اقبال سہیل کی شاعری میں قومی اور سیاسی عناصر کا اظہار
عائشہ خاتون
علامہ شبلی کے تلامذہ میں ایک اہم نام اقبال سُہیل(ابوا لظفر عرف صاحب ) کا ہے۔ صحیح معنوں میں شبلی کے سچے جانشین یہی ہیں علامہ شبلی کی نظم و نثر کا رنگ اگر کہیں دیکھا جاسکتا ہے تو وہ مولانا کی تحریروں میں ہی نظر آسکتا ہے۔ ان کے متعلق آل احمد سرور فر ماتے ہیں:
’’شبلی کی شخصیت اور شاعری کا سب سے دل آویز اور نکھرا ہوا رنگ مولانا سہیل کے کلام میں نظر آتا ہے۔شبلی کی مشرقیت،شبلی کا جذبہ حریت، ان کا تبحرِ علمی اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری شوخی اور نکتہ سنجی جس طرح مولانا سہیل کے یہاں آئی ہے وہ اور کسی کے یہاں نہیں.....مولانا سہیل کو فارسی اور اردو دونوں پر یکساں قدرت حاصل ہے۔اس سے بھی ظاہرہوتا ہے کہ وہ شبلی کے جا نشین ہیں۔ ‘‘ 1
ڈاکٹر خالد علوی کا خیال ہے کہ :
’’اقبال سہیل کے کلام و شخصیت میں نہیں بلکہ ان کے شعری نظریات میں بھی شبلی کا بہت نمایاں اثر ہے۔‘‘ 2
بلا شبہہ سہیل اپنے دور کی سب سے زیادہ قد آور شخصیت یعنی علامہ شبلی نعمانی سے بے حد متاثر تھے۔ ان کی عظمت اور قد رو قیمت کے معترف تھے اور قدم قدم پر ان کے علم و فن سے سیراب ہو تے رہے تھے۔ شبلی ان کے دل و دماغ پر جس حد تک چھائے ہوئے تھے اس کا نمایاں اثر ان کی تحریر و تقریر اور فکر و خیال پر پڑا۔ اگر سہیل علامہ شبلی کی بزمِ علم و ادب میں شامل نہ ہوئے ہوتے اور ان کی دانشوری سے فیض یاب نہ ہوئے ہوتے تو شاید انھیں چمکنے کا موقع نہ ملتا اور نہ آج اس طرح دنیائے اردو ادب میں جانے پہچانے اور قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے۔عطیہ خلیل عرب ان کی ذہانت اور ادبی عبقریت کے متعلق لکھتی ہیں:
’’حلقۂ شبلی کے اکابر میں عبقری (Genius) صرف دو تھے ابوالکلام اور اقبال سہیل ان دونوں میں اختراع و تخلیق کی غیر معمولی صلاحیت تھی، ابوالکلام نے نثر کو اور سہیل نے نظم کو ایک نیا لب و لہجہ اور ایک اچھوتا طرزِ فکر عطا کیاان کی تخلیقات اردو ادب کا وہ عظیم سرمایہ ہیں جس سے انکار حقیقت سے چشم پوشی ہے۔اردو کے صاحبِ نظر اور بلند فکر ا ہلِ قلم نے ابوالکلام کی طرح سہیل کی ادبی عبقریت کا بھی فیاضانہ اعتراف کیا ہے۔ مولانا حبیب الرحمان خاں شیر وانی جیسے امامِ فن، ڈاکٹر اقبال جیسے عظیم شاعر، خواجہ کمال الدین جیسے بالغِ نظر، مسز سروجنی نائیڈو جیسی شیریں مقال و جادو بیان خطیبۂ ہند، سید سلیمان ندوی جیسے مورخ،ڈاکٹر ذاکر حسین جیسے ماہرِ تعلیم، رشید احمد صدیقی جیسے صاحبِ طرز انشاء پرداز اور اثر لکھنوی جیسے استادِ فن نے ان کی غیر معمولی ذہانت اور ان کے شاندار علوئے مرتبت کو تسلیم کیا ہے‘‘3
اقبال سہیل 1884 کو موضع بر ہرہ (بڈھیر یا ) ضلع اعظم گڑھ، یوپی کے ایک زمیندارگھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مولا نا محمد شفیع اور مولا نا محمدیعقوب صاحب سے حاصل کی۔یہ دونوں بزرگ بہت ہی نیک اور دین دار تھے جس کا سہیل پر گہرا اثر پڑا ان کے والد مولوی عزیز اﷲخاں فارسی کا نہایت ستھرا ذوق رکھتے تھے ابتدا میں انہی نے سہیل کو فارسی انشاکے رموز بتائے۔بعد ازاں علامہ شبلی نعمانی اور علامہ حمیدالدین فراہی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا اور اپنی ذہانت و ذکاوت، قوتِ حافظہ اور علم و ادب سے فطری لگا ؤ کے سبب ان ائمۂ علم و فن کے فیض سے خوب سیراب ہوئے۔ درس و تدریس کا یہ سلسلہ 1909تک جاری رہا۔قیامِ علی گڑھ کے دوران سہیل کی صلاحیت میں مزید اضافہ ہوا۔ یہاں رشید احمد صدیقی،ذاکر حسین اور دوسرے ہم مذاق اصحاب کا اجتماع، یونین کی محفلیں، مولانا حالی، وحیدالدین سلیم، حسرت موہانی، ثناء ا ﷲ امرتسری جیسے اہلِ کمال کی قربت نے ان کی شخصیت کو نکھارنے کا کام کیا۔ مرزا احسان احمد ان کے قیامِ علی گڑھ کے حالات کا ذکر کرتے ہوئے فر ماتے ہیں :
’’جب تک علی گڑ ھ میں قیام تھا کالج کا ہر شعبۂ حیات ان کی شخصیت سے نمایاں طور پر متاثر ہوتا رہا۔سیاسی، علمی، ادبی کوئی بھی مجلس ایسی نہیں تھی جہاں اس جو ہرِ قابل کی تا بانیوں سے نگاہیں خیرہ نہ ہوئی ہوں ‘‘ 4
سہیل کے قیامِ علی گڑھ کا ذکر کرتے ہوئے رشید احمد صدیقی نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے،وہ لکھتے ہیں :
’’شعر و ادب کا صحیح و صالح ذوق پیدا کرنے، تنقید کا علمی انداز عام کرنے،نیز گفتگو اور روز مرہ کے مشاغل کے آداب میں شائستگی ملحوظ رکھنے کی مولانا نے ایک روایت قائم کر رکھی تھی۔‘‘5
مولانا کی علمیت، ان کا شعری ذوق،ان کی قوم پرستی،ان کا سیاسی شعور اور ان کی مشرقیت زمانۂ طالب علمی میں ہی پختگی کی منزل کو پہنچی ہوئی تھی۔ ان کے متعلق آل احمد سرور فر ماتے ہیں کہ:
’’مولانا جب علی گڑھ پہنچے تو دوسرے طالب علموں کی طرح نہ تھے۔ان کی عربی، فارسی اوراردو ادب کی معلومات اساتذہ سے کم نہ تھیں۔ان کی شاعری میں اس وقت بھی جوئے کہسار کی سی روانی اور تیزی تھی،ان کے کلام کی پختگی اس وقت بھی کلاسکل شعرا کی چابکدستی اور قدرت کو ظاہر کرتی تھی۔‘‘ 6
سہیل کی فطرت شاعرانہ تھی اس پر مستزاد یہ کہ اﷲنے انھیں بے پناہ قوتِ حافظہ سے نوازا تھا۔ جو چیز ایک بار سن لیتے یا نظر سے گزر جاتی وہ حافظے میں اس طرح نقش ہو جاتی کہ کسی بھی موقع پر اس کے اظہار پر پوری قدرت رکھتے۔ان کی نثر اور روزمرّہ کی گفتگو کا انداز بھی عام لوگوں سے الگ اور پُرلطف ہوتا۔شاہ معین الدین احمد ندوی فرماتے ہیں:
’’سہیل مرحوم کی فطرت شاعرانہ تھی،ان کی نثر بلکہ روز آنہ گفتگو بھی شاعرانہ نکتہ سنجیوں سے خالی نہ ہوتی تھی۔ان کی ذہانت اور علمی قابلیت نے اس شراب کو دو آتشہ کر دیا تھا، ان کو اردو، فارسی،عر بی تینوں زبانوں پر عبور حاصل تھا اور وہ ان کے ادا شناس تھے، فن کے نکتوں پر بھی ان کی نگاہ بڑی گہری تھی،اس لیے جملہ اصنافِ سخن پر ان کی حکمرانی یکساں تھی۔‘‘ 7
شاہ معین الدین احمد ندوی کے اس خیال کی تائید عطیہ خلیل عرب کے اس قول سے بھی ہوتی ہے کہ:
’’ان کی ادبی عبقریت کسی ایک صنفِ سخن تک محدود نہیں بلکہ ان کے ہمہ گیر ذہن نے شاعری کی ہر شاخ کو متاثر کیا۔جب غزل رومان و تصوف کے دھندلکوں میں کھوئی ہوئی تھی،اس وقت انھوں نے اسے سماجی اور سیاسی حقائق سے آشنا کیا۔ان خشک حقائق میں تغزل کا رنگ بھر کر انھیں کیف و دل کشی عطاکی‘‘8
یہ عرض کیا جا چکا ہے کہ اقبال سہیل صحیح معنوں میں فطری شاعر تھے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری ان کے دلی تاثرات اور جذبات کی جیتی جاگتی مثال پیش کرتی ہے۔ ان کی طبیعت میں جدت و اجتہاد کا مادہ تھا وہ قدما کی اندھی تقلید کے بجا ئے شاہِ راہ عام سے الگ ہٹ کر ہمیشہ دقیق نکتے پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ انھوں نے نظر بھی تنقیدی و محققانہ پائی تھی جو بہت جلد حقیقت تک پہنچ جاتی تھی۔لیکن افسوس انھوں نے علامہ شبلی اور مولانا حمید الدین فراہی کی علم پرور صحبتوں سے جو کچھ حاصل کیا تھا وہ عدالت کی سر گرمیوں میں دب کر رہ گیا اور اس طرح ان کی حیرت انگیز استعداد و قابلیت کی حقیقی شان دنیا کے سامنے جلوہ گر نہ ہو سکی۔مرزا احسان احمد ان کے متعلق لکھتے ہیں :
’’اگر انھوں نے غلط روی اختیار نہ کی ہوتی، تو وہ علم و ادب کے افق پر سہیل نہیں بلکہ آفتابِ سہیل بن کر چمکتے ‘‘9
عارف رفیع اس کے وجو ہات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ایسا تو نہیں کہ شعر و سخن کے اس عالمِ رنگ و نور میں اقبال سہیل کی شخصیت اور شاعری نقد و تعارف کی محتاج ہو۔لیکن کچھ تو سہیل مرحوم کی فطری بے نیازی و بے اعتنائی، خواہ وہ فنِ شعر سے ہو یا ان کی اپنی ذات سے۔ ان کے کلام کی ترتیب و اشاعت میں مانع رہی اور کچھ ان کے مرتبہ شناسوں کی کو تاہیاں بھی شامل رہیں کہ اب تک جو کلام بھی زیورِ طباعت سے آراستہ ہوا وہ حد درجہ نا مکمل تھا۔یہ تشنہ کامانِ شوق کی آسودگی کا سامان کیا فراہم کرتا ادب کی فضائے بسیط میں گم ہوکر رہ گیا۔‘‘10
اقبال سہیل،مولانا اسلم جیراج پوری کے ایک خط کے جواب میں اپنے متعلق لکھتے ہیں :
’’آپ کو معلوم ہے کہ میں نے زندگی بھر شعر کہے اور کبھی اشاعت کی پروانہ کی، بلکہ دوسروں کی محنت سے جمع شدہ سرمایہ کو بھی ضائع کردیا ‘‘11
’’اپنے کلام کو جمع کرنے کا اہتمام انھوں نے کبھی نہیں کیا۔بیاض جو عمو ماً شاعروں کی حرزِ جاں رہتی ہے مولاناکے قلم سے ہمیشہ نا آشنا رہی،اس کا کام انھوں نے اپنے حافظہ سے لیا اسی لیے ان کے بعض احباب جو ان کی شاعری کے جو ہر شناس تھے اور ان کی افتادِ مزاج سے بھی واقفیت رکھتے تھے، اپنے طور پر جہاں تک ممکن ہوا،یہ تبرکات جمع کرتے گئے‘‘ 12
اقبال سہیل عدالت کے کامو ں میں اپنی صلاحیت کا استعمال کرتے رہے اس کے باو جود اپنی علمی و ادبی صلاحیت کے سبب ادبی دنیا میں وہ مقام حاصل کرلیا جو ان کے چند ہم عصر وں کو ہی نصیب ہوسکا۔سہیل کے فکر و فن،خا ص کر ان کے نعتیہ قصائد پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ یہا ں میرا مقصد سہیل کی شاعری میں قومی اور سیاسی عناصر کے جذبات بیان کرنا ہے۔سہیل کی پیامی شاعری،ان کا سیاسی شعور، قومی جذبات اور د لِ درد مند جو انسان دوستی کی شاندار مثال ہے ان کے کلیات کے حرف حرف سے آشکارا ہے۔سہیل اپنی شاعری،انشا پردازی، خطیبانہ انداز اور پر مغز تقریر کی وجہ سے زمانہ طالب علمی سے ہی علم و ادب کی ہر محفل میں پسند یدگی کی نگاہ سے دیکھے جاتے رہے ہیں جس کا اظہار مختلف فن کاروں نے مختلف وقتوں میں اپنی تحریروں میں کیا ہے۔
بیسویں صدی کے اوائل میں ہمارا ملک جس سیاسی اور قومی بحران سے دوچار تھا اس سے ہر ذی شعور شخص واقف تھا اور اس سے نبرد آزما ہونے کا راستہ تلاش کر رہا تھا۔قومی یکجہتی،مادرِ ہند کی تعمیر و ترقی کے لیے ہر کوئی اپنے اپنے طور پر کو شش کر رہا تھا۔ ان حالات میں آریہ سماج،برہمو سماج اور سر سید کی تحریک کا جنم ہوا۔ کانگریس اور مسلم لیگ جیسی سیاسی جماعتوں کا ظہور بھی اسی زمانے میں ہوا، حسرت موہانی اور دوسرے بہت سے قومی رہنما اس تحریک کے مقاصد کی تہہ تک پہنچنے اور مکمل آزادی حاصل کرنے کی کو شش کر رہے تھے۔ علامہ شبلی نعمانی،حمید الدین فراہی کے فیضِ تربیت اقبال سہیل کے اندر وہ قابلیت اور صلاحیت پیدا ہوگئی تھی کہ وہ ان تحریکوں کے مقاصد سے واقفیت کے ساتھ ساتھ ان کی تہہ تک پہنچ سکیں۔ حسنِ اتفاق انھیں حسرت موہانی، وحید الدین سلیم محمد علی جوہر جیسی اہم علمی و ادبی شخصیات سے ملاقات ہی نہیں بلکہ ان کی قربت اور فیض حاصل کرنے کا شرف میسر ہوا، اسی دور میں مولانا حالی کی زیارت کا بھی مو قع ملا ۔اس طرح سہیل کی ذہنی تربیت خوب خوب پروان چڑھی اور ان کے سیاسی نظریات کو استحکام حاصل ہو ا، اپنی ذہانت اور قوی قوتِ حافظہ کے سبب بہت جلد انھوں نے اپنے زمانے کے با شعور لو گوں کے درمیان بلند مقام حاصل کرلیا۔ گویا سہیل اردو شاعری کے اس موڑ پرنمو دار ہوئے جب ہندستانی تہذیب کی سا نسیں اکھڑ چکی تھیں،بیرونی قوت اپنے قدم جما چکی تھی اور مشتر کہ اقدار معاشرے میں اپنا اعتبار بڑی تیزی سے کھو رہی تھی۔ہندستانیوں کی بہت بڑی تعداد کو پروپیگنڈے اور مختلف حیلے بہانے سے یہ باور کرادیا گیا تھا کہ1857کی جنگ آزادی دراصل غدر تھی۔دو بڑی ہندستانی اکائیوں کو آپس میں دست و گریباں کرانے کے عزائم باور ہوتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ ہمارا ملک عدمِ اتحاد، ہند و مسلم منافرت اور فرقہ واریت کی آگ میں جھلس رہا تھا۔ایسے نازک وقت میں جن شاعروں نے اپنے کلام کے ذریعے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کی ان میں سے ایک اہم نام اقبال سہیل کا ہے۔ ان کے کلام کے مطالعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ان میں حبِّ قومی اور غیر معمولی ایثار و قربانی کا جذبہ مو جود تھا۔وہ ملک کو آزاد دیکھنا چاہتے تھے۔ انگریزوں کی غلامی انھیں ہرگز برداشت نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی شاعری کے ذریعے عوام کے اندرجوش اور ولولہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ وطن سے محبت،قوم پرستی،ہندستان کی تحریکِ آزادی کی حمایت اور انگریز دشمنی مولانا سہیل کے خمیر میں تھی۔ ان کے فن کا یہ اعجاز ہے کہ انھوں نے اپنی غزلوں میں جنگِ آزادی کی پوری تاریخ رمز و ایما کی تمام لطافتوں کے ساتھ سمو دی۔ان کے یہاں آزادی سے پہلے اور اس کے بعد کے حالات و واقعات پر تبصرہ تنقیدِ غزل، طنز کے تمام ہی آداب کے ساتھ بیان ہوئے ہیں۔ان کے کلام میں جو عزم و ہمت، سرفروشی و جگر داری،اعتماد و یقین کی دولت ہے وہ اقبال اور جوش کے علاوہ اس دور کے دوسرے شاعر کے یہاں نظر نہیں آتی۔ان کا لہجہ نہایت باوقار اور آواز پرشکوہ ہے۔ان کے یہاں یقین و عرفان پایا جاتا ہے۔ ان کا کلام قاری کے اندر حوصلہ اور ہمت پیدا کرتا ہے نہ کہ مایوسی اور ان کی نظموں کے چند اشعار بطورِ مثال پیش ہیں:
وہی سر ہے جو قوم پر ہو تصدق
وہی جان ہے جو فدائے و طن ہو
نہ لوں مشتِ خاک وطن کے عوض میں
اگر ملکِ جم بھی بجائے و طن ہو
ہمیں خود سمجھ ہے نہ سمجھائے ناصح
کوئی غیر کیوں نا خدائے وطن ہو
( صدائے سروش)
قدم لے گی قدامت پروری خود سر نگوں ہوکر
صفیں آگے بڑھیں گی جب و طن کے نو جوانوں کی
(زمین دار اور کسان)
وہ دورِ مسرت آنے دو، قومی پرچم لہرانے دو
جاتی ہے غلامی جانے دو ، صدیوں کا دلدّر جا تا ہے
جس نے یہ چمن برباد کیا ، مشرق کو غلام آباد کیا
وہ قہرِ مجسم جاتا ہے ، وہ سحرِ مصور جا تا ہے
مل جل کے بڑھاؤ شانِ وطن،تعمیر کرو ایوانِ وطن
ماجائے ہیں فر زندانِ وطن ،جو غیر تھا باہر جاتا ہے
ہم تم کو بسر کرنا ہے یہیں،جینا ہے یہیں مرنا ہے یہیں
اٹھو یہ چمن شاداب کرو،اب غاصب خود سر جا تا ہے
(منظرِ رخصت)
زندگی کا راز یہ ہے اے عزیزانِ وطن
جان جائے پر نہ جائے،حرمتِ شانِ وطن
غیر اگر دے گنجِ قاروں بھی تو نہ پھیلاؤ ہاتھ
چاہیے اتنی تو غیرت اے گدا یانِ وطن
ایک دن کی بھیک سے کٹتی نہیں ہے زندگی
کچھ سمجھ سے کام لو اے فا قہ مستانِ وطن
(نوائے وطن)
ان نظموں میں اس وقت کے سیاسی میلانات۔ہندستانی عوام میں جد و جہد آزادی کا جذبہ،ملک کی تعمیر و ترقی کااحساس، جمہوریت کی بحالی کا تصور، سیاسی حالات و واقعات اور سماج کی مختلف کیفیات اپنے سارے پیچ و خم کے ساتھ جلوہ گر ہوئے ہیں۔اس طرح کے خیالات ان کی نظم آزادی ہند، آئینِ جدید، نغمۂ بیتاب، جگنو، مت دیکھیے وغیرہ میں بھی نظر آتے ہیں۔
سہیل نے آزادی کی تحریک کے رموز و نکات کو جس فنکاری سے اپنی نظموں میں پیش کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ دورِ حاضر کے تقاضوں سے اچھی طرح واقف تھے اور ساتھ ہی نئی قدروں اور وطن کے نئے پیچیدہ مسائل سے با خبر بھی۔ نظموں کے علاوہ سہیل کی غزلوں میں بھی جنگِ آزادی کی پوری روداد رمز و ایما کی تمام لطافتوں کے ساتھ جلوہ گر ہوئی ہے۔افتخار اعظمی ان کے متعلق رقمطراز ہیں:
’’حالی کے بعد چکبست، ڈاکٹر اقبال، محمد علی اور اقبال سہیل نے اردو غزل کو نئی سیاسی اور سماجی معنویت عطا کی۔ان کے یہاں حیاتِ انسانی کی تعمیر و تشکیل کا جذبہ ملتا ہے، وہ عام غزل گو شعرا کی طرح ساقی کی بزم ِ رنگی میں دادِ عیش نہیں دیتے رہے وہ اجتماعی حقائق سے قریب آئے۔‘‘13
ذیل کے اشعار سے ان کے اس جذبات کی پوری طرح وضاحت ہوتی ہے:
سنائیں کس کو الٰہی غمِ نہاں اپنا
اس انجمن میں نہیں کوئی پاسباں اپنا
مٹایا ہم نے محبت میں خانما اپنا
نہ ہوسکا مگر اب بھی وہ بد گماں اپنا
الٰہی خیر کہ صیاد لے کے دستۂ گل
چلا ہے آج سجانے کو آشیاں اپنا
قفس میں دیتے ہو کیا طعن سست پروازی
فضا کھلی ہوئی ملتی تو امتحاں ہوتا
ہم نشیمن کو بھی روئیں تو خطا ہوتی ہے
پھونک ڈالیں وہ چمن بھی تو ہنر کرتے ہیں
تاراج نشیمن کھیل سہی صیاد مگر اتنا سن لے
جب عشق کی دنیا لٹتی ہے خود حسن کا ماتم ہوتا ہے
خیال ان کے سخن میرا،زباں ان کی،دہن میرا
بہار ان کی،چمن میرا گل ان کے گلستاں میرا
غلامی میں وفا بے سود،سجدہ رائگاں میرا
نہ خود میری جبیں میری نہ ان کا آستاں میرا
ان ہی ذروں سے کل دنیا نئی تعمیر کرنی ہے
سنبھال اے دامنِ فطرت غبارِ ناتواں میرا
سکوں نصیب شہیدِ وفا کہاں ہوتا
کہ مرکے بھی تو غمِ عمر جاوِ داں ہوتا
اسی سنگم کے دو دھارے ہیں ہندو بھی مسلماں بھی
گلے مل مل کے روئے بھی ہوئے دست و گریباں بھی
رہیں گے متحد باوصف تقسیمِ گلستاں بھی
چمن کے لالہ و گل بھی چمن کے سرو ریحاں بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اٹھائے ہیں یہ فتنے نرگسِ غماز نے ورنہ
نہ بُت سے شیخ کو ضد ہے نہ کعبے سے برہمن کو
مل جل کے برنگِ شیر و شکر، دونوں کے نکھرتے ہیں جوہر
دریاؤں کے سنگم سے بڑھ کر تہذیب کا سنگم ہوتا ہے
ان اشعار میں تغزل کو قائم رکھتے ہوئے سیاسی کشمکش کے سارے پہلو بیان کیے گئے ہیں۔ان میں انگریزوں کی حکمتِ عملی کے مختلف پہلو کے علاوہ ہندو مسلم اختلافات کی نرم گرم پالیسی، اصطلاحات کے کھلو نوں اور سیاسی جد و جہد کی مختلف منزلیں ہی نہیں ملتی بلکہ ان کے متعلق ایک گہری بصیرت بھی ملتی ہے۔انگریزوں کی ایک پالیسی یہ بھی تھی کہ وہ مختلف حیلوں اورحرفتوں سے ہندستانیوں کے اندر امنڈ رہے آزادی کے جذبے کو دبانا چاہتے تھے۔ اقبال سہیل نے اپنی شاعری کے ذریعے انگریزوں کی اس حکمتِ عملی کا پردہ جس خوبصورتی سے فاش کیاہے ذیل کے شعر اس کی عمدہ مثال ہیں
الٰہی زنجیر ٹوٹ جائے،اسیرِ غم اب توچھوٹ جائے
چمن کو لوٹا ہے باغباں نے تو آگے گلچیں بھی لُوٹ جائے
ستم بھی ہوگا تو دیکھ لیں گے کرم کا بھانڈا تو پھوٹ جائے
یہ دوستی کا طلسم ٹوٹے ، یہ مہر بانی کا جھوٹ جائے
بلا سے قزاق آکے لوٹیں یہ پاسبانوں کی لوٹ جائے
اچک لے شاہیں تو غم نہیں ہے قفس تو کم بخت ٹوٹ جائے
سہیل نے جس طرح سیاسی حقائق کو غزل میں برتا ہے اس کی مثال کسی دوسرے شاعر کے یہاں نہیں ملتی، انھوں نے تغزل کی تمام صالح روایات،عبارت اشارات، اور حسنِ ادا کے تمام آداب ملحوظ رکھے ہیں۔ان کی فکر لالہ زار اور تازہ کار ہے ان کے یہاں جذباتیت کے بجائے صحت مند جوشِ بیان ملتا ہے۔ان کی شاعرانہ خصوصیات کو دیکھتے ہوئے رشید احمد صدیقی نے لکھا تھا کہ:
’’غزل گوئی کو رسمی اور روایتی طنز سے نکال کر سیاسی طرز سے اس طرح آشنا کرانا کہ غزل اور طنز دونوں کا حق ادا ہو جائے،سہیل کا بڑا اہم اور قا بلِ قدر کار نامہ ہے۔ اس رنگ میں ان کا ہم سر اب تک نظر نہ آیا‘‘14
سہیل کی شاعری میں حب الوطنی کے جذبات کثرت سے پائے جاتے ہیں وہ ہندستان کی سبھی قوموں کو ایک ساتھ مل جل کر رہنے کی تلقین کرتے ہیں وہ ہندستان کے سیاسی سماجی، معاشی اور دوسرے مسائل کے حل کے لیے ایک ایسا لائحہ عمل بنانا چاہتے تھے جو سبھی فرقوں کے لیے مفید اور قابلِ قبول ہو اور جس سے ملک کی تعمیر و تر قی ممکن ہو سکے۔انھوں نے ہندستانی عوام کے دلوں کو قومی یکجہتی اور آپسی بھائی چارے کے جذبے سے سرشا رکیا
ا ٹھائے ہیں یہ فتنے نر گسِ غما ز نے ور نہ
نہ بت سے شیخ کو ضد ہے نہ کعبے سے برہمن کو
مل جل کے برنگِ شیر و شکر، دونو ں کے نکھرتے ہیں جوہر
دریاؤں کے سنگم سے بڑھ کر تہذیب کا سنگم ہوتا ہے
وطن دوستی،قوم پرستی اور انگریز دشمنی میں ان کا مزاج حسرت سے بہت قریب تھا۔ملک کی ترقی اور آزادی کے حصول کے معاملے میں شبلی کی طرح سہیل بھی ہندو مسلم اتحاد کو ضروری سمجھتے تھے۔انھوں نے انسانیت اور بلند ہمتی کے جو اصول پردۂ شعر و نغمہ میں بتائے ہیں ان میں سے ایک عشرِ عشیر پر بھی اگر قوم کے افراد کا ربند ہوتے تو دنیا مثلِ بہشت بن جاتی
مذاقِ سر بلندی ہو تو پھر دیر و حر م کیسے
جبیں سائی کی فطرت نے کیے ہیں سنگ در پیدا
انھیں تنکوں سے وابستہ میری تاریخ ہستی ہے
فدا کردوں دو عالم اپنی خاشاکِ نشیمن پر
ان اشعار سے مولانا کی ذہانت،ان کی طبع لسانی، بے پناہ علمیت،عربی اور فارسی کی بے پناہ معلومات اور اس کے ساتھ ان کی طبیعت کا لا ابالی پن وغیرہ پوری طرح جلوہ گر ہے۔
سہیل نے جس کثرت سے سیاسی خیالات غزل میں ادا کیے ہیں کسی اور کے یہاں مشکل سے ہی ملیں گے۔غزل کا تغزل قائم رکھتے ہوئے سیاست پر گفتگو کرنا آسان نہیں۔ ان کی غزلوں میں سیاسی اشعارکی تعداد کافی ہے۔ انھیں اپنے وطن سے بے انتہا لگاؤ تھا لیکن ساتھ ہی ساتھ انھیں اپنا دین اور ملت سے رشتہ بھی نہایت گہرا تھا اس سلسلے کے چند اشعار ملاحظہ ہوں
وطن پیارا ہے ہم کو دیں مگر اس سے بھی پیارا ہے
فدا ہوں گے وطن پر رہ سکے گر ہم مسلماں بھی
کہانی دیو ما لا کی نہ کہیے د یو بانی میں
وہ باتیں کیجیے جس کو سمجھ سکتا ہو انساں بھی
سہیل اس بے نوائی پر بھی ہمت کا یہ عالم ہے
عوض خاکِ وطن کے میں نہ لوں ملکِ سلیماں بھی
مجموعی طور پر سہیل اپنے سیاسی شعور،ادبی ذوق اور شعری و فور تخلیق کے امتزاج سے اپنی شاعری میں ایک بے پناہ سنجیدہ فضا قائم کرتے نظر آتے ہیں جس کے مطالعے سے قو م و ملت انتشار کے گردآلود ماحول سے نکل کر ایک شفاف،پر کشش اور حسین فضا میں زندگی بسر کر سکتی ہے۔
حواشی:
1 تابش سہیل مرتب افتخار اعظمی (سہیل کا تغزل: آل احمد سرور)، صفحہ75,77
2 ایوانِ اردو،دہلی دسمبر 2017( اقبال سہیل کا تفاعلِ شعری :ڈاکٹر خالد علوی )، صفحہ18
3 ارمغانِ حرم (نعت و منقبت کا مجموعہ) افتخار اعظمی سہیل ایک عبقری: عطیہ خلیل عرب ،صفحہ89
4 معارف نمبر 2، جلد 78( جناب مرزا احسان احمد صاحب: اقبال سہیل میری نظر میں) ،صفحہ99
5 تابش سہیل مرتب افتخار اعظمی ( مولانا سہیل میری نظر میں:رشید احمد صدیقی )، صفحہ30
6 تابش سہیل مرتب افتخار اعظمی( سہیل کا تغزل: آل احمد سرور) ، صفحہ 77
7 معارف نمبر 5،جلد 78 ( شاہ معینُ الدین احمد ندوی:سہیل مرحوم اور نعتِ نبوی)،صفحہ 362-63
8 ارمغانِ حرم (نعت و منقبت) افتخار اعظمی سہیل ایک عبقری: عطیہ خلیل عرب ،صفحہ91
9 معارف نمبر 2، جلد 78( جناب مرزا احسان احمد صاحب: اقبال سہیل میری نظر میں ) ،صفحہ92
10 عارف رفیع۔ کلیاتِ سہیل صفحہ 9-10
11 ارمغانِ حرم نعت و منقبت کا مجموعہ مرتبہ افتخار اعظمی( مکتوبِ سہیل:بنام اسلم جیراج پوری) ،صفحہ ذ)
12 ڈاکٹر محمد عزیر معارف نمبر6، جلد72،صفحہ 470)
13 تابش سہیل۔مرتب افتخار اعظمی (دیباچہ۔افتخار اعظمی) صفحہ ط۔ی)
14 تابش سہیل۔افتخار اعظمی ( مولانا سہیل میری نظر میں:رشید احمد صدیقی)،صفحہ 31
C/O Mohd Tayyab
Lal Masjid
Amroha - 244221 (UP)
Mob: 9997586031
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں