15/5/23

سفرنامہ برنیئر اور ہندوستانی تہذیب و ثقافت:ڈاکٹر سعید احمد

 

 
تلخیص

سترہویں صدی میں ہندوستان کی تہذیب و ثقافت اور طرزِ معاشرت کی تفہیم کا ایک وسیلہ ’سفرنامہ برنیئر‘ بھی ہے، ڈاکٹر برنیئر کا یہ سفرنامہ اس دور کی تہذیب و تمدن کی تصویر کو دلکش انداز میں پیش کرتا ہے، برنیئر کی جائے پیدائش فرانس کے شہر انجورمیں 1620 میں ہوئی، یہ کاشتکار گھرانے سے تعلق رکھتا تھا، اس نے علم طب کی ڈگری بھی حاصل کی تھی،  اس سیاح نے علم کے حصول کے لیے دنیا کے اہم ممالک کی سیاحت کی، ڈاکٹر برنیئر کو یورپی ممالک کی سیاحت کے بعد مشرقی ممالک کو دیکھنے کا شوق پیدا ہوا،  اپنے اس شوق کو پورا کرنے کے لیے بہت سے ایشیائی ممالک کا بھی سفر کیا، برنیئر کے اس سفرنامے کے بہت سے اردو ترجمے ہوئے، خلیفہ محمد حسین نے بھی ’سفرنامہ ہند‘ کا اردو ترجمہ کرکے یقینا ایک اہم کارنامہ انجام دیا ہے، اس ترجمے کی وساطت سے برنیر کے ہندوستان کے بارے میں جو تاثرات ہیں ان کو جاننے میں مدد ملتی ہے۔برنیئر شاہجہاں کے عہد حکومت میں ایشیا کے دیگر ممالک سے ہوتا ہوا ہندوستان آیا، یہ وہ دور تھا جس دور میں مغل بادشاہوں کی آپسی خانہ جنگی شباب پر تھی، شاہجہاں کے بیٹے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کے لیے لڑبھڑ رہے تھے گو کہ اس ملک میں سیاسی ہنگامہ جاری و ساری تھا۔ پھر کچھ دنوں تک برنیئر کو ان بادشاہو ںکی معیت میں رہنے کا موقع ملا، برنیئر کا بیان ہے کہ اس نے داراشکوہ سے ملاقات کی اور اس کے ساتھ دہلی بھی آیا اور دانشمند خاں کے طبیبوں میں شامل ہوگیا۔ اس سے برنیئر کو اس دور کے بادشاہوں کی تہذیبی و معاشرتی زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور دانشمند کے محلوں میں رہنے کی وجہ سے اسے امرا کے دربار کے اندرونی حالات کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے مختلف مذاہب کے اعتقادات اور ان کی تہذیبی و تمدنی زندگی کی باریکیوں کے متعلق بہت سی معلومات فراہم ہوئیں۔

برنیئر فرانسیسی سیاحوں میں غالباً سب سے ذہین، دوراندیش اور ذی فہم تھا۔ اس نے اس دور کے مغل عہد کی تہذیبی، تمدنی، معاشرتی، علمی و ثقافتی غرضیکہ تمام پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس سفرنامے کے مطالعہ سے یہ احساس ہوتا ہے کہ اس سیاح نے دوران سفر بہت سے واقعات کا بیان سنی سنائی باتو ںپر بھی کیا ہے، جس سے اس سفرنامے کی صداقت پر ضرب پڑتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر سنا ہوا واقعہ حقیقت پر مبنی نہیں ہوسکتا ہے۔ یہ سفرنامہ صرف ہندوستان کی تہذیب و معاشرت کا عکاس نہیںہے، بلکہ اس میں برنیئر کا ردعمل بھی ہے جو بے حد تلخ بھی ہے، اس کے باوجود ’سفرنامہ ہند‘ مغل عہد حکومت کے ایک دور کی تہذیب و ثقافت کا مرقع ہے۔

کلیدی الفاظ

ہندوستان، تہذیب، تمدن، ثقافت، مشاہدہ، سیاحت، شاہجہاں، ایشیا ، دانشمند خاں، داراشکوہ، چشم دید، حیرت انگیز، احساس برتری، طرز زندگی، بود و باش، خورد و نوش، قلعہ، طب، سنسکرت، شاہی محل، رسم و رواج، شادی بیاہ، ستی، خواجہ سرا، لال قلعہ، محرابیں، نقارخانے، پنڈت، فقیر، کھان پان، جذبات و احساسات، تعصبات، سیاسی، سماجی تاریخی، دلکش حسن، جاذب نظر، نان بائی، عقل، رانی قلعہ، جامع مسجد، تعلیم و تعلم، عوام الناس، دہلی، مستورات

————

ہر ملک اورہر قوم کی اپنی اپنی تہذیبی و تمدنی شناخت ہوتی ہے۔ کسی ملک کی سیاسی ، سماجی، تہذیبی و ثقافتی بازیافت کے لیے اس ملک کی سیاحت بہت معاون ہوتی ہے۔ بغیر عینی مشاہدے اور تجربے کے کسی ملک کی سیاسی و سماجی زندگی سے کما حقہ آشنا ہونا ایک مشکل امر ہے۔ ظاہر ہے یونان، مصر اور ہندوستان قدیم ترین تہذیب و تمدن کے گہوارے رہے ہیں اور ان ممالک میں ہزاروں سال قبل بھی علم و فضل کا چرچا رہا ہے۔ ہندوستان کی زمین تہذیب و تمدن، آب و ہوا اور زرخیزی کے لیے اپنی الگ پہچان رکھتی ہے، اسی لیے بہت سے سیاحوں نے یہاں کی تہذیب و ثقافت کا ذکر اپنے سفرناموں میں تفصیل سے کیا ہے۔

ہندوستان زمانہ قدیم سے ہی غیرملکی سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے، اس سرزمین پر دنیا کے مختلف سیاح آتے رہے ہیں۔ ان سیاحوں نے وطن عزیز کی تاریخ و تہذیب، تمدن اور جغرافیے کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے۔ اگر ہندوستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس سرزمین پر جس سیاح نے سب سے پہلے قدم رکھا وہ میگستھنیز (Megasthenes) تھا۔ اس نے ہندوستان کی آب و ہوا، یہاں کی زرخیز زمین، موسم و فصل کی بڑی پذیرائی کی۔ ہندوستان کی سرزمین پر وارد ہونے والا دوسرا سیاح فاہیان (Fahsien) تھا جو میگستھنیز سے تقریباً سات سو برس بعد آیا۔ یہ چین کا بدھ بھکشو تھا، فاہیان نے ہندوستان کے قیام کے دوران تمام بدھ مت مقام کا مشاہدہ کیا اور ہندوستان کی تہذیب و تمدن پر بے باکی سے اظہارِ خیال کیا۔

فاہیان کے ہندوستان آنے کے بعد وقفے وقفے سے یہ سلسلہ جاری رہا اور تقریباً دو سو سال بعد ہون سانگ (Hontsong) 641 میں ہندوستان آیا۔ اس نے اپنے سفرنامے میں ہندوستان کی تہذیب و ثقافت پر سیرحاصل گفتگو کی ہے اور وہ ہندوستان کے بدھ لٹریچر و دیگر علوم و فنون کے علاوہ نالندہ یونیورسٹی کے تعلیمی نظام سے بے حد متاثر ہوا۔ چھٹی و ساتویں صدی عیسوی کے بعد عرب کے بہت سے سیاحوں نے ہندوستان کا سفر کیا اور نویں صدی تک آتے آتے ہندوستانی تہذیب و ثقافت پر کتابیں بھی مرتب کی جانے لگیں۔ عرب سیاحوں میں ابن جبیر، البیرونی، حکیم ناصر خسرو اور ابن بطوطہ وغیرہ کے نام اس لیے بہت اہم ہیں کہ انھوں نے اپنے سفرناموں میں ایشیائی تہذیب و ثقافت کی تصویر کو دلکش اندازمیں پیش کیا ہے۔

سترہویں صدی عیسوی میں متعدد سیاح ہندوستان آئے، ان سیاحوں میں ایک اہم نام ڈاکٹر برنیئر کا بھی ہے۔ ڈاکٹر برنیئر کی جائے پیدائش فرانس کے شہر انجور میں 1620میں ہوئی۔ یہ کاشتکار گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ اس نے علم طب کی ڈگری بھی حاصل کی، برنیئر نے علم کے حصول کے لیے دنیا کے اہم ممالک کا سفر کیا۔ اس نے جرمنی، پولینڈ، سوئٹزرلینڈ، اٹلی وغیرہ کی سیاحت کی۔ 1652 میں اسے ڈاکٹر آف فلاسفی کی ڈگری تفویض ہوئی۔ ڈاکٹر برنیئر کو یورپی ممالک کی سیاحت کے بعد مشرقی ممالک کو دیکھنے کا شوق پیدا ہوا۔ لہٰذا اس نے مصر و شام اور فلسطین کا چکر لگایا۔ علاوہ بریں اپنی سیاحت کو مزید وسعت دینے کے لیے 1658 میں سورت کی بندرگاہ پر آپہنچا۔ اور ہندوستان کے تمام سفری احوال کو سفرنامہ ہند کی شکل میں پیش کیا۔برنیئر کے اس سفرنامے کا اولین اردو ترجمہ کرنل ہنری مور نے 1875 میں کیا تھا، پھر بہ مشاورت کرنل ہالرائڈ ڈائرکٹر سررشتہ تعلیم پنجاب اس کو خلیفہ سید محمد حسین کو بھیجا گیا۔ انھوں نے نئے سرے سے اس کا اردو ترجمہ بھی کیا اور کرنل ہالرائڈ و خلیفہ سید محمد حسین نے اس سفرنامے پر نظرثانی بھی کی؛ اس ترجمے کی خوبی یہ ہے کہ مترجم خلیفہ سید محمد حسین نے ترجمہ کرتے وقت معتبر تاریخی کتابوں کو پیش نظر رکھا ہے اور سفرنامے میں حالات و واقعات کے تعلق سے جہاں کہیں لاعلمی اور غلط فہمی کا اندیشہ ہوا ہے انھوں نے سفرنامے کے آخر میں حواشی کی شکل میں تمام تفصیلات کی وضاحت کردی ہے۔

خلیفہ محمد حسین نے اس سفرنامے کا اردو ترجمہ کرکے ایک اہم کارنامہ انجام دیا ہے اور اس ترجمے کی وساطت سے برنیئر کے ہندوستان کے بارے میں جو تاثرات ہیں ان کو جاننے میں مدد ملتی ہے۔ ڈاکٹر برنیئر شاہجہاں کے عہد حکومت میں ایشیا کے دیگر ممالک سے ہوتا ہوا ہندوستان آیا۔ یہ وہ دور تھا جس وقت مغل بادشاہوں کی آپسی خانہ جنگی شباب پر تھی۔ شاہجہاں کے بیٹے ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کے لیے لڑ بھڑ رہے تھے۔ گوکہ اس ملک میں سیاسی ہنگامہ جاری و ساری تھا، پھر بھی کچھ دنوں تک ڈاکٹر برنیئر کو ان بادشاہو ںکی معیت میں رہنے کا موقع ملا۔ ڈاکٹر برنیئر کی داراشکوہ سے اچانک ملاقات ہوجانا، برنیئر کے لیے عجیب و غریب واقعہ تھا۔ برنیئر پیشے سے طبیب تھا۔ اس لیے اس کو داراشکوہ کے ساتھ رہنا پڑا تھا۔ برنیئر کا بیان ہے کہ وہ داراشکوہ کے ساتھ دہلی آیا اور اس کی دانشمند خاں سے ملاقات ہوئی اور وہ اورنگ زیب کے مشہور امیر دانشمند خاں کے طبیبوں میں شامل ہوگیا۔ اس سے اس کو یہ فائدہ ہوا کہ اس دور کے بادشاہوں کی زندگی کے نشیب و فراز کو بہت نزدیک سے دیکھنے کا موقع ملا اور دانشمند خاں کی مجلسوں میں رہنے کی وجہ سے برنیئر کو امرا کے دربار کے اندرونی حالات کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے مختلف مذاہب کے اعتقادات، اور ان کی مذہبی زندگی کی باریکیوں کے متعلق بہت سی معلومات فراہم ہوئیں، گویا برنیئر کا داراشکوہ سے راستے میں مل جانا برنیئر کے لیے ایک نیک فال ثابت ہوا اور اس ملاقات سے برنیئر کو داراشکوہ کی سیاسی زندگی کو سمجھنے میں بھی آسانی ہوئی۔ ساتھ ہی مغل بادشاہوں کی طرز زندگی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ہاتھ آیا۔ برنیئر لکھتا ہے کہ

’’اس وقت میں بھی تین دن سے داراشکوہ کی ہمراہی میں تھا اور یہ ایک نہایت ہی عجیب و غریب اتفاق تھا کہ میں اسے راستہ میں مل گیا اور کسی طبیب کے ہمراہ نہ ہونے کی وجہ سے اس نے جبراً مجھے اپنے ساتھ لے لیا۔ احمد آباد کے حاکم کے کاغذ کے پہنچنے سے ایک دن پہلے کا ذکر ہے کہ داراشکوہ نے مجھ سے فرمایا کہ مبادا تمھیں کولی مارڈالیں اور اس لیے بہ اصرار مجھ کو اس کاروان سرا میں لے گیا جہاں خود ٹھہرا ہوا تھا اور اب اس کا یہ حال تھا کہ خیمہ تک اس کے پاس نہ تھا اور اس کی بیگم اور عورتیں صرف ایک قنات کی آڑ میں تھیں جس کی رسیاں میری سواری کی بہلی کی پہیوں سے جس میں، میں آرام کرتا تھا باندھی ہوئی تھی۔ جو لوگ اس امر سے واقف ہیں کہ ہندوستانی امرا اپنی مستورات کے پردہ کے معاملے میں کس قدر مبالغہ کرتے ہیں وہ میرے اس بیان پر اعتبار نہ کریں گے۔ مگر میں نے یہ واقعہ بطور ثبوت اس دردناک حالت کے لکھا ہے جس میں شہزادہ اس وقت مبتلا تھا۔‘‘ 1؎

برنیئر کی خوبی یہ ہے کہ اس سفرنامے میں مغلوں کی آپسی خانہ جنگی کا بیان کرنے کے لیے اس نے تاریخی کتابوں کا سہارا نہیں لیا ہے۔ اس نے عینی مشاہدے کی بنیاد پر تمام واقعات بیان کیے ہیں۔

داراشکوہ جب پکڑ کر لایا گیا اور اس کے ساتھ اس کے اپنوں نے جس طرح کا سلوک و برتاؤ کیا، اور پھر بازار و گلیوں میں جس طرح بے عزتی کی گئی؟ اور رعایا میں ا س کی جس طرح تشہیر کی گئی؟ جس شہزادے کو عوام عزیز و محترم جانتے تھے اس کی اس قدر ذلت، برنیئر اس واقعے کا چشم دید گواہ تھا۔ وہ لکھتا ہے

’’اس نالائق تماشے کے دیکھنے کو ایک بھیڑ جمع ہوگئی تھی اور لوگ جابجا رو رہے تھے اور داراشکوہ کی بدقسمتی پر ترس کھارہے تھے، چنانچہ میں بھی شہر کے سب سے بڑے بازار میں ایک اچھے موقع پر مع اپنے دو رفیقوں اور دو خدمت گارو ںکے عمدہ گھوڑے پر چڑھا کھڑا تھا اور ہر طرف سے رونے چلانے کی آواز آرہی تھی اور عورتیں و مرد اور بچے اس طرح چلا چلا کر رو رہے تھے کہ گویا ان پر کوئی بڑی ہی مصیبت پڑی ہے اور جیون خان گھوڑے پر سوار بدنصیب داراشکوہ کے برابر جاتا تھا اور چاروں طرف سے اس پر گالیوں اور لعن طعن کی بوچھاڑیں پڑرہی تھیں، بلکہ کئی ایک فقیروں اور غریب آدمیوں نے تو پٹھان پر پتھر بھی پھینکے۔ لیکن پیارے اور عزیز شہزادہ کے چھڑالینے کی کسی کو جرأت نہ پڑی۔‘‘ 2؎

برنیئر نے اپنے سفرنامے میں اس دردناک واقعے کے مناظر کو اس طرح بیان کیا ہے جس سے قاری کے ذہن میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ اس سفرنامے کے مطالعے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس دور کے  بادشاہوں کے تئیں رعایا کی کس قدر محبت و الفت ہوا کرتی تھی، برنیئر نے عورتوں کی گریہ وزاری اور بے بسی کے تعلق سے جو کچھ لکھا ہے وہ حیرت انگیز بھی ہے اور تعجب خیز بھی۔ برنیئر نے اپنے ہندوستان میں قیام کے دوران جو کچھ دیکھا، سنا اس کو بے باکی سے بیان کیا ہے۔ اس جری سیاح کی خوبی یہ ہے کہ مغل بادشاہوں کی خوبیوں و خامیوں کے بیان میں کسی طرح کا تامل نہیں کرتا۔ برنیئر کے سفرنامے کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سیاح ہمیشہ احساس برتری کا شکار رہا ہے۔ اس سے اس کے اندر کہیں کہیں جانب داری بھی آگئی ہے۔ اس احساس برتری کی وجہ سے ہندوستان کے شہروں اور قصبوں کی ترقیات کو بیان کرتے وقت اس کو اپنی فوجی برتری کا احساس رہتا ہے اور ہندوستان کی تمام چیزو ںکا موازنہ اپنے ملک فرانس سے کرتا ہے اور ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ترقیات کے میدان میں اس کا ملک ہی سب سے نمایاں ہے۔ کچھ لوگو ںنے اسی وجہ سے اسے ایک متعصب سیاح بھی کہا ہے۔ ہمارے خیال میں احساس برتری کی وجہ سے اس سیاح کو متعصب سیاح کہنا درست نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہر شخص کا اپنے ملک سے جذباتی لگاؤہوتا ہے، یہ ایک فطری امر ہے۔

برنیئر نے اپنے سفرنامے میں ہندوستان کے عوام الناس کی زندگی کے مسائل کی زیادہ تفصیل سے وضاحت نہیں کی ہے، اس نے ہندوستان کے مغل بادشاہوں کی طرز زندگی، اور ان کے رہن سہن، کھانے پینے کے عادات و اطوار پر ہی تفصیل سے لکھنا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ ڈاکٹر برنیئر ایک طبیب تھا اور درباروں کے ساتھ اس کا زیادہ اٹھنا بیٹھنا تھا۔ اس لیے اس کے سفرنامے میں یہاں کے بادشاہوں کی سیاسی، سماجی، تاریخی اور تہذیبی زندگی کا تذکرہ زیادہ ملتا ہے۔ برنیئر ہندوستان آنے سے قبل بہت سے مغربی و مشرقی ممالک کا سفر کرچکا تھا۔ اس نے بہت سے شہروں کی ترقی و تنزلی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ ان ممالک کے مشاہدے سے اس میں بصیرت پیدا ہوگئی تھی اس لیے وہ کسی ملک کی ظاہری شان و شوکت سے مرعوب نہیں ہوتا ہے  اور شہروں کے ظاہری حسن و جمال پر فریفتہ ہونے کے بجائے وہ اصل حقیقت تک پہنچنا چاہتا ہے، یہاں تک کہ ان کے کھانے پینے کے عادات و اطوار کے علاوہ  کھانے پینے کی اشیا کے نقصانات و فوائد پر بھی گفتگو کرتا ہے۔ برنیئر ایک طبیب تھا اور طبی نقطۂ نظر سے چیزوں کا دیکھنا بھی ایک فطری عمل کہا جاسکتا ہے۔ ہندوستان میں لوگ پان کیوں کھاتے ہیں، اس کے تعلق سے لکھتا ہے کہ

’’ہندوستان کے لوگ پان میں ایک چیز کے کچھ باریک اور نازک سے ورق اور تھوڑا سا چونہ جو کوڑیوں سے بنتا ہے کچھ اور مصالحہ ملایا کرتے ہیں اور پان کھانے سے یہ مدعا ہے کہ منہ معطر اور خوشبودار اور لب سرخ ہوجاتے ہیں۔‘‘ 3؎

برنیئر ہندوستانیو ںکے خورد و نوش کی چیزوں کا ذکر تفصیل سے کرتا ہے اور اپنے تاثرات کا اظہار مختلف موقعے پر مختلف طریقے سے کرتا ہے اور ہندوستان کے بازاروں میں گھومتے ہوئے وہاں کی نان کا ذکر کرتے ہوئے وہ شہر اور بازار کی نان کے ذائقے میں امتیاز کرتا ہے اور قلعے کی نان کو بازار کی نان سے بہتر قرار دیتا ہے، برنیئر کا ماننا ہے کہ قلعے میں جو نان پکائی جاتی ہے وہ ذائقہ دار اور پکی ہوئی ہے اور قلعے کی نان زیادہ لذیذ اور مزیدار ہوتی ہے۔ اس روٹی کے آٹے میں دودھ اور مکھن ملایا جاتا ہے۔ جبکہ شہر دہلی کے بازاروں کی روٹیوں میں یہ تمام چیزیں نہیں ڈالی جاتی ہیں۔ اور برنیئر دہلی کی بازاری روٹی اورپانی کی خرابی کی شکایت ہر جگہ کرتا نظر آتا ہے

’’...موسم سرما کا آغاز ہے اور فی الحقیقت ہندوستان میں سفر کے واسطے یہی موسم مناسب ہے کیونکہ جاڑے کے شروع میں بارش بھی ہوسکتی ہے اور گرمی اور گرد بھی ایسی نہیں رہتی کہ جس کی برداشت نہ ہوسکے اور میں اس خیال سے بھی خوش ہوں کہ اب مجھ کو دہلی کے بازار کی روٹی کھانے کی آفت اٹھانی نہ پڑے گی جو اکثر خراب پکائی جاتی ہے اور گرد و غبار سے صاف نہیں ہوتی اور اب یہ بھی امید ہے کہ پینے کا پانی بھی دہلی سے بہتر ملے گا جس کا میلاپن مجھ سے بیان نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ انسان، حیوان بے دھڑک وہاں تک پہنچ سکتے ہیں اور پانی کو انواع و اقسام کے میل کچیل کا مخزن بنائے رکھتے ہیں۔ اس پانی سے بہت عسیرالعلاج تپیں پیدا ہوتی ہیں اور پنڈلی میں کیڑے یعنی ناروے پیدا ہوجاتے ہیں جن سے بڑی سخت سوزش اور ورم ہوتا ہے اور آئندہ بڑے بڑے اندیشے ہوتے ہیں۔ اگر مریض دہلی سے کہیں چلا جائے تو یہ کیڑے جلد دفع ہوجاتے ہیں...‘‘ 4؎

اس سفرنامے میں برنیئر کا ماننا ہے کہ ہندوستان میں جو کھانا بازار میں ملتا ہے وہ صحت کے لیے ٹھیک نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ برنیئر ایک طبیب تھا اس لیے وہ کھانے پینے کی چیزوں میں بہت احتیاط برتتا تھا اور شاہی درباروں کے کھانوں کو صحت کے لیے مفید جانتا تھا۔ اس لیے اکثر برنیئر شاہی نوکروں کے ذریعے دربار سے کھانا منگا کر کھایا کرتا تھا۔ برنیئر نے ہندوستانی میوہ، پھلوں، اور مٹھائیوں کا تذکرہ عجیب پیرائے میں کیا ہے اور حلوائیوں کی مٹھائیو ںکا بیان تلذذ لے کر کرتا ہے۔

برنیئر لکھتا ہے کہ ہندوستانی پھلوں اور میوؤں کا استعمال زیادہ کرتے ہیں اور برنیئر کو ہندوستان کا خربوزہ بہت پسند آیا، اور اس سیاح نے ہندوستانی خربوزے کی کھل کر تعریف کی اور کہتا ہے کہ دوسرے ملکو ںکے مقابلے میں ہندوستانی خربوزہ بہت سستا بھی ہوتا ہے اور یہ بھی لکھتا ہے کہ آم جو پھلوں کا راجا ہے ہندوستان میں کثرت سے ملتا ہے اور برنیئر کے نزدیک سب سے عمدہ آم بنگال اور گولکنڈا کا ہے اور اس طرح مچھلی، گوشت، تمام کھانے پینے کی چیزوں کو بہت دلچسپ پیرائے میں بیان کرتا ہے۔ برنیئر کا یہ سفرنامہ سترہویں صدی کے ہندوستان کی تہذیب و تاریخ کی دستاویز ہے۔ اس سفرنامے میں ہندوستان کے مختلف شہروں بالخصوص دہلی کی تہذیبی زندگی کے تعلق سے بہت کچھ لکھا ہے۔ برنیئر نے ہندوستانیوں میں آگ سے کھانا پکانے اور اس کے دھوئیں سے عورتوں کو جو پریشانیاں ہوتی ہیں اسے اس کا احساس بھی تھا، وہ لکھتا ہے

’’شام کے وقت جب کسی کام کے لیے کچھ دور جانا پڑتا ہے تو حقیقت میں کمال دقت ہوتی ہے کیونکہ اس وقت عوام الناس اپنا اپنا کھانا پکاتے ہیں اور اکثر اپلے اونٹوں کی مینگنیاں اور گیلی لکڑیاں جلاتے ہیں اور ان کے بے حد و شمار چولھوں کا دھواں، خصوصاً جب کہ ہوا کم ہو، نہایت مکروہ اور ناگوار ہوتا ہے اور آسمان بالکل تیرہ  و تار ہوجاتا ہے، چنانچہ میں بھی تین چار بار اس دھوئیں کے سمندر میں پھنس گیا تھا اور ہر چند راستہ دریافت کرتا تھا مگر نہیں ملتاتھا اور اگرچہ ادھر ادھر بہت سا چکراتا پھرا مگر کچھ معلوم نہ ہوتا تھا کہ کدھر جاتا ہوں۔‘‘ 5؎

آم اور خربوزے کے بارے میں لکھتا ہے

’’گرمی کے موسم میں دیسی خربوزہ بہت سستا ہوتا ہے لیکن زیادہ لذیذ نہیں ہوتا اور بجز اس کے کہ ایران سے  بیج منگوا کر ایک اچھی اور کمائی ہوئی زمین میں بویا جائے جیسا کہ امرا اکثر کرتے ہیں، عمدہ میسر نہیں آتا مگر اس پر بھی اچھا اور عمدہ خربوزہ کمیاب ہے کیونکہ یہاں کی زمین موافق نہیں ہے اور ایک سال کے بعد یہ تخم بھی بگڑ جاتا ہے۔

گرمی کے موسم میں آم دومہینے تک رہتے ہیں اور بہت کثرت سے اور سستے ملتے ہیں لیکن دہلی میں جو آم پیدا ہوتا ہے وہ نہ توکچھ اچھا ہے اور نہ کچھ برا اور سب سے عمدہ آم بنگالہ، گولکنڈا اور گوا سے آتا ہے جو فی الواقع نہایت عمدہ ہوتا ہے اور کوئی مٹھائی اس کی شیرینی اور خوشبو کو نہیں پہنچتی، تربوزہ سال بھر رہتا ہے لیکن دہلی میں جو پیدا ہوتا ہے وہ نرم اور بے مزہ ہے اور رنگت بھی اچھی نہیں ہوتی البتہ کبھی کبھی امرا کے ہاں اچھا کھانے میں آتا ہے  جو باہر سے بیج منگوا کر بڑی احتیاط سے خرچ بواتے ہیں۔‘‘ 6؎

برنیئر نے شاہجہاں اور اورنگ زیب کے دور میں آگرہ، دہلی کے لوگوں کی طرز رہائش اور بود و باش کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ اس کے عینی مشاہدے اور تجربے پر مبنی ہے۔ برنیئر کبھی ہندوستان کے موسم سے حیران و پریشان ہے اور گرمی کی شدت اور برسات کی کثرت کا ذکر بہت کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہاں مکانات بھی زیادہ نہیں ہوتے جس سے ان موسموں میں راحت مل سکے۔ البتہ منصب داروں، حکام، دولت مند تاجروں کے مکانات بہت اچھے ہوتے ہیں، لیکن اکثر لوگوں کے مکان کچے ہوتے ہیں، اس سے ان کی زبوں حالی عیاں ہوتی ہے، اور بانس اور لکڑی سے بنے ہوئے مکانات کو دیکھ کر حیرت واستعجاب میں پڑجاتا ہے، اس سیاح کی خوبی یہ ہے کہ اس نے تمام چیزوں کا مشاہدہ باریک بینی سے کیا ہے اور جن چیزوں کو دیکھ کر اسے کوفت ہوتی ہے اس پر اپنا ردعمل بھی ظاہر کرنے میں تامل نہیں کرتا ہے، آگ لگنے، اور بارش سے کثیر تعداد میں مکانوں کے مسمار ہوجانے پر افسوس کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن جو مکانات اچھے، مضبوط اور خوبصورت ہیں ان مکانات کی تعمیری خوبیوں کو اجاگر بھی کرتا ہے۔ برنیئر لکھتا ہے

’’اچھے گھروں میں نشست کا یہ طریقہ ہے کہ فرش کے اوپر روئی کا ایک بھاری اور قریب چار انگل کے موٹا گدیلا بچھا رہتا ہے جس پر گرمی کے دنو ںمیں عمدہ سفید کپڑا (چاندنی) اور جاڑوں میں ریشمی قالین بچھاتے ہیں اور دالا ن کے صدر میں ایک  یا دو گدیلے بچھے رہتے ہیں جن پر ریشم کے ہلکے کام کی سوزنی جس پر سنہری اور روپہلی زری کی دھاریاں بنی ہوئی ہوتی ہیں، پڑی رہتی ہیں اور صاحب خانہ اور معزز ممتاز لوگ ملاقات کو آتے ہیں اس پر بیٹھتے ہیں اور ہر ایک گدیلے پر کمخاب کا ایک گاؤ تکیہ بھی لگا رہتا ہے او راس کے علاوہ اہل مجلس کے آرام کے لیے دالان کے گرد اگرو کمخاب اور مخمل اور پھولدار ریشمین کپڑے کے غلافوں کے چند اور تکیے بھی لگے رہتے ہیں اور دالان کے چاروں طرف جو زمین سے قریب دو یا ڈیڑھ گز اونچے ہیئت معقول اور بہ قرینہ مختلف شکل کے طاق بنے ہوئے ہوتے ہیں۔‘‘7؎

برنیئر دہلی کے بازاروں میں بکنے والی چیزوں کا جب ذکر کرتا ہے تو تمام جزئیات کو سمیٹنے کی کوشش کرتا ہے۔ مختلف طرح کی چپاتیوں کا نام بھی گنواتا ہے اور گوشت کے بارے میں لکھتا ہے کہ دہلی کے بازاروں میں بکریوں کا جو گوشت بکتا ہے وہ بہت سخت ہوتا ہے اور صبح کا گوشت شام تک نہیں رکھا جاسکتا ہے۔ یہ قصائی اتنے ہوشیار ہوتے ہیں کہ بکری کا گوشت بتا کر بھیڑ کا گوشت فروخت کرتے ہیں اور برنیئر کو دہلی کی روٹی اور گوشت کی ہمیشہ شکایت رہی ہے۔ برنیئر کا طنزیہ لہجہ بھی سفرنامے میں حاوی ہے۔ اس کی بے باکی کا اندازہ اس اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے

’’خصی مرغ دہلی میں بالکل نہیں دکھائی دیتا کیونکہ اس ملک کے لوگ جانوروں پر عموماً رحم کرتے ہیں، اگرچہ انسانوں پر رحم نہیں کرتے جن کو محل سرا کے کام کے لیے خوجا بناتے ہیں، لیکن پرند جانور کثرت سے بازار میں بکتے ہیں اور اچھے اور سستے بھی ہیں، چنانچہ ایک چھوٹی قسم کی مرغی جس کا چمڑہ سیاہ ہوتا ہے اور جس کا نام میں نے ’حبشی‘ رکھا ہے وہ بھی بکتی ہے۔ کبوتر بھی ملتے ہیں مگر بچے نہیں ملتے کیونکہ ہندوستان کے لوگ بچو ںکو مار ڈالنا بے رحمی کا کام سمجھتے ہیں۔ تیتر بھی ملتے ہیں مگر ہمارے ملک کے تیتر سے چھوٹے ہوتے ہیں اور اس سبب سے جال سے پکڑ کر دور سے زندہ لاتے ہیں، ایسے اچھے نہیں ہوتے جیسے کہ اور پرندے ہوتے ہیں۔ یہی کیفیت مرغابیوں اور خرگوشوں کی ہے جو زندہ پکڑے جاکر پنجرے کے پنجرے بھرے ہوئے شہر میں آتے ہیں۔ دہلی کے نواح کے ماہی گیر اپنے پیشے میں ہوشیار نہیں ہیں لیکن بعض اوقات اچھی مچھلی بھی بکتی ہے، خصوصاً ’سنگھاڑا‘ اور ’راہو‘ جو اپنے یہاں کی پالک اور کارپ کی شکل ہوتی ہیں۔‘‘ 8؎

ہندوستان کے تعلق سے برنیئر کا تاثر تھا کہ ہندوستان میں تمام خوشحالی، صرف دولت مندوں کو ہی میسر ہے۔ یہاں سماجی برابری نہیں ہے، تمام سکون و آرام امیروں کے لیے ہی مختص ہیں، غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ برنیئر نے اپنے اس مشاہدے کو بہت ہی بے باکی سے بیان کیا ہے

’’اب میرا بیان سن کر آپ غور فرما سکتے ہیں کہ کیا کوئی خوش خور شخص پیرس کو چھو ڑکر دہلی کی سیر کو خوشی سے آئے گا؟ بے شک امیروں اور دولت مند لوگوں کو ہر ایک شے میسر ہے لیکن یہ صرف ان کے ملازموں کی کثرت اور کوڑے اور روپیہ کے باعث سے ہے۔ دہلی میں متوسط الحال شخص کوئی نہیں ہے اور یا تو بڑے بڑے عالی رتبہ لوگ ہیں یا ایسے ہیں جن کی زندگی مصیبت سے بسر ہوتی ہے۔‘‘ 9؎

برنیئر نے ہندوستان کے مختلف طرح کے لوگوں سے ملنے کی کوشش کی ہے اس سے اس کو ہندوستان کی سماجی زندگی کو سمجھنے میں بہت سہولت ہوئی، برنیئر نے یہاں کے لوگوں کی مذہبی، سیاسی مجلسوں میں بھی شرکت کی۔ میلوں ٹھیلوں کی سیر کی، جوگیوں اور فقیروں سے ملنے میں تامل نہیں کیا اور پنڈتوں سے ملاقاتیں کیں، اور ان کی مذہبی زندگی کے بارے میں جاننے کی کوشش کی اور یہاں ہندو عورتوں کو ’ستی‘ ہوتے دیکھا اور شاہی دربار میں بحیثیت طبیب شہزادیوں کے پاس جانے کا بھی اتفاق ہوا، غرضیکہ اس سیاح نے، جہاں تک رسائی ہوئی وہاں تک جانے کی کوشش کی اور سفرنامے میں تمام چیزوں کو بے باکی سے بیان کرنے کی جرأت کی اور جو چیزیں اس کو ناپسند آئیں اس پر اپنا ردعمل ظاہر کرنے میں تامل نہیں کیا ہے اور جن چیزوں کو پسند کیا اس کی دل کھول کر تعریف بھی کی ہے۔ برنیئر سترہویں صدی کا ایسا سیاح تھا جس نے اپنی قومی برتری سے کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ اس کے باوجود اس نے ہندوستان کی تاریخ و تہذیب اور یہاں کی معاشرتی زندگی کے احوال کے بیان میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، یہ اس سیاح کی خوبی ہے۔

ڈاکٹر برنیئر دوراندیش اور ذی فہم سیاح تھا۔ مغل دور میں رعایا بادشاہ کے سامنے کس طرح پیش ہوتی ہے اور ان کے بیٹھنے اٹھنے کا طریقہ کیا ہے، بادشاہ کی تعظیم و تکریم کے مخصوص طریقے کیا تھے۔ اس نے تمام چیزوں کا مشاہدہ بہت باریک بینی سے کیا ہے اور اپنے اس مشاہدے کو ان الفاظ میں لکھتا ہے

’’لیکن تاہم مناسب طور پر ان کا استقبال اور خاطر تواضع عمل میں آئی چونکہ اس روز دربار میں میں بذات خود موجود تھا اس لیے ہر ایک بات کو صحیح طور پر بیان کرسکتا ہوں۔ چنانچہ میں نے دیکھا کہ انھوں نے دربار ہندوستان کی رسم ادب کے موافق کسی قدر فاصلہ سے بادشاہ کو سلام کیا یعنی سر جھکا کر اور تین دفعہ اپنے ہاتھ زمین تک لے جاکر اور پھر پیشانی تک لاکر تین بار سلام کیا اور اس کے بعد اگرچہ وہ اس قدر نزدیک پہنچ گئے کہ اورنگ زیب خود ان کے ہاتھ سے خریطے لے سکتا تھا لیکن یہ رسم ایک امیر کی معرفت ادا ہوئی، یعنی اس نے ان سے لے کر کھولے اور پھر بادشاہ کو دیے۔‘‘10؎

برنیئر نے سفرنامے میں یہاں کی تعلیمی صورت حال کا ذکر بھی کیا ہے اور ہندوستان کی تعلیمی صورت حال پر عدم اطمینان ظاہر کیا ہے۔ برنیئر کا ماننا ہے کہ یہ ملک تعلیمی میدان میں بہت پیچھے ہے اور تعلیم و تعلم میں امرا و رؤسا کی کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔اس کا ماننا ہے کہ یہاں سنسکرت کی پڑھائی ہوتی ہے کیونکہ ہندو پنڈتوں کو سنسکرت زبان سیکھنے میں زیادہ دلچسپی ہے۔

سنسکرت زبان میں کثرت سے فلسفہ و طب کی کتابیں موجود ہیں اور اس کا مرکز بنارس ہے، جہاں سنسکرت زبان میں مختلف موضوعات میں کتابیں دستیاب ہیں۔ وہ شہر بنارس کے پنڈتوں کی سماجی زندگی، طرز رہائش، بود وباش اور تعلیم و تعلم کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کرتا ہے

’’یہاں برہمن اور پنڈت ہر ملک سے آتے رہتے ہیں اور صرف یہی لوگ ہیں جو اپنے اوقات تحصیل علوم اور مطالعے میں صرف کرتے ہیں۔ اس شہر میں ہماری یونیورسٹیوں کی طرح کوئی کالج یا باقاعدہ جماعتیں نہیں ہیں بلکہ قدیم زمانے کے مکتبوں کی سی حالت ہے۔ استاد یعنی پنڈت شہر کے مختلف حصوں میں اپنے اپنے گھروں اور خصوصاً شہر کے باہر باغوں میں، جہاں رہنے کی بڑے بڑے ساہوکاروں نے ان کو اجازت دے رکھی ہے، رہتے ہیں۔ بعض کے پاس چار شاگرد ہوتے ہیں، بعض کے پاس چھ سات اور جو بڑا ہی فاضل پنڈت ہو، اس کے پاس بارہ یا پندرہ۔ مگر اس سے بڑھ کر تعداد نہیں ہوتی ہے۔‘‘ 11؎

برنیئر نے اس سفرنامے میں ہندوستان میںرائج تعلیم کے مختلف شعبوں کا ذکر کرنے کے ساتھ ساتھ یہاں کی زبان کی قدامت، پرانوں کی تعلیم، ویدوں کی ضخامت، فلسفے کی تعلیم، بدھ مت کی تعلیم غرضیکہ ہندوستان کے ثقافتی کارناموں پر سیرحاصل گفتگو کی ہے اور اس کا ماننا ہے کہ ہندوستانیوں کا طریقہ علاج فرانس سے کس قدر مختلف ہے۔ وہ  اس کا بھی موازنہ اپنے ملک (فرانس) سے کرتا ہے۔

برنیئر نے ہندوستانیوں کی تہذیبی و تمدنی زندگی کے تمام نکات پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ برنیئر نے ہندوستانیوں کے مذہبی افکار کو بیان کرنے میں جانبداری سے کام لیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ جس دور میں برنیئر ہندوستان آیا یہاں شاہجہاں اور اورنگ زیب کی حکومت تھی لیکن اس سیاح نے پھر بھی مسلمانوں کی مذہبی و تہذیبی زندگی کا بیان کم کیا ہے، مسلمانوں کے مذہبی رسوم و عقائد کا بیان صرف درباروں کے تعلق سے کیا ہے۔ برنیئر نے اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ یہاں کے ہندو سورج، چاند، ستاروں کی پوجا کیوں کرتے ہیں اور وہ پنڈتوں سے اکثر ان کی مذہبی زندگی کے رموز و نکات کے جاننے کی کوشش کرتا ہے، برنیئر جب ایک پنڈت سے ملاقات کرتا ہے اور مورتیوں کی پوجا کرنے کے اسباب جاننا چاہتا ہے۔ وہ اس تعلق سے ایک پنڈت کے بیان کو اس طرح نقل کرتا ہے

’’ہمارے مندروں میں مورتیں اس لیے رکھی جاتی ہیں کہ دل کو قائم رکھنے کے واسطے جب تک نظر کو کسی خاص چیز پر رکھ کر نہ جمایا جائے تب تک پوجا عمدہ طور سے نہیں ہوسکتی، لیکن حقیقت میں اعتقاد ہمارا یہی ہے کہ خدا صرف وہی ایک ذات مطلق ہے اور صرف وہی سب کا مالک اور سب سے بڑھ کر ہے، پنڈتوں نے جو جواب مجھے دیا میں نے اس کو کم زیادہ کرکے نہیں لکھا ہے...‘‘ 12؎

برنیئر نے اس ملک کی علمی صورت حال کو دیکھ کر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اس کا ماننا ہے اس ملک میں جہالت پھیلی ہوئی ہے اور یہاں اچھے اداروں کو قائم کرنا بھی مشکل ہے اور نہ ہی ایسے فعال لوگ ہی ہیں، جو مدرسے و کالج قائم کریں، برنیئر یہ بھی لکھتا ہے کہ اگر ادارے کسی طرح قائم بھی کردیے جائیں تو یہاں کے اکثر لوگوں کی معاشی و اقتصادی حالت بہت کمزور ہے۔ وہ اپنے بچوں کا تعلیمی خرچ برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔ برنیئر کا ماننا ہے کہ ایسا کوئی شخص بھی نہیں ہے کہ ان مسائل کو حل کرنے کی پیش قدمی کرے۔ یہ حقیقت ہے کہ مغل دور حکومت میں یہاں کی تعلیمی صورت حال ناگفتہ بہ تھی۔

برنیئر نے ہندوستان کے قیام کے دوران زیادہ وقت شاہی درباروں میں گزارا اس لیے اس سفرنامے میں امرا اور ان کی بیگمات کے رہن سہن اور طور طریقوں کے تعلق سے زیادہ اظہار خیال کیا ہے۔ شاہی دربا رکے تعلق سے اپنے تاثرات مختلف موقعوں پر مختلف طرح دیا ہے اور وہ قلعے اور دربار سے منسلک ہونے والے لوگوں کی بے حد خوش آمدی، تملق اور غیرضروری تعریف و توصیف پر حیرت و استعجاب میں پڑجاتا ہے۔ برنیئر کا کہنا ہے کہ دربار سے وابستہ لوگوں کی سرشت میں داخل ہے کہ وہ ہر کس و ناکس کی مدح سرائی کرتے رہتے ہیں اور چاپلوسی کی انتہا یہاں تک بڑھ جاتی ہے کہ جب ہم کسی کے علاج کے لیے جاتے ہیں تو لوگ ہم کو بھی اپنے وقت کا ارسطو کہتے ہیں

’’اگر بادشاہ رات کو دن بتائے تو کہہ دینا چاہے کہ دیکھیے وہ چاند ستارے نظر آرہے ہیں اور یہ خوش آمد گری کا عیب کیا ادنیٰ کیا  اعلیٰ سب ہی موجود ہے۔‘‘ 13؎

برنیئر نے اس ملک کے شادی بیاہ کے رسم و رواج کے بارے میں لکھا ہے کہ یہاں کے لوگ ذات پات، مذہب، دھرم کے علاوہ اپنے پیشے کے افراد سے ہی شادی بیاہ رچاتے ہیں اور دوسرے پیشے کے لوگوں کے یہاں شادی نہیں کی جاتی ہے۔ برنیئر کا بیان ہے کہ شادی بیاہ کے رسم میں مسلمانوں نے بھی اسی نہج کو اپنایا ہے اور ان کے یہاں بھی ذات پات کا بہت زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔ برنیئر کا ماننا ہے کہ اس کی وجہ سے سماج میں بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں جس کا ہم کو احساس تک نہیں ہوتا ہے۔ اس ذات پات اور اپنے پیشے میں مقید ہونے کی وجہ سے بہت سی خوبصورت لڑکیاں بھی کنواری رہ جاتی ہیں۔ برنیئر کا ماننا ہے کہ اگر ان کے والدین ان تمام غلط رسوم کو ترک کردیں تو ان کی شادیوں میں کوئی دشواری لاحق نہیں ہوگی۔

برنیئر نے اپنے سفرنامے میں زیادہ تر جگہوں پر شاہی دربار کی زندگی کے احوال کو بیان کیا ہے۔ قلعے کی زندگی کے بارے میں تفصیل سے لکھنے کی کوشش کی ہے۔ برنیئر کا کمال یہ ہے کہ اس نے اپنے ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر تمام اشیا کا تدکرہ بے باکی سے کیا ہے۔ اس کو جو کچھ خواجہ سرا، شاہی ملازمین سے معلوم ہوا اس کو بھی بے کم و کاست ہمارے سامنے رکھ دیا ہے۔ برنیئر ایک طبیب تھا اس لیے اسے بیگمات کے علاج کی غرض سے محل سرا کے اندر جانے کی بھی اجازت مل جاتی تھی، لیکن برنیئر کو محل سرا میں اس طرح لے جایا جاتاتھا کہ وہ تمام چیزوں کا مشاہدہ نہیں کرسکتا تھا۔ برنیئر کا بیان ہے کہ ایک بیگم کے محل میں جانے کی جو اجازت ملی تو میرے اوپر کشمیری شال ڈال دی گئی۔ اندر محلوں کے حالات بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ شاہی محل کے مشاہدے کے تعلق سے اپنی دیانت داری کا ثبوت دیتے ہوئے لکھا ہے کہ

’’...ایک دفعہ ایک بڑی بیگم کے علاج کی ضرورت سے جو شدت مرض کی وجہ سے معمول کے موافق بابر کے دروازہ تک نہیںلائی جاسکتی تھی بہت دور تک اندر جانے کا اتفاق ہوا مگر میرے سر پر کشمیری شال اس طور پر اوڑھا دی گئی تھی کہ ایک لمبے اسکارف (اوڑھنی) کی طرح پاؤں تک لٹکتی تھی اور ایک خواجہ سرا ہاتھ پکڑے مجھے اس طرح لے گیا تھا جیسے کوئی اندھے کو لیے جاتا ہے۔ اس لیے آپ کو صرف اس پر قناعت کرنی چاہیے جو بعض خواجہ سراؤں سے سن کر میں نے لکھا ہے۔‘‘ 14؎

برنیئر نے محل سرا کے اندرونی حالات کا تذکرہ جو سفرنامے میں کیا ہے۔ وہ خواجہ سرا سے سن کر کیا ہے۔ علاوہ بریں اس نے لال قلعے کے دروازے، وہا ںکی قابل ذکر چیزیں، ہاتھی، چبوترے، شاہی محل سرا، دربار، تحت طاؤس، مینابازار وغیرہ کا بیان دلچسپ پیرائے میں کیا ہے۔ برنیئر کا بیان ہے کہ خوبصورت حسیناؤں کے لیے مینابازار لگتا ہے جس میں امرا آتے ہیں اور یہاں بڑے بڑے منصب داروں کی حسین و جمیل لڑکیاں بیگمات کی دکانیں لگائی جاتی ہیں اور امرا ان سے گفت و شنید کرتے ہیں۔ برنیئر شاہجہاں کے دور میں مینابازار کے تعلق سے رقمطراز ہے

’’کبھی کبھی ان جشنوں کے وقت محل سرا میں ایک فرضی بازار بھی لگا کرتا ہے جس میںامرا اور بڑے بڑے منصب داروں کی خوبصورت اور دلربا بیبیاں دکانیں لگا کر بیٹھتی اور عمدہ کم خطاب اور نئی نئی وضع اور عمدہ زردوزی کام کی چیزیں اور زری کار مندیلیں اور سفید باریک کپڑے جو امیرزادیوں کے استعمال میں آتے ہیں اور بیش قیمت چیزیں فروخت کرنے کو رکھتی ہیں اور بادشاہ اور اس کی بیگمیں اور شہزادیاں اور عالی رتبہ خاتونیں خریدار بنتی ہیں اور اگر کسی امیر کی بیٹی خوبصورت اور حسین ہوتی ہے تو اس کو ضرور اپنے ساتھ لے جاتی ہے تاکہ بادشاہ کی نظر پڑجائے اور بیگمات سے بھی تعارف ہوجائے۔ اس میلے کا بڑا لطف یہ ہے کہ ہنسی اور مذاق کے طور خود بادشاہ ایک ایک پیسہ کے لیے جھگڑتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ بیگم صاحبہ بہت گراں فروش ہیں۔ دوسری جگہ اس سے اچھی اور سستی چیز مل سکتی ہے، ہم ایک کوڑی  بھی زیادہ نہ دیں گے۔ ادھر وہ کوشش کرتی ہے کہ اپنا مال زیادہ قیمت کو بیچے ... غرضیکہ دونوں طرف سے ایسی گفتگو بڑھ جاتی ہے کہ ایک جھگڑے کا سوانگ سا معلوم ہوتا ہے مگرآخرکار سودا طے ہوجاتا ہے اور بادشاہ اور بادشاہ زادیاں اور بیگمیں جو چیزیں ادھر ادھر سے خریدتی ہیں، کی قیمت فوراً دے دیتی ہیں اور روپیوں کی جگہ اشرفیاں اس طور سے ہاتھ سے ڈال دیتی ہیں کہ گویا دکاندار یا اس کی بیٹی کے حسن و جمال نے ان کو ایسا محو کردیا ہے کہ روپیوں اور اشرفیوں کی تمیز ہی نہیں رہی اور ویسی ہی بے پروائی سے دکاندار ان کو اٹھا لیتی ہے اور اس طرح سے یہ جلسہ دل لگی اور چوہل میں ختم ہوجاتا ہے۔‘‘ 15؎

برنیئر دربار عام و خاص ،عمدہ عمارت، عالیشان مکانات، چاروں طرف سے محرابیں اور نقارخانے کا ذکرکرتے ہوئے لکھتا ہے کہ پیتل کا سب سے چھوٹا نقارہ کم سے کم چھ فٹ کا ہوتا ہے ،اور نقارخانہ میں بہت زیادہ شور ہوتا ہے اور یہ شاہی محل سے کچھ دور پر رہتا ہے، برنیئر دہلی کی جامع مسجد کی خوبصورتی کو تسلیم کرتا ہے، جامع مسجد کے حسن و جمال اور محل وقوع پر فریفتہ ہوجاتا ہے۔ یہاں وہ قومی برتری کا شکار نہیں ہے بلکہ احساس کمتری میں مبتلا نظر آتا ہے اور امید ظاہر کرتا ہے کہ اس کے ملک (فرانس) میں بھی اس طرح کی کوئی عبادت گاہ تعمیر کی جائے۔

برنیئر نے ہندوستان میں بارہ سال کے قیام کے دوران مختلف شہروں کو دیکھا لیکن اس سیاح کو یہاں کا کوئی شہر نہیں بھایا اور نہ ہی اس سے متاثر ہوا۔ اور نہ ہی کسی شہر کے دلکش مناظر کی کھل کر تعریف کی۔ برنیئر کو صرف کشمیر نے مسحو رکیا۔ اس نے اسی شہر کی خوبصورتی اور اس کے دلکش اور حسین مناظر کی دل کھول کر داد دی ہے، کشمیر پہنچ کر اس کی خوبصورتی کا دلدادہ ہوگیا تھا اور لکھتا ہے کہ کشمیر کی خوبصورتی، تصورات و تخیلات سے بالاتر ہے اور دنیا کا کوئی حصہ اس کی خوبیوں کو نہیں پہنچ سکتا ہے اور اس کی خوبصورتی دنیا میں بے نظیر ہے

’’حقیقت یہ ہے کہ اس کی سیر سے پہلے اس کی خوبصورتی اور خوشنمائی کی نسبت جس قدر اعلیٰ سے اعلیٰ میرے تخیلات اور تصورات تھے، ان سب سے یہ سبقت اور فوقیت رکھتا ہے اور غالباً تمام دنیا میں بے نظیر ہے اور کوئی دوسرا ملک جس کا طول و عرض اتنا ہی ہو اس کی خوبیوں کو نہیں پہنچتا اور حق یہ ہے کہ ہونا بھی ایسا ہی چاہیے کیونکہ اگلے زمانے میں یہ عجوبہ روزگار بڑے بڑے اولوالعزم راجاؤں کا تخت گاہ تھا۔ اور تمام گرد و نواح کے کوہستان بلکہ تاتار اور کل ہندوستان جزیرۂ سراندیپ تک اس کی حکومت میں داخل تھا اور یہ بات کچھ خلافِ قیاس نہیں ہے کہ سلاطین مغلیہ اس کو بہشت ہند (یعنی کشمیر جنت نظیر) کہتے ہیں۔‘‘ 16؎

برنیئر نے ہندوستان کے مختلف علاقوں، شہروں یہاں کی بود و باش یہاں کے لوگوں کے طرز زندگی، نیز ہندوستانیوں کی تہذیبی و تمدنی ، سیاسی و سماجی، معاشی و معاشرتی زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور جو محسوس کیا اس کا اظہار بھی بے باکی سے کیا ہے۔ اس نے تمام اشیا کا مشاہدہ بہت باریک بینی سے کیا ہے۔ اس کا مشاہدہ  امرا کی محفلوں تک محدود نہیں ہے۔ وہ نان بائیوں کی دکانوں تک گیا۔ ہندوؤں کے عقائد، رسم و رواج، اور سورج گرہن وغیرہ پر اپنے تاثرات کا اظہار بھی کیا۔ شہر بنارس میں پہنچ کر وہاں کے پنڈتوں، فقیروں سے ملاقات کرکے ان کے مذہبی عقائد کی تہہ تک جاننے کی کوشش کی۔ غرضیکہ ہندوستان کی سماجی و تہذیبی و ثقافتی زندگی کی تمام جزئیات کو سمیٹنے کی پیہم کوشش کی۔ وہ خود اس بات کا اعتراف کرتا ہے اور پلوٹارک کے اس قول پر عمل کیا

’’… اور معمولی باتوں کو معلوم کرنا اور لکھنا چاہیے کیونکہ اس سے ایک کے ذہن اور اس کی عادت کے متعلق رائے قائم کرنے میں زیادہ مدد ملتی ہے۔‘‘

اس سیاح نے پلوٹارک کے اس قول کو عملی جامہ پہنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے، ڈاکٹر برنیئر نے اس سفرنامے میں شاہجہاں اور اورنگ زیب کے عہد کے سیاسی، سماجی، تہذیبی، ثقافتی و تاریخی حالات کا جائزہ ایک محقق کی حیثیت سے بھی لیا ہے۔ برنیئر کا ہندوستان کو دیکھنے کا نظریہ دوسرے سیاحوں سے الگ رہا ہے، اور یہی اس سیاح کی خوبی بھی ہے اور خامی بھی اور اس کی انفرادیت بھی، جو اسے دوسرے سیاحوں سے منفرد کرتی ہے۔

اس سیاح کی قومی برتری سے صرف نظر کریں تو اندازہ ہوگا کہ برنیئر اپنے عہد کے ان تمام غیر ملکی سیاحوں سے بالکل منفرد ہے، برنیئر کے زمانے کے اکثر سفرنامے بالخصوص عیسائی مشنریوں کے سفرناموں میں تعصبات کی گہری چھاپ ہے۔ ظاہر ہے ان سیاحوں کا خالص مقصد عیسائیت کو پورے ہندوستان میں فروغ دینا تھا اس لیے ان کا متعصبانہ رویہ بالکل واضح تھا۔ برنیئر ایک آزاد خیال، دوراندیش سیاح تھا۔ اس کی سوچ و فکر دیگر یورپی سیاحوں سے خاصی مختلف تھی۔ خلیق احمد نظامی نے اس سیاح کی آزاد خیالی اور فکری وسعت کے بارے میں لکھا ہے کہ

’’قومی برتری کے اس احساس سے قطع نظر برنیئر بہت سے ان تعصبات سے پاک تھا جن سے اس دور کے اکثر عیسائی مشنریوں کے سفرنامے آلودہ نظر آتے ہیں۔ وجہ یہ نہ تھی کہ عیسائیت یا اس کی ترویج و اشاعت میں وہ کوئی دلچسپی نہ رکھتا تھا۔ اپنے ہم مذہبوں کی طرح وہ بھی عیسائیت کو ہندوستان میں ترقی کرتے ہوئے دیکھنا چاہتا تھا لیکن اس کی فلسفیانہ تربیت نے اس میں وہ وسعت نظر اور آزاد خیالی پیدا کردی تھی جو ہر متعصبانہ حرکت پر برہم ہوجاتی تھی۔‘‘ 17؎

برنیئر فرانسیسی سیاحوں میں غالباً سب سے ذہین اور دوراندیش سیاح تھا۔ اس نے اس دور کے مغل عہد کے مذہبی، تہذیبی، تمدنی، معاشرتی، علمی و ثقافتی غرضیکہ تمام پہلو کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے، اس کے سفرنامے کے مطالعے سے ایک چیز جو کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ برنیئر نے بہت سے واقعات کا بیان عینی مشاہدے پر نہ کرکے سنی سنائی باتوں پرکیا ہے، جس سے سفرنامے کی صداقت پر ضرب پڑتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہر سنا ہوا واقعہ حقیقت پر مبنی نہیں ہوسکتا ہے۔ اس امر کی طرف بھی اشارہ کرنا ضروری ہے کہ اس سیاح کا تعلق زیادہ تر دربار سے رہا ہے، اس لیے دربار کے تعلق سے جو چیزیں سمجھ میں نہیںآئی تھیں اس کو دریافت کرنے کی بھی کوشش کی ہے۔ یہ سفرنامہ صرف ہندوستان کی تہذیب و معاشرت کا عکاس ہی نہیں ہے بلکہ اس میں برنیئر کا ردِّعمل بھی بے حد تلخ ہے اور اس نے ہندوستان کی تہذیب و معاشرت کو تیز چھری سے کاٹنے کی کوشش بھی کی ہے، اس کا طنزیہ لب و لہجہ اس کے بیان میں پنہاں ہے۔ ان تمام خوبیوں اور خامیوں کے باوجود اس سفرنامے میں مغل عہد کی تہذیب و معاشرت کی ایک دلچسپ اور پرکشش تصویر ابھرتی ہے۔

 

حواشی

  1.       برنیئر کا سفرنامہ ہند العہد شاہجہاں اورنگ زیب عالم گیر، مصنف ڈاکٹر فرانسس برنیئر، … حواشی خلیفہ سید محمد حسین، اشاعت اجالا پرنٹرز لاہور، سنہ اشاعت 2000، ص 134
  2.       ایضاً، ص 141
  3.       ایضاً، ص 65 
  4.       ایضاً،  ص 297-98
  5.       ایضاً، ص 310
  6.       ایضاً، ص 436-37
  7.      ایضاً، ص 435
  8.       ایضاً، ص 438
  9.       ایضاً، ص 438
  10.     ایضاً، ص 152
  11.     ایضاً، ص 414-15
  12.     ایضاً، ص 423
  13.     ایضاً، ص 447
  14.     ایضاً، ص 448-49
  15.     ایضاً، ص 451-52
  16.     ایضاً، ص 338
  17.     ایضاً، ص 30


Dr. Sayeed Ahmad

Assistant Professor, Dept of Urdu
Aliah University, Park circus Campus
Kolkata - 14 (West Bengal)
Mob.: 8448370353
Email.: sayeed@aliah.ac.in

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

فاصلاتی تعلیم آج کی ضرورت، مضمون نگار: محمد فیروز عالم

  اردو دنیا،دسمبر 2024 فاصلاتی تعلیم، تعلیم کا ایک ایسا شعبہ ہے جو درس و تدریس، ٹکنالوجی، اور تدریسی نظام کی ساخت   پر توجہ مرکوز کرتا ہے او...