16/1/19

وہاب اشرفی کے ادبی کارنامے مضمون نگار:۔ فہیم اشرف







وہاب اشرفی کے ادبی کارنامے


فہیم اشرف

پروفیسر وہاب اشرفی ہمہ جہت اور عظیم شخصیت کے مالک تھے۔ ادب سے ان کی والہانہ فریفتگی وشیفتگی کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو سکتا ہے کہ وہ بہ یک وقت محقق، بے نظیر نقاد، صحافی، تاریخ نویس،باکمال استاد اور افسانہ نگار تھے۔ آزادیِ ہند کے بعد اردو ادب میں تنقید نگاری کو افکارِ تازہ عطا کرنے والوں میں سید وہاب اشرفی بھی ایک اہم نام ہے۔ اپنے مخصوص تنقیدی نظریات و تصورات کی وجہ سے اردو تنقید میں وہاب اشرفی بلند مقام رکھتے ہیں۔ انھوں نے نہ صرف اپنے شعور وفکر کا گہرا، مربوط اور مستحکم نقش چھوڑا بلکہ اپنی علمی وتنقیدی صلاحیت کا بھرپور مظاہرہ بھی کیا۔ساتھ ہی اپنے اندر موجود تنقید کی فطری صلاحیت کو مغربی اصول ونظریات کے عمیق مطالعے سے بامِ عروج تک پہنچا یا۔ان کی تنقیدی صلاحیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ نثری صنف ہو یا شعری یکساں طورپر نقدوپرکھ کی صلاحیت ان کے اندر موجود تھی۔ انھوں نے ادبی روایات کا ہمیشہ احترام بھی کیا ہے، اپنی وسیع القلبی کے ساتھ آتی جاتی لہروں کا خیر مقدم بھی کیا ہے۔ مختلف ادبی تحریکوں اور نظریات نے ناقدین کو بھی مختلف خیموں میں تقسیم کیا ہے۔ آج ہر بڑا ناقد کسی نہ کسی رجحان یا دبستان سے وابستہ نظر آتا ہے۔ اس تصادم اور نظریاتی علاحدگی کے ماحول میں وہاب اشرفی ایسے ناقد ہیں جن کا امتیازی وصف یہ ہے کہ انھوں نے کسی دبستان سے خود کو باضابطہ وابستہ نہیں کیا۔ذہن کو کھلا رکھا۔ چنانچہ ان کی ادبی اہمیت اردو کے نامور ناقدین میں مسلّم ہے۔ ان کے قلم سے تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں جس کے ذریعے اردو تحقیق وتنقید میں گراں قدر اضافہ ہواہے۔ 
سیدوہاب اشرفی نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کی شروعات صحافت سے کی۔ کلکتہ کی سکونت کے دوران مشہور اخبارات ’عصرِ جدید‘، ’الحق‘ اور ’اخوت‘ وغیرہ سے وابستہ رہے اور گیا سے شائع ہونے والا رسالہ ’آہنگ‘ اور ’مورچہ‘ میں بھی اپنی خدمات دیں۔ پھر رسالہ ’صنم‘ میں مدیر رہے جو تقریباً پانچ برسوں تک جاری رہا اور اس مختصر سی مدت میں اس رسالے نے نہ صرف مقبولیت حاصل کی بلکہ دو اہم شمارے ’بہار نمبر‘اور ’افسانہ نمبر‘ کے نام سے شائع کیے جو تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔پٹنہ سے سہ ماہی ’مباحثہ‘ نکال رہے تھے جو ان کی زندگی کے آخری ایام تک جاری رہا۔ اس رسالے نے اردو رسائل میں ایک الگ مقام حاصل کیا، بالخصو ص اردو نسل کا ہر دل عزیز رسالہ رہا ہے جس نے نو وارد ادیبوں، شاعروں اورفکشن نگاروں کو نہ صرف جوڑنے کا کام کیا بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔
وہاب اشرفی صاحب نے رسائل وجرائد کی آبیاری کے ساتھ تصنیف وتالیف کے عمل کوبھی جاری رکھا۔ پہلے پہل تو نظمیں اور غزلیں لکھیں مگر جلد افسانہ نگاری کی طرف مائل ہوگئے۔ ان کا پہلا افسانہ ’اپنی اپنی راہ‘ ہے، جو رسالہ ’بیسویں صدی‘ میں شائع ہوا۔ انھوں نے کم وبیش 42 افسانے لکھے۔ ان کے دو افسانوی مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔لیکن کچھ ایسے حادثے پیش آئے کہ موصوف نے تخلیق سے تنقید کی طرف اپنی توجہ کو مرکوز کردیا۔یہی وہ میدان تھا جس نے انھیں عروج بخشا۔ حالانکہ انھوں نے زمانہ طالب علمی سے جس صنف کی طرف توجہ نہیں کی وہی ان کا مقدر ٹھہری۔ ان کی پہلی تنقیدی تصنیف ’قطبِ مشتری: ایک تنقیدی جائزہ‘ (1967) ہے۔ اس کتاب میں انھوں نے مُلّا وجہی کی مثنوی کے تمام پہلوؤں پر سیر حاصل گفتگو کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہاب اشرفی کی اس تنقیدی کاوش کو پذیرائی حاصل ہوئی۔ پھر انھوں نے متانت کے ساتھ اپنے محسوسات کو گویائی عطا کرنے کا ذریعہ تنقید کو چُنا۔ وہاب اشرفی کی دوسری تنقیدی کتاب ’قدیم ادبی تنقید‘ (1973) ہے۔ جس میں انھوں نے مغرب کے پانچ قدیم نقادوں ارسطو، افلاطون، ہوریس، کوہیگن اور لائجائنس کو اپنی تنقید کا موضوع بنایا ہے۔یہ کتاب اہم اس لیے ہے کہ موصوف نے نہ صرف ان قدیم نقادوں کے تنقیدی خیالات سے ہمیں آشنا کرانے کی کوشش کی ہے بلکہ ان کے تنقیدی خیالات پر اپنے تنقیدی تاثرات بھی ظاہر کیے ہیں۔ ’مثنویاتِ میر کا تنقیدی جائزہ‘ (1981) بھی آپ کی ایسی کتاب ہے جس میں تندآمیز طریقے سے میر کی مثنویوں کا محاسبہ کیا گیا ہے۔ انھوں نے واضح طورپر مثنویاتِ میر کی خوبیو ں اور خامیوں کونہ صرف اجاگر کیا ہے بلکہ اردوکے ایک معتبر شاعر پر تاثرات قلم بند کرتے ہوئے اپنے آپ کوکسی قسم کی مصلحت اور جانبداری سے پاک رکھا۔اسی سلسلے کی ایک کڑی ’مثنوی اور مثنویات‘ ہے جس میں اردو کی معروف مثنویوں کے ساتھ غیر معروف مثنویات کے متعلق بنیادی معلومات فراہم کی ہیں۔
موصوف نے آدھے درجن کے قریب مجموعہ ہائے مضامین بھی یادگار چھوڑے ہیں ’معنی کی تلاش‘ (1978) وہاب اشرفی کے ان مقالات کاپہلا مجموعہ ہے جو ملک کے معتبر رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے تھے۔ اس کا ایک مضمون ’افسانے کا منصب‘ جو تھوڑا طویل ہے مسلسل موضوع بحث رہا۔ اس مجموعے کا ہر مقالہ موضوع سے پوری طرح انصاف کرتا ہے۔دوسرامجموعہ ’آگہی کا منظر نامہ‘ (1989) ہے۔ یہ اپنے مشمولات کے اعتبار سے خاصا وقیع ہے۔ خاص طورپر تحقیق وتنقید کا باہمی رشتہ، اردو میں دانشوری، کلامِ اقبال کے نثری معانی، جمیل مظہری اور غیاث احمد گدّی کا فنی مطالعہ اہم ہیں۔ تیسرا مجموعہ’اردو فکشن اور تیسری آنکھ‘ (1995)فکشن سے متعلق وہاب اشرفی کی نکتہ رسی کو واضح کرتا ہے۔ انھوں نے اس میں فکشن کے بنیاد گزاروں کے ساتھ معاصر فنکاروں کا بھی جائزہ لیا ہے اور بالخصوص تقابلی موازنہ کرتے ہوئے معاصر فکشن کے امتیازات کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ مضامین کا چوتھا مجموعہ ’حرف حرف آشنا‘ (1996) ہے۔ اردو کے اہم ترین شعرا غالب، مومن، اقبال اور چند دوسرے اہم شعرا پر ان کا فوکس ہے اور ان کی شاعری کے علامتی پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ اس میں شاعری اور شعریات کے بعض اہم نکات زیرِ بحث آئے ہیں۔ اس میں انھوں نے جدید تنقیدی رویے کو پیشِ نظر رکھا ہے۔ ’معنی سے مصافحہ‘ (2005) یہ ان کے تنقیدی مضامین کا پانچواں مجموعہ ہے۔یہ اس وجہ سے اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں جہاں ایک طرف اردو کے کلاسیکی شعرا سودا اور غالب تودوسری طرف علقمہ شبلی کی شاعری پر مضامین ہیں وہیں قدیم وجدید شعری منظر نامے کا احوال بھی درج ہے۔ساتھ ہی معاصر فکشن کے نمائندہ لکھنے والوں مثلاً جیلانی بانو، احمد یوسف، عبد الصمد، شوکت حیات، شموئل احمد، جابر حسین اور محمود واجد وغیرہ کا بھی بے باکی سے احاطہ کیا ہے۔ اس کتاب کے بعض مضامین بحث طلب ہیں اور ڈسکورس کی فضا قائم کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ مجموعہ ہائے مضامین ’معنی کی جبلت‘، ’معنی کا مسئلہ‘ تقاریظ اور تبصروں کا مجموعہ ’نکتہ نکتہ تعارف‘ اور حال ہی میں ان کی ایسی کتابیں شائع ہوئی تھیں جنھوں نے اردو دنیا کو چونکا دیا۔ مثلاً ’مشرقی ومغربی تنقید‘، ’’مارکسی ’فلسفہ اشتراکیت اور اردو ادب‘، ’ادراک معنی اورپسِ آئینہ‘ وغیرہ۔ اس میں دو کتابیں ’مشرقی ومغربی تنقید‘ اور ’مارکسی فلسفہ اور اشتراکیت‘ اپنے موضوع کے اعتبار سے بے حد اہم ہیں اور وسیع ووقیع مطالعہ کا نمونہ بھی۔مارکسی فلسفے اور اشتراکیت پر تو شاید ہی اتنی شرح وبسط سے کوئی کتاب لکھی گئی ہو۔وہاب اشرفی نے مونو گراف بھی لکھے ہیں جو مختصر ہونے کے باوجود دلچسپ اور اہمیت سے خالی نہیں ہے۔ ساہتیہ اکادمی کے زیرِ اہتمام ہندوستانی ادب کے معمار سیریز کے تحت قاضی عبد الودود(1999)، مجروح سلطانپوری (2003اورکلیم الدین احمد (2011) پر مونوگراف لکھ کر خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
وہاب اشرفی نے سنجیدہ قارئین کے ساتھ طلبہ کا خیال رکھا۔ ’کہانی کے روپ‘ (1979) ’نقوشِ ادب‘ (1980) یہ ایسی تصانیف ہیں جس میں نثری تخلیقات کی فنی اصطلاحات کا تعارف آسان انداز میں پیش کیاہے اور مثال کے ساتھ تفہیم کو آسان بنایا ہے۔ ’تفہیم البلاغت‘ (1986) میں شاعری کی فنی اصطلاحات کا تعارف آسان لفظوں میں پیش کیا ہے اور مثال کے لیے اشعار بھی آسان اور عام فہم منتخب کیے ہیں۔وہاب اشرفی نے نصابی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے بھی کچھ کتابیں لکھی ہیں۔ ’پطرس اور ان کے مضامین‘ (1985)۔ اس کا مقدمہ طلبا کے لیے کار آمد ہے جو طنز ومزاح میں فرق کے ساتھ ساتھ پطرس کی مزاح نگاری کی جزئیات سے واقف کراتا ہے۔ ’راجندر سنگھ بیدی کی افسانہ نگاری‘ (1986) ایک مختصر ترین کتاب ہے جس میں ’اپنے دکھ مجھے دے دو‘ کے افسانوں کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے بیدی کی افسانہ نگاری کے اہم نکات سے بحث کی ہے۔ اس کتاب کی ابتدا میں ایک مکمل مضمون ’اردو افسانے کی روایت‘ کے عنوان سے لکھا گیا ہے جس میں افسانے کی تاریخ اور معروف فنکاروں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ 
موصوف کے تحقیقی اور تاریخی کارناموں پر نظر ڈالتے ہیں تو1975 میں مقالہ برائے پی ایچ۔ڈی ’اردو نثر کے ارتقا ء میں شاد عظیم آبادی کا حصہ‘ کتابی صورت میں شائع ہو کر مقبول ہوا۔ ’کاشف الحقائق : ایک مطالعہ‘ (1982) تدوین کے جدید اصولوں کی روشنی میں مدون کیا اور ایک مبسوط مقدمہ لکھ کر اس کی اہمیت کو واضح کیا۔ امداد امام اثر کی جانب بطورِ خاص لوگوں کی توجہ دلائی اور اس کتاب کے مثبت ومنفی پہلوؤں پر غیر جانبدارانہ رائے قائم کی۔ ’سہیل عظیم آبادی اور ان کے افسانے‘ (1982) موصوف کی ایک اور اہم کتاب منظرِ عام پر آئی جو کہ انھوں نے اپنے ہم عصر پر لکھی ہے۔ اس کتاب میں سہیل عظیم آبادی کے نمائندہ افسانوں کا تجزیہ کرتے ہوئے انھوں نے متن کی روح میں اترنے کی کوشش کی ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ سہیل کا فن پریم چند سے مختلف تھا۔
1991 سے 2005 تک وہاب اشرفی نے’تاریخ ادبیاتِ عالم‘ کی سات جلدیں پیش کرکے اپنی تحقیقی اور قاموسی شخصیت کا لوہا منوالیا۔ ان سات جلدوں میں دنیا کی بیشتر ترقی یافتہ زبانوں کے نمائندہ ادب کا جائزہ لیا گیا ہے۔اس نوعیت کے پروجکٹ عام طورپر ادارے یا تنظیم انجام دیتے ہیں مگر وہاب اشرفی کی ذاتِ با برکات کا کارنامہ یہ ہے کہ انھوں نے تن تنہا اس مشکل کام کو نہ صرف پاےۂ تکمیل تک پہنچایا بلکہ مختلف قوموں اور ملکوں کے مرکزی دھاروں کو گرفت میں لے کر قارئین کو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ادب کے گرانقدر خیالات وتصورات سے واقفیت کرانے کا لا زوال فریضہ انجام دیا۔ یہاں وہاب اشرفی کی حیثیت ایک انجمن کی سی معلوم ہوتی ہے۔
پروفیسر شمس الرحمن فاروقی ان کی اس ادبی کاوش کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ :
’’موجودہ حالات میں جب اردو میں عام مطالعہ کی کتابیں بہت کم ہیں........وہاب اشرفی کی قاموسی کتاب ’تاریخ ادبیاتِ عالم‘ نہ صرف بہت بڑی کمی کو پوری کرتی ہے بلکہ اپنی ذات میں خود ایک وقیع علمی کارنامہ بھی ہے۔ وہاب اشرفی کا علم ومطالعہ بہت وقیع تو ہے ہی لیکن اتنی ہی اہم بات یہ کہ انھیں قاموسیات سے ذہنی مناسبت بھی ہے۔ ان دنوں جب بڑے کاموں کے کرنے کی بات کمیٹی اور جلسوں ہی کے ذریعے ہوتی ہے........جدید اردو تنقید کی پہلی کتاب ’کاشف الحقائق‘ کا انھوں نے مطالعہ کیا ہے اور اس کو مدون بھی کیا ہے۔ یہ سب اکتسابات ان کی اس صلاحیت پر دال ہیں کہ وہ عالمی ادبیات کی تاریخ لکھنے کے ہر طرح اہل ہیں‘‘۔ 
(بحوالہ سہ ماہی ’جہانِ اردو‘ دربھنگہ)
2007 میں وہاب اشرفی نے ایک اور قاموسی اور تاریخی کارنامہ انجام دیا۔ تین جلدوں میں ’تاریخ ادب اردو‘ لکھ کر دنیائے اردو کو حیرت زدہ کردیا۔یہ اردو میں اب تک کی سب سے اپٹوڈیٹ تاریخ ہے۔ اس میں 2000 تک کے فنکاروں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس کتاب پر موصوف کو ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ فن سوانح نگاری میں ان کی آپ بیتی ’قصہ بے سمت زندگی کا‘ سولہ ابواب پر مشتمل ہے، جس میں ان کی ذاتی اور سماجی افکار وزندگی کا ذکرملتا ہے۔ساتھ ہی انپے عہدِمعاشرت اور معاصرین کے ادبی خیالات سے بھی روبرو کراتی ہے۔
اگر ہم وہاب اشرفی کے اسلوب کی بات کریں تو ان کا پیرایہ اظہار بے حد سلیس، عام فہم، چھوٹے چھوٹے جملوں اور فقروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان کی نثری تحریرمیں ایک شاعرانہ شگفتگی کا عکس نظر آتا ہے جو قاری کو اسیر کر لیتی ہے۔بیان میں کسی طرح کا کوئی الجھاؤ یا ابہام نہیں ہے۔ ان کے اسلوب میں پختگی اور ادبی رنگ نمایاں طورپر نظر آتا ہے جس کے پس منظر میں مطالعے کی وسعت اور تجربات کی جدت محسوس کی جا سکتی ہے۔
وہاب اشرفی 2012 تک بہ قید حیات رہے اور اپنی ادبی وعلمی سرگرمیوں سے اردو ادب کو مالا مال کرتے رہے۔ پروفیسر وہاب اشرفی نے بین الاقوامی سطح پر اپنی شناخت ادیب، نقاد، محقق اور دانشور کی حیثیتوں سے قائم کی ہے۔ موصوف کے بیش بہا کارنامے ان کی یاد کو نہ صرف تازہ کرتے رہیں گے بلکہ ہمارے لیے مشعلِ راہ بنے رہیں گے۔

Faheem Ashraf
Research Scholar
Mohanlal Sukhadia University
University Road, Ganesh Nagar
Udaipur- 313001 (Rajasthan )







قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں