خواجہ احمد عباس بحیثیت افسانہ نگار
محمد
شواق خان
خواجہ احمد عباس کی شخصیت بین الاقوامی سطح پر شہرت کی حامل ہے جو اُردو، ہندی اور انگریزی تینوں زبانوں میں یکساں مہارت رکھتے تھے۔ خواجہ صاحب ایک مستند اوراعلیٰ درجے کے جرنلسٹ،کالم نگار،فلم میکر، فلم ڈائریکٹر، فلم پروڈیوسر،ممتازافسانہ نگار، ناول نگار، ڈرامہ نگار،سوانح نگار اورمضمون نگار تھے، جنھوں نے متعدد شعبوں میں طبع آزمائی کی اور ہر جگہ اپنی یادگار چھاپ چھوڑی۔خواجہ احمد عباس وہ شخصیت ہیں جنھوں نے مشہور فلم ادا کار’امیتابھ بچن ‘ کو پہلی باراپنی فلم ’سات ہندوستانی ‘میں موقع دے کر فلمی دُنیا کو ایک انمول ہیرے سے متعارف کرایا جو پچھلی نصف صدی سے فلمی دنیا میں جگمگا رہا ہے۔ خواجہ صاحب ایک سچے نیشنلسٹ،ترقی پسنداور پختہ فکر ادیب تھے جو فلمی دُنیا میں ’ماموں جان ‘کے نام سے جانے جاتے تھے۔ اُنھوں نے اُردو ہندی اور انگریزی میں 74 کتابیں لکھی ہیں، جن میں 11 افسانوی مجموعہ، متعدد ناول،ڈرامے اور مضامین۔ ایک خودنوشت انگریزی میں "I am not an island" ایک سفر نامہ ’مسافر کی ڈائری ‘اور دیگر کچھ تصانیف شامل ہیں۔خواجہ صاحب نے1936 میں اخبار ’بمبئی کرانیکل ‘سے وابستہ ہو کر صحافی اور ادبی کیرئیر کا آغاز کیا بعد میں اپنا اخبار"Aligarh Opnion" بھی نکالا۔ 1947 کے بعد ہفت روز اخبار ’بلٹز‘سے وابستہ ہوئے جہاں وہ ’لاسٹ پیچ‘آخری عمر تک لکھتے رہے جس سے انھیں کافی شہرت ملی۔خواجہ صاحب نے کئی بین الاقوامی شخصیات کے انٹرویوز بھی کیے جن میں امریکی صدر ’روزویلٹ‘ اور روسی وزیر اعظم ’خروشیف‘بھی شامل ہیں۔
خواجہ احمد عباس 7 جون 1914 کو پانی پت میں پیدا ہوئے۔خواجہ صاحب اپنے مقام پیدائش کی طرح تمام عمر نا انصافی اور استحصال کی لڑائی میں کمر بستہ رہے۔ ان کا سلسلہ سرسید تحریک کے اہم رُکن اور اُردو تنقید کے بانی مولانا الطاف حسین سے ملتا ہے جو رشتے میں ان کے پرنانا لگتے ہیں۔ ان کے دادا غلام عباس ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی کے اول شہید تھے جنھوں نے انگریزی سامراج کے خلاف بغاوت کا علم بلند کیا تھا۔ان کے والد خواجہ غلام السبطین علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پہلے گریجویٹ تھے اور والدہ ’مسرور خاتون ‘ حالی کے ماہر تعلیم بیٹے خواجہ سجاد حسین کی بیٹی تھیں۔ اس طرح خواجہ احمد عباس کا تعلق ایک تعلیمی خاندان سے تھا جس کا اظہار وہ اپنی سوانح عمری "I am not an island" میں کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’ میں پیدا ہونے سے پہلے ہی پیدا ہو چکا تھا ‘‘جس کے معنی ہیں کہ علم و ادب مجھ کو وراثت میں ملا تھا۔ برصغیر میں1936 کو ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا۔اس تحریک نے انسانی زندگی کو سمجھنے،پرکھنے اور بہتری کی طرف گامزن کرنے کے نئے دریچے کھولے،اُردو ادب کو عالمی ہم مرتبہ بنانے کی جدو جہد کا آغاز کیا،فن اور ادب کو عوام کے قریب لانے کی سعی کی، ادب میں بھوک، افلاس، غربت، سماجی پستی اور سیاسی غلامی جیسے عناصر کو زیر بحث لایا، واقعیت اور حقیقت نگاری پر زور دیا،انقلابی اور اشتراکی ادب کو ترجیح دی، فرسودہ روایات کو ترک کرنے اور صحت مند روایات کو اپنانے کا مشورہ دیا،ادب میں حُسن کے معیار بدلنے کی بات کی۔اس تحریک کی پہلی کانفرنس لکھنؤ میں ہوئی جس کی صدارت پریم جند نے کی اور اپنے خطبۂ صدارت میں مقاصدِ تحریک کا اظہار واضح الفاظ میں یوں کیا ۔
’’...... ہمیں حُسن کا معیار بدلنا ہوگا ....... ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اُتر ے گا جس میں تفکر ہو، آزادی کا جذبہ ہو، حسن کا جوہر ہو، تعمیر کی روح ہو،زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو، جو ہم میں حرکت ہنگامہ اور بے چینی پیدا کرے،سلائے نہیں، کیونکہ اب زیادہ سونا موت کی علامت ہوگا۔‘‘
اس تحریک نے جلد برصغیر میں ہیجان برپا کر دیا اور بیشتر حساس ادیبوں کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ خواجہ احمد عباس کا شمار بھی انھیں ادیبوں میں ہوتا ہے جن کی افسانہ نگاری کا آغاز اس تحریک کے ابتدا کے ساتھ ہوا جنھوں نے مندرجہ بالا تمام مقاصد کی پیروی کی۔مارکسزم اور گاندھی واد سے متاثرخواجہ احمد عباس نے اسی تحریک کے زیر اثر لکھااور سماجی حقائق کو بڑی بے باکی سے اپنی تحریروں میں پیش کیا۔وہ اس تحریک کی اہمیت کوبخوبی سمجھتے تھے اس لیے اپنے ایک انٹر ویو میں اس تحریک کی اہمیت، نظریہ ادب اور لکھنے کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ :
’’میں اس لیے لکھتا ہوں کہ زندگی کی متنوع صورتوں کو ان کے حقیقی سیاق و سباق میں دیکھ سکوں۔میں فلم کی کہانی لکھوں، اخبار کا کالم یا کوئی افسانہ، میں نے کبھی قلمی سمجھوتہ نہیں کیا ہے کہ یہ میری سرشت کے خلاف ہے۔ترقی پسند نظریہ نے اُردو ادب کو سوچنے کا ایک نیا انداز دیا اور متمول کیا ہے ‘‘۔
اسی تحریک سے منسلک خواجہ احمد عباس کے ہمعصر حیات اللہ انصاری،کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی،عصمت چغتائی سعادت حسن منٹو، اختر حسین رائے پوری وغیرہ اپنی اپنی سَطح پر انسانی بربریت، بے انصافی، جہالت، تعصب،توہم پرستی،بے ایمانی، بد نیتی کے خلاف کھل کر لکھ رہے تھے۔ان تمام لوگوں کا شمار ترقی پسند تحریک کے صف اول کے افسانہ نگاروں میں کیا جاتا ہے۔ بحیثیت افسانہ نگار خواجہ احمد عباس کا ذکر گرچہ ان مندرجہ بالا ہمعصر افسانہ نگاروں کے ساتھ نہ کیا جاتا ہو،ان کو ترقی پسندوں کی صف دوم کے افسانہ نگاروں میں جگہ دی جاتی ہو اور ایک طویل عرصے تک مختلف نقاد مثلاً عزیز احمد، ممتاز شریں وغیرہ نے ان کی افسانہ نگاری کو معمولی اہمیت دی ہومگر یہ ایک حقیقت ہے کہ انھوں نے کچھ ایسے بلند پایہ افسانے تحریر کیے ہیں جن کے ذکر کے بغیرترقی پسند تحریک کی تاریخ مکمل نہیں۔ ان کی ادبی زندگی کا آغاز بطور صحافی ہوا اور یکے بعد دیگرے انھوں نے کئی اصناف میں طبع آزمائی کی مگر بطور افسانہ نگار انھیں سب سے زیادہ شہرت نصیب ہوئی بقول محمد حسن :
’’خواجہ احمد عباس کی شخصیت یوں تو رنگا رنگ تھی اور ان کے کارنامے صحافت سے لے کر فلم سازی تک پھیلے ہوئے تھے لیکن اُردو ادب کے لیے ان کی حیثیت بنیادی طور پر افسانہ نگار کی ہے۔انھوں نے ناول بھی لکھے اور کم سے کم ایک ناول ’انقلاب‘کا ادبی دنیا میں خاصا چرچا بھی ہوا۔ لیکن افسانہ نگار احمد عباس ناول نگار احمد عباس پر غالب ہی رہا۔‘‘
(مضمون خواجہ احمد عباس مصنف محمد حسن کتاب ’دریافت‘ ص:51 )
خواجہ احمد عباس نے اپنی فکشن نگاری کا آغاز 1936 میں افسانہ ’ابا بیل‘لکھ کر کیا۔یہ افسانہ ’نیا ادب ‘ میں شائع ہوا جس میں ایک ظالم کسان ’رحیم خان ‘کی نفسیاتی کیفیت کا بڑی باریک بینی سے مطالعہ کیا گیا ہے جس کا تعارف بحیثیت ایک ظالم اور سنگ دل کردار کے طور پر ہوتا ہے جو بچوں اور بیوی پر ظلم ڈھاتا ہے جس کے تشدد سے بیوی بچے اسے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ظاہری سختی کے باوجود اس کے اندر پدرانہ اور شوہرانہ شفقت موجود تھی جو بیوی اور بچوں کے چھوڑ جانے کے بعد’ابابیل‘ کی جانب منتقل ہو جاتی ہے جو اس کے غم گسار بنتے ہیں اور جن کے تحفظ کے لیے یہ بارش میں بھیگ جاتا ہے۔ اس افسانہ کے بعد اُنھوں نے کئی افسانے لکھے جن کا خاصا چرچا ہمارے افسانوی ادب میں ہوا جن کا تعلق براہ راست ہمارے سماج سے ہے۔ ان کے متعدد افسانے انسانی زندگی کے کسی نہ کسی اہم پہلو کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کی کہانیاں معاشرے کی تلخ اور کڑوی حقیقتوں کی آئینہ دار، انسانیت کے پَست کردار کی مُنہ بولتی تصویرہیں اور سماج کی کمزوریوں اور خرابیوں کی ترجمان ہیں جو ہمیں غور و فکر کی دعوت بھی دیتی ہیں اور سماج و معاشرے میں اصلاح کا جذبہ بھی اُبھارتی ہیں۔وہ اپنی کہانیوں میں بے روح شہری زندگیوں کو بھی پیش کرتے ہیں اور فوٹ پاتھ پر رہنے والوں کے دُکھ سُکھ بھی بیان کرتے ہیں،سیاست اور توہم پرستی پر طنز بھی کرتے ہیں۔ افسانہ ’اجنتا ‘ فسادات میں انسانیت کی موت پر مصنف کے اضطراب اور بے چین ذہن کی تر جمانی کرتاہے۔ افسانہ ’انتقام‘ ہندو مسلم فسادات کے متعلق ہے جس میں ’ہری داس‘ اپنی بیٹی ’جانکی‘ کے قتل کا انتقام ایک مسلم لڑکی کا قتل کر کے لینا چاہتا ہے مگر کہانی کے آخر میں اس کا ضمیر جاگ اُٹھتا ہے اور وہ اس گھناونے عمل سے باز آجاتاہے۔افسانہ ’رفیق‘کا موضوع بھی فسادات ہے جس میں فرنگیوں کی سازشوں اور مکاریوں سے پردہ اُٹھایا گیا ہے جو دوست ’میجر رفیق‘ اور’کرنل رجیندر‘کو ایک دوسرے کا دشمن بنا کر ان میں فسادکرا دیتے ہیں جس میں ’میجر رفیق ‘مارا جاتا ہے یہ حادثہ کرنل رجیندر کو جھنجوڑ کر رکھ دیتا ہے۔افسانہ ’فین‘ میں عباس نے نویں جماعت میں پڑھنے والے ایک ’فین‘ کے بارے میں بتایا ہے جو عباس صاحب کی تمام زندگی سے واقف ہے مگر ان کی خودنوشت کی قیمت 45 روپیہ ہونے کے سبب اسے خرید نے سے قاصر ہے۔افسانہ ’نیلی ساڑی‘ میں واحد متکلم کا اسلوب استعمال کیا گیا ہے جس میں ’سیلمہ‘ اپنی روداد سناتی ہے کہ کس طرح ’امیر کزن محمود بھائی‘ اس کی عزت لوٹ کر اسے بمبئی پہنچاتا ہے اور پھرکیسے اس کا چہرہ تیزاب سے جلا دیا جاتا ہے۔ افسانہ’سردار جی ‘ ہندو مسلم فسادات کے موضوع پر لکھا گیاہے جس پر مقدمہ بھی چلا مگر مصنف با عزت بری ہوگئے،افسانہ ’کہانی کی کہانی‘: میں ’سردار جی‘ افسانے پر چلائے ہوئے مقدمہ کی روداد ہے،افسانہ ’میرے بچے‘ کشمیر کے متعلق ہے جس میں ’زونی‘کی کہانی ہے جو پاکستانی قبائل کے ظلم و ستم کے سبب اپنے بچے کی قاتل بن جاتی ہے۔ ’زعفران کے پھول‘ میں کہانی کا مرکزی کردار ’زعفرانی‘کے اندر بیداری کا جذبہ ٹھاٹیں مار رہا ہے جواپنے بھائی کو بھی خواب غفلت سے بیدار کرنا چاہتی ہے مگر آخر کار یہ حکومت کے ظلم و جبر کا شکار ہو کر اپنی جان سے ہاتھ د بیٹھتی ہے۔افسانہ ’ماں کا دل‘کی کہانی ایک فلم کی شوٹنگ کے دوران ہونے والے واقعہ پر مبنی ہے جس کا عنوان فلم کے ایک مکالمہ ’بچہ بھی ماں کا دل ہوتا ہے ‘سے اخذہے۔ افسانہ ’بھولی ‘ میں نچلے طبقے کی لڑکیوں کے والدین کی بے کسی، بے بسی،لاچاری اور سیٹھ لوگوں کی ناجائز مانگوں کو موضوع بنایا گیا ہے جس میں پکی عمر کا مالدار ’ بشمبر‘بھولی سے شادی کرنا چاہتا ہے مگر شادی کے عین وقت پر وہ 5000 ہزار روپیہ کی ناجائز پیش کش کرتا ہے جس پر بھولی کے صبر کی انتہا ٹوٹ جاتی ہے اور وہ اس قصائی کے رشتہ کو ٹھکرا کر تمام عمر والدین کی خدمت اور بچوں کو پڑھانے کا فیصلہ کرتی ہے۔ افسانہ ’آئینہ خانے میں‘آپ بیتی کی طرز پر لکھا گیا افسانہ ہے جس میں مصنف 60 برس کی عمر میں خود سے مخاطب ہو کر دلچسپ حقائق کا انکشاف کرتا ہے جو مصنف کی ذاتی (مثلاً تاریخ پیدائش، افسانے لکھنے کا سبب، عشق، صحافت، فسادات،حالی کے ساتھ تعلقات ) اور نفسیاتی زندگی کو سمجھنے کے لیے نہایت مفید ثابت ہوتے ہیں۔ افسانہ ’دیوالی کے تین دیے‘میں مذہبی توہم پرستی اور سیٹھ لوگوں پر طنز کسا گیا ہے جو غرض کے لے ہزاروں اور لاکھوں روپے خرچ کرتے ہیں مگر کسی بے سہارا اور ضرورت مند کی مدد کرنے کے لیے آمادہ نہیں۔ سیٹھ لکشمی داس اور لکشمی کانت دیوالی کی رات ہزاروں روپے گھر کی رونق میں اس لیے خرچ کرتے ہیں کہ ان کے گھر میں لکشمی پرکٹ ہو مگر لکشمی کی آمد پر یہ لوگ اسے پناہ نہیں دیتے کیونکہ یہ لوگ اس حقیقت سے بے خبر ہیں کہ لکشمی محض امیروں کے روپ میں نہیں غریبوں کے روپ میں پرویش کرتی ہے۔ افسانہ ’بنارس کا ٹھگ‘میں انسان کے دوغلے کردار کی نشان دہی کرائی گئی ہے جو مندروں اور مسجدوں میں ہزاروں خرچ تو کرتا ہے مگر نیکی کمانے کی غرض سے نہیں بلکہ اپنا نام کمانے کے عوض۔ یہی وجہ ہے کہ افسانے کا مرکزی کردار ’مسافر‘شہروں، شمشانوں، مندروں اور مسجدوں سے ہوتا ہوا ایک ایسے مقام پر پہنچتا ہے جو نہ مندر ہوتا ہے نہ مسجد جسے وہ اپنے رہنے کا اصل مقام قرار دیتا ہے۔
ان افسانوں کے مختصر جائزے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ خواجہ احمد عباس کی کہانیوں کے موضوعات کا دائرہ کافی وسیع ہے اُنھوں نے مذہبی،سیاسی،سماجی، فسادی، بداخلاقی موضوعات پر کہانیاں لکھیں ہیں۔ان کی بیشتر کہانیاں فسادات کشمیر، تقسیم وطن کا المیہ اورسماج و معاشرے کی بُرائیوں ونا انصافیوں کا مجموعہ ہیں۔ ان کے موضوعات وقت کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔انھوں نے زندگی کے سلگتے ہوئے موضوعات کو اپنے افسانوں میں پیش کر کے ہمیں ان پر سوچنے کے لیے اکسایا ہے۔خواجہ احمد عباس نے متعدد سیاسی رنگ کی کہانیاں لکھیں ہیں۔ ان سیاسی رنگ کے افسانوں کی نمائندگی اجنتا، بنارس کا ٹھگ، بارہ گھنٹے اور میری موت وغیرہ کرتی ہیں جن کے ذریعے اُنھوں نے تعصب،فسادات اور نفرت کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ ان سیاسی کہانیوں میں بارہ گھنٹے اور میری موت انقلابی زمرے میں بھی آتی ہیں۔افسانہ ’بارہ گھنٹے‘ ایک انقلابی کہانی ہے جس میں خواجہ احمد عباس نے انسانی نفسیات اور جنسیات کا بڑی باریک بینی سے تذکرہ کیا ہے ا ور ایک عورت کے حب الوطنی کے جذبہ کو بڑے فنکارانہ انداز میں پیش کیا ہے جو ملک کے انقلابیوں کے لیے اپنے جسم کا نذرانہ تک پیش کر دیتی ہے۔ انقلابی ’وجے سنگھ‘ کو 16 سال کی قید کے بعد رات کے 12 گھنٹے پارٹی رُکن ’بینا ‘ کے گھر قیام کرنا پڑتا ہے۔چھ ہزار کالی راتیں اسے عورت کی قربت سے محروم رکھتی ہیں جو اس رات عورت کی موجودگی سے اس کے اندر ہیجان برپا کر دیتی ہیں،اس جنسی طوفان سے بینا باخبر ہے اور بالآخر وہ ایک قربانی کے جذبہ کے تحت اپنا جسم 55 سال کے بدصورت شخص کے حوالے کر دیتی ہے جو ملک کے لیے، قوم کے لیے، انقلاب کے لیے، آزادی کے لیے قید و بند کی صعوبتیں اُٹھاتا ہے اورطویل عرصہ جنسی لذت سے محروم رہتا ہے۔ افسانہ ’میری موت ‘ بھی فسادات کے متعلق ہے جس میں مصنف کو سردار وں کے متعلق طرح طرح کے گمان ہیں جنھیں وہ بڑی نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے مگر کہانی کے آخر میں جب سردارجی ایک مسلم ’غلام رسول‘ کی نیکی کا بدلااُتارنے کے لیے مصنف کی جان بچاتے بچاتے خود اپنی جان دیے دیتا ہے تو مصنف کا حسد اور کینہ ہمدردی میں منتقل ہوجاتاہے اور یہ حادثہ سردار کی موت کے بجائے مصنف کی ذہنی موت بن جاتا ہے۔
خواجہ صاحب قصّہ پن کے قائل تھے اور چونکہ وہ فلمی دُنیا سے بھی وابستہ تھے اس لیے فلموں کی طرح ان کے بعض افسانے میں بھی برسوں کی روداد سنائی دیتی ہے واپسی کا ٹکٹ، لیلیٰ مجنوں اور الف لیلیٰ جس کی عمدہ مثالیں ہیں۔ افسانہ ’واپسی کا ٹکٹ‘ فلیش بیک ٹکنیک میں لکھا گیا افسانہ ہے جس میں مصنف کو 36 برس بعد دوست ’برجو‘ کا فون آنے پر اسے طالب علمی کے زمانے کی داستان یاد آجاتی ہے۔افسانہ ’الف لیلیٰ‘ پتھر کی سیج پر ایک ہزار راتوں کی داستان ہے یہ مصنف کی وہ ایک ہزار راتیں ہیں جو انھیں بمبئی کے ابتدائی دور میں مشکلوں اور تکلیفوں میں ملک کے بد اور ابتر حالات کی وجہ سے فٹ پاتھوں، خاک ا ور ویرانوں میں گزارنی پڑی۔ افسانہ ’لیلیٰ مجنوں‘ میں عیسائی لڑکی للی ڈی سوزا (لیلیٰ)اور ہندو لڑکے موہن (مجنوں ) کے عشق کی داستان ہے جس کا آغاز ان کے بچپن سے ہوتا ہے مگر جب یہ شادی کے قابل ہوتے ہیں تو مذہب کے ٹھکیداران کے عشق میں دیوار بن جاتے ہیں جس کے سبب یہ خودکشی پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔
خواجہ صاحب کی کہانیوں کا آغاز ایسے ہوتا ہے کہ قاری فوراً اس طرف متوجہ ہوجاتا ہے اور جلد تجسس کی فضا قائم ہوجاتی ہے۔خاتمے پر یہ کہانیاں ہمارے ذہن پر گہرے نقوش چھوڑ جاتی ہیں اور کچھ ایسے سوالیہ نشان اُبھار دیتی ہیں جن کے جوابات ہم آئندہ زندگی میں تلاش کرتے رہتے ہیں جو ان کے فن کا کمال ہے۔ خواجہ احمد عباس کی افسانہ نگاری کی بنیادی خصوصیات ’حقیقت نگاری اوراصلاح معاشرہ‘ہے۔ اس لیے وہ مقصدی افسانے لکھنے میں ذرا بھی نہیں کتراتے۔ان کی یہ حقیقت نگاری ان کی حق گوئی، بے باکی، خلوص،انسان دوستی، دردمندی، سیاسی اور سماجی شعور کا نتیجہ ہے۔ انھوں نے محض افسانوں میں ہی نہیں بلکہ دوسری اصناف اور فلموں میں بھی حقیقت نگاری اور مقصدیت کو اولیت دی۔خواجہ احمد عباس خاص نقطۂ نظر کے حامل تھے جس کی پیش کش کے لیے وہ قلم اُٹھاتے تھے۔ مثلاً ہندو مسلم نفاق، فسادات، ملک کے ابتر حالات، پچھڑے ہوئے طبقے کی خراب و خستہ حالت نے ان کو کافی رنج پہنچایا۔ان حالات سے ملک کو روشناس اور قوم کو بیدار کرنے کے لیے اُنھوں نے افسانے لکھے۔ انھوں نے داستانوی اور افسانوی کہانیاں نہیں لکھیں بلکہ اپنے گردو پیش کے حقیقی واقعات کو اپنے افسانوں میں پیش کیا۔خواجہ صاحب ایک سچے قوم پرست، وطن پرست اور سوشلسٹ تھے جن کی کہانیوں کا مقصد اصلاح معاشرہ تھا۔ وہ سماج کے ہر پہلو اور وطن کے ہر فرد کی اصلاح چاہتے تھے۔خواجہ احمد عباس ایک نئے معاشرے کے ڈریمر اور اصلاح و انقلاب کے قائل تھے وہ ایک جہد کار تھے جن کی ساری زندگی جدوجہد میں گزری جو ملک کی آزادی کی جنگ میں پیش پیش رہے اور اپنی کہانیوں اور کردار کے ذریعے ملک کے مظلوم اور بے سہارا طبقے کی نمائندگی کرتے رہے۔خواجہ صاحب کمیونسٹ خیالات رکھتے تھے۔اُنھوں نے اشتراکی نظریے کو قبول ہی نہیں کیا بلکہ اس کے فروغ میں بھی اہم رول ادا کیا جس کی زندہ مثالیں ان کے افسانوں میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ خواجہ صاحب نے پسماندہ سماج کو اپنی تحریروں کے ذریعے بہتری کی طرف لانے کی ہر ممکن کوشش کی وہ برصغیرمیں امن و امان،خوش حالی اور آزادی کے خواہش مند تھے اس لیے وہ اپنے افسانوں میں ہر جگہ حق گوئی اور حق پرستی کے نعرے بلند کرتے ہیں جس کا اظہار وہ ایک جگہ یوں کرتے ہیں:
’’ہر چیز،ہر تحریک،ہر شخص جو خُدا کی مخلوق کو یعنی انسان کو ذلیل و خوار سمجھتا ہے میں اس کے خلاف ہوں ‘‘
خواجہ صاحب سیکولر مزاج کے مالک تھے جنھیں فرقہ پرستی قطعی طورپربرداشت نہیں تھی ان کے فن میں انسانیت کو اولیت اور انسان کو فوقیت حاصل ہے۔انھوں نے اپنی تمام زندگی انسانوں کی بھلائی، بہتری اور ترقی کے لیے وقف کر رکھی تھی۔وہ ہمہ وقت مظلوم،لاچار اور مسلسل جبر و مفلسی کے شکار انسان کے حق کی بات کرتے رہے۔
خواجہ صاحب ایک مضبوط اور بے باک قلم کار تھے جن کے اندرحب الوطنی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا جس نے انھیں ایک سچانیشنلسٹ اور پختہ ترقی پسند فکر ادیب بنا دیا۔ان کا ادب فکری ادب ہے انھیں ہمہ وقت ملک و قوم کے ہر فرد کی فکر لگی رہتی تھی یہی وجہ ہے کہ ان کے ہر افسانے میں ایک بے چین احمد عباس کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ان کی تمام افسانوی تحریریں حب الوطنی کے جذبے اور سیاسی و سماجی شعور سے بھر پور ہیں۔لوگوں میں بیداری اور معاشرے کی فلاح و بہبود کا کام اُنھوں نے اپنے افسانوں کے ذریعے بڑے فنکارانہ اور سنجیدہ انداز میں کیا ہے۔
منفرد اسلوب اورنئے تجربے بھی خواجہ صاحب کے افسانوں کی اہم خوبیاں ہیں ’روپیہ آنے پائی‘ اس سلسلے کی اہم کڑیاں ہیں۔ افسانہ ’روپیہ آنے پائی‘ میں ایک نیا تجربہ ملتا ہے جو نئی تکنیک اور بغیر پلاٹ کا افسانہ ہے جسے اُنھوں نے اکاونٹ بک کی شکل میں لکھا ہے جس میں ایک کم آمدنی والے شخص کے روزانہ حساب کتاب کی فہرست کو پیش کیا گیا ہے۔اس تکنیک کا افسانہ اُردو افسانہ نگاری کی تاریخ میں پہلی بار دیکھنے کو ملتا ہے۔
خواجہ احمد عباس کی کہانیوں کا پلاٹ سادہ اورغیر پیچیدہ ہے انداز بیان بے حد آسان اور مؤ ثرہے جس سے قاری کا ذہن الجھنے سے بچا رہتا ہے اور آسانی سے فن کار کا ہمسفر بنا رہتا ہے۔ان کی کہانیوں کی مقبولیت میں اسلوب یا اسٹائل کا بھی بڑی حد تک ہاتھ ہے۔ان کے افسانوں کا کینوس چھوٹا ہے جن میں کم سے کم لفظوں میں زیادہ سے زیادہ باتیں کہی گئی ہیں۔ ان کے افسانے کہانی پن کے قائل ہیں اورجونکہ کہانی پن واقعات سے پیدا ہوتا ہے اس لیے ان کے افسانوں کے واقعات میں کہیں ظاہری طور پر تو کہیں پوشیدہ طور پر ربط ضرور ہے جو ان کے پلاٹ کی جان ہے۔
خواجہ احمد عباس کی کہانیوں کے کردار ہندوستانی معاشرے کے کردار ہیں جن میں ہر مذہب اور ہر ملت کے افراد شامل ہیں۔ چھوٹے بڑے، امیر غریب، بد نیک، ظالم مظلوم، سنگ دل رحم دل، صابر شاکر جلد باز،کاہل انقلاب پسندہر قسم کے کردار ان کی کہانیوں میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ان کے کردار جامد اور ٹھہرے ہوئے کردار نہیں ہیں بلکہ راونڈ کردار ہیں جو حالات کے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ابابیل کا رحیم خان آخر تک سنگ دل نہیں رہتا بلکہ بیوی اور بچوں کے ترک مکاں کے بعد بے بس اور رحم دل کردار میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ خواجہ احمد کا مطالعہ وسیع اور مشاہدہ گہرا تھا جو ایک سچے وطن پرست تھے جس کے اندر زندگی کی غیر معمولی اور پیچیدہ مسائل کو سمجھنے،پرکھنے اور دیکھنے کی صلاحیت موجود تھی جو معاشرے کے اُتار چڑھاو اور خوبیوں خامیوں سے پوری طرح آگاہ تھے جونئے دور کی آہٹوں سے باخبر تھے، مسائل و میلانات سے آگہی رکھتے تھے، اجتماعی اور انفرادی زندگی کی محرومیوں کا ادراک جسے حاصل تھا اور آپسی بھائی چارہ انسانی دوستی جس کا شیوہ تھا،بے باکی حق گوئی جس کے اندر بدرجۂ اتم موجود تھی۔خواجہ احمد عباس زبان و بیان پر مکمل عبور رکھتے تھے،بیانیہ پر قدرت حاصل تھی اور کہانی کے فن سے بخوبی واقف تھے، موصوف کی مختلف موضوعات پر پکڑ تھی، کردارہمارے معاشرے کے چلتے پھرتے انسان ہیں، مکالمے دلچسپ اور دلکش ہیں، اسلوب منفرد اور انداز بیان مختلف ہے، پلاٹ میں ترتیب ہے،ماحول و فضا حالات و واقعات سے پوری طرح ہم آہنگ ہے ‘ آغاز و اختتام پرکشش و پر اثر ہے،مقصدیت اور حقیقت نگاری کوکہانیوں میں اولیت حاصل ہے، استعارے اور علامتوں کا استعمال بڑی ہوشیاری سے کیا گیا ہے۔ ان تمام خوبیوں کی بنا پر دوسری اصناف کی بہ نسبت افسانے میں انھیں زیادہ شہرت نصیب ہوئی۔
P/o: Rajal, R/O Rajal, Tehsil Nowshera
Distt: Rajouri - 185151 (J&K)
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں