روش صدیقی: سچے محب وطن اور فدائے اردو
رضوان احمد فاروقی
ہمیں اُن فنکاروں کی خصوصی قدرکرنی چاہیے جنھوں نے نا مساعدت کے باوجود وطن عزیز سے ہجرت کی نہ ہی خوشگوار مستقبل کی تلاش میں ترقی یافتہ ممالک کو وطنِ ثانی بنایا بلکہ ہر حال میں ہندوستان میں رہے۔ یہیں وجود پایا اور یہیں کی خا ک میں مل گئے۔ ایسے ناموں میں روش صدیقی کا نام سرفہرست ہے جو جوش ونیاز کی طرح پاکستان نہیں گئے۔
روش صدیقی نثر ونظم میں یکساں قدرت رکھتے تھے۔ فرنگی محل سے انھیں روحانی تعلق تھا۔ آپ کے والد گرامی سلسلہ قادریہ رزاقیہ میں شمس العلما مولانا عبد الحمید (مرحوم ) کے مرید تھے۔ روش فطری طور پر شاعر تھے۔ 7 برس کی عمر کھیل کود کی ہوتی ہے مگر روش نے اس کچی عمر میں شاعری کا آغاز کر دیا تھا۔ والد مولوی طفیل احمد شاہد فارسی کے عالم ا ور اچھے شاعر تھے۔ روش کا وطن مولود جوالا پور ضلع سہارنپور(یوپی) ہے۔ جو اپنے مناظر قدرت اور مشہور دانش گاہ گوروکل(کانگڑی) کے لیے خاصا معروف ہے۔ روش صدیقی کو اس دانش گاہ سے خصوصی قرب اور لگاؤ رہا۔ شاید یہی سبب ہے کہ انھیں ہندی میں مہارت کے ساتھ سنسکرت سے دلچسپی رہی۔
روش صدیقی نے شروع میں غزلیں کہیں 1916 سے1924 تک وہ ایک طرح سے غزل کے شاعر رہے مگر پھر رجحان بدلا۔ نظم ’انتظار‘ کی تخلیق کے بعد انھوں نے مسلسل نظمیں کہیں اور خوب کہیں۔ پھر ان نظموں کی ایسی دھوم مچی کہ 1935 تک ان سے ہر مشاعرہ میں ہر جگہ نظموں کی فرمائش ہوتی رہی۔
مشہور ادیب علی جوّا د زیدی تحریر فرماتے ہیں: روش کے شعر پڑھنے کا انداز بڑا پرجوش اور والہانہ تھا۔ انقلابی نظمیں پڑھتے وقت وہ مٹھی باندھ کر داہنا ہاتھ باغیانہ انداز سے باربار بلند کرتے تھے۔ آخری عمر میں بغاوت پر قلندری غالب آنے لگی تھی لیکن ہاتھ اب بھی فضا میں بار بار بلند ہوتا تھا۔ طرز خواندگی میں قدیم طرز کا ہلکا ترنم بھی ملا ہوتا۔ آواز کے اتار چڑھاؤ سے وہ رومان سے انقلاب تک تمام مراحل طے کر لیا کرتے تھے۔ خلوص، تپاک، حفظ مراتب، آدابِ مجلس کا خیال۔یہ سب ان کی طرحداری اور وضعداری کے سنگِ میل تھے۔
انور صدیقی بڑے پتے کی بات لکھتے ہیں : ارتقائی اعتبار سے ان کی شاعری تین ادبی اثرات کے دور میں پروان چڑھی۔ ان کی شاعری کی ابتداء ایسے دور میں ہوئی جب کہ حفیظ، اختر اور ساغر کے رومانی گیت فضا میں گونچ رہے تھے اور اقبال کی شاعری عام ذہنوں پر چھائی ہوئی تھی۔ شاید اس رومانیت کے خلاف رد عمل کے طور پر ترقی پسند شاعری نے اپنا پرچم بلند کیا۔ ان کی شاعری کے آخری دور میں جدیدیت کا رنگ نمایاں ہونے لگا تھا۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کی شاعری نے تین ادبی نسلوں کے درمیان اپنے ارتقاء کی منزلیں طے کیں۔ پہلے دور یا پہلی ادبی نسل کے اثرات نے ان کے تشکیل پذیر ذہن پر کئی گہرے نقوش ثبت کیے۔ ترقی پسندی نے ان کے لہجے کو تھوڑا متاثر کیا اور ان کے موضوعات شعری میں اضافہ ہوا۔ جدیدیت ان کے لیے ادبی نزاع سے زیادہ کچھ بھی نہ تھی۔ اپنے شعری اسالیب اور لہجے کی حد تک وہ ادبی اثرات ضرور قبول کرتے رہے مگر بنیادی طور پر ان کا اندازِ فکر یا ان کی حسّیت رومانی رہی۔
راقم الحروف کی رائے میں المیہ یہ بھی رہا کہ ترقی پسندوں نے انھیں صرف رومانی شاعر تصور کرکے نظر انداز کیا اور رومانی شاعری کو سر پہ اٹھائے ہوئے لوگوں نے ان کی فکری وسعت اور انقلابی انداز کے سبب انھیں کم رومانی سمجھا۔ لہٰذا دونوں طبقات ان کی شاعری کے ساتھ انصاف نہ کر سکے۔روش کے متعلق عام خیال ہے کہ ان کی شاعری میں تضاد نہ تھا۔ جب نیاز اور جوش جیسے ادیب و شاعر محض خوشحالی اور ترقیات کی خواہش میں پاکستان چلے گئے تب بھی روش اپنی روش پر قائم رہے اور وطن عزیز کو چھوڑنا گوارا نہ کیا۔ ان کی رومانی شاعری میں بھی بعض قلمکاروں کو طہارتِ فکر اور تصوف کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔
مفتی رضا انصاری فرنگی محلی لکھتے ہیں: روش ہندی اور سنسکرت اچھی جانتے تھے۔ وہ بھی اس زمانے میں جبکہ مسلمانوں میں ہندی اور سنسکرت جاننے والے ایک آدھ بمشکل نظر آتے تھے۔ وہ ہندی رسائل اور ہفتہ وار اخبار بڑی دلچسپی سے پڑھتے تھے۔ وہ غزل گو شاعر سمجھے جاتے تھے مگر انھوں نے نظمیں بھی کہی ہیں، جن میں مذہبی رنگ نمایاں ہے۔ وہ تہجد گزار شاعر تھے۔ نعتیہ مشاعروں میں بھی انھوں نے اچھی اور معیاری نظمیں پڑھیں اور مدحِ صحابہؓ کے مشاعروں میں بھی! لکھنؤ کے نعتیہ مشاعرے میں جو نظم پڑھی تھی اس میں حضرت علیؓ کی شان میں ان کا مصرعہ تھا۔
دوشِ حیدر پہ چمکے وہ علم کس کے تھے
روش مطالعہ کے شوقین تھے۔ ادبی کتب کے علاوہ تصوف سے خاص لگا تھا۔
پروفیسر ملک زادہ منظور احمد ماضی کی یادوں کو کریدتے ہیں، دریچوں میں جھانکتے ہیں تو پردۂ سیمیں پر ابھرنے والے نقوش کی طرح پورا منظر نامہ ان کے سامنے آجاتا ہے اور وہ یوں گویا ہوتے ہیں۔ تقریباً دو دہائی تک مشاعروں میں ان کا ساتھ رہا۔ ہم کب، کیسے ، کہاں اور کن حالات میں ایک دوسرے سے ملے۔ اس کو تسلسل سے بیان کرنا اس عمر میں کارِ دشوار ہے مگر اتنا ضرور بتا سکتا ہوں کہ قصباتی مشاعروں سے لے کر دہلی کے شنکروشاد، انڈو۔پاک مشاعروں تک ہندوستان کے طول وعرض میں صدہا بار ان سے ملاقاتیں ہوئیں۔ خلوت وجلوت میں ساتھ رہا۔ اولیائے کرام کے مزارات پر ساتھ ساتھ حاضری دی۔ مشاعروں کے اسفار میں ہمسفر رہا۔ مگر زندگی کا کوئی غیر محتاط لمحہ بھی ایسا نہ رہا کہ جب روش صاحب کے مزاج کی مشرقیت الگ ہوئی ہو... یہ ممکن ہے کہ ان سے بہتر شعر کہنے والے پیدا ہو جائیں مگر دورِ حاضر کے ہاتھوں میں ’’آبِ حیات‘‘ کا وہ جام نہیں ہے جو اُن پرانے بادہ کشوں کی تہذیبی روایات کو بقائے دوام عطا کر سکے... مجموعی طور پر روش کی نظموں اور غزلوں پرفکر وفن، جنون وہوش اور دل ودماغ کی چاندنی پھیلی ہوئی ہے مگر یہ چاندنی نہ تو مارچ اور اپریل کی صاف وشفاف چاندنی ہے نہ ہی جولائی اور اگست کی بھیگی ہوئی چاندنی، بلکہ دسمبر اور جنوری کی کہر آلود چاندنی ہے۔ جس میں تخیل کے خدوخال بظاہر تو دھندلے دھندلے نظر آتے ہیں مگر ذرا سے تامل اور تفکر کے بعد ان کے نقوش اجاگر ہوجاتے ہیں۔ اس لیے وہ حضرات جو غور وفکر کے عادی نہیں وہ پہلی نظر میں روش کے اکتسابات پر ابہام کا الزام لگاتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے عروس معنی کو الفاظ کا جوپیرہن عطا کیا ہے وہ نائلان کا نہیں ہے۔ جس سے جسم کے دل آویز خطوط از خود واضح ہوجائیں بلکہ وہ سلما اور ستاروں سے سجا ہوا ململ کا وہ ڈوپٹہ ہے جس کے اندر چھپا ہوا حسین چہرہ اسی وقت نظر آسکتا ہے جب کہ اس پر گہری نگاہ ڈالی جائے اور غوروخوض کو لازم جانا جائے۔
دراصل روش صدیقی کی نظموں کی نمایاں خصوصیت ان کا تغزل اور روانی ہے۔ ان کا طرز بیان خاص اور دلکش ہے۔ ایک رومانی نظم کا بند ملاحظہ ہو۔
کس نے جھانکا ہے شفق رنگ جھروکے سے مجھے
صبح کے چاک گریباں کو خبر ہو شاید
زندگی فرشِ قدم بن کے بچھی جاتی ہے
آگہی حسرت دیدار ہوئی جاتی ہے
کیوں یہ پیشانی احساس جھکی جاتی ہے
حیرتِ عالمِ امکاں کو خبر ہے شاید
ڈاکٹر عبد الوحیدمذکورہ بالا بند سے متعلق تحریر فرماتے ہیں: اس ایک بند سے ہی بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے رنگِ سخن میں تغزل کس قدر کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ وہ محبت کی دنیا میں سرشار ہونے کی کیفیت کو اس خوبی سے بیان کرتے ہیں کہ ان کے مقابلے میں کم ہی لوگوں کو پیش کیا جا سکتا ہے۔ ان کے اسلوب میں بلا کی دل نشینی ہے اور دل نشینی میں نرم، لطیف اور مترنم الفاظ و تشبیہات کی موجودگی اور بھی اضافہ کر دیتی ہے۔ رنگ تغزل ملاحظہ ہو
جس میں ہو یاد بھی تری شامل
ہائے اس بے خودی کو کیا کہیے
ہے وہی رنگِ حسنِ بے پروا
عشق کی سادگی کو کیا کہیے
کھینچ لے جائیں جو ترے در تک
ایسی دیوانگی کو کیا کہیے
ان پہ قربان ہستی کونین
ایک میری نظر کو کیا کہیے
1956 میں روش کا مجموعۂ غزلیات ’ محرابِ غزل‘ کے نام سے شائع ہوگیا تھا جبکہ بقول’’ مالک رام ان کے پاس کئی جلدوں کا کلام تھا‘‘..... کاش وہ کلام بھی ان کی حیات میں شائع ہوجاتا۔ حیف کہ یہ کام بھی بعد والوں نے نہ کیا۔ صرف ان کے انتقال کے بعد انجمن ترقی اردو (ہند) دہلی نے 176 صفحات کا ’روش نمبر‘ نکالا۔ یہی نمبر روش کی شخصیت اورفن کو سمجھنے میں بعد والوں کے لیے معاون ہے۔ اس اہم نمبر کے مرتب عبد اللطیف اعظمی ہیں۔
روش صدیقی کا اصل نام شاہد عزیز تھا۔ ان کی تاریخ ولادت 10 جولائی 1909ہے اور وفات 23 جنوری 1971 کی وہ شبِ تاریک کہ جس شب شاہجہاں پور کے ایک مشاعرے کے دوران شدید قلبی دورہ میں ان کی موت واقع ہوگئی۔ پلک جھپکتے ہی دنیا ایک سچے محب وطن اور فدائے اردو سے محروم ہوگئی... مضمون کا اختتام اُن غزلوں پر جنہیں پڑھتے پڑھتے مشاعروں کا ہر دل عزیز شاعر دنیا سے رخصت ہوا
زندگی کو ہوسِ زلفِ صنم ہے تو سہی
فرصتِ عمرِ ابد بھی مجھے کم ہے تو سہی
کہیں آگے نہ گئے تیرے خرابات نشیں
یوں تو اک سلسلۂ دیر و حرم ہے تو سہی
معنیِ شمعِ حرم کچھ بھی ہوں واعظ لیکن
صورتِ شعلۂ رخسارِ صنم ہے تو سہی
کون مسجودِ نظر ہے یہ کھلے یا نہ کھلے
مری آنکھوں میں ترا نقش قدم ہے تو سہی
ترے کوچے میں یہ اک گوشۂ اربابِ جنوں
حاصلِ مدرسۂ لوح وقلم ہے تو سہی
یہ جو طوفان حوادث میں بھی شاداں ہے روش
کچھ اشارہ ترا اے چشمِ کرم ہے تو سہی
(2)
بو الہوس! تجھ کو کون سمجھائے
زندگی دردِ ناتمامی ہے
ہم ملامت زدہ کہاں جائیں
شہر میں دورِ نیک نامی ہے
جلوۂ رہ گزر نگاہِ طلب
زندگی محوِ تیز گامی ہے
آج ملبوسِ کج کلاہی میں
آبرو باختہ غلامی ہے
کاش تجھ کو ملے نگاہِ بلند
کیوں اسیرِ بلند بامی ہے
اے روش کون اس صنم سے کہے
خلق مشتاقِ ہم کلامی ہے
Danish Mahal, Aminabad
Lucknow - 226018 (UP)
قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں