شبلی
کی ہیئت پسندی
سرسید تحریک
کے تناظر میں
ممتحنہ اختر
علی گڑھ تحریک کے اثرات سے اجتماعی سطح پر جو تنقید ابھر کر سامنے آئی اگرچہ اس میں اخلاقی، اصلاحی اور سماجی پہلو زیادہ نمایاں ہے جس وجہ سے مواد و موضوع ہی کو بنیادی اہمیت حاصل رہی تاہم انفرادی سطح پر اسی تحریک کے اثرات سے تنقید میں ایسے تصورات بھی سامنے آئے، جس میں فنی وجمالیاتی پہلو کو خاص تقویت حاصل ہوئی۔ ان تنقیدی تصورات کومنظرعام پر لانے میں شبلی کانام خاص اہمیت کا حامل ہے۔شبلی نے حالی کی طرح نظری وعملی دونوں قسم کی تنقیدوں کی طرف توجہ دی۔ علی گڑھ تحریک کے اثرات بھی ان پر خاصے نمایاں رہے۔وہ سرسید کے عظیم رفقاء اورعلی گڑھ تحریک کے خاص اراکین میں سے تھے انھوں نے بھی قومی وملی احساس کوبیدار کرنے کے لیے علمی وادبی خدمات انجام دیں۔ اخلاقی نقطۂ نظر او راصلاحی وسماجی پہلو ان کے یہاں بھی اہم قرار پائے۔نئی تہذیب وتمدن اورنئے تغیرات کے اثرات انھوں نے بھی قبول کیے۔ قدیم اصول تنقید سے قطع نظر شعر وادب کے مختلف اجزائے ترکیبی کوانھوں نے بھی ایک نئے نقطۂ نظر سے دیکھا ، جانچا او ر ان کا مقام متعین کرنے کی کوشش کی۔ مختصراً اس تحریک کے یا سرسید کے اجرا کیے گئے پرچے’ تہذیب الاخلاق، کے اثرات دوسرے ادیبوں و انشا پردازوں کی طرح ان پر بھی نمایاں رہے چنانچہ اس کے پیش نظر انھوں نے خودلکھا ہے کہ:
’’ملک میں آج بڑے بڑے انشا پرداز موجود ہیں جو اپنے اپنے مخصوص دائرہ مضمون کے حکمران ہیں لیکن ان میں سے ایک شخص بھی نہیں جو سرسید کے بار احسان سے گردن اٹھا سکتا ہو۔بعض بالکل ان کے دامن تربیت میں پلے ہیں بعض نے اردو سے فیض اٹھایا بعض نے مدعیانہ اپنا راستہ الگ نکالا تاہم سرسید کی فیض پذیری سے بالکل آزاد کیوں کر رہ سکتے ہیں۔‘‘ 1
اگرچہ بعض مذہبی، سماجی اورسیاسی امور میں انھوں نے سرسید کی مخالفت بھی کی یا اس سے الگ ایک جدا گانہ راستہ بھی اختیار کیا۔ تاہم مجموعی حیثیت سے وہ اس تحریک سے بالواسطہ یا بلا واسطہ متاثر رہے بلکہ ایک معلم،ادیب اورمورخ کی حیثیت سے ان کو اسی تحریک سے جلا ملی چنانچہ انھوں نے خود اس کا اعتراف کیاہے لکھتے ہیں:
’’یہ سچ ہے کہ اگر میری زندگی کاکوئی حصہ علمی یا تعلیمی زندگی قرار پاسکتا ہے تو اس کا آغاز اس کی نشوونما‘ اس کی ترقی اس کی نمود، اس کا امتیاز جوکچھ ہوا ہے اس کالج سے ہوا ہے‘‘ 2
تنقید میں بھی انھوں نے اجتماعی سطح پر وہی اثرات قبول کیے جو علی گڑھ تحریک یا حالی کے مقدمہ سے منظر عام پر آچکے تھے۔لیکن انفرادی سطح پر ان اثرات کے مقابلے میں فنی وجمالیاتی احساس ان کے تنقیدی تصورات میں زیادہ قوی رہا۔ وقتی مصلحت کے پیش نظر یا اجتماعی سطح پر وہ افادیت ومقصدیت کے قائل ضرور رہے لیکن ان کی ذہنی ونفسیاتی مناسبت اوران کے رچے ہوئے ذوق ومذاق نے انھیں ادب کے جمالیاتی پہلو کی طرف ہی مائل رکھا۔ جس وجہ سے لفظی وہیئتی پہلو کی طرف انھوں نے زیادہ توجہ دی بقول خلیل الرحمن اعظمی:
’’شبلی کا جمالیاتی اوررومانی مسلک شعر کی طرف جھکاؤ دراصل ان کی نفسیاتی اورطبعی خصوصیت کی نشاندہی کرتاہے‘‘ 3
اس کے علاوہ مشرقیت کا،مشرقی تعلیم وتہذیب کا ،مشرقی شعر وادب کا ، مشرقی انداز فکر کا رنگ بھی جدید رجحانات کے مقابلے میں ان کے دوسرے نظریات کی طرح ادبی روایات ورجحانات پر بھی زیادہ غالب رہا جس وجہ سے بھی انھوں نے ادب کے فنی ولفظی پہلو کو معنوی پہلو سے زیادہ اہمیت دی۔
شبلی نے یوں تو تاریخ ،مذہب اورادب تینوں کی طرف توجہ دی لیکن تنقید میں ان کامرتبہ خاص اہمیت کا حامل ہے ان کے تخلیقی اورتنقیدی کارناموں میں بیان خسرو، سوانح عمری مولانا روم، موازنہ انیس ودبیر اور شعرالعجم کی پانچ جلدیں خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ ان کے تنقیدی خیالات ان تمام تصانیف میں بکھرے پڑے ہیں۔لیکن باضابطہ اور منظم طریقے سے ان کے تنقیدی تصورات ’شعر العجم‘ کی چوتھی جلد کے پہلے حصے میں نظر آتے ہیں۔ جو ان کے تنقیدی مسلک پر خاص طور پر روشنی ڈالتے ہیں۔
شبلی نے اپنے تنقیدی نظریات میں یوں تو مواد اور ہیئت دونوں کی اہمیت کو تسلیم کیا ہے۔شعری حقیقت کے مختلف بیانات کے پیش نظر بھی انھوں نے جذبات اور اس کے مؤثر اظہار پرروشنی ڈالی ہے۔موازنہ انیس ودبیر میں انھوں نے کسی قدر اس کی وضاحت بھی کی ہے چنانچہ لکھتے ہیں:
’’شاعری کے دو جز ہیں مادہ و صورت ، یعنی کیاکہنا چاہیے او رکیونکر کہنا چاہیے انسان کے دل میں کسی چیز کے دیکھنے ، سننے یاکسی حالت یا واقعے کے پیش آنے سے جوش ومسرت ،عشق ومحبت دردورنج........وغیرہ وغیرہ کی جو حالت پیدا ہوتی ہے اس کو جذبات سے تعبیر کرتے ہیں۔ ان جذبات کاادا کرنا شاعری کااصل ہیولا ہے....... لیکن یہ شرط ہے کہ جو کچھ کہا جائے اس انداز سے کہا جائے کہ جو اثر شاعر کے دل میں ہے،وہی سننے والوں پر بھی چھا جائے یہ شاعری کادوسرا جُز یعنی صور ت ہے اورانہی دونوں چیزوں کے مجموعے کانام شاعری ہے۔‘‘4
لیکن شعری حقیقت کے تجزیہ میں فنی وجمالیاتی خوبیوں پر جس انداز اورجس صراحت کے ساتھ انھوں نے روشنی ڈالی ہے اس سے ان کے یہاں لفظی و ہیئتی خوبیوں کی قدرو قیمت معنی ومواد سے کسی قدر بڑھ جاتی ہے۔اگرچہ شاعری کے بنیادی یا معنوی عناصر یعنی تخیل ، اصلیت وواقعیت اور سادگی وغیرہ کو لے کر شعر العجم میں انھوں نے تقریباً انہی خیالات کی تائید کی ہے جو مقدمہ میں حالی کے پیش نظر رہے ہیں لیکن حالی کے مقابلے میں انھوں نے بعض ایسے عناصر او رجزئیات کی بھی نشاندہی کی ہے جن کا تعلق مخصوص طور پر شعر کے ہیئتی وفنی پہلو سے وابستہ ہے او رشعری حقیقت کے پیش نظر وہ انھیں بنیادی اہمیت دیتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔جیسے شعری حقیقت کی بنیاد وہ تخیل کے ساتھ ساتھ محاکات پر بھی رکھتے ہیں جو ان کے یہاں شعر کے ہیئتی وفنی پہلو کی نشاندہی کے طورپر سامنے آتاہے۔ محاکات ان کے نزدیک ’’کسی چیز یا کسی حالت کا اس طرح ادا کرنا ہے کہ اس شے کی تصویر آنکھوں میں پھر جائے‘‘ 5 محاکات کو وہ’شاعرانہ مصوری‘ 6 بھی قرار دیتے ہیں۔ اگر چہ ان کے نزدیک محاکات کی جان تخیل میں پوشیدہ ہے یا تخیل ہی شعری اصلیت کی بنیاد قرار پاتا ہے لیکن محاکات اور تخیل کے تفصیلی تجزیہ میں ان کاجھکاؤ محاکات او ران کے متعلقات کی طرف ہی زیادہ رہتاہے بلکہ شعری حقیقت بھی ان کے یہاں کئی جگہوں پرمحاکات اور ان سے جڑے متعلقات ہی قرار پاتے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں:
’’شاعری کس چیز کانام ہے،کسی چیز کا، کسی واقعے کاکسی حالت کا، کسی کیفیت کااس طرح بیان کیاجائے کہ اس کی تصویر آنکھوں میں پھر جائے۔‘‘ 7
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
’’شاعری کیا ہے در حقیقت مصوری ہے ۔‘‘ 8
محاکات کا تصور اگر چہ شبلی نے ارسطو کے ہاں سے لیاہے اوروہ اسے اس معنی میں قبول بھی کرتے ہیں جو معنیٰ ارسطو کے ہاں اس کے رہے ہیں یعنی اصل کی نقل لیکن ارسطو کے برعکس وہ اس کا تصرف کافی وسیع پیمانے پر سامنے لاتے ہیں بلکہ یہ کہنا بجا ہوگا کہ فصاحت و بلاغت اورعلم بیان یا مشرقی شعر ونقد کے تمام اصول وقواعد کی ترجمانی ان کے یہاں محاکات سے ہوجاتی ہے چنانچہ شعر العجم میں محاکات کے تجزیہ وتفصیل کے ضمن میں وہ جن چیزوں سے یا جن اصولوں سے محاکات کی تکمیل کرتے ہیں وہ اصل میں فصاحت وبلاغت کے ہی اصول ہیں چنانچہ لکھتے ہیں:
1۔ ’’جس شے کا بیان کرنا ہے اس کی جزئیات کااس طرح استقصا کیاجائے کہ پوری شے کی تصویر نظر کے سامنے آجائے مثلاً اگر احباب کی مفارقت کاواقعہ لکھنا ہے توان تمام جزئی حالات اورکیفیات کااستقصا کرنا چاہیے جو اس و قت پیش آتی ہیں۔9
2۔ ’’اکثر چیزیں اس قسم کی ہیں کہ ان کے مختلف النواع ہوتے ہیں او رہر نوع میں الگ الگ خصوصیت ہوتی ہے۔مثلاً آواز ایک عام چیز ہے اس کے مختلف نوعیں ہیں، پست ، بلند ، شیریں،کرخت ، سریلی وغیرہ......اب جب کسی چیز کی محاکات مقصود ہو تو ٹھیک وہی الفاظ استعمال کرنے چاہیں جو ان خصوصیات پر دلالت کرتے ہیں۔‘‘10
3۔ ’’جب کسی قوم یا کسی ملک یا کسی مرد یا عورت یا بچہ کی حالت بیان کی جائے تو ضرور ہے کہ ان تمام خصوصیات کالحاظ رکھا جائے۔‘‘11
شبلی کے یہ تمام امور فصاحت وبلاغت کے انہیں اصولوں پر دلالت کرتے ہیں یا مطابقت رکھتے ہیں جن کے مطابق کلام کو یا اس میں پیش کیے گئے الفاظ کوموقع ومناسبت یا خواہش و ضرورت کے مطابق استعمال میں لایا جاتاہے یا ایک خاص تناسب وتوازن کے مطابق کلام میں پیش کیے گئے الفاظ کو ترکیب دیا جاتاہے تاکہ وہی اثر وہی کیفیت اوروہی منظر آنکھوں میں پھر جائے جوخود واقعے کے پیش آنے سے پھر جاتاہے چنانچہ ’موازنۂ انیس ودبیر‘ میں انیس کے کلام کوبلاغت کے معیار پر سراہتے ہوئے شبلی ان الفاظ میں ان خیالات پر روشنی ڈالتے ہیں:
’’ہر واقعے اورہر معاملے کے بیان کرنے میں بلاغت کا یہ اقتضا ہے کہ اس کی تمام خصوصیات اس طرح دکھائی جائیں کہ دلوں پر وہی اثر طاری ہو جو خودواقعے کے پیش آنے سے پڑتا ہے۔میر انیس کے کلام میں عموماً یہ وصف پایا جاتاہے۔‘‘12
بعینہٖ اسی خیال کو محاکات کے ضمن میں شعر العجم میں انھوں نے اس طرح پیش کیا ہے:
’’محاکات کااصلی کمال یہ ہے کہ اصل کے مطابق ہو یعنی جس چیز کابیان کیاجائے اس طرح کیاجائے کہ خود وہ شے مجسم ہوکر سامنے آئے۔‘‘13
فصاحت و بلاغت کے انہی اصولوں کی بِنا پر اصل میں شبلی محاکات کی تکمیل میں دقیق وباریک،جزئی ،مخالف اور مبہم خصوصیات کی نشاندہی کرتے ہیں اورانہی اصولوں کی بِنا پر اصل میں ان کے نزدیک شاعری کے یا شعرا کے مراتب ومدارج میں تفاوت ہوتاہے چنانچہ لکھتے ہیں:
’’محاکات میں نہایت فرق مراتب ہے اور اسی فرق مراتب کی بِنا پر شاعری کے مدارج میں نہایت تفاوت ہے......اس قسم کے دقائق اورباریکیاں محاکات میں پائی جاتی ہیں اور یہی نکتے ہیں جن کی بِنا پر شعراء میں فرق مراتب ہوتاہے۔‘‘14
تخیل کی تفصیل وتشریح میں چاہے شبلی نے کتنے ہی گہرے اورباریک خیالات کی نشاندہی کی ہو لیکن جمالیاتی ، تاثراتی اورفنی خوبیوں کی نشاندہی ان کے یہاں محاکات سے ہی ہوجاتی ہے۔’’ان کے خیال میں شاعرانہ مصوری ہمار ے لیے مسرت وانبساط فراہم کرتی ہے یہ انبساط ہر طرح کے مناظر او راشیاء کی تصویر کشی سے حاصل ہوسکتا ہے اس کے لیے خوب صورت یا بد صورت ہونے کی کوئی قید نہیں‘‘ 15چنانچہ لکھتے ہیں:
’’کسی چیز کی اصلی تصویر کھینچنا خود طبیعت میں انبساط پیدا کرتا ہے۔وہ شے اچھی ہو یا بری اس سے بحث نہیں مثلاً چھپکلی کی ایسی تصویر کھینچ دے کہ بال برابر فرق نہ ہو تو اس کو دیکھنے سے خواہ مخواہ لطف آئے گا۔‘‘16
اس لیے شعر ی اظہار شعری خیال سے ان کے یہاں زیادہ اہم قرار پاتاہے اور اس اظہار میں فنی کمال وفنی مہارت یا جدید انداز اورنیا اسلوب ہی شعری حقیقت کی اصل بنیاد قرار پاتاہے۔اس لیے وہ شعری حقیقت کو جدت ادا یا بدیع الاسلوبی سے بھی منسوب کرتے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
’’شاعری کے لیے یہ سب سے مقدم چیز ہے بلکہ بعض اہل فن کے نزدیک جدت ادا ہی کا نام شاعری ہے.......ایک بات سیدھی طرح سے کہی جائے تو ایک معمولی بات ہے اسی کو اگر جدید انداز اورنئے اسلوب سے ادا کردیا جائے تو یہ شاعری ہے۔‘‘17
اور ایک جگہ لکھتے ہیں:
’’بدیع الاسلوبی کے معنی کسی خیال کو جدید اورعجوبہ زا پیرائیہ میں ادا کرنا ہے یہ وہ صنف ہے کہ بہت سے اہل فن کے نزدیک اسی کا نام شاعر ی ہے۔‘‘18
اس جدت ادا یا بدیع الاسلوبی کے لیے وہ سادگی ادا کو بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہے کیونکہ ان کے نزدیک’’شاعری کی بڑی خوبی جدت ادا ہے‘‘ اور اسی جدت ادا پر شاعری کا کمال منحصر ہے بلکہ ان کے نزدیک’’شاعری،انشا پردازی، بلاغت ان تمام چیزوں کی جادوگری اسی جدت ادا پر موقوف ہے‘‘ 19لکھتے ہیں:
’’شاعری کی بڑی خوبی جدت ادا ہے،جدت ادا میں بات کو خواہ مخواہ کسی معمولی پیرایہ سے بدل کر او راصل راستہ سے ہٹ کر بیان کرنا ہوتاہے اس لیے شاعر کو اس مو قع پر سخت مشکل کا سامنا ہوتاہے کیونکہ اس صورت میں سادگی ادا کو قائم رکھنا،گویا اجتماع النقیضین ہوتاہے ،لیکن حقیقت میں شاعری کے کمال کایہی موقع ہے.......ا س صورت میں جدت کی وجہ سے سادگی میں کسی قدر فرق پیدا ہوگا تو او رباتیں اس کی تلافی کردیں گی۔‘‘20
تشبیہ واستعارہ بھی اصل میں شبلی کے ہاں اسی بدیع الاسلوبی یا جدت ادا سے متعلق ہیں کیونکہ جدت ادا بدیع الاسلوبی کی نشاندہی ان کے یہاں جن خیالات سے ہوتی ہے ان میں تشبیہ واستعارہ ایک خاص عنصر کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں بلکہ شعری حقیقت ( جو ان کے نزدیک کئی جگہوں پر اصل میں جدت ادا ہی ہے) کی تصریحات میں بھی وہ کئی جگہوں پر تشبیہ واستعارہ کو خاص اہمیت دیتے ہوئے نظر آتے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں:
1۔ ’’یہ چیزیں ( تشبیہ و استعارہ) حسن کلام کا زیور ہیں بلکہ سچ یہ ہے کہ نظم ونثر اورتقریر میں جوکچھ جادوگری ہے بہت کچھ انہیں کی بدولت ہے۔‘‘21
2۔ ’’یہ چیزیں( تشبیہ و استعارہ) شاعری بلکہ عام زبان آوری کے خط وخال ہے جس کے بغیر انشاپردازی کا جمال قائم نہیں رہ سکتا۔‘‘22
3۔ ’’اکثر موقعوں پر تشبیہ واستعارہ سے کلام میں جو وسعت وزور پیداہوتاہے وہ اور کسی طریقے سے نہیں پیدا ہوسکتا۔‘‘23
انہی لفظی وفنی خصوصیات کے پیش نظر شبلی الفاظ کے حسن کو مواد وموضوع پر ترجیح دیتے ہیں۔ان کے نزدیک’’مضمون تو سب پیدا کرسکتے ہیں۔لیکن شاعری کامعیار کمال یہی ہے کہ مضمون ادا کن الفاظ میں کیاگیا ہے او ربندش کیسی ہے‘‘ 24وہ حسن الفاظ کے تقدیم کے پیش نظر جو موقف اختیار کرتے ہیں اس موقف کے پس پشت اصل میں فصاحت وبلاغت اور علم بیان کے وہ تمام اصول کار بند رہتے ہیں جنھیں وہ شعری حقیقت کے پیش نظر بنیادی اہمیت دیتے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں:
’شاعری یا انشا پردازی کامدار زیادہ تر الفاظ ہی پر ہے گلستان میں جو مضامین اورخیالات ہیں، ایسے اچھوتے اور نادر نہیں، لیکن الفاظ کی فصاحت اورترتیب اورتناسب نے ان میں سحر پیدا کردیا ہے۔ ان ہی مضامین اورخیالات کومعمولی الفاظ میں ادا کیاجائے تو سارا اثر جاتا رہے گا۔‘‘25
مختصراً شاعری میں الفاظ کی، ان کے ترتیب وتناسب کی،ان کے توازن وتوافق کی جدت وندرت ہی اصل میں شبلی کے ہاں شاعری کابنیادی وصف قرار پاتاہے جس کا اعتراف انھوں نے خودیہ کہہ کر کیاہے کہ ’’شاعری کی بڑی خوبی جدت ادا ہے‘‘26 اس لیے الفاظ کے انواع اور ان کے مختلف اثر، ان کی سبکی،ان کی گرانی، ان کی شستگی،ان کی شناخت وشوکت،ان کا نازک ولطیف پن ہی شبلیؔ کے نزدیک معنی ومواد میں اثر وتاثیر پیدا کرتے ہیں او رسب سے مقدم ان الفاظ کاباہمی تعلق وتناسب یعنی ان کی ہم آہنگی ،ان کا ہم سازوہم آواز ہونا ہی(جس کو شبلی انجسام کا نام دیتے ہیں) شبلی کے ہاں شعر کی قدروقیمت متعین کرتے ہیں اور اسی وصف سے ان کے نزدیک شعر میں موسیقیت پیدا ہوتی ہے اور شاعری اورموسیقی کی سرحدیں مل جاتی ہیں اس لیے شبلی کے نزدیک شعری حقیقت یہ بھی قرار پاتی ہے کہ:
’’شعر الفاظ،وزن، نغمہ او ررقص کے مجموعے کانام ہے۔‘‘27
یہی ترتیب وتنظیم اصل میں شبلی کے ہاں شعری حسن یا شعر ی خوبی ہے اور اس شعری حسن سے ان کے نزدیک طبیعت میں وہ لذت وانبساط کی کیفیت پیداہوتی ہے جو شاعری کااصل مقصد ہے۔محاکات، فصاحت وبلاغت بھی اصل میں ان کے نزدیک یہی ترتیب وتنظیم ہے جو طبیعت کو ایک جمالیاتی حظ عطا کرتی ہے۔
شبلی نے اپنی عملی تنقید میں بھی اصل میں اسی شعری حسن کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے مختلف شعرا کے کلام پر روشنی ڈالی ہے مخصوص طور پر’موازنہ انیس ودبیر‘ میں انیس کے کلام کا جائزہ اورموازنہ انھوں نے اسی معیار کے پیش نظر لیا ہے چنانچہ انیس کے کلام کو سراہتے ہوئے انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ:
’’میر انیس کے کلام کااصلی جوہر بندش کی چستی، ترکیب کی دل آویزی الفاظ کاتناسب اور برجستگی وسلاست ہے۔‘‘28
شبلی نے اسی شعری حسن یا اسی ترتیب وتنظیم یا داخلی و خارجی ہیئت کی بِناپر انیس ودبیر کے علاوہ اردو اورفارسی کے مختلف شعرا کے منتخب کلام کاموازنہ کیا ہے چنانچہ ’موازنہ انیس ودبیر‘ میں انیس ودبیر کے کلام کاموازنہ وہ اس طور پیش کرتے ہیں:
تھا بلبل خوش گو کہ چہکتا تھا چمن میں
(مرزا دبیر)
بلبل چہک رہاہے ریاض رسول میں
(میر انیس)
شبلی لکھتے ہیں کہ ان میں’’مضمون بلکہ الفاظ تک مشترک ہیں لیکن ترکیب کی ساخت نے د ونوں شعروں میں کافی فرق پیدا کردیاہے‘‘ 29 انیس کے کلام میں اس لحاظ سے جو خوبی اور جو وصف ان کو نظر آتاہے وہ مرزا دبیر کے یہاں نظر نہیں آتا۔چنانچہ مرزا دبیر کے کلام کا اسی معیار پر جائزہ لیتے ہوئے شبلی لکھتے ہیں کہ:
1۔ ’’مرزا دبیر کے کلام میں وہ فصاحت اورشستگی نہیں جو میر انیسؔ کے کلام میں ہے۔‘‘ 30
2۔ ’’مرزا صاحب اکثر ثقیل او رغریب الفاظ استعمال کرتے ہیں۔‘‘ 31
3۔ ’’بعض الفاظ بجائے خودایسے ثقیل اورگراں نہیں ، لیکن مرزا صاحب جن ترکیبوں کے ساتھ ان کو استعمال کرتے ہیں، ان سے نہایت ثقل اور بھّدا پن پیدا ہوجاتا ہے ۔‘‘ 32
4۔ ’’فصاحت ان کے کلام کو چھو بھی نہیں گئی۔ بندش میں تعقید اوراغلاق، تشبیہات او راستعارات اکثر دور ازکار، بلاغت نام کونہیں،کسی چیز یا کسی کیفیت یا حالت کی تصویر کھینچنے سے وہ بالکل عاجز ہیں۔‘‘ 33
حسن کلام او رحسن الفاظ کی یہ توجیہہ وتفصیل ہی وہ وصف ہے جوشبلی کو جمالیاتی ،فنی نیز ہیئتی نقاد کی صف میں لاکھڑا کرتی ہے او راس توجیہہ وتفصیل میں ان کاشعری مذاق،ان کامشرقی مزاج اور ان کی جمالیاتی فکر سب جلوہ گر ہوکر سامنے آتی ہیں۔اس لیے ان کے یہاں حالی کی طرح اصلیت یا شعر کی معنوی خوبی شعری حقیقت کی بنیاد نہیں بنتی بلکہ شعر کا صوری یا ہیئتی پہلو شعر کی قدروقیمت متعین کرتاہے۔ وہ تخیل پر حالی سے بڑھ کر اپنی گہری سوچ کا ثبوت ضرور دیتے ہیں اس کے دقائق اور باریکیوں کی نشاندہی کرتے ہیں لیکن اس معیار پر کسی شاعر کے کلام کا جائزہ نہیں لیتے۔ وہ واقعیت یا اصلیت کی اہمیت پر بھی روشنی ڈالتے ہیں لیکن شعری خوبی ان کے یہاں مبالغہ قرار پاتی ہے وہ مشرقی معیار نقد کے ان تمام نظریوں کو قبول کرتے ہیں جو شعر کے فنی و جمالیاتی پہلوؤں سے بحث کرتے ہیں۔ فصاحت وبلاغت ان کے اقسام و جزئیات تشبیہ واستعارہ جدت ولطف ادا، محاکات، صنائع بدائع ان تمام فنی و جمالیاتی خوبیوں سے وہ اپنے تنقیدی تصورات کی تشکیل کرتے ہیں او رپھر انہی کے معیار پر مختلف شعرا کے کلام کاجائزہ لیتے ہیں بقول عبارت بریلوی:
’’شاعری کی اس صوری پہلو کو زیادہ اہم سمجھنے کا ہی نتیجہ ہے کہ شبلی کے جدت ادا، تشبیہ واستعارہ،سادگی ادا وغیرہ پر نہایت تفصیل سے بحث کی ہے جن کا مقصد صرف یہ ہے کہ فنی اور جمالیاتی پہلوؤں کی طرف زیادہ توجہ کی جائے۔ اس طرح کی بحثوں سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتاہے کہ شبلی کامذاق مشرقی تھا اس وجہ سے وہ ان مشرقی اصطلاحات تنقید پر بہت زور دیتے ہیں۔‘‘34
اسی مشرقی انداز فکر نے شبلی کو اپنے دور میں جو مغرب کے عام ذہنی غلبے کادور تھا،ایک آزاد نظر او ردو ر بین نگاہ عطا کی ، لیکن اپنے دور کے حالات وواقعات یا جدید تغیرات یا ان اثرات سے جو علی گڑھ تحریک سے پڑے تھے وہ بے خبر نہیں رہے بلکہ ادبی روایات ورجحانات میں وہ علی گڑھ تحریک سے کامل اتفاق رکھتے تھے۔ اس لیے انھوں نے اپنے تنقیدی تصورات میں شعر کے اخلاقی،افادی اوراصلاحی پہلو پر بھی کافی حد تک روشنی ڈالی او رشاعری پر سماجی ، تہذیبی وتمدنی اثرات کی بھی نشاندہی کی۔ انھوں نے نئی تہذیب یا مغرب کے ان اثرات کو بھی قبول کیا جو اس وقت کے تقاضے کے طور پر سامنے آئے تھے لیکن قدیم قدروں یا مشرقی تعلیم وتہذیب سے گہرے لگاؤ کی بنا پر وہ اس کے زیادہ حامی رہے چنانچہ انھوں نے لکھاہے کہ:
’’اگر چہ نئی تعلیم کو پسند کرتاہوں او ردل سے پسند کرتاہوں تاہم پرانی تعلیم کاسخت حامی ہوں اورمیرا خیال ہے کہ مسلمانوں کی قومیت( تشخص) کے لیے پرانی تعلیم ضروری اور سخت ضرور ی ہے۔‘‘35
اصل میں مشرقی تعلیم و تہذیب،مشرقی شعر وادب کی شان شبلی اورحالی دونوں میں بدرجہ اتم موجود تھی۔ اگر چہ وقتی مصلحت کے پیش نظر جدید تہذیب وتمدن یا جدید تغیرات کے اثرات ان پر کسی قدر حاوی رہے لیکن ان کا دل مشرقی تھا او ریہ مشرقیت ان کی فکر میں،ان کے لب ولہجے میں، ان کے کردار میں،ان کے انداز واسلوب میں مختصراً ہر جگہ نمایاں ہے بلکہ کلاسیکی یا قدیم مشرقی ادب کی اس آخری پود میں قدیم مشرقیت ایسی آب وتاب کے ساتھ اس طرح جلوہ گر ہوکر پھر کبھی سامنے نہیں آئی۔
حواشی:
1 مقالات شبلی (جلد دوم) مضمون سرسید احمد مرحوم او راردو لٹریچر، شبلی نعمانی (دارالمصنّفین اعظم گڑھ یو پی) ص55
2 شبلی کی علمی مضمون(شبلی کا تنقیدی مسلک، خلیل الرحمن اعظمی ص51
3 موازنہ انیس ودبیر مولانا شبلی نعمانی ،ایجوکیشنل بک ہاوس،علی گڑھ، ص19-20
4 شعر العجم جلد چہارم، مولانا شبلی نعمانی، دارالمصنّفین، شبلی اکیڈیمی، اعظم گڑھ، ص6
5 ایضاً ص 8
6 موازنہ انیس ودبیر مولانا شبلی نعمانی، ایجوکیشنل بک ہاوس،علی گڑھ، ص19-20
7 ایضاً،ص 110
8 شعر العجم جلد چہارم، مولانا شبلی نعمانی، دارالمصنّفین، شبلی اکیڈیمی، اعظم گڑھ، ص12
9 ایضاً، ص 14
10 ایضاً، ص 15
11 موازنہ انیس ودبیر مولانا شبلی نعمانی، ایجوکیشنل بک ہاوس، علی گڑھ، ص 63
12 شعر العجم جلد چہارم، مولانا شبلی نعمانی، دارالمصنّفین، شبلی اکیڈیمی، اعظم گڑھ، ص11-12
13 شعر العجم جلد چہارم، مولانا شبلی نعمانی، دارالمصنّفین، شبلی اکیڈیمی، اعظم گڑھ، ص 11-12
14 مضمون، شبلی کاتنقیدی مسلک، خلیل الرحمن اعظمی، ص 46
15 شعر العجم جلد چہارم، مولانا شبلی نعمانی، دارالمصنّفین، شبلی اکیڈیمی، اعظم گڑھ، ص 11
16 ایضاً، ص 52
17 ایضاً، ص 200
18 ایضاً ص 71
19 ایضاً ص 53
20 ایضاً، ص71
21 موازنہ انیس ودبیر، شبلی نعمانی، ایجوکیشنل بک ہاوس علی گڑھ، ص 92
22 شعر العجم جلد چہارم،مولانا شبلی نعمانی، دارالمصنّفین، شبلی اکیڈیمی، اعظم گڑھ، ص 46
23 ایضاً،ص 47
24 ایضاً ،ص 56
25 شعر العجم جلد چہارم، مولانا شبلی نعمانی دارالمصنّفین، شبلی اکیڈیمی، اعظم گڑھ، ص 56
26 ایضاً ، ص 71
27 شعر العجم جلداول،مولانا شبلی نعمانی ، دارالمصنّفین، شبلی اکیڈیمی، اعظم گڑھ ، ص 13-14
28 موازنہ انیس ودبیر،مولانا شبلی نعمانی، ایجوکیشنل بک ہاوس، علی گڑھ، ص 256
29 موازنہ انیس ودبیر،مولانا شبلی نعمانی ، ایجوکیشنل بک ہاوس، علی گڑھ، ص
30 ایضاً، ص 253
31 ایضاً ، ص 254
32 ایضاً ، ص 254
33 ایضاً، ص252
34 اردو تنقید کا ارتقا، عبارت بریلوی، ایجوکیشنل بک ہاوس،علی گڑھ، ص 180
35 شبلی معاندانہ تنقید کی روشنی میں، سید شہاب الدین دسنوی (انجمن ترقی اردو ہند) ، ص78
Dr. Mumtaheena Akhter
D/O :Peer Gulam Mohammad Shah
R/O :Kaka Sathoo, Jamalatta, Srinagar, Kashmir
P/O : M.R Gunj-190002 (J&K)
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں