16/1/19

بلونت سنگھ: رومان سے لے کر حقیقت نگاری تک کاسفر مضمون نگار:۔ ثاقب انور




بلونت سنگھ:

 رومان سے لے کر حقیقت نگاری تک کاسفر

ثاقب انور

اردو افسانہ نگاری میں بلونت سنگھ کا نام بہت احترام سے لیا جاتا ہے۔ وہ جون 1921 میں پیدا ہوئے اور 27 مئی 1986 کو ان کی وفات ہوئی۔ انھوں نے اگرچہ فکشن کی مختلف قسموں میں اپنی یادگاریں چھوڑی ہیں لیکن جس صنف سے ان کے ادبی سفر کا آغاز ہوا وہ صنف افسانہ ہے۔ بلونت سنگھ کی پہلی کہانی ’سزا‘ 1937میں ماہنامہ ’ساقی‘ میں شائع ہوئی اور بعد میں ’ڈنڈ‘ کے عنوان سے ہندی میں چھپی۔ اس کے بعد سے وہ اپنی زندگی کے آخری ایام تک ہندی اور اردو میں مسلسل لکھتے رہے اور شائع ہوتے رہے۔ ’جگا‘، ’پہلا پتھر‘،تاروپود، سنہرا دیس، ہندوستان ہمارا، افسانے، پنجاب کی کہانیاں، ’چلمن ‘ اور ’دیوتا کا جنم‘ ان کے مشہور افسانوی مجموعے ہیں۔ 
یہ صحیح ہے کہ بلونت سنگھ کی تمام کہانیاں اعلیٰ درجے کی نہیں لیکن انھوں نے چند ایسے افسانے یقینالکھے ہیں جو اردو افسانوں کے کسی سخت سے سخت انتخاب میں بھی جگہ پانے کے مستحق ہیں۔
بلونت سنگھ نے دیہات کی زندگی کا مطالعہ اور مشاہدہ بہت گہرائی سے کیا ہے اور اسے اپنے افسانوں میں اس طرح پیش کیا ہے کہ دیہاتی زندگی اپنے تمام رنگوں کے ساتھ آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔ 
بلونت سنگھ کے افسانوں کا دیہات پنجاب سے تعلق رکھتا ہے۔ یوں تو پنجاب سے تعلق رکھنے والے پہلے افسانہ نگار سدرشن تھے لیکن پریم چند سے متاثر ہونے کی وجہ سے پنجاب کی زمین کو وہ اپنے افسانوں میں کوئی جگہ نہ دے پائے۔ اس کی ابتدا اوپندر ناتھ اشک نے کی۔ کرشن چند ر نے بھی پنجاب کی دیہاتی زندگی پر افسانے لکھے، لیکن انھوں نے اپنی پوری توجہ اس طرف صرف نہیں کی۔ اس کے بعد احمد ندیم قاسمی نے کسی حد تک اس میدان میں کامیابی حاصل کی۔ انھوں نے پنجاب کے پس ماندہ طبقے کی مجبوریوں، محرومیوں، جہالت، مفلسی، سماجی نابرابری اور جدو جہد آزادی جیسے متعدد موضوعات پر افسانے لکھے، پنجاب کی تہذیب و ثقافت اور رسم و رواج کو بیان کیا، فسادات کے موضوع پر بھی قلم اٹھایا اور دیہی زندگی کی سچی تصویر بھی پیش کی۔ پنجاب کی زندگی کو افسانوں میں آئینہ کرنے کے حوالے سے بلونت سنگھ کا موازنہ با لعموم احمد ندیم قاسمی سے کیا جا سکتا ہے مگر جیسا کہ عابد حسن منٹو نے لکھا ہے: 
’’ قاسمی اور بلونت سنگھ کی کہانیوں کے پنجاب میں ایک بنیادی فرق ہے۔ یہ فرق قاسمی کی رومانیت اور بلونت سنگھ کی حقیقت نگاری کی پیدا کردہ ہے۔ احمد ندیم قاسمی کو پنجاب کے دیہات میں غربت اور افلاس کا احساس ہے، لیکن وہ اپنی شاعرانہ طبیعت کی وجہ سے کھیتوں، میدانوں، رہٹوں، البیلے جوانوں اور الہڑ دو شیزاؤں کی کہانیوں کے خالق کی حیثیت سے یاد رہے گا جب کہ بلونت سنگھ پنجاب کے رومان سے بھی واقف ہے، لیکن وہ اس رومان کی فضا کو اپنی کہانیوں پر چھاجانے کی ایسی اجازت نہیں دیتا کہ اس کے کرداروں کی حقیقی تصویریں نہیں ابھر سکتیں۔ وہ حسن کا اظہار تو کرتا ہے، لیکن حقیقت نگاری کی نظر سے اس کے پاس صرف رومانی نگاہ سے نہیں۔ پنجاب کی دیہاتی دوشیزہ میں جتنی ملائمیت ہے اتنا ہی کھردراپن یہاں کے جوان کی مردانگی میں ہے۔ بلونت سنگھ اس کھردرے پن کی کہانیاں سناتا ہے جب کہ قاسمی اس کی ملائمیت کی۔‘‘ 
(عابد حسن منٹو، ایک افسانہ نگار بلونت سنگھ، مضمون مطبوعہ سوغات، شمارہ 8، مارچ1995،ص 426-27)
بلونت سنگھ نے پنجاب کو اس کے اصلی رنگ و روپ میں دیکھا اور دکھانا چاہا ہے۔ انھوں نے اس کو سیاحوں کی جنت بنا کر پیش نہیں کیا بلکہ وہاں کی دیہی زندگی کے ہر روپ کو ظاہر کیا ہے۔ دیہات کی ایک تصویر ان کے افسانہ ’ پنجاب کا البیلا‘ میں یوں سامنے آتی ہے۔ 
’’دھوپ ہلکی پڑ چکی تھی، لیکن گرمی اب بھی کافی تھی۔ سڑک بڑے بڑے کھیتوں سے ہوکر جاتی تھی۔ راستے میں سڑک سے ذرا پرے ہٹ کر جابہ جا رہٹ چلتے دکھائی دے رہے تھے۔ کنوؤں کا صاف و شفاف پانی جھالوں میں گرتا ہوا آنکھوں کو کس قدر بھلا معلوم ہوتا تھا۔ ان پر ان کی کنوؤں کے گرد قینچی سے کتری ہوئی داڑھیوں والے کسان موٹے سوتی کپڑے کے تہبند باندھے بڑے سرور کے عالم میں حقے گڑ گڑا تے نظر آتے تھے۔ جب کنوؤں پر کام کرنے والی لڑکیاں اور عورتیں کھیتوں میں مٹک مٹک کر اِدھر اُدھر چلتی تھیں تو ان کی لمبی لمبی چوٹیاں ناگنوں کی طرح بل کھا کھا کر لہراتی تھیں۔ بیلوں کی ٹانگوں میں گھس گھس کر بھونکنے والے کتے اپنا الگ شور مچارہے تھے اور اپنی میلی کچیلی چندریوں میں سوکھے ہوئے گوبر کے ٹکڑے جمع کرنے والی لڑکیاں کبھی اپنا کام چھوڑ کر گہریوں کی طرح میری طرف دیکھنے لگتی تھیں۔ ‘‘ 
(بلونت سنگھ، پنجاب کا البیلا، سوغات، شمارہ 8مارچ 1995،ص216)
بلونت سنگھ نے یہاں دیہاتی ماحول کی تصویر پیش کرنے میں اپنے بہترین مشاہدے کا ثبوت دیا ہے اور کئی لحاظ سے حقیقت پسندی کو ظاہر کرنے کی بھر پور کوشش کی ہے۔ 
بلونت سنگھ کی مشہور کہانی ’رشتہ‘ بہادری اور دلیری کے موضوع پر ایک عمدہ تخلیق ہے۔ اس کا مرکزی کردار نہ صرف گھوڑی کی چوری کرتا ہے بلکہ کرنیل سنگھ کی بیٹی سے اپنی محبت کا اظہار بھی کرتا ہے۔ گھوڑی کے گم ہونے پر سکھ جاٹ کا حال کیا ہوتا ہے۔ اس کا ذکرکر تے ہوئے بلونت سنگھ ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’ سکھ جاٹ کی دو چیزوں میں جان ہوتی ہے۔ اس کی لاٹھی اور اس کی سواری کی گھوڑی یا گھوڑا۔ اگر یہ چیزیں چوری ہوجائیں تو انھیں تلاش کرنے میں وہ زمیں اور آسمان ایک کردیتا ہے۔ اگر کوئی جاٹ سے اس کی یہ چیزیں چھین لینے کی کوشش کرے تو وہ مرنے مارنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ اگر دشمن بھاری پڑے اور اس کی یہ چیزیں چھن جائیں تو وہ چلو بھر پانی میں ڈوب مرتا ہے ‘‘۔ 
(رشتہ، مطبوعہ سوغات، شمارہ 8، مارچ 1995، ص189)
اس کہانی میں کرنیل سنگھ کی بیٹی کی محبت میں گرفتار نوجوان سے نوکر کہتا ہے کہ اگر تم کرنیل صاحب کی گھوڑی واپس کردو تو ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی بیٹی کی شادی تمہارے ساتھ کردیں، لہٰذا وہ دس دن بعد گھوڑی کے ساتھ واپس آتا ہے اور یہ بھی بتاتا ہے کہ وہ خود چور ہے اور وجہ بھی بتاتا ہے کہ اس نے چوری کیوں کی تھی۔ کرنیل صاحب اس کی بہادری اور ہمت کے قائل ہوجاتے ہیں اور اس سے اپنی بیٹی کی شادی کردیتے ہیں۔ 
بلونت سنگھ کے کردار مختلف خصوصیات کے حامل ہیں۔ کبھی وہ محبوبہ کو حاصل کرنے کے لیے ڈاکہ زنی ترک کردیتے ہیں تو کبھی محبوبہ کو پانے کے لیے چوری کرتے ہیں۔ اس نوع کے افسانوں پر اظہار خیال کرتے ہوئے شمس الرحمٰن فاروقی لکھتے ہیں: 
’’مجموعی طور پر یہ افسانے تشدد اور لوٹ مار سے زیادہ جواں مردی کی تکریم کرتے ہیں، لیکن ایسے افسانے کسی انسانی صورت حال کو ہم پر واضح نہیں کرتے۔‘‘ 
(شمس الرحمن فاروقی، بلونت سنگھ کے کچھ افسانے، مطبوعہ آج کل، بلونت سنگھ نمبر جنوری 1995،ص 27)
بلونت سنگھ کے افسانہ ’سنہرا دیس ‘ کا مرکزی کردار تھوپ سنگھ ہے جو روزی کمانے کی فکر میں شہر جاتا ہے اور اس شہر کو ’سنہرا دیس ‘ کہتا ہے، لیکن ’ سنہرا دیس‘ میں اس کے خواب ٹوٹ جاتے ہیں۔ انھوں نے تھوپ سنگھ کو دیہی نوجوان کا ایک ایسا نمائندہ بنا کر پیش کیا ہے جو پیسہ کمانے کے لیے اپنے گاؤں کو چھوڑ دیتا ہے، لیکن اس کے خواب کی تکمیل یہاں بھی نہیں ہوتی۔ افسانہ ’ سنہرا دیس ‘ حقیقت پسندی کے بہت قریب ہے۔ بقول عابد حسن منٹو : 
’’ بلونت سنگھ حقیقت نگار ہے لیکن اردو افسانہ نگاری کے ضمن میں حقیقت نگاری کی اصطلاح مختلف طریقوں سے استعمال کی گئی ہے۔ کرشن چند ر بھی حقیقت نگار ہے اور منٹو بھی۔ کرشن چندر کی حقیقت نگاری محض موضوع کے ساتھ تعلق رکھتی ہے، ورنہ انداز تحریر کے اعتبار سے وہ ہمیشہ ہی رومانوی رہا ہے۔ اس کے برعکس منٹو اپنے موضوع اور اسلوب نگارش دونوں اعتبار سے حقیقت نگار ہے۔ بلونت سنگھ کی حقیقت نگاری کرشن چند کی حقیت نگار ی سے قریب نہیں بلکہ منٹو کی حقیقت نگاری سے قریب تر ہے۔ بلونت سنگھ براہ راست بات کہنے کا عادی ہے۔ اس کے اظہار میں وہی بے باکی اور وہی بے رحمی کا سا انداز پایا جاتا ہے جو سعادت حسن منٹو کے اسلوب کی خوبی سمجھا گیا ہے۔ دونوں فن کاروں کا بنیادی فرق ان کے افسانوں کے مواد کی وجہ سے ہے۔ سعادت حسن منٹو کے افسانوں کا مواد عجیب و غریب کرداروں کے جنسی معاملات سے تعلق رکھتا ہے جب کہ بلونت سنگھ اپنی کہانیوں کا مواد خالص جنسی مسائل کے بجائے ان مسائل کے سماجی اثرات سے حاصل کرتا ہے۔ خود جنسی معاملات کے اظہار میں بلونت سنگھ جنس سے زیادہ معاملے کو اہمیت دیتا ہے اور اس لیے منٹو سے مختلف ہو جاتا ہے، لیکن چونکہ طریق تحریر میں وہ منٹو سے حد درجہ قریب ہے اس لیے بعض ایسی تحریروں میں وہ بالکل ہی منٹو معلوم ہوتا ہے جن میں موضوع بھی منٹو والا ہی ہو۔ ‘‘
(عابد حسن منٹو، ایک افسانہ نگار بلونت سنگھ مضمون مطبوعہ سوغات، شمارہ 8، مارچ 1995،ص 429)
بلونت سنگھ نے انسانی ہمدردی پر بھی افسانے لکھے ہیں۔ ’سزا‘ اور ’پہلا پتھر‘ ایسے ہی افسانے ہیں۔ ’ پہلا پتھر‘ میں نچلے پنجابی طبقے کی مشترکہ زندگی نمایاں کی گئی ہے۔ یہاں باج سنگھ عورتوں اور لالہ جی کی تین بیٹیوں میں دلچسپی لیتا ہے۔ یہ افسانہ منٹو سے قریب تر معلوم ہوتا ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار باج سنگھ اچانگ سنجیدہ ہوجاتا ہے، جب نابینا سانولی اپنے محبوب کی باتوں اور وعدوں کا تذکرہ باج سنگھ اور اس کے ساتھیوں سے کرتی ہے تو انداز یہ ہوتا ہے : 
’’ باجے چاچا ! نہ جانے میرے دل کو کیا ہوگیا ہے۔ کچھ سوجھتا ہی نہیں کہ کیا کروں ۔۔۔۔۔۔باج چاچا سوچتی ہوں ایسی کھشی کی بات کیسے ہوسکتی ہے، لیکن چاچا تمہیں میری بات پر اکین ہے نا ؟ باج نے گھوم کر اپنے ساتھیوں کی جانب سوالیہ انداز سے دیکھا۔ سب چپ تھے وہ بھی چپ رہ گیا۔‘‘ 
(بلونت سنگھ، پہلا پتھر، سوغات شمارہ 8، مارچ 1995،ص244)
افسانہ ’سزا ‘ میں تارا سنگھ ایک سیدھا سادہ عام کسان ہے، جس کو ایک یتیم لڑکی جیت کور سے محبت ہوجاتی ہے۔ وہ تارا سنگھ کو اچھا انسان نہیں سمجھتی تھی، لیکن جب تارا سنگھ اپنی تمام عمر کی جمع کی ہوئی کمائی سے اس کے گھر کو نیلام ہونے سے بچا لیتا ہے تب جیت کور کو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ اچھا انسان ہے جو اس کے بُرے وقت میں کام آیا۔افسانے کے بالکل آخر تک تارا جیت کو ر سے کہتا ہے : 
’’ روتی کیوں ہو جیتو میں تو ہر وقت اس کوشش میں رہتا ہوں کہ تمہارے کام آسکوں۔ جیتوں نے آہستہ سے اپنا ہاتھ اس کی پیشانی پر اسی جگہ رکھ دیا جس جگہ اس کمبخت ہاتھوں سے سلیپر مارا تھا۔ پھر دھیرے سے کہنے لگی۔ تارواب میں جاتی ہو ں۔ میں پھر آؤں گی، اب تم آرام کرو، ہاں ! میں پھر آؤں گی۔ یہ کہہ کرسیڑھی کے پاس آئی اور سلیپر پہن کر لوٹی تو دیکھا کہ تارو راستہ روکے دروازے کے آگے کھڑا ہے۔وہ مسکرا کر اپنے کرخت لہجہ میں بولا جیتو آج پھر میری نیت خراب ہو رہی ہے۔ آج پھر سزادے دو۔ جیتو نے جھینپ کر اچٹتی ہوئی نگاہ تارو پر ڈالی پھرجسم چراتی ہوئی اس کی طرف بڑھی اپنے جوڑے سے چنبیلی کا ہار کھولا اور کچھ مسکرا کر اور کچھ لجا کر وہ ہار اس کے گلے میں ڈال دیا۔‘‘ 
(بلونت سنگھ، سزا، بلونت سنگھ کے بہترین افسانے، مرتبہ گوپی چند نارنگ ساہتیہ اکادمی، دہلی 1885،ص 138-39)
تقسیم ہند کے بعد منظر عام پر آنے والا بلونت سنگھ کا سب سے اچھا افسانہ ’کالے کوس‘ ہے جس میں گاماں تین عورتوں کے ساتھ جان کی سلامتی کی خاطر پاکستان جاتا ہے۔ اس افسانے میں بلونت سنگھ نے بتایا ہے کہ فسادات میں انسانوں کو کن مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ہر وقت جان کا خوف رہتاہے، ماں، بیوی، بہن کی عزت کی فکر رہتی ہے۔ گاماں اپنے گھر کی خواتین کے ساتھ رات کو سفر کرتا ہے اور دن کے وقت کہیں چھپ جاتا ہے۔ اس مصیبت میں اس کا ایک ہندو دوست مدد کرتا ہے یہ اور اسے سرحد پار صحیح سلامت پہنچاتا ہے۔ گاماں لٹیرا، قاتل اور بدمعاش ڈاکوہونے کے ساتھ ساتھ ایک کسان بھی ہے۔ ہل چلانا اس کا آبائی پیشہ ہے۔ پھلور سنگھ گاماں کا بچپن کا دوست ہے۔ بُرے کام دونوں نے ساتھ کیے، چنانچہ اس افسانے کے حوالے سے انور خاں ایک مقام پر لکھتے ہیں : 
’’ بُرے آدمیوں میں بھی دوستی کا جذبہ کس قدر شدید ہوتا ہے اور کیسے بسا اوقات انسان نیکی اور بدی کے مروجہ معیاروں سے آگے چلا جاتا ہے، اس سلسلے میں بلونت سنگھ کا وژن کہیں نہیں دھندلاتا۔ اپنے تمام تر اختلافات اور تضادات کے باوجود ان کے لیے انسان وہی انسان ہے، کمزوری کاپتلا، جس کی اچھائیاں برائیوں پر کبھی کبھی غالب آجاتی ہیں اور وہ ایسے ہی لمحات کے مصور ہیں۔‘‘ 
(انور خاں، پنجاب کا البیلا، بلونت سنگھ، مطبوعہ آج کل، جنوری 1995،ص 47)
بلونت سنگھ دیہاتی زندگی کے ترجمان ہیں۔ ان کے افسانوں میں جن سکھوں کو پیش کیا گیا ہے ان کی شجاعت و مردانگی سے ایک خوبصورت اور صحت مند زندگی کا نقش ابھرتا ہے۔ بقول وارث علوی : 
’’ ان کے افسانوں میں پنجاب جاگتا ہے۔ پنجاب کا وہ کھردرا اور سنگین روپ جس نے تاڑ جیسے لمبے اور چٹانوں جیسے مضبوط لڑاکوں اور گرانڈیل لوگ پیدا کیے۔ سانڈنی سوار قد آور ڈاکو، میلوں تک چیتے کی رفتار سے دوڑنے والے چور، گینڈوں کی طاقت رکھنے والے شوریدہ سر نوجوان جو بات بے بات پر مارنے مرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ بلونت سنگھ نے ان سب کی زندگی کو پنجاب کے رومان میں بدل دیاہے۔ ’ پنجاب کا البیلا ‘ اور ’تین چور‘ اس سلسلے کی ان کی مشہور اور مقبول کہانیاں ہیں۔ اس شوریدہ سری کو اس کے فطری پس منظر میں دیکھنے کا مطلب ہے اس کی طاقت، حسن اور ہیئت کا تجربہ کرنا۔ ان افسانوں میں ان کا طریقہ، رومان کو افسانہ کے حقیقت پسند فریم ورگ میں بریکٹ کرنے کا طریقہ رہا ہے، اسی حقیقت پسندی نے انھیں مزاح کی وہ چاشنی بخشی ہے جوان افسانوں کے تشدد کو قابل برداشت بناتی ہے۔‘‘ 
(وارث علوی، بلونت سنگھ کی افسانہ نگاری کے چند پہلو، مطبوعہ آجکل، جنوری 1995،ص 37)
بلونت سنگھ اپنے کرداروں کو بے وجہ خوبصورت بنانے اور بدبو کو خوشبو میں بدلنے کی کوشش نہیں کرتے، البتہ جب وہ حقیقت نگاری پر آتے ہیں تو بعض لمحہ حقیقی بدبو کا مذاق اڑانے لگتے ہیں۔ نمونے کے طور پر اس اقتباس کو دیکھیے : 
’’ میں سانڈنی کی کوہان سے پھسلا جاتا تھا۔چنانچہ میں اس کی کمر سے لپٹ گیا۔ اس کے گاڑھے کی قمیص پسینے میں تر ہورہی تھی۔ بغلوں سے ہلکی بو بھی آرہی تھی۔ بازوؤں کے گھنے بال پسینے میں تر ہو کر چپک گئے تھے۔ اس کے جوڑے پر بندھی ہوئی جالی کے نیچے کو لٹکتے ہوئے پھندے میرے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور آنکھوں میں گھسے جا رہے ہیں۔ ‘‘ 
(انور سدید، اردو افسانے میں دیہات کی پیش کش، اردو رائٹرس گلا، الہ آباد 1983،ص102)
بلونت سنگھ کی یہ تصویر کشی بہت ہی بھیانک ہے، مگر ان کے ذہن میں ایک فطری انسان کا دل بھی دھڑک رہا ہے اور لطف یہ ہے کہ وہ اس دل کی بے قراری کو ہی نہیں سنتا بلکہ اس پر گہری نظر بھی ڈالتا ہے۔ 
بلونت سنگھ افسانے کے فن سے اچھی طرح واقف تھے۔ ان کے افسانوں کی واضح شناخت ان کا کہانی پن ہے۔ ماحول کی پیش کش اور جذبات نگاری کے ساتھ ساتھ وہ حقیقت نگاری کے فن سے بھی واقف ہیں۔ وہ نہ کسی غیر ضروری بات کو طول دینے کی کوشش کرتے ہیں اورنہ کبھی اہم بات کو نظر انداز کرتے ہیں۔ ان کے اکثر افسانے حقیقت پسندی پر مبنی ہیں۔ وہ لگ بھگ تمام افسانوں میں دیہاتی زندگی کی تصویر کشی کرتے نظر آتے ہیں۔ بیشک اردو افسانے کی دنیا میں بلونت سنگھ کی جگہ ہمیشہ محفوظ رہے گی۔ 

Dr. Md. Saquib Anwer
Vill.: Sarwily, Post: Bara Eidgah, Via: Qasba
Distt.: Purnea - 854330 (Bihar)
Mob.: 9801261623





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں