15/1/19

قرۃ العین حیدر کی خاکہ نگاری مضمون نگار:۔ جمیل اختر





قرۃ العین حیدر کی خاکہ نگاری

جمیل اختر
اردو ادب میں خاکہ نگاری کو گذشتہ چند دہائیوں میں کافی مقبولیت حاصل ہو ئی ہے۔خاکہ دراصل سوانحی مضمون کو کہتے ہیں جس میں کسی شخصیت کے اہم اور منفرد پہلو اس طرح اُجاگر کیے جاتے ہیں کہ اس شخصیت کی ایک جیتی جاگتی تصویر پڑھنے والے کے ذہن میں پیدا ہو جا تی ہے۔خاکہ اسی شخص کا لکھا جاتا ہے جس سے خا کہ نگار ذاتی طور پر واقف ہو اور اس نے اسے بہت قریب سے دیکھا ہو۔ خاکے میں زندگی میں پیش آنے والے واقعات پیش کیے جاتے ہیں جو زندگی کے زیادہ تر یا تمام پہلوؤں پر حاوی ہوں اور جن سے اس فرد کی مکمل شخصیت اپنی خوبیوں خرابیوں کے ساتھ جلوہ گر ہو سکے یعنی مطلوبہ شخص کی تصویر کو نما یا ں اور واضح کریں اور تاثر کو واضح کر نے میں معاون ثابت ہوں ؛بقول نثار احمد فاروقی :
’’اچھا خاکہ وہی ہے جس میں کسی انسان کے کردار اور افکار دونوں کی جھلک ہو۔ خاکہ پڑھنے کے بعد اس کی صورت، اس کی سیرت، اس کا مزاج، اس کے ذہن کی افتاد، اس کا زاویہ فکر، اس کی خوبیاں اور خامیاں سب نظروں کے سامنے آجائیں ‘‘1؂
اردو میں یوں تو بے شمار خاکے لکھے گئے، لیکن ان میں سے چند اپنی فنی خوبیوں کی وجہ سے زندہ وجاوید ہو گئے۔ خواجہ حسن نظامی،مولوی عبدالحق، رشید احمد صدیقی،شاہد احمد دہلوی، غلام احمد فرقت، شوکت تھانوی،عصمت چغتائی،سعادت حسن منٹو، کرشن چندر، فضل احمد وغیرہ کے خاکے اردو ادب میں اپنی انمٹ چھاپ چھوڑگئے۔ اس روایت کو قرۃالعین حیدرنے منفرد انداز میں آگے بڑھایا۔ انھوں نے صدیق احمد صدیقی،چودھری محمد علی رودلوی،مولانا مہر خان شہاب مالیر کو ٹلوی، شاہد احمددہلوی،عزیز احمد، ابن انشاء،عصمت چغتائی، غلام عباس، ن.م.راشد،شوکت تھانوی، مہندر ناتھ، سعات حسن منٹو،فیض احمد فیض، جاں نثار احمد، آذر زوبی، اسرارالحق مجاز، شائستہ اکرام اللہ، عطیہ حبیب اللہ، مجروح سلطان پوری، عزیز بانو داراب وفا، صالحہ عابد حسین،رشید جہاں، سلطانہ جعفری، حسنیٰ نعمان حیدر، کرشن چندر، فیروز جبیں، انیس قدوائی،رفیق زکریا، گنیش بہاری طرز، سجاد ظہیر، ہر چرن چاولہ وغیرہ پر خاکے اور خاکہ نما تحریریں قلم بند کی ہیں۔
آئینہ جہاں، کلیات قرۃالعین حیدر مر تبہ جمیل اختر کی جلدد ہم خاکے پر مبنی ہے۔ اس جلد میں خاکے اور خاکہ نما تحریروں کی تعداد مرتب نے 33درج کی ہے۔ ظاہرسی بات ہے کہ اس مختصر مضمون میں سب کا تجزیہ تو ممکن نہیں لیکن چند ایک مشہور خاکوں کا تجزیہ ضرور کر نے کی کو شش کی جائے گی تاکہ خا کہ نگاری کی صنف میں قرۃالعین حیدر کی انفرادیت پورے طور پر اجاگر ہو سکے۔ اس لیے کہ قرۃالعین حیدر نے اپنی جدت طبع سے خاکہ نگاری کے فارم میں اضافہ کیا ہے اور اسے ایک نئی وحدت میں ڈھالا ہے۔جس کا صحیح اندازہ اس کے مطالعے اور تجزیے سے ہی ہمیں ہو گا۔ پہلی انفرادیت تو خاکے کے عنوانات کی جدت ہے جو ہر خاکے کو منفرد بناتی ہے۔
خاکے کے عنوانات ہی شخصیت کی خصوصیات کو اجاگر کر رہے ہیں یا یوں کہئے متعلقہ شخصیت کا پورا عکس عنوان میں سمٹ آیا ہے۔یہ کو ئی معمولی کاریگری نہیں ہے بلکہ یہ غیر معمولی کار نامہ وہی فن کار انجام دے سکتا ہے جس کی بصیر ت و بصارت میں وسعت ہو اور جس کی قوت سامعہ بھی غیر معمولی ہو۔جو ظاہر ی ہیئت کو دیکھنے کے ساتھ ساتھ باطنی خصوصیات کو بھی یکساں طریقے سے دیکھنے کی اہمیت کو بخوبی محسوس کر تا ہو۔قرۃالعین حیدر اردو ادب کی وہ واحد ادیبہ ہیں جو ظا ہر وباطن دونوں پر بہ نظر غائر یکساں نگاہ رکھنے کی عادت سے متصف ہیں۔ ذرا ان شخصیات پر دیے گئے عنوانات پر آپ غور کریں اور خاکے کی چند سطریں پڑھیں تو مجھ سے مکمل اتفاق کریں گے:
مہاتما اور دیوتا سمان : سید سجاد حیدر یلدرم 
اندھیری رات کا مسافر : اسرارالحق مجاز 
ایک مہذب ظرافت نگار : شوکت تھانوی 
دیار فرنگ میں ایک فرنگی : صدیق احمد صدیقی 
شام اودھ کا ایک نغمہ نگار : جاں نثار اختر 
ایران میں اجنبی : ن.م. راشد 
چاند نگر کا جو گی : ابن انشا 
محل میں رہ کر جھونپڑوں کے خواب دیکھنے والے : سجاد ظہیر 
پہلا عنوان ہی والد محترم سید سجاد حیدر یلدرم سے متعلق ہے۔ اسے آپ عقیدت کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ لیکن ایک والد سے الگ ہٹ کر سجاد حیدر یلدرم میں وہ خو بیاں ہمیں نظر آتی ہیں جو کسی انسان کی عظمت کا نشان قرار پاتی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یلدرم نے اپنی پوری زندگی بہت خاموشی اور نرم روی سے گزاری۔ انکساری اور برد باری اور شہرت سے بے نیازی ان کی شخصیت کی اہم صفات تھیں یہی وجہ ہے کہ اعلی عہدوں پر فائز رہنے کے باوجود وہ غرور و تکبر،تعصب اور تنگ نظری سے کوسوں دور رہے۔روشن خیالی اور سائنسی نقطۂ نظر کے بے حد حامی تھے۔جاگیر دارانہ پس منظر اور خود اپنے وسیع اختیارات اور اقدار کے باوجود ان کے مزاج میں کسی قسم کی رعونت نہ تھی۔ان کی شخصیت، انصاف پسندی اور اصول پرستی کا جیتا جاگتا نمونہ تھی۔اس کے باوجود شفقت، نیکی اور درد مندی کی وجہ سے ان کی بڑی قدر تھی۔ نہایت عزت و احترام کی نظر سے دیکھے جا تے تھے۔ ان کے اسی وصف نے انھیں مہاتما او ر دیوتا سمان کا عوامی لقب عطا کیا۔
قرۃالعین حیدر کے تمام خاکوں میں ایک خصوصیت خاص طور پر دیکھنے کو ملتی ہے۔ وہ یہ کہ انھوں نے کسی کی کمزوریوں اور خامیوں کا مذاق نہیں اڑایا، جو عام طور پر خاکہ نگار حضرات کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسی خصوصیت ہے جو قرۃالعین حیدر نے اپنے ہاں کے کلچر سے ورثے میں پائی تھی۔قرۃالعین حیدر کی تحریر وں کا اگر ہم جائزہ لیں تو یہ وصف ان کی تمام تحریر وں، فکشن اور غیر فکشن سبھی میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ قرۃالعین حیدراحترام انسانیت کی نہ صرف قائل ہیں بلکہ اس پر عمل پیر ا بھی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ان کے تمام خاکو ں کے عنوانات افراد کی شخصیت کے کسی نہ کسی وصف کا احاطہ کرتے ہیں۔ اس کا احساس ہمیں ان کے خاکوں کا مطالعہ کر تے وقت شدت سے ہوتا ہے۔ 
دوسرے قرۃالعین حیدر کا اپنا ایک نقطہ نظر ہے۔ وہ بلا مقصد یا کسی کی منھ بھرائی کے لیے کوئی مضمون ضبط تحریر میں نہیں لا تیں، جب تک انھیں عنوان متعلقہ کے معاملات کے سیاق و سباق سے آگاہی حاصل نہ ہو، وہ قلم نہیں اٹھاتیں۔وہ ہر معاملے میں اپنا واضح نقطۂ نظر رکھتی ہیں اور عنوان متعلقہ کو پر کھنے سمجھنے اور پیش کر نے کا بھر پور سلیقہ بھی۔ یہی وجہ ہے کہ قرۃالعین حیدر کی تمام تحریروں میں ان کی اپنی انفرادیت نمایاں ہے۔ وہ انفرادیت ان کے تمام خاکوں یا خاکہ نما تحریروں میں بھی نظر آتی ہے۔وہ یک طرفہ معاملات پر نظر نہیں رکھتیں بلکہ تمام معاملات پر یکساں نگاہ رکھتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ تعصب، تنگ نظری ان کی تحریروں میں نظر نہیں آتی۔بلکہ غیر جانب داررویہ ان کی تحریروں میں دکھائی دیتا ہے۔ مثبت اور منفی دونوں پہلوان کی ہر تحریر میں مو جود ہیں۔ان کے خاکوں میں بھی ان کا یہ غیر جانب دارانہ رویہ موجود ہے تاریخ، واقعات اور اشخاص پر رواں تبصرہ ان کی افسانوی تحریروں میں کہیں کہیں پر براہ راست بھی آجاتا ہے۔ خاکہ یا خاکہ نمامضامین بھی انھوں نے خاصی تعداد میں لکھے ہیں۔ یہ بات بالکل درست ہے کہ یہ خاکے ’خاکہ نگاری‘کی مستعمل تعریف کے زمرے میں بالکل فٹ نہیں بیٹھتے بلکہ قرۃ العین حیدر کی جو لا نی طبع اور مخصوص انداز فکر نے اس کی مروجہ فارمز کو توڑ تاڑ کر ایک نئی وحدت میں ڈھالا ہے۔وہ شخصیت کے حوالے سے انسانی اقدار اور تہذیبی پس منظر کی گرہ کشائی کرنے لگتی ہیں۔ اس طرح شخصی خاکہ سماجی تجزیے کے ساتھ مکمل ہوتا ہے۔اپنے ایک مضمون میں قرۃالعین حیدر نے لکھا ہے کہ مجھ سے پوپ آف روم سے متعلق مضمون لکھنے کے لیے کہا جائے تو پہلے میں ’ہولی رومن ایمپائر‘ پر مختصر روشنی ڈالوں گی۔پھر اگلے ڈیڑھ ہزار سال کے متعلقہ معاملات پر یعنی تاریخی ورثے کے ذکر کے بغیر وہ اپنے موضوع کی طرف نہیں آتی ہیں۔وہ تمام چیزوں کو اور متعلقہ معاملات کو سیاق وسباق کے ساتھ سمجھنا اور پیش کرنا چاہتی ہیں۔ وہ براہ راست منطقی استدلال کو بروئے کار نہیں لاتیں بلکہ متعلقہ کوائف کو اس طرح جمع کر دیتی ہیں کہ نتیجے پر پہنچنا ایک خود کار عمل معلوم ہونے لگتا ہے۔ قرۃالعین حیدرکا پیرایۂ بیان ایسا ہے کہ بات کے کہیں سے کہیں نکل جانے میں بھی ایک انداز ہے۔ ان کی اسی فطرت پر روشنی ڈالتے ہو ئے ابن سعید نے لکھا ہے کہ :
’’عینی چیزوں کی ظاہری ہیئت کو دیکھنے کے علاوہ ان کی ما ہیئت کو داخلی طور پر محسوس کر نے کی عادی ہے۔ شاید اس کی قوت با صرہ اور قوت سامعہ بہت ٖغیرمعمولی طور پر حساس واقع ہو ئی ہیں۔ ایک طرف تو اس کی قوت باصرہ رنگوں اور شکلو ں اور خطوں کی کیفیت اور ہم آہنگی کو اپنے میں جذب کر نے پر تلی رہتی ہے اور دوسری طرف اس کی قوت سامعہ آوازوں کی کیفیت اور زیر و بم اور داخلی مو سیقی پر مر کوز رہتی ہے اور اس کے اپنے محسوسات نہ جانے ان رنگوں اور آوازوں کے سہارے کہاں سے کہا ں نکل جاتے ہیں اور ایک طرح کی چکا چوند کی کیفیت اس کی ادبی و فنی کا وشوں میں جھلک آتی ہے‘‘2؂
دراصل قرۃالعین حیدر کا طریق تحریر یہی ہے۔قرۃ العین حیدر دوسری اصناف کی طرح خاکہ نگاری کے بارے میں بھی اپنی ایک رائے رکھتی ہیں۔لکھتی ہیں :
’’شخصیت نگاری خصوصاََان شخصیتوں کے متعلق کچھ لکھنا جو اب ہمارے درمیان موجونہیں، ایسے بھی ذمہ داری کا کام ہے۔ موت اور زمانے کا وقفہ، یہ د ونوں چیزیں ایک دھند لکے میں انسان کو چھپادیتی ہیں اور عموماََیہ دھند لکا ذرا فاصلے سے بڑا رومانی اور خوبصورت دکھلائی پڑتا ہے۔ جب کبھی ہم اپنے مرحوم بزرگوں،عزیزوں یا اپنے بڑے لوگوں کو یاد کر تے ہیں تو بہت ہی ملے جلے جذبات کے ساتھ ان کے لیے قلم اٹھایا جاتا ہے۔ کچھ ان ہستیوں کے لیے عقیدت ہو تی ہے،کچھ ان گزرے زمانوں کے لیے ناسٹلجیا، جن میں یہ لوگ زندہ تھے۔پھر خصوصیات کا تذکرہ کیا جاتا ہے جو اب نا پید ہے‘‘؟ 3؂
قرۃالعین حیدر نے اپنے پورے ادبی سفر میں یوں تو با قاعدہ چند ہی شخصی خاکے لکھے ہیں لیکن مختلف شخصیتوں پر لکھے گئے تعزیت نامے،یادیں یا تاثراتی تحریروں میں بھی شخصی خاکے ابھرتے ہیں۔
مثال کے طور پر اپنے ایک مضمون میں اپنی ایک بھانجی کا ذکر انھوں نے اس طرح کیا ہے:
’’ہماری بھانجی صاحبہ اللہ کے فضل و کرم سے ڈاکٹر ہیں اور ایئر فورس میں فلائٹ لیفٹیننٹ کے عہدے پر فائز ہیں مگر ان کا یہ عالم ہے کہ ان کو ڈاکٹری کے علاوہ دنیا بھر کی فضولیا ت اور خرافات سے سخت دلچسپی ہے۔جدید انگریزی ادب،یونانی آرٹ، ہندو فنون لطیفہ سے شدید انس ہے اور کومکس کی تو آپ عاشق ہیں۔جب کبھی کوئی ان سے ڈاکٹری کی باتیں کر تا ہے تو دفعتاََیا آتاہے کہ ارے یہ ڈاکٹر بھی ہیں۔‘‘
یہ دانستہ طور پر لکھا گیا خاکہ نہیں ہے بلکہ قرۃالعن حیدر کے اسلوب کا ایک نمونہ ہے۔ ایسی چیزیں ان کی تحریر وں8 میں بھری پڑی ہیں۔یہ ذکر شخص متعلقہ کی زندگی کے وہ نقوش ابھار دیتا ہے جنھیں ہم ان کی خصوصیت سے مختص سمجھتے ہیں۔
قرۃ العین کے ایسے بہت سے مضامین ہیں جن میں بعض شخصیات کے حوالے سے یادیں یا شخصی تعلق یا لگاؤ کو بیان کر دیا ہے۔ ان کے بارے میں اقداری فیصلے کم کیے ہیں اور مجموعی ادبی فضا کو زیادہ تر موضوع بنایا ہے۔ ’’داستان طراز ‘‘چودھری محمد علی رودلوی پہ مضمون یوں شروع ہوتا ہے:
’’یہ شخصیت نگاری بھی نہیں کیونکہ چودھری محمد علی رودلوی کے متعلق میں اس طرح سے کچھ نہیں لکھ سکتی جس طرح سے میں اپنی نسل کے کسی فرد کے بارے میں لکھ سکتی ہوں۔‘‘4؂
پھر آگے رقم طراز ہیں :
’’بحیثیت اسٹا ئلسٹ چودھری محمد علی اردو کے ایسے منفرد ادیب ہیں کہ کو شش کرکے بھی ان کی زبان اور اظہار بیان کا تتبع نہیں کیا جا سکتا۔محمد علی ادب میں اپنے ساتھ یہ اسٹائل لا ئے اور یہ محض ان ہی کا حصہ ہے۔‘‘5؂
ذرا دیکھیے کس خوب صورتی سے محض چند الفاظ میں محمد علی رودلوی کے اسلوب کا پورا احاطہ کر دیا کہ وہ اپنے اسلو ب کے بانی بھی تھے اور خاتم بھی۔پھر فرماتی ہیں :
’’ان کی نئی کتاب ادبی حیثیت سے ہمارے لیے کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے۔نہیں معلوم ہم میں سے کتنے لوگوں کو اس بات کا اندازہ ہو گا کہ اس کتا ب کا لکھنے والا اور اس کا پس منظر ہماری ہند و پاک کی تہذیب کے تانے بانے میں کیا اہمیت رکھتا ہے۔‘‘6؂
بھلا بتائیے ’کتاب کی تنقید بھی نہیں‘والے قرۃالعین حیدر کے بیان کے زمرے سے درج بالا کوٹیشن کو کیسے باہر رکھ سکتے ہیں۔یہ تو مکمل تنقیدی بیان ہے۔
اس گفتگو کو آگے بڑ ھاتے ہوئے ان کی انفرادیت پر اس طرح روشنی ڈالتی ہیں :
’’اردو فسانے میں جوزو ر بیان،بر جستگی،شوخی اور بانکپن محمد علی اپنے ساتھ لائے... وہ اتنا انوکھا اور منفرد ہے کہ کو شش کرکے بھی اس طرح کی دو سطریں نہیں لکھی جا سکتیں۔ انداز بیان اتنا فطری ہے کہ جب دفعتاََیہ احساس ہوتا ہے کہ قصہ گو یہ واقعہ اپنے مخصوص انداز میں خود اپنی زبان سے نہیں سنا رہا تھا بلکہ یہ لکھی ہو ئی تحریر ہے تو عجیب سا لگتا ہے۔‘‘7؂
قرۃالعین حیدر کا یہ وصف خاص ہے کہ وہ متعلقہ شخصیت کے صرف خد و خال تک ہی اپنے کو محدودنہیں رکھتیں بلکہ ادبی و فنی خوبیوں کا احاطہ بھی بہت خوش اسلوبی کے ساتھ کر تی ہیں۔جس کا اندازہ درج بالا کو ٹیشن سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔وہ اس کی ادبی حیثیت کو بھی برابر اہمیت کا حامل سمجھتی ہیں۔چونکہ قرۃالعین حیدر کا مطالعہ و مشاہدہ دونوں کافی وسیع ہیں، لہٰذا ادبی تعین قدر میں انھیں کہیں بھی مشکل پیش نہیں آتی۔ فکشن نگارہو نے کے باوجود فن کی باریکیوں پر ان کی نگاہ کسی بڑے ناقد سے کم نہیں رہتی ہے۔محمد علی کی انفرادیت کے بارے میں جو کچھ بیان کیا ہے اس سے بہتر ناقدانہ رائے کوئی بڑا سے بڑا نا قد بھی نہیں دے سکتا۔
مشہور شاعر ابن انشا کا خاکہ ’چاند نگر کا جو گی‘جو ان کی تازہ ترین کتاب کے نام سے ماخوذہے، میں ان کے فن کے مختلف پہلوؤں کو اس طرح اجاگر کیا گیا ہے:
’’ابن انشا جنھوں نے اپنے لیے ایک پر اسرار، فسوں خیز شعری کائنات تخلیق کی تھی۔ سب سے پہلے میں نے ان کا ذکر اس طور پر سنا کہ یہ نو جوان شاعر لاہور میں لکڑی کا پگوڈا نما مکان بنا کر اس میں رہتا ہے اور چینی نظمیں ترجمہ کر تا ہے۔ جب ابن انشا کراچی آئے تو پتا ملا کہ یہ ایک لا ابالی،مے نوش بو ہیمنی نہیں بلکہ ایک نہایت معقول، سنجیدہ اور رکھ رکھاؤوالے انسان ہیں۔تو یہ چاند نگر (جو 1955میں شائع ہو ئی تھی)ان کی اندر ونی چاندنی کی دنیا تھی اور ہندوستانی ان کا اصلی لینڈ اسکیپ۔میر،نظیر اور کبیر ان کے اصلی ساتھی۔‘‘ 8؂
قرۃالعین حیدر کے زیادہ تر خاکو ں میں ادبیت غالب ہے۔وہ شخص متعلقہ کے خاکے کی ابتد ا ہی ادبی گفتگو سے کر تی ہیں جس سے ان کے زیادہ تر خاکوں میں عصری صورت حال کی عکاسی،ادبی نظریات کی موشگا فی،شعراء و ادبا کے ذکر اور ادبی نظریات سے متعلق خود قرۃالعین حیدر کے خیالات کا اظہار اور ادب کے بہت سے گوشوں پر روشنی ملتی ہے۔ یہ تمام چیزیں خاکے سے جدا اپنا مقام نہیں رکھتی ہیں بلکہ خاکے کا جز و لا ینفک ہیں۔ اگر انھیں خاکے سے نکال دیا جائے تو خاکہ خاکہ نہیں رہ جا ئے گا۔قرۃالعین حیدر نے اپنی فن کارانہ ندرت سے خاکے کے مروجہ فارم کو ایک نئی وحدت میں ڈھالا ہے۔
تہذیبی اقدارقرۃالعین حیدر کی تحریروں میں بہت اہمیت رکھتے ہیں ، لہٰذا وہ اس پہلو کو خاکے میں نظر انداز نہیں کر تیں۔وہ خیالی اور تصوراتی دنیا میں نہیں رہتیں، وہ اپنے اقدار کو،اپنی تاریخ کو، اپنے گرد و پیش کو، اپنی علمی روایت کو، اپنے ماضی وحال کو اپنے اندر سمو کر ایک کیفیت بنالینے پر قادر ہیں اور اس کے اظہار پر بھی پوری دسترس رکھتی ہیں۔خاکے میں انھوں نے اپنی اس فن کاری کا بخوبی استعمال کرتے ہوئے اس پہلو کو بھر پور طریقے سے اجا گر کیا ہے۔ محمد علی رودلوی کے خاکے میں تہذیبی اقدار کو ابھارتے ہو ئے ایسا رنگ بھرا ہے جو ٹوٹتی اور بنتی ہوئی تہذیبی وتاریخی اقدار کے حوالے سے ان کی شخصیت کی دلچسپ عکا سی کرتا ہے:
’’محمد علی ردولوی کی قدر بحیثیتِ فن کار ہمیں اس وقت کرنی پڑتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ وہ نہایت ایمانداری سے انسانیت پرستی کی اقدار کو سنبھالے اور برابراونچا اٹھائے رکھتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ جس طبقے اور ماحول سے وہ خود وابستہ ہیں وہ اپنی ساریValuesکھو چکا ہے۔ ‘‘
محمد علی گنتی کے ان بزر گو ں میں سے ہیں جن کو نئے لکھنے والے بھی اپنا رفیق سمجھتے ہیں اور جنھوں نے ’غیر مشروط ‘طریقے سے ادب کی نئی تحریک کا شروع سے ساتھ دیا ہے‘‘۔9؂
’’ان کا چاندی کا حقہ بھی بے حد مشہور ہے جسے ہمیشہ فصل کے نئے پھولو ں سے سجایا جاتا تھا۔یوپی میں زمیندار ی کے خاتمے کی وجہ سے اپنا تعلقہ ضبط ہو نے کاان کو اتنا زیادہ رنج تو نہیں لیکن اس کا بہت صدمہ ہے کہ اس قدر اہتمام و نفاست سے وہ حقہ اب تیار نہیں ہو سکتا،لہٰذا انھوں نے اسے ترک کر دیا۔
اودھ کی بہت سی باتوں سے بہت خفا رہے لیکن اسے چھوڑنے کے لیے کسی حالت میں تیار نہیں۔لکھنؤ،رودولی اور سارے اودھ کے اجڑنے کی انھیں شدید ذہنی اور روحانی تکلیف ہے اور اس وقت بھی جب کہ ان کی ساری اولاد اور پوتے،نواسے پاکستان اورسمندر پار کے ممالک میں سکونت پذیر ہیں۔یہ گزرے وقتو ں کے سائے کی طرح اب بھی اپنے پرکھوں کے وطن ردولی میں رہتے ہیں۔10؂
قرۃالعین حیدر نے اپنے خاکوں میں زندگی کے بہت سے فلسفوں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ ’دیار فرنگ میں ایک فرنگی‘۔ یہ صدیق احمد صدیقی پر لکھا گیا ایک بے حد پر اثر خاکہ ہے جس میں ان کے اَن گنت حیرت انگیز اور دلکش پہلوؤں کو اس طرح پیش کیا ہے کہ چچا کی ذات انسان نوازی اور انسان دوستی کی مثال بن کے سامنے آتی ہے۔شرافت و نجابت،زندہ دلی،بشاشت و ذہانت اور مجلس آرائی کی بہترین مثال کے ساتھ ساتھ اخلاق و کردار کے اعلی صفات سے بھی مزین تھے۔جب ان کی موت کی اچانک خبر قرۃالعین حیدر کو ملی تو پہلے تو دل یقین کرنے کو تیار نہیں اور جب د ل کو اس بات کے لیے آمادہ کر لیا تو پھر چچاکی موت صر ف موت نہ رہی بلکہ یادوں کے دریچے ایک ایک کرکے کھلتے چلے گئے:
’’جس روز میں انگلستا ں سے کراچی کے لیے ر وانہ ہو رہی تھی چچا مجھے بوٹ ٹرین میں سوار کر نے کے لیے آئے تھے۔پلیٹ فارم پر خدا حافظ کہنے والوں کا مجمع تھا.... سب پر (میرے سمیت )شدید رقت طاری تھی جس وقت بوٹ ٹرین چھٹنے والی تھی چچا برساتی پہنے ہوئے بھاگم بھاگ پلیٹ فارم پر پہنچے۔ان کو پروگرام ختم کرکے اسٹوڈیو سے نکلتے نکلتے دیر ہو گئی تھی اور وہ بہت تیز رفتار ی سے اسٹیشن تک پہنچے تھے کہ ٹرین نکل نہ جائے۔ اس ہنگامے میں ان سے زیادہ بات نہیں ہو سکی۔ اچھا بیٹا خدا حا فظ۔ انھو ں نے کہا خدا حافظ...خدا حافظ چچا...میں نے جلدی سے جواب دیا اور ٹرین میں سوار ہوگئی۔ وہ فیروز جبیں،نشیب مکھرجی، راز بھا ئی اور حسنہ بھابھی اور نسیمہ ممانی اور تقی سید اور دوسرے لوگوں کے ساتھ پلیٹ فارم کے مجمع میں کھڑے رہ گئے۔ٹرین روانہ ہوگئی۔ اس وقت میرے فرشتوں کو بھی یہ خبر نہ تھی کہ یہ چچا سے آخری ملاقات ہے۔ اس کے بعد ان کی صورت کبھی نظر نہ آئے گی۔‘‘ 11؂
صدیق احمد صدیقی جنھیں وہ چچا کہتی تھیں اور جن سے قرۃالعین حیدر کے مراسم بے حد گہرے تھے۔زمانۂ قیام لندن میں چچا وقتاََفوقتاََقرۃالعین حیدر کی بر ابر مدد کر تے رہے تھے۔جب ان کی موت کی اچانک خبر ملی تو زندگی کی بے ثباتی اور موت کا ذکر کر تے کرتے موت کاپورا فلسفہ پیش کر دیا:
’’انھوں نے ثابت کر دیا کہ زندگی جو ہم سب کو اس قدر عزیز ہے،دنیا اس کی دلچسپیاں، خوشیاں، یادیں، ارادے،تمنائیں اپنے دوسرے اور عزیزسب قطعی لا یعنی ہیں۔ اصلیت محض یہ ہے کہ موت کسی وقت بھی ٹہلتی ہو ئی ہماری طرف آ نکلتی ہے اور ہمار اخاتمہ ہو جاتا ہے۔ اس میں حضور والا نہ کوئی فلسفہ ہے نہ ما بعد الطبیعات، سیاست، ادب،شاعری، دولت،گھر بار،کتابیں،مضامین،علم سب چیزیں بکواس ہیں۔‘‘12؂
’’دوسری دنیا محض قبرستان کا ایک کو نہ ہے جس میں ایک گڑھا کھود کر انسان دفن کردیا جاتا ہے اور ان پر نام کا کتبہ لگا دیا جاتا ہے۔مٹی میں انسان دفن ہو جاتا ہے اور یہ اصل حقیقت ہے۔مٹی اور تنہائی اور اندھیر ا۔یہ اصل ستیہ ہے یہا ں پہنچ کر وقت اور ابدیت اور فنا اور بقا اور حیات بعد الموت سب بے معنی ہو جاتا ہے۔‘‘13؂
’’ دراصل زندگی کی یہی سچائی ہے۔موت کا کوئی وقت معین نہیں ہے۔چلتے پھرتے کھا تے پیتے،ہنستے بولتے انسان دنیا سے اس طرح گزرجاتا ہے کہ بعض وقت اس کی موت کا یقین کر نا مشکل ہو جاتا ہے مگر انسان ہے کہ سب کو مرتے دیکھتا ہے لیکن اسے اپنی موت کا یقین نہیں ہوتا۔‘‘
’’ہم جو اس قدر زندگی اور زندگی کے مقاصد اور مسرت کی تلاش اور آدرشوں کی تکمیل کے متعلق جانے کیا کیا الم غلم ہانکا کر تے ہیں مگر پل بھر کی خبر نہیں ہوتی۔‘‘ 14؂
’’چچا خود بھی ہمارے ساتھ بیٹھ کر گھنٹوں اسی طرح ہانکتے تھے۔مگر 12ستمبر کی شام کو انتقال فر ماکے انھوں نے ثابت کر دیا کہ وہ ہم سب سے تیز نکلے ‘‘ 15؂
جبکہ چچا اس سے قبل یعنی :
’’12ستمبر کی شام تک وہ ہم لوگوں میں،یعنی ان نسانوں میں جو ابھی زندہ ہیں، مستقبل کے متعلق سوچتے ہیں،اپنے اپنے کا موں میں مصروف ہیں،شامل تھے۔ 12ستمبر کی شام کو ’ڈان‘اخبار نے لکھا ہے وہ دفتر سے گھر واپس جا رہے تھے اور بس میں ان کا انتقال ہو گیا۔لندن کی سرخ ڈبل ڈیکر میں جس کے ذریعے وہ پچھلے برسوں میں ہزاروں مر تبہ شام کو اسی طرح اسٹوڈیوزسے گھر گئے۔ان کا خاتمہ ہو گیا۔اللہ اکبر۔‘‘16؂ 
موت کی غیر یقینی صورت حال اور زندگی کی اٹل سچائی کو انھوں نے اس خاکے میں شامل کرکے فلسفہ موت کے متعلق اپنے خاص نقطۂ نظر پر اس طرح گفتگو کی ہے کہ موت کے ماتم اور زندگی کے جشن کی باریکی پورے طور پر اجاگر ہوجاتی ہے اور ہم سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کیا زندگی کی سچائی یہی ہے۔قرۃ العین حیدر نے ید ھشٹر کے حوالے سے اس حقیقت پر یوں روشنی ڈالی ہے:
’’مہا بھارت میں لکھا ہے کہ دھرم نے جو بگلے کے رو میں نمودار ہوا تھا، ید ھشٹر سے پوچھا کہ اس حیرت انگیز دنیا میں سب سے زیادہ حیرت انگیز چیز کیا ہے ؟یدھشٹر نے جواب دیا..... وہ چیز یہ ہے کہ انسان اپنے آس پاس کے دوسرے انسانوں کو مرتے دیکھتا ہے مگر اسے یہی یقین رہتا ہے کہ وہ خو د کبھی نہیں مرے گا۔ یہی دنیا کی سب سے حیرت انگیز چیز ہے۔‘‘17؂
یہ انداز تحریر قرۃالعین حیدر کے اسلو ب کی وہ خصوصیت ہے جو ان کو منفرد بنا تی ہے۔بات چچا صدیقی کی موت سے شروع ہوتی ہے اور موت، سارے سروکار اور معاملات کو سیاق و سباق کے ہی پس منظر میں شخص متعلقہ کی موت کے حوالے سے انھوں نے اس طرح پیش کر دیا کہ وہ خاکے کا جز لاینفک بن گیا۔بات غیر ضروری بھی نہیں اور منطقی استدلال سے بھر پور ایک خاص تاثر رکھتی ہے۔روانی اور بہاؤ بھی ہے اور تخلیقی کاوش کی سی کیفیت بھی۔
خاکے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ متعلقہ شخصیت کے اہم اور منفرد پہلو اس طرح اجاگر کیے جائیں کہ اس شخص کی جیتی جاگتی تصویر قاری کے ذہن میں پیدا ہو جائے۔چچا صدیقی کے انفرادی پہلوؤں پر وہ اس طرح روشنی ڈالتی ہیں:
’’چچا فرنگی محل کے علما کے خاندان میں پیدا ہوئے۔حافظ قرآن تھے۔علوم اسلامی اور فقہ پر چچا کی معلومات بے حد وسیع تھیں۔بین الاقوامی سیاست پر ان کی رائے متوازن اور جچی تلی ہوتی تھی۔دنیا کے مستقبل کے بارے میں ان کا پر سپکٹو کمال کا تھا۔ تاریخ کے متعلق وہ اکثر کہتے تھے کہ اس کی پروسس کو ہم سمجھ نہیں پاتے اور اب تاریخ ہمیں چھوڑ کر آگے نکل گئی ہے۔چچا صحیح معنوں میں ترقی پسند تھے۔(گو تقی سید ان کو اٹھارہویں صدی کا لبرل انگریز کہتے تھے )اردو ادب کے بہت بڑے عمدہ نقاد تھے۔ کاہلی کے مارے کبھی سنجید گی سے لکھ کر نہ دیا۔آٹھ سال تک متواتر انھوں نے جو پروگرام لکھ کر نشر کیے ان میں سے بہت سی چیزیں ایسی نکل آئیں گی موضوع کے تنوع اور طرز بیان کی بنا پر جن کی مستقل ادبی حیثیت ہے۔ ‘‘18؂
کسی کی زندگی کے یہ و ہ پہلو ہیں جن کا علم ہر کس و ناکس کو نہیں ہو سکتا۔ صرف قریبی احباب ہی کو ان باتوں کا علم ہوتاہے۔قرۃالعین حیدر نے شخصیت کے ان پہلو�ؤں کو نمایاں کرکے ان کی خوبیو ں کو چند جملوں میں اس طرح اجاگر کیا ہے کہ ان کا مکمل تعارف اپنے سیاق و سباق میں سامنے آجاتا ہے۔ مزاجی کیفیات اور ان کے حرکات و سکنات کو بھی بغیر کسی مبالٖغہ آمیزی اور مدح سرائی کے اس طرح پیش کر دیا ہے کہ چچاکی قدرومنزلت ایک شخص واحد کے طور پر قابل احترام ہو جاتی ہے۔اس گفتگو کو آگے بڑھاتے ہو ئے مزید لکھتی ہیں:
’’چچا اس کلچر کی پیداور تھے جس میں فن گفتگو اور آداب محفل کو بہت اہمیت دی جا تی تھی۔ چچا بھی فن گفتگو کے ماہر تھے۔ا ن کی ایسی دلچسپ باتیں کر نے والے میں نے بہت کم دیکھے ہیں۔ان کی خوش خلقی،حلیم الطبیعی، علمیت،حاضر جوابی،انکساری، شرافت نفس، نرالی حس،سنجیدگی،انتہائی درجہ کی ذہانت،کس کس با ت کو یاد کیا جائے۔‘‘19؂
آگے ان کی شخصیت کی مزید خصوصیات پر اس طرح روشنی ڈالتی ہیں :
’’چچا پرانے تمدن، پرانی وضع داری، اور کلچر کا مکمل اور دلآویز نمونہ تھے،چچا صحیح معنوں میں مہذب تھے وہ پرانے لکھنو اور پرانے ہندستان کے تمدن کے ان نمائندوں میں سے تھے جو اب خال خال ہی نظر آتے ہیں۔‘‘20؂
صدیق احمد صدیقی لندن کی محفلو ں میں جگت چچا کے نام سے جانے جاتے تھے۔ بڑا چھوٹا ہر کوئی ان کو چچا ہی کہتا تھا۔قرۃالعین حیدر تو خیر ان سے بہت چھوٹی تھیں لہٰذا وہ بھی انھیں سبھوں کی دیکھا دیکھی چچا ہی کہتی تھیں۔اس بابت تحریر کر تی ہیں :
’’نہ معلوم چچا کو چچا کس نے کہنا شروع کیا۔یہ لقب غالباََعلی گڑھ کے زمانے کی یاد گار تھا، جہاں وہ 1922سے1939 تک رہے تھے۔ چچا علی گڑھ کی زندہ دلی اور بشاش ذہانت اور مجلس آرائی کی روایتوں کی بہترین مثال تھے۔ان کے جانے سے علی گڑھ کا ایک ستون گر گیا۔‘‘ 21؂
چچا انسان دوستی اور انسانیت نوازی کی مثال تھے۔انھوں نے پوری زندگی انسانیت کی خدمت کی۔ کبھی اپنے لیے زیا دہ کچھ نہیں سو چا۔نہ نام ونمود کی فکر، نہ دولت و منصب کی ہوس۔ بس رفاہ عامہ کے بہترین کارکن یا اعلی افسر کہہ لیجیے۔سارے جہا ں کی فکر کی۔اپنی فکر کبھی کی ہی نہیں۔ ہر وقت جاننے والوں کا مجمع لگا رہتا تھا۔ہر کسی کے دل میں چچا بستے تھے۔اس یاد کا اس طرح ذکر کیا ہے:
’’لندن میں صدیق احمد صدیقی جگت چچا تھے اور بی بی سی کی پاکستانی اور ہندوستانی برادری کے گرو۔ہر ایک ان کے پاس اپنے اپنے پرابلم لے کر آتا اور چچا بیٹھے سب کے مسائل حل کیا کر تے۔میں سمجھتی ہوں کہ اتنی بڑی دنیا میں چچا کا دشمن کو ئی بھی نہ تھا،ان گنت لو گوں کی چچانے مدد کی اور آڑے وقت میں کام آئے۔‘‘22؂
قرۃالعین حیدر نے چچا صدیق کے خاکہ میں خلوص و محبت اور اپنائیت کا ثبوت پیش کیا ہے۔ چونکہ وہ خود انسان دوستی اور انسانیت نوازی کی قائل تھیں، اس لیے انھوں نے اپنی تحریروں میں جا بجا اس کی عملی تعبیر و تشریح پیش کی ہے۔سچائی، حق اور مساوات کا مثالی نمونہ خو د ان کی ذات تھی۔ جو انسانیت کا قدر داں ہو گا وہ دوسروں میں پائی جانے ولی اس خوبی کو نہ صرف اپنائیت سے پیش کرے گا بلکہ اقدار حیات کی اعلی ترین خوبیوں میں اسے شمار بھی کرے گا۔ قر ۃ العین حیدر نے انسانیت نوازی اور درد مندی کے اس پہلو کو چچا کی ذات سے منسلک کرکے انھیں اعلی وارفع مقام عطا کر نے کی کو شش کی ہے۔صداقت اور دیا نت داری کا دامن تکلف اور تصنع سے کہیں بھی مجروح نہیں ہو نے دیا ہے۔ گفتگو میں سلیقہ مندی ایسی کہ ہر جگہ غیر جانب دارا ور مخلص نظر آتی ہیں۔اور نہایت موثر پیرائے میں معصومیت کے ساتھ اپنی بات کہہ کر گزر جاتی ہیں۔
قرہ العین حیدر کو اپنی اقدار و روایا ت بے حد عزیز تھیں۔وہ ہمیشہ انسا ن کی خصوصیات اور ان کی ادبی روایات کو ثقافتی ورثے میں تلاش کرتی تھیں اور اس کے لیے وہ ماضی کا سفر کر تی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ تہذیب و اقدارصدیوں کی وراثت ہو تی ہے۔اورانسان کا نجیب الطرفین ہو نا بھی اسی بات پر منحصر ہے کہ اس کا ماضی،ماضی کی روایات اور خاندان کیا تھا لہٰذا ہر خاکے میں انھو ں نے اس عمل کو دہرایا ہے۔ ہر خاکہ نگار میں پائی جانے والی خصوصیات کو اس کے خاندانی و معاشرتی پس منظر میں جا کر اجاگر کرنے کی کوشش کی یعنی تاریخ میں ڈوب کر ابھر نے کا عمل اور پھر اس کے تمام سروکار یعنی اس کی جڑوں تک پہنچنے کی کوشش۔ یہی ان کی تحریر کی خاصیت بھی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ خاندانی اور معاشرتی پس منظر کو اجاگر کیے بغیریہ اندازہ نہیں ہو سکے گا کہ شخص متعلقہ میں یہ خصوصیات کہا ں سے آئیں۔ مثلاًسجاد حید ر یلدرم کے بارے میں لکھتی ہیں :
’’یلدرم کے خاندان کو ان سب چیزوں پر بڑا فخر تھا جو ایک زمانے میں انسانیت کا اعلی ترین معیار سمجھی جاتی تھیں۔یعنی کلچر اور شرافت نفس۔(اس کے علاوہ ان لوگوں کو کھرے قسم کے سید ہو نے پر بھی بڑا ناز تھا )سید حسن ترمذی نگر سگر دادا تھے جو وسط ایشا سے ہندوستان آئے۔ (تر مز آج کل سوویت ترکستان میں ہے) صدیوں تک اس گھرانے میں علم کی وراثت ایک نسل دوسری نسل کے ہاتھ سونپتی گئی۔یہ سب عالم لوگ تھے۔ روایتی قسم کے مولوی اور کٹھ ملانہیں تھے۔لہٰذا علمیت کے ساتھ ساتھ زندگی کی لہر بھی قائم رہی۔زیادہ دلچسپ بات یہ تھی کہ بیٹیاں بھی پڑھی لکھی ہو تی تھیں،اسی گھرانے کی ایک بی بی سیدہ ام مریم نے قرآن شریف کا تر جمہ فارسی میں کیا تھا۔سیدہ ام مریم کی بٹیا یلدرم کی ماں تھیں۔ ‘‘23؂
یلدرم میں پائی جانے والی شخصی خصوصیات دراصل ان کے اسی پس منظر کی دین تھی۔روشن خیالی، انصاف پسندی، اصول پر ستی، دردمندی، نیکی، شرافت اور علمیت اسی وراثتی پس منظر کی تفسیریں ہیں۔ چودھری محمد علی رودلوی کا تعارف اسی پس منظر میں اس طرح شروع کر تی ہیں :
’’چودھری محمد علی ضلع بارہ بنکی (اودھ)کے مشہور قصبے ردولی کے رہنے والے ہیں۔ 1882 میں پیدا ہوئے۔ یہ انیسوی صدی کے آخر والی اس نئی نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ جس کا میں نے اوپر کہیں ذکر کیا ہے۔ محمد علی اس نسل میں تنہا نہیں تھے۔میرے والد اس کے ایک فرد تھے۔اور میرے والد کے سارے دوست اور ساتھی، منشی پریم چند، منشی دیانرائن نگم، سر محمد یعقوب،علی برادران، مشتاق احمد زاہدی، سید رضاعلی، مولانا ابوالکلام آزاد، حسرت موہانی،سر تیج بہادر سپرو، سید عبدالقادر سبھی اس گروہ میں شامل تھے۔‘‘ 24؂ اس زمانے کا ایک کلچر تھا جس نے لکھنو،دہلی اور دو آبے کے علاقے کی ایک طرح کی قلعہ بندی کر رکھی تھی،ہیومنزم کی چند اقدار تھیں جنھوں نے اس خطے کے کلچر کو جنم دیا تھا اور جسے بیرو نی مداخلت اور باہمی مذہبی آویزش نے مل جل کر بخوبی ختم کر دیا او ر جس کا فائنل اور خوف ناک نتیجہ ہم نے 1947میں دیکھ لیا۔
پھر ہمار اعوامی کلچر تھا۔جو ہم نے اپنے دیہاتوں اور اپنے قصبہ جات میں دیکھا تھا۔ اور جس کی بنیادیں انسانیت پرستی کی ان روایات پر رکھی گئی تھیں۔اسی تہذیب اور ان اقدار کے ایک نام لیوا چودھری محمد علی ہیں‘‘25؂
ان اقتباسات میں ان کے ادبی وشخصی سارے سروکار اور معاملات کو اس طرح پیش کر دیا ہے کہ اس سیاق وسبا ق میں محمد علی رودلوی کے بارے میں خاکے میں جو تفاصیل پیش کی ہیں وہ غیر متعلق اور غیر ضروری معلوم نہیں پڑ تیں۔یہ محض عقیدت مندانہ اظہار نہیں ہے۔اقدار کے حوالے سے ان کی شخصیت کا ایک دلچسپ بیان ہے۔شخصیت کی بھر پور عکاسی بھی اور اقدار کی جھلکیاں بھی۔
اسی حوالے سے حسنہ آپا کی شخصیت کا خاکہ یوں کھینچا ہے:
’’حسنہ آپا ایک ایسے گھرانے میں پیدا ہوئیں او ر پروان چڑھیں جو اس دور کے بیشتر گھرانوں کی طرح علم وادب کا شائق تھا ‘‘26؂’’حسنہ آپا(حسنہ لقمان حیدر)ایک ایسی غیر معمولی خاتون تھیں...خود بیک گراؤنڈ میں رہ کر اردو ادب و زبان کی خد مت کی.... ہماری کزن بیگم حسنہ لقمان حیدر ان ہی نہایت غیر معمولی افراد میں شامل تھیں جنھوں نے اردو کے لیے بہت کچھ کیا مگر کبھی ان کاڈ نکا نہیں بجایا۔نہ انھو ں نے کبھی شہرت یا صلہ کی تمنا کی۔وہ ہماری سماجی تاریخ کے ایک نہایت اہم موڑ سے تعلق رکھتی تھیں‘‘۔27؂
زبان و ادب کی خدمت کے حوالے سے ان کے کردار پر یوں روشنی ڈالی ہے :
’’حسنہ آپا نے ڈھاکہ میں انجمن ترقی اردو کی سکریٹری کی حیثیت سے بہت ہی تندہی سے کام کیا۔اس وقت تک اردو کے خلاف تعصب بھی شروع نہیں ہوا تھا۔ ڈھاکہ میں بہت سے اردو شاعر اور ادیب موجود تھے جو کسی نہ کسی ملازمت یا کار وبار کے سلسلے میں وہاں آتے تھے۔جب میں وہاں جاتی تو مختلف اردو تنظیموں کی طرف سے جلسے وغیرہ منعقد ہوتے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کا اردو ڈپارٹمنٹ بھی بہت فعال تھا،علاوہ ازیں حسنہ آپا کے یہاں آئے دن کوئی نہ کوئی ادبی نشست یا میٹنگ وغٖیرہ ہوتی رہتی تھی‘‘۔28 ؂
حسنہ آپا کی ادبی شخصیت کو یوں اجاگر کیا ہے:
’’حسنہ آ پا ادب کی بہت اچھی پا رکھ تھیں۔شاعر ی تو خیر ان کی گھٹی میں پڑی تھی۔‘‘ 29؂
حسنہ آپا ایک خوش گو شاعرہ تھیں او ر انھوں نے یہ صلاحیت اپنے والد سید نثارحیدر زیدی سے ورثے میں حاصل کی تھی۔چچا نثا رحیدر یوپی کے جن اضلاع میں تعینات رہے، وہاں ان کی جائے قیام ایک شعرستان بن گیا جہاں اردو کے نامور شعرا آ کرقیام کر تے تھے اور شعر و سخن کی محفلیں منعقد کی جاتیں۔
حسنہ آپا ایک بے حد خوش مزاج اور نیک دل خاتون تھیں۔ڈھاکے کے زمانۂ قیام کے دوران انھوں نے بڑی لگن کے ساتھ اردو کی تر ویج و ترقی میں حصہ لیا۔ان کی جائے قیام اردو کے علاوہ بنگالی ادیبوں کا بھی ایک مستقر بن گئی۔(ص30)
خاکے میں حسنہ آ پا سے متعلق زبان و ادب کے سلسلے میں ان کی گہری دلچسپی ان کی ادبی و شعری روایت کا وہ حصہ ہے جو وراثت کے طور پر ان کے والد سے ان میں منتقل ہو ئی، اور اس ادبی وراثت کی آبیاری میں انھوں نے کسی بھی سطح پر کوئی دقیقہ نہیں اٹھا رکھا۔ہمیشہ فعال اور سر گر م رہ کر ڈھاکہ کی ادبی فضا کو توانائی بخشی۔ان کی اس تحر یک کے نتیجے میں ایک پورا ادبی نیٹ ورک پروان چڑھا۔ انھوں نے شاعری کے علاوہ نثر میں بھی اپنی جو دت طبع کے جوہر دکھا ئے اور ایک ناولٹ بہ عنوان ’آمنہ‘بھی لکھا۔
ادب کے علاوہ حسنہ آپا کی ایک اور خصوصیت فلاحی کام ہے۔جس کا تذکرہ قرۃالعین حیدر نے خاکے میں اس طرح کیا ہے :
’’حسنہ آپا خدمت خلق کے لیے ہمیشہ تیار رہتی تھیں۔انھوں نے بہت سے لوگوں کی نہایت خامو شی کے ساتھ ہر طرح کی امداد کی۔ وہ نہایت بشاش اور خوش اخلاق خاتون تھیں۔کبھی کسی کی برائی یا اہانت یا نکتہ چینی بھی ان کی زبان سے نہیں سنی گئی۔لیکن وہ ایک پروفیشنل Do-Gooderنہیں تھیں۔ ورنہ وہ بڑی آسانی سے لیڈری بھی کر سکتی تھیں۔‘‘31؂
حسنہ آپا میں پائی جانے والی ان خصوصیات کو قرۃالعین حیدر نے ان کے تہذیبی پس منظر میں، اقدار حیات میں پائی جانے والی خوبیوں کے حوالے سے دیکھنے کی کو شش کی ہے اور ہر جگہ ا س حوالے پر زور بھی دیا ہے۔قرۃ العین حیدر کا اپنا یہ ا نداز نظر ہے۔اکثر بزرگوں کو یہ کہتے ہوئے سنا بھی گیا ہے کہ فلاں شخص میں یہ خوبیا ں اس کے خاندانی بیک گراؤ نڈ کا نتیجہ ہیں۔اس لیے ہر معاملے میں ہمارے یہاں خاندان اور بیک گراؤنڈ پر کافی زور دیا جاتا ہے۔قر ۃ العین نے اس حوالے کواپنے مخصوص نقطۂ نظر سے توانائی بخش دی ہے، خاکے میں اسے پرو کر خاکے کی شان دو بالا کر دی ہے۔
خاکہ نگار کو واقعہ نگاری میں مہارت حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ منظر نگاری پر بھی عبور حاصل ہونا لازمی ہے۔اس لیے کہ خاکے میں واقعات اس ترتیب سے پیش کیے جاتے ہیں کہ وہ واقعات شخص متعلقہ کی تصویر کو نمایا ں اور واضح کر سکیں اور تاثر کو گہرا کر نے میں معاون ثابت ہوں۔قرۃ العین حیدر کو ان دونوں فنی خوبیوں کو پیش کر نے میں مہارت حاصل ہے۔ناول وا فسانے میں ان کے اس جوہر نے اپنی الگ شناخت بنائی ہے۔ انھوں نے خاکے میں بھی اپنی اسی فنی مہارت سے کام لیتے ہوئے جان ڈال دی ہے۔ وہ واقعے کو غیر جانبداررہتے ہوئے حقیقت اور دیانت داری سے ایسے بیان کرتی ہیں جیسے واقعہ آنکھو ں کے سامنے رونما ہو رہا ہو۔اسی طرح منظرکی عکاسی بھی اس طرح کر تی ہیں کہ آئینہ کی طرح شفاف نظر آتی ہے۔
ایک ماڈرن عا لم دین کے عنوان سے ایک مختصرسا خاکہ مولانا مہر خاں شہاب مالیر کوٹلوی پربھی قرۃالعین حیدر نے رقم کیا ہے۔ مولانا ایک عالم اور مفکر تھے، انتہائی منکسر المزاج، غیور اور خود دار۔ انھو ں نے ’دین الٰہی اور اس کا پس منظر‘کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی۔ان کے نظریات کے متعلق عینی رقم طراز ہیں : 
’’مرحوم وہابی مسلک اور انقلابی خیالات والے ایک عقلیت پسند عا لم اور علی گڑھ کے کمیونسٹ مولانا سید محمد ٹونکی مرحوم کے ما نند ایک بہت پیارے،لائق صد تکریم بزرگ تھے (آپ کی روشن خیالی اور Non Confirmism کا یہ عالم تھا کہ کہتے تھے ’’اگر وید مقدس اور گیتا الہامی صحائف ہیں تو ہندؤوں کو اہل کتاب سمجھنا چاہیے۔‘‘32؂
مولانا کی روشن خیالی،انقلابی خیالات اور عقلیت پسندی کی وجہ سے قرۃالعین حیدر نے انھیں ایک ماڈرن عالم دین کا خطاب عطا کیا ہے۔ پچاسی سال کی عمر میں کئی میل پیدل چل کر قرۃالعین حیدر کے گھر کے پاس کسی کو ٹیو شن دینے آتے تھے۔اور اکثر بغیر کسی پیشگی اطلاع کے مسکراتے ہوئے قرۃالعین حیدر سے ملنے چلے آتے تھے۔اس منظر کی تصویر کشی عینی نے یوں کی ہے :
’’مولانا شہاب جس خاموشی اور فروتنی کے ساتھ زندہ رہے، اسی خاموشی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گئے اور ان کے مرنے کے بعد بھی وہی سکوت طاری رہا،مولانا کے انتقال کے بعد مجھے اکثر خیال آیا، ابھی ابھی کی بات ہے کہ دروازے کی گھنٹی بجی،مولانا شہاب عصا ہاتھ میں لیے کھڑے مسکر ا رہے ہیں۔ابھی ابھی غائب۔ اب کہا ں ہو ں گے،یقینااسی سکون اور دل جمعی سے فرشتوں کے ساتھ اڑتے پھر رہے ہوں گے۔‘‘33؂
قرۃالعین حیدر پر یہ الزام ہے کہ وہ صر ف اعلی سوسائٹی جس کی وہ خود پر وردہ ہیں، کے افراد اور اس کے بارے میں لکھتی ہیں جس کی وجہ سے ترقی پسندوں نے انھیں بور ژوا رائٹر کہہ کر اپنی صف سے الگ کر دیا۔اور قرۃالعین حیدر کی روشن خیالی پر کوئی توجہ نہیں دی۔ قرۃالعین حیدر نے اپنے فکشن میں بھی اس الزام کو غلط ثابت کیا۔ ’اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو‘ لکھ کر سماج کے ایک ایسے طبقے کے مسائل کو اجا گر کیا جو لوئیر مڈل کلاس سے تعلق رکھتا تھا۔ یہ نہیں بلکہ بہت سے افسانے بھی لکھے۔خاکے میں بھی انھوں نے مولا شہاب مالیر کو ٹلوی پر خاکہ تحریر کرکے اس الزام سے برأت کا اعلان کیا ہے۔مولانا کا تعلق اعلی سوسائٹی کے افراد سے نہیں تھا اور نہ ہی وہ ادبی،سیاسی داؤ پیچ سے واقف تھے۔قرۃ العین ان کی فکر،مزاج اور علمیت سے متاثر تھیں۔ اسی لیے انھوں نے لکھا :
’’مولانا شہاب ما لیر کو ٹلوی کا معاملہ ہماری ادبی اور علمی Dichotomyکی ایک روشن مثال ہے۔مولانا گو خیالات کے لحاظ سے بے حد ماڈرن تھے مگر تاریخی اعتبار سے پرانی نسل کے ایک اسکالر تھے اور سماجی لحاظ سے Privilegedطبقے سے تعلق نہیں رکھتے تھے ہمارے بہت سے علما (علما ء کا مطلب محض عا لم دین نہیں ہے ) محض اسی وجہ سے لائم لائٹ میں نہیں آسکتے کہ وہ ایک غلط سو شل سیٹ اپ میں شامل ہیں اور اونچی جگہوں پر صحیح لوگوں سے رابطہ نہیں رکھتے۔ ‘‘34؂
یہی وجہ ہے کہ مولانا کی کتاب ’دین الٰہی اور اس کا پس منظر‘جو ایک مقتدر ادبی ادارے میں سالانہ انعامات کے لیے داخل کی گئی تھی اور عینی کو یقین تھا کہ یہ کتاب اول انعام کی مستحق قرار پائے گی مگر کسی بھی انعام کی مستحق نہیں ٹھہری۔اس خاکے میں قرۃالعین حیدر نے مولانا کی ادبی و علمی خدمات کو قابل اعتبار نہ سمجھنے والے مقتدرافراد،ادبی ادارے اور اس کو نیل روایت کو بھی قصور وار ٹھہرایا ہے جس کی وجہ سے مغربی تعلیم یا فتہ مصنّفین کو معاشر ے میں فوقیت حاصل ہے۔’’ یہ کتنا بڑا غضب ہے اور ہماری کیسی بد قسمتی ہے کہ ہم اپنے ان بے مثال جید علما و فضلا کا مر تبہ نہیں پہچانتے جن کی نسل اب تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔‘‘35؂
انتہائی دکھ کا اظہا ر کر تے ہوئے کہتی ہیں :
’’تو کہاں بے چارے گوشہ نشیں شہاب مالیر کو ٹلوی، ان کو دنیا کیا جان سکتی۔‘‘36؂
قرۃالعین حیدر نے اپنی یادیں صر ف مردوں (مرد قلم کاروں )کے تعلق سے ہی قلم بند نہیں کی ہیں بلکہ دانشوری کی اس روایت میں خواتین کو بھی برابر کی حصہ داری دی ہے۔اور ان پر بھی خاکے قلم بند کیے ہیں۔ان خاکوں کے بھی عنوانات ان کی شخصی خصوصیت کے حوالے سے متعین کیے ہیں۔جو خاصے چونکا نے والے ہیں۔ذرا ان عنوانات کو دیکھئے اور ان شخصیات کے با رے میں غور فرمایئے۔جس طرح جنگلے کے سوراخوں سے سور ج کی روشنی چھن چھن کر آتی ہے اور ان شعاعوں میں شامل ذرات سے کمرہ روشن ہو جاتا ہے ٹھیک اسی طرح یہ عنوانات متعلقہ خاکے کی شخصیت کے مخفی پہلوؤں کو روشن کرتے ہیں:
1 ۔ آ ندھی میں چراغ شائستہ اکرام اللہ 
2۔ لیڈی چنگیز خاں عصمت چغتائی 
3۔ انگریز قوم کی دل وجان سے پرستار گل بانوکباڈیا
4۔ درویش مزاج بی بی انیس قدوائی
5۔ ایک زندہ دل ہستی سلطانہ جعفری
6۔ نئے ہندوستان کی اسطوری ہستی عطیہ حبیب اللہ 
7۔ جو جھکوں تو شاخ گلاب ہوں عزیز بانو داراب وفا 
8۔ جھونپڑے کا خواب دیکھنے والی رشید جہاں
9۔ الٰہی یہ جلسہ کہاں ہو رہا ہے فیروز جبین 
10۔ ایک منفرد خاتون حسنہ لقمان حیدر 
11 ۔ اشاریت کی نئی سمت زوبی آذر 
12۔ ایک غیر معمولی ہستی صالحہ عابد حسین 
ان تمام قلم کاروں سے قرۃالعین حیدر کے گہرے مراسم تھے بلکہ کئی ایک سے پشتینی تعلقات تھے۔ سب کے مزاج وفکر اور ان کی ادبی روایات سے کما حقہ انھیں مکمل واقفیت تھی۔ اس لیے پورے خلوص اور اپنائیت سے ان کا خاکہ قلم بند کیا بلکہ ایک عنوا ن دے کر پوری شخصیت کو روشن کر دیا۔
شائستہ اکرام اللہ سہروردی پر پورا خاکہ نما مضمون سماجی تجزیے پر مبنی ہے۔ جس میں دور جدید اور ماضی کی اقدار و روایات میں جو تصادم ہو رہا اس کے تمام سروکار سے بحث کر تے ہوئے متعلقہ شخصیت کی خصوصیت کو اجا گر کیا ہے۔شائستہ اکرام للہ اعلی تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔ اس زمانے میں وہ واحد خاتون تھیں جنھوں نے لندن سے پی ایچ ڈی کی تھی۔اور یہ خبر جب اخبارات ورسائل میں شائع ہو ئی تو مسلم گھرانے کی خواتین نے شکرانے کی دو رکعت نماز اداکی۔ یعنی مسلم مستورات کی جہالت کے بیچ علم کا ایک دیا روشن ہوا جس کی ضیا پاشی سے طبقہ نسواں میں علم کی روشنی پھیلنے کی امید جاگی تھی۔انھوں نے ایک کتاب’فروم پردہ ٹو پارلیا منٹ‘لکھی تھی اور اردو ناول پر بھی ان کی ایک کتاب لندن سے شائع ہو ئی تھی۔ وہ جب علی گڑھ آئیں تو شعبہ اردو کی صدر پروفیسر ثریا حسین نے انھیں لکچر کے لیے مدعو کیااور انھوں نے ’ڈاکٹر نذیر احمد کے نسوانی کردار‘کے حوالے سے بے حد شگفتہ اور خیال انگیز تقریر کی۔ وہ خود اقوام متحدہ میں اپنے ملک کی نمائندگی کر چکی تھیں اور عہدۂ سفارت پر بھی فائز رہی تھی۔مگر اس کے باوجود بے حد سیدھی سادی اور سوئٹ انسان تھیں۔ برسوں بعد جب ملاقات ہو ئی تو کیا پایا۔اس بارے میں عینی لکھتی ہیں:
’’تو کراچی کے بر سہا بر س بعد اب علی گڑھ میں شائستہ آپا سے ملنا ہو ا۔ان کے نہایت شفقت آمیز خط کبھی کبھی آجاتے تھے۔پچھلے بیس پچیس سال کے عرصے میں بہت سے لوگوں کی شخصیت میں انقلاب آ چکا ہے جو خواتین و حضرات پہلے ملے تھے وہ خاصے نارمل تھے، اب نخوت، تکبر،خود پرستی،خود نمائی کے نمونے۔یا الہی لوگ اتنا بدل سکتے ہیں؟ 
شائستہ آپا ان گنی چنی ہستیوں میں سے ہیں جن کے مزاج و کردار میں کو ئی تبدیلی نہیں آتی۔ان کی وضع داری منکسرالمزاجی اور طبیعت کی سادگی واقعی حیرت انگیز ہے۔‘‘ان کے اندر یہ خوبیاں ان کے خاندانی پس منظر کی دین ہیں۔
ڈاکٹر شائستہ اکرام اللہ ایک نہایت قوم پرست،محب الوطن پاکستانی خاتون ہیں۔ جنھوں نے عالمی ایوانوں میں اپنے وطن عزیز کی نہایت خوبی سے نمائندگی کی ہے۔ ساتھ ہی وہ ایک وسیع ذہنی کلچر کی مالک ہیں۔کیو نکہ ان کو وہ روایات ورثے میں ملی ہیں جن کا مدار کشادہ نظری اور درد مندی پر ہے۔‘‘38؂
’’شائستہ سہر وردی اکرام اللہ کا آبائی وطن بنگال تھا جو ہمیشہ طوفانوں کی زد میں رہا۔ مگر اسی بنگال کے دریاؤں پر سبک نوکائیں بڑی بہادری سے رواں رہتی ہیں اور اندھیرے آبی راستوں پر ان کے چراغ جھلملایا کر تے ہیں۔شائستہ آپا کی منور شخصیت سے موجودہ نسل جس قدر ضیا حاصل کر سکے وہ اس کی خوش قسمتی ہو گی۔‘‘39؂
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم خواتین کی پچھلی نسلوں میں جیسی جیسی جید اور منور شخصیتیں تھیں وہ اب عنقا ہوتی جا رہی ہیں۔ موجودہ نسل کو اپنے بزرگوں سے ضیا حاصل کر نی چاہیے۔قرۃ العین حیدر نے جس کا بھی خاکہ لکھا ہے واقعات کو بڑی صداقت سے پیش کیا ہے۔فضا، ماحول اور حالات پر بھی رائے زنی کر تے ہوئے شخص متعلقہ کی خصوصیات کو اجاگر کیا ہے۔ شائستہ اکرام اللہ کی قدر و منزلت ان کی علمیت کی وجہ سے زیادہ ہے۔اور انسانی اقدار کی اہمیت اپنی جگہ مسلم۔اعلی تعلیم اور اعلی عہدوں کے باوجود کو ئی غرور نہیں بلکہ بے حد سیدھی سادی، نرم دل،نرم خو،خیال انگیز گفتگو اور وہ بھی بے حد شگفتہ انداز میں،سامعین ہمہ تن گوش اور وہ بھی علی گڑھ کے سامعین۔یہا ں دبدبہ ان کی علمیت اور اعلی ظرفی کا تھا۔گہری بصیرت،کشادہ نظری، درد مندی،اور وسیع ذہنی کلچر نے ان کی شخصیت کو بے حد متوازن بنا دیا تھا،اور وہ اس تہذیب وتمدن کی آئینہ دار معلوم پڑتی تھیں۔قرۃالعین حیدر نے بے حد اپنائیت اور خلوص سے ان کی خاکہ گری کی ہے اور حالات سابقہ و حاضرہ کے تجزیے پر اس خاکے کا اختتام کیا ہے جس سے ہمیں اپنی تہذیبی جڑوں کا پتہ چلتا ہے۔
لیڈی چنگیز خان کے عنوان سے عصمت چغتائی کا خاکہ قلم بند کیا ہے۔بہت سے لوگ اس عنوان کے پس پردہ قرۃالعین حیدر پر یہ الزا م لگا تے ہیں کہ انھوں نے اپنے اوپر لکھے گئے عصمت چغتائی کے مضمون ’پوم پوم ڈارلنگ ‘کا جواب دیا ہے۔وہ مضمون اپنی جگہ، قرۃالعین حیدر کی تحریر اپنی جگہ۔وہ کبھی ایسا سوچ بھی نہیں سکتیں۔ اپنے پورے ادبی اور پیشہ ورانہ سفرمیں متعدد مواقع ایسے آئے مگر انھو ں نے اپنی شرافت نفسی کاثبوت دیا اور کسی پر بھی چھینٹا کشی نہیں کی تو وہ بھلا موت کے بعد عصمت کے بارے میں ایسا کیسے سوچ سکتی تھیں۔
عنوانِ خاکہ تو عصمت کی شخصیت کا غماز ہے۔ عصمت کا سلسلہ نسب چنگیز خاں سے ملتا ہے۔ چنگیزی شان و شوکت انھیں ورثے میں ملی تھی جس نے ان کی شخصیت کی تعمیر اور فکر وشعور کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ان کے مزاج کی چنگیزیت ان کی شخصیت پر پوری زندگی حاوی رہی۔ اس لیے قرۃ العین نے انھیں لیڈی چنگیز خاں کا خطاب دیا جو ان کے مزاج سے مطابقت رکھتا ہے اور ان کی شخصیت کی تفہیم میں معاون ہے۔بغاوت عصمت کے خون میں شامل تھی۔خود سر اور ضدی بلا کی تھیں۔ ساری زندگی سماج میں موجود عدم مساوات،نا انصافی اور ان حد بندیوں کو توڑنے میں گزاردی جو مردانہ سماج نے عورتوں پر لگا رکھی تھیں۔ قرۃالعین حیدر نے ایک حوالے سے اس واقعے کا ذکر یوں کیا ہے:
’’جاں نثار اختر کے انتقال کے وقت ایک کہرام مچا ہوا تھا۔ایک خاتون جو ان کی منھ بو لی بہن تھیں،پچھاڑیں کھا رہی تھیں۔ایک عورت چلائے جا رہی تھی۔ارے بیوہ کو بلاؤ،بیوہ کی چوڑیاں توڑو عصمت آپا کچھ دیر خاموشی سے یہ منظر دیکھتی رہیں پھر آگ بگولہ ہو اٹھیں۔پہلے تو ان منھ بولی بہن کو اچھی طرح جھاڑا۔اس کے بعد جو عورت بے چاری بے حال خدیجہ کی چوڑیا ں توڑنے پر کمر بستہ تھی،عصمت آپا نے اس کی طبیعت صاف کی پہلے تو کڑکیں،عورت ہی کو کیو ں کہا جاتا ہے کہ فلاں کی بیوہ ہے۔ مرد کے لیے کیوں نہیں کہتے کہ فلاں کا رنڈوا ہے اور فوراََجب وہ رنڈٖوا ہو تو کھینچ کر اس کی عینک اور گھڑی توڑ ڈالو۔‘‘40؂
عصمت کی ذاتی خصوصیت کا ذکر اس طرح کیا ہے:
’’انھوں نے اپنی شدید مالی مشکلات کے زمانے میں بھی کسی سے اپنے مسائل کا رونا نہیں رویا۔نہ دوستوں کی بے التفاتی کا گلہ کسی سے کیا۔انتہائی خودداری کے ساتھ قریبی احباب کی محفل میں بیٹھی تاش کھیلا کیں۔‘‘41؂
روایت سے بغاوت عصمت کا خاصہ تھا،انھوں نے کبھی بھی اس ڈگر پر چل کر نہیں دیا جس پر زمانہ سفر کر رہا تھا۔حتی کہ اپنی تدفین کو لے کر بھی سماجی روش کے خلاف لوگوں کو بھونچکا کر نے والاکام کیا۔عینی رقم طراز ہیں:
’’عصمت آپا کہتی تھیں۔بھئی مجھے تو قبر سے بہت ڈر لگتا ہے۔مٹی میں توپ دیتے ہیں۔دم گھٹ جائے گا۔ایک بار میں نے کہا دم ہوتا ہی کہاں ہے جو گھٹے گا، کہنے لگیں: ’’نہیں بھئی کیا پتہ کس وقت واپس آ جائے۔بھئی میں تو اپنے کو جلواؤں گی۔عصمت آپا کا کمال یہ تھا کہ جو کہتی تھیں کر بھی دکھاتی تھیں۔لہٰذا سنا ہے کہ جب مجروح سلطان پوری وغیرہ ان کے انتقال کی خبر سن کر سیدھے چندن واڑی قبر ستان پہنچے تو معلوم ہوا کہ ان کو ان کی وصیت کے مطابق سپر د بر ق کیا جا چکا تھا۔انھوں نے کہہ رکھا تھا کہ جب میں مروں تو کسی کو اطلاع نہ دینا اور مجھے فوراََکری میٹوریم میں پہنچا دینا ‘‘کیا عجب خاتون تھیں۔’’باغ وبہار اور درد مند ‘‘۔42؂
یہاں بھی عصمت نے اپنے باغیانہ مزاج کامظاہرہ کیا۔وہ لحد ہی نہیں رہی جس پر دنیا بھر کے ادیب اپنی عقیدت کے پھول نچھا ور کر سکیں۔ عینی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے لکھتی ہیں :
’’ان کی جیسی منفرد انسان اور منفرد ادیب اب کہا ں سے آئے گی۔آل چغتائی کی اردو �ؤ معلیٰ کب کی ختم ہو ئی۔اردو زبان کی کاٹ اور ترک تازی عصمت خانم کے ساتھ چلی گئی۔‘‘ 43؂
عصمت کی ادبی شناخت کو اجاگر کر تے ہوئے لکھتی ہیں :
’’لیکن عصمت آپانے اردو فکشن کو جو بیش بہا کہانیاں دیں وہ ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی، اچھی کہانی کا ایک معیار میں یہ سمجھتی ہوں کہ آپ اسے بار بار پڑھیے اور پھر پڑھنے کو جی چاہے۔منٹو اور عصمت کی چند کہانیاں اسی معیار کی ہیں ‘‘’’ان کے افسانوں میں جو بے ساختہ پن اور زبان کا چٹخارہ ملتا ہے وہ ان کی اور ان کے خاندان کی دوسری خواتین کی اپنی زبان تھی۔عصمت آپا ایک مشفق،منھ پھٹ،صاف گو اور ڈھیٹ، ظریف الطبع خاتون تھیں۔‘‘
کبھی کبھی میں ان کو لیڈی چنگیز خاں پکارتی تھی۔کیوں کہ وہ جو لا نگاہ اردو کی ایک ایسی چغٖتائی شہسوار اور تیر انداز تھیں جن کا نشانہ کبھی خطا نہیں جاتا تھا۔‘‘44؂
وہ ترقی پسند تحریک اور نئے افسانے کی معمار تھیں۔ان کی گہری انسان دوستی کی مثالیں ان کے لا جواب افسانے ’’ننھی کی نانی،چوتھی کا جوڑا،بچھو پھوپھی،اور بھیڑیں ہیں ‘‘45؂
آگے مزید رقم طرازہیں :
’’یہ صحیح ہے کہ ترقی پسند تحریک کے آغاز میں جب یہ نئے ادیب ایک جامد اور بے حس معا شرے کو جھنجھوڑ نے کی کو شش میں جٹے ہوئے تھے،منٹو اور عصمت آپا نے ایسے افسانے لکھے جن پر فحاشی کے مقدمے چلائے گئے لیکن یہ دونوں ادیب جو باغیانہ ذہن رکھتے تھے بہت حد تک اپنے مشن میں کامیاب رہے۔یعنی انھوں نے دوہرے معیار رکھنے والے معاشرے میں ہلچل مچا دی۔‘‘46؂
عصمت اردو ادب کی وہ باغی آواز ہے جس نے مردوں کے ایوان میں نہ صرف ہلچل مچادی بلکہ مردوں کو یہ یقین بھی دلا دیا کہ عورت اپنی محدودیت کے با وجود لا محدود ہے۔ عصمت نے سماج کے سوئے ہوئے جذبات اور فرسودہ روایات پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ ہر کوئی بلبلا اٹھا۔ادب کے ایوان میں نسوانی آواز جس نے مردانہ سماج کے معیا ر اقدار پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا۔قرۃ العین حیدر نے جس صداقت پسندی کے ساتھ عصمت کی شخصیت اور ان کے ادبی و فنی اختصاص پر روشنی ڈالی ہے وہ ان کی عظمت کا صحیح اعتراف ہے۔
اس سے قطع نظر عصمت کی فنی و فکری کمزوریو ں کو یوں اجاگر کیا ہے۔
’’جب وہ اور شاہد اپنے فلمی کیریر کے عروج پر تھے،وہ اسکر پٹ لکھتی تھیں اور شاہد لطیف ڈائر یکٹ کر تے تھے اور وہ ساری پکچرز ہٹ ثابت ہوتی تھیں.....‘‘
’’اس دور میں انھوں نے چند اچھے افسانے لکھے۔لیکن میراخیال یہ ہے کہ اسی زمانے سے اسکر پٹ نویسی کے زیر اثر غیر شعوری طور پر ان کے ہاں افسانے کی فنی گرفت ذرا کمزور پڑ گئی اور کچھ گھاس کاٹنے والا انداز آگیا۔ عجیب آدمی اور معصومہ میں کہیں کہیں فلم گو سپ سا انداز جھلکنے لگا۔‘‘ 47؂
یہ بات اپنی جگہ بالکل درست ہے۔قرۃالعین حیدر نے تو صرف اشارے کیے ہیں۔ مزید ناولوں میں سودائی،جنگلی کبوتر،اور افسانوں میں فنا نسر، فلم نگری،ہیرو، ہیروئن کے علاوہ درجنوں افسانے ایسے ہیں جو اس ضمن میں بہ طور ثبوت پیش کیے جا سکتے ہیں۔عصمت نے تقریباََڈیڑھ سو سے زائد افسانے لکھے ہیں۔ان میں سے اگر پچاس افسانے فنی کمزوریو ں کے تحت الگ بھی کر دیے جائیں تو باقی افسانے عصمت کی عظمت کا علم بلند کر تے نظر آتے ہیں۔قرۃ العین حیدر نے دیانت داری کو راہ دیتے ہوئے انتہائی سلیقہ مندی کے ساتھ مخلصانہ رویہ اپناتے ہو ئے عصمت کے فنی اور فکری رویے کا جائزہ لینے کی مقدور بھر کو شش کی ہے۔جس سے عصمت دونوں سطحوں پر ابھر کر سامنے آتی ہیں۔
بیگم انیس قدوائی سے قرۃالعین حیدر کے دیرینہ تعلقات تھے۔بچپن سے ہی اپنی والدہ سے ان کو تبادلہ خیالات کرتے دیکھا کرتی تھیں۔ اور بڑے ہو کر خود ان سے دنیا کے ہر موضوع پر باتیں کر نے میں کبھی نہ تھکیں ۔انیس قدوائی ان اولین خواتین قلم کاروں میں ایک ہیں جنھو ں نے تعمیری ادب کی تشکیل کے ساتھ سماجی اصلاح کی تحریک میں فعال کردار ادا کیا۔اور اسی اصلاحی دور میں زنانہ رسالوں میں مضامین لکھنے شروع کیے ’آزادی کی چھاؤں میں‘اور ’نظریے خوش گزرے ‘ان کی دو اہم کتا بیں ہیں لیکن آج ادب کا قاری ان کے نام سے نا واقف ہے۔قرۃالعین حیدرکو اس تعلق سے ہمیشہ شکایت رہی ہے کہ مرد لکھنے والوں نے خوا تین قلم کاروں کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ ان کا نام لینا بھی گوارا نہیں سمجھا۔حتی یہ کہ نقاد وں نے بھی کبھی تذکرہ نہیں کیا۔اس کا سبب قرۃ العین حیدر ادبی گروہ بندی کو قرار دیتی ہیں۔ رقم طراز ہیں:
’’سماجی شعور کی بات کرنے والوں نے ادب کو زنانہ اور مردانہ خانو ں میں تقسیم کرکے بہت سی با صلاحیت قلم کا روں کے ساتھ بے انصافی کی۔ڈپٹی نذیر احمد کی ہم عصر رشیدہ النسا بیگم نے بہار جیسے قدامت پرست علاقے میں جنم لے کر 1869 میں ایک اصلاحی ناول تصنیف کیا تھا مگر پر وفیسر وقار عظیم نے خواتین کی ادبی تخلیقات کوفنی لحاظ سے ادنی درجے کا کہہ کر قصہ کو تاہ کر دیا۔ہماری موجو دہ سماجی اور تعلیمی ترقی کے منظرنامے کی تشکیل میں ان اولین خواتین کا کتنا بڑا رول ہے اس کا اعتراف آج تک نہیں کیا گیا۔‘‘48؂
اس میں کو ئی شک نہیں کہ آزادی نسواں اور تحریک تعلیم نسواں اور اصلاح نسواں کی تحریک کی روح رواں یہ اولین خواتین تھیں جن کی مشترکہ کا وشوں سے سماجی اصلاح کی تحریک نے زور پکڑااور خواتین زیور علم سے آراستہ ہوئیں۔ان میں سے زیادہ تر خواتین کے پاس کسی اسکول،کالج، یا یونیورسٹی کی ڈگری نہیں تھی۔بلکہ گھریلو تعلیم کی وہ روشنی تھی جس نے شعور وآگہی کا چراغ روشن کر نے کی صلاحیت کے ساتھ سماجی خدمت کا جذبہ بھی بخشا تھا۔انیس فاطمہ ا ن میں سے ایک تھیں:
’’انیس باجی نے یو نی ور سٹی میں تعلیم حاصل نہیں کی تھی مگر وہ اردو تہذیب او ر اودھ کی گنگا جمنی کلچر کی پر وردہ تھیں۔ان کی معلومات وسیع اور اردو فارسی ادب تصوف، الہیات، تاریخ،عا لمی سیاست اور سماجی مسائل پر ان کی بصیرت تعجب خیز، طنزومزاح ان کا اصل میدان تھا۔ ان کے والد ولایت علی بمبوق کے جو مزاحیہ کلام کا مریڈ اور نیو ایر ا میں چھپا کرتے تھے، بے حد مقبول تھے۔ حس ظرافت انیس باجی نے اپنے والد سے حاصل کی تھی۔‘‘ 49؂
قرۃالعین حیدر کا ماننا ہے کہ انسانی رشتوں کی نزاکتوں کی عکاسی اور جزئیات نگاری جتنا بہتر طریقے سے خواتین کر سکتی ہیں مرد ان کے عشر عشیر تک نہیں پہونچ سکتے۔انیس باجی کے اسٹائل اور ان کے طنز و مزاح کا حوالہ ان کے مضامین کے مجموعے ’نظریے خوش گذرے‘سے پیش کر تی ہیں۔ایک مضمون کا عنوان ’’کیا مولانا آزا د کبھی بچہ تھے ؟‘‘میں انیس قدوائی لکھتی ہیں:
’’بے چارے مولانا !50سال پہلے کا مقدس گھرانہ جہاں انھوں نے جنم لیا تھا نظروں کے سامنے آگیا۔وہ بے چارے اور کیا کھیلتے۔ قدم قدم پر تو اس گھرانے میں اللہ اور رسول کی مہر لگی ہوئی تھی۔پیروں اور مشائخ کا خاندان،ہر سمت قال اللہ اور قال الرسول کی آوازیں آتی ہوں گی۔مریدوں اور عقیدت مندوں کے جمگھٹے تھے،بچہ ذرا پیر اٹھا تا بھی ہوگا تو مرید اللہ آمین کہہ کر دوڑ پرتے ہوں گے ‘‘
فسانہ آزاد کے متعلق لکھتی ہیں :۔سمجھ میں نہیں آتا سر شار نے ایسے طوفانی ہیرو کے لیے اتنی نستعلیق ہروئین کیوں مقرر کی،اتنی پھیکی،سنجیدہ اور بجھی بجھی سی ہستی۔ دراصل ہیروئین کا کردار پوری طرح نبھا نہ پائے۔کیونکہ ہندو مسلمان دونو ں شریف زادیاں پر دہ نشیں اور حیا دار ہو ا کر تی تھیں۔ان کے کیریکٹر میں شوخ رنگ بھرنا سر شار کی قدامت پسندی نے گوارا نہ کیا۔‘‘
مزید لکھتی ہیں:
سر شار کی وطن پرستی بھی اپنی مثال نہیں رکھتی۔بمبئی ہے تو لکھنؤ،قسطنطنیہ ہے تو لکھنؤ، میدان جنگ ہے اس پر بھی لکھنؤ کا رنگ چھایا ہو ا ہے او دریائے ڈینوب کے اس پار بھی لکھنؤ آباد ہے۔‘‘50؂
انیس فاطمہ کی تحریروں میں لطیف طنز و مزاح کے ساتھ شائستگی پائی جاتی ہے جو ان کی فطرت کا خاصہ ہے۔’’امیر خسرو،غالب،مومن،نظیر،سرشار،منشی پریم چند،مرزا رسوا پر ان کے مضامین ان کی ناقدانہ بصیرت کے آئینہ دار ہیں۔اور ان کے شگفتہ اور رواں اسٹائل نے ان کو بھاری بھر کم تنقیدی مضامین کے بجائے ہلکا پھلکا نہا یت مزاحیہ انشائیہ بنا دیا ہے ‘‘51؂
قرۃالعین حیدر نے ان کے مضامین کے تجزیے کے بعد جو تنقیدی بیان دیا ہے، وہ اہمیت کا حا مل ہے۔انیس قدوائی ایک خاکہ نگار بھی تھیں،انھوں نے بہت سے لوگوں کے خاکے لکھے ہیں۔ان کی خاکہ نگاری کے بارے میں قرۃالعین حیدر فرما تی ہیں :
’’انیس قدوائی ایک نہایت کامیاب خاکہ نگار تھیں جن کی درد مندی اور انسان دوستی ان کے ان مضامین سے ظاہر ہو تی ہے جو دوسرے مجموعے ’اب جن کے دیکھنے کو‘ میں شامل ہیں۔ولایت علی بمبوق،رفیع احمد قدوائی،مولانا محمد علی،شفیق الرحمن قدوائی، چودھری محمد علی رودلوی، مرزا ابوالفضل، ڈاکٹر سید عابد حسین،وغیر ہ کی مرقع نگاری کی ہے۔‘‘52؂
اس فہرست میں متعدد ہستیاں ایسی شامل ہیں جنھوں نے ایک پورے سیاسی او رتہذیبی دور کو مرتب کیا ہے۔ان کی رہنمائی کی ہے۔جب کہ انیس قدوائی بھی اس تاریخ ساز عہد میں خود بھی شامل رہی ہیں۔اس کے باوجود :
’’انیس قدوائی نے کلشئے کہیں استعمال نہیں کیے، ان کے طرز بیان کی بے ساختگی اور رچاؤ اور بشاشت خود ان کی اپنی شخصیت کی نما ئندگی کر تی ہے۔‘‘53 ؂
جس درد مندی اور دل سوزی سے انیس قدوائی نے مرقع نگاری کی ہے قرۃالعین حیدر نے ان کی فن خاکہ نگاری پر دسترس کی داد دی ہے اور کہا کہ ان کے یہا ں آمد ہی آمد ہے اور یہی بے ساختگی ان کے خاکوں میں بھی موجود ہے۔طنز و ظرافت میں شائستگی اور تہذیب کے ساتھ ساتھ کاٹ کا فن ان کی بصیرت کے آئینہ دار ہیں اور اسلو ب کی شگفتگی نے اس میں اور جان ڈال دی ہے۔
قرۃ العین حیدر نے بہت ہی وضاحت کے ساتھ انیس باجی کے متعلق زمانے کی نار سائی کا شکوہ کر تے ہوئے ان کے فن پر مختصر ہی سہی لیکن اس زاویے سے بھی روشنی ڈالی کہ ان کی ادبی شخصیت کی اہمیت اجا گر ہو کر سامنے آتی ہے۔اور قاری انیس باجی سے بحیثیت ادیب اور بحیثیت انسان بخوبی متعارف ہو جاتا ہے۔باجی کی درویش مزاجی کا بیان کر تے ہو ئے لکھتی ہیں:
’’انیس باجی خود ایک ایسی درویش مزاج بی بی تھیں جن کا دنیا وی اثاثہ ان کی کتابیں،کاغذات اور وہ بید کی ٹوکری تھی جس میں مکہ معظمہ سے احرام اور خاک پاک کی پڑیا اپنے آخری سفر کے لیے لے کر آئی تھیں۔ او روہ ٹو کری ہمیشہ ان کے ساتھ رہتی تھی کہ نہ جانے کس گھڑی بلاوا آجائے۔وہ ہمیشہ مسکرانے والی باہمت خاتون تھیں ابوذر غفاری اور رابعہ بصری جن کے محبوب کردار تھے۔‘‘54؂
قرۃالعین حیدر انیس باجی کی باہمت مجاہدانہ زندگی گذارنے کے طریقے کو دوسروں کے لیے باعث تقلید سمجھتی ہیں۔انھوں نے اپنے علم و فن اور عمل سے جو پیغام دیا ہے اس کی اس وقت سب سے زیادہ اس ملک اور معا شرے کو ضرورت ہے۔ادبی کمالات کو انسانی ذات کے حوالے سے سمجھنے کا یہ عمل قرۃالعین حیدر کا کمال فن ہے۔ ہر خاکے میں یہی موضوع الگ بر تاؤ کی وجہ سے نئی چاشنی دیتا ہے۔ اسی طرح عزیز احمد اور غلام عباس پر مضامین میں شخصی خاکے کے بعض لوازمات کے ساتھ وہ ان کے کام پر بھی تنقید کر تی نظر آتی ہیں۔مگر وہ اس فریضے کو اس طرح انجام دیتی ہیں کہ طریق کار میں فرق ضرور رہتا ہے، ماحصل میں نہیں۔قرۃالعین حیدر کا یہی انداز اور بر تاؤ تمام خاکہ نما تحریروں میں موجود ہے۔ہر تحریر میں تمام وصف ایک ساتھ موجود ہو ں یہ بھی ممکن نہیں۔کسی شخص کا کوئی ایک پہلو یا کئی پہلو مد نظر ہو تے ہیں۔اکثر خاکے محض عقیدتاًلکھے جاتے ہیں یا جن شخصیات سے متاثر ہو تے ہیں ان کی تصویر کشی کی جاتی ہے۔ قرۃالعین کہتی ہیں:
’’میری پکچر گیلری میں ان گنت مناظر اور پوٹریٹ اور انیٹرئیر اور لینڈ اسکیپ ہیں۔ مٹے ہوئے لکھنؤاور دلی والے اور مٹ جانے والے لکھنؤ اور دلی والے ہیں۔ بہت دھندلے سائے متحرک ہیں۔ بے شمار اور اق پھٹپھٹا رہے ہیں۔پتے اڑ رہے ہیں اور بگولے اور با دل اورہوائیں جو سب زبانوں کو مٹا دیتی ہیں اور قبروں پر گھاس اور پھول اگ آتے ہیں۔‘‘
قبروں پر اگے گھاس پھوس کو ہٹا کر اپنی پکچر گیلری کی ایک ایک تصویر کی شبیہ کو اپنی یادوں کے سہارے نہ صرف اجا گر کر تی ہیں بلکہ ان پر زمانے،وقت اور تاریخ کی چھائی د ھند کو صاف کرکے ان کی شخصیت کو نکھار کر ایک زندہ جاوید کردار بنا دیتی ہیں۔ قرۃالعین حیدر کے خاکوں کے مطالعہ کے بعد آپ بھی شاید میری اس بات کی تائید کریں۔یہ تمام خاکے خاکہ نگاری کی صنف میں اہم اضافہ تصور کیے جائیں گے۔ 
حواشی
1. دید و دریافت، نثار احمد، فاروقی، اردو میں خاکہ نگاری۔ ص 18
2. ابن سعید، بحوالہ قرۃالعین حیدر کی خاکہ کی نگاری، اے خیام، روشنائی، جولائی تا ستمبر،2008 
3. ابن سعید، بحوالہ قرۃالعین حیدر کی خاکہ کی نگاری، اے خیام، روشنائی، جولائی تا ستمبر،2008 
4. آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 25
5. آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 25
6. آئینہ جہان جلد دوم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 26
.7 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 31,32
.8 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 133
.9 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 31
.10 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 36
.11 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 69
.12 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 68
.13 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 72
.14 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 68
.15 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 68
.16 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 68
.17 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 69
.18 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 73
.19 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 70
.20 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 70
.21 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 70
.21 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 70
.22 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 2,3
.23 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص28,29
.24 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 28
.25 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 268
.26 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 255
.27 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 266
.28 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 265
.29 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 266.270
.30 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 270
.31 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 85
.32 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 87
.33 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 86.87
.34 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 86
.35 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 88
.36 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 154
.37 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 155
.38 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 156
.39 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 161
.40 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 161
.41 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 163
.42 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 163
.43 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 160
.44 آئینہ جہان جلدنہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 158
.45 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 159
.46 آئینہ جہان جلد نہمم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 160
.47 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 182
.48 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 183
.49 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 184
.50 آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 184.185
51. آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 185
52. آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 186.188
53. آئینہ جہان جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر،مرتبہ جمیل اختر، قومی کونسل برائے فروغ اردو زابان، ص 25
54. آئینہ جہاں جلد نہم یا کلیات قرۃالعین حیدر، مرتبہ جمیل اختر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان،ص 187

Dr. Jameel Akhtar
18G, CPW D Colony, Vasant Vihar
New Delhi - 110057




قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تازہ اشاعت

اردو زبان و ادب پر فارسی کے اثرات، مضمون نگار: علی زاہد ملک

  اردو دنیا، اکتوبر 2024 ہندوستان کی مقامی زبانوں اور فارسی کے امتزاج سے نئی زبان یعنی اردو کا وجود عمل میں آیالیکن فارسی کے اثرات نہ صرف...