی غیرمعمولی
تخلیقی صلاحیتوں کامنھ بولتاثبوت ہے۔ اس مجموعہ کلام میں شامل پہلی غزل کے چنداشعاربطورنمونہ
پیش خدمت ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں ؎
ڈھونڈنے پربھی نہ مجھ کو کوئی ویرانہ ملا
جس جگہ پہنچا، وہاں پہلے سے دیوانہ ملا
میں نے جب الٹاکتاب زیست کاکوئی ورق
دردمیں ڈوبی ہوئی فرقت کا افسانہ ملا
اپنی بستی سے ہوا ہے آج جب میراگذر
اجنبی چہرہ لیے ہرشخص بیگانہ ملا
بے رخی کی دھوپ میں جلتارہاتشنہ بہ لب
یوں توکہنے کومجھے بھی ایک پیمانہ ملا
بجلیوں کے دورمیں ہے یوں اندھیروں کاہجوم
رات بھربے چین گھرمیں ایک پروانہ ملا
زندگی اک دردہے اور موت آہِ ناتمام
کہہ رہا تھا راہ میں جو مجھ کو فرزانہ ملا
ہے یہی اس کے لیے شبنم متاع ِزندگی
ہاتھ میں پتھرلیے جوکوئی دیوانہ ملا
شبنم کمالی کی غزلیہ شاعری کاطرۂ امتیاز یہ بھی ہے کہ انھوں
نے روایت اور جدت دونوں کے امتزاج سے شاعری کی عمارت کھڑی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان
کی غزلوں میں کلاسیکی آداب کے ساتھ ساتھ جدیدخیالات بھی نظرآتے ہیں۔ ان کی شاعری
کی ایک بہت بڑی خصوصیت یہ بھی ہے کہ ترقی پسندوںمیں وہ ترقی پسندتسلیم کیے جاتے ہیں،
جدیدیت میں جدید؛ یہاں تک کہ جس رجحان کو مابعد جدیدیت کہاجاتاہے؛ وہ ان کی شاعری میں
پہلے سے موجودتھا۔اس لیے ان کی شاعری کوکسی ایک رحجان سے خاص کرناان کے فن کو محدودکرنے
کے مترادف ہوگا۔ چنانچہ یہ اشعارملاحظہ فرمائیں ؎
نہ دل میرا، نہ غم میرا، نہ میری زندگی میری
جہاں کودرس عبرت دے رہی ہے بے کسی میری
سنی رودادغم میری کہاں تم نے چمن والو!
کہاجوکچھ بھی میں نے وہ فقط تمہیدتھی میری
شبنم کمالی کی شاعری کاایک اہم جزوحسن ِمقطع ہے۔ انھوں نے
تخلص ’شبنم‘ کااستعمال مقطع کے شعرمیں جس خوبصورتی اورفنکاری کے ساتھ کیاہے؛وہ اردوشاعری
میں نایاب نہیں توکمیاب ضرورہے۔ سچائی یہ ہے کہ جو بڑا فنکارہوتاہے؛وہ اپنے تخلص کااستعمال
اِس طرح کرتاہے کہ اس سے ایک طرف اس کامعنوی حسن دوبالا ہو جاتا ہے تودوسری طرف کلام
کی دلکشی میں بھی چارچاندلگ جاتے ہیں۔ ’شبنم‘ تخلص اپنے آپ میں بہت ہی نفیس، دلکش،
معنی خیز، پہلوداراور اثردارہے۔ چنانچہ انھوںنے اس کااستعمال کہاں کہاں اورکیسے کیسے
کیاہے؛اس کی چند مثالیں یہاں پیش کررہاہوں۔ اس سے ان کی فنکارانہ صلاحیت کا اندازہ
ہوجائے گا۔ ملاحظہ فرمائیں مقطع کے چنداشعار ؎
میں قطرۂ شبنم ہوں، پھرمیری حقیقت کیا
آنسوکی طرح کوئی پلکوں سے گرادے گا
یہاں ’شبنم‘ کی جگہ کسی دوسرے لفظ کااستعمال کیا جاتا تو
ایسی معنویت پیدا نہیں ہوتی؛جولفظ ’شبنم‘ سے پیداہورہی ہے ؎
جلاکے راکھ جوشبنم کرے گلستاں کو
تمہاری آہوں میں ایساشررنہیں ملتا
گلستاں کوجلاکر’شبنم‘ کرنے کااستعارہ خوب ہے ؎
کوئی سمجھے موتی تجھ کو، کوئی کہے پانی کی بوند
قدرت سے پایاہے شبنم،
تونے کیساروپ
شبنم تمہاراحوصلہ بے شک بلندہے مگر
ہوگی نہ آنسوؤں سے اب فطرتِ شر الٹ پلٹ
لکھ دیاشبنم تری قسمت کے ساتھ
جب پڑاآنکھوں میں اشکوں کارواج
تیری آنکھوں سے شبنم جوآنسوگرا
بن گیاراہ میں کہکشاں کی طرح
وادیِ زیست میں اس طرح ہردم شبنم
جیسے میدان میں اڑتاہو
اکیلاکاغذ
رات بھرشبنم ترے رونے کامقصدہے یہی
کررہے ہیں تیرے آنسوپھرکسی کاانتظار
روکتے ہیں راہِ شبنم، دل کوملتاہے سکوں
ہے کہیں پھولوں سے بہترآج خاروں میں خلوص
اہل دل شبنم چمن سے کب کے رخصت ہوچکے
پھرکرے گاکون تیری دل بری کاکچھ لحاظ
کسی بڑے فنکارکے کلام کی ایک خوبی یہ بھی ہوتی ہے کہ اس
کی معنویت ہردورمیں برقراررہتی ہے۔شبنم کمالی کے کلام کی معنویت کابھی یہی عالم ہے۔
جس زمانے میں انھوں نے اپناکلام پیش کیا؛وہ اس وقت کے لیے بھی موزوں تھااورآج بھی اس کی معنویت برقرارہے، بلکہ جن مسائل
کااحاطہ انھوں نے اپنی شاعری میں کیاہے؛وہ من وعن آج کے مسائل پرصادق آتے ہیں۔
شبنم کمالی غزلو ں میں کبھی سماج میں رسہ کشی، توکبھی دوستوں
کی عداوت، کبھی اپنی بے کسی، توکبھی فانی زندگی کی روداد، کبھی آپسی میل جول اورعزم
محکم،تو کبھی غریبوں کی اندوہناک حالت کی کہانی اور کبھی اسلاف کی پیروی اور دنیاسے
بے رغبتی جیسے موضوعات ومشاہدات پیش کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہوںچنداشعار ؎
ہیں کسب ِزرمیں سبھی پریشاں، اسی کوسمجھے ہیں دین وایماں
مگرسمجھتے نہیں یہ ناداں کہ زندگی جاوداں نہیں ہے
دب کے رہ جاتا وہ ناکامیوں کے بوجھ میں
جس بشرمیں عزم راسخ جذبۂ پیہم نہیں
شبنم کمالی کی غزل گوئی پربحث اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتی
ہے جب تک ان کے مجموعۂ کلام ’تنویر خیال‘ کی فنی خوبیوں کے حوالے سے گفتگونہ کی جائے۔
اس مجموعۂ کلام میں غزل کے ساتھ آخرمیں کچھ
نظمیں بھی شامل ہیں۔ اس مجموعے کی فنی خوبیوں کے بارے میں پروفیسر فاروق احمدصدیقی
تحریرکرتے ہیں
’’…اورجب
نعتیہ شاعری کے کئی مجموعے چھپ چکے تو پھروہ بالکل خشوع وخضوع کے ساتھ عروس غزل کی
مشاطگی میں مصروف ہوگئے۔ جس کے نتیجے میں 1980 میں ان کی غزلوں کاپہلامجموعہ ’نوائے
دل‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اس مجموعے کی ایک خاص بات جواس دورمیں نایاب نہیں توکمیاب
ضرورہے ؛وہ یہ کہ اس کی ترتیب دیتے وقت دواوین کاروایتی حسن ملحوظ خاطررکھاگیاہے۔ یعنی
اس میں ث
ڈ ڑ ع حروف
کوچھوڑکربقیہ تمام حروف پر ختم ہونے والی ردیف کااستعمال ہواہے۔ لیکن پیش نظرمجموعہ
(تنویرخیال) میں تو ث ڈ اورع حروف کی ردیفوں میں بھی طبع آزمائیاں کرکے انھوں نے اپنی
غیرمعمولی انتاجی صلاحیتوں کاثبوت فراہم کیاہے۔ صرف ڑ کی ردیف
میں کوئی غزل نہیں ہے۔ اس طرح یہ مجموعہ بھی مکمل دیوان کانمونہ پیش کرتاہے۔‘‘2
پروفیسرفاروق صدیقی ان کی غزلیہ شاعری کے بارے میں مزیدلکھتے
ہیں
’’ان
کی غزلیہ شاعری کے تعلق سے جومجموعی تاثر قائم ہوتاہے وہ یہ کہ اس کا پیرہن روایت اور
جدت کے تارِحریر دورنگ سے تیارہواہے۔ یعنی ان کی شاعری ایک طرف روایت سے ہم آہنگ ہے
تودوسری طرف اس نے اپنے دروازے اور کھڑکیاں تازہ ہواؤں کے لیے کھلارکھاہے‘‘3
شبنم کمالی نے شاعری کاآغازغزل سے کیاتھا۔ ان کی غزلوں
کی زبان سادہ، سلیس اورغیرمعمولی رواں ہے
؎
جنبش خارسے وہ شعرمیں ڈھل جاتاہے
قلب پرہوتاہے جس روزبھی الہام نیا
جب سے آنکھوں میں وہ سمائے ہیں
رنگ پھیکاہے ماہ کامل کا
شبنم کمالی کی غزلوں میں تنوع کاحسن غالب ہے۔ انھوںنے بامقصدشاعری
کے جلوے بکھیرے ہیں۔ تغزل اور شعریت کا خوبصورت امتزاج اورفکروخیال کی اعلیٰ پروازان
کی غزلیہ شاعری کوبام عروج تک پہنچا دیتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں یہ اشعار ؎
پھیرلیں آنکھیں خودہی مجھ سے، یہ بھی تم نے خوب کیا
موت نے بھی اب موقع پایا، مجھ سے آنکھ ملانے کا
منزل عشق کی راہ سے بے خبر، رہ کے جوطے کرے زندگی کاسفر
جلوۂ حسن سے ہوگامحروم تر،لاکھ سراس زمیں پرجھکا تار ہے
اپنے جذبِ دروں پریقیں ہے مجھے، تیزہوگی اگر سازِ الفت کی
لے
چاندبن کے مرے گھرمیں آجائوگے، ذرہ ذرہ کو پھر جگمگائو
گے تم
اوریہ شعردیکھیں ؎
ساقی تجھ سے آنکھ لڑانا، رندوں کومقصودنہیں
میخانوں کوڈھونڈرہے ہیں، آنکھوں کے پیمانوں میں
شبنم کمالی اپنی غزلیہ شاعری میں نئی نئی زمینیں بھی تلاش
کرتے ہیںاور مضامین نوکے جلوے بکھیرتے ہیں۔
استعارہ اورتشبیہات کاخوبصورت استعمال کرتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں یہ اشعار ؎
وہ میری بزم میں یوں نقاب کے ساتھ
ہوجیسے ابرکاٹکڑابھی ماہتاب کے ساتھ
دھڑکنیں دل کی بڑھ جاتی ہیں، آنکھیں بندہیں
ہے تصورمیں کسی کی صورتِ شاہانہ آج
شبنم کمالی کی شخصیت اور فن کے تعلق سے محمدقمرالدین نانپوری
کی یہ رائے بے حداہم ہے۔ وہ لکھتے ہیں
’’شبنم
صاحب بہ یک وقت عالم دین، اسلامی اقدار کے امین، اسلاف کے نقوش کے تابعدار، نعتیہ شاعری
میں عقیدت وشریعت کے مابین فصل کے علم برداراور غزلیہ شاعری میں روایات اور اخلاقی
وسماجی واصلاحی اقدارکے پاسداررہے۔ آپ نے مایوسی اور اداسی کے منفی رویوں کے برخلاف
اپنی شاعری کے ذریعہ صحت مند انسانی تصورات، تفکرات اورمحسوسات کی ترجمانی کی ہے۔ آپ
کی نظرمعاشرے کے مختلف گوشوں پر اور شعبوں پرتھی۔ آپ شاداں وفرحاں اور روحانی واخلاقی
اور تہذیبی وتمدنی اعتبارسے منزہ سماج کی تعمیروتشکیل میں دانشوران قوم وملت کی ذمے
داری کااحساس رکھتے تھے۔ جوآپ کی شاعری اورنثری ادب میں صاف دکھائی پڑتی ہے۔‘‘4
مجموعی طورپر شبنم کمالی ایک بڑے فنکارتھے۔ نظم، نعت اور
غزل تینوں میں ان کی فنی صلاحیت روزروشن کی طرح واضح ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری کے توسط
سے سماج کی اصلاح کاکام بھی کیا، سماج پرطنزبھی کیا، روحانی،اخلاقی اور تہذیبی وتمدنی
اعتبارسے منزہ سماج کی تعمیروتشکیل کی کوشش بھی کی اور اردوزبان وادب اور فن پاروں
میں گراں قدراضافہ بھی کیا۔
حواشی
- تنویرخیالشبنم کمالی، ص18
- ایضاً، ص 5
- ایضاً، ص 7
- علامہ شبنم کمالی حیات وخدمات: ڈاکٹرمحمدقمرالدین نانپوری، صائمہ پبلی کیشن، پٹنہ، ص 9
Dr. Afzal Misbahi
Assistant Professor & Section Incharge of Urdu,
MMV, Banaras Hindu University
Varanasi-221005 (UP)
Mob.: 9810358883
E-mail: afzalmisbahi@gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں