16/1/19

سفرناموں کے بدلتے رنگ اور اکیسویں صدی کے سفرنامے مضمون نگار: اسلم جمشیدپوری






سفرناموں کے بدلتے رنگ اور اکیسویں صدی کے سفرنامے

اسلم جمشیدپوری
سفر باعث ظفر ہو تا ہے۔سفر انسان کو سمجھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ سفر کا سلسلہ انسانی تاریخ جیسا ہی قدیم ہے۔ ابتدا میں ضرورت،تلاش، مجبوری وغیرہ اسباب سفر کے عوا مل ہوا کرتے تھے۔ جیسے جیسے دنیا ترقی کرتی گئی، انسان مہذب ہوتا گیا۔سفر کے اسباب و علل میں بھی اضا فہ ہو تا گیا۔
سفر کی روداد لکھنے کا سلسلہ بھی خاصاقدیم ہے۔ اردو کے مقا بلے فارسی اور عربی میں سفر نامہ نگاری کی روایت خاصی قدیم اور مضبوط و مستحکم ہے۔ اردو میں پہلا سفر نامہ یو سف خاں کمبل پوش کے سفر انگلستان کی روداد ہے جو انہوں نے 1837 میں کیا تھا اور جو1847 میں’عجائبات فرنگ‘ کے نام سے شا ئع ہوا۔تقریباً پونے دوسو سالہ تاریخ میں اردو سفر نامہ نگاری میں خاصا تغیر آ یا ہے۔جہاں تک سفر ناموں کی سماجی اور ادبی اہمیت و افا دیت کا سوال ہے تو زیادہ تر سفر نامے اپنے اپنے سماج کے عکاس ہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ ادبی اہمیت کے نقطۂ نظر سے بعض سفر ناموں سے صرفِ نظر کرنا ہوگا۔
’عجائبات فرنگ‘1847سے2017 تک اردو سفر ناموں میں جو تغیر آ یا ہے اسے بآسانی نشان زد کیا جاسکتا ہے۔ ابتدا ئی سفر ناموں میں تاریخ، جغرا فیہ، سیاسی پس منظر وغیرہ کا بیان زیا دہ ہو تا تھا۔ بیسویں صدی میں بھی یہ اوصاف پائے جاتے ہیں لیکن بیسویں صدی کے آ خری ربع سے سفر ناموں میں خاصی تبدیلی واقع ہو ئی ہے۔سفر نگاری کے ابتدا ئی سفر کے تعلق سے پروفیسر خالد محمود اپنی تنقیدی کتاب’اردو سفر ناموں کا تنقیدی مطا لعہ‘ میں لکھتے ہیں:
’’اردو کے ابتدائی دور کے سفر ناموں پر تاریخ اور جغرافیہ کا غلبہ ہے۔ ابتدائی سفر نامہ نگاروں نے غیر جانب دار ہو کر مختلف ملکوں اور قوموں سے متعلق ہر قسم کی تہذیبی، ثقا فتی، معا شی، سیاسی اور سماجی معلومات فرا ہم کر نے کی حتی الامکان کوشش کی ہے اور معلومات فراہم کرتے ہوئے غیر ضرور ی تخلیق کاری سے گریز کیا ہے۔
بیسویں صدی کے نصف اول میں جو سفر نامے قلم بند کیے گئے، ان میں اگرچہ معلومات فرا ہم کر نے کا رجحان غالب ہے اور وہاں بھی ہر شے کو تاریخ و جغرا فیہ کے پس منظر میں دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے مگر اس دور کے سفر نامہ نگاروں نے اپنی ذات کو سفرنامے سے بالکل علیحدہ نہیں رکھا۔وہ اپنی را ئے اور پسند و نا پسند کا بھی برملا اور بے تکلف اظہار کرتے ہیں اور اپنے تجربات و مشاہدات کو نسبتاً زیادہ ادبی انداز میں پیش کرتے ہیں۔‘‘
(دیبا چہ، اردو سفر ناموں کا تنقیدی مطا لعہ، پرو فیسر خالد،محمود، ص8،مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی،1995)
پرو فیسر خالد محمود کی رائے سے اتفاق کیا جا سکتا ہے کہ اردو کے ابتدا ئی سفر نامے یعنی انیسویں صدی اور بیسوی صدی کے پہلے نصف تک کے سفر ناموں میں یہ رجحان غالب نظر آ تا ہے۔ ’عجائبات فرنگ ‘ سے تاریخِ انگلستان (مولوی مسیح الدین1856-)، زاد مغرب، نیرنگ چین، زاد سفر، آئینہ فرنگ (محمد عمر علی خاں(1880-1890)سفر نامہ روم و مصر و شام(مولانا شبلی نعمانی1894) سیر یورپ (نازلی رفیعہ بیگم(1908تک اور روز نا مچۂ سیاحت (خواجہ غلام الثقلین(1912،سفر نامۂ بغداد(منشی محبوب عالم(1912سے سفر نامۂ ہندوستان(خواجہ حسن نظا می (1923، سفر نامۂ حجاز(مولانا عبد الماجد دریابادی (1931 اور لندن سے آداب عرض(آغا محمد اشرف(1946، 1907 ء کا جاپان(ڈاکٹر محمد حسین، (1947تک اردو سفر ناموں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ جن میں سفر ہے، قیام ہے، مناظر ہیں، نظا رے ہیں، جغرافیہ ہے، تاریخ ہے، سیاسی و سماجی صورت حال ہے، معاشیات کے معاملات ہیں تو ثقافتی و تہذیبی رنگا رنگی ہے اور نہیں ہے تو مسافر کی ذاتیات، اس کی شان و شوکت، تعریف و تحسین، کار نامے اور بلند بانگ دعوے۔ یہ تمام اوصاف آزادی کے بعد کے سفر ناموں میں آہستگی سے داخل ہوئے ہیں۔ ہمارے بعض ناقدین اسے مثبت مانتے ہوئے سفر نامے کی روایت کی توسیع مانتے ہیں اور اسے سفر نامہ نگاری کے لیے ضروری سمجھتے ہیں جب کہ ناقدین کا ایک گروہ ان اوصاف کو منفی مانتا ہے اور انہیں صنف سفر نامہ نگاری کے فروغ میں مانع سمجھتا ہے۔ پرو فیسر خالد محمود اس سلسلے میں رقم طراز ہیں:
’’روایتی یا قدیم سفر ناموں میں وہ حرکت و عمل نہیں جو نئے اور غیر روایتی سفر ناموں کی خصوصیات ہیں۔ قدیم سفر نامے ایک خاموش فلم کی مانند ہیں جن کے احساسات کا اندازہ صرف چہروں کے تاثرات سے ہو سکتا ہے اس کے علی الرغم نئے سیاح نے اشیا کو گویائی عطا کی ہے۔ قدیم سفر نامے کا مسافر خارجی اشیا سے دور کا واسطہ رکھتا ہے۔ وہ اس کے بدن کا لمس اور لمس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی’لرزش خفی‘ سے نا آشنا ہے۔ نیا سفر نامہ اس اعتبار سے بالکل مختلف اور منفرد ہے کہ اس میں تمام خا رجی شوا ہد سیاح کی داخلی کیفیات سے بے پردہ اور بے تکلف ہو جاتے ہیں۔ سفر نامہ نگار ہر شے میں اپنے آپ کو محسوس کرتا ہے اور تمام واقعات اس کی ذات کا حصہ بن جا تے ہیں۔ سفر اور سفر نامہ نگار ایک دوسرے میں اس حد تک پیوست ہوجاتے ہیں کہ انہیں الگ کر کے دیکھنا کار باعث ہے۔‘‘
( اردو سفر ناموں کا تنقیدی مطا لعہ، پرو فیسر خالد،محمود، ص40،مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، نئی دہلی،1995)
ڈاکٹر خالد محمود نے عمدگی سے روا یتی اور غیر روا یتی سفر ناموں میں حد فاصل قائم کی ہے۔قدیم مسافر اشیا کے ظاہری حسن میں ہی قید ہو کر رہ جاتے ہیں جب کہ جدید یا غیر روایتی سفر ناموں میں مسافر اشیا کے خارج سے گذر کر باطن تک کا سفر طے کرتا ہے اور اس کا اظہار تخلیقی پیرا ئے میں کرتا ہے۔جدید سفر نامہ نگار خود کو سفر میں اس قدر غرق کرلیتا ہے کہ وہ ہر شے کو اپنے وجود سے جوڑ کر دیکھتا ہے۔ اس کا یہ عمل دو طرفہ ہو تا ہے۔کہیں وہ بذات خود شریک ہو تا ہے تو کہیں بحیثیت انسان اسے خود سے جوڑ لیتا ہے۔ بعض سفر ناموں میں سفر کی ابتدا سے قبل کی تیاریوں کی روداد بھی شامل ہوتی ہے اور بعض میں مسافر ہر ہر قدم پر اپنے ما در وطن کو بھی یاد کرتا رہتا ہے۔ایسے سفر ناموں سے دو نوں ممالک کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات کی عکاسی ہوتی رہتی ہے۔
تقسیم ہند کے اثرات یوں تو شاعری خصوصاً نظم و غزل اور فکشن ناول اور افسا نہ پر زیادہ مرتسم ہوئے لیکن دیگر اصناف نے بھی کم اثرات قبول نہیں کیے۔ سفر نامے کی بات کی جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ سفر نامہ دیگر اصناف کے مقابلے، زندگی سے زیادہ قریب ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو بھی غلط نہ ہو گا کہ سفر نامہ زندگی کا ہی بیان ہے۔ تقسیم کے دوران برپا ہونے وا لے انسا نیت سوز واقعات اور سرحدوں کو عبور کرنے وا لے مسافر151ہمارے متعدد ادبا و شعرا نے زندگی کے اس المیے کو سفر نامے میں زندہ کیا ہے۔ یہی نہیں تقسیم کے بعد بھی برسوں تک سفر ناموں پر نو سٹلجیا کی جھلک نظر آ تی ہے۔ ان میں سفر نامۂ پاکستان( خوا جہ حسن نظامی)، جزیروں کی سر گو شیاں( بلراج کومل)، پاکستان یاترا( جوگندر پال)، بھارت یاترا( حمید احمد خان)، ایک طویل ملا قات( وزیر آ غا)، موسموں کا عکس( جمیل زبیر)، اے آب رودِگنگا (رفیق ڈو گر)، ہند یاترا( ممتاز مفتی) سا حل اور سمندر( احتشام حسین)، نئے شہر پرا نی بستی (ماجد در یا بادی) خا ص سفر نامے ہیں۔ ان میں وطن کی یاد ہے تو وہاں کا بچپن، جھومتی گاتی گلیاں، باغوں کے جھو لے، دوست احباب، سب کچھ ہے۔ پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ ہمیں ہماری مٹی بلا رہی ہے۔ ملک کو ئی سا بھی ہو پا کستان کی گلیاں ہوں یا دہلی کے گلی کوچے، سب میں یکسانیت ہے۔ اپنی مٹی،اپنا ملک انسان کو ہمیشہ یاد آ تا ہے۔ میں دو مثا لیں دینا چاہوں گا:
’’اچھے رہے ماضی کے وہ شہر جنہوں نے عروج کے دن دیکھے اور پھر ایسے اجڑے کی دو بارہ بسنے کی قسم کھائی ہو۔ مٹ تو گئے مگر خوا ری سے بچ گئے جس کے جتنے آثار باقی رہ گئے وہ حاضر سے بے تعلق ایک وقار کے ساتھ اپنے ماضی کو سنبھا لے بیٹھے ہیں۔‘‘
(نئے شہر پرا نی بستیاں، انتظار حسین، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور،1999،ص 95)
’’ یہ وہی جگہ ہے جہاں سے میرا ماضی شروع ہو تا ہے۔ جب میں چھوٹا تھا تو یہاں مٹی اور اینٹوں کے بنے ہوئے کمرے ہوا کرتے تھے جس کے آ نگن میں ایک بیروں کا گھنا پیڑ بھی ہوا کرتا تھا۔ پھر یہ جدید طرز کا مکان بنا لیا گیا تھا۔ میں اسی گھر میں پیدا ہوا تھا۔ اسی گھر کو میں نے28دسمبر1946ء کو چھوڑا تھا جب میں اپنی بیوی اور ایک ماہ کی بچی کو ساتھ لے کر لاہور گیا تھا۔ میری بچی نے بھی اسی گھر میں جنم لیا تھا۔‘‘
(زرد پتوں کی بہار، سفر نامۂ پاکستان، رام لعل، بحوالہ اردو سفر ناموں میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت، خواجہ اکرام الدین،2013)
درج بالا پہلا اقتباس معروف پاکستانی افسا نہ نگار انتظار حسین کے سفر نامے کا ہے اور دوسرا ہندو ستان کے بڑے افسا نہ نگار رام لعل کے سفر نامے سے ہے۔ دو نوں سفر ناموں کے اقتباسات سے اپنی مٹی، اپنا گاؤں، اپنا گھر ہے۔ اپنے ملک سے ایسا گہرا اور جذ باتی تعلق ہے کہ پڑھتے ہوئے قاری گم ہو جاتا ہے۔ خود بھی نو سٹلجیا کا شکار ہو جاتا ہے۔
آزادی کے بعد کے سفر ناموں نے ہی در اصل جدید سفر ناموں کے لیے اساسی کردار ادا کیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اکیسویں صدی آتے آتے، سفر ناموں کے مو ضوع، تکنیک اور ہےئت میں تغیرات آنے لگے تھے،لیکن اس کی شروعات تقسیم کے بعد کے تقریبا25-30 سال بعد کے سفر ناموں سے ہوتی ہے۔
سفر ناموں میں خاطر خواہ تبدیلیوں کا دور بیسویں صدی کے اواخر کا زمانہ ہے۔ یہی وہ عہد ہے جب ایک طرف جدید علائم،اسلوب اور طرز، سفر ناموں کو نہ صرف دلچسپی میں مزید جاذبیت پیدا کررہا تھا بلکہ نت نئے طریقوں سے سامنے آ رہاتھا، دوسری طرف اکیسویں صدی میں سفر نامہ نگاری میں تخلیقیت کے عناصر زیادہ در آ ئے۔ اس کی شروعات 
بیسویں صدی کے آخری ربع سے ہی سفر نامہ نگاری میں بھی خا طر خواہ تبدیلیاں واقع ہو ئی۔ ان کی شروعات قدرت اللہ شہاب(تو ابھی رہگذر میں ہے(1976، ابن انشا(چلتے ہو تو چین تو چلیے (1974، مرزا ادیب،(ہمالہ کے اس پار(1983 مجتبیٰ حسین(جاپان چلو جاپان چلو) عطا ء الحق قاسمی (شوق آوارگی(1973،بلراج کو مل (جزیروں کی سر گوشیاں(1982،رام لعل(زرد پتوں کی بہار (1982، جو گندر پال(پاکستان یاترا (1983، وزیر آغا (ایک طویل ملاقات(1976،انتظار حسین (زمیں اور فلک اور (1984،رفیق ڈوگر(اے آب رودِ گنگا(1983، ممتاز مفتی (لبیک(1975، صغریٰ مہدی (سیر کر دنیا کی غافل(1988، حکیم محمد سعید( ازبکستان۔ 1980 میں، (1993وغیرہ کے سفر ناموں سے اس صنف میں خا طر خواہ تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں۔ اب صرف واقعات کا بیان، عمارتوں کا ذکر، موسم کی بات نہیں رہی بلکہ اب مسافر نئے نئے رنگ دکھاتا ہے۔ اسلوب پر خاصا زور دیا جاتا ہے۔ سفر نامہ نگار واقعے میں خود اس طرح موجود رہتا ہے گویا وہ کہانی کا مرکزی نہیں تو بہت اہم کردار ہے۔ بعض تخلیقی ذہنیت کے مالک ادیب و شاعر اپنی تخلیقیت کا عمدہ استعمال کرتے ہیں۔ شعور کی رو تکنیک بھی اکثر نظر آ تی ہے۔ واقعات کا بیان کبھی کبھی ایسا لگتا ہے گویا کسی ناول یا افسا نے کا اقتباس ہو۔کہیں کہیں سفر نامہ نگار کی ذا تی مصروفیتوں کا بیان اتنا اور ایسا ہو جاتا ہے کہ خود نوشت سوانح کا بھی گمان ہوتا ہے۔میں یہاں اکیسویں صدی کے چند سفر ناموں کا ذکر کرنا چاہوں گا۔
اکیسویں صدی میں متعدد خوبصورت اور معیاری سفر نامے شائع ہوئے ہیں۔ میرے پاس اس وقت قاضی مشتاق احمد(آٹھ سفر نامے2007)،گرد آوارگی( نگار عظیم2006)،جرمنی میں دس روز (علی احمد فاطمی2007)، پونے سے رانچی کا سفر(ڈاکٹر نذیر فتح پوری 2011)،آثار و انوار (اسلم بدر 2015)، لالی چودھری کے سفر نامے (مرتبہ ڈاکٹر رفیعہ سلیم2016) ہم بھی ہو آئے کرا چی(فاروق سید 2017)، راہِ الفت میں گامزن(عارف نقوی 2017) رکھے ہیں۔ ان سفر ناموں میں ایک واضح تبدیلی یہ نظر آ تی ہے کہ اب چھوٹے چھوٹے سفر نامے بھی تحریر میں آرہے ہیں۔پہلے سفر نامہ کو طویل ترین ناول کی طرح باب در باب رقم کیا کیا جاتا تھا۔ ابواب کے عنا وین بھی قائم کیے جاتے تھے۔ پھر آس پاس کے شہر( اپنے ملک) کے سفر نامے تقریباً نہیں لکھے جاتے تھے بلکہ انہیں لائق اعتنا بھی نہیں سمجھا جاتا تھا۔کسی بڑے اور خوبصورت غیر ملک کے سفر اور سفر نامے کو نہ صرف اہمیت دی جاتی تھی بلکہ اشتیاق سے پڑھا جاتا تھا۔ اب یہ سب تصورات یکسر تبدیل ہو ئے ہیں۔تبدیلی کے ساتھ جدید سفر ناموں کی ادبی اور سماجی اہمیت و افادیت میں بھی اضا فہ ہوا ہے۔ ان سفر ناموں پر نہ صرف تحقیقی مقالے تحریر کیے جارہے ہیں بلکہ ملتے جلتے موضو عات پر تحریر کیے جانے والے مقالات میں ضرورت کے مطابق ان کے حوا لے بھی دیے جاتے ہیں۔ کسی عہد، شخصیت یا مقالے کے تعلق سے مواد کی فرا ہمی میں سفر ناموں کو بھی تلاش کیا جاتا ہے۔ ادھر اکیسویں صدی کے سفر ناموں کی زبان میں تخلیقیت کا رنگ بھی زیادہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ رنگ پیشتر سفر ناموں کی دین ہے۔ بعض سفر ناموں کے خالق افسا نہ نگار ہیں تو ان کے سفر ناموں میں بھی افسانوی رنگ غالب ہے جو قاری کو اچھا لگتا ہے۔لالی چودھری اپنے سفر نامے میں کچھ اس طور رقم طرز ہیں:
I۔ ’’میں نے سو چا کیسے فضول عہد میں زندگی بسر کررہی ہوں۔ مغلیہ دور میں ہوتی تو شاید اس دھرتی کے کسی کو نے میں سنگ سرخ سے ترا شا ہوا میرا بھی کوئی لال محل ہو تا۔ میں اپنےSilicon chipپہ کف افسوس مل رہی تھی کہ سنگ مر مر کی سرد تہوں سے ایک دبی دبی سر گو شی ابھری۔تم اس منظر کا حصہ بننا چاہتی ہو جہاں مجھے شانتی اور سکون کے چند لمحات کے لیے ترستے ہوئے صدیاں بیت گئی ہیں۔ زندہ تھی تو شاہ جہاں نے کبھی پوری نیند سونے نہ دیا، ہمیشہ کچی نیند سے جگایا۔ ابدی نیند سوئی تب بھی چین نصیب نہ ہوا۔ آٹھوں پہر اس کی انمٹ محبت کی یاد گار دیکھنے کے لیے لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ شہنشاہ کی خواب گاہ سے لے کر اس آرام گاہ تک جو مجھ پہ بیتی ہے، سنو گی تو کلیجہ دہل جائے گا۔آج کا دن یہاں رک جاؤ۔ذرا شام گہری ہو لینے دو، ہو سکتا ہے ہمیں تنہائی کے چند لمحے میسر آجائیں۔‘‘
( ’دلّی ایک شہر آرزو‘ لالی چودھری کے سفر نامے، ص47 مرتبہ ڈاکٹر رافعہ سلیم)
لالی چودھری پاکستان کی ادیبہ ہیں۔ بہترین افسا نے لکھتی ہیں، صحا فی بھی ہیں۔ متعدد اچھے سفر نامے تحریر کیے ہیں۔ان کے سفر ناموں کا مجمو عہ’لالی چودھری کے سفر نامے‘ عرشیہ پبلی کیشنز سے شا ئع ہوا ہے۔ اس میں لالی چودھری کے تقریباً 13 سفر نامے شامل ہیں۔ ہر سفر نامی تخلیقیت سے بھر پور، سفر بھی، تاریخ و جغرافیہ بھی، سماجی اور سیاسی حالات بھی اور اپنا مخصوص لب و لہجہ بھی۔ 
اس سلسلے میں معروف افسانہ نویس نگار عظیم کے سفر نامے پر بھی ایک نظر : 
II۔ ’’ منگل2؍ اکتو بر99ء قمریوں کی نغمہ سرائی نے کانوں کو چھوا۔ خود کو ہوا کے دوش پر اڑتے ہوئے محسوس کیا۔ کوئی خواب تو نہیں؟کانوں میں رس گھولتی پرندوں کی آوازیں بڑی مانوس اور بھلی لگ رہی تھیں۔ یہ آ وازیں تو مدتوں پہلے گھر آنگن کے باغیچے میں سنی تھیں۔ ڈر تھا خواب ٹوٹ نہ جائے۔ آنکھوں پر زور دے کر پلکوں کو وا کیا۔ پرندوں کی چہچہا ہٹ جوں کی توں تھی، اٹھ بیٹھی۔ بالکنی سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے اندر داخل ہورہے تھے۔ با ہر ہلکا سفید اور سر مئی اجالا تھا۔ عظیم صاحب ریلنگ پر کہنیاں ٹکائے سگریٹ کے مر غو لے اڑا رہے تھے۔ میں بھی اٹھ کر با ہر چلی گئی۔ اف! کہاں یہ موسم اور کہاں یہ سگریٹ کا دھواں۔کہنے کو تو میں کہہ گئی لیکن حقیقت یہ تھی کچھ لمحوں بعد ہی یہ سگریٹ کا دھواں مجھے بھلا لگنے لگا۔شاید یہ موسم کا اثر تھا۔ سفید سرمئی اور سنہرے بادل آنکھ مچو لی کھیل رہے تھے۔ قمریوں اور طوطوں کے غول کے غول انگو روں کی بیلوں پر جھول رہے تھے۔ دور آ سمان کی وسعتوں میں بگلوں کی سفید قطا ریں طویل سفر کے لیے نکل پڑی تھیں۔ ایسا محسوس ہوا یہ تمام پرندے میرے ہی دیس کے ہیں۔انہوں نے بھی خوش گوار موسم کا لطف لینے کے لیے ادھر کا رخ کیا ہے۔جیسے ہی بہا ر کا موسم شروع ہوگا یہ بھی اپنے وطن وا پس لوٹ جائیں گے۔ اچانک ہلکی ہلکی پھوار پڑنے لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے پو را آسمان سفید چادر میں چھپگیا۔ ہوا کے جھو نکوں سے بارش کی ہلکی پھوار نے میرے چہرے کو چھوا تو سبکی سی آگئی۔ٹھنڈک پو رے وجود میں اتر گئی۔آہستہ آہستہ پرندوں کی چہچہاہٹ معدوم ہوتی گئی۔(گردِ آوارگی، ص59-60)
یہ اقتباس ان کے ازبکستان کے سفر کی روداد کا ہے۔ پو را سفر نامہ پڑھیں گے تو آپ کو ازبکستان کی معلو مات بھی ملیں گی، اشخاص بھی ملیں گے اور افسا نوی رنگ بھی۔ یہی رنگ سفر نامے کی شناخت ہے۔
ڈاکٹر نذیر فتح پوری نے اردو کی تقریباً اصناف میں طبع آزمائی کی ہے،سفر نامے کا رنگ دیکھیں:
III۔ ’’ رات میں ریل کے جھروں کے سے جمشید پو ر کے نظارے کا لطف ہی نرا لا ہے۔ یہاں سے وہاں تک رو شنیوں کے میلے دکھائی دیتے ہیں۔ایسا لگتا ہے جیسے سارا شہر دلہن کی طرح سجا یا گیا ہو۔ ممکن ہے شہر کے با شندوں کے دلوں میں کہیں اندھیرے پنپ رہے ہوں۔ لیکن ان اندھیروں کو کون محسوس کرتا ہے۔جمشید پور اب ٹاٹا نگر بن گیا،بنا دیا گیا۔ہم اپنے کرداروں اور منفی رجحانات کو نہیں بدلتے۔بس شہروں کے نام تبدیل کر نے پر تلے ہیں۔ مجھے ٹاٹا نہیں جمشید پو ر ہی اچھا لگتا ہے۔ ’’اسٹیل شہر‘‘آہنی شہر‘‘ لو ہے کے ساتھ جہاں بھٹیوں میں مزدوروں کا خون اور پسینہ بھی پگھل پگھل کر بہتا ہے۔‘‘(پونے سے رانچی کا سفر،ص23)
ڈاکٹر نذیر فتح پوری ہمارے عہد کے ان صا حب قلم حضرات میں شمار ہوتے ہیں، جنہیں ہم زود نویس کہتے ہیں۔ ناول نگار، افسانہ نگار، شاعر، صحافی، مرثیہ نگار، قصیدہ نگار،مثنوی نگار، ادب اطفال.... خاکے بھی اڑا ئے، سفر نامے بھی تحریر کیے۔ درج بالا اقتباس ان کے سفر نامے’پونے سے رانچی تک‘ سے ہے۔ ایک فکشن نگار کے قلم کا جا دو یہاں صاف دکھائی دے رہا ہے۔
ایک ہندوستانی نژاد جرمن مسافر کا سفر نامہ دیکھیں
IV۔ ’’ انھوں نے مجھے ٹرین سے اترنے کے لیے کہا۔ میں چپ چاپ پلیٹ فارم پر اتر گیا۔ وہ دو نوں میرا پاسپورٹ لیے ہو ئے پلیٹ فارم پر بنے ایک گھرو ندے میں غا ئب ہو گئے۔ میں با ہر کھڑا رہا۔ میری ٹرین چھوٹنے والی تھی۔ مگر ان لوگوں کا پتہ نہیں تھا۔کہیں وہ لوگ دوسرے دروا زے سے غائب تو نہیں ہو گئے؟میں نے سوچا مگر وہاں دوسرا دروازہ نہیں تھا۔ میری ٹرین اب رینگ رہی تھی۔ میں نے گھبرا کر دروازے کو زور زور سے پیٹا۔ ’’موو مینٹ‘‘ اندر سے آ واز آئی میری ٹرین اب آ گے بڑھ چکی تھی۔میں نے پھر دروازہ کھٹکھٹایا۔ وہ چیک افسر جس نے میرا پاسپورٹ لیا تھا، باہر آ یا اور مجھے پا سپورٹ تھما دیا۔Bitte entschuldigeمعاف کیجیے۔ میرا خون اندر سے کھول رہا تھا۔ میں نے بے ساختہ اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ وجہ بتائیے۔Now i need explanationاس نے میرا پاسپورٹ لے کر مجھے دکھایا اور مسکراتے ہوئے کہا۔Kein stempleاس پر کوئی مہر نہیں ہے۔برلن کے لیے اگلی ٹرین رات کے تقریباً تین بجے یا اس کے کچھ بعد تھی۔رات سوا آٹھ بجے سے صبح تین بجے تک میں کیا کروں؟ڈریس ڈن ایک خوبصورت تاریخی شہر ہے۔ ساری دنیا سے ٹورسٹ یہاں پر آتے ہیں۔ میں خود بھی ابھی چند دن پہلے یہاں کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہو کر گیا تھا مگر اب اس وقت یہ شہر مجھے کاٹ رہا تھا۔ میں اپنا چھوٹا سا سوٹ کیس لیے ریلوے اسٹیشن کے سامنے میدان میں دیر تک ٹہلتا رہا۔کبھی ایک بینچ پر جاکر بیٹھتا،کبھی دوسری پر،پھر میں ایک ریستوں راں میں جا کر بیٹھ گیا اور کا فی پینے لگا مگر کب تک آخر وہاں سے بھی بو ر ہو کر اٹھا اور پھر میدان میں بنچ پر بیٹھ گیا۔‘‘ 
(راہِ الفت میں گامزن،171-72 )
عارف نقوی جر من شہری ہیں۔ ویسے تو ہندوستان کے یعنی لکھنؤ کے ہیں لیکن60ء کے دہے میں جرمنی چلے گئے تھے اور جب سے اب تک جرمنی میں مقیم ہیں۔ شاعر ہیں، افسا نہ نگار ہیں،صحا فی ہیں۔بیرونِ ملک کے سفر خوب کیے ہیں اور خوب لکھتے بھی ہیں۔ ان کے سفر ناموں میں بھی افسا نوی رنگ ایسا غالب ہے کہ افسا نے کا گمان ہوتا ہے۔ان کے سفر ناموں کے اب تک دو مجموعے، راہِ الفت میں گامزن اور طائرِ آوارہ شائع ہو چکے ہیں۔ انہوں نے چھوٹے چھوٹے افسانہ نما سفر نامے قلمبند کئے ہیں،جو لوگوں کو کافی پسند آتے ہیں۔
قاضی مشتاق احمد کے ایک سفرنامے کا اقتباس ملاحظہ کریں : 
V۔ ’’خراسان کی خواتین ہندوستانی عورتوں کے سامنے ہیچ ہیں۔ خراسان کی عورتیں سرخ و سفید ہوتی ہیں۔لیکن رنگ میں کوئی کشش نہیں ہوتی۔ اس کے مقابلے میں ہندوستانی عورتیں اپنے رنگ کی کشش سے پہچا نی جاتی ہیں۔روس اور روم کی عورتیں برف کی مانند سفید اور ٹھنڈی ہو تی ہیں۔ سمر قند اور قندھار کی عورتوں میں وہ مٹھاس نہیں جو ہندوستانی عورتوں میں ہے۔امیر خسرو کی ہندو ستانیوں کے رنگ و حسن پر انتہائی خو بصورت نظم ہے جس سے ان کا جمالیاتی شعور واضح ہے۔کہتے ہیں:سر زمین ہند میں تین رنگ ہیں۔ سیاہ، سبز اور گندم گوہ۔ فتنۂ گندم کے بانی ہیں۔ گندم رنگ میں کشش فطری ہے۔ ایک نمکین گیہوں سینکڑوں پھیکی ٹکیوں سے بہتر ہے۔ سیاہ رنگ تو وہ ہے کہ جسے آنکھ میں جگہ ملی آنکھ کی پتلی بھی سیاہ ہے۔آنکھوں کو سرمے کی بھی ضرورت نہیں۔سفید رنگ عارضی ہے۔بہتر سبز یعنی سانولا رنگ ہے۔ کیو نکہ جس تخت سے تاروں کی زینت ہے وہ بھی سبز ہے۔سبز رنگ میں رحمتیں گوندھ دی گئی ہیں۔دیکھ لو جو جنتی ہیں ان کے رنگ بھی سبز ہیں‘‘ (آٹھ سفر نامے، ص69-70)
یہ اقتباس قاضی مشتاق احمد کے سفر ناموں کے مجمو عے’آٹھ سفر نامے‘ کے سفر نامہ یورپ یعنی ’جس نے یورپ نہیں دیکھا‘ سے ہے۔ قاضی مشتاق احمد معروف افسا نہ نگار ہیں۔ یہاں افسا نوی رنگ کے ساتھ ساتھ ایک خاص بات اور نظر آ تی ہے۔ یعنی غیر ممالک میں جب کوئی مسافر کے ملک کی بے عزتی یا تو ہین کرتا ہے تو مسا فر کی حب الوطنی کوند آ تی ہے۔ یہاں بھی قاضی مشتاق احمد خراسان کی خوا تین کی خو بصورتی سے ہندوستانی خوا تین کی خو بصورتی اور کشش کو اور رنگوں کو فخر سے بیان کررہے ہیں۔ 
تقریباً یہی رنگ مزید شدت اور کثا فت کے ساتھ فاروق سید کے سفر نامے’ہم بھی ہو آئے کراچی ‘ میں ملتا ہے۔
VI۔ ’’ اپنے والد سے ملا یا اور ہم تینوں والد،سعیدی اور میں پر لطف عشائیہ سے لطف اندوز ہو نے لگے۔ آٹھ دنوں بعد پہلی بار گھر کے کھانے کا خوب مزہ لیا۔ مرغی کے سوکھے کباب اور چٹنی......بہت مزہ آ یا۔ آج بھی وہ ذائقہ یاد ہے۔ایک ڈیڑھ گھنٹے تک باپ بیٹے ہندوستان اور مسلمانوں کے بارے میں سوالات کرتے رہے۔ سعیدی صاحب کے والد نے ہندوستان میں مسلمانوں پر ہو نے وا لے مظا لم کے تعلق سے کئی واقعات سنائے جو سب من گھڑت تھے۔میں نے پھر وضا حت کی کہ بھائی ہندوستان کے مسلمان بہت محفوظ ہیں اور شان سے زندگی گذارتے ہیں۔ حکومت اور فرقہ پرست عنا صر کا بھی دٹ کر مقا بلہ کرتے ہیں۔ ہمارے یہاں عدلیہ بہت مضبوط ہے جو حکومت کے خلاف بھی احکامات صادر کرتی ہے۔ یہ سن کر باپ بیٹے دنگ رہ گئے۔‘‘(ہم بھی ہو آئے کرا چی، ص57)
در اصل پاکستان میں عام طور پر لوگوں کا خیال ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ بہت برا سلوک کیا جاتا ہے۔ ان کے حقوق سلب کیے جاتے ہیں اور ان پر زندگی تنگ ہے۔ ان بے چاروں کو شاید یہ علم نہیں کہ ہندوستان میں ہم کس قدر خوش اور مطمئن ہیں۔ یہاں ہمیں ہر طرح کی آ زادی ہے۔ ہم اپنے خلاف بولنے اور ظلم کر نے والے کے خلاف آ واز اٹھا سکتے ہیں۔ مقدمہ چلا سکتے ہیں۔ فاروق سید نے اپنے مختصر سے سفر نامے میں کئی بار پاکستان میں یہ باور کرایا ہے کہ ہندو ستان کے مسلمان خوش و خرم ہیں۔
اکیسویں صدی میں شائع ہونے والا ایک اور اہم سفر نامہ جرمنی میں مقیم معروف افسا نہ نگار محترمہ عشرت معین سیما کا ہے۔’اٹلی کی جانب گامزن‘ سفر نامے میں عشرت معین سیمانے نہ صرف اٹلی کی تاریخ، جغرافیہ، آب و ہوا، تاریخی عمارتوں کا مفصل ذکر کیا ہے بلکہ وہاں کے باشندوں کی بودو باش، طریقے، عادتیں، دنیا کو سمجھنے کا ان کا طریقہ وغیرہ کو عمدگی سے سفر نامے میں استعمال کیا ہے۔ ایک خاتون سفر نامہ نگار نے با ورچی خا نے کا کیا عمدہ بیان کیا ہے:
’’ان کا باورچی خا نہ بھی سو مربع میٹر سے کم نہ ہو گا۔ایک طرف بڑے بڑے چولہے، دوسری جانب دیو قامت الماریاں جن میں برتن سجے ہوئے تھے،دوسری طرف کنگ سائز فرج اور ضرورت کی چیزوں سے مزین الماریاں، داہنی جانب کچھ پرانے اسٹائل کی کرسیاں اور ایک بڑی میز تھی، جس پر انواع و اقسام کے پھل سجے تھے۔ کچن کے ایک طرف ایک درمیانی میز تھی جس کے اوپر ایک چھوٹی اسکرین نصب تھی جس میں بیک وقت عمارت میں نصب شدہ بیس کیمروں کی تصاویر براہ راست وہاں آرہی تھی۔ میز پر فون،کا غذ، قلم،لیپ ٹاپ اور دیگر چیزیں ایک عارضی دفتر کا نقشہ پیش کررہی تھیں۔‘‘ (اٹلی کی جانب گامزن، عشرت معین سیما، ص28-29،2016)
جدید سفر ناموں خصوصاً اکیسویں صدی کے سفر ناموں میں واضح تبدیلی رو نما ہو ئی ہے۔ متعدد رنگ ایسے ہیں جو آہستہ آہستہ معدوم ہوئے اور تو متعدد رنگ مزید صیقل ہوئے ہیں۔ہےئت کے اعتبار سے بھی اختصار کو صا ف دیکھا جاسکتا ہے۔ اب سفر ناموں میں افسا نے جیسا لطف بھی آنے لگا ہے۔ تحیر اور تجسس تو سفر نامے کی خوبی رہی ہے۔لیکن اب یہ خوبی تخلیقیت کے رنگ میں ہمارے سا منے آرہی ہے،اس سے سفر نامہ، سفر نامہ بھی رہتاہے اور افسا نہ بھی لگتا ہے۔
کتابیات
1۔ اردو سفر ناموں کا تنقیدی مطالعہ: پروفیسر خالد محمود
2۔ اردو سفر نامے کی مختصر تاریخ: ڈاکٹر مرزا حامد بیگ
3۔ اردو سفر نامہ انیسویں صدی میں:ڈا کٹر قدسیہ قریشی
4۔ داستان تاریخ اردو :ڈاکٹر حامد حسن قادری
5۔ اردو سفر ناموں میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت:ڈاکٹر خواجہ اکرام الدین
6۔ رہ نووردِ شوق:ڈاکٹر سید عابد حسین
7۔ زمین اور فلک:انتظار حسین
8۔ نئے شہر پرا نی بستیاں:انتظار حسین
9۔ لالی چودھری کے سفر نامے:مرتبہ ڈا کٹر رفیعہ سلیم
10۔ ہم بھی ہو آئے کرا چی:ڈاکٹر فاروق سید 
11۔ آٹھ سفر نامے: قاضی مشتاق احمد
12۔ گردِ آ وارگی: ڈاکٹر نگار عظیم
13۔ راہِ الفت میں گامزن: عارف نقوی
14۔ پونے سے رانچی کا سفر: نذیر فتح پوری
15۔ خوشبو کا سفر :کیول دھیر
16۔ کتنا قریب کتنا دور:محمود شام
17۔ پاکستان یاترا:جوگندر پال
18۔ جزیروں کی سر گوشیاں: بلراج کومل
19۔ اٹلی کی جانب گامزن:عشرت معین سیما
20۔ طائرِ آوارہ: عارف نقوی


Dr. Aslam Jamshedpuri
HOD, Urdu, Chaudhary Charan Singh University
Meerut - 200005
aslamjamshedpuri@gmail.com
09456259850





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں