16/5/23

اردو میں خاکہ نگاری:منور حسن کمال


تلخیص

خاکہ نگاری ایک ایسی صنف ہے جس میں ایک ایسی شخصیت کے نقوش ابھارے جاتے ہیں جس سے لکھنے والے کی ملاقات خلوت یا جلوت میں ہوئی ہو۔ یہ صنف مختصر افسانے کے قریب ہے۔ اردو میں اس صنف کو مرزا فرحت اللہ بیگ، محمد حسین آزاد، مولوی عبدالحق، رشید احمد صدیقی، شوکت تھانوی، مرزا محمود بیگ، شورش کاشمیری، خواجہ حسن نظامی، محمد طفیل اور دیگر افراد نے فروغ دیا۔ اس کے علاوہ خاکہ نگاری میں بہت سے اہم نام بھی ہیں جنھوں نے خاکے میں نئے نئے تجربے بھی کیے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے توخاکے میں ایک اچھوتا اندازِ بیاں ہوتا  ہے اور منفرد اسلوب نگارش جس کی وجہ سے  خاکے سے قارئین کی دلچسپی قائم رہتی ہے۔

کلیدی الفاظ

خاکہ، شخصیت کی تصویر، کردار، کردار ی خاکے، سوانحی خاکے، طنزیہ خاکے، مزاحیہ خاکے، شخصیت نگاری، مرزا فرحت اللہ بیگ،مولوی نذیر احمد کی کہانی، کچھ ان کی کچھ میری زبانی، آبِ حیات ، چند ہمعصر، گنجہائے گرانمایہ، شیش محل، چہرے، چند عجیب ہستیاں

————

انیسویں صدی کی نصف دہائی کے بعد جو اردو زبان و ادب پروان چڑھا، اس پر انگریزی ادب کے اثرات مرتسم ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ اسی لیے ممکن نہیں تھا کہ اردو خاکہ نگاری انگریزی کے اثرات سے اچھوتی رہتی۔ اردو میں خاکہ نگاری نے بھی اس کے اثرات قبول کیے۔ اگرچہ انگریزی میں یہی خاکہ نگاری یونانی ادبیات سے بڑی حد تک متاثر رہی۔ یونانی ادبیات میں افلاطون کے یہاں کئی شخصیتوںکے کرداروں کے خاکوں کی بڑی واضح جھلک ملتی ہے۔ افلاطون نے اپنے شاگردوں کو بھی اس کی ترغیب دی، جن میں ارسطو اور تھیوفراس توس (Theophrastus) خصوصیت سے قابل ذکر ہیں۔ تھیوفراس توس کے کریکٹر کو خاکہ نگاری میںبڑی اہمیت حاصل ہے۔ کیریکٹرز (Characters) کے معنی یونانی زبان میں مختلف چیزوں کو کندہ کرنے یا مہر لگانے کے ہیں۔ انگریزی میں خاکہ کے ابتدائی نمونے چاسر کی مشہور تصنیف The Canterbury Tales میں ملتے ہیں۔ چاسر نے اپنے ذاتی مشاہدات کی بنا پر ڈاکٹر، پادری، طالب علم، ملاح، نوکر، خانساماں اور کسان ہر ایک کو اپنے خاکوں کا موضوع بنایا ہے اور عموماً زندگی کے مضحکہ خیز پہلوؤں کو پیش نظر رکھا ہے۔ ان کے کردار زندگی سے بہت قریب اور ہمیشہ متحرک نظر آتے ہیں۔

انگریزی ادب کے سنہری دور یعنی آگسٹن عہد میں ٹیٹلر  (Tatler 1709-1711) اور اسپیکٹیٹر (Spectator : 1711-1712) کی اشاعت نے کرداری خاکوں کو بے حد مقبول بنایا۔ اس دور میں رسالوں میں خاکے اور سماجی مضامین خاص سماجی اصلاح کے مقصد سے لکھے جاتے تھے۔ ایڈیسن (Joseph Addison 1672-1729) نے اسپیکیٹر کے پہلے شمارے میں لکھا ہے

’’میں اس دنیا میں ایک بشر کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک ناظر کی حیثیت سے زندگی بسر کرتا ہوں۔‘‘

اس کی نظروں نے جو کچھ بھی دیکھا اس نے اسے لفظوں کا جامہ پہنا دیا ہے، اس کے تخلیق کردہ کرداروں میں سر راجر ڈی کوورلی (Sir Roger de Coverley) بہت دلچسپ ہے۔ اس کے کردار کا خاکہ اسٹیل (Steel 1672-1729) نے تیار کیا، اس کی شخصیت، شرافت اور زندہ دلی کا نمونہ تھی۔ اس کردار میں ٹوری پارٹی (Tory Party) کی بداعمالیاں مجسم ہوگئی ہیں۔

انگریزی ادب سے شغف رکھنے والوں کے لیے جانسن کا نام نیا نہیں۔ وہ بیک وقت کئی فنون کا ماہر تھا۔ اس کی تصانیف کی تعداد یوں تو کثیر ہے، لیکن صنف خاکہ نگاری میں جو تخلیقی سرمایہ اس نے چھوڑا ہے، وہ 'Life of the Poets' کے نام سے 1777 میں شائع ہوا۔ اس میں جانسن نے شعرا کی مختصر سوانح حیات لکھی اور شخصی مرقعوں کے انداز میں لکھی اور خاکے کو مضمون نگاری کی ایک ایسی قسم سے تعبیر کیا جاتا ہے، جس میں خصو صیت کے ساتھ ان نقوش کو اجاگر کیا جاتا ہے، جن کے امتزاج سے کردار کی تشکیل ہوتی ہے، اس میں کسی شخص کی مکمل داستان نہیں رقم کی جاتی بلکہ اس میں اس کی نمایاں خصوصیات کی عکاسی کی جاتی ہے۔ اردو ادب میں خاکہ نگاری کی تعریف کرتے ہوئے صابرہ سعید نے لکھا ہے

ایک مستقل صنف ادب کی حیثیت سے اردو میں خاکہ نگاری کا رواج انگریزی ادب کے زیراثر ہوا۔‘‘ 1؎

پروفیسر نثار احمد فاروقی نے ’دید و دریافت‘ میں لکھا ہے کہ خاکہ دراصل شخصیت کی عکاسی کا نام ہے اور اچھا خاکہ دراصل کسی شخصیت کا معروضی مطالعہ ہے۔ اچھا خاکہ وہی ہے جس میں کسی انسان کے کردار اور افکار دونوں کی جھلک ہو۔ خاکہ پڑھنے کے بعد اس کی صورت، اس کی سیرت، اس کا مزاج، اس کے ذہن کی افتاد، اس کا زاویہ فکر، اس کی خوبیاں اور خامیاں سب نظروں کے سامنے آجائیں۔ 2؎

ڈاکٹر سید محمد حسنین کے مطابق خاکہ صفحۂ قرطاس پر نوکِ قلم سے بنائی ہوئی ایک شبیہ ہے، یہ شبیہ بے جان، ساکت یا گم صم نہیں ہوتی۔ یہ بولتی ہوئی ایک متحرک پرکیف تصویر ہوتی ہے۔ 3؎

شمیم کرہانی کے نزدیک خاکہ نگاری ادب کی ایک ایسی صنف ہے، جس میں شخصیت کی تصویر اس طرح کھینچی جاتی ہے کہ اس کے ظاہر و باطن دونوں قاری کے ذہن نشیں ہوجاتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے پڑھنے والے نے نہ صرف قلمی چہرہ دیکھا ہے، بلکہ خود شخصیت کو بھی دیکھا بھالا اور سمجھا بوجھا ہے۔ 4؎

ڈاکٹر خلیق انجم نے عبدالحق کی خاکہ نگاری پر گفتگو کرتے ہوئے یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ خاکہ نگاری کا فن بہت مشکل اور کٹھن فن ہے۔ اسے اگر نثرمیں غزل کا فن کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، جس طرح غزل میں محدود الفاظ میں بڑے مطالب ادا کرنے پڑتے ہیں، ٹھیک اسی طرح خاکہ میں بھی مختصر الفاظ میںپوری شخصیت پر روشنی ڈالنی پڑتی ہے۔ 5؎

خاکہ نگاری کا باضابطہ آغاز ڈاکٹر حامد حسن نے محمد حسین آزاد سے قرار دیا ہے۔ وہ خاکہ سے متعلق  اپنی گفتگو میں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ خاکہ صرف فرد کے چہرے سے نقاب اٹھاتا ہے، فرد کی ذات یا سیرت کو بے نقاب نہیں کرتا کیونکہ خاکہ نگاری کا کام صرف صورت گری ہے۔ یوں تو اردو شعرا کے تذکروں اور قدیم داستانوں میں خاکہ کے ابتدائی نقوش ملتے ہیں لیکن خاکہ کی باضابطہ ابتدا محمدحسین آزاد سے ہوتی ہے۔6؎

بہترین خاکہ وہی کہلاتا ہے، جس میں تصویر گم صم نہ ہو، بلکہ بولتی اور چلتی پھرتی نظر آئے اور اپنی قوت گویائی کا بھی مظاہرہ کرے۔ تخلیق کو ان اوصاف سے متصف کرنے کے لیے خاکہ نگار کو جہاں الفاظ کے ذریعے زور پیدا کرنا پڑتا ہے، وہیں تشبیہات، استعارات اور اسی طرح کی دوسری صنعتوں سے اپنی تخلیق کو آراستہ کرکے اس میں فنکارانہ رنگ آمیزی کرنی پڑتی ہے۔ خاکہ کے عناصر ترکیبی میں کردار کو اجاگر کرنا بھی ضروری قرار دیا گیا ہے۔

انگریزی دانشور سرتھامس اووربری (Sir Thomas Overbury 1581-1613) جو ایک معروف خاکہ نگار تھے، وہ خاکہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں

’’خاکہ ایک تصویر ہے، ’حقیقی یا شخصی‘ جسے مختلف رنگوں میں اتارا جاتا ہے اور یہ سب رنگ ایک سایہ یا عکس سے جگمگا اٹھتے ہیں۔‘‘

’’خاکہ انگریزی اصطلاح اسکیچ (Sketch) کا متبادل ہے۔ لفظی مفہوم میں خاکہ کسی موضوع کے ابتدائی نقوش کو کہیں گے، جس کی بنیاد پر کسی شے کی مکمل بت گری ہو، لیکن ادب اور فن میں یہ اصطلاح مختلف مفہوم رکھتی ہے۔ خاکہ کی اصطلاح مصوری میں بھی رائج ہے۔ مصور اگر کسی شخص کی مکمل اور بعینہٖ تصویر پیش کرے تو اسے پوٹریٹ کہیں گے۔ اس کے برخلاف مصور اگر چند آڑے ترچھے خطوط کی مدد سے اس شخص کے خد و خال کی جھلک دکھا دے تو وہ اسکیچ کہلائے گا۔ ادب میں یہ فرق سوانح اور خاکہ میں پایا جاتا ہے۔‘‘7؎

معروف نقاد اور محقق جمیل جالبی نے خاکہ نگاری کے وصف کو اس طرح اجاگر کیا ہے کہ پوری بات نہایت مدلل انداز میں سامنے آگئی ہے اور خاکہ کی ایک مکمل توضیح بھی۔ جمیل جالبی کے مطابق

’’اردو ادب میں خاکہ مختصر افسانہ کی طرح ایک نئی صنف ہے۔ اس سے پہلے ہمیں طویل سوانح عمریاں تو ملتی ہیں، لیکن ان کی حیثیت عام طور پر ادبی کم اور تاریخی زیادہ ہے۔ خاکہ ایک ایسی صنف ادب قرار پائی ہے، جس میں کسی ایسے انسان کے خد و خال پیش کیے جائیں، کسی ایسی شخصیت کے نقوش ابھارے جائیں، جس سے لکھنے والا خلوت اور جلوت میں ملا ہو۔ اس کی عظمتوں اور لغزشوں سے واقف ہو۔ اور تمام تاثرات کو ایسے شگفتہ انداز میں پیش کرے کہ پڑھنے والا بھی اس شخصیت کی عظمت سے واقف ہوکر اسے ایک کردار کے طور پر قبول کرے جو ان کے تمام افسانوں سے ذرا مختلف ہو، جن سے ہم اور آپ اپنی اپنی زندگیوں میں دوچار ہوئے ہیں۔ خاکہ نگاری میں قوت مشاہدہ ماضی کے واقعات کو یاد کرکے پیش کرنے کا ڈھنگ اور ان سب واقعات کو اپنے زاویۂ نظر کی لڑی میں پرو کر خوب صورت ہار یا گلدستہ بنانے کا سلیقہ خاص اہمیت رکھتے ہیں۔ اس طرح خاکہ نگاری سیرت نگاری سے بالکل ایک الگ صنفِ ادب بن جاتی ہے۔ دراصل خاکہ نگاری مختصر افسانہ سے بہت قریب ہے۔‘‘8؎

ڈاکٹر صابرہ سعید نے اپنی کتاب ’اردو ادب میں خاکہ نگاری‘ میں خاکہ کی اقسام کا ذکر کیا ہے۔ مثلاً تعارفی خاکے، سرسری خاکے، تاثراتی خاکے، توصیفی خاکے، بیانیہ اور سنجیدہ خاکے، کرداری خاکے، سوانحی خاکے، معلوماتی خاکے، اجتماعی خاکے، مزاحیہ خاکے اور طنزیہ خاکے۔ ان کی تعریف کرتے ہوئے انھوں نے شوکت تھانوی کی کتاب ’شیش محل‘ ضیاء الدین برنی کی ’عظمت رفتہ‘، رئیس احمد جعفری کی ’دید و شنید‘ محمد طفیل کے نقوش کے ’شخصیات نمبر‘، شورش کاشمیری کی ’چہرے‘ رشید احمد صدیقی کی ’ہم نفسان رفتہ‘،  ’خنداں‘، اور فرحت اللہ بیگ، شاہد احمد دہلوی، عبدالماجددریابادی، قاضی عبدالغفار اور عبدالماجد سالک کے مختلف ہیئتوں میں لکھے گئے خاکوں سے تمثیلیں بھی پیش کی ہیں اور یہ بتایا ہے کہ اگر خاکہ نگار واقعات کے انتخاب اور استعمال میں توازن اور اعتدال کو ملحوظ رکھے اور ان سے شخصیت نگاری میں مدد لے تو خاکہ میں افسانے کی خصوصیت پیدا ہوجاتی ہے۔ 9؎

اس کے بعد کے دور میں 1927 میں مرزا ’فرحت اللہ بیگ نے ’مولوی نذیر احمد کی کہانی ،کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘ لکھی، وہ ان کے استاد تھے۔ اگر وہ چاہتے تو مکمل سوانح بھی ترتیب دے سکتے تھے، اس لیے کہ ان کے پاس اپنے استاد سے متعلق مکمل معلومات موجود تھیں، لیکن انھوں نے خاکہ لکھنے پر ہی اکتفا کیا۔ اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوا کہ اردو زبان کو ایک اور بہترین خاکہ نگار مل گیا، ورنہ اگر وہ سوانح لکھتے تو وہ زیادہ سے زیادہ ایک تاریخی حقیقت ہوتی، لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ وہ بھی اپنی مثال آپ ہی ہوتی۔ اس لیے کہ اس وقت تک تاریخی سوانح کے بھی عمدہ نمونے خال خال ہی نظر آتے تھے۔ مرزا فرحت اللہ بیگ نے خاکہ میں کسی خاص تکنیک کو پیش نظر نہیں رکھا۔ اس لیے کہ ان کی تحریر میں زمانی تفاوت موجود  ہے۔ جیسے پہلے نذیر احمد کی عادات و اطوار کا تذکرہ ہے، پھر ان کے مکان کا نقشہ کھینچا ہے او رپھر ماضی کی طرف لوٹتے ہوئے پہلی ملاقات پر گفتگو شروع کردیتے ہیں، لیکن مرزا فرحت اللہ بیگ کی تحریر میں ایک توازن ہے، جسے انھوں نے حتی الامکان خاکہ کے دائرے میں رکھنے کی سعی کی ہے اور اس میں وہ کامیاب ہیں۔ اس کے علاوہ مرزا فرحت اللہ بیگ کی دوسری اہم کتاب ’دہلی کا یاد گار مشاعرہ‘ ہے۔ اس میں سماجیات کو موضوع بنایا گیا ہے، لیکن افراد پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ یہاں ناقدین نے ’آبِ حیات‘ کا پر تو محسوس کیا ہے۔ اس کی تمہید بڑی دلچسپ ہے۔ مرزا فرحت اللہ بیگ تمہید میںا س طرح رقم طراز ہیں

’’جو لوگ علمی مذاق رکھتے ہیں، وہ جانتے اور سمجھتے ہیں کہ کسی کا کلام پڑھتے وقت اگر اس کی شکل و صورت، حرکات و سکنات، آواز کی کیفیت،  نشست و برخاست کے طریقے، طبیعت کا رنگ اور سب سے زیادہ یہ کہ اس کے لباس اور وضع قطع کا خیال دل میں رہے تو اس کا کلام ایک خاص اثر پیدا کردیتا ہے اور پڑھنے کا لطف دوبالا ہوجاتا ہے، ورنہ مصنف کے حالات سے واقف ہوئے بغیر اس کی کسی کتاب کا پڑھ لینا گراموفون کے ریکارڈ سننے سے زیادہ موثر نہیں ہوتا۔‘‘10؎

اسی لیے مرزا فرحت اللہ بیگ نے اپنی ہنرمندی کو بروئے کار لاتے ہوئے چہرہ لکھا ہے، پھر لباس کی ذرا تفصیل بیان کی ہے اور تقریباً ہر شخص کے مکان کی پوری کیفیت کو پیش کیا ہے، ساتھ ہی اس کے کردار کی ہلکی سی جھلک بھی دکھا دی ہے۔ انھوں نے مومن خاں مومن کا تذکرہ بڑے والہانہ انداز میں کیا ہے۔ ان کا حسن وجمال، نفاست طبع، خوش لباسی، خوش خلقی، خوش الحانی، تبحر علمی اور ظرافت طبع پر بھی بڑے موثر انداز میں روشنی ڈالی ہے۔

ڈاکٹر سید عابد حسین کے آل انڈیا ریڈیو دہلی پر پڑھے گئے گیارہ مختصر خاکوں پر مشتمل کتاب ’کیا خوب آدمی تھا‘ ہے۔ انھوں نے اس کتاب کے آغاز میں انسانوں کی زندگیوں کو سمندر کی لہروں سے تعبیر کیا ہے جو تھوڑی دیر کے لیے سطح بحر سے ابھرتی ہیں اور پھر اسی میں مل جاتی ہیں۔ ایسی جاندار اور جاں بخش شخصیت ہر زمانے میں خصوصاً اس جمود کے دور میں عام لوگوں کے لیے دلکش بھی ہوتی ہے اور صبر آزما بھی۔ وہ اس کی طرف کچھ شک کی اور کچھ شکایت کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔11؎

اس کتاب میں جانسن نے ابراہیم کاؤلے (Ibrahim Cauley) سے لے کر اپنے زمانے تک کے شاعروں کا تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے۔ اس کے بعض مضامین شخصی مرقعے کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں۔  12؎

اس لحاظ سے اگر غور کیا جائے تو محمد حسین آزاد کی اس سلسلے کی اردو کی پہلی تصنیف ’آب حیات ‘ لکھی گئی، جس میں کلاسیکی شاعری کا جدید اندازمیں تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے شائع ہونے والے تذکروں میں آب حیات جیسا متوازن رویہ نہیں پایا جاتا تھا۔ اس میں جہاں افسانوی انداز ہے وہیں ادبی چاشنی اور تاثراتی نثر کے بہترین نمونے ملتے ہیں۔

آبِ حیات‘ سے پہلے کے جو تذکرے سامنے آتے ہیں، ان میں شخصیت پر کم اور ان کے کلام پر گفتگو زیادہ پائی جاتی ہے، جو خاکہ نگاری کے ضوابط پر پوری نہیں اترتی۔ اسی لیے ’آبِ حیات‘ کو خاکہ نگاری کی پہلی شعوری کوشش سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ محمد حسین آزاد کے مشاہدے میں یہ بات آچکی تھی کہ قدیم تذکروں سے نہ کسی شاعر کی زندگی کی سرگزشت معلوم ہوتی ہے اور نہ اس کی طبیعت، عادات اور اطوار کا پتہ چلتا ہے، اسی لیے انھوں نے آب حیات کے دیباچے میںا س کی وضاحت کی ضرورت محسوس کی۔ لکھتے ہیں

’’خیالات مذکورہ بالا نے مجھ پر واجب کیا کہ جو حالات ان بزرگوں کے معلوم ہیں، یا مختلف تذکروں میں مذکور ہیں، انھیں جمع کرکے ایک جگہ لکھوں... اور جہاں تک ممکن ہو، اس طرح لکھوں کہ ان کی زندگی کی بولتی چالتی، پھرتی چلتی تصویریں سامنے کھڑی ہوں اور انھیں حیات جاوداں حاصل ہو۔‘‘13؎

محمد حسین آزاد نے ’آبِ حیات‘ کے صفحات پر اسلوب کے حسن و جمال اور الفاظ کے برمحل استعمال سے ایسا جادو جگایا ہے کہ شاعر اپنے پورے جسم و روح کے ساتھ بولتے چالتے، چلتے پھرتے اور ایک انسان کی طرح نظر آتے ہیں۔ انھوں نے شاعر کی عادتیں، خصلتیں اور میلانِ طبع پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ مثلاً میر ضاحک پر گفتگو کرتے ہوئے وہ اس انداز سے اپنے مخاطب کو جواب دیتے ہیں کہ اس وقت بھی لوگ اسے دیکھ کر چونکتے تھے، میر سوزکاتذکرہ ہو تو کہتے ہیں کہ اس کی عادتوں پر آج ہم ہنستے ہیں تو اس وقت بھی وہ طرفہ معجون سمجھے جاتے تھے۔ ناقدین کی یہ بھی رائے  ہے کہ محمد حسین آزاد نے شاعروں کو چلایا پھرایا تو خوب ہے، لیکن ان کی باقی کیفیت کو سمجھنے اور ان کی نفسی پیچیدگیوں کو سلجھانے کی سمت میں قرار واقعی توجہ نہیں دی۔ پھر اگر کہیں توجہ بھی نظر آتی ہے تو اس پر ان کی خود کی کیفیتوں کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ بعض مبصرین کی رائے یہ ہے کہ آزاد نے میر، مصحفی اور غالب سے زیادتی کی ہے، لیکن اپنے استاد کے علاوہ سودا، انشا اور جرأت پر خاص نظر کرم نظر آتی ہے۔ دراصل خاکہ میں کسی شخصیت کو جیسی ہوتی ہے، ویسا پیش کرنا ہی خاکہ کے ساتھ انصاف کہلاتا ہے اور اگر ایسا نہیں کیا گیا ہے تو یہ نہ صرف تاریخی بلکہ ناقدانہ دیانت کے بھی منافی قرار پائے گا۔ محمد حسین آزاد نے ہر شاعر کا حلیہ، عادات و اطوار، خیالات و نظریات اور خوبیوں اور خامیوں کو صفحۂ قرطاس پر اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ شخصیت اپنے پورے لب و لہجے، آداب و اطوار اور طرز زندگی کے ساتھ سامنے آکھڑی ہوتی ہے۔ اسی لیے ’آبِ حیات‘ کو خاکوں کا اولین نقش کہا گیا ہے۔

سیدمحمد تقی نے آبِ حیات پر گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے

’’محمد حسین آزاد کے اس کارنامے کو جو 1880 کی پیداوار ہے، اردو ادب میں وہی حیثیت حاصل ہے جو دانتے کی ڈیوائن کامیڈی (Divine Comedy) کو ہے، ہومر کی دی ایلیڈاینڈ دی اوڈیسی (The Illiad & The Odyssey) اور فردوسی کے شاہنامے کو حاصل ہے۔ دانتے کی ڈیوائن کامیڈی نے قرون وسطیٰ کے دم توڑتے ہوئے تمدن کو بچانے کی کوشش کی۔ ایلیڈ اینڈ اوڈیسی کے ذریعے ہومر نے یونان کے قدیم قبائلی کلچر کو نیست و نابود ہونے سے بچا لیا۔ فردوسی کے شاہنامے نے قریب الختم ساسانی کلچر کو تحریر کے ذریعے سے زندگی عطا کرنے کی کامیاب سعی کی اور آزاد نے اس شہ پارے کے ذریعے نہ صرف شمالی ہند کے تمدنی اور تہذیبی ورثے کو بچالیا، بلکہ آبِ حیات کے چھینٹے دے کر مشاہیر سلف کو زندہ کرنے اور انھیں بقائے دوام بخشنے کی کوشش کی۔‘‘

ایک اور جگہ لکھتے ہیں

’’آبِ حیات کی بے پناہ مقبولیت کا راز اس میں نہیں ہے کہ اس کے صفحات میںاردو شاعری کے عہد بہ عہد ارتقا کی روداد ہے، بلکہ اس کے صفحات میں اردو شعرا کی سیرت، ان کے اطوار، مشاغل اور کشاکش حیات کے جیتے جاگتے مرقعے ملتے ہیں۔‘‘ 14؎

شعرا ئے اردو کے تذکروں میں بھی اس کی جھلکیاں نظر آتی ہیں جیسے میر کی ’نکات الشعرا‘، مصحفی کے ’تذکرۂ ہندی‘، شیفتہ کے ’گلشن بے خار‘، قدرت اللہ قاسم کے ’مجموعۂ نغز‘ اور سعادت یار خاں کے ’خوش معرکۂ زیبا‘ میں دیکھی جاسکتی ہے۔

بیسویں صدی میں سوانح اور شخصیت نگاری میں ایک نیا موڑ پیدا ہوا۔ 1918 میں لائٹن اسٹریچی (Lytton Strachey) کے سوانحی خاکوں کا مجموعہ اِمی نِنٹ وکٹورین (Eminent Victorian) شائع ہوا، اسٹریچی نے سوانح نگاری کے مقررہ اصولوں سے انحراف کیا، اس نے وکٹوریائی عہد کے رومانی اسلوب کو ترک کرکے ایک ایسا اسلوب اختیار کیا، جو سوانح کے لیے زیادہ موزوں تھا۔ بعد کے سوانح نگاروں نے بھی اس کا گہرا ا ثر قبول کیا۔15؎

مرزا فرحت اللہ بیگ نے ’مولوی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی اور کچھ میری زبانی‘ میں ڈپٹی نذیر احمد کے ان نقوش کو ابھارنے کی سعیِ بلیغ کی ہے، جن کی طرف نہ قارئین متوجہ ہوتے تھے اور نہ ناقدین۔ لیکن مرزا فرحت اللہ بیگ نے ان کا ایک جامع تصور پیش کیا۔  انھوں نے سوانح نگاری کا ایسا تصور پیش کیا، جس کو بہت جلد قبول عام حاصل ہوا۔ انھوں نے ممدوح کی نہ مکمل مداحی کی اور نہ خود کو زیادہ نمایاں کرنے کی کوشش ہی کی۔ خوبیوں اور خامیوں،  عادات و اطوار اور لباس کے ساتھ ساتھ چہرے کے نقوش کو بڑے دلچسپ اندازمیں ابھارا ہے۔ ’مولوی نذیراحمد کی کہانی، کچھ ان کی اور کچھ میری زبانی‘ میںا نھیں چند مسائل درپیش تھے، جس سے باہر نکلنے میں مولوی عبدالحق نے ان کی مدد کی۔ اپنی الجھن کا ذکر انھوں نے اس طرح کیا ہے

’’بہرحال یہ فطرت انسانی کا خیال تھا جس نے اب تک مجھے مولوی صاحب مرحوم کے حالات لکھنے سے روکا۔ بہت کچھ لکھ لیا تھا، وہ پھاڑ ڈالا کہ کہیں ’اُنیچن چھوڑ گھسیٹن‘ میں نہ پڑجاؤں۔ رہ رہ کر جوش آتا اور ٹھنڈا ہوجاتا۔ خدا بھلا کرے مولوی عبدالحق صاحب کا کہ انھوں نے اس اگر مگر سے نکالا اور دل کی باتوں کو حوالہ قلم کردینے پر آمادہ کیا۔‘‘16؎

مرزا فرحت اللہ بیگ نے ڈپٹی نذیرا حمد کی نہ صرف خوبیاں بیان کی ہیں، بلکہ خامیوں کا بھی تذکرہ کیا ہے، لیکن بڑے اعتدال اور توازن کے ساتھ، اسی لیے ’مولوی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی اور کچھ میری  زبانی‘ میں نہ ان کی مداحی نظر آتی ہے اور نہ کوری تنقیص۔ مرزا فرحت اللہ بیگ نے کتاب کے دیباچے میںا س کی وجہ تصنیف ڈپٹی نذیر احمد کی ظریفانہ طبیعت کوقرار دیا ہے، لیکن بعض ناقدین کی رائے ہے کہ مرزا واقعات و مکالمات کے ذریعے نذیر احمد کی شخصیت کے اس پہلو کو پوری طرح اجاگر نہیں کرسکے۔ ڈاکٹر سید عابد حسین نے اپنے خاکوں کے مجموعہ ’کیا خوب آدمی تھا‘ میں ڈپٹی نذیر احمد کو بھی شامل کیا ہے، لیکن اس میں وہ بات نہیںجس دلکش اور اندازِ تحریر سے مرزا فرحت اللہ بیگ نے اپنی کتاب کو سجایا ہے۔

مولوی عبدالحق کی اہم تصنیف ’چند ہم عصر‘ ایک بڑا تخلیقی کارنامہ ہے۔ اس کتاب میں 24 نامور شخصیتوں پر مضامین پیش کیے گئے ہیں۔ مولوی عبدالحق نے یہ خاکے کئی افراد کی موت پر لکھے ہیں۔ ان معاصرین کی موت سے انھوں نے جو خلا محسوس کیا اس کو صفحات کی زینت بنا کر پیش کیا۔ ان کی لفظی تصاویر بنا کر اس طرح پیش کیا کہ وہ جیتی جاگتی تصویر نظر آئے۔ ان کے کارناموں، خوبیوں اور خامیوں کو بھی پیش کرکے جہاں اپنی تسکین قلب کا سامان کیا، وہیں ان کی تصویروں کے ایسے مرقعے پیش کیے، جو ابھی تک نظروں سے اوجھل تھے۔

رشید احمد صدیقی اردو خاکہ نگاروں کے معماروں میں ایک معتبر نام ہے۔ ان کی کتابیں ’مضامین رشید‘، ’خنداں‘، ’گنج ہائے گراں مایہ‘، ’ذاکر صاحب‘ اور ’ہم نفسانِ رفتہ‘ اردو ادب میں ایک شاہکار کا درجہ رکھتی ہیں۔ نامور شخصیتوں کے ایسے واقعات  جو عموماً نظروں سے اوجھل ہوتے ہیں رشید احمد صدیقی نے ان کی جھلکیاں بڑے والہانہ انداز میں پیش کی ہیں۔ ’گنج ہائے گراں مایہ‘ سے متعلق مولانا عبدالماجد دریابادی کا انداز بھی بڑا دلچسپ ہے اور شوخ اور سوگوار بھی ہے۔ لکھتے ہیں

’’ظریف کے آنسو آنسو نہیں موتی کے دانے ہوتے ہیں۔  اردو کا یہ شوخ نگار آج سوگوار ہے۔ اپنے محبوبوں کے مزار پر عقیدت و محبت کے پھول ہاتھ میں لیے فاتحہ پڑھنے نکلا ہے۔ اس کا اداس چہرہ، اداس بشرہ، اس کا مسرت انگیز لہجہ سب قابل دید ہیں۔ محبوبوں کے نام سنیں گے، ان میں بعض تو یقینا آپ کے بھی محبوب ہوں گے، محمد علی، ڈاکٹر انصاری، مولانا سلیمان اشرف، مولانا ابوبکر، اصغر گونڈوی، اقبال، ایوب عباسی، احسن مارہروی۔ محمد علی اور انصاری کو تو ایک دنیا جانتی ہے، اصغر بھی کچھ ایسے گمنام نہیں۔ دونوں مولانا بھی علی گڑھ کے حلقے میں خوب مشہور ہیں۔ صرف ایک ایوب عباسی سے دنیا ناواقف تھی، اب واقف ہوجائے گی۔‘‘

اس بات سے سبھی ناقدین متفق ہیں کہ رشید احمد صدیقی کے یہاں فرد کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔ ان کے نزدیک ایک اچھے فرد کے بغیر اچھے سماج کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے یہاں شخصی وابستگی کا بھی بڑی حد تک خیال رکھا گیا ہے۔ رشید احمد صدیقی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ’’میرے نزدیک  فن کی قدریں اور انسان کی قدریں یکساں ہیں۔ ایسا کوئی فن نہیں جو انسان سے اونچا یا علیحدہ ہے۔‘‘

جدید اردو افسانہ اور جدیداردو ادب کے ساتھ ساتھ عصمت چغتائی کا نام اردو خاکہ نگاری کے طور پر بھی کسی حد تک معروف ہے۔ انھوں نے پہلا خاکہ اپنے بھائی عظیم بیگ چغتائی کی یاد میں ’دوزخی‘ لکھا ہے اور دوسرا خاکہ مجاز لکھنوی پر ہے۔ دوزخی اور مجاز دونوں خاکوں میں عصمت چغتائی نے اپنے موضوع کی خوبیوں اور خامیوں کو بغیر کسی تردد کے بیان کردیا ہے۔ انھوں نے ان دونوں شخصیات کی جو تصویر کشی کی ہے، وہ مکمل نظر آتی ہے اور ذہن پر ایک مجموعی تاثر چھوڑجاتی ہے۔ ان کا خاص طنزیہ انداز انشاپردازانہ اسلوب نمایاں نظر آتا ہے۔ انھوں نے جو بھی خاکے لکھے ہیں، ذاتی مراسم یا خلوص کے سبب لکھے ہیں۔ ان کے خاکوں میں محبت، ہمدردی اور شفقت کا عنصر نمایاں ہے۔

شوکت تھانوی کے خاکوں کو تحریر کا طلسم قرار دیا گیا ہے۔ ان کے یہاں مزاح اپنے پورے اسلوب کے ساتھ فروزاں ہے۔ شوکت تھانوی کہتے تھے کہ پطرس بخاری مجھ پر طاری ہوکر رہ گئے۔ پطرس سے متعلق ان کا خیال ہے کہ ’’ذہین کہنا پطرس کی توہین نہیں۔ البتہ مجھے یہ ڈر معلوم ہورہا ہے کہ ذہانت میں ان کے دماغ کی تمام کیفیت سما بھی سکتی ہے یا نہیں، کچھ سمجھ میں نہیںا ٓتا کہ اتنا بڑا دماغ ایک محدود سر میں کیوں کر آیا ہوگا۔ سناہے کہ انگریزی کے بہت بڑے ادیب تسلیم کیے جاتے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اردو کے کون سے چھوٹے ادیب ہیں۔ بہت کم لکھا ہے، مگر جو کچھ لکھا ہے وہ ترازو کے ایک پلہ میں اور دوسرے میں ادب اردو کے مزاح کی تمام کائنات، اس کائنات میں اکبر الہ ا ٓبادی شامل نہیں ہیں۔ ایمانداری سے تولیے، ڈنڈی نہ ماریے تو پطرس کا پلہ ہی بھاری نظر آئے گا۔‘‘

شوکت تھانوی کے دونوں مجموعے ’شیش محل‘ اور ’قاعدہ بے قاعدہ‘ کو قبول عام کی سند حاصل ہے۔ ان کے تحریر کردہ خاکے شخصیتوں کی اہمیت و انفرادیت کے علاوہ شوکت تھانوی کے اسلوب کی دلکشی کی وجہ سے ادب میں زندہ ہیں اور تادیر یاد رکھے جائیں گے۔ اس لیے کہ الفاظ کے مخصوص استعمال نے ان کے خاکوں میں جو مزاح پیدا کیاہے، وہ بڑا پرلطف ہے۔

مرزا  محمود بیگ کو دہلی کی قدیم روایت کا امین کہا گیا ہے۔ انھوں نے دہلی کی بے شمار محفلوں میں شرکت کی ہے، دہلی کی زبان پر جو گرفت انھیں حاصل ہے وہ بہت کم لوگوں کو میسر آئی ہے۔ ان کے خاکوں میںحلیہ، منظرکشی، واقعاتی سلسلے اور شخصیت کے اندرون کی بہت خوب صورت عکاسی ملتی ہے۔ ان کا ایک بہت مقبول خاکہ ’بی مردان‘ ہے۔ اس میں انھوں نے بی مردان کو صرف ڈومنی ہی کے روپ میں نہیں بلکہ ایک مشاطہ کے روپ میں بھی پیش کیا ہے۔ وہ یوں تو ڈومنیوں کی سرپرست تھیں، لیکن باتوں باتوں میں رشتے پکے کرنے کے ہنر سے بھی واقف تھیں۔ ان کی نظر میں ہر لڑکی چاند کا ٹکڑا ہوتی اور اس میں ذرا بھی نقص نہیں ہوتا تھا۔

دیوان سنگھ مفتون دہلی سے شائع ہونے والے ہفت روزہ ’ریاست‘ کے ایڈیٹر تھے۔ ریاست میں ان کا ایک سلسلۂ مضامین ’ناقابل فراموش‘ کے عنوان سے شائع ہوتا تھا۔ ان کی یادداشت بہت غیرمعمولی تھی۔ بیشتر واقعات انھوں نے یادداشت کی بنیاد پر ہی قلم بند کیے ہیں۔ ان کی کتاب ’ناقابل فراموش‘ اگرچہ خاکہ نگاری کے مقصد سے شائع نہیںہوئی تھی، لیکن اس میں مختلف شخصیتوں کے چہرے بشرے اور عادات و اطوار کی اس طرح عکاسی کی گئی ہے کہ وہ بہترین خاکوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ انھوں نے ہر شخصیت کو جیسا دیکھا ویسا ہی پیش کردیا۔ ’ناقابل فراموش‘ میں شخصیتیں چلتی پھرتی نظر آتی ہیں، جو بھی پڑھتا ہے وہ مفتون کی قوتِ مشاہدہ اور حافظے کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ انھوں نے جہاں زیر قلم شخصیتوں کی تعریف کی ہے، وہیں اگر ان میں کوئی خامی پائی ہے تو اسے بھی بے کم و کاست بیان کردیا ہے۔ ناقدین نے اس میں زبان کی خامیاں تلاش کی ہیں، لیکن اس سے ان خاکوں کی اہمیت کم نہیں ہوسکتی۔

شورش کاشمیری کی کتاب ’چہرے‘ خاکہ نگاری کا ایک شاہکار ہے۔ شورش اردو ادب کی ایک متنوع شخصیت کے مالک تھے۔ ایک طرف وہ ایک شعلہ بیان مقرر ہیں، وہیں دوسری طرف صاحب طرز ادیب، نکتہ داں اور نکتہ رس شاعر اور ایک ایسے سیاست داں کے طور پر شہرت رکھتے ہیں، جس نے ان کے بعد سیاست کے میدان میں آنے والوں کی ذہنی آبیاری کی۔ ان کی کتاب ’چہرے‘ 1965 میں منظرعام پر آئی، جس میں 93 شخصیتوں پر انھوں نے گفتگو کی ہے۔ ان کی تحریروں میں خطیبانہ اسلوب انھیں اپنے ہمعصروں میں ممتاز کرتا ہے۔ وہ ابوالکلام آزاد سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں  انھوں نے قلم و زبان کے سیاسی سفر میں جو کچھ بھی حاصل کیا، وہ انہی کی بدولت ہے۔ شوکت کے قلم سے اختر شیرانی کا نقشہ دیکھیے

’’میانہ قد، دوہرا بدن، کتابی چہرہ، روشن آنکھیں، لیکن رندی کے باوجود پلکیں حیا سے جھکی ہوئی، ستواں ناک، سڈول جسم، چلتے ہوئے لڑکھڑاتے تھے۔ کبھی کسی بھلے وقت میں اچکن بھی پہن لیتے۔ ورنہ عام لباس کھلے گلے کی قمیص اور سندھی طرز کا پاجامہ ہوتا تھا، کوئی شخص انھیں چہرے مہرے کے اعتبار سے اختر شیرانی نہیں کہہ سکتا تھا، بلکہ حلیے سے تو بمبئی کے دادا بھی نظر آتے تھے۔‘‘17؎

خواجہ حسن نظامی اپنے روزنامچوں کے سبب اپنی منفرد شناخت رکھتے ہیں اور ان کی اہمیت آج بھی مسلم ہے۔ ان کا منفرد کالم ماہنامہ ’منادی‘ میں پابندی کے ساتھ شائع ہوتا تھا۔ ان روزنامچوں میں اردو خاکہ نگاری کے ابتدائی نمونے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ خاکے کو دو خانوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ’مرئی خاکے‘ اور ’غیرمرئی خاکے‘ اگرچہ خاکہ نگاری میں مرئی خاکوں میں انسانی شخصیت کو اہمیت حاصل ہے، لیکن غیرمرئی خاکوں میں ملاوٹ، مہنگائی اور بجٹ وغیرہ پر لکھے گئے خاکوں کو رکھا جاسکتا ہے۔ خواجہ حسن نظامی نے اس سے بھی آگے چل کر غیرمحسوس طریقے سے ایسے ہی خاکے لکھے ہیں، جہاں دوسرے کسی خاکہ نگار کی نظر نہیں گئی۔ ان میں ’اللہ میاں‘، ’فرشتے‘ اور گناہ گاروں کے سربراہ ’شیطان‘ کے خاکے نئی اور منفرد ترتیب و تہذیب کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ کوئی گمان نہیں کرسکتا کہ اللہ تعالیٰ کا بھی خاکہ لکھا جاسکتا ہے، لیکن خواجہ حسن نظامی اس خاکے میں الفاظ کی ایسی روانی اور زبان کا تسلسل پیش کیا ہے کہ اس سے خاکے میں نئی جان پیدا ہوگئی ہے۔ ’اللہ میاں‘ کے خاکے میں یہ انداز دیکھیے

’’بے صورت کی یک مورت، تارہ بھی نہیں، چاند بھی نہیں، سورج بھی نہیں، ہفت افلاک بھی نہیں، عرش قدسی بھی نہیں، سمندر اور پہاڑ بھی نہیں، بہتا ہوا دریا بھی نہیں، ششدر اور حیران کنارہ بھی نہیں، کوندنے والی بجلی بھی نہیں، گرجنے وبالا بادل بھی نہیں، جمادات بھی نہیں، نباتات بھی نہیں، انسان بھی نہیں، وہ تو بس بے صورتی کی ایک مورت ہے...‘‘ 18؎

عام فہم زبان و بیان کے اعتبار سے یہ خاکہ ایسے قلم بند کیا گیا ہے کہ جس سے ہر سطح کا قاری لطف اندوز ہوتا ہے۔ اسی طرح انھوں نے فرشتوں کا خاکہ لکھ کر خوب داد و تحسین حاصل کی تھی

’’فرشتے جوہر مجرد و بسیط ہیں اور اللہ کے بندے ہیں۔ان کا جسم لطیف اور نوری ہے جیسی شکل چاہیں بنا سکتے ہیں۔ کبھی ہوا ہوجاتے ہیں، کبھی انسانی جامہ پہن لیتے ہیں، کبھی جانوروں کی طرح کثرت سے پُر ہوجاتے ہیں... ان کی اصل جگہ آسمان ہے، زمین پر بھی ادائے  خدمات کے لیے آتے جاتے ہیں۔ فرشتے گناہو ں سے پاک ہیں، ہر وقت اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت سے نہ اکتاتے ہیں نہ تھکتے ہیں۔ خدا کے حکم کے خلاف کچھ نہیں کرتے جو حکم دیتا ہے وہی کرتے ہیں۔ نہ کھاتے ہیں نہ پیتے ہیں۔ ان کی خوراک تسبیح یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اللہ کا ذکر ہے۔ وہ نہ مرد ہیں اور نہ عورت۔ ان کی گنتی خداکے سوا کوئی نہیں جانتا۔‘‘19؎

اس خاکے میں جہاں ضروری معلومات فراہم کی گئی ہیں، وہیں فرشتوں کی صفات بھی بیان کی گئی ہیں اور لطف کی بات یہ ہے کہ پیرایۂ بیان نہایت دلنشیں ہے۔

گناہ گاروں کے لیڈر شیطان کا خاکہ تو مزید دلچسپ ہے جس میں شیطانی صفات کا تذکرہ بہت اچھے اور نپے تلے الفاظ میں پیش کیا گیاہے۔ ملاحظہ کیجیے

’’فرشتوں کی ملکوت یونیورسٹی میں پرنسپل بن کر سبق پڑھا چکا ہے۔ ذات اقدس کی تجلیات جباری اور کبریائی میں فنا ہوکر منصو رکی طرح انا الخیر (میں اچھا ہوں) انا من النار (میں آگ سے بنا ہوں) جیسے نعرے لگا چکا ہے، مگر کوئی مولوی اس وقت عالم وجود میں موجود نہ تھا، جو اس کی انانیت کو سولی چڑھاتا، اس واسطے خدا نے اس کو خود سولی پر چڑھایا۔‘‘ 20؎

خواجہ حسن نظامی نے غیرمرئی شے کے ایسے نمونے پیش کیے ہیں جو صرف انہی کا حصہ ہے۔ انھوں نے خاکہ کے فن کو نہ صرف سمجھا ہے، بلکہ برت کر دکھا بھی دیا ہے کہ اس فن میں کیسے طاق اور ممتاز بنا جاسکتا ہے۔ انھوں نے اپنے تخیل سے مذکورہ تینوں خاکوں میںایسی فضا قائم کی ہے جو صحیح معنوں میں اس صنف کے تقاضوں کو پورا کرتی ہے۔

 محمد طفیل کو یہ امتیاز بھی حاصل ہے کہ انھوں نے اپنے رسالہ ’نقوش‘ کا ایک خاص نمبر بھی ’خاکہ‘ کے لیے مخصوص کیا تھا۔ وہ خاکہ لکھنے کے اپنے فن کو اختیار نہیں، اضطراری قرار دیتے تھے۔ بیشتر خاکہ نگاروں نے جن شخصیات کو بھی اپنے خاکوں کا موضوع بنایا ہے ان کی زندگی کے ظاہری اور باطنی پہلو کو اجاگر کرنے کی کوششیں کی ہیں اور بعض بعض سے اختلاف رائے کے باوجود ایسے محرکات کی جانب اشارہ کیا ہے، جن سے شاید وہ شخصیت خود بھی واقف نہ ہو۔ ذہانت اور ناموری کے ساتھ ساتھ انشاپردازی کے لطیف اور معنی خیز نمونے پیش کیے ہیں اور اپنی ساحرانہ فنکاری کے باوصف بعض چھوٹے چھوٹے واقعات کو بھی غیرمعمولی بنا دیا ہے۔

شان الحق حقی نے خاکہ نگاری پر اس طرح روشنی ڈالی ہے

’’خاکہ نگاری بڑا نازک کام ہے۔ اس کے لیے قلم پر گرفت بھی  چاہیے، جرأت بھی، سلیقہ بھی، تبھی اس سے عہدہ برآ ہوا جاسکتا ہے۔ وہ تنقیدی نظر رکھنے کے ساتھ جوہر شناس کا حق بھی ادا کرتے ہیں۔ آدمی کی پرکھ رکھتے ہیں۔ اس کی ذات کی بھی اور اس کے کمال کی بھی۔ ہر تحریر میں خود نمایاں رہتے ہیں مگر واجبی انکسار کے ساتھ۔‘‘ 21؎

نیاز فتح پوری نے شعر گو خواتین کے بارے میں ایک جگہ لکھا ہے

’’عورت بجائے خود ایک شعر ہے، چہ جائیکہ وہ شاعر بھی... مینا بھی اور لبریز بادہ بھی۔‘‘ 22؎

مشتاق یوسفی نے ادبی شخصیتوں کے ایسے خد و خال ان کی تخلیقات سے اجاگر کیے ہیں، جو خود شاید ان شخصیتوں تو کیا ان کے دور و نزدیک کے احباب اور قرابت داروں کی نظروں سے بھی اوجھل رہے ہیں۔ وہ شخصیت کا ایسا نقشہ کھینچتے ہیں کہ خوش وضعی، خوش اطواری اور خوش اسلوبی بھی نمایاں نظر آنے لگتی ہے۔ یوسفی کا یہ بھی کمال ہے کہ وہ شخصیت کی ناہمواریوں کو اپنی گرفت میں لے کر اس طرح ہموار اور متوازن بنانے کے فن سے نہ صرف واقف ہیں، بلکہ اس میں مہارت بھی رکھتے ہیں کہ وہ ناہمواریاں ہموار ہوکر اس طرح اپنے نقوش ظاہر کرتی ہیں کہ  جیسے کبھی ناہموار تھی ہی نہیں۔

اچھا اور بہترین خاکہ وہ شمار کیا جاتا ہے، جس میں شخصیت کے اہم گوشوں کی تہیں یکے بعد دیگرے تصویر اتاری جائیں اوروہ  بھی شخصیت کے اہم پہلوؤں کو سامنے لائے۔ اس میں جتنی ماہرانہ نفاست اور سلیقہ ہوگا، اتنا ہی وہ خاکہ مقبول اور قابل ذکر شمار ہوگا۔

چند عجیب ہستیاں‘ کے مقدمہ میں ڈاکٹر جمیل جالبی نے اس پر اس انداز میں روشنی ڈالی ہے

’’اصل میں دیکھنے کی بات یہ ہے کہ پورا خاکہ پڑھنے کے بعد قاری کے ذہن پر اس شخصیت کا کیا اور کیسا اثر قائم ہوتا ہے۔ کیا وہ انسان بتاشہ کی طرح بیٹھ جاتا ہے یا مینارہ کی طرح بلند و بالا نظر آنے لگتاہے۔ اگر تاثر بتاشے کا ہے تو خاکہ نگار اپنے خاکہ میں ناکامیاب ہے، اگر اثر آفرینی مینارہ کی ہے تو وہ کامیاب ہے۔‘‘23؎

شمیم کرہانی نے خاکہ نگاری کو ادب کی صنف قرار دیتے ہوئے لکھا ہے کہ خاکہ وہ ہے جس میں شخصیتوں کی تصویریں اس طرح براہِ راست کھینچی جاتی ہیں کہ وہ چہرے ذہن نشیں ہوجاتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے پڑھنے والے نے نہ صرف قلمی چہرہ بنایا ہو بلکہ دیکھا اور سمجھا ہو۔

گویا یہ بات واضح ہوگئی کہ خاکہ ایک ایسا آرٹ ہے، جس میں منتخب روزگار شخصیت کی زندگی کی خاص اداؤں کی اس طرح تصویر کشی کی جائے کہ پڑھنے والا یہ سمجھے کہ وہ شخصیت خود اس کے سامنے موجود ہے۔ اس میں شخصیت کے خصوصی پہلوؤں پر بڑی ماہرانہ نفاست سے روشنی ڈالی جاتی ہے، وہ اس طرح کہ قاری اس شخصیت کے سحر میں گم ہوجائے۔ خاکہ نگار کا کینوس بہت وسیع ہوتا ہے، وہ اس وجہ سے کہ وہ جہاں اس کے ظاہری پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے، وہیں اس کے مزاج، عادات و اطوار اور اس کے اندرون تک کو صفحوں کی زینت بنا دیتا ہے۔ وہ بھی اس طرح کہ اس شخصیت کی خوبیاں اور خامیاں دونوں اجاگر ہوجائیں۔ اس لیے کہ اگر صرف خوبیاں بیان کیں تو وہ مضمون تعریف و توصیف کے زمرے میںآئے گا اور اگر صرف خامیوں کی نشان دہی کی گئی تو دشنام طرازی قرار پائے گا۔

خاکم بدہن‘ میں مشتاق احمد یوسفی لکھتے ہیں

کتابوں سے عشق کا یہ حال تھا کہ عین بوہنی اور بکری کے اوقات میں بھی مطالعے میں کمر کمر غرق رہتے۔ یہ کمر کمر کی قید اس لیے لگانا پڑی کہ ہم نے آج تک انھیں کوئی کتاب پوری پڑھتے نہیں دیکھا۔ مرزا اسی بات کو یوں کہتے تھے کہ بہت کم کتابیںایسی ہیں جو اپنے کو ان سے پڑھوا سکی ہیں۔ یہی نہیں اپنے مطالعے کی تکنیک کے مطابق رومانوی اور جاسوسی ان کو ہمیشہ الٹا یعنی آخر سے پڑھتے تاکہ ہیروئن کاحشر اور قاتل کا نام فوراً معلوم ہوجائے۔‘‘

معروف  ادیب عابد سہیل بنیادی طور پر ایک افسانہ نگار یا اپنے رسالے ’کتاب‘ کے مدیر ہونے کے سبب ایک صحافی کی حیثیت سے ممتاز شناخت رکھتے  ہیں۔ درحقیقت عابد سہیل ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ وہ افسانہ نگار ہوں یا نقاد، صحافی ہوں یا مترجم انھوں نے اپنی منفرد شناخت چھوڑی ہے۔  انھوں نے خاکہ نگاری کی جانب بہت بعد میں توجہ کی لیکن یہاں بھی اپنا انفراد قائم رکھنے میں کامیاب ر ہے۔ ان کے خاکوں کے دو مجموعے ’کھلی کتاب‘ (2004) اور ’پورے، آدھے، ادھورے’ (2015) میں منظرعام پر آئے۔ ان دنوںخاکوں کے مجموعوں میں تقریباً چالیس خاکے شامل ہیں۔ عابد سہیل نے جن شخصیات کے خاکے اڑائے ہیں ان میں ڈاکٹر عبدالعلیم، حیات اللہ انصاری، ایم چلپت راؤ، آل احمد سرور، پنڈت آنند نرائن ملا، عشرت علی صدیقی، وجاہت علی سندیلوی، منظر سلیم، احمد جمال پاشا، نسیم انہونوی، احسن فاروقی، اسرارالحق مجاز، سلامت علی مہدی، سید احتشام حسین، شمس الرحمن فاروقی، قمر رئیس، عرفان صدیقی، قیصر تمکین، کیفی اعظمی، محمد حسن، مسعود حسن رضوی ادیب، نیر مسعود اور ہری کرشن گوڑ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

عابد سہیل نے ہر خاکے میں اپنے منفرد انداز میں اس دور کے تہذیبی، سماجی اور سیاسی ماحول کو واضح کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے، انھوں نے تہذیبی و ادبی اقدار اور سیاسی و سماجی صورت حال کو اس طرح پیش کیا ہے کہ وہ ادبی دنیا کی نصف صدی کا مرقع معلوم ہوتے ہیں۔

عابد سہیل نے دو خاکوں میں ایک نیا تجربہ بھی کیا ہے۔ یعنی غیرمرئی شے کو شخصیت کی شکل میں پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان کی غیرمحسوس طریقے سے روح عصر کے تناظر میں بھی دیکھا اور جانچا جاسکتا ہے۔ ان میں ایک خاکہ تو ’کتاب‘ ہے اور دوسرا خاکہ ’اولڈ انڈیا کافی ہاؤس‘ ہے۔ واضح رہے کہ جس زبان میں خاکہ لکھا جارہا ہے، اس زبان سے مکمل واقفیت ہی کے ذریعے کوئی خاکہ نگار اس شخصیت کے خد و خال کو نمایاں کرسکتا ہے اور ان میں اپنی رنگ آمیزی سے ایسے پہلوؤں کو نمایاں کرسکتا ہے، جن سے وہ شخصیت اپنی سیرت، رہن سہن، انداز گفتگو، معائب و محاسن غرض کہ  تمام پہلوؤں کے ساتھ نظروں کے سامنے آموجود ہوتی ہے۔

عشرت صدیقی سے متعلق ان کی تحریر کا یہ نمونہ ملاحظہ کریں

’’عشرت صاحب شاعری نہیں کرتے، افسانے نہیں لکھتے، تیراکی سے انھیں شوق نہیں سیاست میں ان کی دلچسپی صرف ڈاکٹر سدھو تک ہے اور وہ مولوی ہیں نہیں، چنانچہ بس وہ ہیں اور صحافت، صحافت ہے اور وہ۔ ان کا اور صحافت کا معاملہ پانچ وقت کی نماز کے علاوہ ’من تو شدم تو من شدی‘ والا ہے۔‘‘24؎

مضمون میں شامل تمام خاکہ نگاروں نے بڑے دلچسپ انداز میں اپنے خاکے تحریر کیے ہیں اور نئی نسل کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ اس صنف میں بھی اپنے منفرد اسلوب نگارش، اچھوتا انداز بیان اور دل میں گھر کرجانے والی شوخی تحریر سے اردو ادب کے خاکوں کو ایک سنگ میل فراہم کیا جاسکتا ہے۔ خاکہ نگاری ایک مشکل فن ہے، لیکن کائنات کے لامحدود مطالعے سے اس میں قوسِ قزح کے رنگ بکھیرے جاسکتے ہیں اور زیر قلم شخصیت کے روشن اور تابناک پہلوؤں پر روشنی ڈالتے ہوئے پراثر انداز تحریر کے ساتھ شخصیت کے کمزور پہلوؤں سے بھی قاری کو روشناس کرایا جاسکتا ہے۔

حواشی

  1.      اردوادب میں خاکہ نگاری، ص 59
  2.      دید و دریافت، ص 18-26
  3.       محمد حسین:خاکہ نگاری، نگار،جون 1959
  4.       چند تصویربتاں: شمیم کرہانی، ص 9
  5.       فن اور تنقید، خلیق انجم، ص 370-71
  6.  خاکہ نگاری اور چندہمعصر، ڈاکٹر حامد حسن، مجلہ سیفیہ کالج بھوپال 1966-67 بحوالہ مرزا فرحت اللہ بیگ حیات و ادبی خدمات، ڈاکٹر عبدالحی صدیقی، علی گڑھ 1989
  7.       اردو ادب میں خاکہ نگاری: ڈاکٹر صابرہ سعید، ایجوکیشنل بک ہاؤس علی گڑھ، ص 57، مطبوعہ 2009
  8.       شاہد احمد دہلوی، چند ادبی شخصیتیں، ماڈرن پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی، سال اشاعت 1983، ص 9-12
  9.       ایضاً، ص 117
  10.      دہلی کا ایک یادگار مشاعرہ یا دہلی کی آخری شمع، ادبی لائبریری لاہور، مطبوعہ 1968، ص 55
  11.      کیا خوب آدمی تھا، ڈاکٹر سید عابدحسین، حالی پبلشنگ ہاؤس، دہلی مطبوعہ 1941، ص 4
  12.  اردو ادب میں خاکہ نگاری: صابرہ سعید، مطبوعہ ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، مطبوعہ 2009، ص 124-133
  13.     دیباچہ ’آبِ حیات‘ محمد حسین آزاد، نول کشور گیس پرنٹنگ ورکس لاہور، ص 4، مطبوعہ 1907
  14.   بہ حوالہ اردوادب میں خاکہ نگاری: ڈاکٹر صابرہ سعید، ایجوکیشنل بک ہاؤس، علی گڑھ، ص 142,43 ، مطبوعہ 2009
  15. 15    ایضاً، ص 135
  16. 16    بہ حوالہ ایضاً، ص 170
  17. 17    ایضاً، ص 241,243
  18. 18    خواجہ حسن نظامی: خاکے اور خاکہ نگاری، ابوسلمان شاہجہاں پوری، مطبوعہ پورب اکادمی اسلام آباد پاکستان،  ص 101,102
  19.    خواجہ حسن نظامی: خاکے اور خاکہ نگاری، ابو سلمان شاہجہاں پوری، مطبوعہ پورب اکادمی، اسلام آباد، پاکستان، ص 102,103
  20.     ایضاً، ص 103,104
  21.     شان الحق حقی، بولتی تحریر: خاکہ نما، افسر پبلی کیشنز کراچی، ص 8، مطبوعہ 1991
  22.     ایضاً، ص 220
  23.     چند ادبی شخصیتیں: شاہد احمد دہلوی، مکتبہ جدید نئی دہلی، مطبوعہ 2003، ص 13,14
  24.     عابد سہیل، کھلی کتاب، مطبوعہ کاکوری پریس لکھنؤ، 2004، ص 1,4


Dr. Munawwar Hasan Kamal

N-93, 4th Floor, Abul Fazal Enclave
Jamia Nagar, Okhla


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں