حیاتِ انسانی کی عمیق گہرائیوں کا نقاد شیخ محمد اکرام
محمد معظم الدین
شیخ محمداکرام کا شمار عام طور پر اہلِ علم نے ناقدین میں نہیں کیاہے۔ا ن کی کتابیں حوالہ جات کے طور پر اہلِ علم کے پیشِ نظر رہی ہیں اور وہ ان کی وسعتِ معلومات، طرزاستدلال، علمی متانت اور ادیبانہ شان کے قائل ہیں لیکن ا ن کی قدروقیمت کے تعین کی طرف توجہ کم مرکوز کی گئی ہے۔اردو تنقید نگاری میں شیخ اکرام کا نام کہیں کہیں اس طرح نظر آجاتاہے گویا اندھیری رات میں کوئی جگنو چمک گیاہو۔لیکن اسی روشنی کی مدد سے ان کے ہاں باقاعدہ ایک تنقیدی نظام کی نشان دہی کی جاسکتی ہے۔
شیخ اکرام نے اپنے تنقیدی نظریات واصولوں پر باقاعدہ کوئی کتاب تو نہیں لکھی لیکن مستقل غوروفکر اور مسلسل مطالعے کی بنا پر جوں جوں نظر میں وسعت اور ذہن میں بالیدگی پیدا ہوتی گئی اور کتابیں منظر عام پر آتی گئیں ان میں اپنے تنقیدی نظریات اور طریقِ کار کی بھی وضاحت کرتے گئے۔ لہذا ان کے یہاں نظری اورعملی دونوں طرح کی تنقیدیں ساتھ ساتھ نظر آتی ہیں۔ یوں تو ان کے تنقیدی افکار وخیالات ان کی سبھی کتابوں میں موجود ہیں لیکن ان کا بالتفصیل اور بالصراحت اظہار انھوں نے غالب سے متعلق کتابوں میں ہی کیاہے۔ ان کے نزدیک اس کی ایک وجہ ’’ غالب کی عظیم اور دل آویزشخصیت کا جادو‘‘ ہے۔ دوسرے کثرتِ مطالعہ اور وسعتِ معلومات کی بنا پر غالب سے عقیدت وارادت کا ایسا رشتہ قائم ہوا کہ ذہنی زندگی کا عزیز ترین سرمایہ بن گیا۔ اس کے علاوہ ان کا یہ خیال بھی درست ہے کہ غالب پر اس کثرت سے ہمارے اہلِ قلم نے طبع آزمائی کی ہے کہ اردو ادب کے گوناگوں رجحانات اور فنِ تنقید کے ارتقا کا پوراندازہ انھیں کتب کے مطالعے سے ہوسکتاہے اور’’ فقط اس ’ادب غالب‘ (غالبیات) سے ہم اپنے عام فن تنقید کی بلندی اور پستی، عمق اور سطحیت، واقعیت اور جذبات پسندی ناپ سکتے ہیں۔‘‘1 چنانچہ انھوں نے بھی نظری اور عملی تنقید کی ابتدا اپنی پہلی تصنیف ’غالب نامہ‘ سے کی۔ اس میں انھوں نے وجہِ تصنیف کے علاوہ اپنے تنقیدی نظریات کو بھی مختصراً پیش کیاہے نیز ماقبل اور اپنے عہد کے مروجہ تنقیدی رجحانات سے انحراف بھی کیاہے۔ تنقید کے ضمن میں شروع سے ہی ان کا یہ نظریہ تھا کہ نقاد کو شاعر کے کلام کے حسن وقبح کا جائزہ خود اپنے اصولوں اور مطالعے کی روشنی میں لینا چاہیے نہ کہ پہلے سے طے شدہ مفروضات کی روشنی میں۔ ان کا یہ خیال تھا کہ شاعر یا فن کار کے ساتھ جانب دارانہ یا معاندانہ طریقے سے پیش آنے کے بجائے ہمدردانہ روش اختیار کرنی چاہیے۔ چنانچہ ان کی تنقید جذباتی تنقید کے خلاف رد عمل کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔ ان کے تنقیدی نظام میں یہی اساسی فکر کا رفرما ہے۔
شیخ اکرام کے تنقیدی نظریات سے بحث کرتے وقت ان کی تعلیم، ماحول اورمزاج کوبھی سامنے رکھنا ہوگا۔ وہ انگریزی ادبیات سے ایم۔ اے تھے۔ چنانچہ مغربی ادب پر ان کی گہری نظر تھی اور اس کے حوالے سے ادب کا ایک واضح اور صحت مند تصور رکھتے تھے۔ ان کا نہ صرف مطالعہ وسیع، نظرتیز اور تنقیدی بصیرت کافی تھی بلکہ اپنے عہد کے علومِ مرّوجہ پر بھی ان کی گہری نظر تھی۔ وہ غور وفکر کی خداداد صلاحیت اور زبردست قوتِ استنباط کے مالک تھے۔لہٰذا مشرقی ومغربی طرز تنقید سے بھرپور واقفیت کے بعد انھوں نے اپنے تنقیدی نظریات کو زیادہ مربوط اور واضح شکل میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ علامہ اقبال کے افکاروخیالات بھی ان کے تنقیدی نظام پر مثبت طور پر اثرانداز ہوئے۔ اس کے علاوہ انھوں نے’دع ماکدرخذ ماصفا‘ کا اصول علم وادب کے علاوہ زندگی کے عام رویوں میں بھی اپنا رکھا تھا۔ وہ بالخصوص سر والٹر رالے اور پروفیسر بریڈ لے کے اس نظریے سے متفق تھے کہ ’’شعروادب کے مطالعے کو حیاتِ انسانی کی عمیق گہرائیوں اور اس کے اہم ترین پہلوؤں کا مطالعہ‘‘ 2ہونا چاہیے۔ اس کے پسِ پشت شیخ اکرام کا ادب برائے زندگی کا نظریہ کارفرماتھا۔ ان کا خیال تھا کہ شعر وادب کے مطالعے کو انسانی شخصیت کی تشکیل وتعمیر میں معاون ہونا چاہیے اور صالح دل ودماغ کی پرورش میں آلۂ کار بھی۔
غالب نامہ کی پانچویں اشاعت کے وقت اس کے تنقیدی حصے کو الگ سے ’حکیمِ فرزانہ‘ کے نام سے شائع کیا تو اس میں’ تمہید‘ کے علاوہ ’غالب اور تنقید نگار‘ کے عنوان سے اپنے تنقیدی نظریات اور طریقِ کار کو کافی شرح وبسط کے ساتھ پیش کیا ہے۔اس میں ’روایتی طرز کی تبصرہ نگاری‘، ’متفرنجین‘، ’ترقی پسند تنقید‘، ’راقم کا طریق کار‘، ’حالی‘، ’اقبال‘ وغیرہ عنوانات قائم کیے ہیں۔ اول الذکر تین عنوانات کے تحت انھوں نے مختلف ادوار میں رائج تنقیدی نظریات کا جائزہ لیا ہے اور عام طور پر ناقدین جن غلطیوں کے مرتکب ہوتے رہے ہیں ان کی نشان دہی کی ہے۔’روایتی طرز کی تبصرہ نگاری‘ کے تحت انھوں نے اردو کے ان نقادوں کی کوششوں کا ذکر کیاہے جن کانام حالی اور بجنوری کے بعد لیاجاتا ہے۔ ان حضرات کی زیادہ تر توجہ نہ صرف عبارت آرائی اور انشا پردازی پر رہتی ہے بلکہ موضوع کو دل چسپ اور پُر لطف بنانے کے لیے جابجا لطیفوں، دل فریب شعروں اور میٹھی رسیلی ترکیبوں سے بھی مدد لیتے ہیں۔ چنانچہ ایک بامذاق اہل قلم کے ہاتھ میں یہ طرز تحریر بڑاکا میاب رہتاہے اور کتاب زعفران زار بن جاتی ہے۔وہ شعر وادب کی اصل خوبیوں تک پہنچنے کی کوشش نہیں کرتے اور اگر اس کے حسن وقبح پر روشنی ڈالتے بھی ہیں تو ان کی نظر محض اس پر ہوتی ہے کہ ’’محاورہ غلط ہے یا صحیح؟ بندش چست ہے یاسست؟ روز مرہ کیساہے؟ شاعر نے کوئی متروکات تو نہیں استعمال کیے؟ یہ ہیں ہمارے قدیم نقادوں کے دل پسند موضوع اور یہ ہیں ان کی تحقیق وتنقید کے تنگ دائرے۔‘‘3
درج بالا خیالات کا اظہار شیخ اکرام نے ’روایتی طرز کی تبصرہ نگاری‘ کے پہلے طبقے سے متعلق اہل قلم کے بارے میں کیاہے۔ دوسرے طبقے میں جدید نقادوں کا ذکر’متفرنجین‘ عنوان کے تحت کیاہے اور ڈاکٹر عبداللطیف، پروفیسر کلیم الدین احمد، اور ڈاکٹر وحید قریشی کی تنقید ی کوششوں کا بالخصوص ذکر کیاہے۔ شیخ اکرام نے دو وجوہ سے اس طبقے کو بھی بہ نظرِ استحسان نہیں دیکھا ہے۔ایک تو یہ حضرات قدیم نمونوں اور قدیم کی تمام روایات کو اس قدر حقارت سے دیکھتے ہیں کہ انھیں ایک ہموار اور متوازن نقطۂ نظر کے قیام میں مشکل پیش آتی ہے۔ نیز قدیم اسالیبِ خیال وبیان کی خوبیوں کو سمجھنا ناممکن ہوجاتاہے۔ دوسرے ان حضرات کا سب سے بڑا نقص ذمے داری کا فقدان ہے۔ ان کا قلم مشرقی موضوعات اور شخصیات کے متعلق نہ تو محتاط رہتا ہے اور نہ ہی ان کی باتوں میں کوئی وزن ہوتا ہے۔ لہٰذا بقول شیخ اکرام ’’مغربی تنقید کے بھرپور خزانوں سے مالامال ہونے کے باوجود ہمارے بازارِ ادب میں ان کی ساکھ اچھی نہیں۔‘‘4 ’ترقی پسند تنقید‘ کے تحت انھوں نے جو کچھ اظہار کیا وہ اس سے بھی زیادہ سخت ہے۔ وہ ترقی پسند نقادوں سے کچھ زیادہ ہی بدظن نظر آتے ہیں۔ لہذا شروع میں ہی لکھتے ہیں کہ:
’’ترقی پسند ادیبوں نے اس تنقیدی انتشار میں اور ہی گل کھلائے ہیں۔ ادب سیاسیات کی ایک شاخ بن گیاہے اور حسنِ کلام کا پہلا معیار یہ ہوگیا ہے کہ شاعر نے (خیالی یا حقیقی) جماعتی کش مکش میں کس طبقے کا ساتھ دیا ہے اور اشتراکی خیالات کی کہاں تک ترجمانی کی ہے۔‘‘5
ترقی پسند نقادوں نے بقول شیخ اکرام’’ ایک چیختی چلاتی، بے ہنگام اور بدنما جنسیت‘‘ (موجِ کوثر، ص 243) کے اظہار کا ذریعہ بھی تسلیم کرلیا۔ چنانچہ ان کا یہ خیال درست ہے کہ ترقی پسند تنقید کے نام میں ہی ’’پراپگینڈا اور جانب داری کا جو پہلو ملحوظ رکھا گیاہے وہ محتاجِ بیان نہیں۔‘‘6 اس پراپگینڈا اور جانب داری کی وجہ سے ترقی پسند نقادوں نے ’’صحیح، عمیق اور متوازن رائے‘‘7 قائم کرنے کی اپنی صلاحیت بھی کھودی اور ترقی پسندی وحقیقت نگاری کا ایسا غلغلہ بلند کیا کہ اس کی آڑ میں قدیم روایات سے سلسلہ منقطع کرلیا اور جادۂ مستقیم وکارآمد باتوں سے بھی کنارہ کش ہوگئے۔
آگے چل کر شیخ اکرام نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ترقی پسند ادب کے تقاضوں کے متعلق ابتدا میں جو ابہام پیدا ہوچلا تھا وہ زیادہ سنجیدہ اور غائر مطالعے کی بنا پر بتدریج کم ہوتا گیا۔ اس تحریک کی کامیابی کا اصل راز اس سے بعض قابل، مخلص اور ایسے ہمدردِ قوم نوجوانوں کی وابستگی تھی جن کا نہ صرف مطالعہ وسیع تھا بلکہ ادب سے گہری دل چسپی کی بنا پر زبان وادب کی دل وجان سے خدمت بھی کرنا چاہتے تھے۔ انھیں ان باتوں کا بھی احساس ہے کہ ’’ترقی پسندوں کے بنیادی نظریوں میں بھی حقیقت اور افادیت کا ایک عنصر موجود ہے۔‘‘8 ’’مادی حالات کا ادب اور ادیب پر بڑاگہرا اثر ہوتاہے۔‘‘9 ’’مادی حالات ومحرکات اور فنون لطیفہ بالخصوص ادب میں بڑا قریبی رشتہ ہوتاہے۔‘‘10 ’’ترقی پسند نقادوں نے مادی اور اجتماعی محرکات پر زور دے کر قومی تاریخ اور ادب کو زیادہ ٹھوس اور قابل فہم معیاروں سے پرکھنے کا سامان بہم پہنچایاہے۔‘‘11وغیرہ وغیرہ۔
انھیں قدیم کی تمام فنی اور ادبی روایات کی اندھی تقلید پسند نہ تھی۔ وہ محدود، جامد اور بے جان ادب کے بھی قائل نہیں تھے بلکہ اس میں جس قدر وسعت اور تنوع ہو بہتر ہے۔ وہ اس ادب کے خواہش مند تھے جو زندگی کی بنیادی تلخیوں اور سماجی حقیقتوں سے آنکھیں ملانے کا حوصلہ پیدا کرسکے۔
’راقم کا طریقِ کار‘ عنوان کے تحت شیخ اکرام اپنے تنقیدی مطمحِ نظر کو تینوں طرح کے نقادوں151 روایتی، متفرنج اور ترقی پسند151سے مختلف بتاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
’’ہمارے خیال میں نقاد کا پہلا کام احتساب نہیں ترجمانی ہے۔ ہمارا اولین مقصد یہ نہیں کہ شاعر اور اس کے کلام کو کسی خارجی کسوٹی پر کسیں۔ بلکہ ہماری سب سے بڑی آرزو یہ ہے کہ شاعر کو، اس کے اندازِ طبیعت کو، اس کے اسلوبِ خیال اور اسلوبِ بیان کو سمجھ سکیں اور پھر یہ دیکھیں کہ ان میں فی نفسہٖ کون سی خوبی ہے۔ ہماری نظر زیادہ تر مشابہتوں اور مثبت پہلوؤں پر ہے۔ کوتاہیوں اور منفیانہ پہلوؤں پر نہیں۔ ہم ایک ادیب میں پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اس میں کیاہے۔ نہ یہ کہ اس میں کیانہیں۔
’’بلاشبہ اس مطالعے اور ترجمانی کے پسِ پشت ہمارے تنقیدی اصول ہیں۔ جن سے ہم ایک ادیب کی مثبت خوبیوں کا اندازہ کرتے ہیں... لیکن وہ اصول اس قدر کڑے نہیں اور اگر انھیں کرید کر دیکھاجائے تو وہ فقط عام سمجھ بوجھ (Common Sense) کے اصول ہیں جنھیں شعر وادب پر منطبق کیاگیاہے اور جن میں شاید کوئی چیز ایسی نہیں جو قدیم یا جدید، مشرق یا مغرب، ان میں سے کسی کے بھی بنیادی اصولوں کے خلاف ہو۔‘‘12
اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کرتے ہوئے شیخ اکرام مزید لکھتے ہیں:
’’....ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ جب تک ہمارے نقاد خارجی پیمانوں کو... پسِ پشت ڈال کر ادب کا بہ طور خود مطالعہ نہیں کرتے اور ایک تحکمانہ اور محتسبانہ اسلوبِ تنقید چھوڑ کر شعرا اور ادبا کی اپنی مثبت خوبیوں پر نظر نہیں رکھتے، اس وقت تک ہمارے نقدونظر میں نہ توازن آئے گا نہ واقعیت اور ہمارے فن تنقید پر وہ افراط وتفریط غالب رہے گی، جو حالی کے بعد اس کی ایک ناخوش گوار لیکن نمایاں خصوصیت ہوگئی ہے۔‘‘13
شیخ اکرام کے ذوقِ تنقید کی پرورش میں جن دوبزرگوں کا زیادہ ہاتھ ہے وہ ’حالی‘ اور ’اقبال‘ ہیں۔ڈاکٹر وحید قریشی نے حالیؔ کی تنقیدی صلاحیتوں پر تبصرہ کرتے ہوئے اظہارِ خیال کیا ہے کہ اچھے تنقیدی شعور کے لیے ’’بڑے علمی پس منظر اور بڑی تیز ذہانت کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘14 شیخ اکرام ایک نقاد کے لیے دونوں باتیں کارآمد بلکہ ضروری بتاتے ہیں لیکن ان باتوں سے پہلے ایک اچھے نقاد میں دو اور چیزوں کی تلاش ضروری سمجھتے ہیں۔ یعنی سمجھ اور منصف مزاجی کی۔ ان کا خیال ہے کہ اگر یہ نہ ہوں تو وسیع علمیت اور تیز نظر بھی بیکار بلکہ مضر ہوسکتی ہیں اور اگر ہوں تو بہت سی کوتاہیوں کی تلافی ہوجاتی ہے۔ چنانچہ حالی ان کے نزدیک سب سے زیادہ قابل اعتماد نقاد اسی لیے ہیں کہ ان میں یہ دونوں خوبیاں دوسروں سے زیادہ پائی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ وہ حالی کے تنقیدی نظام کے تمام اہم عناصر یعنی میانہ روی، سادگی، سچائی اور حقیقت نگاری کے بھی بے حد معترف ہیں۔
حالی کے بعد دوسرا بڑا اثر ان پر اقبال کی تعلیمات اور ان کے افکار وخیالات کا ہے۔ انھوں نے دوباتوں میں اقبال کی پیروی کی ہے۔ ایک تو شعروفن کے متعلق ان کے اس بنیادی نظریے کی کہ انسانی شخصیت کی نشوونما میں ادب کا مطالعہ کس حد تک معاون ومفید ہوتاہے۔ انھوں نے اقبال کے اس نظریے پر جابہ جا عمل کیا کہ جو ادب خودی کی نشوونما میں مزاحمت پیداکرے اور انسانی شخصیت کو مجروح کرے وہ اعلیٰ اور بے عیب ادب نہیں ہو سکتا۔علامہ کی دوسری خصوصیت جو انھیں پسند تھی وہ ان کاہمہ گیر اور جامع نقطۂ نظر ہے۔ چوں کہ وہ قصۂ قدیم وجدید اور مشرق ومغرب سے ماورا ہوکر ’خذما صفا ودع ماکدر‘ کے اصول پر عمل پیرا تھے لہٰذا انھیں کسی بھی طرف سے اخذِ فیض سے عار نہ تھا۔ شیخ اکرام نے اس اصول پر بھرپور طور پر عمل کیاہے اور مفید اور صحت مند پہلوؤں کو، جہاں بھی نظر آئے، سمیٹنے کی ہر ممکنہ کوشش کی ہے۔
شیخ اکرام نے نظری تنقید کے ساتھ ساتھ عملی تنقید کے ادبی فریضے سے بھی عہدہ بر آ ہونے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ان کے تنقیدی عمل کی کارفرمائی ان کی سبھی کتابوں میں موجود ہے لیکن ان کا بالتفصیل اور بالصراحت اظہار اور ان پر بھرپور عمل ’غالب نامہ‘ میں ہی ہوا ہے۔ ان کے نزدیک اس کی ایک وجہ جہاں مرزا غالب کی دل آویز اور سحر طراز شخصیت ہے وہیں دوسری وجہ ادب کے تئیں ان کا مخصوص نظریہ تھا۔ غالب کا مطالعہ انھوں نے محض ان کی ادبی اہمیت اور شخصی و انفرادی حیثیت کے پیشِ نظرہی نہیں کیا ہے بلکہ قدیم وجدید کے درمیان انھیں ایک سنگم کی حیثیت سے بھی دیکھا ہے۔ وہ غالب کو نہ صرف نئی نسل کا محبوب اور قدیمی روایات کا بہترین ترجمان سمجھتے ہیں بلکہ قدیم وجدید کی خلیج کو پر ہونے کا ایک بڑا ذریعہ بھی قرار دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ عقیدت وعناد کے درمیان غالب کی شخصیت جس طرح مجروح ہو رہی تھی اس کا بھی تقاضا تھا کہ صورتِ حال کا صحیح جائزہ لیا جائے۔ دوسرے ناواقفیت اور سہل نگاری کی بنا پر حقیقت پر جو تہ در تہ پردے پڑتے جارہے تھے وہ اور بھی زیادہ مایوس کن اور خطرناک تھے۔ شیخ اکرام نے انھیں پردوں کی نقاب کشائی کرنے کی مسلسل سعی کی ہے تاکہ غالب کی شخصیت اور شاعری کو حقیقت کے آئینے میں دیکھا جاسکے۔ غالب کے مطالعے سے ان کی یہ بھی خواہش تھی کہ مختلف لوگوں کے اسالیب خیال میں جو اختلاف ہے انھیں کسی متوازن سطح پر لے آئیں۔ لہٰذا اپنے تنقیدی اصولوں کی وضاحت کے بعد لکھتے ہیں:
’’ہم نے غالب کا مطالعہ ان اصولوں پر کیاہے۔ ہمیں اعتراف ہے کہ یہ راہ بڑی پرخار ہے۔ ایک اہل قلم کے لیے اپنی پسند اور اپنے تعصبات سے بچ کر نکلنا بڑا مشکل ہوتاہے۔ لیکن ہم نے اس کی کوشش ضرور کی ہے اور ہماری یہ مسلسل خواہش رہی ہے کہ غالب کو اس کے اپنے آئینے میں دیکھیں اور ساتھ ساتھ بجنوری اور لطیف، مولانا غلام رسول مہر اور مسٹر اسد علی انوری، مالک رام اور قاضی عبدالودود کے اسالیبِ خیال میں جو اختلاف ہے اسے بھی کسی متوازن سطح پر لے آئیں۔‘‘15
چنانچہ شیخ اکرام نے غالب کا مطالعہ درج بالا اصولوں کی روشنی میں ہی کیاہے۔ ان کا یہ اعتراف ان کی حقیقت پسندی پر دال ہے کہ کسی بھی اہلِ قلم کے لیے اپنی پسند اور اپنے تعصبات سے بچ کر نکلنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔
شیخ اکرام نے غالب کی شخصیت کو ان کے ماحول، کلام اور ان کی نفسیات کی روشنی میں سمجھنے کی کوشش کی ہے اور عہدِ جدید میں ان کی معنویت واضح کی ہے۔ تنقید ان کے نزدیک صرف تعریف، تشریح اور تجزیے تک محدود نہیں ہے بلکہ تنقید میں ان کا بنیادی مطمح نظریہی تھا کہ شاعر کی شخصیت، ذہنیت اور خصوصیات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ اس کے لیے وہ شاعر کے موروثی ونسلی اثرات کے علاوہ نہ صرف اس کے سیاسی وتہذیبی اور معاشرتی حالات اور قومی خصوصیات کے مطالعے پر زور دیتے ہیں بلکہ فن کار کے ذاتی ونجی کوائف، داخلی محرکات اور ذہنی عوامل کی بنا پراس کی نفسیات تک بھی پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گویا وہ فن کار کے خارجی حالات اور داخلی محرکات کا مطالعہ کرکے ان میں ایک مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اسے فن اور فن کار کی زندگی کو سمجھنے کا ایک وسیلہ قرار دیتے ہیں۔ چوں کہ کوئی بھی فن پارہ اپنے فن کار سے بے نیاز نہیں ہوسکتا لہذا شیخ اکرام کا خیال ہے کہ نقاد کو اس طرف بالخصوص توجہ دینی چاہیے تاکہ فن اور فن کار کی زندگی میں رشتے کی نشان دہی کی جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ تنقید میں انھوں نے فن اور فن کار کی شخصیت کی آمیزش کو ضروری قراردیا ہے۔ اس طرح انھوں نے شخصی اور نفسیاتی تنقید پر ہی زور دیاہے۔ ایک نفسیاتی نقاد کے لیے فن کار کے جذبات واحساسات، خیالات ورجحانات اور خواہشات وہیجانات کا مطالعہ ناگزیر ہوجاتاہے۔ اس کے لیے فن کار کی ذہنی یا نفسیاتی کرید ہی حظ کا ذریعہ ہوتی ہے۔وہ جب تک فن کار کی شخصیت کا ذہنی مطالعہ نہیں کرتا اور دروں بینی سے کام نہیں لیتا اسے تشفی نہیں ہوتی۔ جوں جوں فن کار کے رازِ دروں سے واقفیت اور اس کی شخصیت کی نقاب کشائی ہوتی جاتی ہے اس کی دل چسپی میں مزید اضافہ ہوتاجاتاہے۔ ایک نفسیاتی نقاد کے نزدیک کسی تخلیق کے صحیح جائزے کے لیے ضروری ہے کہ فن کار کے کردار، ذہن ودماغ اور اس کی شخصیت کا پوری طرح تجزیہ کیاجائے۔ یعنی وہ جذبات وحسیات کو فراموش نہ کرے بلکہ فن کار کے نہاں خانوں کاجائزہ لے کر ان اسباب کا پتا لگانے کی کوشش کرے جن کے تحت فن پارہ وجود میں آیا اور جب تک فن کار کے ذہنی عوامل کا پورا مطالعہ نہیں کیاجائے گا فن پارے کی حقیقت ومعنویت واضح نہیں ہوپائے گی۔ اس لحاظ سے فن کار کی انفرادی اورشخصی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے اور فن پارے میں فن کار کے مطالعے کی شمولیت ضروری ہوجاتی ہے۔ نفسیاتی تنقید میں فن کار کی ذہنی واردات کی طرف زیادہ توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔ ادب چونکہ اب محض تفنن طبع اور حصول حظ کا ذریعہ نہیں رہا بلکہ انسانی زندگی کے مثبت اور کارآمد پہلوؤں کا مطالعہ ہوگیاہے لہٰذا اب نقاد بھی فن پارے کے ذریعے فن کار کے ذہنی عوامل کی سراغ رسانی کی طرف اپنی توجہ زیادہ مرکوز کرتا ہے تاکہ بہتر سے بہتر نظریۂ حیات سامنے آسکے اور فن پارے کی قدروقیمت کا صحیح اندازہ ہوسکے۔
شیخ اکرام نے اپنے مطالعے میں نفسیاتی تنقید کو ضرور اہمیت دی ہے لیکن انھوں نے فرائڈ کے نظریۂ تحلیل نفسی کو اساس نہیں بنایا بلکہ اس کے دو شاگردوں ایڈلر اور ژونگ کے نظریات کو زیادہ اہمیت دی ہے۔فرائڈ نے تو انسانی ذہن کو تین خانوں 151 شعور، تحت الشعور (قبل شعور) اور لاشعور151 میں تقسیم کرکے ان میں ایک کشمکش دکھلانے کی کوشش کی ہے اور یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ انسان کی جو خواہشیں اور آرزوئیں پوری نہیں ہوتیں وہ اس کے لاشعور کا ایک حصہ بن جاتی ہیں۔ یہی لاشعور بعض دفعہ حالتِ خواب میں اس کی تشنہ خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ اور ذہنی آسودگی کا سبب بنتا ہے۔ ایڈلر نے فرائڈ کے نظریۂ تحلیل نفسی اورلاشعور کی نفی کی ہے اور احساسِ کمتری کو اولیت دی ہے۔ اس کے خیال میں انسان کی نفسیاتی کش مکش کی وجہ یہ ہے کہ وہ طبعی قوتوں کے سامنے بے بس اور کمزور ہے اور یہی بے بسی وکمزوری اس کے احساسِ کمتری کا سبب بنتی ہے۔ اس میں انسان کی ذہنی وجسمانی کمزوریوں کا بھی دخل ہوتا ہے۔ایڈلر کا خیال ہے کہ بچے احساس کمتری کا زیادہ شکار ہوتے ہیں جوآگے چل کر دوسری الجھنوں (Complexes) میں بدل جاتاہے۔ان کمزوریوں اور احساسِ کمتری سے چھٹکارا پانے اور عظمت وبرتری حاصل کرنے کے لیے انسان طبعی قوتوں اور دیگر مزاحمتوں سے مسلسل نبردآزما رہتاہے۔ گویا ایڈلر کے نزدیک عظمت کی اساس احساسِ کمتری پر قائم ہے۔ بہ الفاظ دیگر انسانی شخصیت کی تکمیل احساس کمتری کے ردعمل سے ہوتی ہے۔ یہی احساسِ کمتری کسی تخلیق کار کے لیے محرکات کا سرچشمہ بھی ہوتاہے۔ اس نے اپنے اس نظریے کو نظریۂ تلافی (Theory of Compensation) کا نام دیاہے۔ یہ نظریہ انفرادی نفسیات (Individual Psychology) کے نام سے بھی مشہور ہے۔
فرائڈ اور ایڈلر کے مقابلے میں ژونگ کا نظریہ زیادہ وسیع،عمیق اور بلند فلسفیانہ نقطۂ نظر کا حامل ہے۔ ایڈلر کی طرح وہ بھی فرائڈ کے نظریۂ تحلیل نفسی اور لاشعور کو نہیں مانتا۔ بلکہ وہ ذاتی یا انفرادی لاشعور کے ساتھ ساتھ اجتماعی لاشعور کا بھی قائل ہے۔ اس نے اسے نسلی لاشعور(حافظے) کا بھی نام دیا ہے۔ اس کے نزدیک اجتماعی لاشعور ان تصورات وتجربات کا مرکز ہوتا ہے جو کسی قوم یا مذہب میں نسل درنسل منتقل ہوتے رہتے ہیں اور قوم کا ورثہ بن جاتے ہیں۔ چوں کہ لاشعور کی طرح اجتماعی لاشعور بھی غیرمحسوس طریقے سے کام کرتا رہتا ہے لہذا انسان اپنے آباو اجداد سے ترکے میں ملی ہوئی موروثی نسلی خصوصیات، دیومالاؤں اور روایتوں کا اظہار کسی نہ کسی طرح کرتا ہی رہتا ہے۔ یہ احساس ایک تخلیق کار کے یہاں بھی نمایاں ہوتاہے۔ژونگ نے دیو مالاؤں، مذہبی کتابوں اور عقیدوں، تاریخی واقعات اور اساطیر کے ذریعے نسلی یا اجتماعی لاشعور پر پڑے ہوئے پردوں کو ہٹانے کی کوشش کی ہے اور یہ بتانا چاہا ہے کہ ایک فن کار داستانوں اور دیومالاؤں کے ذریعے اپنی خواہشات کی تکمیل کیوں کر کرتا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ یہ عوامل ساری انسانیت کے لیے قدرمشترک کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس کے لیے ژونگ نے Archetype کی اصطلاح استعمال کی ہے۔اس نظریے پر مشتمل تنقید آر کی ٹائیپل تنقید (Archetypal Criticism)کہلاتی ہے۔ ژونگ نے اس تنقید کے ذریعے ادبی تخلیق میں وراثت کے اجزا تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ فرائڈ کی طرح لاشعور کو محض تہ خانہ نہیں سمجھتا بلکہ اس کا خیال ہے کہ انسان کی تخلیقی وتخریبی قوتوں کا سرچشمہ یہی ہے۔
درج بالا نظریات کی روشنی میں شیخ اکرام کی تنقید کو سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے۔ انھوں نے غالب اور شبلی کے مطالعے میں ان نظریات سے استفادہ کیا ہے اور نہ صرف ذہنی عوامل کی سرا غ رسانی کی کوشش کی ہے بلکہ ان کے موروثی ونسلی تفاخر کی روشنی میں ان کی شخصیات کا جائزہ بھی لیاہے۔غالب اور شبلی کے یہاں بعض معاملوں میں احساس کمتری سے مغلوب ہوکر عظمت وبرتری حاصل کرنے کا جو جذبہ کارفرمارہاہے اسے بھی انتہائی مدلل اور تجزیاتی انداز میں پیش کیاہے۔ شبلی کے سلسلے میں درج ذیل اقتباس نقل کرنا شاید بے محل نہ ہو۔
’’.... شبلی کی دماغی ساخت اور ابتدائی نشوونما کا تقاضا تھا کہ قومی خدمت کے میدان کو بھی ہم اور اغیار، ہم اور حریف، اس طرح کے نبردآزما پیمانوں سے ناپیں۔ ایک تو وہ نسل کے راجپوت تھے۔ پھر مولانا محمد فاروق چریا کوٹی کے شاگرد، جن کے نزدیک علم ایک کامیاب مناظرے کا آلۂ کار تھا۔ اس کے علاوہ ان کی اپنی ’مناظرانہ عادت‘ اور ابتدائی ایام کے ناخوش گوار نفسیاتی اثرات۔علامہ شبلی ازل سے جوہر قابل لے کر آئے تھے، لیکن جس روح فرسا ماحول سے انھیں سابقہ پڑا۔ اس نے ان کا طبعی توازن تہ وبالا کردیا۔ وہ ایک امیر گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔ ابتدا میں نشاطِ خاطر کے سب سامان میسر تھے۔ لیکن سوتیلی ماں کی آمد، حقیقی ماں کی آہ وزاری۔ قدیم تعلیم کی، جس میں شبلی نے فروغ حاصل کیا تھا، بے وقعتی، تلاشِ روزگار کی صعوبتیں، علی گڑھ کالج میں دوسرے علوم کے اساتذہ کے بالمقابل السنۂ شرقیہ کے اساتذہ کی بے قدری۔ ان سب باتوں نے شبلی کے عزت نفس کو اس طرح مجروح کیا کہ ایک چوٹ کھائے ہوئے عضو کی طرح، ان کادل ہوا کے جھونکوں سے بھی دکھ جاتاہے۔ جہاں ان سے اظہارِ ہمدردی کیا جاتا، وہاں انھیں’’استہزا وشماتت‘‘ کے آثار نظر آتے اور جہاں حریفانہ مخالفت کی کوئی ضرورت نہ ہوتی، وہاں بھی ان کی زخم خوردہ انانیت مخالفانہ خودنمائی کے لیے تیار ہوجاتی۔‘‘16
مرزا غالب کے یہاں بھی اسی طرح کی نفسیاتی کشمکش شروع سے آخر تک دیکھنے کو ملتی ہے۔ ان کی دلی خواہش اور آرزو تو کچھ اور ہوتی تھی لیکن عملا ہوتا کچھ اور تھا۔ لیکن وہ قضا و قدر کے سامنے اپنے آپ کو بالکل بے بس ومجبور نہیں پاتے بلکہ حالات پر قابو پانے اور سمجھوتہ کرنے کی مستقل کوشش بھی کرتے رہتے تھے۔ اس طرح ان کی زندگی مسلسل امید ویاس اور کامیابیوں وناکامیوں کے نشیب وفراز سے گزرتی ہوئی آگے کی جانب رواں دواں تھی۔ شیخ اکرام نے ان سب صورتِ حال کا تفصیل سے جائزہ لیاہے۔ شیخ اکرام نے مرزا غالب کی ابتدائی زندگی میں ہی احساس کمتری کا سراغ لگانے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ مرزا کی ابتدائی زندگی عیش وعشرت میں پروان چڑھی لیکن ان کے سامنے مشکلات ومصائب بھی کم نہ تھے جن کی وجہ سے ان کی پوری زندگی نشیب وفراز کا شکار معلوم ہوتی ہے۔ غالب نے جس طرح ان کی تلافی کی اور ان پر قابو حاصل کیا اس کا بیان بھی کم دل چسپ نہیں۔ شیخ اکرام نے ان سب کو تجزیاتی انداز میں پیش کرتے ہوئے یہ ثابت کیا ہے کہ ان کے یہاں جو عظمت وبرتری دیکھنے کو ملتی ہے اور انھوں نے فن میں جس طرح معراجِ کمال حاصل کیا وہ در اصل ان کے جذبۂ احساس کمتری کی دین ہے۔ ’قیامِ آگرہ کے اثرات‘ کے تحت انھوں نے بالخصوص اس صورت حال کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ ماہرینِ نفسیات بالخصوص ایڈلر کے نظریات اور اس کے حوالے سے تیمور اور نپولین کی مثالیں پیش کرنے کے بعد مرزا غالب کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’غور سے دیکھاجائے تو مرزا کی ذہنی نشوونما اور حالاتِ زندگی میں بھی اس نفسیاتی اصول کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ وہ ایک شان دار ماحول میں پیدا ہوئے اور پلے۔ لیکن اس ماحول کے مقابلے میں انھیں اپنی کمزوری اور کوتاہیوں کا احساس تھا۔ خدا نے ہمت بلند دی تھی۔ دل چاہتا تھا کہ ان کوتاہیوں کی تلافی کی جائے۔ انھوں نے مادی ترقیوں کے لیے فضا کو ناسازگار سمجھ کر ادھر سے آنکھیں بند کیں۔ بزرگوں نے جو میراث چھوڑی تھی اس پر قناعت کی اور اپنی آرزوؤں کی تکمیل کے لیے شعر وسخن کا راستہ چنا تاکہ اس میں اتنی شہرت اور ناموری حاصل ہوجائے کہ اپنے ہم چشموں میں کسی سے کمتر نہ رہیں۔‘‘17
اسی طرح کا ایک اور اقتباس ملاحظہ ہو جہاں شیخ اکرام نے ’عرفانیاتِ غالب‘ کے تحت مرزا کی باطنی کش مکش اور عظمت وبرتری حاصل کرنے کی جدوجہدکو زیادہ بہتر صورت میں پیش کرنے کی سعی کی ہے:
’’انسان جب کسی چیز کی خواہش کرتا ہے اور اسے نہیں پاتا تو اس کی مایوسی قدرتی امر ہے۔ خواہ یہ ناکامی خواہشات کی فراوانی سے ہو یا نامساعد اتفاقات سے۔ لیکن زندگی میں مسلسل اضطرار اور بے چینی نبھ نہیں سکتی۔ عام طور پر مایوس اور ناکام لوگ اپنی ناکامیوں کو قضاوقدر کے سر پر ڈال کر سمجھ لیتے ہیں کہ یہ مقدر کا قصور ہے۔ مرزا کی غم زدہ طبیعت نے بھی ایک طرح کا سکون اور توازن حاصل کرلیا تھا۔ لیکن رسمی طور پر قسمت کو ملزم قرار دے کر نہیں بلکہ اس نگاہِ ژرف بیں کی مدد سے جو ان کی اپنی ناکامیوں سے آگاہ تھی تو دوسروں کی ناکامیاں اور مایوسیاں بھی اس سے پنہاں نہ تھیں۔ انسان جب یہ دیکھتا ہے کہ زمانے کے ترکش میں ہزاروں تیر ہیں۔ ایک سے ایک زہریلا اور ان سے کوئی محفوظ نہیں تو طبیعت میں ایک طرح کا سکون آجاتا ہے۔‘‘ 18
شیخ اکرام کی تنقیدنگاری کے ضمن میں ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ وہ اپنے نتائجِ فکر صرف نفسیات کی روشنی میں ہی اخذ نہیں کرتے بلکہ تاریخ پر گہری نظر رکھنے کے سبب وہ فن کار کے ذاتی ونجی کوائف کے ساتھ ساتھ حالات اور ماحول کی نامساعدت کے حوالے سے بھی شخصیت اور کلام کا جائزہ لیتے ہیں۔ان کی تنقید دل چسپ ہونے کی خاص وجہ ان کی تاریخ سے گہری اور بھرپور واقفیت ہے۔ اس سے نہ صرف انھوں نے اپنی تنقید کو ایک نئی جہت سے آشنا کیا بلکہ اقدار کے تعین میں بھی انھیں بیش بہا مدد ملی۔ درج ذیل اقتباس میں ان کے اسی طریقِ کار کی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔
’’... جب مرزا پیداہوئے تو سلطنت مغلیہ کا نظام درہم برہم ہوچکا تھا۔ وہ آٹھ سال کے تھے کہ لارڈ لیک نے دہلی اور آگرہ فتح کیا اورشمالی ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی مستحکم حکومت قائم کرکے ان افغان اور مغل قسمت آزماؤں کی قابلِ حصول آرزوؤں کا خاتمہ کردیا تھا۔ جن سے بے قرار ہوکر انھوں نے اطرافِ ملک میں حکومتیں قائم کی تھیں۔ یا دوسری طرح اپنے آپ کو سربلند کیا تھا۔ اب اس کی کوئی گنجائش نہ تھی اور ہوتی بھی تو مرزا کے خاندانی حالات ناسازگار تھے۔ مرزا نے دیکھا کہ اب دنیوی قدرومنزلت کی معراج تو میسر نہیں آسکتی۔ انھوں نے کوشش کی باگ اس راستے پر پھیری جو سیاسی زوال اور کمپنی کے تسلط میں بھی بند نہ ہواتھا اور اپنے آبا کی زمینی فتوحات کی جگہ معنوی اورفنی کامیابیوں کو مقصدِ حیات بنایا۔‘‘19
اسی طرح مرزا کی ذاتی مایوسی وناقدری کا ذکر کرتے ہوئے شیخ اکرام درج ذیل نتیجے پر پہنچتے ہیں:
’’فی الحقیقت مرزا کی ذاتی مایوسیاں اور ناکامیاں بھی ایک شکست خوردہ معاشرے کا نتیجہ تھیں۔ ہندوستان میں اسلامی حکومت نے تہذیب وتمدن کے جس باغ کی آبیاری کی، مرزا اس میں گل سرسبد کی حیثیت سے تھے۔ لیکن وہ پیدا اس زمانے میں ہوئے جب اس باغ پر خزاں آرہی تھی۔ ظاہر ہے کہ اگروہ اکبر یا شاہ جہاں کے عہدِ حکومت میں ہوتے تو ان کے ادبی کارناموں کی بہ قدر استحقاق قدر ہوتی اور انھیں آلامِ روزگار کا شکار نہ ہونا پڑتا۔ اب حالت یہ تھی کہ وہ فن میں ظہوری اور عرفی اور کلیم سے بڑھ کر تھے لیکن اکبر یا جہاں گیر بلکہ عادل شاہ بیجاپوری کوئی نظر نہ آتا تھا۔‘‘20
شیخ اکرام نے ایک جگہ اور مرزا غالب کی معاشرتی کشمکش، ان کے نامساعد حالات اور ان پر قابو پانے کی کوشش کو تاریخی تناظر میں دیکھنے کی کوشش کی ہے:
’’ مرزا غالب کا معاشرہ جس کش مکش سے دوچار تھا اس میں نیا راستہ ڈھونڈنے کی صلاحیت ان میں نہ تھی۔ وہ سید احمد خاں نہ تھے، جو ایک ٹوٹے ہوئے برباد شدہ جہاز کے wreckمیں سے مضبوط اور سالم تختے نکال کر ایک نئی کشتی تیار کرتا ہے اور اس میں ایک نیا بادبان لگا کرپھر بحر نوردی نہ سہی مسافتِ دریائی کا آغاز کر دیتا ہے۔ وہ اقبال بھی نہ تھے جوقوم کے تاریخی تقاضوں سے خبر دار ہوکر اور گردوپیش پر نظر ڈال کر ایک نئی منزل کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ غالب کا مسلک اور مقام دوسرا تھا۔ اس کے علاوہ شاید وقت ابھی ظاہری تخریب کی تکمیل کا تھا۔ لیکن مرزا کی جواں ہمتی انھیں نچلا نہ بیٹھنے دیتی تھی۔ وہ دیکھتے تھے کہ قدیم نظام کی تباہی یقینی ہے اور یہ بھی سمجھتے تھے کہ معاملہ ان کے بس کا نہیں۔ لیکن وہ کسی نہ کسی طرح سطح پر،شعر وسخن کی منزل میں ہی سہی، یا کم ازکم خیال وتخیل کی دنیا میں ماحول سے نبردآزما ہے۔‘‘21
شیخ اکرام نے جہاں مرزا غالب کو مغلیہ تہذیب وتمدن کا بہترین ترجمان قراردیا ہے وہاں ان کے موروثی ونسلی اثرات کے حوالے سے بھی ان کی شخصیت اور کلام پر روشنی ڈالی ہے۔ مرزا غالب کو خود اپنے ترکی النسل ہونے پر بڑا ناز تھا اور انھوں نے اپنے خطوط اور شاعری میں جابہ جا اس کا اظہار بھی کیا ہے۔ شیخ اکرام نے ’دع ماکدروخذماصفا‘، ’ مغلیہ نفاست پسندی اور خوش معاشی‘، ’نیک نفسی‘، ’حفظ آئین‘، ’ہموار طبعی‘، ’رواداری‘ اور ’اولولعزمی وبلند نظری‘ وغیرہ ذیلی عنوانات کے تحت مغلوں کی کئی ایک نمایاں خصوصیات بیان کی ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ مرزا کی اپنی ذات میں بھی وہ ساری خوبیاں موجود تھیں جن سے مغل قوم کے بہترین افراد متصف تھے۔ مرزا غالب کے یہاں مغلوں کی یہ ترجمانی صرف زندگی کے عام بنیادی اصولوں تک محدود نہ تھی بلکہ ان کی شاعری میں بھی وہی روح موجود ہے جو مغلوں کے یہاں فنونِ لطیفہ میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ بقول اکرام’’ وہ بنیادی مغل روایات کے کامیاب ترجمان تھے۔ یعنی جو اصول اور روایات مغل کیرکٹر، مغلیہ طرزِ حکومت، مغلیہ فنونِ لطیفہ کی امتیازی خصوصیات ہیں وہی مرزا کی شاعری اور زندگی میں نمایاں ہیں او رشاید ان خصوصیات کا اس سے بہتر ادبی اظہار اور کہیں نہیں۔‘‘22 ایک جگہ اور مرزا کی شاعری اور شاہ جہاں کے تاج محل میں مماثلت تلاش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’مغلوں کے جاہ وجلال کا اصل گہوارہ شاہ جہان آباد تھا۔ لیکن یہ عجیب اتفاق ہے کہ نہ صرف ان کے فن تعمیر کا شاہ کار اکبرآباد میں ہے۔ بلکہ ان کے سب سے بڑے شاعر اور ان کی تہذیب وتمدن کے بہترین ترجمان کا مولد بھی وہی بلدۂ حسن وشعر ہے۔
’’شاہ جہاں کا تاج محل اور غالب کی شاعری، فن کی دومختلف اصناف کے شاہ کار ہیں لیکن دونوں کی تہ میں ایک ہی روح کارفرما ہے۔ تخیل کی سربلندی ولطافت، تلاشِ حسن، فنی پختگی دونوں میں معراجِ کمال پر ہے۔ فرق اتنا ہے کہ جب مغلوں کے سامنے خزانوں کے منھ کھلے ہوئے تھے تو ان کے سنہرے خواب اور حسین آرزوئیں سنگِ مرمر کے قیمتی لباس میں جلوہ گر ہوئیں۔ لیکن جب یہ خزانے خالی ہوگئے اور آرزوؤں اور خوابوں پر افسردگی چھا گئی تو ان کا اظہار حسین وجمیل الفاظ اور حزین ودل گداز اشعار میں ہوا۔‘‘23
اسی طرح وہ مغلوں کی اولوالعزمی اور بلند نظری کا مقابلہ مرزا کی روحانی عظمت اور سربلندی سے کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’بدقسمتی (یاخوش قسمتی) سے مرزا غالب اس زمانے میں پیدا ہوئے، جب مغلیہ حکومت کا چراغ ٹمٹما رہا تھا اور مغلیہ سپرٹ اور ذہنیت کے روایتی اظہار کے لیے جو باتیں درکار تھیں وہ انھیں میسر نہ آئیں۔ لیکن ان کی زندگی اور شاعری میں وہی روح جلوہ افگن ہے جس نے زیادہ سازگار حالات میں مغلوں کو مشرق کا سب سے عظیم الشان حکمران بنادیا تھا۔ مرزا کی شخصیت یادگار غالب اور اردوئے معلی میں پوری طرح جلوہ گر ہے اور اس کی عظمت اور وجاہت سے انکار کرنا ناممکن ہے۔ اولوالعزمی اور بلند حوصلگی میں وہ بہترین مغل امرا یا اراکین سلطنت کے ہم پایہ ہیں۔ فرق اتنا ہے کہ مغل امرا کے بلند عزائم کا اظہار تو میدانِ کارزار میں اور سلطنت کے نظم ونسق میں ہوتا تھا اور مرزا کی روحانی عظمت اور سربلندی کا امتحان شعر گوئی میں ہوا۔ مرزا اور قدیم مغل امرا اورحکمرانوں کی کوششوں کے میدان مختلف تھے لیکن مرزا نے اپنے فن میں کمال حاصل کرنے کے لیے وہی بلند ہمتی اور اولوالعزمی دکھائی جس کا اظہار ان کے دوسرے ہم قوموں نے ملک گیری اور نظم ونسقِ سلطنت میں کیا تھا۔ قلمروشعروسخن میں مرزا کے مقاصد اسی طرح سربلند تھے، جس طرح سیاسیات کی دنیا میں مغل فاتحین کے اور ان کے حصول کے لیے انھوں نے اسی طرح مسلسل جدوجہد کی۔ مرزا کے ابتدائی طرز شاعری میں بڑے عیب تھے اور جس طرح انھوں نے خود اس میں مسلسل اصلاح اور ترقی کرکے اپنے تمام پیش رو ہندوستانی شعرا سے سبقت حاصل کی ہے وہ خود ان کی روحانی سربلندی کا واضح ثبوت ہے۔‘‘24
مرزا ایک با حوصلہ اور اولوالعزم انسان ضرور تھے لیکن ان کی شاعری میں غم والم اور مایوسی کا عنصر بھی نمایاں ہے۔ اس کی ایک وجہ مرزا کا ماحول ہے جب مغلیہ حکومت حالتِ نزع میں تھی اور مغلوں پر غم والم کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے۔ لہذا شیخ اکرام کا یہ خیال درست ہے کہ ’’اگر مرزا اپنے کلام میں غم اور مایوسی کا اظہار نہ کرتے تو وہ مغلوں کے صحیح ترجمان ہی نہ ہوتے۔‘‘25
اس کے علاوہ شیخ اکرام نے ان خامیوں کی بھی نشان دہی کی ہے جو مغلوں میں موجود تھیں اور جن سے مرزا غالب بھی مستثنیٰ نہیں تھے۔ یعنی حُبِّ دنیا اور حد سے بڑھی ہوئی خوش معاشی ونفاست پسندی۔
شیخ اکرام کا تنقید میں ایک خاص طریقۂ کار اور نقطۂ نظر ضرور تھا لیکن وہ کسی خاص جماعت یا دبستان سے وابستہ نہیں تھے۔ حقیقت یہی ہے کہ کوئی بھی نقاد اپنے تاثرات، تجزیاتی انداز، سائن ٹی فک ذہن اورجمالیاتی حس سے بے نیاز نہیں ہوتا اور اس کی تنقید میں یہ سبھی پہلو کسی نہ کسی طرح در آتے ہیں خواہ وہ کسی بھی دبستانِ تنقید سے تعلق رکھتاہو۔ چنانچہ شیخ اکرام کے ہاں بھی نفسیاتی تنقید کے ساتھ ساتھ تنقید کے دوسرے دبستانوں کی بھی جھلک دیکھنے کو ملتی ہے۔ مثلاًتاثراتی، جمالیاتی اور رومانی۔ چوں کہ نفسیاتی تنقیدمیں فن کار کے حالاتِ زندگی اور اس کے ماحول کی شمولیت ناگزیر ہوجاتی ہے لہٰذا تنقید کا یہ دبستان سوانحی تنقید کے دائرے میں شامل ہوجاتاہے بلکہ بعض اوقات تو دونوں میں امتیاز کرنا مشکل ہوتاہے۔ یہ اندازشیخ اکرام کے یہاں بھی نمایاں ہے۔ چنانچہ شیخ اکرام کی تنقید کے سلسلے میں یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ ان کی تنقید نفسیاتی، انداز سائن ٹی فک اور تجزیاتی اور لب ولہجہ تاثراتی وجمالیاتی ہے۔
شیخ اکرام کی تنقید نگاری کے اس تفصیلی جائزے سے جوباتیں سامنے آتی ہیں ان میں ایک نمایاں پہلو ان کا اپنا تنقیدی شعور ہے۔ انھوں نے اپنی نظر، اپنے ذوق اور وجدان سے کام لیاہے۔ وہ خود غوروفکر کرتے ہیں اور اپنی ذہانت اور عقل سے کام لیتے ہیں۔ وہ تنقید میں مروجہ اصول ونظریات کے بھی قائل نہیں تھے بلکہ اپنی راہ خود ہموار کی ہے۔غوروفکر اور مطالعے کے بعد اپنے تنقیدی اصول خود اخذ کیے ہیں لیکن ان کا خیال ہے کہ یہ عام تنقیدی اصول ونظریات سے زیادہ مختلف نہیں ہیں۔بلکہ عام سوٗجھ بوجھ (Common sense) کے ہیں جن کا اطلاق عام طور پر ادب پر کیاجاتاہے۔ چنانچہ شیخ اکرام نے بھی عام سمجھ بوجھ کو ہی اپنی تنقید میں جگہ دی ہے۔ انھوں نے مغربی اثرات کے تحت اردو تنقید کو زیادہ صحت مند صورت میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن مغربی سیلاب میں بہہ نہیں گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تنقید میں گہرائی بھی ہے اور گیرائی بھی۔ وہ ڈاکٹر سید عبداللہ کو ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ’’تنقید میں سب سے اہم مرحلہ یہی ہے کہ ان اہم چیزوں کو نمایاں کیاجائے جن پر بالعموم نظر نہیں جاتی لیکن ’ایجاد بندہ ‘ والی بات نہ ہو‘‘26 چنانچہ ان کے یہاں لکیر کے فقیر والی بات نہیں ہے بلکہ ان کا تنقیدی شعور زیادہ بالیدہ نظر آتاہے اور اس سے ایک طرح کی ندرت، جامعیت اور بصیرت کا احساس ہوتاہے۔ ان کا یہ دعوی درست ہے کہ انھوں نے ’’ حتی الوسع اردو تنقید کو مریض اور صحت مند ادب کے فرق سے روشناس کرانے کی مسلسل کوشش کی ہے۔‘‘27
حوالہ جات
1 حکیم فرزانہ،شیخ محمداکرام، فیروز سنز لمیٹڈ، لاہور،اشاعتِ اول1957،ص13
2 عالب نامہ، شیخ محمد اکرام،مرکنٹائل پریس،لاہور،اشاعتِ اول،1936ص 5
3 حکیم فرزانہ،ص 16 4 حکیم فرزانہ،ص 27
5 حکیم فرزانہ،ص28 6 حکیم فرزانہ،ص 28
7 حکیم فرزانہ،ص 30 8، 9 اور 10 حکیم فرزانہ،ص 34
11 حکیم فرزانہ،ص 35 12 حکیم فرزانہ،ص 38-39
13 حکیم فرزانہ،ص 50 14 بحوالہ حکیم فرزانہ،ص 41
15 حکیم فرزانہ،،ص 50
16 یادگارِ شبلی،شیخ محمد اکرام،ادارہ ثقافتِ اسلامیہ،لاہور،1971،ص 379
17 حیاتِ غالب،شیخ محمد اکرام، فیروز سنز لمیٹیڈ، لاہور،1957ص 33
18 حکیم فرزانہ،پہلی اشاعت،ص 213-14 19 حیاتِ غالب،ص 34-35
20 حکیم فرزانہ،ص 206 21 حکیم فرزانہ،ص 210-11
22 حکیم فرزانہ،ص300 23 حیاتِ غالب،ص 11
24 حکیم فرزانہ،ص 315-16 25 حکیم فرزانہ،ص 322
26 فنون، لاہور،مارچ، اپریل،1977،ص 50 27 حکیم فرزانہ،ص 45
Prof. Mohd Muazzamuddin
DEL, NCERT
New Delhi - 110016
Mob.: 9868469267
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں