17/1/19

پروفیسر محمد حسن کی پریم چند شناسی مضمون نگار:۔ نور عالم خان





پروفیسر محمد حسن کی پریم چند شناسی

نور عالم خان


محمدحسن اردو کی ان چند عہد ساز شخصیتوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے ادب کی مختلف اصناف کی اپنے خونِ جگر سے آبیاری کی ہے جنھوں نے بہت سے نقادوں کی طرح پریم چند کے تعلق سے ان کی تخلیقات کو سمجھنے کی کوشش کی ہے اور پریم چند کی تحریروں کو جانچ اور پرکھ کر اپنے اعتبار سے ان کی عظمت کا اعتراف بھی کیا ہے۔ محمدحسن ایک ترقی پسندنقادہیں ان کی تنقید نگاری کا آغاز آزادی سے پہلے ہوچکا تھا انھوں نے تقریباً ایک درجن سے زیادہ کتابیں تصنیف کی ہیں۔ ان میں کچھ کتابوں کے نام درج ذیل ہیں۔ ’ادبی تنقید‘ شعرِ نو، اردو شاعری کا فکری و تہذیبی پس منظر، عرض ہنر، جدید اردو ادب، شنا سا چہرے، معاصرِ ادب کے پیش رو، ادبی سماجیات، مشرقی تنقید، مطالعہ سودا، جلال لکھنوی، ہندی ادب کی تاریخ، اور اردو ادب میں رومانوی تحریک۔ اس کے علاوہ ضحاک، مورپنکھی، محل سرا، فٹ پاتھ کے شہزادے، سچ کا زہر، پیشہ اور پرچھائیں،کہرے کا چاند، موم کے بت، ان کے بہتر ڈرامے ہیں۔ ان کتابوں کے ذریعے ان کی صلاحیت اور ان کی تنقیدی بصیرت کا بھی اندازہ ہوجاتا ہے۔ انھوں نے سبھی ادبی نقادوں کی طرح پریم چند شناسوں میں اپنا نام درج کردیا ہے۔ محمدحسن نے جدیداردوادب خاص کر پریم چند کا گہرائی سے مطالعہ کیا۔بدلتی ہوئی فکروں کے اعتراف کے ساتھ ان کی اہمیت کو بھی تسلیم کیا۔ 
محمد حسن نے پریم چند کا تعارف بہت بہتر انداز میں کرایا ہے اور ان کے بہت سے افسانوں اور ناولوں کے تجزیے بھی پیش کیے ہیں اور ان کے کردار وں کے تعلق سے نمایاں بحث کی ہے۔ محمد حسن کہتے ہیں کہ پریم چند کو اپنے کرداروں پر پورا بھروسہ تھا اور جن کرداروں سے جو بات کہلوانا چاہتے اس سے کہلوا بھی دیتے تھے۔ پریم چند کے یہاں تیز اور فعال کردار بھی ہیں اور سست کرداربھی۔ ان کرداروں میں فعال اورسست کردار کا ہونا ضروری بھی ہے اس لیے کہ جب کوئی اپنے موجودہ سماج کی عکاسی کرتا ہے تو اس میں سکھدا، سلیم، امرکانت جیسے فعال کردار بھی ہوتے ہیں اور گھیسو مادھو جیسے سست اور کاہل کرداربھی نظر آتے ہیں۔ اس لیے پریم چندنے ناول یا افسانہ لکھتے وقت جہاں جس چیز کی ضرورت سمجھی فوراً اس کو استعمال میں لے آئے۔ محمد حسن نے اپنی تنقیدی بصیرت کے ذریعے پریم چند اور اقبال وغیرہ کی مماثلت بھی پیش کی ہے۔ جہاں جس چیز کی ضرورت سمجھی فوراً اس کو استعمال میں لے آئے۔ انھیں دونوں میں مقصدیت نظر آتی ہے۔ اس لیے کہ علامہ اقبال عوام، سماج کو بیدار کرنے کا کام کرتے ہیں اور پریم چند بھی سماج و معاشرے کے جذبات کو اپنے قلم سے بیان کر کے ایک پسماندہ طبقے کو ہمواری اور مساوات کا سبق دینا چاہتے ہیں۔ یہی نہیں یہ دونوں بڑے قلم کار مغرب کی صنعت زدہ تہذیب میں روح انسان کو گم ہوتے دیکھ رہے تھے اس لیے یہ دونوں حضرات کبیدہ خاطر ہوئے اور انسانی زندگی کو مغربی اثرات سے دور رکھنے کی کوشش کی دونوں کے یہاں اصلاحی پہلو موجود ہیں۔ بس فرق اتنا ہے کہ علامہ اقبال نے شاعری کے ذریعے عوام کو بیدار کرنے کی کوشش کی اور پریم چند نے اپنی موثر نثر کے ذریعے سماج میں ایک صور پھونکا تا کہ عوام اپنی زندگی بہتر طریقے سے گزارسکیں۔ محمد حسن نے ایک اور نظریہ پیش کیا ہے، جس کے ذریعے اقبال اور پریم چند کی تحریکات کا پتہ چلتا ہے وہ کچھ یوں رقمطراز ہیں:
’’اقبال رومی کے ذریعے اور پریم چند کچھ دنوں آریہ سماجی اثر اور کچھ دن بعد گاندھی جی کے اثر کے ذریعے دونوں آرزو کے قائل اور ربط ملت کے حامی ہیں اور دونوں اشتراکی نظام کو تقریباً یکساں طور پر لبیک کہتے ہیں۔‘‘ (محمد حسن ’پریم چندزمانہ، ذہن اور آرٹ‘ رسالہ آج کل، دہلی، جلد39، شمارہ 1، اگست 1980،ص:5)
پریم چند پر محمد حسن کا ایک مضمون ہے جو ’پریم چند کا ورثہ‘ کے نام سے ہے اس میں محمد حسن نے پریم چند جیسے ایک عظیم فنکار کی شخصیت پر بڑے والہانہ انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ اور پریم چندسے قبل سے لے کر پریم چند کی آخری سانس تک کی خدمات کو پیش کیا ہے۔ محمد حسن نے پریم چند کے حالات کا بھی جائزہ لے کر اور پریم چند کے بعد کا بھی تجزیہ کرکے نئے ادیبوں اور فنکاروں کو نئے اور بہتر مشوروں سے نوازا ہے۔ محمد حسن کہتے ہیں کہ ایک وقت تھا جب لوگ صرف خیالی دنیا کے کرداروں سے اپنی حیات کو مزین کرتے تھے لیکن یہ خیالی چیز صرف خیالی رہی اور ان خیالی چیزوں سے سروکار رکھ کر نہ تو کوئی کسی کی اصلاح کر سکتا ہے اور نہ تو ان میں زندگی کے حقائق بیان کرنے کی قوت ہے لیکن جب افقِ اردو پرپریم چند نمودار ہوئے تو انھوں نے ان طلسماتی اور خیالی کرداروں کو الوداع کہہ کر ایک نئی روش قائم کی اور اردو کو ایک حقیقت نگاری کی طرف للکارا اور خو پریم چند نے بھی اپنے قلم کے ذریعے سماجی اصلاح کا کام لیا لیکن جب ملک پر انگریزی فوج کا تسلط ہوگیا اور انھوں نے غریبوں اور مزدوروں پر ظلم ڈھانا شروع کیا تو پریم چند نے اپنے قلم کے ذریعے اپنے افسانوں، ناولوں اور کہانیوں کے ذریعے سماج کے درد کو اپنی تحریروں میں کسی نہ کسی کردار کے حوالے سے بیان کیا اور لوگوں کو بلند حوصلے پر آمادہ کرتے رہے۔ پریم چند نے خاص طو ر پر پسماندہ اور نچلے طبقے کی کسمپرسی کو اپنے افسانے میں پیش کیا ہے اور اگر دیکھا جائے تو حقیقت نگاری کو اپنی کہانیوں وغیرہ کے ذریعے بنیادی حیثیت پریم چندنے ہی عطاکی۔ حسن اس سلسلے میں کہتے ہیں:
’’پریم چند سے پہلے کے افسانوی ادب کا خیال آتے ہی طلسم ہوش ربا کے عمر و عیار اور ان کی زنبیل ذہن میں آتی ہے۔ اس کے بعد چہار درویش ہیں جو نگر نگر گھومتے ہیں پھر سرور کے جانِ عالم کا ذکر آتا ہے جو طوطے کو رفاقت میں لے کر حسین شہزاد یوں کی چاہ میں دربدر ٹھوکریں کھاتے ہیں۔ شہزادوں اور درویشوں سے قدم بڑھاکر زمانے نے متوسط طبقے کا وہ کردار پیدا کیا تھا جو پرانے تمدن کا پروردہ ہے لیکن نئی تہذیب سے ناک، بھوں نہیں چڑھاتا کہیں وہ ابن الوقت ہے تو کہیں کلیم، کہیں میاں آزاد ہے تو کہیں امراؤ جان ادا پریم چند کے کردار ہمارے طبقاتی نظام کے سب سے نچلے طبقے سے آتے ہیں وہ میر داستان کا تاج کسانوں کے سر پر رکھتے ہیں، اس عام انسان کے سر پر رکھتے ہیں جس کی کہانیاں ہمارے ادب کے لیے ابھی تک اجنبی تھیں۔‘‘ 
(ڈاکٹر محمد حسن،’پریم چند کا ورثہ‘مشمولہ’ادبی تنقید‘، ادارۂ فروغ اردو لکھنؤ، 1954، ص: 143)
اس اقتباس کے حوالے سے محمد حسن کہتے ہیں کہ عوام کا مفہوم جو آج عام طور پر سمجھا جاتا ہے یہ افسانوی ادب میں ہم کو پریم چند کے یہاں پہلے پہل ملتا ہے۔ حالانکہ مذکورہ بالا اقتباس میں بھی بہت سے اعلیٰ کردار بیان ہوئے ہیں کوئی شاہ کے گھرانے کا ہے تو کوئی شہزاد ہ ہے تو کوئی بہت رئیس ہے جس کا تعلق محل اور درباروں سے ہے لیکن پریم چند نے ان سب شہزادوں اور رئیسوں کو محل اور دربار سے نکال کر ایک دیہات میں بھیجا اور حالات کا تجزیہ کرکے ان کی اپنی اہمیت واضح کی ہے۔ جو آج ہمارے سامنے نچلے طبقے سے آتے ہیں۔ اور پھر ان کو پریم چند جدو جہد سکھا کر ایک نمایاں مقام حاصل کرنے کی تلقین کرتے ہیں جہاں ہر طرح کے لوگوں سے ان کرداروں کا سامناہوتا ہے۔ اس کشمکش میں پریم چند ایک بہتر نظام بنا کر نچلے طبقے کے لوگوں کو مساوات کا درس دینا چاہتے ہیں جن میں امیر بھی ہیں غریب بھی ہیں کسان اور مزدور بھی ہیں سرمایہ دار اور ساہو کار بھی ہیں ان کے علاوہ ذات برادری کا معاملہ بھی واضح ہوتا ہے۔ ہر ذات اور برادری کے لوگ ہوتے ہیں جہاں چھوا چھوت کا رواج بھی ہے اور نچلے لوگوں سے ملنے میں کسرِ شان بھی ہے۔ اس طرح کے نظام کا خاتمہ کر کے ایک سوشل نظام کے پریم چند متمنی تھے۔ اس لیے کہ جب پریم چند نے آنکھیں کھولیں تو ان ساری چیزوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور ان حالات کا مشاہدہ بھی بڑے بہتر طریقے سے کیا اس لیے پریم چند کا حساس دل تڑپ اٹھا اور انھوں نے سماج کی گندگی کو اپنے قلم کے ذریعے پاک کرنے کی کوشش کی۔ کچھ اس طرح کی تحریکات گاندھی جی نے قائم کر رکھی تھیں اس لیے جس کا اثر صاف طور پر پریم چند کے یہاں دکھائی دیتاہے۔ کیونکہ پریم چند ایک متوسط ذہن کے مالک تھے جو مغربی آدرش اور تعلیمات سے واقف تھے اوراسی وجہ سے پریم چند قومی آزادی، نیشنلزم اور گاندھی جی کی تحریکوں سے زیادہ متاثر ہوئے اس لیے جب سامراجی حکومتیں ہندوستان کی تہذیبی جڑیں اکھاڑ نے میں کوشاں تھیں اور کافی حد تک اس کی تہذیبی وراثت کو نقصان بھی پہنچا چکی تھیں تب ایسے حالات میں ان تحریکوں سے متاثر ہونا اور ان تحریکوں میں شامل ہو کر ملک کی حفاظت کرنا لازمی ہوجاتا ہے۔ اور پریم چند کے ضمیر میں ایک زندہ دل انسان کا خون تھا اس لیے انھوں نے اس تحریک میں بڑھ کر حصہ لیا جو کہ ایک دیہاتی تھے۔ پریم چند کے دیہاتی سلسلے کے تعلق سے محمد حسن کہتے ہیں:
’’دیہاتی زندگی کے جس پس منظر میں پریم چند کی ذہنی نشو و نما ہوئی تھی اس کا تقاضا تھاکہ قدیم تہذیبی روایات ان کے مزاج میں قوی تر ہوں ایسے حالات میں جب ہندوستان میں قومی آزادی، مساوات اور سامراج دشمنی کے نعرے بلند ہوچکے تھے۔ کسانوں کی تحریکیں شروع ہورہی تھیں اور گاندھی جی کی تعلیمات اہنسا اور ترکِ موالات کی شکل میں ذہنوں کو متاثر کر رہی تھیں۔ پریم چند کا ان سے متاثر ہونا کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں تھا۔‘‘ (ایضاً، ص 144)
اس اقتباس کے ذریعے پریم چند کے متعلق یہ باتیں معلوم ہوئیں کہ ان کے ذہین پر نہ صرف مختلف تحریکوں کے اثرات مرتب ہوئے بلکہ ان سے پریم چند کے تخیل میں اضافہ بھی ہوا ہے اور انھوں نے گاندھی کی تحریک سے متاثر ہو کر ملک کے لیے بڑی قربانی دی ہے۔ ایک چیز اور ہے کہ ہمیشہ کی طرح اس وقت بھی نچلے متوسط طبقے کے فرد کے لیے دوراستے کھلے ہوئے تھے یا تو وہ اعلیٰ اور متوسط طبقے کی طرف قدم بڑھائے یا اپنی ہمدرد یا ں ان دبے کچلے مگر آگے بڑھتے ہوئے انسانوں سے وابستہ کر دے جن کے بیچ میں وہ سانس لے رہا ہے۔ گرچہ پریم چند نے مغرب سے استفادہ بھی کیا لیکن ان کے اندر مغربیت نے جگہ نہیں بنائی بلکہ پورا کا پورا ایشیائی رنگ پریم چندکے یہاں نظر آتا ہے۔ فکری اعتبار سے جس زاویے تک پریم چند (جس انسان دوستی تک) پہنچے ان میں رومانی انداز کار فرما تھا اور رومانیت سے مراد عشق و محبت نہیں ہے بلکہ رومانیت پریم چند کے یہاں و ہ چیز ہے جو عقل سے زیادہ جذباتیت پر منحصر ہو۔ اپنے اس مقالے میں محمد حسن نے پریم چند کی حقیقت نگاری اور ورثے پر اظہار خیال کیا اور پوری زندگی کے حقائق کو بیان کرنے کی کوشش کی اور ساتھ ساتھ نئے ادیبوں کو بھی اس چیز پر آمادہ کیا ہے کہ پریم چند نے ادیبوں کے لیے ایک بہت بڑا ورثہ چھوڑا ہے جس سے استفادہ کر کے ہمارے ادیب افسانوں اور ناولوں میں بھی ایک نئی فکر پیدا کر سکتے ہیں۔ اقتباس دیکھیں:
’’آج پریم چند کے ورثے کا اہم ترین جز یہی ہے کہ زندگی سے ہمارے ادیبوں اور افسانہ نگاروں کا واسطہ زیادہ گہرا زیادہ قریبی اور زیادہ دیر پا ہو وہ عوام سے ذہنی طور پر ہی محبت کرنا نہ سیکھیں بلکہ ان میں جا کر ان کے شانہ بہ شانہ دکھ سکھ بھوگیں ان کی زندگی کا مطالعہ کتب خانوں کے میناروں یا کتابوں کے دریچوں سے نہیں بلکہ ان کے کھیتوں اور کھلیانوں میں ان کے گھروں اور آنگنوں میں جا کر کریں۔تبھی ان کے کردار زیادہ حقیقی ہوں گے اور صرف ان کے اپنے خیالات کے بھدّے پر چارک بننے کے بجائے زندگی کے مظہر بنیں گے۔ اور تبھی ہمارا ادب صرف کچے نعروں اور میکانکی یکسانیت کا ادب بننے کے بجائے تنوع، رنگارنگی اور حقیقی حسن سے آشنا ہوگا۔‘‘ (ایضاً، ص 151)
اس اقتباس میں محمد حسن کہنا چاہتے ہیں کہ دیہات کی گلیوں اور کوچوں میں جا کر پھریں لیکن اتنا تو ضرور ہے کہ ادب کو نئی وسعت اور فن کو فکری بالید گی سے روشناس کر انے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہمارا فنکار پریم چند کے ورثے کی روشنی میں نئی منزلیں طے کرے۔
محمد حسن نے پریم چند کے کرداروں، ان کی حقیقت نگاری، سیاسی موڑ، طبقاتی نظام کی تبدیلی وغیرہ کے تعلق سے بات کرنے کے ساتھ ساتھ پریم چند کے ذہنی ارتقا اور آرٹ پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی ہے جس کے ذریعے پریم چند کی شخصیت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

Noor Alam Khah, Balrampuri
Research Scholar, Dept. of Urdu
University of Hyderabad
Mob: 7893596958
Email: nooralamhcu@gmail.com





قومی اردو کونسل کی دیگر مطبوعات کے آن لائن مطالعے کے لیے مندرجہ ذیل لنک پر کلک کیجیے

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں