17/5/23

اردونظم پرانگریزی نظموں کے منظوم تراجم کے اثرات:شاہ عالم

 


تلخیص

ہندوستان پر انگریزوں کا تسلط ایک اہم واقعہ تھا۔اس تسلط کے سیاسی و سماجی اثرات تو تھے ہی  تہذیب و ثقافت اورعلم و ادب پر بھی اس کے گہرے اثر ات  مرتب ہو ئے ۔ ان کے علمی و ادبی سرمائے کو اپنی زبان میں منتقل کرنے کی کوشش شروع ہوئی۔انجمنِ پنجاب کے قیام نے اس خیال کو اور تقویت پہنچائی۔محمد حسین آزاد کی ادبی سرگرمیوںنے سازگار ماحول پیدا کیا۔اسی زمانے (1874 ( میں  مناظمے کا آغاز ہوا، جس سے باقاعدہ طورپر  جدید نظم نگاری کا  آغاز ہوا۔مغربی ادب سے استفادے  اور تراجم سے اردو نظم میں موضوعات، ہیئت اور اسلوب کی سطح پر تبدیلی واقع ہوئی ۔اردو میں مغربی نظموں کے منظوم تراجم کا سلسلہ 1857 کے بعد شروع ہوا۔ انگریزی نظموں کے منظوم تراجم کے حوالے سے قلق میرٹھی کا نام اہمیت کا حامل ہے۔ انھوں نے کئی انگریزی نظموں کے منظوم ترجمے کیے۔ مولانا اسماعیل میرٹھی نے بھی انگریزی نظموں کے منظوم ترجمے کیے۔ اس حوالے سے سید حیدر علی طباطبائی کا نام  بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ طباطبائی نے کئی انگریزی نظموں کے منظوم ترجمے کیے،جسے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ طباطبائی کے ترجمے میں تخلیق کا سا رنگ نظر آتا ہے۔ ان ترجموں سے اردو نظم کی ہیئت میں شکست و ریخت کا عمل بھی شروع ہوا۔ عبدالحلیم شرر مدیر ’دلگداز‘ نے ایسے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جو مغربی شاعری کے منظوم تراجم کی طرف متوجہ ہوئے۔  1901 میں سر عبدالقادر کے رسالے ’مخزن‘ کے اجرا کے ساتھ مغربی نظموں کے تراجم کا ایک نیا دور شروع ہوا۔  سرعبدالقادر نے بڑے منصوبہ بندطریقے سے مغربی نظموں سے استفادے اور منظوم تراجم کو فروغ دیا۔ انھوں نے انگریزی نظموں سے خیالات اخذکیے اور نظم تخلیق کی۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی کوششوں سے اردو نظم میں اظہار کی نئی راہیں ہموار ہوئیں۔ ظفر علی خاں، سید محمد ضامن کنتوری، غلام بھیک نیرنگ، نادر کاکوروی، حسرت موہانی، احسن لکھنوی، سیف الدین شباب، تلوک چند محروم، عزیز لکھنوی وغیرہ نے منظوم ترجمے کیے۔ منظوم تراجم سے ہیئت و اسلوب میں جو تبدیلی واقع ہوئی، اس میں بھی اردو شعرا نے اپنی بھر پور تخلیقی ہنر مندی کا ثبوت دیا۔

کلیدی الفاظ

        جدید، نیچرل، موضوعات، ہیئت، اسلوب،تجربے،تراجم،تحریک،نظم معرا،نظم آزاد، وزن، بحر، ردیف اور قافیہ۔

1857میں ہندوستان پر انگریزوں کے مکمل تسلط کے بعد ان کی علمی، ادبی اور تہذیبی بالادستی بھی قائم ہونے لگی اور انگریزی علوم و فنون سے استفادے کا رجحان بھی بڑھنے لگا۔نیز انگریزی نظموںکے منظوم تراجم کی طرف بھی توجہ کی گئی۔ جدید اردو نظم کا تصور اسی عہد میںظہور پذیر ہوا۔اس ضمن میں   1867 میںانجمن پنجاب لاہور کا قیام اور 1874کا موضوعاتی  مشاعرے کا انعقاد  اہم واقعہ ہے۔قیام  لاہور کے دوران محمد حسین آزاد اور الطاف حسین حالی انگریزی شاعری سے روشناس ہوئے۔    15اگست 1867 کو انجمنِ پنجاب کے جلسے میں آزاد نے ’نظم اور کلامِ موزوں کے باب میں خیالات‘ کے عنوان سے ایک لکچر دیا۔ اس لکچر میں آزاد نے شعر و ادب کے تعلق سے خیالات کا اظہار کیا ۔ محمد حسین آزاد لکھتے ہیں

’’کتابوں میں اکثر شعر کے معنی کلام موزوں و مقفّیٰ لکھے ہیں۔ لیکن درحقیقت چاہیے کہ وہ کلام موثر بھی ہو۔ ایسا کہ مضمون  کا سننے والے کے دل پر اثر کرے۔ اگر کوئی کلام منظوم تو ہو لیکن اثر سے خالی ہو تو وہ ایک ایسا کھانا ہے کہ جس میں کوئی مزہ نہیں۔‘‘ 1؎

’’شاعر گویا ایک مصور ہے لیکن نہ وہ مصور کی خرواشتر درخت اور پتھر کی تصویر کاغذ پر کھینچے بلکہ وہ ایسا مصور ہے کہ معنی کی تصویر صفحہ دل پر کھینچتا ہے اور بسااوقات اپنی رنگینیِ فصاحت سے عکس نقش کو اصل سے بھی زیادہ زیبائش دیتا ہے۔ وہ اشیا جن کی تصویر مصور نہ کھنچے یہ زبان سے کھینچ دیتا ہے..... کبھی تصویر غم صفحۂ دل پر کھینچتا ہے کبھی مضامینِ فرحت و عیش سے طبیعت کو گلزار کرتا ہے۔ انتہائے مرتبہ ہے کہ جب چاہتا ہے ہنسا دیتا ہے جب چاہتا ہے رلا دیتا ہے۔‘‘2؎

’’شعر سے وہ کلام مراد ہے جو جوش و خروش خیالاتِ سنجیدہ سے پیدا ہوا ہے اور اسے قوت قدسیہ الٰہی سے ایک سلسلۂ خاص ہے۔ خیالاتِ پاک جوں جوں بلند ہوتے جاتے ہیں مرتبۂ شاعری کو پہنچتے جاتے ہیں۔ ابتدا میں شعرگوئی حکما اور علمائے متبحّر کے کمالات میں شمار ہوتی تھی اور ان تصانیف میں اور حالی کی تصانیف میں فرق بھی زمین و آسمان کا ہے۔ البتہ فصاحت و بلاغت اب زیادہ ہے۔ مگر خیالات خراب ہوگئے سبب اس کا سلاطین و حکام ِ عصر کی قباحت ہے انھوں نے جن جن چیزوں کی قدردانی کی لوگ اس میں ترقی کرتے گئے۔‘‘ 3؎

ان اقتباسات سے ظاہر ہے آزاد اپنی شعری روایت اور متقدمین شعرا کی خدمات کے معترف ہیں ،اور مشرق کے ادبی  سرمائے کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لیکن بدلے ہوئے حالات میں انھیں روایتی شاعری  بے وقعت نظر آئی۔ ان کی بے اطمینانی موضوعات اور بیان دونوں سطحوںپرہے۔ آزاد اپنے لکچر میں شاعری سے متعلق ایک نیا منشور وضع کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ یہ بتاتے ہیں کہ شاعری کیا ہے، شاعری کیسی ہونی چا ہیے ، شعر سے کس طرح کا  کلام مراد ہے اور اس کے مضامین کس طرح کے ہوں وغیرہ۔ خیال رہے کہ آزاد کا یہ لکچر 15 اگست1867 کا ہے۔ ظاہر ہے 1874 کے موضوعاتی مشاعرے سے سات برس پہلے  محمد حسین آزاد شاعری میں اصلاح کی بنیاد رکھ چکے تھے۔ اردو شاعری میں1874کا موضوعاتی مشاعرہ آزاد کی انقلابی فکر کا عملی نمونہ تھاجس سے باقاعدہ طور پر جدید نظم نگاری کا آغاز ہوا۔ لیکن اس مشاعرے سے پہلے 19اپریل 1874 کو لاہور میں ایک جلسہ منعقد ہوا جس میں گورنمنٹ پنجاب کے گورنر کی جانب سے ان کے سکریٹری نے اس مشاعرے کے اغراض و مقاصد کو بیان کیا تھا۔ یہ اقتباس دیکھیے

’’اردو کی نئی کتابیں جو بالفعل رائج ہیں یا جن کے پڑھانے کی کمیٹی نے سفارش کی ہے، ان میں اردو نظم بالکل نہیں مگر ان میں کچھ کلام نہیں کہ عمدہ نظم وسیلہ تعلیم کا ہے.....  اگر شعرائے مذکورہ بالا کے دیوانوں سے ایسا انتخاب نہ ہوسکے توحسب الہدایت دریافت کیا جاتا ہے کہ شعرائے زمانۂ حال سے خاص مدارس کے لیے ایک ایسی تصنیف کا کام سرانجام ہوسکتا ہے یا نہیں؟ اگر اس طور پر مدارس سرکاری کے وسیلے سے دیسی نظم کا رواج ہوجائے اور واہیات نظم جو بالفعل بہت رائج ہے ختم ہوجائے تو بڑی اچھی بات ہوگی۔‘‘4؎

کرنل ہالرائڈ اسی جلسے میں اپنی تقریر میں فرماتے ہیں

’’یہ جلسہ اس لیے منعقد کیا گیا ہے کہ نظم اردو جو چند عوارض کے باعث تنزل اور بدحالی میں پڑی ہوئی ہے اس کی ترقی کے سامان بہم پہنچائے جائیں۔ اس لیے جملہ روسا اور اہلِ علم اور ان لوگوں سے جو شعر و سخن اور تصانیف سے لذت اٹھاتے ہیں درخواست کی جاتی ہے کہ جہاں تک ہوسکے اس کی طرف توجہ کریں۔‘‘5؎

ان اقتباسات سے ظاہر ہے کہ نصاب کے لیے نظموں کی فراہمی اس مشاعرے کا مقصدِ خاص تھا۔ لیکن بات صرف یہی نہیں تھی۔ دراصل لفٹیننٹ گورنر کے سکریٹری نے اردو شاعری کے مزاج اور سمت و رفتار کا لائحہ عمل بھی پیش کیا۔ مثلاً شاعری کیسی ہونی چاہیے۔ اس میں کس قسم کے مضامین پیش کیے جائیں۔ شاعر کو کن مقاصد کو دھیان میں رکھ کر شاعری کی جائے۔

’’شاعر کو چاہیے کہ جو لکھے ایسالکھے کہ سنتے ہی انسان کا دل راستی کی طرف مائل ہو اور ہمدردی، پاک دامنی اور خوش اخلاقی کی طرف راغب ہو۔ باغ کی سبزی اور ہریاولی، غروب آفتاب کے وقت افق کی خوشنمائی اور اس کے طلوع کے وقت جو خداکی صنعت کاملہ کا نمونہ ہے کہ شاعر ہی خوب سمجھ سکتا ہے۔ بس اسے چاہیے کہ ان کیفیتوں کے بیان سے خاص و عام کے دلوں پر اثر پیدا کرے تاکہ مشکل کے وقت عبرت حاصل کریں اور فرحت کے وقت اس نعمت غیبی کا شکر بجالائیں۔‘‘6؎

 جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے 19 اپریل1874 سے پہلے آزاد 15 اگست 1867 کے انجمنِ پنجاب کے جلسے میں شاعری میںاصلاح کی طرف اشارہ کر چکے تھے۔ 19 اپریل1874کے جلسے میں آزاد نے ایک لکچر دیا اور پھر اپنی مثنوی ’شب قدر‘ سنائی۔ آزاد اپنے اس لکچر میں مروجہ شاعری کی خامیوں کی نشاندہی کرتے ہیں اور اہلِ وطن سے یوں خطاب کرتے ہیں

’’اے میرے اہلِ وطن! مجھے بڑا افسوس اس بات کا ہے کہ عبارت کا زور مضمون کا جوش و خروش اور لطائف و صنائع کے سامان تمھارے بزرگ اس قدر دے گئے ہیں کہ تمہاری زبان کسی سے کم نہیں۔ کمی فقط اتنی ہے کہ وہ چند بے موقع احاطوں میں گھر کر محبوس ہوگئے ہیں۔ وہ کیا؟ مضامین عاشقانہ ہیں جن میں کچھ وصل کا لطف، بہت سے حسرت وارمان اس سے زیادہ ہجر کا رونا، شراب، ساقی، بہار، خزاں، فلک کی شکایت اور اقبال مندی کی خوشامد ہے۔ یہ مطالب بھی بالکل خیالی ہوتے ہیں اور بعض دفعہ ایسے پیچیدہ اور دور دور کے استعاروں میں ہوتے ہیں کہ عقل کام نہیں کرتی۔‘‘7؎

’’میرے اہلِ وطن! آؤ آؤ۔ برائے خدا اپنے ملک کی زبان پر رحم کرو۔ اٹھو اٹھو! اہلِ وطن کی قدیمی ناموری کو بربادی سے بچاؤ۔ تمھاری شاعری جو چند محدود احاطوں میں بلکہ زنجیروں میں مقید ہے اس کے آزاد کرانے میں کوشش کرو۔ نہیں تو ایک زمانہ تمہاری اولاد ایسا پائے گی کہ ان کی زبان شاعری کے نام سے بے نشان ہوگی اور اس فخر آبی اور بزرگوں کی کمائی سے محروم ہونا بڑے افسوس کا مقام ہے۔‘‘8؎

محمد حسین آزاد نے جدید نظم کو فکری بنیاد عطا کی اور حالی نے اس کی بہتر تعبیر اور عملی صو رتیں پیش کیں۔ اس مشاعرے سے وابستہ شاعروں میں سے کوئی بھی حالی کی نظم نگاری کے مقام تک نہ پہنچ سکا۔ حالی کے خیالات میں تبدیلی لاہو رکے موضوعاتی مشاعرے سے پہلے پنجاب گورنمنٹ کے بک ڈپو کی ملازمت کے دوران ہوچکی تھی۔ یہاں حالی انگریزی کتابوں کے ترجمے کی درستگی پر مامور تھے۔ حالی نے خود اس کا عتراف کیا ہے کہ مغربی خیالات اور انگریزی لٹریچر تک رسائی انھیں ترجموں کے ذریعے ہوئی۔ لکھتے ہیں

’’نواب شیفتہ کی وفات کے بعد پنجاب گورنمنٹ بک ڈپو (لاہور) میں ایک اسامی مجھ کو مل گئی جس میں مجھے یہ کام کرنا تھا کہ جو ترجمے انگریزی سے اردو میں ہوتے تھے ان کی اردو عبارت درست کرنے کو ملتی تھی۔ تقریباً چار برس میں نے یہ کام لاہور میں رہ کر کیا۔ اس سے انگریزی لٹریچر کے ساتھ فی الجملہ مناسبت  پیدا ہوگئی اور نامعلوم طور پر آہستہ آہستہ مشرقی اور خاص کر عام فارسی لٹریچر کی رفعت دل سے کم ہونے لگی۔‘‘9؎

شاعری سے متعلق حالی کے خیالات میں جو تبدیلیاں واقع ہورہی تھیں 1874 کے مشاعرے سے اسے اور جلا ملی۔ حالی کو نئی طرز کی شاعری کے لیے نہایت مناسب پلیٹ فارم میسر ہوا۔ راستی، ہمدردی، پاک دامنی اور خوش اخلاقی کی طرف رغبت دلانے والی شاعری جس کی طرف اپریل 1874کے جلسے میں توجہ دلائی گئی تھی حالی کی شاعری اس کی ترجمان نظر آتی ہے۔ اثر و تاثیر کی بنا پر یہ نظمیں بے حد مقبول ہوئیں۔ حالی نے جس قدر دردمندانہ انداز میں نظمیں لکھیں اس سے ایک بڑاطبقہ متاثر  ہوا۔ انگریزی نظموں کے خیالات نے حالی کو اس حد تک متاثر کیا کہ مشرقی شاعری کی وقعت دل سے کم ہوگئی۔ مقدمۂ شعر و شاعری میں حالی نے شاعری سے متعلق تمام امور پر بحث کی ہے۔ وہ نیچرل شاعری کے متعلق بھی اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ مسدّس جس میں حالی نے مسلمانوں کے عروج و زوال کی داستان رقم کی ہے۔مسدس کے دیباچے میں حالی اپنی روایتی شاعری اور اس عہد کے مذاقِ شعر پر یوں روشنی ڈالتے ہیں

’’شاعری کی بدولت چند روز جھوٹا عاشق بننا پڑا۔ ایک خیالی معشوق کی چاہ میں برسوں دشتِ جنوں کی خاک اڑائی کہ قیس و فرہاد کو گرد کردیا۔ کبھی نالۂ نیم شبی سے رُبع مسکوں کو ہلا ڈالا۔ کبھی چشمِ دریا بارسے تمام عالم کو ڈبو دیا۔ آہ و فغاں کے شور سے کرّوبیوں کے کان بہرے ہوگئے۔ شکایتوں کی بوچھار سے زمانہ چیخ اٹھا۔طعنوں کی بھرمار سے آسمان چھلنی ہوگیا۔ جب رشک کا تلاطم ہوا توساری خدائی کو رقیب سمجھا۔ یہاں تک کہ اپنے آپ سے بدگمان ہوگئے۔ جب شوق کا دریا امنڈا تو کشش دل سے جذب مقناطیسی اور قوت کہربائی کا کام لیا۔ بارہا تیغ ابرو سے شہید ہوئے اور بارہا ایک ٹھوکرسے جی اٹھے۔ گویا زندگی ایک پیراہن تھا جب چاہاا تار دیا اورجب چاہا پہن لیا۔میدانِ قیامت میں اکثر گزر ہوا بہشت و دوزخ کی اکثر سیر کی۔ بادہ نوشی پر آئے تو خم کے خم لنڈھا دیے اور پھر بھی سیر نہ ہوئے۔ کبھی خانۂ خمار کی چوکھٹ پر جبہ سائی کی۔ کبھی مے فروش کے در پر گدائی کی۔ کفرسے مانوس رہے ایمان سے بیزار رہے پیرِمغاں کے ہاتھ پر بیعت کی۔‘‘10؎

اردو کے مجموعی شعری مزاج کے بارے میں حالی کے انشا ئی اسلوب میں تنقیدی تبصرہ ایک الگ بحث کا متقاضی ہے لیکن اس سے یہ ظاہر  ہوتا ہے کہ  وہ مروجہ شاعری سے کس قدر  بیزار تھے۔ حالی نے بھی اردو غزل کی شعری رسومات کو ہدفِ ملامت بنایا اور اردو غزل کی جو فردجرم تیار کی اس کی رو سے اصلاحی اور مقصدی شاعری کے سامنے حسن و عشق کی کیفیات سے معمور شاعری بے وقعت نظر آئی اور ماضی قریب اور بعید کی شاعری پر ان کی نظر کہیں نہیں ٹھہرتی۔ سرسید تحریک جن مقاصد کی تکمیل کے لیے وجود میں آئی تھی، لاہور کا موضوعاتی مشاعرہ اس کے لیے بہت کارآمد ثابت ہوا۔ سرسید نے انجمن پنجاب کے مشاعرے کو نیچرل شاعری کا مشاعرہ قرار دیا۔ ابھی جبکہ اردو شاعری میں جدید نظم کا رواج عام نہیں ہوا تھا، سرسید بے قافیہ نظموں کی طرف متوجہ ہو تے ہیں۔ سرسید کو اس مشاعرے سے نظم میں تبدیلی اور وسعت کی امید نظر آئی۔سرسید کو اس بات کا شدید احساس تھا کہ ہماری روایتی شاعری نیچر کے مضامین سے خالی ہے۔سرسیدکی نظرردیف و قافیے کی پابندیوں  پر بھی تھی۔اور اس مشاعرے سے جس طرز کی نظم نگاری کا    ا ٓغاز ہوا سرسید اس سے سرشار نظر آتے ہیں۔ ان نظموں میں انھیں نیچرل شاعری کا پر تو نظر آتا ہے۔ فروری 1875 کے ’تہذیب الاخلاق‘ کے مضمون علم انشا اور اردو نظم‘ میں لکھتے ہیں

’’اردو زبان کے علم و ادب کی تاریخ میں 1874 کا وہ دن جب لاہور میں نیچرل پوئٹری کا مشاعرہ قائم ہوا یادگار رہے گا.....لیفٹیننٹ گورنر پنجاب بہادر اور مسٹر ہالرائڈ ڈائرکٹر پبلک انسٹرکشن پنجاب نے اس مشاعرے کے قائم ہونے میں بڑی توجہ کی ہے جس کی شکرگزاری ہماری قوم پر واجب ہے۔ ہماری قوم کے لائق اور فائق لوگوں نے بھی اس پر توجہ کی ہے مولوی محمد حسین آزاد پروفیسر عربی گورنمنٹ کالج لاہور نے اس مشاعرے کے بقا اور قیام کے سلسلے میں سب سے زیادہ ہمت صرف کی ہے ان کی طبیعت کے زور اور پاکیزگی مضامین اور شوکتِ الفاظ اور طرزِ ادا سے ہم لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں ان کی مثنوی ’خواب امن‘ جو ’آفتاب پنجاب‘ میں چھپی ہے ہمارے دلوں کو خوابِ غفلت سے جگاتی ہے، مولوی خواجہ الطاف حسین حالی اسسٹنٹ ٹرانسلیٹر محکمہ ڈائرکٹر پنجاب کی مثنویوں نے تو ہمارے دلوں کے حال کو بدل دیا ہے۔ ان کی مثنوی ’حب الوطن‘ اور مثنوی ’مناظرہ رحم و انصاف‘ جو پنجابی اخبار میں چھپی ہے وہ درحقیقت ہمارے زمانے کے علم و ادب میںایک کارنامہ ہے۔ ان کی سادگی الفاظ صفائی بیان، عمدگی خیال ہمارے دلوں کو بے اختیار کھینچتی ہے، وہ مثنویاں آب زلال سے زیادہ خوش گوار ہیں۔ بیان میں زبان میں آمدمیں الفاظ کی ترکیب میں سادگی و صفائی میں کیسی عمدہ ہیں کہ دل میں بیٹھی جاتی ہیں ہاں یہ بات سچ ہے کہ ہمارے ان باعثِ افتخار شاعروں کو ابھی نیچر کے میدان میں پہنچنے کے لیے آگے قدم بڑھانا ہے اور اپنے اشعار کو نیچرل پوئٹری کے ہمسر کرنے میں بہت کچھ کرنا ہے مگر ان تینوں کے دیکھنے سے اتنا خیال ضرورپیدا ہوتا ہے کہ خیالات میں کچھ تبدیلی ہوئی ہے اور اس کا بھی تصور ہوسکتا ہے کہ اگر ہماری قوم اس عمدہ مضمون نیچر کی طرف متوجہ رہے اور ملٹن اور شیکسپیئر کے خیالات کی طرف توجہ فرمائے اور مضامین عشقیہ اور مضامین خیالیہ اور مضامین بیان و اقع اور مضامین نیچر میں جو تفرقہ ہے اس کو دل میں بٹھائے تو ان بزرگوں کے سبب ہماری قوم کی لٹریچر کیسی عمدہ ہوجاوے گی۔‘‘  11؎       

اس ضمن میں نذیر احمد کے خیالات کچھ کم اہم نہیں  ہیںبلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ نذیر احمد کے یہاں اپنے معاصرین کے بہ نسبت زیادہ پرزور انداز میں انگریزی سے استفادے کا رجحان نظر آتا ہے۔  نذیر مغربی علوم و فنون کو بڑی قدر کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ نذیر احمد واضح طور پر انگریزی طریقۂ تعلیم اور انگریزی شعر و ادب کی حمایت کرتے ہیں۔ نذیر احمد کی نظر میں ایشیائی قوموں کی تنزلی کا سبب ایشیائی شاعری ہے۔ آزاد نے اپنے لکچر میں اپنے اد بی سر مائے کویکسر مسترد نہیں کیا۔ ان کا اصرار تھا کہ روایتی شاعری سے آگے بڑھ کر مغربی شاعری سے استفادہ کرنا چاہیے۔ نذیر احمد کے یہ خیالات ملاحظہ فرمائیے

’’میں تو اس خیال کا آدمی ہوں کہ علوم قدیمہ کو مسلمانوں کی ترقی کا سدراہ جانتا ہوں اور علومِ قدیمہ میں سے بھی خاص کر لٹریچر کا سخت مخالف ہوں۔ مسلمانوں میں ایزاے نیشن (بحیثیت قومی) جتنی خرابیاں ہیں کل تو نہیں اکثر اسی لٹریچر نے پیدا کی ہیں یہ لٹریچر جھوٹ اور خوشامد سکھاتا۔ یہ لٹریچر واقعات اور موجودات کی اصلی خوبی کو دباتا اور مٹاتا ہے یہ لٹریچر متوہمات اور مفروضات بے اصل کو فیکٹس (واقعات) بناتا ہے۔ یہ لٹریچر نالائق ولولوں کو شورش دلاتا ہے۔

اگرچہ بڑی عمر میں میں نے بوڑھے طوطے کی طرح آپ ہی آپ تھوڑی سی انگریزی بھی پڑھ لی تھی لیکن میری طبیعت میں ایشیائی تعلیم کا رنگ رچ چکا تھا۔ انگریزی پڑھنے سے اتنا تو ہوا کہ مجھ کو اپنے یہاں کے لٹریچر کے عیوب معلوم ہونے لگے مگر مذاق وہی کا وہی رہا۔ اب بھی اگر کوئی برجستہ شعر سن پاتا ہوں چاہے اس میں کتنا ہی مبالغہ خلاف قیاس کیوں نہ ہو بے اختیار بھڑک اٹھتا ہوں۔ یہ خرابی کم بخت فارسی کی پھیلائی ہوئی ہے۔ خیالات اور مضامین کے اعتبار سے تمام دنیا کے لٹریچروں میں اس زبان کے لٹریچر سے بدتر کوئی لٹریچر نہیں۔ اس نے قومی مذاقوں کو ایسا بگاڑا اور اس قدر تباہ کیا کہ ہم لوگوں کو واقعات میں مزہ نہیں ملتا۔‘‘12؎

                       

’’شاعری جس سے زیادہ موثر کوئی عمل نہیں ایشیائی ملکوں میں مدتوں سے ایسی بری طرح سے اس کا استعمال کیا جارہا ہے کہ جہاں تک میں خیال کرتا ہوں لٹریچر کی خرابی کو بھی ایشیائی قوموں کے تنزل میں بڑا دخل ہے۔ جھوٹ اور مبالغے اوربے اصل خیالی باتوں پر تو اس کی بنیاد ہے اور مضامین جن        سے شعرا طبع آزمائی کرتے ہیں اکثر گندے تو ایسی شاعری قومی اخلاق کو بگاڑا ہی چاہے۔‘‘  13؎

جیسا کہ ذکر آچکا ہے کہ نظم جدید کی تحریک کا آغاز 1874 کے موضوعاتی مشاعرے سے ہوا ۔ گرچہ اس مشاعرے کا سلسلہ سال بھر بھی قائم نہ رہ سکا۔ لیکن جدید نظم نگاری کی بنیاد اسی مشاعرے سے قائم ہوئی۔ سرسید قوم کی اصلاح کے لیے جس طرح کی شاعری کی ضرورت محسوس کررہے تھے وہ نظم جدید کی تحریک سے پوری ہوتی نظر آئی۔ سرسید اور ان کے رفقا کی فکری اور عملی کوششوں نے جدید نظم نگاری کو جلا بخشی۔ نظم کی یہ تحریک سرسید کی اصلاحی تحریک کے لیے نہایت موزوں وسیلہ ثابت ہوئی۔

1874 کی موضوعاتی شاعری کے بعد اردو نظم نگاری میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ بالخصوص آزاد اور حالی نے جدید نظم کے فروغ میں بہت اہم کردار ادا کیا اور  شاعری کے ذریعے آزاد اور حالی نے نئی نظم نگاری کی بنیاد ڈالی۔ آزاد اور حالی کے فکر و خیال میں تبدیلی کا باعث مغربی نظمیں تھیں۔ مغربی نظموں کا زندگی کے جن مسائل سے سروکار تھا، آزاد اور حالی کو اردو نظم میں اسی طرز کی نظم کو رواج دینے کی خواہش پیدا ہوئی۔ آزاد کے لکچر میں مغربی شاعری کی خوبیوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور ایشیائی شاعری کے معائب کی نشاندہی کی گئی ہے۔ آزاد اور حالی کی کوششوں سے نظم میں فکری اعتبار سے تبدیلی کا عمل شروع ہوا اور اردو نظم کے روایتی موضوعات سے الگ ہٹ کر زندگی کے دوسرے مشاغل پیش کیے جانے لگے۔ ہمیں یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہیے کہ ادب میں تبدیلی کا عمل راتوں رات نہیں ہوجاتا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حالی اور آزاد کی کوششوں کے باوجود نظم اپنے پرانے سانچے سے زیادہ انحراف نہیں کرسکی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہیئت میں تجربے کی اس عہد میں کوششیں بھی ہوئیں۔ محمد حسین آزاد کی نظم ’جغرافیہ طبعی کی پہیلی‘ ہیئت کے تجربے کی اولین کو شش  ہے۔ مولوی اسماعیل میرٹھی کے یہاں بھی ہیئت کے تجربے کی مثال موجود ہے لیکن ہیئت کے ان تجربوں کو مقبولیت حاصل نہیں ہوئی۔

 اردو نظم میں ہیئت و اسلوب کے اعتبار سے وسعت پیدا کرنے میںانگریزی نظموں کے منظوم تراجم کا بہت اہم رول رہا ہے۔ ان تراجم کے ذریعے اردو نظم میں ہیئت و اسلوب اور افکار و خیالات میں غیرمعمولی تبدیلی واقع ہوئی۔اردو میں مغربی نظموں کے منظوم تراجم کے حوالے سے غلام مولیٰ قلق میرٹھی کا نام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ انھوں نے کئی انگریزی نظموں کے منظوم ترجمے کیے۔ انگریزی نظموں کے تراجم کا مجموعہ ’جواہر منظوم‘ کے عنوان سے 1867 میں شائع ہوا۔ جواہر منظوم کو انگریزی نظموں کے تراجم کا پہلا مجموعہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ قلق میرٹھی کے ترجموں میں روانی اور صفائی کا عنصر نمایاں ہے۔ C.CIBBER کی نظم The Blind Boy کا یہ حصہ دیکھیے     ؎

نہیں معلوم نور ہے کیا شے

کیا ہے بینش جو رحمت حق ہے

دیکھتے ہو عجائبات جہاں

کہتے ہو آفتاب ہے رخشاں

گرم پایا ہوں اس کو میں لیکن

نہیں معلوم رات ہے یا دن

اکثر اوقات حال پر اپنے

تم کو سنتا ہوں آہ و غم بھرتے

نہیں معلوم مجھ کو نقصان

نہیں صبر و تحمل اس پہ گراں

 (داستان اندھے لڑکے کی)

جواہرِ منظوم کی نظموں میں اوصاف اخلاقِ شتر، بیان کرمک، حکایتِ پسر ناخدا، بیانِ جنت، میرا باپ کشتی بان ہے، بیانِ ہندوستان، داستان اندھے لڑکے کی، داستان شاہ کینیوٹ کی، قصہ ویم ٹیل ساکن سوئزرلینڈ، خواہش طفل وغیرہ  بہت اہم ہیں۔ انگریزی نظموں کے منظوم تراجم کے اور بھی مجموعے شائع ہوئے۔  بانکے بہاری لال کی منتخب انگریزی نظموں کا ترجمہ 1869 میں شائع ہوا۔ اسی دوران ’گوہر شب تاب‘ بیس نظموں کے منظوم ترجموں کا مجموعہ شائع ہوا۔ مولانا الطاف حسین حالی نے  1878 میں انگریزی شاعر مسٹر اسٹوک کی نظم کا   نہایت سلیس ترجمہ ’زمزمہ قیصری‘ کے عنوان سے کیا۔ نظم کا یہ حصہ ملاحظہ کیجیے       ؎

اے حصارِ عافیت اے کشورِ ہندوستاں

زیب دیتا ہے اگر کہیے تجھے سارا جہاں

اک طرف کھینچی ہے قدرت نے ترے دیوارِ کوہ

سوزن ہے ایک جانب تیرے بحرِ بے کراں

چوٹیوں پر ہے پہاڑوں کی وہ عالم برف کا

ہے سدا چھایا ہوا جس پر خموشی کا سماں

بحر میں ہوتا ہے اک شورِ قیامت آشکار

جب کہ اس میں آکے گرتی ہیں ہزاروں ندیاں

 (زمزمۂ قیصری)

مولانا حالی نے گرے کی مشہور نظم (Elegy)کے ایک بند کا بھی ترجمہ ’ناقدری‘ کے عنوان سے کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے انگریزی کے متفرق اشعار کے منظوم تراجم بھی کیے۔ مولانا اسماعیل میرٹھی شاعری کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کے ساتھ انگریزی نظموں سے ماخوذ خیالات پر مبنی نظمیں بھی تخلیق کیں اور انگریزی نظموں کے تراجم بھی کیے۔ ان کے مجموعۂ کلام ’ریزۂ جواہر‘ میں یہ نظمیں شامل ہیں۔ کیڑا (1867)، ایک قانع مفلس (1867)، موت کی گھڑی (1867)، فادر ولیم (1867)، حب وطن (1868)، انسان کی خام خیالی (1868) ترجمہ ہیں۔ اسماعیل میرٹھی نے انگریزی نظموں کا نہایت سلیس اور رواں ترجمہ کیا۔ یہ مثال ملاحظہ کیجیے      ؎

جب کہ طوفاں ہو زندگی میں بپا

گھیر لیں ہر طرف سے موج و ہوا

جب کہ لغزش میں پانو تیرا ہو

اور آنکھوں تلے اندھیرا ہو

بلکہ ہوش و حواس بھی ہوں جدا

ڈر نہ زنہار رکھ نظر بخدا

تھام دل کو نہ خوف کر نہ ہراس

کہ نگہباں ہے تیرا تیرے پاس

 

(موت کی گھڑی)

مولانا محمد حسین آزاد  انگریزی نظموں کے خیالات سے متاثر تھے، اور اردو نظم میں تبدیلی کے خواہاںتھے۔ انھوں نے  انگریزی نظموں کے خیالات سے متاثر ہو کر نظمیں تخلیق کیں اور بعض انگریزی نظموں کے ترجمے بھی کیے۔ بلورلٹن کی نظم ’نابینا پھول والی کا گیت‘ کا ترجمہ محمد حسین آزاد نے نہایت سادہ الفاظ میں کیا۔ نظم کا یہ حصہ ملاحظہ کیجیے      ؎

لوگو! دنیا نور کا گھر ہے

جس میں قلب یار بھی گر ہے

زندہ رہتی ہے اس میں محبت

نام سے نفرت کے ہے نفرت

لیکن مجھ بیکس اندھی کا

گھر ہے اندھیری رات کا کالا

جس میں فقط آوازیں ہیں بستی

اور نظر آتا نہیں کوئی

گویا کھڑی ہوں نیچے زمیں کے

آفت کی ندیوں کے کنارے

اچھی بری پرچھائیاں ساری

پاس سے میرے جب ہیں گزرتی

ان کی آوازیں سنتی ہوں

سوچ کے پھر یہ سر دھنتی ہوں

صورتیں ہوں گی ان میں وہ بھی

کرتے ہیں عاشق پوجا جن کی

 (نابینا پھول والی کا گیت)

محمد حسین آزاد نے صرف انگریزی نظموں کا  ترجمہ ہی نہیں کیابلکہ انھوںنے بعض انگریزی نظموں سے خیالات اخذ کیے اور انھیں نظم کا پیکر عطا کیا۔ اس دور میں انگریزی نظموں سے ماخوذ خیالات کو آزادانہ طور پر نظم کرنے کی خوب کوشش بھی نظر آتی ہے اس کی مثالیں  حالی اور آزاد کے یہاں بھی نظر آتی ہیں۔ اکبر  الہ آبادی نے ٹینی سن کی نظم ’برک‘ کا ترجمہ کیا۔ جو زبان کی سلاست اور روانی کے سبب اس نو ع کی اہم نظموں میں شمار کی جاتی ہے۔

انگریزی نظموں کے منظوم تراجم کے حوالے سے سید حید ر علی نظم طباطبائی کی خدمات بہت اہم ہیں، طباطبائی کے ترجموں کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ طباطبائی نے ٹامس گرے کی نظم ایلجی (Elegy) کا ترجمہ ’گورِ غریباں‘ کے عنوان سے کیا۔ یہ ترجمہ عبدالحلیم شرر کی فرمائش پر کیا گیا۔ اسے شرر نے جولائی 1897 کے ’دلگداز‘ کے شمارے میں تعارفی نوٹ کے ساتھ شائع کیا

’’ایسی مقبول روزگار اور ایسی سرمایہ انگلستان نظم جس کا ترجمہ ہمارے واجب التعظیم علامہ اور مستند زمانہ شاعر جناب مولوی حیدر علی صاحب طباطبائی نے کیا ہے مگر کس خوبی سے جس کا اظہار کرنا ہمارے اختیار سے باہر ہے۔ ایسی جاں گداز اور موثر نظمیں اوریجنل طور پر بھی اردو میں کم لکھی گئی ہیں نہ کہ ترجمہ اور پھر اس پابندی کے ساتھ کہ جس طرح پہلے مصرع کا قافیہ تیسرے مصرع سے اور دوسرے مصرع کا چوتھے مصرعے سے انگریزی میں ملتا ہے اسی طرح ہمارے مولانا نے بڑے لطف سے اپنی طرز قافیہ بندی کو چھوڑ کر اردو میں ملایا ہے۔ اردو میں اسٹینزا کہنے کی ابتدا اس نظم سے ہوتی ہے۔‘‘14؎

’گورِ غریباں‘ کا یہ بند ملاحظہ کیجیے        ؎

وداع روز روشن ہے گجر شامِ غریباں کا

چراگاہوں سے پلٹے قافلے وہ بے زبانوں کے

قدم گھر کی طرف کس شوق سے اٹھتا ہے دہقاں کا

یہ ویرانہ ہے، میں ہوں اور طائر آشیانوں کے

 (گورِغریباں)

نظم طباطبائی نے اس کے علاوہ انگریزی نظموں کے اور بھی تراجم کیے ہیں۔ مثلاً رحم، زمزمۂ فصل بہار، نغمۂ زندگی، یادِ رفتگاں، دولتِ خداد افغانستان، دعوتِ زہرا، اور ہمدردی و ثابت قدمی وغیرہ۔ ان نظموں کو بھی بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ نظم طباطبائی نے انگریزی نظموں کی طرز پر نظمیں بھی تخلیق کیں۔نظم طباطبائی نے ردیف و قافیے کی پابندیوں سے گریزکی کوشش کی۔ انھوں نے اپنی ایک نظم میں ان پابندیوں کا مذاق بھی اڑایا ہے۔

’گورِ غریباں‘ کی مقبولیت کے سبب انگریزی نظموں کے تراجم اور انگریزی شاعری کے خیالات کو اردو میں نظم کرنے کا رجحان بڑھا۔ اس سمت میں اس عہد کے بعض مدیران نے نئی طرزِ فکر اور نئے طرزِ اظہار کی بھرپور حوصلہ افزائی کی۔ عبدالحلیم شرر نے رسالہ ’دلگداز‘ کے ذریعے نئی طرزِ فکر اور طرزِ اظہار کی نظموں کو فروغ دیا اور استحکام بخشا۔ 1897 میں سید ضامن کنتوری نے انگریزی شاعر گولڈ اسمتھ کی نظم کا ترجمہ ’راہب صحرا نشیں‘ کے عنوان سے کیا۔ 1900 میں شرر نے ’دلگداز‘ میں اپنا ایک منظوم ڈرامہ ’نظم غیرمقفیٰ‘ کے عنوان سے شائع کیا۔ یہ ڈراما نظم معریٰ کی شکل میں ہے۔ ’دلگداز‘ میں نئی طرزِ فکر اور طرزِ اظہار کی نظموں سے متعلق مضامین بھی شائع ہونے لگے اور ایک بحث و مباحثے کا دور شروع ہوا۔ اس ضمن میں رسالہ ’مخزن‘ کی خدمات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اپریل 1901 میں مخزن کا پہلا شمارہ منظرعام پر آیا جس میں اس کے اغراض و مقاصد میں یہ بھی شامل تھا کہ

’’انگریزی نظموں کے نمونے پر طبع زاد نظمیں، انگریزی نظموں کے بامحاورہ ترجمہ، اخلاقی نظمیں اور پرانے رنگ کی نظم کے انتخاب میں جمع کی جائیں گی تاکہ متقدمین کی تقلید کرنے والے جدید مذاق سے آگاہ ہوں۔‘‘15؎

’مخزن‘ کے پہلے شمارے میں تراجم اور ماخوذ نظمیں بھی شائع ہوئیں۔ اقبال کی کئی نظمیں جو کہ انگریزی نظموں سے ماخوذ خیالات پر مبنی ہیں مخزن میں شائع ہوئیں۔ مخزن کے پہلے شمارے میں ظفر علی خاں کی نظم ’ندی کا راگ‘ جو کہ انگریزی شاعر لارڈٹنی سن Lord Tennyson) (کی مشہور نظم ’دی بروک‘ کا منظوم ترجمہ ہے شائع ہوئی۔ اس نظم کی اشاعت کے ساتھ مدیر ’مخزن‘ نے یہ نوٹ لکھا تھا

’’زبانِ انگریزی میں لارڈ ٹنی سن کی ایک مقبول نظم ’دی بروک‘ کے نام سے مشہور ہے۔ اس کا بامحاورہ اور آزادانہ ترجمہ ہمارے مہربان منشی ظفر علی خاں صاحب بی اے حیدر آباد دکن سے بھیجتے ہیں۔ آپ کا مولد و منشا پنجاب ہے اور آپ علی گڑھ کالج کے منتخب اور ہونہار تعلیم یافتہ نوجوانوں میں سے ہیں۔‘‘ 16؎    

اقبال کی ابتدائی شاعری میں مغربی نظموں سے ماخوذ خیالات اور بعض نظموں کے تراجم دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان کی نظم ’ہمالہ‘ انگلستان کے شاعر ورڈس ورتھ کے رنگ میں تخلیق کی گئی ہے۔ ’ایک پہاڑ اور گلہری‘ ایمرسن کی نظم سے ماخوذ ہے۔ ہمدردی ولیم کوپر کی نظم سے ماخوذ ہے۔ ماں کا خواب، بچے کی دعا، ایک گائے اور بکری وغیرہ نظمیں بھی انگریزی نظموں سے ماخوذ ہیں۔ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی نے اقبال کی پیام صبح، عشق اور موت، اور ’رخصت اے بزم جہاں‘ کو ترجمہ کے زمرے میں شامل کیا ہے۔ حالانکہ کلیات میں ان نظموں کے ذیل میں ماخوذدرج ہے۔اقبال نے مخزن کی اس تحریک کو بہت تقویت پہنچائی ۔ اقبال کے کلام میں ایسی نظمیں دیکھی جاسکتی ہیں جن پر مغربی شاعری کے واضح اثرات نظر آتے ہیں۔ ان کی نظم ’جگنو‘ ولیم کاوپر (William Cowper) کی نظم 'The Nightingale and the Glow-Worm' کے رنگ میں لکھی گئی ہے۔  پرندے کی فریاد Todeth in His Cage' سے ماخوذ ہے۔ اس کے علاوہ کئی دوسری نظموں پر انگریزی شاعری کے اثرات بہت واضح  ہیں۔ نظم جدید کی تحریک اور تراجم سے اپنی شاعری کو روشن کرنے والو ںمیں اقبال کا مرتبہ بہت بلند ہے۔ انگریزی نظموں کے منظوم تراجم کو تخلیق کی سطح پر برتنے کا ہنر اقبال کی نظموں میں جلوہ گر ہے۔

سرعبدالقادر نے جن مقاصد کے لیے رسالہ مخزن جاری کیا تھا اس کے خاطر خواہ نتیجے سامنے آئے۔ انگریزی نظموں سے ماخوذ خیالات کو نظم کیا گیا اور انگریزی نظموں کے منظوم تراجم بھی کیے گیے۔ سرعبدالقادر کی کوششیں باریاب ہوئیں ۔ اپریل1904 کے شمارے میںسرعبدالقادرلکھتے  ہیں

’’اردو نظم میں مغربی خیالات، فلسفہ اور سائنس کا رنگ بھرنا اور نتیجہ خیز مسلسل نظم کو رواج دینا تاکہ نظم اردو کا رنگ نکھرے۔ اس کے اثر کا حلقہ وسیع ہو اور جو لوگ انگریزی نظم کی خوبیوں کے دلدادہ ہیں ان کی تسلی کے لیے بھی کچھ سامان ملکی زبان میں ہوجائے۔ یہ مقصد بھی خاطرخواہ طور پر پورا ہوا اور اس کے پورا کرنے میں سب سے زیادہ کوشش شیخ محمد اقبال صاحب ایم اے اور میرنیرنگ صاحب بی اے کی طرف سے ہوئی۔  جن کے کلام کا مجموعہ جب شائع ہوگا تو شائقین دیکھیں گے کہ کتنے نئے خیالات  اور کس کس خزانہ کے علمی جواہرات ان دلآویز چھوٹی چھوٹی نظموں میں جمع کیے گئے ہیں۔ اس مقصد کے لیے مخزن کے کل حجم کے ایک آٹھویں حصے کے قریب وقف رہا۔‘‘17؎

مغربی نظموں کے تراجم کے حوالے سے سیدمحمد ضامن کنتوری کا نام بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ ضامن کنتوری نے انگریزی نظموں کے تراجم پر توجہ دی اور انگریزی کی کئی اہم نظموں کے تراجم کیے۔ انگریزی نظموں کے منظوم تراجم کا مجموعہ ’ارمغانِ فرنگ‘ کے نام سے شائع ہوا۔ انھوں نے جن شاعروں کی نظموں کے تراجم کیے ان میں ورڈزورتھ، پوپ، گولڈ اسمتھ، بروننگ، ولیم شیکسپیئر  اور لانگ فیلو وغیرہ کے نام شامل ہیں۔ سید ضامن کنتوری نے ان نظموں کے تراجم میں بہت زیادہ آزادی اختیار نہیں کی بلکہ انگریزی نظموں کی پابندیوں کو بڑی حد تک قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔ ولیم شیکسپیئر کی ایک نظم کا ترجمہ ملاحظہ کیجیے       ؎

بندہائے نظام فلک ہے کشش کے تاروں سے

نکلتی ہے دمِ گردش صدا ستاروں سے

فرشتے ان کی خوش الحانیوں کو سنتے ہیں

ہیں عین روح گل نغمہ جب تو چنتے ہیں

عذائے روح ہے نغمہ جو وا ہو مسمع دل

مگر یہ جامۂ خاکی ہے پردۂ حائل

جو ہم ترانۂ دلکش سے خوش نہیں ہوتے

تو گوشِ دل ہیں لگے اور ہی کہیں ہوئے

 (نغمہ کی تاثیر)

غلام بھیک نیرنگ نے بھی متعدد انگریزی نظموں کے ترجمے کیے۔ رسالہ مخزن کے دسمبر 1905 کے شمارے میں ایک انگریزی نظم کا ترجمہ شائع ہوا۔ نظم کا یہ حصہ ملاحظہ کیجیے      ؎

اے جانِ عزیز جانِ شیریں

معلوم نہ ہوسکا تو کیا ہے

معلوم ہے بس یہی کہ مجھ سے

ہونا تجھے ایک دن جدا ہے

پوشیدہ رہا یہ راز لیکن

کچھ کھل نہ سکا یہ بھید کیا ہے

کب کس جگہ اور کس طرح سے

مجھ سے ترا وصل ہوگیا ہے

 (جانِ شیریں)

نادر کاکوروی نے انگریزی نظموں کے منظوم ترجمے کی طرف توجہ کی۔ انگریزی نظموں کے تراجم کی طرف بڑی تعداد میں اہل علم نے رخ کیا۔ ٹامس مور کی نظم ’آئرش میلوڈیز‘ کا ترجمہ دیکھیے کس خوبصورتی سے کیا گیا ہے    ؎

اس وقت تنہائی مری/ کردیتی ہے پیش نظر/ برباد جس کو چھوڑ کر/ ٹوٹے کیواڑ اور کھڑکیاں/ پرنالے ہیں روزن نہیں/ پردے نہیں چلمن نہیں/ میرے سوا جس میں کوئی/ وہ خانۂ خالی ہے دل/ اجڑا ہوا ویران گھر/ یوں ہی شبِ تنہائی میں/ گزری ہوئی دلچسپیاں/ بنتے ہیں شمع زندگی/ میرے دلِ صد چاک پر                  (گزرے زمانہ کی یاد)

انگریزی نظموں کے منظوم تراجم کو فروغ دینے میں ’دلگداز‘ اور ’مخزن‘ کو انفرادی حیثیت حاصل ہے۔ ان رسائل کے علاوہ  دوسرے رسائل میں بھی منظوم تراجم شائع ہوتے رہے ہیں۔ اردو نظم  کے نئے رجحانات کے فروغ میں رسالہ ’ہمایوں‘ کا بھی بہت اہم رول رہا ہے۔ نئے رجحانات ،ادبی مباحث اورنئی تخلیقات کو اولیت کے ساتھ شائع کرتے تھے۔ رسالہ ’ہمایوں‘ میں انگریزی نظموں کے منظوم تراجم شائع ہوئے۔ ستمبر 1927میں ہمایو ںکے شمارے میں ٹامس مور کی ایک نظم کا منظوم ترجمہ منصور احمد کا شائع ہوا۔

رفعت گردوں سے صبح/ آئی لرزتی ہوئی/ اور بکھرتی ہوئی/ نہر کی ہر موج کے/ جیسے محبت سے چور/ عشق کے جذبات سے/ کوئی نگہ ڈال دے/ ہوتی ہے یوں ابتدا/ ہے یہ محبت کی صبح/ کرگیا طے آفتاب                                                   (محبت کا دن)

بیسویں صدی کے نصف اوّل پر نظر ڈالیں تو انگریزی نظموں کے منظوم تراجم کا قابلِ قدر ذخیرہ نظر آتا ہے۔ بزرگ اور نئے ادیبوں اور شاعروں نے انگریزی نظموں کے ترجمے کیے۔ ڈاکٹر خلیل الرحمن اعظمی نے رسالہ ’سوغات‘ جدید نظم نمبر میں اپنے مضمون ’اردو کا نیا رنگ و آہنگ‘ میں انگریزی شاعری کے منظوم تراجم کی ایک فہرست دی ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اہل قلم حضرات بڑی تعداد میں انگریزی نظموں کے تراجم کی طرف متوجہ ہوئے      ؎

محمد حسین آزاد

اندھی پھول والی کا گیت

(لارڈ لٹن)

""

بہار کا آخری پھول

(ٹامس مور)

""

اجڑا ہوا گھر

(انگریزی سے)

ظفر علی خاں

ندی کا راگ

(ٹینی سن)

""

وفا

(ورڈس ورتھ)

عزیز لکھنوی

مئی کا جوان چاند

(ٹامس مور)

غلام بھیک نیرنگ

تربت جاناں

(انگریزی سے)

""

مقصد الفت

(انگریزی سے)

""

عالم پیری اور یاد ایام

(انگریزی سے)

""

انجام محبت

(انگریزی سے)

""

جان شیریں

(انگریزی سے)

نادر کاکوروی

مرحومہ کی یاد میں

(ٹامس مور)

""

گزرے زمانے کی یاد

(ٹامس مور)

سرور جہان آبادی

کلیجے کا داغ

(انگریزی سے)

""

میرا ساغر آسمان ہے

(انگریزی سے)

""

مرغابی

(انگریزی سے)

""

سال گذشتہ

(ٹینی سن)

""

موسم گرما کا آخری گلاب

(ٹامس مور)

حسرت موہانی

موسم بہار کا آخری پھول

(ٹامس مور)

""

ترانۂ محبت

(انگریزی سے)

احسن لکھنوی

اجڑا ہوا گھر

(انگریزی سے)

""

اندھی پھول والی کا گیت

(لارلڈ لٹن)

سید محمد کاظم حبیب کنتوری

گمنام نامور

(گرے کی  ایلجی کے بعض حصوں کا حصہ)

ضامن کنتوری

اینک آرڈن

(ٹینی سن)

ضامن کنتوری

بگل کی صدا

(ٹینی سن)

حافظ محمود خاں شیرانی

موت کا وقت

(انگریزی سے)

محمد عبدالعزیز شوق

کوہ قاف کی پری

(انگریزی سے)

""

مایوس

(انگریزی سے)

سیف الدین شباب

سوز بیوگی

(سروجنی نائیڈو)

""

تقدیر

(سروجنی نائیڈو)

""

موت اور زندگی

(سروجنی نائیڈو)

""

تالاب حسین ساگر

(سروجنی نائیڈو)

""

نغمۂ محبت

(سروجنی نائیڈو)

علی الدین عجز بدایونی

زندگی

(لانگ فیلو)

سید حیدر علی زیدی

میرا پیاراداہنا ہاتھ

(سی۔ میکے)

""

حب وطن

(سروالٹر اسکاٹ)

محمد صادق علی خاں (کشمیری)

خواب ناز

(لانگ فیلو)

""

تیر اور گیت

(لانگ فیلو)

غلام محمد طور بی۔ اے

فلسفۂ محبت

(شیلی)

""

کوئل

(ورڈس ورتھ)

""

نوحۂ غم

(آسٹن ڈابسن)

محی الدین صدیقی نجیب آبادی

ہمت اوست

(کاؤپر)

""

الفت مادری

(ٹینی سن)

محمد شہاب الدین خاں

قریۂ ویراں

(گولڈ اسمتھ)

میر نذیر حسین انبالوی

چاند

(کیٹس)

""

ایذائے حیوانات

(کاؤپر)

پیارے لال شاکر میرٹھی

باپ کی نصیحت

(انگریزی سے)

آصف (از لندن)

نوحہ

(بائرن)

تلوک چند محروم

موت کا موسم

(انگریزی سے)

""

نغمات

(شیکسپیئر)

شیدا (از کیمبرج)

نظم

(ٹینی سن)

طالب بنارسی

وداع روح

(سر والٹر ریلے)

محمد اسمٰعیل بی۔اے (آرہ)

سرجان مور کا جنازہ

(ٹینی سن)

محمد شفیع بیرسٹر ایٹ لا

محبت

(انگریزی سے)

ولی الحق (اسلام پوری)

دو رنگیِ زمانہ

(انگریزی سے)

اظہر علی آزاد کاکوروی

نغمات شیکسپیئر

(شیکسپیئر)

سید امیر حیدر بخت

محنت

(انگریزی سے)

بزمی دہلوی

پیلس کی نصیحت

(ٹینی سن)

سید تصوف حسین واصف

ماں کی تصویر

(کاؤپر)

اوج گیاوی

قناعت

(انگریزی سے)

""

کتاب

(انگریزی سے)

ان ترجمہ نگاروں کے علاوہ بھی دوسرے لوگوں نے انگریزی نظموں کے منظوم ترجمے کیے۔ اردو نظم میں ہیئت و اسلوب اور موضوعات کے اعتبار سے  ان تراجم نے غیرمعمولی اثر ڈالا۔ حالی اور آزاد کی فکر میں تبدیلی انگریزی نظموں کے ذریعے واقع ہوئی تھی۔ ان نظموں کو دیکھ کر انھیں یہ خیال آیا کہ اردو نظم میں بھی اس طرز کی نظم نگاری کو فروغ دیا جائے۔ اب جب کہ انگریزی نظموں کے منظوم ترجمے کا رجحان بڑھا، شعرا نے اس طرز پر نظمیں تخلیق کرنے کی طرف توجہ بھی مرکوز کی ،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اردو نظم میں فکری اور فنی طور پر تبدیلی واقع ہوئی۔ ان ترجمہ نگاروں نے اس طرز کی نظمیں بھی تخلیق کیں۔ ان حضرات کی کوششوں سے اس عہد کے ادبی  رسائل میں بحث کا دور شروع ہوا۔ اردو نظم میں انگریزی نظموں سے استفادے اور نظم معریٰ کے حوالے سے مضامین شائع ہوئے۔ رسالہ فصیح الملک مارچ  1909 میںمخدوم عالم اثر مارہروی کا ایک مضمون بعنوان ’نظم‘ شائع ہوا۔ اس مضمون میں انھوں نے اردو شاعری میں وسعت پیدا کرنے کی تلقین کی۔ انھوں نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ مغربی خیالات سے اردو شاعری کوبہت فائدہ پہنچا۔ وہ لکھتے ہیں

’’اردو ادب کی توسیع میں جان توڑ کوشش کرنی چاہیے۔ خصوصاً موجودہ زمانے میں جب کہ اردو پر مغربی خیالات سونے میں سوہاگے کا کام دے رہے ہیں۔ یہ خیال کہ اردو میں دوسری زبانوں کی بحروں کی گنجائش نہیں یا وہ بحریں نامانوس اور اجنبی  ہیں پست ہمتی ہے۔ مانوسیت تو مزاولت اور رواج سے پیدا ہوتی جاتی ہے۔ ان کے علاوہ جن اوزان میں بلندی کے دوہے اور نظمیں ا ور انگریزی کی پوئٹریاں ہیں ان سے بھی اردو کو حصہ ملنا چاہیے۔ ہمارا فرض ہے کہ پرانی خانقاہ سے نکلیں اور اردو کی ترقی کے لیے نئے سامان بہم پہنچائیں۔ پرانی سڑکوں کے ساتھ نئی نئی راہیں نکالیں، نئے نئے میدانوں کو سر کریں۔‘‘18؎

رسالہ فصیح الملک میں اردو شاعری میں وسعت پیدا کرنے کے لیے انگریزی شاعری کے ساتھ دوسری زبانوں سے استفادے کی طرف بھی توجہ دلانے کی کوشش کی گئی۔  اس طرح کے مضامین کو اولیت کے ساتھ جگہ دی گئی جن میں اردو شاعری کے حوالے سے فکرانگیز بحث کی گئی تھی۔ اپریل 1909 میں فصیح الملک میں دلگیر اکبرآبادی کا ایک مضمون ’ہماری شاعری کے لیے نیا میدان ‘ شائع ہوا جس میں انھوں نے قافیے کی پابندی سے فکر و خیال کے اظہار میں آنے والی رکاوٹ کی طرف اشارہ کیا اور انگریزی شاعری میں رائج معریٰ نظم میں آزادانہ طور پر خیالات کے اظہار کی طرف توجہ دلائی۔ وہ لکھتے ہیں

’’انگریزی میں ایک خاص قسم کی نظم ہے جسے بلینک ورس کہتے ہیں۔ اس کا صحیح و فصیح ترجمہ نظم معریٰ کیا جاسکتا ہے۔ اس نظم میں قافیے وغیرہ کی قید نہیں رکھی گئی ہے کیونکہ قافیے کی قید دراصل کلام کو محدود اور طبع آزمائی کے میدان کو نہایت ہی تنگ کردیتی ہے اور خیالات کا اظہار وسعت یا آزادی سے نہیں کرنے دیتی۔ اس مجبوری و دقت کو پیش نظر رکھ کر انگریزی میں بلینک ورس ایجاد کی گئی ہے اور یہی وہ نظم ہے جس نے ہومر، شیکسپیئر، ورجل، ملٹن اور ٹینی سن کے سر پر بقائے دوام کا سہرا باندھا اور یورپ کے علمی دربار میں سب سے ممتاز جگہ دی۔‘‘19؎

انگریزی نظموں کے منظوم تراجم کے نمونے سامنے آئے تو شاعروںنے اس طرز کی نظم نگاری کی طرف قدم بڑھایا۔انگریزی شاعری میں اظہار کے نئے پیمانے بہت جاذب نظر آئے ۔رسالہ ’ہمایوں‘ جنوری 1923 کے شمارے میں مولانا تاجو رنجیب آبادی کا معرکۃ الآرا مضمون ’اردو شاعری اور بلینک ورس‘ شائع ہوا۔ انھوں نے اس مضمون میں بلینک ورس کی خوبیوں کا ذکر کیا ہے اور قافیے کی پابندیوں کے تعصبات کو اس طرح بیان کیا ہے

’’اردو شاعر جانتے ہیں کہ انھیں قافیہ آرائی میں خون اور پسینہ ایک کرنا پڑتا ہے۔ قافیہ کی غیرمحدود غیرضروری شرطوں کی وجہ سے اکثر اوقات بہتر سے بہتر خیال اور دلکش سے دل کش جذبے کو اپنے حوصلے کے ساتھ صرف اس لیے دفن کردینا پڑتا ہے کہ جبر کا قافیہ صبر آتا ہے مگر صبر کا لفظ شاعر کے خیال کو ادا نہیں کرتا۔ یہ غیرضروری پابندیاں اردو شاعری کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا رہی ہیں۔ بہت سی خیال آفریں طبیعتیں ان قیود سے گھبرا کر حوصلہ ہار چکی ہیں۔ اردو نظم کا خزانہ علوم و فنون کے نئے جواہرات کے بجائے زلف و خال کے خزف ریزوں سے پر ہورہا ہے۔ ہندوستان کا تعلیم یافتہ طبقہ زندہ زبانوں کی ترقی یافتہ اور گراں بہا شاعری کو دیکھ کر اپنا مذاق بدل چکا  ہے اور اردو نظم کو اپنے ذوق کے مطابق نہ پاکر اردو شاعری اور اردو زبان سے مایوس ہورہا ہے۔‘‘20؎

 بلا شبہ اردو نظم میں تراجم کی جو کوششیں 1857 کے بعد شروع ہوئیں اس سے اردو نظم کے موضوعات، ہیئت و اسلوب میں تبدیلی بھی واقع ہوئی۔ اردو شاعری میں ہیئت کے تجربے کا بھی رجحان پیدا ہوا۔ انگریزی نظموں کے تراجم کے واضح اثرات اردو نظم پر دیکھے جاسکتے ہیں۔ معریٰ نظم، آزاد نظم کا مغربی نظموں کے زیراثر فروغ حاصل ہوا۔ جدید نظم میں مغربی نظموں کے تراجم سے فکری اور فنی دونوں سطح پر تبدیلی واقع ہوئی۔

حواشی

  1.      نظم آزاد: محمد حسین آزاد، لاہور، 1926، ص 10
  2.      ایضاً، ص 11-12     .3     ایضاً، ص 19-20
  3.      آزاد معاصرین کی نظر میں: ڈاکٹر محمد صادق بحوالہ محمد حسین آزاد، جلد (اوّل)، ڈاکٹر اسلم فرخی انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی 1965، ص 236-237               
  4.      ایضاً، ص 236        .6     ایضاً، ص 238       
  5.      نظم آزاد: محمد حسین آزاد، لاہور، 1926، ص 26-27
  6.      ایضاً، ص 28
  7.      مقالات حالی: حصہ اوّل، انجمن ترقی اردو ہند، حیدر آباد دکن،1934، ص 267
  8.    مقدمہ مسدس حالی، ایجوکیشنل بک ہاؤس، دہلی 2004، ص 3-4  
  9.    بحوالہ محمد حسین آزاد جلد اوّل: ڈاکٹر اسلم فرخی، کراچی، 1965، ص  280-283       
  10.    لکچروں کا مجموعہ جلد اوّل، مرتب: مولوی بشیر الدین احمد، مفید عام، اسٹیم پریس، آگرہ، 1918، ص 59-60
  11.    لکچروں کا مجموعہ جلد دوم، مرتب: مولوی بشیر الدین احمد، مفید عام، اسٹیم پریس، آگرہ، 1918، ص 314
  12.     بحوالہ سوغات (جدید نظم نمبر)  بنگلور، 1961ص 129
  13.     مخزن،  اپریل1901ص2
  14.      مخزن،         اپریل1901ص 36
  15.     مخزن   اپریل1904ص2
  16.     بحوالہ سوغات (جدید نظم نمبر)  بنگلور، 1961ص 144
  17.     بحوالہ سوغات (جدید نظم نمبر)  بنگلور، 1961ص 144
  18.      بحوالہ سوغات (جدید نظم نمبر)  بنگلور، 1961ص 147

 

Dr. Shah Alam

Associate Professor, Dept.of Urdu

Jamia Millia Islamia

New Delhi- 110025

Mob.: 9868669498

Email.: salamzhc@gmail.com

 

 

 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں