انسان کی انفرادی و اجتماعی زندگی میں تعلیم کی غیر معمولی
اہمیت ہے اور جغرافیائی و قومی تفریقوں سے پرے تمام دنیا میں تعلیم کو انسان کی مادی ،ذہنی و تہذیبی ترقی
کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔ہمارے وطن عزیز میں بھی تعلیم و تعلم کی ہزاروں سالہ قدیم روایت رہی ہے،سیکھنے
سکھانے کا ایک مستحکم نظام ہمیشہ سے ہمارے یہاں پایا جاتا ہے۔گرو یعنی استاد کے احترام
اور عزت کا جو کلچر ہمارے ملک میں پایا جاتا ہے وہ اسی وجہ سے ہے کہ استاد شاگردوں
اور طالب علموں کو صرف پڑھاتا نہیں بلکہ وہ طلبا کی شکل میں پوری قوم کی تعمیر و تشکیل
کرتا ہے اور قوم کا مستقبل بناتا ہے۔اس طرح تعلیم ہمارے یہاں محض ایک پروفیشن نہیں
ہے بلکہ یہ مقصد زندگی اور اعلیٰ نصب العین کا حامل ایک فریضہ ہے۔جس کے اثرات کا دائرہ
انسان کی پروفیشنل زندگی سے لے کر اس کے روز مرہ اعمال و اخلاق اور اطوار و کردار تک
وسیع ہے۔
جب ہندوستان انگریزوں سے آزاد ہوا تو کئی شعبوں میں ہمیں
بہت گمبھیر چیلنجز کا سامنا تھا،ان میں سے ایک اہم شعبہ تعلیم کا تھا،کیونکہ آزادی
اور بٹوارے کے بعد ملک میں جو بہت بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی اور لاکھوں کی تعداد
میں لوگ سرحد کے اس پار سے یہاں آئے اور یہاں سے سرحد کے اس پار گئے،اس کی وجہ سے
نہ صرف ہندوستانی آبادی کی نوعیت و کیفیت میں بدلاؤ واقع ہوا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ
ملک کی مجموعی ثقافتی،سماجی، معاشی و تعلیمی صورت حال میں بھی بڑی تبدیلی واقع ہوئی،
انگریزی دور حکومت میں یوں بھی ہندوستان میں خواندگی کی شرح بہت معمولی تھی اور محض
21 فیصد ہندوستانی تعلیم یافتہ تھے۔ ایسے میں ملک کے معماروں کے سامنے دوسرے شعبوں
کے ساتھ تعلیم کی صورت حال کو بہتر کرنے کا بہت اہم مسئلہ درپیش تھا۔ جس کے لیے پہلے
وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد نے بڑی غیر معمولی اور اہم کوششیں کیں، ان کی سربراہی
میں کئی نہایت کارگر تعلیمی منصوبوں پر کام کیا گیا اور متعدد اہم ادارے قائم کیے گئے۔
اس کے بعد کوٹھاری کمیشن کی سفارشات اور رپورٹ کے نتیجے میں 1968میں پہلی تعلیمی پالیسی
تیار کی گئی،جبکہ دوسری تعلیمی پالیسی کی تیاری 1986 میں عمل میں آئی اور 1992 میں
اسے پھر سے اپڈیٹ کیا گیا۔ان دو نوں تعلیمی پالیسیوں کا ہدف یہ تھا کہ ملک کے تمام بچوں کے لیے تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے اور مختلف
سماجی طبقات کے مابین خصوصاً حصول تعلیم کے حق کے سلسلے میں برابری ا ور مساوات کو
یقینی بنایا جائے۔ یہ پالیسیاں نگراں ڈھانچے
اور نظام کے قیام ،اس کی عوام تک رسائی،تعلیم و تعلم کومعیاری بنانے اور بلا تفریق
تمام شہریوں تک تعلیم کو پہنچانے میں کامیاب رہیں۔ رفتہ رفتہ شعبۂ تعلیم میں ترقی ہوتی رہی اور ساتھ ہی مختلف چیلنجز بھی سامنے آتے رہے۔پھر صورت
حال ایسی ہوگئی کہ تعلیم کو اعلیٰ گریڈ اور امتیازی پوزیشن کے حصول تک محدود کیا جانے
لگا،تاکہ روزگار کے حصول میں زیادہ سے زیادہ معاون ثابت ہو، تعلیم کا مطلب محض یہ ہوگیا
کہ خوب جانکاریاں حاصل کی جائیں اور ان جانکاریوں کو سماج میں نافذ کرنے یا انھیں عملی
طور پر برتنے کی اہمیت کم ہوتی گئی۔
حالانکہ علم اور تعلیم کا سماج سے ایک گہرا ربط ہے۔ چوں
کہ طلبا کا تعلق سماج سے ہی ہوتا ہے،چاہے وہ ابتدائی سطح کے طلبا ہوں یا اعلیٰ تعلیمی
اداروں میں پڑھنے والے ہوں،اس لیے فطری طورپر تعلیم اور سماج کے درمیان ایک گہرا ربط
پیدا ہوجاتا ہے،جسے مضبوط رکھنا ضروری ہے۔ سماج اور تعلیمی اداروں کے تعلق کی ایک دوسری
نوعیت بھی ہے،جس کا تعلق تعلیمی اداروں کے قیام ،اس کی ظاہری تعمیر و تشکیل،اس کے انفراسٹرکچر
اور دیگر تعلیمی و تعمیری وسائل سے ہے۔اس لیے کہ یہ ادارے سماج کے تعاون سے ہی قائم
ہوتے ہیں،چاہے سرکاری تعلیمی ادارے ہوں یا نجی اسکول اور تعلیمی ادارے ہوں۔تعلیم کی
افادیت کا سارا دار و مدار بھی سماج سے ہی جڑا ہوا ہے،کیونکہ اس کے اثرات سماج پر ہی
مرتب ہوتے ہیں۔اگر تعلیم اچھی، مفید اور کارگر ہے تو اس کا خوشگوار اثر سماج کے مختلف
شعبوں میں ظاہر ہوتا ہے اور مجموعی طور پر معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوتا ہے،جبکہ
اگر تعلیم یا تعلیمی نظام میں نقص ہے تو اس کا منفی اثر بھی سماج کو ہی جھیلنا پڑتا
ہے،جس کے نتیجے میں معاشرے کی ترقی کی رفتار دھیمی ہوجاتی ہے اور معاشرے کے افراد مختلف
قسم کی اخلاقی و سماجی برائیوں میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس لیے سماج اور تعلیم دونوں
کو ایک دوسرے سے الگ کرکے نہیں دیکھا جا سکتا،البتہ دونوں میں مضبوط ربط اسی وقت قائم
ہوسکتا ہے جب سماج اپنے منصوبوں اور خدمات کے ذریعے تعلیمی سرگرمیوں اور اداروں کو
اپنائے،انھیں بہتری کی طرف گامزن کرنے میں حصہ لے اور ان کے نظام میں پختگی پیدا کرنے کی کوشش کرے، اس کے نتیجے میں خود
معاشرہ با اختیار بنے گا اور ہر شعبے میں اس کی کارکردگی پہلے سے بہتر ہوتی جائے گی۔
سماج کو چاہیے کہ اسکولوں کی تعمیر و ترقی اور نگراں کمیٹیوں میں حصہ لے کر ان کی افادیت
کو یقینی بنائے اور مختلف سطح کے تعلیمی ادارے رضاکارانہ کوششوں کے ذریعے سماج کے ساتھ مل کر کام کریں۔
یہی وجہ ہے کہ قومی تعلیمی پالیسی 2020 کی سفارشات و تجاویز
تعلیم میں سماج کی حصے داری کو تعلیم کا ایک
داخلی اور ضروری عنصر بتاتی ہیں۔ یہ سفارشات ادارہ جاتی سطح پرسماج کی حصے داری کو
بڑھانے کے زیادہ مواقع فراہم کرتی ہیں اور تعلیمی اداروں کو پہلے سے زیادہ لچک دار،
خود مختار اور طاقت ور بناتی ہیں۔ لچک اور خود مختاری کے حامل ادارے معاشرے کے ساتھ
باہمی ربط پیدا کرنے کے مقصد سے مختلف پروگراموں
کو ڈیزائن اور تیار کرنے کے لیے آزاد ہیں۔ 2020 کی تعلیمی پالیسی کے تمام پہلو ہمیں
اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ ان کے پس منظر میں سماجی انصاف اور سماجی تبدیلی کا ہدف
کارفرما ہے اور تعلیم اسے حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ نئی قومی تعلیمی پالیسی میں تعلیم میں سماجی کردار کو واضح اور ضمنی دونوں طریقوں
سے بیان کیا گیا ہے۔ ان میں سے جو واضح ہیں، ان میں آنگن واڑیوں کو شعبہ تعلیم کے
دائرے میں لانا، مختلف سطح کی مہارتوں کو تعلیم سے مربوط کرنا، تعلیم کو جامع اور کثیر
شعبہ جاتی بنانا، تجربات کے ذریعے سیکھنے پر توجہ مرکوز کرنا، خود مختاری کی فضا پیدا
کرنا، نتیجہ خیز تحقیق پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے تعلیم کے مرکزی موضوع سے مقامی مہارتوں کو مربوط کرنا وغیرہ شامل ہیں۔
قومی تعلیمی پالیسی ایک عوامی تعلیمی نظام کا تصور پیش کرتی
ہے، جس میں لوگوں کی انفرادی و اجتماعی شمولیت ہو۔ سماج اسکول ایجوکیشن کا ایک لازمی حصہ ہے اور اس
کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایسے شواہد موجود ہیں کہ گاؤں کے اسکول اسی وقت مؤثر طریقے سے کام
کرتے ہیں، جب مقامی کمیونٹی فعال ہو اور اسکولوں کے کاموں میں حصہ لیتی ہو۔شروعاتی
بچپن کی دیکھ بھال اور تعلیم کے بارے میںقومی تعلیمی پالیسی2020 میں کہا گیا ہے کہ
آنگن واڑی مکمل طور پر ایک دوسرے سے مربوط
اور گروپ بند ہوں گے اور بچوں کے والدین اور اساتذہ کو اسکول کے پروگراموں میں
شرکت کے لیے مدعو کیا جائے گا۔ گزشتہ سالوں
میں آنگن واڑیوں نے ماں اور بچے کے تغذیے پر بھی توجہ مرکوز کی ہے، ان کا تعلیم کے
ساتھ ارتباط والدین کی مدد کرنے اور ضروری تغذیے اور صحت کی دیکھ بھال کے ساتھ سماج
کو ابتدائی تعلیم فراہم کرنے کے لائق بناتا ہے۔
کلسٹر اسکولوں کا نظریہ اسکولوں کی تعمیر اور سیکھنے کو بڑھانے میں سماج
کے کردار کو سامنے لاتا ہے۔نئی تعلیمی پالیسی کی سفارش کے مطابق ایک اسکول کمپلیکس پڑوسی اسکولوں کا ایک گروپ بنائے
گا۔اس سے مختلف اسکولوں کے اساتذہ کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے اور سیکھنے و جسمانی
وسائل کی مناسب تقسیم کے علاوہ سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اسکول کمپلیکس کے آس پاس مختلف سماجی طبقات موجود ہوں گے۔جو اسکول کلسٹرز
کے نظم و نسق اور انتظام کا خیال رکھ سکتے ہیں۔
اس پالیسی میں غیر سرکاری سماجی تنظیموں کی اسکولوں کی تعمیر
و ترقی میں حصہ لینے کے لیے حوصلہ افزائی کی گئی ہے،کیونکہ اسکولوں کے نظم و نسق اور
ترقی میں سماجی حصے داری والے اسکول مفید نتائج کے حصول میں زیادہ کارگر ثابت ہوسکتے ہیں۔ اسکول کی ترقی
میں سماج کی شرکت کارکردگی اور نتائج کے حوالے سے اسکول کی بہتری میں اہم کردار ادا
کرتی ہے۔ یہ تعلیمی پالیسی سیکھنے کو مزید مؤثر بنانے اور بنیادی خواندگی کے حصول میں سماج، سابق طلبا اور رضاکاروں کی شرکت کی سفارش
کرتی ہے۔ اسکول کے بنیادی ڈھانچے کی غیر استعمال شدہ صلاحیت کو استعمال کرنے اور کمیونٹی
کے لیے سماجی، فکری اور رضاکارانہ سرگرمیوں کو فروغ دینے کے مقصد سے یہ تعلیمی پالیسی ’سماجک چیتنا کیندر‘ کے قیام کی
تجویز پیش کرتی ہے، جو خارجی اوقات میں سماجی
ہم آہنگی کو فروغ دے سکتا ہے۔
اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں یہ پالیسی سماجی ذمے داری اور اعلیٰ تعلیمی اداروں
میں سماج کی حصے داری کو فروغ دینے والے کئی اہم عناصر پر مشتمل ہے۔اعلیٰ تعلیم میں
سماجی حصے داری نظریاتی تصورات اور ان پر عمل کے درمیان فاصلے کو ختم کرتی ہے۔تعلیم اس وقت تک کوئی معنی نہیں
رکھتی، جب تک کہ معاشرے کے حقیقی مسائل کی نشان دہی اور ان کا حل فراہم نہ کرے۔ یہ
صرف اعلیٰ تعلیمی اداروں اور سماجی طبقات کے درمیان گہرے ربط کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔تعلیم
اور سماج کے درمیان ایک اہم رشتہ ہے ،اس لیے تعلیم کو حقیقی مسائل کا حل تلاش کرنے
میں معاشرے میں اپنامطلوبہ کردار ادا کرنا ہوگا اور اس کے نتیجے میں معاشرے کو نصابِ
تعلیم کی تشکیل ، تعلیم اور تحقیق میں سہولت
فراہم کرنے میں اداروں کی مدد کرنی ہوگی۔
نئی تعلیمی پالیسی کی ایک اہم سفارش اعلیٰ تعلیم کو وسیع البنیاد اور جامع بنانا
بھی ہے۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں کو اعلیٰ تعلیم کے کثیر شعبہ جاتی اداروں کی صورت اختیار
کرنی ہوگی، جہاں انڈر گریجویٹ اور گریجویٹ پروگرام معیاری تدریس، تحقیق اور سماجی حصے
داری کے ساتھ پیش کیا جائے۔ کثیرشعبہ جاتی نقطہ نظر کورسز کو لچک دار اور اختراعی نصاب
کے ساتھ معاشرے کی ضروریات سے منسلک کرتا ہے۔ سیکھنے کو وسیع البنیاد بنانے کے لیے
کمیونٹی سروس، ماحولیاتی تعلیم اور قدر پر مبنی تعلیم سے متعلق شعبوں میں مختلف کورسز
تجویز کیے گئے ہیں اور موسمیاتی تبدیلی، آلودگی، فضلہ کے انتظام، صفائی، حیاتیاتی
تنوع کے تحفظ، حیاتیاتی وسائل اور حیاتیاتی تنوع کے انتظام، جنگلات اور جنگلی جانداروں کے تحفظ ، پائیدار ترقی اور زندگی کے شعبوں میں
مختلف پروجیکٹس کی تجویز پیش کی گئی ہے۔ قدر پر مبنی تعلیم میں انسانی، اخلاقی، آئینی
اور عالم گیر انسانی اقدار کے ساتھ ساتھ زندگی کی مہارتوں کا فروغ،مثلاً خدمت سے متعلق
اسباق اور کمیونٹی سروس کے پروگراموں میں شرکت بھی شامل ہے۔ طلبا کو مقامی صنعتوں،
کاروباروں، فنکاروں، دستکاری کے ماہر افراد وغیرہ کے ساتھ انٹرن شپ کے مواقع فراہم
کیے جائیں گے، ساتھ ہی ساتھ فیکلٹی اور محققین کے ساتھ ان کے اپنے یا دیگر اعلیٰ تعلیمی
اداروں کے ساتھ ریسرچ انٹرن شپ کے مواقع فراہم
کیے جائیں گے،تاکہ طلبا کھیلوں، ثقافت، ماحولیاتی کلبوں اور کمیونٹی سروس کے پروجیکٹس
کے ذریعے سیکھ کر بہتر عملی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکیں۔نئی تعلیمی پالیسی گلوبل سٹیزن
شپ ایجوکیشن کے مطابق سیکھنے والوں کو بااختیار بنانے کی بھی سفارش کرتی ہے، تاکہ طلبا
عالمی مسائل سے آگاہ اور باخبر رہ سکیں اور زیادہ پرامن، روادار، جامع، محفوظ اور
پائیدار سماج کے فروغ میں فعال کردار ادا کرسکیں۔
اس پالیسی کی تجاویز
کو لاگو کرنے کی کوشش کے ضمن میں حکومت اور متعلقہ ادارے قومی سطح پر اور متعلقہ
ریاستوں کی سطح پر رہنما خطوط تیار کرنے میں مشغول ہیں۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو
جی سی) نے خاص طور پر اعلیٰ تعلیمی اداروں میں سماج کی حصے داری
کو بڑھانے کے لیے قومی درسیاتی فریم ورک اور رہنما خطوط(2020 ) بھی تیار کیے
ہیں۔ ’اۡنّت
بھارت ابھیان‘ کے تحت طلبا کو دیہی طبقات سے مربوط کرنے کے لیے کورسز اور نصاب تیار
کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ وزارت تعلیم نے مہاتما گاندھی نیشنل کونسل آف رورل
ایجوکیشن کو ’سویم‘ پلیٹ فارم پر ’سماجی ذمے
داری اور سماج کی حصے داری کو فروغ دینے‘ کے عنوان سے بڑے پیمانے پر اوپن آن لائن
کورسز تیارکرنے اور چلانے کا کام بھی سونپا
ہے۔
سماجی حصے داری
کی معنویت و افادیت انتظامیہ، تعلیم، تحقیق اور ادارہ جاتی ترقی میں سماج کو شامل
کرنے جیسے تعلیمی اداروں کی ترجیحات پر منحصر ہے۔ اس پالیسی نے اداروں کے لیے معاشرے
کا لازمی حصہ بننے، وسائل حاصل کرنے اور پورے سماج کو تعلیم یافتہ بنانے کی راہ ہموار کی ہے۔یہ تعلیمی پالیسی
اس بارے میں پوری وضاحت کرتی ہے کہ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو سماج کی بہتر
حصے داری کے لیے کیا کرنا ہے اور یہ کیوں ضروری ہے۔ اب یہ اداروں کی ذمے داری ہے کہ
وہ پالیسی کی طرف سے متعین کردہ ہدایات کے مطابق
آگے بڑھیں۔
فی الحال چیلنج یہ ہے کہ اسکولوں اور کالجوں میں سماجی حصے
داری کی حقیقی روح پیدا کرنے اور فعال طریقے سے اس کے عمل درآمد کو کیسے آگے بڑھایا
جائے۔ وژن، مشن، اہداف اور ادارہ جاتی منصوبوں میں اس کو شامل کرکے سماجی حصے داری
کو ادارہ جاتی سطح تک پہنچانا ہوگا۔ درس و تدریس اور تحقیق کے دیگر شعبوں کے ساتھ سماج
کی حصے داری کو مربوط کرنے کے لیے ادارہ جاتی میکانزم تیار کرنا ہوگا۔ساتھ ہی عمل درآمد
کے دوران اداروں کی نگرانی کی بھی ضرورت ہے۔دستیاب رہنمائی ،حکومت اور انتظامی اداروں کی
جانب سے متوقع رہنما خطوط کی روشنی میں اداروں
کے لیے آگے بڑھنے کا راستہ یہ ہے کہ وہ فعال طریقے سے کام کریں اور اپنی سطح پر سماجی حصے داری کے منصوبے کو عمل درآمد کریں۔اداروں کے پاس سماجی
حصے داری کو یقینی بنانے کے لیے تین آپشن
ہیں۔ پہلا حکومت کی طرف سے ہدایات حاصل کرنا اور ان کے مطابق
عمل درآمد کرنا۔ دوم پالیسیوں کی روح کے مطابق عمل درآمد کی سمت میں
کام کرنے کے لیے ٹیم ترتیب دے کر منصوبے بنانا اور کمیونٹی اسٹیک ہولڈرز کو شامل کر
کے حکومت اور دیگر متعلقہ اداروں کی ہدایات کے ساتھ یا ان کے بغیر ان پر عمل درآمد
کرنا۔ تیسرا نئی تعلیمی پالیسی سے آگے سوچتے ہوئے سماج کو تعلیمی اداروںسے قریب لانے کے لیے نئے نئے طریقے
دریافت کرنا۔ تعلیمی ادارے ہی معاشرے کے اندر
باہمی ارتباط پیدا کرسکتے ہیں اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اداروں کو اسٹیک ہولڈرز
کے درمیان یہ احساس پیدا کرنا ہوگا کہ وہ معاشرے
سے تعلق رکھتے ہیں اور معاشرے کو ان اداروں کے قریب لانا ہوگا، تاکہ ان کی ضروریات
کو پورا کیا جاسکے۔
نئی تعلیمی پالیسی تعلیم کے ذریعے سماجی رابطے کی ضرورت
کو پورا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ سرکاری محکموں، اداروں، این جی اوز اور دیگر تنظیموں
کا کردار ان اہداف کو حاصل کرنے، ایک مناسب ماحول پیدا کرنے اور افراد کو آپس میں
رابطہ قائم کرنے کا موقع فراہم کرنے میں اہم ہے۔یہ پالیسی سیکھنے کے عمل کے منطقی نتیجے
کے حصول پر بھی توجہ مرکوز کرتی ہے، جو صرف معلومات جمع کرنا نہیں ہے، بلکہ معاشرے میں ایک مستحکم علمی
و فکری ماحول پیدا کرناہے، جو تخیل اور نظریے
کے عملی اطلاق کو ممکن بنائے اور معاشرتی ضروریات میں اس کے استعمال کو آسان
کرے۔نئی تعلیمی پالیسی کے پس پشت دراصل معاشرے اور تعلیم کے درمیان پائے جانے والے
فاصلے کو ختم کرنے کا نظریہ کارفرما ہے۔ جس
کا طریقہ یہ ہے کہ تعلیم کو معاشرے اور سماج کا اس طرح حصہ بنادیا جائے کہ دونوں ایک
دوسرے کے لیے لازم ملزوم ہوجائیں اور اس کے لیے ضروری یہ ہے کہ سماج تعلیمی اداروں
کی سرگرمیوں میں براہ راست حصہ لے اور تعلیمی ادارے مختلف سطحوں پر سماج کو خود سے
جوڑے رکھنے کی کوشش کریں۔یہ تعلیم کی افادیت کے لیے بھی ضروری ہے اور سماجی ترقی میں
بھی اس کا خاصا اہم کردار ہے۔
Dr. Shafayat Ahmad
Associate Professor
MANUU, College of Teacher Education,
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں